ایک اسلامی ریاست کا مالی معاملات کا نظام اور خرید و فروخت کے طریقوں کے بارے میں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشادات عالیہ اور اپنی عملی زندگی کے ذریعے واضح تعلیمات امت کو دی ہیں۔ امت کے اعلیٰ ترین دماغوں، جنہیں فقہاء کرام کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، نے انہی تعلیمات نبوی کی بنیاد پر ایک بہترین ذخیرہ تیار کیا، جس سے ہر دور میں افراد امت رہنمائی لے رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک کڑی ’’بیع مؤجل‘‘کی وہ صورت ہے جسے اسلامی نظریاتی کونسل نے ۱۹۸۰ء کے عرصہ میں سود کی لعنت سے چھٹکارے کے متبادل طریقوں میں سے ایک طریقہ کے طورپر ذکر کیا اور ساتھ واضح کیا کہ اس کا تعلق ان متبادل طریقوں سے ہے جو ثانونی درجہ کے ہیں اور انہیں استثنائی حالات میں اختیار کیا جا سکتا ہے۔
اس تجویز کی ترقی یافتہ شکل آج جدید غیر سود بینکوں میں رائج ہے جیسے ’’مرابحہ مؤجلہ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ زیرنظر مقالہ میں کونسل کی تجویز کردہ صورت کی بنیادیں سیرت نبویؐ اور فقہی اقوال سے پیش کرنے کے بعد مرابحہ مؤجلہ سے اس کا ایک تقابل پیش کیا گیا ہے۔
بیع مؤجل کی پیش کردہ صورت
اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے آئینی فرائض منصبی کے تحت صدر پاکستان کے استفسار پر مالی معاملات سے سود کے خاتمہ کے لیے ۱۹۸۰ء میں ایک رپورٹ پیش کی، جس میں سود کی حرمت کو واضح دلائل کے ساتھ آشکار کیا گیا اور اس کے متبادل کے طورپر اسلامی طریقے تجویز کیے، ان میں سے کچھ طریقے ایسے تھے جن کا تعلق مثالی اسلامی نظام سے تھا، جبکہ سہولت کی خاطر کچھ ایسے طریقے بھی ذکر کیے گئے جو اگرچہ مثالی نہیں ہے لیکن ان کے ذریعے ربا کی حرمت سے چھٹکارا نصیب ہو جاتا ہے اور معاملہ جواز کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ انہی ثانوی طریقوں میں سے ایک طریقہ ’’بیع مؤجل‘‘ہے۔ اس کی جو صورت کونسل نے تجویز کی اس کا حاصل حسب ذیل ہے:
- خرید و فروخت کا ایسا معاملہ کہ متعلقہ چیز کی قیمت فوری طورپر ادا کرنے کے بجائے کچھ عرصہ بعد دی جائے، چاہے یک مشت دی جائے یا قسطوں کی صورت میں دی جائے(1)۔
اس کی مثال دے کر بات اس طرح واضح کی کہ بینک کو کھاد کی ایک بوری پچاس روپے میں پڑی ہے تو وہ آگے ادھار پر پچپن کی فروخت کرے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی کو اپنا ایجنٹ مقرر کر دے جو کسانوں کو یہ کھاد بینک کی طرف سے مہیا کرے، جب یہ مہیا کر چکے تو بینک اسے فی بوری کے حساب سے پچاس روپے ادا کر دے اور اپنے کلائنٹ سے ادھار پچپن روپے حاصل کر لے۔
مثال سے وضاحت کرنے کے بعد کونسل نے اس طریقہ کار کو مختلف مالی معاملات میں استعمال کرنے کی اجازت دی اور پھر اس کی شرائط کی تفصیل ذکر کی، اس کے لیے کونسل کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’اس کے لیے شرط ہے کہ خرید کردہ شے متعلقہ ادارے کے حوالے کیے جانے سے پہلے بینک کے قبضے میں آئے، تاہم اس شرط کی تکمیل کے لیے یہی کافی ہے کہ بینک نے جس ادارے سے مال خریدار ہو وہ اس مال کو بینک کے نام پر علیحدہ کر دے اور پھر اس شخص کو دے دے جسے بینک نے اس سلسلے میں مجاز و مختار قرار دیا ہو اور اس میں وہ شخص بھی شامل ہوگا جس کے لیے مال خریدا گیا ہو(2)۔‘‘
تعلیمات نبوی کی روشنی میں تجزیہ
کونسل کی طرف سے بیع مؤجل کی تجویز کردہ صورت اور شرائط کا تجزیہ پیش کرنے کے لیے حسب ذیل امور پر بحث ضروری ہے:
۱- ادھار بیع کے بارے میں تعلیمات نبوی
۲- ادھار بیع کی صورت میں قیمت میں اضافہ کے بارے میں تعلیمات نبوی
۳- آگے فروخت کرنے سے قبل بینک کے قبضے کی شرط تعلیمات نبوی کی روشنی میں
۴- بینک کے ایجنٹ کا قبضہ یا خریدار ہی کو ایجنٹ مقرر کرنے کا حکم
ان امور پر بالترتیب تعلیمات نبوی سے استفادہ کر کے نتائج سامنے لانے سے معلوم ہو سکے گا کہ خرید و فروخت کی مذکورہ صورت سیرت نبوی کے کس قدر موافق ہے۔
پہلا امر: ادھار بیع کا حکم
ادھار خرید و فروخت کا معاملہ شریعت کے ان عمومی احکام میں داخل ہے جن کی اجازت ہے، اور اس کی اجازت دو آیات کریمہ اور متعدد احادیث نبوی سے اخذ کی جا سکتی ہے۔ آیات میں سے ایک آیت حسب ذیل ہے:
‘‘اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ’’۔ (البقرہ: ۲۷۵)
اس آیت کریمہ میں بیع یعنی خرید و فروخت کو حلال قرار دیا گیا ہے اور بیع مؤجل یعنی ادھار خرید و فروخت اسی زمرے میں داخل ہے لہٰذا یہ بھی حلال ہے۔
آیت کریمہ سے عموم ہی مراد ہے، مفسرین بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ آیت کریمہ میں عموم مراد ہے، البتہ کچھ بیوعات مستثنیٰ ہیں جن کی حرمت الگ نصوص میں وارد ہے، چنانچہ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں لکھتے ہیں:
‘‘و ھذا من عموم القرآن، والألف واللام للجنس لا للعھد إذلم یتقدم بیع مذکور یرجع إلیہ۔۔۔ و إذا ثبت أن البیع عام فھو مخصوص بما ذکرناہ من الربا و غیر ذالک مما نھی عنہ و منع العقد علیہ، کالخمر و المیتۃ و حبل الحبلۃ و غیرذالک مما ھو ثابت فی السنۃ و إجماع الأمۃ النھی عنہ(3)۔
(یہ آیت کریمہ قرآن کریم کے عمومی احکام میں سے ہے، اس میں الف لام جنسی ہے عہدی نہیں ہے، کیونکہ اس سے ماقبل کوئی (مخصوص) بیع مذکور نہیں ہے کہ وہ ہی مراد ہو، جب ثابت ہوگیا کہ بیع عام ہے تو اس سے مذکورہ ربا وغیرہ کی صورتیں مخصوص ہوں گی جن کی ممانعت ہے، اسی طرح شراب، مردار اور حمل کے حمل وغیرہ کی بیع کا عقد کرنا ممنوع ہے جن کی ممانعت کا ثبوت سنت اور اجماع امت سے ہے)۔
علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس توجیہ کو پسندیدہ قرار دیا ہے کہ بیع کے لفظ میں عموم ہے اور اس میں تمام بیوعات کی حلت کا اشارہ ہے الا یہ کہ ان کی حرمت و ممانعت کا کوئی الگ سے حکم نہ آ جائے، چنانچہ اس توجیہ کے مخالف دوسرا قول ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں ‘‘والأول أصح’’ کہ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
اسی طرح دوسری آیت کریمہ ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ۣوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا (النساء: ۲۹)
(اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طورپر مت کھاؤ لیکن اگر کوئی تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے ہو تو مضائقہ نہیں)
اس آیت کریمہ میں بھی تجارت کے بغیر باہم ایک دوسرے کے مال سے انتفاع کو ممنوع کیا گیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ تجارت کی جائز شکلیں اختیار کرنے کی اجازت ہے، اور ’’بیع مؤجل‘‘تجارت ہی کی ایک جائز صورت ہے لہٰذا اس کے جواز میں کو ئی تردد باقی نہیں رہتا۔
سیرت نبوی اور ذخیرہ احادیث کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صراحت کے ساتھ اس بیع کی اجازت ہے اور خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عملی طورپر یہ بیع کی ہے یعنی سیرت نبوی کے عملی نمونہ سے اس کی اجازت ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ محدثین کتب حدیث میں اس بیع کی اجازت و جواز کے لیے مستقل باب قائم کرتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب البیوع میں باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے ‘‘باب شراء الطعام إلی أجل’’ اور اس کے تحت حسب ذیل روایت ذکر کی ہے:
عن عائشہ رضی اللہ عنھا: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم إشتری طعاماً من یھودی إلی أجل فرھنہ درعہ(4)
(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک یہودی سے ایک مدت تک (مہلت) کے لیے کھانا خریدا اور اپنی زرہ بطور رہن رکھی)۔
اسی طرح امام ترمذی رحمۃ اللہ نے ’’بیع مؤجل‘‘ کے جواز کا باب قائم کر کے اس کے تحت ایک سے زائد احادیث روایت کی ہیں(5)۔
ان روایات سے صراحتاً معلوم ہوگیا کہ تعلیمات نبوی سے بیع مؤجل کی نہ صرف اجازت معلوم ہوتی ہے بلکہ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل مبارک سے ثابت ہے اور یہ سیرت نبوی کا حصہ ہے۔ اسی لیے معروف تمام فقہاء کرام اس بیع کی اجازت کے قائل ہیں۔
دوسرا امر: ادھار بیع کی صورت میں قیمت میں اضافہ کرنے کا حکم
کونسل کی طرف سے تجویز کردہ ‘‘بیع مؤجل’’ کی صورت میں جو مثال ذکر کی گئی ہے کہ اس میں ادھار دینے کی صورت میں قیمت میں اضافہ بھی ذکر کیا گیا ہے اس لیے تعلیمات نبوی سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ آیا اس اضافے کی گنجائش ہے یا نہیں؟ اور اس سلسلے میں نبوی تعلیمات سے فقہاء امت نے کیا معانی اخذ کیے ہیں اور ان میں راجح مؤقف کون سا ہےجس سے معاشرہ میں آسانی اور رائج عرف کے لیے راستہ ہموار ہوتا ہے چنانچہ اس سلسلے میں نبوی تعلیمات میں سے حسب ذیل روایت ہے:
‘‘عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن بیعتین فی بیعۃ’’(6)
(حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بیع میں دو عقد کرنے سے منع فرمایا ہے)
اس حدیث کی توضیح و تشریح میں شراح حدیث نے مختلف توجیہات و تفسیرات ذکر کی ہیں، ان میں سے ایک تفسیر جوکہ راجح ہے، زیربحث مسئلہ سے متعلق ہے کہ اس روایت میں نقد کے مقابلے میں ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت لینے کی بات مذکور ہے اور جمہور فقہاء و محدثین کی رائے میں یہ صورت اس وقت ممنوع ہے کہ جب بوقت عقد ادھار کے لیے الگ قیمت اور نقد کے لیے الگ قیمت ذکر کی جائے، لیکن کوئی ایک قیمت طے کیے بغیر عاقدین الگ ہو جائیں لیکن اگر کوئی ایک قیمت طے کر دیں تو پھر یہ صورت جائز ہے چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تفسیر حسب ذیل عبارت میں کی ہے۔
‘‘و قد فسر بعض أھل العلم قالو بیعتین فی بیعۃ أن یقول أبیعک ھذا الثوب بنقد بعشرۃ و بنسیئۃ بعشرین و لا یفارقہ علی أحد البیعتین فاذا فارقہ علی أحدھما فلا بأس إذا کانت العقدۃ علی واحد منھما’’(7)۔
اس عبارت میں وہی تفصیل مذکور ہے جو پہلے ذکر کر دی گئی ہے، البتہ دیگر کچھ توضیحات کی بنیاد پر کچھ فقہاء کرام نے ادھا کی وجہ سے قیمت میں اضافہ کو جائز قرار نہیں دیا، ان فقہاء کرام میں امام علی زید العابدین وغیرہ حضرات شامل ہیں۔ چنانچہ ان کا مؤقف علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے حسب ذیل الفاظ میں ذکر کیا ہے:
‘‘أما التفسیر الذی ذکرہ أحمد عن سماک و ذکرہ الشافعی ففیہ متمسک لمن قال: یحرم بیع الشئی بأکثر من سعر یومہ لأجل النساء و قد ذھب إلیٰ ذالک زین العابدین علی بن الحسین والناصر و المنصور باللہ والھادویۃ والإمام یحی’’(8)۔
جو تفسیر أحمد نے سماک کے حوالے سے اور امام شافعی نے ذکر کی ہے، اس میں ان حضرات کے لیے دلیل ہے جو ادھار کی وجہ سے کوئی چیز زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کو حرام قرار دیتے ہیں، یہ مذہب زین العابدین علی بن الحسین، ناصر و منصور باللہ، ھادویہ اور امام یحیی رحمھم اللہ کا ہے)۔
ان کامؤقف ذکر کرنے کے بعد جمہور فقہاء کا فہم اور مؤقف ذکر کیا ہے:
‘‘وقالت الشافعیہ والحنفیۃ و زید بن علی المؤید باللہ والجمہور: إنہ یجوز لعموم الأدلۃ القاضیۃ بجوازہ و ھو الظاہر’’(9)۔
(شافعیہ، حنفیہ، زید بن علی، مؤید باللہ اور جمہور نے کہا ہے کہ یہ صورت جائز ہے کیونکہ جواز کے مقتضی دلائل بکثرت ہیں اور یہی ظاہر ہے)۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی توضیح اور علامہ شوکانی کی تصریح کے مطابق جمہور فقہاء جن میں فقہائے اربعہ شامل ہیں، بیع مؤجل کی وجہ سے قیمت میں اضافہ جائز ہے۔ دور جدید کے ایسے فقہی ماہرین جو جدید مالی معاملات میں مہارت رکھتے ہیں، انہوں نے بھی ادھار بیع کی صورت میں قیمت میں اضافہ درست قرار دیا ہے لیکن ساتھ یہ واضح کیا ہے کہ بوقت عقد ان میں سے کسی ایک قیمت کا تعین ہو جانا چاہیے، اگر بوقت عقد دونوں قیمتیں ذکر کے معاملہ طے کیے بغیر ادھورا چھوڑ دیا گیا ہو تو یہ بیع بالاتفاق جائز نہیں ہوگی، یہی بات جناب مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:
‘‘والظاہر أن البائع لو ذکر أثمانًا مختلفۃ لآجال مختلفۃ، ثم جزما علی واحد من الآجال فانہ جائز أیضًا، و حاصلہ أن ذالک یجوز عند المساومۃ فقط، و أما عقد البیع، فلا یصح إلا بجزم الفریقین علی أجل معلوم و ثمن معلوم فان لم یجزم العاقدان علی ما وقع علیہ البیع لم یجز’’(10)۔
(ظاہر یہی ہے کہ اگر بائع نے مختلف مدتوں کے بدلے الگ الگ ثمن ذکر کیے، پھر ان میں سے کسی ایک پر عقد پکا کر دیا تو یہ بھی جائز ہے، خلاصہ یہ ہے کہ بھاؤ تاؤ کرتے وقت تو یہ جائز ہے لیکن عقد بیع صرف اسی صورت میں جائز ہے کہ جب عاقدین کسی ایک متعین مدت اور متعین ثمن کو طے کر لیں، اگر عاقدین نے وہ (مدت اور ثمن) جن پر بیع ہوگی، طے نہ کیا تو بیع جائز نہیں ہے)۔
لہٰذا کونسل کی طرف سے تجویز کردہ بیع مؤجل میں نقد کے مقابلہ میں ادھار کی وجہ سے قیمت میں اضافہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک تفسیر اور جمہور فقہاء کے قول کے موافق درست ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
تیسرا امر: بینک کے قبضہ کی شرط کا حکم
کونسل نے اپنی تجویز کردہ بیع مؤجل کے لیے جن شرائط کا ذکر کیا ہے، اس میں یہ شرط رکھی ہے کہ بینک اپنے کلائنٹ کے ساتھ بیع مؤجل تب کر سکتا ہے کہ جب اس کے اپنے قبضہ میں آ جائے۔ قبضہ میں آنے کی اس شرط کے بارے میں نبوی تعلیمات کو دیکھنا ہے کہ وہ کیا ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سلسلے میں کیا ہدایات ارشاد فرمائی ہیں، چنانچہ ذخیرہ حدیث پر نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ حدیث میں کھانے پینے کی چیزوں میں قبضہ کرنے سے قبل آگے فروخت کرنا منع ہے، لیکن خود روایان حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عن ہم نے اس سے عموم مراد لیتے ہوئے تمام اشیاء میں قبضہ سے قبل آگے بیع کرنے کو ممنوع حکم میں شامل رکھا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں روایات اسی انداز سے موجود ہیں:
‘‘عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من ابتاع طعامًا فلا یبیعہ حتی یقبضہ، قال ابن عباس: و أحسب کل شئی بمنزلۃ الطعام’’(11)۔
(حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے بھی کھانے کی کوئی چیز خریدی تو وہ اسے قبضہ کرنے سے قبل آگے فروخت نہ کرے۔ عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں ہر چیز کھانے کی چیزوں کے حکم میں ہے)۔
یہی روایت دیگر کتب حدیث جیسا کہ صحیح بخاری اور جامع ترمذی میں اسی انداز اور اسی توضیح کے ساتھ مروی ہے اور یہی جمہور فقہاء کا مؤقف ہے۔ البتہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض أھل علم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ کھانے کی امور میں ہی یہ سختی ملحوظ ہے اور بقیہ چیزوں میں اجازت ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
‘‘والعمل علی ہذا عند أکثر أھل العلم کر ھوا بیع الطعام حتی یقبضہ المشتری و قد رخص بعض أھل العلم فی من ابتاع شیئاً مما لا یکال ولا یوزن من مالا یوکل ولا یثرب أن یبیعہ قبل أن یستوفیہ، و إنما التشدید عند أھل العلم فی الطعام و ھو قول أحمد و اسحٰق’’(12)۔
اس میں بعض اہل علم جیسا کہ امام أحمد اور امام اسحٰق رحمۃ اللہ علیہما کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ دیگر چیزوں میں قبل القبض بیع کی اجازت ہے، البتہ جمہور فقہاء و محدثین کےعہاں حضرت عبداللہ بن عباس کی وضاحت کے پیش نظر اس ممانعت کا تعلق تمام چیزوں کے ساتھ ہے کہ ہر چیز میں قبضہ سے قبل آگے فروخت کرنا ممنوع ہے۔
اس سلسلے میں فقہی مذاہب کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
امام عثمان البتی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں قبضہ شرط نہیں ہے، اس سے قبل بھی آگے بیع کرنا درست ہے، لیکن اس مؤقف کے بارے میں علامہ ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ یہ درست نہیں ہے بلکہ اسے مردود کہا ہے اور لکھا ہے کہ شاید انہیں یہ روایت نہیں پہنچی۔
ھذا قول مردود بالسنۃ والحجۃ المجتمعۃ علی الطعام، و أظنہ لم یبلغہ ھذا الحدیث، و مثل ھذا لایلتفت إلیہ (13)
دوسرا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کی اشیاء چاہے ان کا تعلق مطعومات سے ہو، غیر مطعومات سے یا پھر منقولہ ہو یا غیر منقولہ جائیداد میں قبضہ سے قبل آگے فروخت کرنا درست نہیں ہے۔ یہ مؤقف امام شافعی، امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیھما و دیگر فقہاء کا ہے۔
تیسرا مؤقف وہ ہی ہے جو امام ترمذی کی عبارت میں امام احمد کے حوالے سے مذکور ہوا۔
چوتھا مؤقف یہ ہے کہ تمام منقولہ اشیاء میں قبضہ سے قبل آگے بیع کرنا درست نہیں ہے، البتہ ایسی غیر منقولہ جائیداد میں قبضہ سے قبل بھی آگے فروخت کرنا جائز ہے، جس کی ہلاکت کا اندیشہ نہ ہو، یہ مؤقف امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیھما کا ہے اور اسی کے مطابق خلاف عثمانیہ میں قانون سازی بھی ہوئی تھی مجلۃ الاأحکام العدلیہ میں ہے:
‘‘(مادۃ ۳۵۲) للشتمری أن یبیع المبیع لآخر قبل قبضہ إن کان عقارًا و إلا فلا’’(14)
(دفعہ: ۳۵۲) مشتری مبیع کو قبضہ سے قبل آگے فروخت کر سکتا ہے، اگر مبیع زمین ہو، بصورت دیگر قبضہ سے قبل آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے’’۔
اس ساری تفصیل سے واضح ہوا کہ کونسل کی تجویز کردہ صورت میں ذکر کی گئی شرط ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے موافق ہے۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کونسل غیر منقولہ جائیداد کے بارے میں جو گنجائش موجود ہے، اس کی بھی تصریح کر دیتی تو زیادہ بہتر ہوتا جیسا کہ مجلۃ الأحکام العدلیہ میں بھی اس گنجائش کا تذکرہ موجود ہے۔
چوتھا امر: بذریعہ ایجنٹ قبضہ اور کلائنٹ کو ہی ایجنٹ مقرر کرنا
کونسل نے قبضہ کی شرط ذکر کرتے ہوئے یہ لکھا کہ ‘‘اس شرط کی تکمیل کے لیےیہی کافی ہے کہ بینک نے جس ادارے سے مال خریدا ہو وہ اس مال کو بینک کے نام پر علیحدہ کر دے اور پھر اس شخص کو دے دے جسے بینک نے اس سلسلے میں مجاز و مختار قرار دیا ہو اور اس میں وہ شخص بھی شامل ہوگا جس کے لیے مال خریدا گیا ہو’’۔
اس میں دو صورتیں بیان ہوئی ہیں، یہ دونوں الگ الگ قابل بحث ہیں: (۱)کسی وکیل کے ذریعے قبضہ (۲) اسی شخص کو قبضہ کا وکیل بنانا جس کے لیے مال خریدا گیا ہو۔
پہلی صورت: وکیل کا قبضہ:
کسی تیسرے آدمی کو وکیل بنا کر قبضہ حاصل کرنے سے شرعاً بینک کا قبضہ شمار ہونا ایک بدیہی امر ہے، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ وکیل کا قبضہ مؤکل ہی کا قبضہ تصور ہوتا ہے جیسا کہ فقہ اسلامی کے ماہرین جابجا یہ اصول ذکر کیا کرتے ہیں: قبض الوکیل کقبض المؤکل’’(15)
لہٰذا اگر بینک اپنے خریدار کے علاوہ کسی تیسرے شخص کو وکیل مقرر کرے اور وہ ہی قبضہ حاصل کر لے تو نہ صرف اس میں کوئی حرج کی بات نہیں بلکہ یہی بہتر طریقہ ہے۔ جدید غیر سودی بینکاری کے ماہرین بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خریدار کو وکیل مقرر کرنے کے بجائے ازخود یا اپنے کسی وکیل کے ذریعے خریداری کریں، چنانچہ جناب مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:
‘‘غیر سودی بینکوں کے شریعہ بورڈ بکثرت اپنے اپنے اداروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ جہاں تک ہو سکے براہ راست خریداری کریں، گاہک کو وکیل نہ بتائیں، اور اب رفتہ رفتہ یہ رجحان پیدا بھی ہوتا رہا ہے(16)۔
لہٰذا اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں ہے، البتہ دوسری صورت پر کچھ مزید بحث کی ضرورت ہے۔
دوسری صورت: خریدار ہی کو وکیل مقرر کرنا:
کونسل چونکہ اختصار کے ساتھ متبادل صورتیں ذکر کر رہی تھی اس لیے اس نے صرف اتنا ہی درج کیا کہ جو شخص خرید رہا ہے، اس کے ذریعے بھی بینک قبضہ حاصل کر سکتا ہے، لیکن حقیقت اس میں مزید تفصیل ملحوظ رکھنا ضروری ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر بینک خریدار ہی کو وکیل مقرر کرتا ہے تو پھر اس کی طرف سے قبضہ ہو جانے کے بعد بیع کا الگ سے نیا معاہدہ کرنا ہوگا، اس سے قبل وکالت کا معاہدہ ہوگا۔ اس صورت میں دیگر تفصیلات کے ساتھ ایک اہم بحث یہ ہے کہ وکیل کا قبضہ قبضہ امانت ہوتا ہے اور خرید و فروخت میں قبضہ قبضہ ضمان ہوتا ہے اور قبضۂ امانت قبضہ ضمان کے لیے کافی نہیں ہوتا اس کے لیے الگ سے نیا قبضہ ضروری ہوتا ہے لہٰذا اس کی کوئی معقول و مناسب فقہی توجیہ ہونی چاہیے۔ چنانچہ اصولی مسئلہ تو علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح واضح کیا ہے:
‘‘و إن کان یدالمشتری ید أمانۃ کید الودیعۃ والعاریۃ لا یصیر قابضًا’’ (17)
اس میں یہی واضح کیا گیا ہے کہ اگر مشتری کے پاس مبیع پہلے سے موجود ہے اور وہ قبضہ امانت کا ہے ‘جیسا کہ زیربحث صورت میں ہے’ تو یہ قبضہ شمار نہیں ہوگا۔
لیکن اگر بحیثیت وکیل قبضہ کرنے کے بعد نیا قبضہ نہ کیا گیا ہو۔ سابقہ قبضہ پر ہی اکتفا کر لیا گیا ہو تو شرعاً کافی ہوگا یا نہیں۔ اس کا جواب اس پر موقوف ہے کہ قبضہ کی حقیقت کیا ہے؟ فقہائے احناف کے ہاں اس کی جو حقیقت ہے وہ پیش نظر رکھی جائے تو اس کا جواب باآسانی معلوم ہوتا ہے، احناف کے ہاں قبضہ کی حقیقت کو علامہ کاسانی اس انداز سے واضح کرتے ہیں:
‘‘فالتسلیم والقبض عندنا ھو التخلیۃ، والتخلی ھو أن یخلی البائع بین المبیع و بین المشری برفع الحائل بینھما علی وجہ یتمکن المشتری من التصرف فیہ’’(18)۔
اس میں کہا گیا ہے کہ قبضہ کا مفہوم یہ ہے کہ بائع مبیع اور مشتری کے مابین اس انداز سے تخلیہ کر دے کہ مشتری کے لیے اس میں تصرف کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔ اس تفسیر کو پیش نظر رکھا جائے تو وکیل کے طورپر قبضہ کرنے کے بعد بحیثیت خریدار حکمی و معنوی طورپر نیا قبضہ بصورت تخلیہ موجود ہے، لہٰذا یہ اشکال فقہاء احناف کی تشریح کے مطابق رفع ہو جاتا ہے، البتہ فقہائے شافعیہ کی قبضہ کی تفسیر پر یہ اشکال بدستور باقی رہتا ہے کیونکہ ان کے ہاں حکمی و معنوی قبضہ بصورت تخلیہ کافی نہیں ہوتا بلکہ حسی اور صوری قبضہ ضروری ہوتا ہے۔
کونسل کی طرف سے ذکر کردہ بیع مؤجل کی صورت اور پھر بینک کے قبضہ میں یہ تفصیل ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
بیع مؤجل کی اس صورت پر بینکوں میں عمل شروع کیا گیا لیکن اس کا حلیہ بگاڑ کر کیا گیا جس پر تحفظات کا اظہار کونسل نے ۱۹۸۴ء میں ہی ذکر کر دیا تھا چنانچہ یکم، ۲؍ جنوری ۱۹۸۴ء میں کونسل نے اس سلسلے میں حسب ذیل خدشات کا اظہار کیا:
’’ کونسل کی سفارش یہ تھی کہ بیع مؤجل کا طریقہ بڑی احتیاط کے ساتھ صرف استثنائی صورتوں میں استعمال کیا جانا چاہیے جہاں اس کے سوا چارہ نہ ہو لیکن ’’نفع نقصان میں شرکت‘‘کے لین دین میں اسے پالیسی کے ایک بنیادی عمل کی حیثیت سے اپنا لیا گیا ہے۔۔۔ اگر نفع نقصان میں شرکت کے لین دین میں سود کے بجائے مارک اپ کے طریقے کا وسیع پیمانے پر استعمال جاری رہا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سود کو حقیقی معنوں میں ختم کرنے کے بجائے صرف اس کا نام بدل دیا گیا ہے(19)۔‘‘
اسی خدشہ اور حلیہ بگاڑنے کا تذکرہ جناب مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی کیا جو کونسل کی رپورٹ کی تیاری میں بھی شامل تھے:
’’جب میں نے ان کے طریق کار کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان میں اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کو حلیہ بگاڑ کر نافذ کیا گیا ہے۔ اس میں مرابحہ یا بیع مؤجل کا نام تو ضرور تھا لیکن اس کا طریق کار محض فرضی اور صرف کاغذوں کی حد تک محدود تھا، اور حقیقت میں نقد رقم ہی کا تبادلہ ہوتا تھا جو سود ہی کی ایک شکل تھی‘‘ (20)
اس سے واضح ہوا کہ کونسل کی طرف سے ذکر کردہ تجویز فی نفسہٖ شرعی اصولوں اور تقاضوں سے ہم آہنگ تھی لیکن عملی طورپر جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ درست نہیں تھا۔
اس کے بعد جدید غیر سودی یا اسلامی بینکوں کا آغاز ہوا، اس میں بھی بیع مؤجل کی سی صورت اختیار کی گئی اس کا نام مرابحہ مؤجلہ رکھا گیا۔
مرابحہ مؤجلہ اور کونسل کی تجویز میں فرق:
مرابحہ مؤجلہ بھی درحقیقت ایک بیع ہی ہے جس میں مدت کا ذکر ہوتا ہے لیکن بینک واضح طورپر خریدار کو اپنا متعین نفع بتاتا ہے، جس وجہ سے اس کو مرابحہ کہا جاتا ہے۔ اس عمل کی تفصیل متعدد کتب میں موجود ہے۔ زیرنظر مقالہ میں اس کی تفصیل ذکر کرنا پیش نظر نہیں ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب اسلامی بینکاری کی بنیادیں۔(21)
زیرنظر مقالہ میں بیع مؤجل، جو کونسل نے تجویز کی تھی، اس پر کچھ مزید کیے گئے اضافوں یا فرق کو واضح کرنا پیش نظر ہے، ان میں سے چند ایک فرق ہیں۔
پہلا فرق یا اضافہ:
مرابحہ مؤجلہ کرتے وقت جدید غیر سودی بینک مشتری سے ایک ماسٹر ایگریمنٹ کرتے ہیں جس میں آئندہ کے لیے کیے جانے والے عقود کی تفصیل ہوتی ہے، اور مشتری کی طرف سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ میں یہ عقد مرابحہ کروں گا۔ اس وعدہ میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ اگر مبیع نہ خریدی تو بینک کو جو حقیقی نقصان ہوگا اس کا مشتری ذمہ دار نہ ہوگا جبکہ کونسل نے ایسی کوئی تجویز ذکر نہیں کی، لیکن کونسل کی ذمہ کردہ صورت کے یہ منافی بھی نہیں ہے، انتظامی ضروریات کے پیش نظر ایسا معاہدہ یا وعدہ کیا جا سکتا ہے، البتہ اس میں فقہی لحاظ سے یہ بحث ہو سکتی ہے اور کی بھی گئی ہے کہ آیا ایسا وعدہ شرعاً لازم ہو سکتا ہے یا نہیں؟ دونوں نقطہ ہائے نظر اس میں موجود ہیں۔
دوسرا فرق یا اضافہ:
دوسرا فرق یا اضافہ یہ ہے کہ بینک مشتری سے یہ وعدہ بھی لیتا ہے کہ اگر اس نے قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی تو ایک مخصوص مقدار کی رقم صدقہ کرے گا، جسے التزام بالتصدق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ مستقل معاملہ ہے، جو کونسل میں زیربحث نہیں آیا، اس کے جواز و عدم جواز پر بھی دونوں نقطہ ہائے نظر موجود ہیں۔ جناب مفتی محمد تقی عثمانی نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے(22)۔
اور اس کے خلاف بھی تحریرات سامنے آئی ہیں جیسا کہ جامعۃ العلوم الإسلامیہ بنوری ٹاؤن کی طرف سے جاری کردہ کتاب میں لکھا گیا ہے (23)
یہی دو بنیادی فرق ہیں، ان کے علاوہ بھی مزید کچھ معمولی فرق نہیں، تاہم اتنی بات واضح ہے کہ کونسل کی طرف سے تجویز کردہ صورت ہی کی نئی اور ترقی یافتہ شکل مرابحہ مؤجلہ کی ہے جو آج کل جدید غیر سودی بینکوں میں رائج ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کونسل کی طرف سے تجویز کردہ بیع مؤجل کی صورت تعلیمات نبویؐ سے اخذ کردہ ہے، اس میں کوئی چیز خلاف شریعت نہیں ہے، اسی کی جدید شکل مرابحہ مؤجلہ ہے جو آج کل غیر سودی بینکوں میں رائج ہے۔
ایک اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ وہ مالی معاملات کو سود سے پاک کرے اور ایسے قوانین ختم کرے جو سود کی بنیاد پر ہیں، ان قوانین کے خاتمہ کے لیے کونسل کی طرف سے پیش کردہ متبادل تجاویز اور بیع مؤجل کی تجویز مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔
حواشی
8. اسلامی نظریاتی کونسل، رپورٹ بلاسود بینکاری، طبع سوم،ادارہ تحقیقات اسلامی، پریس، اسلام آباد ۲۰۰۲ء، ص: ۲۴
9. حوالہ بالا: ص: ۲۵
10. أبو عبداللہ محمد بن أحمد القرطبی، الجامع لأحکام القرآن، دار احیاء التراث العربی ۱۹۹۵ء۔: ۳/ ۳۵۶
11. محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح بخاری، ‘‘موسوعۃ الکتب الحدیث’’ باب شراء الطعام إلی أجل، دارالسلام للنشر و التوزیع، الطبعۃ الثالثہ ، ۲۰۰۰ء، حدیث: ۲۲۰۰
12. محمد بن عیسی الترمذی، جامع الترمذی، باب ما جاء فی الرخصۃ فی الشراء إلی أجل، مکتبہ حقانیہ، پشاور، ۱/ ۲۳۰
13. جامع الترمذی، باب ما جاء فی النھی عن بیعتین فی بیعۃ، ۱/ ۲۳۳
14. حوالہ بالا: ۱/ ۲۳۳
15. محمد بن علی بن محمد الشوکانی، نیل الأوطار شرح منتقی الأخیار، باب بیعتین فی بیعۃ: ۵/ ۱۶۲
16. حوالہ بالا: ۵/ ۱۶۲
17. مفتی محمد تقی عثمانی، فقہ البیوع، مکتبہ معارف القرآن کراچی، ۲۰۱۵، ۱/ ۵۴۵
18. أبو الحسین مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم از موسوعۃ الکتب الحدیث، باب بطلان البیع قبل القبض، دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، ۲۰۰۰ء حدیث: ۳۸۳۸
19. أبو عیسیٰ الترمذی الترمذی، جامع الترمذی،ؒ باب ما جاء فی کراھیۃ بیع الطعام حتی یستوفیہ، ۱/ ۲۴۲
20. المغنی لابن قدامہ: ۴/ ۲۲۰
21. مجلۃ الأحکام العدلیۃ، نور محمد کا رخانہ تجارت، کراچی: ۵۲
22. علی حیدر خواجہ أمین آفندی، دارالحکام فی شرح مجلۃ الأحکام، دارالحیل، بیروت ۱۹۹۱: ۱/ ۵۴۵
23. مفتی محمد تقی عثمانی، غیر سودی بینکاری :متعلقہ فقہی مسائل کی تحقیق اور اشکالات کا جائزہ، مکتبہ معارف القرآن کراچی، طبع دوم، ۲۰۰۹، ص: ۲۱۰
24. علاؤ الدین أبو بکر بن مسعود الکاسانی، بدائع الصنائع: ۵/ ۲۴۸
25. حوالہ بالا: ۵/ ۲۴۴
26. بلاسود بینکاری: ص ۱۴۵
27. غیر سودی بینکاری: متعلقہ فقہی مسائل کی تحقیق اور اشکالات کا جائزہ، ص ۳۶
28. اسلامی بینکاری کی بنیادیں، ص ۹۷ تا ۱۶۲
29. غیر سودی بینکاری ص: ۲۷۷
30. ملاحظہ ہو، مروجہ اسلامی بینکاری، ص: ۲۶۴- ۲۶۸