آج کل ایک بہت دلچسپ کتاب زیرمطالعہ ہے جو زمین پر زندگی کے بارے میں سوچنے کے کچھ نئے رخ سامنے لارہی ہے۔ اسرائیلی ماہر تاریخ و سماجیات یووال نوح ہراری کی کتاب ’ہومو ڈیوس کی کتاب (انسانی خدا ۔۔ مستقبل کی ایک مختصر تاریخ) اپنی پہلی اشاعت کے بعد سے اب تک لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئی ہے اور اس کی وجہ اس کتاب میں پیش کیے گئے انسانوں کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں غیر روایتی اور غیرمعمولی تصورات ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان خیالات کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ تو بالکل سامنے کی بات تھی، اس طرف ہمارا دھیان کیوں نہیں گیا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے2011 میں وہ ایک کتاب بعنوان ’سیپینز ۔۔۔ انسانوں کی مختصر تاریخ‘ لکھ چکے ہیں جسے اس دوسری کتاب کا مقدمہ کہا جاسکتا ہے۔ مستقبل کی ممکنہ تاریخ کے موضوع پر پیشین گوئی کرتی ہوئی دوسری کتاب کا آغاز اس سوال سے ہوتا ہے کہ اصل میں انسان کا مستقبل کا ایجنڈا ہے کیا؟
مصنف کا کہنا ہے کہ صدیوں سے تین بڑے مسائل انسان کے ایجنڈے میں سرفہرست رہے ہیں اور ان تینوں مسائل کا تعلق اس کی بقا سے ہے، یعنی قحط ، وبا اور جنگ۔ دوسرے لفظوں میں بھوک، بیماری اور آپس کا جنگ و جدل۔ یہ وہ تین آفات ہیں جو ہمیشہ سے لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کا خاتمہ کرتی آئی ہیں۔ یہ وہ آفات ہیں جنہوں نے پورے پورے خطوں سے انسانی زندگی کا صفایا کیا ہے، انسانوں کی پوری نسلوں کو ملیا میٹ کیا ہے اور یہ مسائل ہمیشہ انسانیت کا سب سے بڑا چیلنج رہے ہیں۔ لیکن تیسرے ہزاریے کے آغاز تک انسان ان تینوں آفات پر قابو پانے میں کامیاب ہوچکا ہے اور اب وہ بقائے دوام کے ایجنڈے پر گامزن ہوچکا ہے۔ مثال کے طور پر تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ اب لوگ بھوک سے زیادہ نہیں مرتے بلکہ زیادہ کھانے سے مر جاتے ہیں۔ زیادہ لوگ بیماریوں سے نہیں بلکہ بڑھاپے سے مرتے ہیں۔ اب لوگ جنگوں، دہشت گردوں اور مجرموں کے ہاتھوں مجموعی طور پر اتنے نہیں مرتے جتنے لوگ خود کشیاں کر کے مر جاتے ہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں ایک عام انسان کو قحط ، وبا یا القاعدہ کے حملے میں مرنے سے زیادہ خطرہ یہ ہے کہ کہیں وہ میکڈونلڈ کے ریستوران میں بسیار خوری سے نہ مر جائے۔ اگرچہ اب بھی عالمی راہنماؤں اور ماہرین معیشت و سیاست کے ایجنڈوں کا غالب حصہ اقتصادی بحرانوں اور دنیا میں جاری جنگی تنازعات سے نمٹنا ہے لیکن تاریخ کے کائناتی پیمانے پر دیکھا جائے تو اب انسان اپنی نظریں اٹھا کر نئے افق تلاش کر سکتا ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ اب جب کہ ہم نے قحط ، وبا اور جنگ پر بڑی حد تک قابو پالیا ہے تو ہماری اگلی منزل کیا ہوگی؟ اکیسویں صدی میں ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال کیا ہے؟ ایک ایسی دنیا میں جہاں صحت ، خوشحالی اور امن کی منزل حاصل کی جا چکی ہے۔(یا جب ہم اس منزل کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں ، جس کی تفصیل کسی آئندہ مضمون میں پیش کی جائے گی) تو کیا چیز ہے جو ہماری توجہ اور ذہانتوں کا امتحان لے گی؟ بائیو ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں یہ سوال اور بھی اہم اور فوری جواب طلب ہے کہ ہم نے جو طاقت حاصل کر لی ہے اس کا ہم کریں گے کیا؟
سچی بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جو افراتفری ، مسابقت ، جنگی تنازعات ، غربت اور بھوک ہمیں نظر آتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ دعویٰ کہ ہم نے قحط ، بیماری اور جنگ پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے ایک بہت بڑی جسارت معلوم ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ دعویٰ بے وقوفی کی حد تک سادگی اور دنیا کو درپیش ان بڑے بڑے مسائل سے آنکھیں چرانے کے مترادف محسوس ہوگا۔ مطلب کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ابھی بھی دنیا میں اربوں لوگ روزانہ دو ڈالر سے کم پر یا اس سے بھی نیچے کی غربت کی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کیا اس سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ مثلاً افریقہ میں ایڈز کی وبا نے انسانوں کی زندگیوں کو بے انتہا تکلیف اور معدومیت کے خطرے سے دوچار کر رکھا ہے؟ کیا شام اور عراق میں ہونے والی جنگیں قصے کہانی کی بات ہے؟ دہشت گردی وہ آسیب ہے جس سے ہم انفرادی طور پر اپنے گھر، دفتر، سکول، مسجد ، بازار ہر جگہ خوف زدہ ہیں اور قومی اور عالمی سطح پر جس کے سدباب کی کوئی تدبیر عالمی طاقتوں اور انسانی مشاہیر کو نہیں سوجھ رہی اور دنیا کی ہر حکومت اس کے مقابلے کے لیے حکمت عملیاں اور موزوں پالیسیاں بنانے میں مصروف ہے اور پھر بھی ناکام ہے۔ کیا یہ ایک ایسی دیومالائی کہانی ہے جو ہم اپنی دادی اماں سے سنتے سنتے سو گئے ہیں اور پریوں کے ایک ایسے دیس میں پہنچ گئے ہیں جہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہے اور حسن و لطافت کی دیویاں ہمیں پنکھا جھل رہی ہیں؟ کیا اس بات میں کوئی منطق ہے کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی انسانوں کی تذلیل ، اور ان کی جان ، مال، عزت و آبرو کو درپیش خطروں سے آنکھیں چراتے ہوئے قحط ، بیماری اور جنگ پر قابو پالینے کا دعویٰ کریں اور اپنی ان بے مثال انسانی کامیابیوں پر جشن منائیں؟
مصنف کا خیال ہے کہ ان سوالوں کا جواب موجود ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اوائل اکیسویں صدی کی دنیا پر ایک گہری نظر ڈالنی ہوگی اور پھر ہم آنے والی دہائیوں میں انسانوں کے ممکنہ مستقبل کا جائزہ لے سکیں گے۔
کیا ہم نے قحط پر قابو پالیا ہے؟
صرف چند صدیاں قبل دنیا میں قحط ایک بہت بڑی آفت تھی۔1694میں فرانس کے شہر بیواس میں ایک فرانسیسی افسر نے اس وقت فرانس میں جاری قحط کے اثرات اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں لکھا کہ اس پورے ضلعے میں لاتعداد لوگ اتنے غریب ہیں جنہیں مسلسل بھوک نے لاغر اور ضرورتوں نے مرنے کے قریب پہنچا دیا ہے۔ ان کے پاس نہ کوئی کام ہے نہ وہ کوئی خوراک خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔ اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اور شدید بھوک مٹانے کے لیے وہ بلیوں اور کوڑے کے ڈھیروں سے اٹھا کر مرے ہوئے گھوڑوں کا گندا گوشت کھا رہے ہیں۔ یا وہ پودوں کی سوکھی جڑیں ابال کرجسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔صرف ایک شہر میں نہیں پورے فرانس میں یہی صورت حال تھی۔ 1692 سے 1694 کے درمیان تقریبا اٹھائیس لاکھ فرانسیسی (پوری آبادی کا 15 فیصد) بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرگئے۔ اگلے سال 1695 میں ایسٹونیا میں قحط پڑ گیا اور آبادی کا پانچواں حصہ (25 فیصد) ہلاک ہوگیا۔ اس سے اگلے سال 1696 میں فن لینڈ کی باری آگئی جہاں ایک چوتھائی سے ایک تہائی لوگ قحط سے مر گئے۔ 1695 سے 1698 کے درمیاں سکاٹ لینڈ میں بدتریٍن قحط سے کچھ اضلاع میں بیس فیصد کے قریب لوگ ہلاک ہوئے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ ایک وقت کا کھانا چھوٹ جائے تو کیا محسوس ہوتا ہے، یا رمضان میں ایک دن کے روزے کے بعد شام تک کیا حالت ہوجاتی ہے۔ یا چند دن صرف سبزی کے سوپ پر گزارا کرنا پڑے تو طبیعیت پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔ لیکن اس بات کا اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اگر کئی روز تک مسلسل کچھ کھانے کو نہ ملے اور یہ بھی پتہ نہ ہو کہ کھانے کا اگلا نوالہ کب تک دستیاب ہو سکے گا تو کیا حالت ہوتی ہے اور کس طرح جان لبوں پر آتی ہے۔ ہم سے پہلے گزرنے والی نسلوں کو اس کا اچھی طرح اندازہ تھا۔
گذشتہ سو سالوں میں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے اور اتنی معاشی اور سیاسی پیش رفت ہو چکی ہے کہ دنیا میں اس طرح کی قحط کی صورت حال پر کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے۔ ابھی بھی دنیا کے بعض خطوں میں وقتاً فوقتاً بھوک اور قحط جو تباہی لاتی ہے وہ استثنائی ہے اور اس کی وجہ کسی قدرتی آفت سے زیادہ انسانی سیاست ہے۔ اب جو قحط موجود ہیں وہ قدرتی نہیں بلکہ سیاسی ہیں۔ اگر شام، سوڈان اور صومالیہ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ سیاستدان ایسا چاہتے ہیں۔
فرانس میں آج بھی غربت اور بھوک ہے۔ لاکھوں لوگ غذا کی کمی کا شکار ہیں جنہیں دو وقت کا مکمل کھانا ملنے کا یقین نہیں ہوتا۔ لیکن اب اکیسویں صدی کے فرانس میں اور 1694 کے فرانس میں بہت فرق ہے۔ اب لوگ اس وجہ سے نہیں مرتے کہ انہیں ہفتوں تک کچھ کھانے کو نہ ملا ہو۔ اور بھی کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں۔ آج کی عالمی طاقت اور سب سے زیادہ آبادی کے ملک چین کی مثال لے لیں۔ ہزار سالوں تک قحط نے زرد بادشاہتوں سے لے کر سرخ کمیونسٹوں تک چین کی ہرحکومت کا پیچھا کیا ہے۔ کچھ دہائیاں پہلے تک چین کا نام خوراک کی کمی کے مترادف تھا۔ 1958 میں چئرمین ماؤ زے تنگ نے چین میں صنعتی ترقی کے لیے ’دی گریٹ لیپ فارورڈ‘ کے نام سے پانچ سالہ منصوبہ بنایا تھا جس نے چینیوں کو پانچ ہزار خاندانوں کی چھوٹی آبادیوں یا کمیونیٹیوں میں تقسیم کر کے صنعتی ترقی کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگا دیا۔ نتیجے میں زراعت نظر انداز ہوگئی اور چین نے اگرچہ صنعتی پیداوار میں کسی حد تک لیکن غیر معیاری اضافہ کیا تو دوسری طرف فصلیں نہ ہونے کے باعث غذا کی شدید کمی کا شکار ہوگیا۔ کچھ رپورٹس کے مطابق صرف 1960 کے ایک سال میں دو کروڑ سے زیادہ چینی بھوک، خوراک کی کمی اور اس سے متعلقہ بیماریوں سے مر گئے۔
1974میں پہلی ورلڈ فوڈ کانفرنس روم میں منعقد ہوئی تو دنیا کے سامنے خوراک کی کمی کے خوفناک منظر نامے پیش کیے گئے۔ پیشین گوئی کی گئی کہ چین کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ایک ارب لوگوں کو خوراک مہیا کر سکے۔ ایک بڑی تباہی ان کی منتظر تھی۔ لیکن درحقیقت یہی وہ وقت تھا جب چین تاریخ کے سب سے بڑے اقتصادی معجزے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ 1974 کے بعد سے کروڑوں چینیوں کو غربت کے گہرے کنویں سے نکال لیا گیا ہے۔ اگرچے ابھی بھی یہاں کروڑوں لوگ خوراک کی کمی اور غربت کا شکار ہیں لیکن معلوم تاریخ میں پہلی بار چین کو قحط سے آزاد خطہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج بہت سے ملکوں میں بسیار خوری، بھوک اور قحط سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ اٹھارویں صدی میں فرانس کی آخری ملکہ نے فاقوں سے مرتے عوام کو سمجھایا تھا کہ اگر انہیں روٹی نہیں ملتی تو وہ کیک کھا لیا کریں۔ آج زیادہ تر غریب لوگوں نے ان کی اس نصیحت کو پلے باندھ رکھا ہے۔ آج جب بیورلے ہل پر رہنے والے دنیا کے امراء سلاد، چٹنی اور سوپ پر گزارہ کرتے ہیں، چھوٹی آبادیوں اور کچی بستیوں میں رہنے والے غریب کیک، برگر اور پزے اڑاتے پھرتے ہیں۔ 2014 میں 850 ملین لوگ دنیا میں خوراک کی کمی کا شکار تھے جبکہ ان کے مقابلے میں دو ارب سے زیادہ لوگ موٹاپے، یعنی وزن کی زیادتی کا شکار تھے۔ اندازہ ہے کہ 2030 تک دنیا کی آدھی آبادی موٹاپے کے آزار میں مبتلا ہوجائے گی۔ 2010 میں قحط اور غذا کی قلت سے لگ بھگ ایک ملین (دس لاکھ) لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ اسی سال موٹاپے سے مرنے والوں کی تعداد تین ملین (تیس لاکھ) تھی۔
وباؤں کا عذاب!
قحط کے بعد انسانوں کے دوسرے سب سے بڑا دشمن وبائی امراض تھے ،جو کسی ایک علاقے میں پھیلتے تو انسانوں کی نسلوں کی نسلیں تباہ کردیتے۔ وہ گنجان آباد شہر جہاں تاجروں اور سیاحوں کی بہتات ہو ،وہ اگر ایک طرف انسانی تہذیب و ثقافت کا مرکز بن جاتے تو دوسری طرف جان لیوا وبائی امراض کی آماج گاہ ہوتے۔ کسی وباء کا شکار ہوجانے کا خوف اکثر لوگوں کو رہتا۔ چودھویں صدی کی تیسری دہائی میں بلیک ڈیتھ کے نام سے مشہور ہونے والی وبا سے دنیا بھر میں کروڑوں لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ قریب بیس سال کے عرصے میں یہ وبا ایشیا سے یورپ، شمالی افریقہ سے لے کر بحرالکاہل کے ساحلوں تک پہنچ چکی تھی۔ اس وباء سے 75 ملین سے لے کر دو سو ملین (بیس کروڑ) لوگ تک ہلاک ہوگئے۔ انگلستان میں دس میں سے چار لوگ اس کا شکار ہوئےاور وہاں کی آبادی ساڑھے تین ملین سے کم ہو کر سوا دو ملین رہ گئی۔ فلورنس کے ایک لاکھ شہریوں میں سے پچاس ہزار مارے گئے۔ حکام اس کا حل ڈھونڈنے میں مکمل ناکام ہوچکے تھے اور بڑے بڑے دعائیہ اجتماعات میں خدا سے اس عذاب سے نجات کی دعائیں کی جاتیں۔
جدید دور کے آنے تک کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ معمولی مکھی، مچھر اور پانی کے ایک قطرے سے اتنی بڑی اور خوفناک بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ اس سے پہلے تک اسے وہ زیادہ سے زیادہ بری آب و ہوا کو ذمہ دار ٹھہراتے یا اس کا الزام جنوں، بھوتوں اور دیوتاؤں کی ناراضی کو دیتے، بلکہ ایسی وباؤں سے غیر مرئی مخلوقات پر ان کا ایمان اور پختہ ہوجاتا۔ پھر بلیک ڈیتھ ہی واحد وبا نہیں جو انسانوں پر عذاب بن کر نازل ہوئی۔
مارچ1520 میں کیوبا کے ساحل سے ایک سپینی بحری جہاز میکسیکو پہنچا اور اپنے ساتھ چیچک کے وائرس کے شکار ایک فوجی کو بھی لایا جسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ اس کے جسم کے کروڑوں خلیوں میں سے کسی ایک میں ایک ایسا وائرس چھپا ہے جو کسی بڑے سے بڑے ہتھیار سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ میکسیکو پہنچ کر چیچک نے اس کے پورے جسم کو ڈھانپ لیا۔ اسے جس مقامی خاندان کے گھر میں علاج کے لیے لے جایا گیا ،وہ بھی اس کا شکار ہوگیا اور پھر ان سے ان کے پڑوسی تک پہنچا اور یوں وہ پوری آبادی میں پھیل گیا۔ صرف دس دن میں آس پاس کی پوری آبادی قبرستان میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اور پھر گاؤں گاؤں، قریہ قریہ پھیلتی اس بیماری نے پورے میکسیکو اور اس کے باہر تک کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لوگوں میں اس کے ساتھ عجیب و غریب افواہیں اور ضعیف الاعتقادی پھیل گئی کہ بدی کے تین خدا راتوں کو مختلف علاقوں میں پرواز کرکے جاتے ہیں اور وہاں یہ عذاب نازل کردیتے ہیں۔ مختلف فرقوں کے پیروکار ایک دوسرے کے خداؤں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے۔ جادو ٹونے، عملیات اور عبادات پر زور دیا جاتا۔ لاشیں گلیوں اور سڑکوں پر بکھری ہوتیں اور کوئی انہیں دفنانے کی ہمت نہ کرتا۔ آخر حکام نے حکم دیا کہ آس پاس کے مکانوں کو ان لاشوں پر گرا دیا جائے۔ کچھ علاقوں میں نصف سے زیادہ آبادی اس کا شکار ہوئی۔ مارچ 1520میں جب یہ جہاز میکسیکو پہنچا تھا میکسیکو کی آبادی22 ملین تھی۔ دسمبر تک یہ آبادی کم ہو کر صرف14 ملین رہ گئی۔ چیچک تو صرف ایک وبا تھی لیکن اس کے بعد پے در پے بخار، خسرہ وغیرہ کئی اور وبائیں یہاں پھوٹیں اور1580 تک یہاں کی آبادی صرف دو ملین رہ چکی تھی۔
دو صدیوں بعد برطانوی سیاح کیپٹن جیمز کک جب18 جنوری 1778 کو ہوائی کے جزیرے پر پہنچا تو وہاں کی آبادی 5 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ وہاں کے لوگ اس وقت تک یورپ اور امریکہ سے دور اپنے جزیرے پر الگ تھلگ رہتے تھے اور یورپی اور امریکی بیماریوں سے بھی ناواقف تھے۔ تاہم جب کیپٹن کک اور اس کے آدمی وہاں پہنچے تو اپنے ساتھ بخار، ٹی بی اور سوزاک جیسی بیماریاں بھی لائے۔ پھر مزید یورپی سیاحوں نے یہاں کا رخ کیا اور یہاں کے لوگوں کو ٹائیفائڈ اور چیچک سے متعارف کرا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1853 تک ہوائی کے جزیرے پر زندہ بچ جانے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے کم ہو کر ستر ہزار ہوگئی۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ایک اور جان لیوا وباء ’اسپینش فلو‘ کے نام سے پھیلی تھی۔ چند ماہ میں دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی یعنی قریب نصف ارب لوگ اس کے وائرس کا شکار ہوئے (بیمار ہوئے)۔ انڈیا کی پانچ فیصد آبادی (15 ملین لوگ) ہلاک ہوگئے۔ کسی جزیرے کے پندرہ فیصد، کسی کے بیس فیصد اور کسی کا پانچواں حصہ ختم ہوگیا۔ کل ملا کر ایک سال میں پچاس ملین سے ایک سو ملین تک لوگ اس وبا سے ہلاک ہوئے۔ یاد رہے کہ مقابلتاً1914 سے 1918 تک جاری رہنے والی پہلی جنگ عظیم میں چالیس ملین لوگ مارے گئے تھے۔
ان بڑی اور عالمی سطح پر تباہی پھیلانے والی وباؤں کے علاوہ بے شمار چھوٹی بڑی وبائیں مختلف علاقوں میں پھیلتی رہتیں جن سے لاکھوں لوگ ہر سال ہلاک ہوجاتے۔ گذشتہ صدی میں آبادی میں اضافے اور سفر کی سہولیات کی وجہ سے بھی وباؤں کا ایک سے دوسری جگہ جلدی سے پہنچ جانے کا خطرہ مزید بڑھ گیا۔ تاہم گذشتہ چند دہائیوں سے وباؤں کے اثرات اورپھیلنے کی رفتارمیں ڈرامائی کمی آچکی ہے۔ سب سے بڑھ کر بچوں کی اموات کی شرح اس وقت تاریخ میں سب سے کم ہے۔ اب یہ شرح دنیا میں پانچ فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے اور ترقی یافتہ ملکوں میں یہ شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ معجزہ بیسویں صدی میں ہونے والی طبی دریافتوں، ویکسین، اینٹی بایوٹک، اور بہترین طبی سہولیات کی فراہمی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
مثال کے طور پر1979میں عالمی ادارہ صحت نے چیچک کے خلاف جنگ جیت لینے کا اعلان کیا۔ یہ وہ پہلی خطرناک وبا تھی، جس کا زمین سے خاتمہ ممکن ہوا۔1967 تک بھی پندرہ ملین لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے جن میں سے دو ملین ہلاک ہوگئے تھے۔ لیکن 2014میں چیچک کا کوئی ایک بھی مریض سامنے نہیں آیا۔ یہاں تک کہ عالمی ادارے نے لوگوں کو چیچک کی ویکسین لگانا بند کردی۔ ابھی بھی ہر چند سال بعد کوئی نئی وبا پھوٹتی ہے جیسے 2002 میں سارس،2005 مین برڈ فلو،2009 مین سوائن فلو، 2014 میں ایبولا۔ لیکن جدید میڈیکل سائنس نے یہی ممکن بنایا کہ ان وباؤں کو پہلے کی طرح بے قابو ہونے سے روکا جاسکا۔ حتی کہ ایڈز جیسے موذی مرض کے علاج کے سلسلے میں بھی قابل لحاظ پیش رفت ہوچکی ہے۔
کیا جنگوں کا خاتمہ ممکن ہے؟
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا سے جنگوں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ تاریخ کے تمام ادوار میں جنگ ایک لازمی اور امن ایک عارضی حقیقت تھی۔ بین الاقوامی تعلقات میں جنگل کا قانون رائج تھا، جس کے مطابق دو ملکوں کے درمیان حالت امن میں بھی جنگ کا آپشن ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ مثلا 1913میں اگرچہ فرانس اور جرمنی میں امن تھا لیکن 1914 میں سب جانتے تھے کہ ان میں کسی بھی وقت جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ سیاستدانوں، جرنیلوں، تاجروں اور عام لوگوں کی طرف سے مستقبل کی کسی بھی منصوبہ بندی کا مطلب جنگ کی منصوبہ بندی تھا۔ پتھر کے زمانے سے انجن اور بھاپ کے زمانے تک، قطب شمالی سے صحارا تک زمین پر ہر شخص ہر وقت اس خدشے کا شکار رہتا تھا کہ نہ جانے کس وقت ان کا پڑوسی ملک ان پر حملہ کردے، ان کی فوج کو شکست دے دے اور ان کے لوگوں کا قتل عام کر کے ان کی زمین پر قبضہ جما لے۔
بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں جنگل کا یہ قانون اگرچہ ختم نہیں ہوسکا لیکن کمزور ضرور پڑ گیا۔ اکثر خطوں میں جنگ کا امکان کم ہوگیا۔ قدیم زرعی معاشروں میں پندرہ فیصد لوگ جنگوں اور انسانی کشت و خون سے ہلاک ہوتے تھے، بیسویں صدی میں انسانی تشدد اور جنگ سے مرنے والوں کی تعداد پانچ فیصد رہ گئی اور اکیسویں صدی کے آغاز میں صرف ایک فیصد لوگ جنگ و جدل کا نشانہ بنے۔2012 میں پوری دنیا میں مرنے والے لوگوں کی کل تعداد ۵۶ (چھپن) ملین تھی۔ ان میں سے چھ لاکھ بیس ہزار افراد انسانی تشدد سے ہلاک ہوئے جبکہ ایک لاکھ بیس ہزار لوگ جنگوں میں مارے گئے اور پانچ لاکھ لوگ جرائم کا شکار ہوئے۔ اس کے مقابلے میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد آٹھ لاکھ تھی اور پندرہ لاکھ لوگ ذیابیطس (شوگر) کی بیماری کے ہاتھوں جان سے گئے۔ اس وقت شوگر بارودی ہتھیاروں سے زیادہ خطرناک ہوچکی ہے۔
بہت سے لوگ اس لیے بھی جنگ کو ناقبل تصور سمجھنے لگے ہیں کہ نیوکلیر ہتھیاروں کے بعد یہ ایک اجتماعی خودکشی کے مترادف ہو سکتا ہے۔ اسی خوف نے طاقت ور قوموں کو تنازعات کے حل کے متبادل اور پرامن راستوں کی طرف مائل کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت مادی اشیا سے زیادہ علم کی بنیاد پر استوار ہورہی ہے۔ اس سے قبل دولت کمانے کے ذرائع مادی اثاثوں ،مثلا سونے کی کانوں، گندم کے کھیتوں اور تیل کے کنوؤں پر مبنی ہوتے تھے۔ آج دولت کے حصول کا بنیادی ذریعہ علم بن چکا ہے۔ آپ تیل کے کنویں پر جنگ کے ذریعے قبضہ کر سکتے ہیں لیکن آپ اس طریقے سے علم حاصل نہیں کرسکتے۔ دولت اور وسائل کے حصول کے لیے علم بنیادی ذریعہ قرار پانے سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ جنگ کی منافع خیزی میں کمی آئی ہے۔ اب جنگیں انہی خطوں تک محدود ہورہی ہیں مثلاً مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا وغیرہ جہاں معیشت ابھی تک مادی وسائل کے پرانے ذریعوں پر انحصار کر رہی ہے۔ ایک مثال دیکھیے۔ موبائل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ کی مینوفیکچرنگ کے لیے کولٹن نامی سیاہی مائل دھات کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا میں کولٹن کے80 فیصد ذخائر کانگو میں ہیں۔ کانگو کے پڑوسی ملک روانڈا نے 1998 میں کولٹن دھات لوٹنے کے لیے کانگو پر حملہ کردیا۔ روانڈا نے اس لوٹی گئی کولٹن سے 240 ملین ڈالر سالانہ کمائے۔ روانڈا جیسے غریب ملک کے لیے یہ ایک بڑی رقم تھی۔ دوسری طرف چین کو اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا کہ وہ کیلیفورنیا کی سلیکان ویلی پر جنگ کے ذریعے قبضہ کرلیتا جو دنیا میں موبائل اور لیپ ٹاپ تیکنالوجی کا گڑھ ہے۔ اگر بالفرض وہ ایسا کربھی لیتا تو وہاں لوٹنے کے لیے کوئی مائنز نہیں تھیں۔ اس کے بجائے چین نے ایپل اور مائکروسافٹ جیسی وہاں کی بڑی بڑی کمپنیوں کے ساتھ تعاون کر کے، ان کا سافٹ ویر خرید کر اور مینوفیکچرنگ کے ٹھیکوں سے اربوں ڈالر کما لیے۔ روانڈا نے کانگو کی کولٹن لوٹ کر جتنی رقم ایک سال میں بنائی چین نے اتنی رقم تعاون پر مبنی پرامن معیشت کے ذریعے ایک دن میں کمالی۔
مطلب یہ کہ لفظ “امن” کا ایک نیا مفہوم سامنے آیا ہے۔ پہلے زمانے میں امن کا مطلب تھا عارضی طور پر جنگ کا نہ ہونا۔ آج ہم اسے جنگ کے خدشے کو معدوم کرنے کے مترادف کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ 1913 میں جب لوگ کہتے تھے کہ فرانس اور جرمنی میں امن ہے تو ان کا مطلب ہوتا تھا کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان عارضی طور پر جنگ رکی ہوئی ہے۔ کسی کو کچھ خبر نہیں تھی کہ اگلے سال کیا ہونے والا ہے۔ جب آج ہم کہتے ہیں کہ فرانس اور جرمنی میں امن قائم ہے تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں آنے والے ممکنہ حالات میں ان دونوں کے درمیان جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔یہ نیا حاصل ہونے والا امن محض کسی تخیل کی پیداوار نہیں ہے۔ طاقت کی بھوکی حکومتیں اور لالچی کارپوریشنیز بھی اب امن پر بھروسہ کرتی ہیں۔ جب مہنگی کاروں کی کمپنی مرسڈیز مشرقی یورپ میں اپنی کاروں کی فروخت کی حکمت عملی بناتی ہے تو وہ اس امکان کو مسترد کردیتی ہے کہ اب کبھی جرمنی پولینڈ پر حملہ کرسکتا ہے۔ جو کمپنی فلپائن سے کم اجرت لینے والے مزدور بلاتی ہے تو اس کو یہ خدشہ نہیں ہوتا کہ اگلے سال انڈونیشیا فلپائن پر چڑھ دوڑے گا۔ اب بجٹ اجلاس میں برازیل کا وزیر دفاع میز پر مکہ مار کر یہ مطالبہ نہیں کرسکتا کہ یوراگوئے کو فتح کرنے کے لیے انہیں پانچ ارب ڈالر دیے جائیں۔ یقینا ًابھی دنیا میں ایسے ممالک ہیں جہاں کے وزیر دفاع اور فوج کے جرنیل ایسے مطالبے کرتے ہیں، اور جہاں ابھی نیا امن حاصل نہیں ہوسکا، لیکن یہ اب استثنائی مثالیں ہیں۔
(بشکریہ www.tajziat.com)