امام ابن حزم الاندلسی کا زاویۂ نظر
ابن حزم کے انداز فکر اور اصولی آرا کے بغور مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے قرآن کے عموم میں سنت کے ذریعے سے تخصیص یا زیادت کی توجیہ کے لیے دلالت کلام کے محتمل ہونے کے نکتے کو ناکافی اور غیرتشفی بخش پا کر استدلال کو دوبارہ کلیتاً اعتقادی مقدمے پر استوار کرنے اور یوں اس الجھن کو دور کرنے کی کوشش کی جو امام شافعی کے طرز استدلال میں پائی جاتی تھی۔ اس حوالے سے ابن حزم کے اصولی نقطۂ نظر کے اہم نکات حسب ذیل ہیں :
نصوص میں درجہ بندی کے تصور کی نفی
۱۔ قرآن اور سنت میں بیان کیے جانے والے تمام شرعی احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی پر مبنی ہیں اور کوئی بھی حکم شرعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے بغیر مقرر نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی حکم شرعی کے بیان میں اجتہاد کے مجاز نہیں تھے، بلکہ کوئی سوال درپیش ہونے پر وحی کا ہی انتظار کیا کرتے تھے:
فان قال قائل: ایجوز للانبیاء علیھم السلام الاجتھاد؟ فالجواب وباللہ تعالیٰ التوفیق ان من ظن ان الاجتھاد یجوز لھم فی شرع شریعۃ لم یوح الیھم فیھا فھو کفر عظیم، ویکفی من ابطال ذلک امرہ تعالیٰ نبیہ علیہ السلام ان یقول ’’اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰ٘ي اِلَيَّ‘‘ وقولہ ’’وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰي. اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰي‘‘ وقولہ تعالیٰ ’’وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ. لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِ. ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ‘‘، وانہ علیہ السلام کان یسال عن الشیء فینتظر الوحی، ویقول ’’ما انزل علی فی ھذا شیئ‘‘، ذکر ذلک فی حدیث فی زکاة الحمیر ومیراث البنتین مع العم والزوجۃ وفی احادیث جمۃ. (احکام الاحکام ۵/۱۳۲)
’’اگرکوئی شخص یہ کہے کہ کیا انبیا کے لیے اجتہاد کرنا روا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ انبیا کے لیے شریعت کا کوئی ایسا حکم اپنے اجتہاد سے وضع کرنا جائز ہے جس کے متعلق ان پر وحی نازل نہ ہوئی ہو تو یہ کفر عظیم ہے اور اس کے باطل ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی سے یہ اعلان کروانا کافی ہے کہ ’’میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’پیغمبر اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتا، یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔‘‘ مزید فرمایا کہ ’’اگر پیغمبر اپنی طرف سے کچھ باتیں گھڑ کر ہماری طرف منسوب کرنا چاہے تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑ لیں گے اور پھر اس کی شہ رگ کو کاٹ کر رکھ دیں گے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی بات کے متعلق سوال کیا جاتا تھا تو آپ وحی کا انتظار کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ’’اس کے متعلق مجھ پر کوئی چیز نازل نہیں کی گئی‘‘ جیسا کہ گدھوں کی زکوٰۃ سے متعلق سوال پر اور چچا اور بیوی کی موجودگی میں دو بیٹیوں کی وراثت کے مسئلے میں اور ان کے علاوہ بھی بہت سے واقعات میں آپ نے یہ بات فرمائی۔‘‘
۲۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ مکمل وحی کی حفاظت کا اہتمام کیا ہے، چاہے وہ قرآن کی صورت میں ہو یا حدیث کی صورت میں۔ قرآن مجید میں جس ’الذِّكْر‘ کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا ہے (الحجر ۱۵ : ۹)، ابن حزم کے نزدیک اس سے مراد صرف قرآن نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جانے والی ہر طرح کی وحی ہے اور قرآن کی طرح حدیث کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت کا وعدہ ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی طرح تکوینی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو بھی مکمل طور پر محفوظ رکھنے اور حفاظت کے ساتھ امت تک منتقل کرنے کا اہتمام فرمایا ہے۔ ابن حزم لکھتے ہیں :
ان کلام نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم کلہ وحی، والوحی بلا خلاف ذکر، والذکر محفوظ بنص القرآن، فصح بذلک ان کلامہ صلی اللہ علیہ وسلم کلہ محفوظ بحفظ اللہ عزوجل مضمون لنا انہ لا یضیع منہ شیئ، اذ ما حفظ اللہ تعالیٰ فھو بالیقین لا سبیل الی ان یضیع منہ شیء فھو منقول الینا کلہ. (الاحکام ۱/۹۸)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سب کا سب وحی ہے، اور وحی بالاتفاق ذکر ہے، اور ذکر قرآن کی نص کی رو سے محفوظ ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا کلام بھی اللہ کی طرف سے حفاظت کے بندوبست کی وجہ سے محفوظ ہے اور اللہ نے اس کی ضمانت دی ہے کہ اس میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی، کیونکہ جس چیز کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے، اس کے بارے میں یہ یقینی ہے کہ اس میں سے کچھ بھی ضائع نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ آپ کی تمام احادیث نقل ہو کر ہم تک پہنچی ہیں۔‘‘
اسی وعدۂ حفاظت کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ شریعت کا کوئی حکم جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہو، کسی ایسے سند سے منقول نہیں ہو سکتا جس کے راویوں کے بیان پر حجت قائم نہ ہو سکتی ہو،کیونکہ ا س سے شریعت کا ایک مستند حکم ضائع ہو جائے گا۔ اسی اصول پر اگر کسی ثقہ راوی سے کسی حدیث کے بیان میں غلطی ہوئی ہو تو لازم ہے کہ تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ نے اس غلطی کی وضاحت کا بھی بندوبست کیا ہو، تاکہ امت ایک غیرمستند حکم کو شریعت کا حصہ سمجھنے کی غلطی میں مبتلا نہ ہو جائے (الاحکام ۱/۱۳۶)۔
۳۔ تمام شرعی نصوص وحی پر مبنی ہونے کی وجہ سے حکم کے اثبات اور اس کے متعلقات کی وضاحت میں یکساں درجے کی حامل ہیں اور ان میں کسی قسم کا امتیاز قائم کرنا درست نہیں۔ چنانچہ جیسے قرآن میں ایک ہی مسئلے سے متعلق مختلف مقامات پر بیان ہونے والی تفصیلات ایک جیسی اہمیت رکھتی ہیں، اسی طرح سنت میں وارد احکام کو اسی طرح کی حیثیت واہمیت دینا ضروری ہے جیسے وہ قرآن ہی میں وارد ہوئی ہوں، کیونکہ جب دونوں حکموں میں، وحی پر مبنی اور واجب الاتباع ہونے میں کسی بھی اعتبار سے کوئی فرق نہیں تو ان میں بیان ہونے والے احکام کے باہمی تعلق کو متعین کرتے ہوئے بھی کسی قسم کا فرق روا نہیں ہو سکتا۔ ان تمام احکام کی حیثیت ایک ہی مصدر، یعنی شارع کی طرف سے دیے جانے والے احکام کی ہے، چنانچہ جس طرح قرآن میں بیان ہونے والے مختلف احکام کو ایک مکمل مجموعے کا حصہ سمجھتے ہوئے ان کا باہمی تعلق متعین کیا جاتا ہے، اسی طرح سنت کے احکام کو بھی بالکل قرآن ہی کی سطح پر رکھتے ہوئے دونوں کے مجموعے کی روشنی میں حکم کی تعبیر کرنی چاہیے (الاحکام ۱/۹۸) ۔
۴۔ اپنے اسی نقطۂ نظر کے تسلسل میں ابن حزم قرآن مجید کی آیت ’وَاَنْزَلْنَا٘ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْھِمْ‘ (النحل ۱۶ : ۴۴) کی تشریح بھی جمہور اہل علم سے مختلف بیان کرتے ہیں۔ ابن حزم کا کہنا ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جس تبیین کی نسبت کی گئی ہے، اس سے مراد صرف حدیث کے ذریعے سے قرآن کی وضاحت کرنا نہیں ہے، بلکہ قرآن کے کسی حکم کی وضاحت قرآن میں یا حدیث میں کرنے اور اسی طرح سنت کے کسی حکم کی وضاحت قرآن میں کرنے کی تمام صورتیں بھی شامل ہیں۔ گویا آیت کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل کی ہے، آپ وحی کے ذریعے سے ہی رہنمائی پا کر اس کی ضروری تفصیل وتوضیح لوگوں کے سامنے بیان کر دیتے ہیں۔ اس کی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ قرآن کے کسی حکم کی وضاحت قرآن ہی میں نازل ہو اور آپ اسے لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ قرآن کے علاوہ کسی وحی میں حکم کی تبیین کی جائے اور آپ اسے لوگوں کے سامنے بیان کر دیں۔ یہی معاملہ اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی حکم بیان فرمائیں اور اس کی توضیح وتبیین ہمیں قرآن سے مل جائے (الاحکام ۱/۸۱ - ۸۳)۔
۵۔ اس بنیادی رجحان کے تحت ابن حزم یہ اصولی ضابطہ بیان کرتے ہیں کہ کسی بھی شرعی حکم سے متعلق تمام نصوص کو، چاہے وہ قرآن میں وارد ہوں یا حدیث میں، ملا کر ان کے مجموعے سے حکم اخذ کیا جائے گا اور کسی خاص نص کو بنیادی اور اصل قرار دے کر یہ سوال نہیں اٹھایا جائے گا کہ اس کے علاوہ دیگر نصوص میں حکم کے جن اضافی پہلوؤں کا ذکر ہوا ہے، وہ غیر اہم یا ثانوی ہیں یا ان سے سابقہ حکم میں کوئی تبدیلی لازم آتی ہے، کیونکہ ایک ہی آیت یا حدیث میں تمام تر اجزا اور تفصیلات کے بیان کیے جانے کی توقع یا مطالبہ بالکل غیر معقول ہے (احکام الاحکام ۲/ ۳۴)۔
ابن حزم نصوص کے ظاہری تعارض کی صورت میں بعض کو بعض پر ترجیح دینے کو بھی درست نہیں سمجھتے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ کسی بھی آیت یا حدیث کو دوسری آیت یا حدیث کے مقابلے میں زیادہ اہم سمجھتے ہوئے ترجیح کا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا، بلکہ تمام نصوص پر عمل کرتے ہوئے ان کے مابین تطبیق پیدا کی جائے گی۔ لکھتے ہیں :
اذا تعارض الحدیثان او الآیتان او الآیۃ والحدیث فی ما یظن من لا یعلم ففرض علی کل مسلم استعمال کل ذلک، لانہ لیس بعض ذلک اولی بالاستعمال من بعض، ولا حدیث باوجب من حدیث آخر مثلہ، ولا آیۃ اولی بالطاعۃ لھا من آیۃ اخری مثلھا، وکل من عند اللہ عزوجل وکل سواء فی باب وجوب الطاعۃ والاستعمال ولا فرق. (احکام الاحکام ۲/ ۲۱)
’’جب دو حدیثیں یا دو آیتیں یا آیت اور حدیث کسی علم نہ رکھنے والے کو باہم متعارض دکھائی دیں تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ ان سب آیتوں یا حدیثوں کو عمل میں لائے، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی دوسری سے زیادہ عمل میں لائے جانے کا حق نہیں رکھتی، اور نہ کوئی حدیث کسی دوسری حدیث سے زیادہ واجب الاتباع ہے، اور نہ کوئی آیت کسی دوسری آیت سے بڑھ کر اطاعت کیے جانے کے لائق ہے۔ یہ سب اللہ عز وجل کی طرف سے ہیں اور اطاعت اور عمل کے واجب ہونے کے لحاظ سے سب برابر ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں۔‘‘
اسی بنیاد پر ابن حزم اس طریقے کو درست نہیں سمجھتے کہ بعض روایات کو قرآن کی کسی آیت یا دوسری احادیث کے ساتھ موافقت کی وجہ سے دوسری روایات پر ترجیح دی جائے۔ لکھتے ہیں:
وقال بعض اھل القیاس: ناخذ باشبہ الخبرین بالکتاب والسنۃ، قال علی: وھذا باطل لانہ لیس الذی ردوا الیہ حکم ھذین الخبرین اولی بان یوخذ بہ من الخبرین المردودین الیہ، بل النصوص کلھا سواء فی وجوب الاخذ بھا والطاعۃ لھا، فاذ قد صح ذلک بیقین فما الذی جعل بعضھا مردودا وبعضھا مردودا الیہ؟ وما الذی اوجب ان یکون بعضھا اصلا وبعضھا فرعا وبعضھا حاکما وبعضھا محکوما فیہ؟ … واذا کانت النصوص کلھا سواء فی باب وجوب الاخذ بھا فلا یجوز تقویۃ احدھا بالآخر، وانما ذلک من باب طیب النفس وھذا ھو الاستحسان الباطل. (احکام الاحکام ۲/ ۳۹- ۴۰)
’’بعض اہل قیاس یہ کہتے ہیں کہ ہم دو متعارض حدیثوں میں سے اس حدیث کو قبول کریں گے جو کتاب اور سنت کے زیادہ موافق ہو۔ یہ بات باطل ہے، کیونکہ انھوں نے جس آیت کو ان دو حدیثوں کے مابین فیصلے کے لیے معیار بنایا ہے، وہ ان دو حدیثوں سے زیادہ اس کا حق نہیں رکھتی کہ اسے قبول کیا جائے۔ تمام نصوص اس لحاظ سے برابر ہیں کہ انھیں قبول کرنا اور ان کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ جب یہ بات یقینی طور پر درست ہے تو پھر ان میں سے بعض کو معیار بنانا اور بعض کو ان کی طرف لوٹانا کیونکر ہو سکتا ہے؟ اور ان میں سے بعض کو اصل اور بعض کو فرع یا بعض کو حاکم اور بعض کو محکوم فیہ بنانے کی کیا بنیاد ہے؟ جب تمام نصوص واجب الاتباع ہیں تو ایک کے ذریعے سے دوسری کی تائید کرنا درست نہیں ہو سکتا۔ یہ تو بس ذاتی پسند اور ناپسند کی بات ہوگی جو استحسان کی ایک صورت ہے جو کہ باطل ہے۔‘‘
سنت میں قرآن پر زیادت کا حکم
۶۔ ابن حزم کے نزدیک مذکورہ ضابطے کی روشنی میں نصوص کی دلالت میں کسی بھی نوعیت کے تفاوت کی صورت میں آسانی کے ساتھ شارع کی مراد متعین کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ سنت کے ذریعے سے قرآن پر زیادت یا اس کی تخصیص یا نسخ جیسے سوالات کے حوالے سے وہ اپنا منہج اسی نکتے کی روشنی میں متعین کرتے ہیں اور تمام نصوص کے بالکل مساوی حیثیت کے حامل ہونے کے تناظر میں قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی مذکورہ تینوں صورتوں کو درست قرار دیتے ہیں۔
سنت کے ذریعے سے قرآن پر زیادت کی چند نمایاں مثالیں یہ ہیں :
ابن حزم کہتے ہیں کہ قرآن مجید نے بطور اصول تمام خبیث چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے، شکاری پرندوں اور درندوں کی حرمت کا جو حکم بیان فرمایا، وہ قرآن کے اسی اصول کا اطلاق اور اس کی تشریح ہے۔ ابن حزم ’قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا‘ (الانعام ۶: ۱۴۵) میں بیان کردہ چیزوں کو بھی بعض خبائث کا بیان قرار دیتے ہیں اور اس سے ان چار کے علاوہ باقی چیزوں کی اباحت کا حکم اخذ کرنے کو درست نہیں سمجھتے۔ وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر تمام حرام چیزوں کا بیان اسی آیت میں کر دیا گیا ہے تو پھر پیشاب، پاخانہ اور شراب وغیرہ کو بھی حلال ماننا پڑے گا، کیونکہ آیت میں ان کی حرمت کا کوئی ذکر نہیں (احکام الاحکام ۲/ ۳۳- ۳۴، ۸۰- ۸۱)۔
اسی طرح قرآن مجید نے نکاح کے باب میں بعض محرمات کا ذکر کرنے کے بعد ’وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ‘ (النساء ۴: ۲۴) کی جو تصریح کی ہے، اس سے بھی یہ اخذ کرنا کہ ان کے علاوہ تمام خواتین سے نکاح حلال ہے، ابن حزم کے نزدیک درست نہیں، بلکہ اس آیت کے ساتھ احادیث میں بیان کی جانے والی تمام حرمتوں کو شامل کرنا اور ان سب کے مجموعے سے شرعی حکم متعین کرنا ضروری ہے (احکام الاحکام ۲/۳۳- ۳۴، ۸۰- ۸۱)۔ لکھتے ہیں :
وقد سالت بعض من یذھب ھذا المذھب عن قول اللہ تعالیٰ وقد ذکر النساء المحرمات فی القرآن، ثم قال تعالیٰ ’’وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ‘‘، ثم روی ابو ھریرۃ وابو سعید انہ علیہ السلام حرم الجمع بین المراۃ وعمتھا والمراۃ وخالتھا … فقال لی: لیس ھذا الحدیث خلافا للآیۃ لکنہ مضاف الیھا، فقلت لہ: فعلی ھذا لا سبیل الی وجود حدیث مخالف لما فی القرآن اصلا، وکل حدیث اتی فھو مضاف الی ما فی القرآن ولا فرق. (احکام الاحکام ۲/ ۸۲)
’’میں نے یہ مذہب رکھنے والے بعض حضرات سے یہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حرام خواتین کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ باقی خواتین تمھارے لیے حلال ہیں، لیکن پھر ابوہریرہ اور ابو سعید نے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت کے ساتھ اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کے ساتھ نکاح کرنے کو بھی حرام قرار دیا۔ اس نے کہا کہ یہ حدیث آیت کے خلاف نہیں ہے، بلکہ اسے آیت کے ساتھ شامل کیا جائے گا۔ میں نے اس سے کہا کہ پھر اس اصول کی روشنی میں کوئی ایسی حدیث سرے سے پائی ہی نہیں جا سکتی جو قرآن کے خلاف ہو، کیونکہ جو بھی حدیث وارد ہوگی، اسے قرآن کے ساتھ ملانا لازم ہوگا اور دونوں میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔‘‘
قرآن مجید میں رضاعت کے رشتے سے ماں اور بہن کو حرام قرار دیا گیا ہے، تاہم ابو القعیس کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ سے فرمایا کہ ان کی رضاعی والدہ کے شوہر کا بھائی ان کا چچا لگتا ہے، اس لیے اس سے حجاب کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ رضاعت سے صرف دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ حرمت کا رشتہ قائم نہیں ہوتا، بلکہ اس کا شوہر بھی بچے کا رضاعی باپ بن جاتاہے۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ یہ حدیث بھی قرآن سے زائد ایک حکم کا اثبات کر رہی ہے اور اسے قبول کرنا واجب ہے (المحلی ۱۰/۵)۔
رضاعت ہی کے مسئلے میں قرآن مجید کے بیان پر سنت نے یہ اضافہ کیا ہے کہ ایک یا دو دفعہ دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ کم سے کم پانچ دفعہ جس عورت نے بچے کو دودھ پلایا ہو، وہی اس کی رضاعی ماں شمار کی جائے گی (المحلی ۱۰/۱۶)۔
قرآن مجید میں تین طلاقوں کے بعد پہلے شوہر سے نکاح کی اجازت کو اس سے مشروط کیا گیا ہے کہ عورت کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے تو وہ پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔ رفاعہ قرظی کی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے بعد ہم بستری کی شرط بھی بیان کی جو قرآن سے زائد ایک حکم ہے۔ چنانچہ اسی اصول کے تحت مذکورہ آیت او رحدیث دونوں کو ملا کر حکم شرعی متعین ہوگا (احکام الاحکام ۷/ ۷۲)۔
زیادت ہی کی ایک مثال یہ ہے کہ کتاب اللہ میں زانی کو سو کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا ہے، جب کہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زانی کو کوڑے لگانے کے ساتھ ساتھ ایک سال کے لیے جلا وطن کرنے کا بھی حکم دیا اور فرمایا کہ میں نے یہ فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کیا ہے۔ کتاب اللہ سے مراد یہاں اللہ کی وحی ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتاب اللہ کے علاوہ الگ وحی سے یہ بتایا گیا کہ کوڑے لگانے کے ساتھ غیر شادی شدہ زانی کو جلا وطن بھی کیا جائے (المحلی ۱۱/۱۸۶)۔
زیادت کی بحث میں ابن حزم نصوص کے زمانی تقدم وتاخر کے سوال کو اہم نہیں سمجھتے، یعنی ان کے نقطۂ نظر سے اس تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ جس نص میں حکم میں زیادت وارد ہوئی ہے، وہ دوسری نص سے پہلے وارد ہوئی تھی یا بعد میں۔ دونوں میں سے جو بھی صورت ہو، ابن حزم کے نزدیک دونوں نصوص کو باہم ملا کر حکم شرعی متعین کرنا ضروری ہے۔ اسی بنیاد پر زانی کو کوڑے لگانے کے ساتھ جلاوطن کرنے کی مذکورہ مثال میں ابن حزم حنفی فقہا کے اس استدلال کو درست نہیں سمجھتے کہ چونکہ عبادہ بن صامت کی حدیث، جس میں جلاوطنی کی سزا بیان ہوئی ہے، سورۂ نورسے پہلے وارد ہوئی تھی، جب کہ سورۂ نورمیں جلاوطنی کا کوئی ذکر نہیں، اس لیے یہ سزا سورۂ نورکی آیت سے منسوخ ہو چکی ہے۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ اول تو حدیث عبادہ کے سورۂ نور سے مقدم یا موخر ہونے کی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں۔ تاہم اسے مقدم مانا جائے یا موخر، بہر صورت اس میں بیان کردہ سزا کو حکم کا حصہ ماننا لازم ہے۔ اگر حدیث عبادہ کو سورۂ نورسے مقدم سمجھا جائے تو آیت اور حدیث کی تطبیق یوں ہوگی کہ حدیث عبادہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے حکم کی وضاحت فرمائی، جب کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کے ایک جزو کا ذکر کر کے مکمل حکم کے لیے حدیث عبادہ کی طرف refer کر دیا۔ اس سے یہ اخذ کرنا کہ جلاوطنی کا حکم منسوخ ہو گیا ہے، درست نہیں اور خود حنفی فقہا بھی اس آیت میں رجم کا ذکر نہ ہونے کے باوجود اسے بدستور برقرار مانتے ہیں۔ اور اگر حدیث عبادہ سورۂ نورکے بعد نازل ہوئی ہو تو اس میں بیان ہونے والی اضافی سزائیں زیادت کے اصول پر قرآن کے حکم کے ساتھ شامل ہو جائیں گی اور تمام نصوص کے مجموعے سے حکم شرعی متعین کیا جائے گا (المحلی ۱۱/۱۸۷)۔
سنت میں قرآن کے عموم کی تخصیص
۷۔ شرعی نصوص جس طرح دیگر نصوص میں بیان کردہ احکام میں اضافہ کر سکتی ہیں، اسی طرح تفسیر، استثنا یا تخصیص کے اصول پر بھی باہم متعلق ہو سکتی ہیں۔ تفسیر یہ ہے کہ ایک نص دوسری نص میں وارد حکم کی عملی کیفیت یا تفصیلات کی وضاحت کرے، جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’آتوا الزكوٰة‘ کی تفسیر کرتے ہوئے مختلف احکام بیان فرمائے۔ استثنا یہ ہے کہ ایک عمومی حکم بیان کر کے کسی خاص صورت کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے، جیسے آپ نے اندازے سے کھجوروں کا باہمی مبادلہ کرنے سے منع کرتے ہوئے اس میں سے ایک خاص صورت، یعنی عرایا کو مستثنیٰ قرار دیا۔ تخصیص یہ ہے کہ ایک نص میں کوئی حکم عموم کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہو، اور دوسری نص میں کچھ افراد سے متعلق اس سے مختلف حکم بیان کر دیا جائے جس سے معلوم ہو جائے کہ ان خاص افراد کا حکم، عام ضابطے سے مختلف ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ایک آیت میں تمام مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت فرمائی، لیکن دوسری آیت میں اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کی اباحت ذکر کر کے واضح کر دیا کہ وہ مشرک عورتوں سے نکاح کے عمومی حکم کے دائرۂ اطلاق سے خارج ہیں (الاحکام فی اصول الاحکام ۱/۸۰)۔
مذکورہ اصولوں کے تحت شرعی احکام کے باہم متعلق ہونے میں قرآن، سنت اور اجماع میں کوئی فرق نہیں اور ان میں سے کسی بھی ماخذ سے ثابت حکم کسی بھی دوسرے ماخذ میں بیان ہونے والے حکم کے ساتھ تفسیر، استثنا یا تخصیص کے اصول پر متعلق ہو سکتا ہے۔ ابن حزم لکھتے ہیں :
فاما وجوہ البیان التی ذکرنا من التفسیر والاستثناء والتخصیص فقد یکون بالقرآن للقرآن، وبالحدیث للقرآن، وبالاجماع للقرآن، وقد یکون بالقرآن للحدیث، وبالحدیث للحدیث وبالاجماع المنقول للحدیث. (الاحکام ۱/۸۱)
’’ہم نے تفسیر، استثنا اور تخصیص کی صورت میں (ایک نص کے دوسری نص کی) وضاحت کرنے کے جو طریقے ذکر کیے ہیں، وہ کبھی قرآن کے ذریعے سے قرآن کی ہو سکتی ہے، کبھی حدیث کے ذریعے سے قرآن کی، کبھی اجماع کے ذریعے سے قرآن کی، کبھی قرآن کے ذریعے سے حدیث کی، کبھی حدیث کے ذریعے سے حدیث کی اور کبھی اجماع کے ذریعے سے حدیث کی۔‘‘
۸۔ ایک نص کے ذریعے سے دوسری نص کی تخصیص کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ایک نص میں کوئی حکم عام بیان ہوا ہو، جب کہ دوسری نص میں اس کی کچھ خاص صورتوں کا حکم اس سے مختلف بیان کیا جائے۔ اس صورت میں، مذکورہ اصولی ضابطے کی روشنی میں، لازم ہے کہ دونوں طرح کی نصوص پر عمل کیا جائے جس کا طریقہ یہ ہے کہ عام حکم سے ان صورتوں کو مستثنیٰ سمجھا جائے جن کا حکم دوسری نص میں مختلف بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے مطلقاً بیویوں کو انسان کے لیے حلال قرار دیا ہے، لیکن دوسری بہت سی آیات میں واضح کیا گیا ہے کہ دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا یا ماں کے بعد اس کی بیٹی سے نکاح کرنا یا کسی مشرک عورت سے نکاح کرنا حرام ہے۔ یہ قرآن سے قرآن کی تخصیص کی مثال ہے۔ اسی حکم میں چند تخصیصات حدیث اور اجماع میں بھی بیان ہوئی ہیں۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رضاعی رشتہ رکھنے والی تمام خواتین سے نکاح کو حرام ٹھیرایا، جب کہ اجماع سے یہ ثابت ہے کہ مردوں اور چوپایوں اور مشرک باندی سے جماع کو شریعت میں حرام تصور کیا گیا ہے (الاحکام ۱/۸۱)۔
قرآن اور حدیث میں ا س طرح کے تعلق کی چند مزید مثالیں یہ ہیں :
اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ یہ اصول بیان کیا ہے کہ کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے عمل کا ذمہ دار نہیں اور ہر انسان صرف اپنے ہی عمل کے لیے جواب دہ ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل خطا کی صورت میں عاقلہ، یعنی قاتل کی برادری کو مشترکہ طور پر دیت کی ادائیگی کا ذمہ دار قرار دیاہے (المحلی ۱۱/۴۶) ۔
اللہ تعالیٰ نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم علی الاطلاق بیان کیا ہے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک چوتھائی دینار سے کم مالیت کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ اسی طرح قرآن مجید نے رضاعی ماؤں کی حرمت کا حکم عموم کے اسلوب میں ذکر کیا ہے، جب کہ احادیث میں حرمت کے ثبوت کے لیے پانچ دفعہ دودھ پلانے کی ایک زائد قید بیان کی گئی ہے (احکام الاحکام ۲/ ۲۳) ۔
قرآن مجید میں اولاد کے، وارث بننے کا حکم عموم کے اسلوب میں بیان ہونا، جب کہ احادیث میں غلام کو وارث بننے کے لیے نااہل قرار دینا اور اسی طرح مسلمان اور کافر کے لیے ایک دوسرے کا وارث بننے کی ممانعت بھی اسی نوعیت کی مثالیں ہیں اور ان میں بھی احادیث میں بیان کردہ صورتوں کو قرآن کے عام حکم سے مستثنیٰ ماننا واجب ہے (احکام الاحکام ۳/ ۱۵۲)۔
ابن حزم کے نزدیک زیادت کی طرح، تخصیص کی بحث میں بھی ایک نص کے قرآن میں اور دوسری نص کے حدیث میں ہونے سے یا کسی کے زمانی لحاظ سے مقدم یا موخر ہونے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ ان میں سے کوئی بھی صورت ہو، کسی بھی نص کو ترک کیے بغیر دونوں پر عمل کرنا واجب ہے۔ لکھتے ہیں :
فقد ارینا فی ھذہ المسائل استثناء الاقل معانی من الاکثر معانی، وارینا فی ذلک اباحۃ من حظر وحظرا من اباحۃ، وحدیثا من آیۃ وآیۃ من حدیث، وآیۃ من آیۃ وحدیثا من حدیث، ولا نبالی فی ھذا الوجہ کنا نعلم ای النصین ورد اولا او لم نعلم ذلک، وسواء کان الاکثر معانی ورد اولا او ورد آخرا، کل ذلک سواء، ولا یترک واحد منھما للآخر لکن یستعملان معا کما ذکرنا. (احکام الاحکام ۲/ ۲۳)
’’ہم نے دکھایا کہ ان مسائل میں خاص نص، عام نص کے حکم میں استثنا کرتی ہے، اور کبھی حرمت کے حکم سے کسی مباح چیز کو اور کبھی اباحت کے حکم سے کسی ممنوع چیز کو مستثنیٰ کر دیتی ہے۔ یہ تخصیص آیت، حدیث میں اور حدیث، آیت میں اور اسی طرح ایک آیت دوسری آیت میں اور ایک حدیث دوسری حدیث میں کر سکتی ہے۔ اس صورت میں اس تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں کہ کون سی نص پہلے وارد ہوئی اور کون سی بعد میں۔ چاہے عام نص پہلے وارد ہوئی ہو یا بعد میں، دونوں صورتیں یکسا ں ہیں اور ان میں سے کسی نص کو ترک نہیں کیا جائے گا، بلکہ دونوں پر عمل کیا جائے گا جیسا کہ ہم نے واضح کیا۔‘‘
ابن حزم یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ تخصیص کی یہ صورتیں ابتدا ہی سے اصل حکم سے مستثنیٰ ہوتی ہیں اور متکلم کے ارادے میں حکم کے دائرۂ اطلاق میں شامل نہیں ہوتیں، البتہ اس مراد کی وضاحت اسی نص میں کرنے کے بجاے اسی وقت میں ایک مستقل نص سے کی جاتی ہے۔ لکھتے ہیں :
فالآیات التی ذکروا والاحادیث المبینۃ لھا مضموم کل ذلک بعضہ الی بعض، غیر مفصول منہ شیء عن آخر، بل ھو کلہ کآیۃ واحدۃ او کلمۃ واحدۃ، ولا یجوز لاحد ان یاخذ ببعض النص الوارد دون بعض، وھذہ النصوص وان فرقت فی التلاوۃ فالتلاوۃ غیر الحکم، ولم یفرق فی الحکم قط، بل بین النبی صلی اللہ علیہ وسلم ذلک مع ورود الآی معا. (احکام الاحکام ۳/۱۰۹)
’’پس جن آیات کا اور ان کی تبیین کرنے والی جن احادیث کا انھوں نے ذکر کیا، ان سب کو باہم ملایا جائے گا اور کسی کو بھی دوسرے سے جدا نہیں کیا جائے گا۔ یہ سب مل کر گویا ایک ہی آیت یا ایک ہی کلام کی حیثیت رکھتی ہیں اور کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ نص کے ایک حصے کو لے لے اور دوسرے حصے کو چھوڑ دے۔ یہ نصوص اگرچہ تلاوت میں الگ الگ ہیں، لیکن تلاوت حکم سے مختلف چیز ہے۔ یہ حکم کے اعتبار سے الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ آیات کے نازل ہونے کے ساتھ ہی ان کی وضاحت فرما دی تھی (جو احادیث میں منقول ہے)۔‘‘
مذکورہ اقتباس کا آخری جملہ ’بین النبی صلی اللہ علیہ وسلم ذلک مع ورود الآی معا‘ قابل توجہ ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن حزم حنفی اصولیین کے اس استدلال سے متاثر ہیں کہ کسی نص میں مذکور حکم پر زیادت یا اس میں تخصیص کو ’بیان‘ قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ زمانی لحاظ سے اصل حکم کے مقارن ہو۔ بعض دیگر مثالوں سے بھی ابن حزم کا یہ رجحان واضح ہوتا ہے۔ مثلاً ’قُلْ هُوَ اَذًي فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِي الْمَحِيْضِ ‘ (البقرہ ۲: ۲۲۲)کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہاں دور رہنے سے مراد ہم بستری سے اجتناب ہے، نہ کہ بیوی سے بالکل الگ تھلگ ہو جانا۔ اس کی تائید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے ابن حزم لکھتے ہیں :
وھو بیان للآیۃ، بین علیہ الصلاۃ والسلام اثر نزولھا مراد ربہ تعالیٰ فیھا. (المحلی ۱۰/۷۹)
’’یہ آیت کی تفسیر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کے نزول کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کی مراد کو واضح فرما دیا۔‘‘
۹۔ تخصیص کی دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ایک نص میں کوئی حکم عموم کے اسلوب میں بیان کیا جائے، اور دوسری نص میں کوئی دوسرا حکم اسی طرح عموم کے اسلوب میں بیان کیا جائے، یعنی دونوں نصوص دو مستقل اور باہم غیر متعلق احکام کو بیان کرتی ہوں، لیکن بعض صورتیں ایسی پائی جائیں جو دونوں حکموں کے دائرۂ اطلاق میں آ سکتی ہوں۔ ایسی صورت میں غور وفکر سے یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ اس خاص صورت میں شارع کی منشا مذکورہ دونوں عام احکام میں سے کس حکم کا اطلاق کرنا ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سفر کی استطاعت رکھنے والوں پر بیت اللہ کے حج کو فرض قرار دیا ہے (النساء ۴: ۹۷ )۔ یہ ایک عام حکم ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ سفر کی استطاعت رکھنے والے ہر فرد پر، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، حج کرنا فرض ہو۔ اس کے مقابلے میں ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے لیے ایک الگ اور مستقل حکم یہ بیان فرمایا ہے کہ ان کے لیے اپنے شوہر یا کسی محرم کے بغیر سفر پر نکلنا جائز نہیں۔ ظاہری عموم کے لحاظ سے اس کا تقاضا یہ ہے کہ خواتین کے لیے کسی بھی سفر پر، چاہے وہ بیت اللہ کے حج کے لیے ہو، محرم کے بغیر نکلنا جائز نہیں۔ یہاں حل طلب سوال یہ ہے کہ آیا شارع کے نزدیک جو خواتین سفر کی استطاعت رکھتی ہیں، لیکن انھیں محرم کی رفاقت میسر نہیں، وہ آیت کی رو سے فرضیت حج کے حکم کی مخاطب ہیں یا حدیث کی رو سے سفر کی ممانعت کی؟ دوسرے لفظوں میں کیا فرضیت حج کے عام حکم سے محرم کے میسر نہ ہونے کی صورت مستثنیٰ ہے یا اس کے برعکس، محرم کے بغیر سفر کی ممانعت کے عام حکم سے حج کا سفر مستثنیٰ ہے؟
ابن حزم کے نزدیک یہ صورت نصوص کے مابین تطبیق کے حوالے سے اہل علم کو پیش آنے والی سب سے مشکل، دقیق اور غامض صورت ہوتی ہے (من ادق ما یمکن ان یعترض اھل العلم من تالیف النصوص واغمضہ واصعبہ)، کیونکہ دونوں نصوص میں تطبیق مذکورہ دونوں طریقوں سے ممکن ہے اور ان میں سے کسی طریقے کو بھی فی نفسہٖ دوسرے سے بہتر نہیں کہا جا سکتا۔ چنانچہ ایسی صورت میں دلائل وقرائن پر مزید غور وفکر سے کسی ایک پہلو کو ترجیح دینا ضروری ہے اور مجتہدین اس میں اپنی اپنی ترجیحات قائم کر سکتے ہیں۔ ابن حزم کے نزدیک ایسی صورت میں مختلف مجتہدین کی ترجیحات میں خطا اور صواب کا تعین بہت مشکل ہے اور کسی بھی ترجیح کے متعلق یہ کہنا درست نہیں کہ وہ عند اللہ غلط ہے (احکام الاحکام ۲/ ۲۶- ۲۷۔ ۸/۱۴۷- ۱۴۸)۔
قرآن اور سنت میں نسخ کا تعلق
۱۰۔ ابن حزم کے منہج میں چونکہ ہر قسم کی نص کے بالکل مساوی ہونے اور تعیین حکم میں یکساں اہم ہونے کا تصور بنیادی ہے، اس لیے زیادت اور تخصیص کے مباحث میں ان کا موقف نتیجے کے لحاظ سے امام شافعی اور جمہور فقہا کے نقطۂ نظر سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود بناے استدلال کے لحاظ سے جوہری طور پر مختلف ہے۔ امام شافعی قرآن کو بیان احکام میں اصل اور سنت کو اس کی تبیین قرار دیتے ہوئے اسے گویا قرآن کی فرع اور اس پر مبنی توضیح وتشریح قرار دیتے ہیں اور اسی پہلو سے جہاں ممکن ہو، سنت میں وارد تخصیص وتبیین کی بنیاد قرآن میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ابن حزم کے زاویۂ نظر سے قرآن اور سنت کے احکام کا تعلق اصل اور فرع کے طور پر متعین کرنے اور ان کے باہمی تعلق کی تفہیم کے لیے دلالت کلام اور تخصیص کے قرائن وغیرہ کی بحث غیر ضروری ہے۔ اس نکتے کا اصل ثمرۂ اختلاف ان کے اور امام شافعی کے مابین نسخ کی بحث میں سامنے آتا ہے۔ چنانچہ وہ قرآن اور حدیث کے، شرعی حیثیت کے اعتبار سے بالکل یکساں ہونے کے تناظر میں سنت سے قرآن کے اور قرآن سے سنت کے نسخ کے جواز کے قائل ہیں اور ان کا استدلال وہی ہے کہ جب وحی ہونے میں قرآن اور حدیث میں کوئی فرق نہیں تو اثبات حکم میں بھی قرآن یا خبر متواتر یا خبر واحد میں کسی بھی لحاظ سے فرق کرنا درست نہیں۔
اس ضمن میں قرآن مجید کی آیت: ’قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْ٘ اَنْ اُبَدِّلَہ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِيْ ‘ (یونس ۱۰: ۱۵) سے امام شافعی کے استدلال پر ابن حزم نے بھی وہی تنقید کی ہے جو حنفی اصولیین کی طرف سے کی گئی ہے، یعنی اس آیت میں جس چیز کی نفی کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ پیغمبر اپنی خواہش سے قرآن کے کسی حکم کو بدل دے۔ اس سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ اگر آپ کو قرآن کے علاوہ وحی کے ذریعے سے کوئی حکم دیا جائے تو وہ بھی قرآن کے کسی حکم میں تبدیلی نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے کسی بھی حکم میں تبدیلی کا فیصلہ وحی ہی کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ وحی قرآن ہی کی صورت میں ہو؛ وہ سنت کی صورت میں بھی نازل کی جا سکتی ہے (احکام الاحکام ۴/۱۰۷- ۱۰۸) ۔
ابن حزم امام شافعی کے اس موقف پر بھی تنقید کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی حکم کے ذریعے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت کو منسوخ کریں تو ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سابقہ سنت کے مقابلے میں نئی سنت بیان کریں جو سابقہ سنت کے لیے ناسخ ہو۔ ابن حزم کا اعتراض، جو انھوں نے شوافع میں سے ہی بعض اہل علم سے نقل کیا ہے، یہ ہے کہ اگر سنت میں تبدیلی کا اصل موجب اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نئے حکم پر عمل کیا ہے تو اصولی طو رپر نسخ کی نسبت اللہ کے حکم کی طرف کرنی چاہیے نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی طرف۔ یہ ایسے ہی ہوگا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سنت سے کسی سابقہ سنت کو منسوخ کریں اور لوگ اس نئی سنت پر عمل کرنے لگیں تو نسخ کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے کے بجاے یہ کہا جائے کہ لوگوں کے عمل نے آپ کی سنت کو منسوخ کر دیا ہے (احکام الاحکام ۴/۱۱۰- ۱۱۱) ۔
۱۱۔ سنت سے قرآن کے نسخ کی مثال کے طور پر ابن حزم رجم کی سزا کو پیش کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں ابتداءً ا زانی عورتوں کو گھروں میں محبوس کرنے کی جو ہدایت دی گئی تھی، وہ بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ وحی کے ذریعے سے، جس کا ذکر عبادہ بن صامت کی حدیث میں ہے، منسوخ کر دی گئی اور اس کی جگہ غیر شادی شدہ کے لیے کوڑوں اور جلا وطنی کی، جب کہ شادی شدہ کے لیے کوڑوں اور رجم کی سزا مقرر کر دی گئی۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ اس حکم کا ناسخ مذکورہ حدیث کے بجاے سورۂ نور کی آیت کو قرار دینا درست نہیں، کیونکہ حدیث میں ’خذوا عنی قد جعل اللہ لھن سبیلا‘ کے الفاظ سے بالکل واضح ہے کہ سورۂ نساء کی عبوری ہدایت کے بعد دیا جانے والا پہلا حکم یہی ہے اور اس کا زمانۂ نزول سورۂ نور کی آیت سے پہلے ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث میں جس وحی کا حوالہ دیا ہے، وہ سورۂ نور ہی کی آیت ہے، کیونکہ سورۂ نور کی آیت میں وہ تفصیل موجود نہیں جو حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ ابن حزم اس راے کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ، بعض روایات کے مطابق، سورۂ نساء کے حکم کا ناسخ حدیث نہیں، بلکہ قرآن میں نازل ہونے والی ایک آیت تھی۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ اگر اس موقف کو قبول کیا جائے تو چونکہ محولہ آیت کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے، اس لیے نتیجے کے اعتبار سے اس سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی ہے کہ قرآن کے حکم کی تنسیخ وحی غیر متلو کے ذریعے سے کی جا سکتی ہے (احکام الاحکام ۴/۱۱۱- ۱۱۲) ۔
قرآن سے سنت کے حکم کے نسخ کی مثال صلح حدیبیہ ہے جسے سورۂ توبہ میں کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ حکم دیا گیا کہ کسی مشرک کے ساتھ صلح کا معاہدہ جائز نہیں، سواے اس کے کہ وہ اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے (احکام الاحکام ۴/۱۱۴)۔ اسی طرح روزے کے مہینے میں رات کے وقت کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے کی ممانعت کو، جو قرآن میں نازل نہیں ہوئی تھی، منسوخ کرتے ہوئے سورۂ بقرہ میں اس کو مباح قرار دیا گیا (احکام الاحکام ۷/۲۴)۔ ابن حزم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’انت ومالک لابیک‘ کو بھی قرآن میں احکام میراث سے منسوخ سمجھتے ہیں۔ گویا ان کی راے میں پہلے باپ کو مطلقاً بیٹے کے مال کا مالک قرار دیا گیا تھا، لیکن بعد میں بیٹے کے ترکے میں دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ باپ کا بھی ایک مخصوص حصہ مقرر کر کے اس کے مطلق اختیار کو ختم کر دیا گیا (المحلی ۱۱/۳۴۵)۔
قرآن کے حکم سے سنت کے نسخ کی مثالوں میں ابن حزم نے ان تمام واقعات کو بھی شمار کیا ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ گستاخی کرنے یا آپ کو نقصان پہنچانے والے مختلف کافروں کو معاف کر دیا اور ان کے خلاف داروگیر نہیں کی۔ مثلاً ایک موقع پر ایک یہودی عورت نے آپ کو کھانے میں زہر ملا کر دے دیا۔ ایک اور موقع پر ایک یہودی نے آپ پر جادو کیا جس کے اثرات آپ کے روز مرہ معمولات پر مرتب ہونے لگے۔ اسی طرح یہودیوں کے متعلق بیان ہوا ہے کہ وہ جب آپ کی مجلس میں آتے تو شرارت سے ’السلام علیک‘کے بجاے ’السام علیک‘ کے الفاظ کہہ کر آپ کو بددعا دیتے تھے۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ کافروں سے درگزر کرنے اور انھیں معاف کرنے کا یہ حکم سورۂ توبہ میں کفار سے جزیہ وصول کرنے اور انھیں ذلیل کر کے مسلمانوں کا محکوم بنانے کے حکم سے منسوخ ہو چکا ہے (المحلی ۱۱/۴۱۷)۔
۱۲۔ سنت سے قرآن اور قرآن سے سنت کے نسخ کے جواز کا قائل ہونے کے باوجود ابن حزم اس پر اصرار کرتے ہیں کہ دو حکموں میں نسخ کا تعلق قائم کرنا اسی صورت میں درست ہے جب ایسا کرنا ناگزیر ہو، یعنی دونوں کا باہمی تعارض ناقابل حل ہو اور یقینی دلائل کی روشنی میں ایک کو ناسخ مانے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔
مثال کے طور پر قرآن مجید میں زانی مرد اور عورت کو سو سو کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ابن حزم کے نزدیک یہ حکم تمام زانیوں کے لیے عام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں زانی کے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونے کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی۔ اس کے علاوہ عبادہ بن صامت کی روایت میں بھی دونوں طرح کے زانیوں کی سزا میں سو کوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ امام شافعی ماعز اسلمی کے واقعے کی روشنی میں شادی شدہ زانی کے لیے سو کوڑوں کی سزا کو منسوخ سمجھتے ہیں۔ تاہم ابن حزم کو اس سے اتفاق نہیں۔ ان کی راے میں ماعزکے واقعے میں کوڑوں کا ذکر نہ ہونا اس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ اسے واقعتاً کوڑے نہیں لگائے گئے تھے۔ گویا ابن حزم اسے عدم ذکر کی مثال سمجھتے ہیں جس سے عدم ثبوت اخذ نہیں کیا جا سکتا، جب کہ جس روایت میں کوڑے نہ لگائے جانے کی تصریح ہے، ابن حزم کے نزدیک وہ ساقط الاعتبار روایت ہے۔ برسبیل تنزل ابن حزم کہتے ہیں کہ اگر ماعز کو واقعتاً کوڑے نہ لگائے گئے ہوں تو پھر ممکن ہے کہ یہ واقعہ سورۂ نورکے نزول سے پہلے کا ہو، جب کہ اس کے بعد سورۂ نورمیں کسی فرق کے بغیر ہر زانی کو سو کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا ہو (احکام الاحکام ۲/ ۶۷- ۶۸)۔
رشتہ داروں کے حق میں وصیت کے مسئلے میں ابن حزم نے اس اصول کا انطباق یوں کیا ہے کہ یہ بات معلوم ہے کہ ابتداے اسلام میں والدین اور اقربا کے متعلق ترکے میں وصیت کرنا واجب نہیں تھا۔ پھر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے والدین اور اقربا کے لیے وصیت کرنے کو فرض قرار دیا۔ اس کے بعد سورۂ نساء میں وراثت میں والدین اور بعض اقربا کے حصے مقرر کر دیے گئے، جب کہ آیت وصیت کے تحت ان کے حق میں ایک تہائی مال میں سے وصیت کرنے کا حکم بھی باقی رہا۔ ابن حزم، احکام میراث کو آیت وصیت کے لیے ناسخ نہیں سمجھتے اور ان کا کہنا ہے کہ ازروے میراث ترکے میں حصہ ملنے اور ازروے وصیت مال کا حق دار ہونے میں کوئی تضاد نہیں اور یہ دونوں بیک وقت قابل عمل ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس کے بعد جن اقربا (یعنی والدین، اولاد اور زوجین وغیرہ) کے باقاعدہ حصے شریعت میں طے کر دیے گئے ہیں، ان کے حق میں وصیت کی اجازت سنت کے ذریعے سے منسوخ کر دی گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’لا وصیۃ لوارث‘ کے الفاظ سے اس کی وضاحت فرما دی۔ البتہ یہ تنسیخ چونکہ صرف وارث بننے والے اقربا کے حوالے سے ہے، اس لیے ایسے اقربا جن کا ترکے میں کوئی متعین حصہ مقرر نہیں کیا گیا، ان کے لیے وصیت کرنا سابقہ حکم کے تحت اب بھی فرض ہے اور اس میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا (احکام الاحکام ۴/۹۲، ۱۱۳- ۱۱۴) ۔
۱۳۔ کسی حکم کے نسخ کی تحقیق کا ایک اہم اصول ابن حزم کے نزدیک یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ اباحت اصلیہ کے معارض ہے یا اس کے مطابق۔ چنانچہ اگر نصوص میں دو متعارض احکام وارد ہوں اور ان میں سے ایک اباحت اصلیہ کے مطابق اور دوسرا اس کے خلاف ہو تو دوسرے حکم کا ناسخ ہونا یقینی ہے اور اس ضمن میں نصوص کے زمانی تقدم وتاخر کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ اس اصول کے اطلاق میں بھی ابن حزم، اپنے بنیادی تصور کے مطابق، آیت، حدیث مشہور اور خبر واحد کو ایک ہی درجے میں رکھتے ہوئے بعض مثالوں میں اخبار آحاد کو قرآن کے حکم کا ناسخ قرار دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر مختلف احادیث میں بیان ہوا ہے کہ دودھ چھڑوا دینے کے بعد، یعنی مدت رضاعت گزر جانے کے بعد بچے کو دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ تاہم ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ وہ حذیفہ کے منہ بولے بیٹے سالم کو، جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے تھے، دودھ پلا دیں اور ایسا کرنے سے سالم ان کا رضاعی بیٹا بن جائے گا اور اس سے غیر محرم کی طرح پردہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جمہور فقہا مذکورہ نصوص کی روشنی میں اس واقعے کو سالم کی خصوصیت پر محمول کرتے ہوئے رضاعت سے متعلق شریعت کا اصل حکم اسی کو قرار دیتے ہیں کہ وہ بچے کی دودھ پینے کی عمر میں، یعنی دو سال کے اندر پلایا گیا ہو، لیکن ابن حزم کی راے یہاں جمہور سے مختلف ہے اور وہ سالم کے واقعے کی روشنی میں بلوغت کی عمر میں دودھ پینے کو بھی حرمت رضاعت کے ثبوت کا موجب مانتے ہیں۔
اس بحث میں بعض اہل علم نے مدت رضاعت کی تحدید بیان کرنے والی احادیث کو سالم کے مذکورہ واقعہ کے لیے ناسخ قرار دیا ہے۔ ابن حزم اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ اگر نسخ کے اصول پر متعلقہ نصوص کی تشریح کی جائے تو مذکورہ احادیث نہیں، بلکہ سالم کا واقعہ ان احادیث کے لیے ناسخ ہے، کیونکہ اباحت اصلیہ کے معارض ہونے کے لحاظ سے یہ حکم سب سے آخری حکم بنتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اصولاً رضاعت، کسی قسم کی حرمت کا موجب نہیں ہو سکتی، لیکن شریعت نے اباحت اصلیہ کے اس حکم کو تبدیل کر کے رضاعت کو موجب حرمت قرار دیا اور رضاعت کی مدت دو سال مقرر کی۔ یوں اباحت اصلیہ کا دائرہ ایک درجے تک محدود کر دیا گیا۔ اگر اس مسئلے سے متعلق صرف یہی نصوص ہوتے تو حرمت رضاعت کو دو سال تک محدود قرار دینا ہی آخری حکم ہوتا۔ تاہم سالم کے واقعے میں بلوغت کی عمر میں دودھ پلانے سے حرمت رضاعت کا اثبات، اباحت اصلیہ کے دائرے کو مزید محدود کر دیتا ہے اور کسی بھی عمر میں دودھ پینے کو موجب حرمت قرار دیتا ہے۔ یوں اباحت اصلیہ کے خلاف ہونے کے پہلو سے یہی حکم زمانی ترتیب کے لحاظ سے آخری حکم بنتا ہے، اس لیے یہ مدت رضاعت کی تحدید کا ناسخ ہے (احکام الاحکام ۳/ ۱۳۳۔ ۴/۸۷- ۸۸۔ ۷/۱۱- ۱۲)۔
ابن حزم، جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا، ازروے میراث ترکے میں حصہ نہ پانے والے اقربا کے حق میں وصیت کی فرضیت کے علیٰ حالہ قائم ہونے کے قائل ہیں۔ تاہم عمران بن حصین کی ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ جب ایک شخص نے والدین واقربا کے متعلق وصیت کیے بغیر اپنے چھ غلاموں کو مرنے کے بعد آزاد قرار دے دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وصیت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے ایک تہائی تک محدود کر دیا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین واقربا کے حق میں وصیت کرنا واجب نہیں۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ چونکہ یہ حدیث اباحت اصلیہ کے حکم کے مطابق ہے، اس لیے اسے قرآن میں وصیت کی فرضیت سے زمانی طور پر متقدم اور منسوخ تصور کیا جائے گا، الاّ یہ کہ کوئی واضح اور صریح دلیل مل جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ وصیت کی فرضیت نازل ہونے کے بعد کا واقعہ تھا (احکام الاحکام ۴/۸۶)۔
(جاری)