نفاذِ اسلام کے فکری مسائل میں دستور سازی، قانون سازی اور معاہدہ عمرانی (سوشل کنٹریکٹ) کی اصطلاحات علمی و فکری حلقوں میں مسلسل زیربحث ہیں اور ان کے حوالہ سے مختلف افکار و نظریات سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ قرآن و سنت اور فقہ و شریعت کی صورت میں اسلامی احکام و قوانین کا وسیع ترین ذخیرہ موجود ہے اس لیے کسی قسم کی دستور سازی، قانون سازی اور عمرانی معاہدات کی ضرورت نہیں ہے۔ اور چونکہ ایک اسلامی ریاست قرآن و سنت اور فقہ و شریعت کی ہدایات کے مطابق مملکت و حکومت کا نظام چلانے کی پابند ہے اس لیے مزید قانون سازی محض تکلف ہے۔ جبکہ دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ جب سے قومی ریاستوں کا دور چلا ہے تب سے کسی بھی ریاست کے لیے دستور سازی اور قانون سازی ایک ناگزیر امر کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور ریاست کے شہریوں کے درمیان معاشرت کے بنیادی اصولوں پر اتفاق رائے کے اظہار کے لیے سوشل معاہدہ اس کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
معاہدہ عمرانی سے مراد یہ ہے کہ ایک ملک کے شہری کچھ بنیادی اصولوں اور اخلاقیات پر اتفاق کر لیں تاکہ ان کے مطابق ان کے ملک کا سیاسی، مالیاتی، انتظامی، عدالتی اور معاشرتی نظم چلایا جا سکے۔ ان اصولوں کی روشنی میں حکومت چلانے کے لیے جو اصول و ضوابط طے پاتے ہیں وہ دستور کہلاتے ہیں اور دستور کے عملی اطلاق و تنفیذ کے لیے جو قوانین و ضوابط تشکیل دیے جاتے ہیں انہیں قانون سازی کے دائرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’قراردادِ مقاصد‘‘ کو ’’معاہدہ عمرانی‘‘ کی حیثیت حاصل ہے جس کی بنیاد پر دستورِ پاکستان ترتیب پایا ہے۔ اور دستور کی روشنی میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں اس پر عملدرآمد کے لیے قانون سازی کرتی ہیں۔
قراردادِ مقاصد تین بنیادی اصولوں پر مشتمل ہے:
- حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔
- حکمرانی کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے۔
- حکومت اور پارلیمنٹ اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے پابند ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ حضرات جو ان اصولوں سے اتفاق نہیں رکھتے اور دستور و نظام کو اللہ تعالیٰ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور وحی الٰہی کے حوالہ سے خالی دیکھنا چاہتے ہیں، ان کی طرف سے یہ مطالبہ وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہتا ہے کہ نئے عمرانی معاہدہ کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کی دیگر بہت سی قومی ریاستوں کی طرح پاکستان کے دستور و قانون کو بھی آسمانی تعلیمات کے دائرے سے الگ کیا جا سکے۔ یا اگر قرآن و سنت کا تذکرہ ضروری ہو تو اس کی حیثیت برطانیہ کی بادشاہت کی طرح محض علامتی سی ہو اور آسمانی تعلیمات کا ملک کے دستور و قانون اور نظام و معاشرت میں کوئی عملی کردار باقی نہ رہے۔
ایک دور تھا جب دنیا میں حکومت و قانون کی دو بنیادیں ہوتی تھیں:
- آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام حکومت کرتے تھے، اور
- طاقت و قوت کے زور سے بادشاہ حضرات مقبوضہ علاقوں میں حکومت قائم کر لیتے تھے۔
حضرات انبیاء کرام کی حکومت عام طور پر دعوت و اصلاح کی محنت کے ذریعہ قائم ہوتی تھی جیسا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ پر طاقت کے زور سے قبضہ نہیں کیا تھا بلکہ دعوت و اصلاح کے ساتھ ساتھ یثرب کے دو بڑے قبائل اوس اور خزرج کے ساتھ کم و بیش تین سال کے طویل مذاکرات کے بعد ان کی حکومت تشکیل پائی تھی۔ جبکہ خلافت کا آغاز بھی طاقت کے بل پر نہیں ہوا تھا کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق نے حکومت جنگ کے ذریعہ حاصل نہیں کی تھی بلکہ امت کی اجتماعی صوابدید حضرت ابوبکر کے حق حکمرانی کی اساس بنی تھی۔ اس لیے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ اسلامی ریاست و حکومت کی اصل بنیاد طاقت و قوت نہیں بلکہ دعوت و اصلاح اور مکالمہ و مذاکرہ ہے۔ اور اس ذریعہ سے وجود میں آنے والی ریاست و حکومت ہی ایک مثالی اور آئیڈیل اسلامی حکومت کہلا سکتی ہے۔
چنانچہ قرآن و سنت کی بالادستی سے ہٹ کر کسی نئے عمرانی معاہدہ کی تو اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن کیا قرآن و سنت کی بالادستی پر ایمان رکھتے ہوئے ان کی روشنی میں کی جانے والی قانون سازی کا بھی کوئی جواز نہیں ہے؟ ہمارے خیال میں اس بات سے اتفاق ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ قانون سازی قرآن و سنت کے احکام سے انحراف نہیں بلکہ انہی احکام و قوانین کے نظام و ترویج کی عملی صورتیں پیدا کرنے کے لیے کی جاتی ہے کیونکہ حالات کے تغیر کے ساتھ ساتھ ہر زمانہ میں ان عملی صورتوں پر نظر ثانی کی ضرورت سامنے آتی رہتی ہے جسے نظر انداز کردینا ممکن نہیں ہوتا۔ صحابہ کرام کی جماعت اور ان کا زمانہ اس حوالہ سے ہمارے لیے مثالی حیثیت رکھتا ہے اس لیے کہ حضرات خلفاء راشدین اور ان کے ساتھ حضرت امیر معاویہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر نے اپنے اپنے دورِ خلافت میں احکام شرعیہ پر عملدرآمد کے لیے اپنے ماتحتوں کو جو ہدایات جاری کیں وہ کم و بیش سبھی حدیث و تاریخ کے ذخیرہ میں محفوظ ہیں۔ انہیں اگر ترتیب کے ساتھ جمع کر لیا جائے تو دورِ صحابہ کی قانون سازی کا ایک مسلسل عمل ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ ان میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے نفاذ کی عملی صورتیں خلفاء کرام نے متعین فرمائیں اور اسی کو قانون سازی کہا جاتا ہے۔ ان میں وہ بیسیوں فیصلے بھی موجود ہیں جو اجتماعی مشاورت کے ساتھ طے پائے اور اگر ان مشاورتی مجالس کو قانون سازی کی مجالس سے تعبیر کر دیا جائے تو یہ کوئی خلافِ واقعہ بات نہیں ہوگی۔
پھر امام ابوحنیفہ نے تو اس قانون سازی کو مستقل فقہی عمل کی حیثیت دے دی تھی۔ ان کی فقہی مجلس میں باہمی مشاورت و مذاکرہ کے ذریعہ جو قوانین مرتب کیے گئے وہ ایک لاکھ کے لگ بھگ بتائے جاتے ہیں اور وہ صدیوں تک خلافت عباسیہ، خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت میں نافذ العمل رہے۔ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کی ایک علمی مجلس میں اس منظم اور مرتب قانون سازی کا میں نے ذکر کیا تو ایک فاضل دوست نے کہا کہ یہ پرائیویٹ عمل تھا جسے قبولیت عامہ حاصل ہوگئی جبکہ سرکاری سطح پر اس طرح کا کوئی باضابطہ کام اس دور میں نہیں ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ مغالطہ ہے کیونکہ سرکاری سطح پر بھی اسی دور میں یہ کام ہوگیا تھا۔ نامور عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے چیف جسٹس قاضی ابویوسف سے فرمائش کر کے اسلام کے مالیاتی قوانین مرتب کروائے تھے جو نافذ العمل رہے، اور یہ مجموعہ قوانین ’’کتاب الخراج‘‘ کے نام سے اب بھی ہر بڑے دینی ادارہ کی لائبریری میں موجود ہے۔ اس سلسلہ میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ امام ابویوسف کی اس کتاب کا نام ’’الخراج‘‘ ہے او رکہنے کو یہ مالیاتی قوانین کا مجموعہ ہے جو عباسی دور میں باقاعدہ نافذ العمل تھا۔ لیکن اس میں صرف مالیاتی قوانین نہیں ہیں بلکہ
- حکمرانوں کے آداب و فرائض،
- عدالتی نظام،
- غیر مسلم رعایا کے حقوق،
- دوسرے ملکوں کے شہریوں کے ساتھ معاملات،
- عمال کا احتساب،
- حاکم و رعیت کے تعلقات کار،
- خلفاء راشدین کے اجتہادی فیصلے،
- اور ان جیسے دیگر بہت سے اہم معاملات پر شرعی احکام و ضوابط کا تذکرہ بھی اس میں شامل ہے۔
میں کتاب پر نظر ڈالتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ وہ دور اگرچہ آج کی طرح کی منظم دستور سازی کا زمانہ نہیں تھا لیکن اگر کسی فرد یا جماعت کو دستور سازی کا کام سونپا جاتا تو وہ بھی کم و بیش وہی کچھ کرتا جو امام ابویوسف نے کیا ہے۔ اس لیے قرآن و سنت کے اصول و ضوابط کی روشنی میں احکام شرعیہ کو عملی قوانین کی شکل دینا، نہ صرف ان پر عملدرآمد کا تقاضا ہے بلکہ صحابہ کرام، خلفاء راشدین، اور فقہاء عظام کی علمی خدمات کا تسلسل بھی ہے جس کی افادیت و ضرورت سے کسی دور میں صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں ہے۔