مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا شمار عصر حاضر کے ان ممتاز مفکرین میں ہوتا ہے جنھوں نے بطور ایک اجتماعی نظام کے، اسلام کے تعارف پر توجہ مرکوز کی اور مختلف پہلووں سے اس بحث کو تحقیق وتصنیف کا موضوع بنایا۔ مولانا کی دینی فکر میں اسلامی ریاست کا قیام، جس کو وہ اپنی مخصوص اصطلاح میں ’’حکومت الٰہیہ‘‘ کا عنوان دیتے ہیں، بے حد اساسی اہمیت کا حامل ہے اور وہ اسے مسلمانوں کے ایک اجتماعی فریضے کا درجہ دیتے ہیں۔ اسلام چونکہ محض پوجا اور پرستش کا مذہب نہیں، بلکہ انسانی زندگی میں مخصوص اعتقادی واخلاقی اقدار اور متعین احکام وقوانین کی عمل داری کو بھی اپنا مقصد قرار دیتا ہے، اس لیے بیسویں صدی میں مسلم قومی ریاستوں کے ظہور نے حیات اجتماعی کے دائرے میں مسلمان معاشروں کی تشکیل نو اور بالخصوص مذہب کے کردار کو اہل دانش کے ہاں غور وفکر اور بحث ومباحثہ کا ایک زندہ موضوع بنا دیا۔ مذہب کے اجتماعی کردار کا سوال اپنے متنوع پہلووں کے ساتھ ان مفکرین کے غور وفکر اور مطالعہ وتحقیق کا موضوع بنا جو جدید تہذیبی رجحانات کے علی الرغم ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کو نہ صرف مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، بلکہ ریاست کو خالص مذہبی ونظریاتی اساسات پر استوار کرنا چاہتے تھے۔ مولانا مودودی کا شمار اس طرز فکر کے حامل قائدین کی صف اول میں ہوتا ہے۔ چنانچہ تقسیم ہند سے قبل مولانا نے ’’موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے زیر عنوان ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں کئی قسطوں پر مشتمل ایک مفصل تجزیاتی تحریر لکھی جس میں معروضی صورت حال میں مسلم لیگ اور جمعیۃ علمائے ہند وغیرہ کی طرف سے مسلمانان ہند کے لیے تجویز کیے جانے والے لائحہ ہائے عمل پر زوردار تنقید کی اور متحدہ قومیت اور لبرل جمہوری ریاست کے تصورات کے بالمقابل حکومت الٰہیہ یعنی اسلامی ریاست کے قیام کو مسلمانوں کے لیے واحد شرعی لائحہ عمل قرار دیا۔
مولانا کے نتائج فکر پر مختلف حوالوں سے بحث وتمحیص اور نقد واختلاف کی گنجائش موجود ہے اور ان کی فکر میں ارتقا کے بعض اہم پہلو بھی خاص توجہ کا تقاضا کرتے ہیں (جس کی کچھ تفصیل ہماری کتاب ’’جہاد۔ ایک مطالعہ‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے،) تاہم اس کا ایک بے حد قیمتی اور قابل قدر ہے اور وہ یہ کہ مولانا کے معاصر تناظر میں زمینی حقائق کا بھرپور ادراک بھی موجود ہے اور وہ عصری صورت حال کی پیچیدگیوں سے پوری پوری آگاہی رکھتے ہیں۔ آئندہ سطور میں ہم اس حوالے سے مولانا کی فکر کے چند اہم پہلووں کا مختصر جائزہ لیں گے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد نظری سطح پر اس حوالے سے زوردار بحث شروع ہو گئی تھی کہ نئی ریاست کو ایک سیکولر جمہوری ریاست ہونا چاہیے یا ایک اسلامی ریاست۔ اس بحث میں مولانا مودودی نے بھی بھرپور حصہ لیا اور آخر کار عوامی سطح پر جماعت اسلامی کی محنت اور دستور ساز اسمبلی میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے رفقا کی جدوجہد کے نتیجے میں ۱۹۵۶ء کے دستور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی دفعات شامل کر لی گئیں۔ اس تناظر میں ڈاکٹر احمد حسین کمال اور مولانا مودودی کے مابین اس نکتے کے حوالے سے تفصیلی مراسلت ہوئی کہ کیا اس دستور کو ایک اسلامی دستور قرار دیا جا سکتا ہے، جبکہ اس کی رو سے شریعت کے قوانین کا نفاذ مجلس قانون ساز اور صدر مملکت کی منظوری کا محتاج ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی میں مسلم وغیر مسلم اراکین دونوں کو یکساں حق رائے دہی حاصل ہے۔
ڈاکٹر احمد حسین کمال کے اٹھائے ہوئے ان سوالات کے جواب میں مولانا نے دو تفصیلی مکتوب تحریر کیے جن میں انھوں نے نفاذ شریعت کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کو واضح کیا۔ یہ مکاتیب ترجمان القرآن کے دسمبر ۱۹۵۶ء کے شمارے میں شائع ہوئے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’آپ نے جن مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے، ان کے متعلق ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہم اپنی تحریک خلا میں نہیں چلا رہے ہیں، بلکہ واقعات کی دنیا میں چلا رہے ہیں۔ ۔۔۔ دستور اسلامی کے بارے میں جو باتیں آپ نے لکھی ہیں، ان میں سے کوئی بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ہے، نہ کبھی پوشیدہ تھی، لیکن یہاں ایک کھلی کھلی لادینی ریاست کا قائم ہو جانا ہمارے مقصد کے لیے اس سے بہت زیادہ نقصان دہ ہوتا جتنا اب اس نیم دینی نظام کا نقصان آپ کو نظر آ رہا ہے۔‘‘ (’’مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور ان کا طریق فکر‘‘، مرتب: محمد ریاض درانی، جمعیۃ پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۱ء، ص ۱۰۸، ۱۰۹)
’’ہم جس ملک اور جس آبادی میں بھی ایک قائم شدہ نظام کو تبدیل کر کے دوسرا نظام قائم کرنے کی کوشش کریں گے، وہاں ایسا خلا ہم کو کبھی نہ ملے گا کہ ہم بس اطمینان سے ’’براہ راست‘‘ اپنے مقصود کی طرف بڑھتے چلے جائیں۔ لامحالہ اس ملک کی کوئی تاریخ ہوگی، اس آبادی کی مجموعی طور پر اور اس کے مختلف عناصر کی انفرادی طور پر کچھ روایات ہوں گی۔ کوئی ذہنی اور اخلاقی اور نفسیاتی فضا بھی وہاں موجود ہوگی۔ ہماری طرح کچھ دوسرے دماغ اور دست وپا بھی وہاں پائے جاتے ہوں گے جو کسی او رطرح سوچنے والے اور کسی اور راستے کی طرف اس ملک اور اس آبادی کو لے چلنے کی سعی کرنے والے ہوں گے۔ ۔۔۔ ان حالات میں نہ تو اس امر کا کوئی امکان ہے کہ ہم کہیں اور سے پوری تیاری کر کے آئیں اور یکایک اس نظام کو بدل ڈالیں جو ملک کے ماضی اور حال میں اپنی گہری جڑیں رکھتا ہے، نہ یہ ممکن ہے کہ اسی ماحول میں رہ کر کشمکش کیے بغیر کہیں الگ بیٹھے ہوئے اتنی تیاری کر لیں کہ میدان مقابلہ میں اترتے ہی سیدھے منزل مقصود پر پہنچ جائیں اور نہ اس بات ہی کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ ہم اس کشمکش میں سے گزرتے ہوئے کسی طرح ’’براہ راست‘‘ اپنے مقصود تک جا پہنچیں۔ ہمیں لامحالہ واقعات کی اس دنیا میں موافق عوامل سے مدد لیتے ہوئے اور مزاحم طاقتوں سے کشمکش کرتے ہوئے بتدریج اور بروقت اٹھا دینا ہوگا۔‘‘ (ایضاً، ص ۱۱۶، ۱۱۷)
’’واقعات کی دنیا میں ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں، وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مجالس قانون ساز کے قیام کی ابتداء انگریزوں کے دور حکومت میں ہوئی۔ اس نظام کو انھوں نے اپنے نظریات کے مطابق قومی، جمہوری، لادینی ریاست کے اصولوں پر قائم کیا۔ انھی اصولوں پر سالہا سال تک اس کا مسلسل ارتقا ہوتا رہا اور انھی اصولوں پر نہ صرف پوری ریاست کا نظام تعمیر ہوا، بلکہ نظام تعلیم نے ان کو پوری طرح اپنا لیا اور بحیثیت مجموعی سارے معاشرے نے ان کے ساتھ مطابقت پیدا کر لی۔ ان واقعات کی موجودگی میں جتنے کچھ ذرائع ہمارے (یعنی دینی نظام کے حامیوں کے) پاس تھے، ان کو دیکھتے ہوئے یہ بھی کوئی آسان کام نہ تھا کہ کم از کم آئینی حیثیت سے اس عمارت کی اصل کافرانہ بنیاد (لادینیت) کو بدلوا کر اس کی جگہ وہ بنیاد رکھ دی گئی جس کی بنا پر آپ موجودہ دستور کو نیم دینی تسلیم کر رہے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص ۱۲۱، ۱۲۲)
غلبہ دین کی جدوجہد میں تدریج کی حکمت عملی کی اہمیت اور اس کے بنیادی اصولوں کو واضح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’اسلامی نظام زندگی جن لوگوں کو قائم کرنا اور چلانا ہو، انھیں آنکھیں بند کر کے حالات کا لحاظ کیے بغیر پورا کا پورا نسخہ اسلام یک بارگی استعمال نہ کر ڈالنا چاہیے، بلکہ عقل اور بینائی سے کام لے کر زمان ومکان کے حالات کو ایک مومن کی فراست اور فقیہ کی بصیرت وتدبر کے ساتھ ٹھیک ٹھیک جانچنا چاہیے۔ جن احکام اور اصولوں کے نفاذ کے لیے حالات سازگار ہوں، انھیں نافذ کرنا چاہیے اور جن کے لیے حالات سازگار نہ ہوں، ان کو موخر رکھ کر پہلے وہ تدابیر اختیار کرنی چاہییں جن سے ان کے نفاذ کے لیے فضا موافق ہو سکے۔ اسی چیز کا نام حکمت یا حکمت عملی ہے جس کی ایک نہیں، بیسیوں مثالیں شارع کے اقوال اور طرز عمل میں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت دین بدھوؤں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔
ثانیاً، اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب زمان ومکان کے حالات کی وجہ سے اسلام کے دو احکام یا اصولوں یا مقاصد کے درمیان عملاً تضاد واقع ہو جائے، یعنی دونوں پر بیک وقت عمل کرنا ممکن نہ رہے تو دیکھنا چاہیے کہ شریعت کی نگاہ میں اہم تر چیز کون سی ہے اور پھر جو اہم تر ہو اس کی خاطر شرعی نقطہ نظر سے کم تر اہمیت رکھنے والی چیز کو اس وقت تک ترک کر دینا چاہیے جب تک دونوں پر ایک ساتھ عمل کرنا ممکن نہ ہو جائے۔ ۔۔۔
ثالثاً، اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جہاں قبائلیت اور برادریوں کے تعصبات یا دوسری گروہی عصبیتیں زندہ ومتحرک ہوں، وہاں ان سے براہ راست تصادم کرنا مناسب نہیں ہے بلکہ جہاں جس قبیلے یا برادری یا گروہ کا زور ہو، وہاں اسی کے نیک لوگوں کو آگے لانا چاہیے تاکہ زور آور گروہ کی طاقت اسلامی نظام کے نفاذ کی مزاحم بننے کے بجائے اس مددگار بنائی جا سکے اور بالآخر نیک لوگوں کی کارفرمائی سے وہ حالات پیدا ہو سکیں جن میں ہر مسلمان مجرد اپنی دینی واخلاقی اور ذہنی صلاحیت کی بنا پر بلا لحاظ نسل ونسب ووطن سربراہی کے مقام پر آ سکے۔ ۔۔۔
رہا اس پر کسی کا یہ اعتراض کہ اس نوع کے تصرفات کرنے کا حق صرف شارع کو پہنچتا تھا، دوسرا کوئی اس کا مجاز نہیں ہو سکتا تو میں صاف عرض کروں گا کہ یہ بات اگر مان لی جائے تو فقہ اسلامی کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے کیونکہ اس کا تو سارا نشو وارتقاء ہی اس بنیاد پر ہوا ہے کہ شارع کے زمانے میں جو حوادث اور معاملات پیش آئے تھے، ان میں شارع کے احکام اور تصرفات اور طرز عمل کا گہرا مطالعہ کر کے وہ اصول اخذ کیے جائیں جو شارع کے بعد پیش آنے والے حوادث ومعاملات پر منطبق ہو سکتے ہوں۔ اس کا دروازہ بند ہو جائے تو پھر فقہ اسلامی صرف انھی حوادث ومعاملات کے لیے رہ جائے گی جو شارع کے زمانے میں پیش آئے تھے۔ بعد کے نئے حالات میں ہم بالکل بے بس ہوں گے۔‘‘ (’’تفہیم الاحادیث‘‘، مرتب: وکیل احمد علوی، ادارۂ معارف اسلامی، لاہور، ۶؍۴۵۴، ۴۵۵)
اسی ضمن میں مولانا مودودی نے اپنی تحریروں او ربیانات میں یہ نکتہ بھی غیر مبہم انداز میں واضح کیا ہے کہ جدید جمہوری ریاستوں میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کا صرف وہی راستہ جائز ہے جو آئین وقانون کی حدود کے اندر ہو، جبکہ غیر آئینی طریقوں سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ شرعاً درست ہوگی اور نہ حکمت عملی کی رو سے۔ اس حوالے سے مولانا کی بعض تصریحات کو یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔
مولانا سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا موجودہ صورت حال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہو گیا؟‘‘ اس کے جواب میں فرمایا:
’’فرض کیجیے کہ بہت سے لوگ مل کر آپ کی صحت بگاڑنے میں لگ جائیں تو کیا آپ ان کی دیکھا دیکھی خود بھی اپنی صحت بگاڑنے کی کوشش میں لگ جائیں گے؟ بہت برا کیا گیا کہ غیر آئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے اور بہت برا کریں گے اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیر آئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک علانیہ اور دوسری خفیہ۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
علانیہ طور پر غیر آئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہوگا، وہ زیادہ برا ہوگا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہندوستان میں تحریک آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج پچیس سال بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جا سکا۔
اگر خفیہ طریقے سے غیر آئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختار کل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک ان ہی کی مرضی پر چلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہار بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دی جاتی ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسر اقتدار آئیں گے تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹا کر دوسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں تو خلق خدا کے لیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟
میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار بھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔ .... آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیر آئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔‘‘ (’’تصریحات‘‘، مرتب: سلیم منصور خالد، البدر پبلی کیشنز لاہور، ص ۲۵۷، ۲۵۸)
مزید فرماتے ہیں:
’’بکثرت لوگ اس الجھن میں پڑ گئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے یا نہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیر جمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ہمار ے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اس طرح سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن ہم اس پوری صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور اس کی پیدا کردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام جسے برپا کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جا سکے تو وہ دیرپا نہیں ہو سکتا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیر جمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظام زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کر کے انھیں ہم خیال بنایا جائے اور ان کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ .....
کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جا سکتا ہے بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے اور خود اس کے ائمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی رائے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے، لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور ان کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک اور خواص (خصوصاً کار فرماؤں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اس کے اصول واحکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، انداز فکر اور سیرت وکردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلند پایہ اصول واحکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہو سکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل ودماغ میں نہیں ٹھونسی جا سکتی، بلکہ ان میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد وافکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اقدار (Values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں اور ان کو اس حد تک ابھار دیا جائے کہ وہ اپنے اوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کر دینے کے لیے کوئی اقدام اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہو جائے۔‘‘ (ایضاً، ص ۳۲۰-۳۲۲)
مولانا سے سوال ہوا کہ اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟ جواب میں فرمایا:
’’یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ اسلامی انقلاب بہت جلد آ رہا ہے؟ آپ اس قسم کی غلط توقعات قائم نہ کریں۔ بے جا توقعات سے مایوسی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے پہلے بھی اخلاقی حالت بگڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کے بعد اس بگاڑ میں اور اضافہ ہوا۔ اس ساری مدت میں اصلاح کی طرف کماحقہ توجہ نہ ہوئی۔ ہمارے بس میں جو کچھ ہے، وہ ہم کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل سے جو افراد دین کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں، وہ سرگرمی کے ساتھ اصلاح کے کام کا بیڑا اٹھائیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس تمام تر مساعی کے نتیجے میں حالت کب بدلے گی۔ ایک طرف شیطان اپنا کام کر رہا ہے، دوسری طرف ہم اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں، لیکن ہمیں توقع ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ ہمارے کرنے کی جو چیز ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ باقی معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص ۳۴۰)
’’میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں۔ میری یہ رائے کسی سے خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ میں سالہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخر کار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔ انھی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین وقانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتیٰ کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں، ان کو بھی میں نے آئینی وجمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ .... یہی عقیدہ جماعت اسلامی کا بھی ہے۔ اس کے دستور کی دفعہ ۵ میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ہم ایسے ذرائع اور طریقے کبھی استعمال نہیں کریں گے جو صداقت ودیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔ ہم جو کچھ کریں گے، جمہوری اور آئینی طریقوں سے کریں گے اور خفیہ طریقوں سے نہیں بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کریں گے۔‘‘ (ایضاً، ص ۹۲)
مولانا نے یہ بات بھی واشگاف الفاظ میں واضح کی کہ اگر خدا نخواستہ پاکستان کو ایک غیر اسلامی ریاست بنانے کے خواہش مند عناصر اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائیں تو بھی جدوجہد کا راستہ ایک تحریک اصلاح برپا کرنا ہی ہوگا نہ کہ مسلح انقلاب برپا کرنے کی کوئی کوشش۔ لکھتے ہیں:
’’واضح طور پر سمجھ لیجیے کہ یہاں اسلامی نظام کا قیام صرف دو طریقوں سے ممکن ہے:
ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمام کار ہے، وہ اسلام کے معاملے میں اتنے مخلص اور اپنے ان وعدوں کے بارے میں جو انھوں نے اپنی قوم سے کیے تھے، اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے، اسے خود محسوس کر لیں اور ایمان داری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہو گیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام تعمیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اہل ہوں۔ ۔۔۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک عمومی تحریک اصلاح کے ذریعے سے اس میں خالص اسلامی شعور وارادے کو بتدریج اس حد تک نشو ونما دیا جائے کہ جب وہ اپنی پختگی کو پہنچے تو خود بخود اس سے ایک مکمل اسلامی نظام وجود میں آ جائے۔
ہم اس وقت پہلے طریقے کو آزما رہے ہیں۔ اگر اس میں ہم کامیاب ہو گئے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پاکستان کے قیام کے لیے ہماری قوم نے جو جدوجہد کی تھی، وہ لاحاصل نہ تھی بلکہ اس کی بدولت اسلامی نظام کے نصب العین تک پہنچنے کے لیے ایک سہل ترین اور قریب ترین راستہ ہمارے ہاتھ آ گیا، لیکن اگر خدا نخواستہ ہمیں اس میں ناکامی ہوئی اور اس ملک میں ایک غیر اسلامی ریاست قائم کر دی گئی تو یہ مسلمانوں کی ان تمام محنتوں اور قربانیوں کا صریح ضیاع ہوگا جو قیام پاکستان کی راہ میں انھوں نے کیں اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم پاکستان بننے کے بعد بھی اسلامی نقطہ نظر سے اسی مقام پر ہیں جہاں پہلے تھے۔ اس صورت میں ہم پھر دوسرے طریقے پر کام شروع کر دیں گے جس طرح پاکستان بننے سے پہلے کر رہے تھے۔‘‘ (ابوالاعلیٰ مودودی: ’’اسلامی ریاست۔ فلسفہ، نظام کار اور اصول حکمرانی‘‘، مرتب: خورشید احمد، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور، اکتوبر ۲۰۱۰ء، ص ۶۳۶، ۶۳۷)
گزشتہ معروضات سے واضح ہے کہ مولانا مودودی نے بالکل ابتدا میں ہی ان سوالات کو گہری فکری سطح پر موضوع بنا لیا تھا جو جذباتیت، بے صبری اور غیر معروضی زاویہ نظر سے ذہنوں میں پیدا ہو رہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ آگے چل کر بعینہ وہی سوالات ہمارے ہاں انھی فکری بنیادوں پر پیدا ہوئے جن کی واضح نفی مولانا مودودی نے اپنی تحریروں میں کی تھی اور خود جماعت اسلامی کے حلقہ فکر سے وابستہ نوجوان نسل اس انتہا پسندانہ فکر سے شدید طور پر متاثر ہوئی۔ اس کے اسباب ووجوہ ایک مستقل تجزیے کا تقاضا کرتے ہیں، تاہم اتنا واضح ہے کہ مولانا کی پیش کردہ صریح اور واضح فکر حالات کے اتار چڑھاؤ میں رفتہ رفتہ نظروں سے اوجھل ہوتی گئی اور شدت پسندی کے بیانیے نے وسیع پیمانے پر ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
اسی ضمن میں مولانا کی دینی واجتہادی بصیرت کے اسی نوعیت کے ایک اور پہلو کی طرف اہل فکر کو دوبارہ متوجہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ مذہبی شدت پسندی اور عسکریت کے جس عفریت کا ہمیں سامنا ہے، اس کے اسباب میں سے اہم ترین سبب نجی سطح پر جہادی سرگرمیوں کی تنظیم ہے۔ پوری اسلامی روایت اس پر متفق رہی ہے کہ اگر مسلمان کسی جگہ ایک نظم اجتماعی کے تحت رہ رہے ہوں تو ان کی طرف سے کسی دوسرے ملک کے ساتھ جنگ کا فیصلہ ان کا نظم اجتماعی ہی کر سکتا ہے اور یہ کہ اگر مسلمان مختلف علاقوں میں ایک سے زیادہ نظام ہائے اجتماعی کے تحت زندگی بسر کر رہے ہوں تو ان میں سے ہر نظم اجتماعی اپنی ذمہ داریوں کا تعین اور اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ کسی نجی گروہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ نظم اجتماعی کے اختیار کو اپنے ہاتھ میں لے اور قوم کی طرف سے فیصلے کا حق تفویض کیے جانے کے بغیر ازخود کوئی فیصلہ کر کے اس کے نتائج وعواقب کی ذمہ داری پوری قوم پر ڈال دے۔
مولانا مودودی نے اپنی تحریروں میں اس حوالے سے درج ذیل تین بنیادی نکات کی وضاحت کی ہے:
ایک یہ کہ مسلمانوں کا لازمی طور پر کسی ایک ہی نظم اجتماعی کے تحت سیاسی طور پر متحد ہونا ضروری نہیں اور سیاسی وحدت کا ہرگز یہ تقاضا نہیں کہ الگ الگ اور خود مختار حکومتوں کے جواز کی نفی کی جائے۔
دوسرے یہ کہ جنگ کا فیصلہ اور اعلان کرنے کا اختیار صرف اور صرف منتخب ارباب اقتدار کو حاصل ہے۔ غیر حکومتی گروہ اگر یہ اختیار اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے تو اس سے چند در چند قانونی اور اخلاقی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔
تیسرے یہ کہ مسلمانوں کی حکومت اس ضمن میں کسی بھی ملک کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی لفظاً ومعناً پابندی کرے گی اور معاہدے بظاہر قائم رکھتے ہوئے ایسی خفیہ سرگرمیوں کی اجازت یا ان کی تائید نہیں کرے گی جو معاہدے کے خلاف ہوں۔
پہلے نکتے کی وضاحت میں ’’خلافت وملوکیت‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’دنیا میں جہاں بھی ان اصولوں پر کوئی حکومت قائم ہوگی، وہ لازماً اسلامی حکومت ہی ہوگی، خواہ وہ افریقہ میں ہو یا امریکہ میں، یورپ میں ہو یا ایشیا میں اور اس کے چلانے والے خواہ گورے ہوں یا کالے یا زرد۔ اس نوعیت کی خالص اصولی ریاست کے لیے ایک عالمی ریاست بن جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن اگر زمین کے مختلف حصوں میں بہت سی ریاستیں بھی اس نوعیت کی ہوں تو وہ سب کی سب یکساں اسلامی ریاستیں ہوں گی، کسی قوم پرستانہ کشمکش کے بجائے ان کے درمیان پورا پورا برادرانہ تعاون ممکن ہوگا اور کسی وقت بھی وہ متفق ہو کر اپنا ایک عالم گیر وفاق قائم کر سکیں گی۔‘‘ (ص ۵۶)
یہ وہی تصور تھا جو دور جدید میں عالمی سطح پر امت مسلمہ کی سیاسی وحدت کو رو بہ عمل کرنے کے لیے علامہ محمد اقبال نے بھی ’خلافت‘ کے قدیم سیاسی نظام کے احیاء کے متبادل کے طور پر تجویز کیا تھا۔ چنانچہ خطبہ اجتہاد میں انھوں نے لکھا کہ:
For the present, every Muslim nation must sink into her own deeper self, temporarily focus her vision on herself alone, until all are strong and powerful to form a living family of republics. A trud and living unity, according to the nationalist thinkers, is not so easy as to be achieved by a merely symbolical overlordship. It is truely manifested in a multiplicity of free independent units whose racial rivalries are adjusted and harmonized by the unifying bond of a common spiritual aspiration. It seems to me that God is slowly bringing home to us the truth that Islam is neither Nationalism nor Imperialism but a League of Nations which recognizes artificial boundaries and racial distinctions for facility of reference only, and not for restricting the social horizon of its members. (The Reconstruction, p. 126)
’’موجودہ صورت حال میں ہر مسلمان قوم کو اپنے آپ میں گہرے طور پر غوطہ زن ہونا چاہیے اور عارضی طور پر اپنی نظر خود اپنے آپ پر جما لینی چاہیے حتیٰ کہ تمام اس قدر مضبوط اور مستحکم ہو جائیں کہ وہ جمہوریتوں کا ایک زندہ خاندان تشکیل دے سکیں۔ ایک سچی اور زندہ وحدت نیشنلسٹ مفکرین کے مطابق کوئی ایسی آسان نہیں کہ اسے محض ایک علامتی عالمگیر حکمرانی کی وساطت سے حاصل کر لیا جائے۔ اس کا سچا اظہار خود مختار اکائیوں کی کثرت سے ہوگا جن کی نسلی رقابتوں کو مشترک روحانی امنگوں کی وحدت سے ہم آہنگ اور ہموار کر دیا گیا ہو۔ مجھے یوں نظر آتا ہے کہ خدا ہمیں آہستہ آہستہ اس حقیقت کے ادراک کی طرف لا رہا ہے کہ اسلام نہ تو قومیت ہے اور نہ ملوکیت، بلکہ ایک مجلس اقوام ہے جومصنوعی حد بندیوں اور نسلی امتیازات کو محض پہچان کے لیے تسلیم کرتی ہے، نہ اس لیے کہ ان رکن ممالک کے اپنے اپنے سماجی آفاق کو تنگ کر دیا جائے۔‘‘
جہاد وقتال کے ضمن میں بین الاقوامی معاہدات کی پاس داری کی قانونی وعملی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے سورۂ انفال کی آیات ۷۲، ۷۳ کی تشریح میں مولانا نے ’تفہیم القرآن‘ میں جو کچھ لکھا ہے، وہ قابل ملاحظہ ہے۔ فرماتے ہیں:
’’یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی بڑا اثر ڈالتی ہے۔ اس کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمہ داری ان مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ داری کا بار اس کے سر نہیں ہے۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ انا بریء من کل مسلم بین ظھرانی المشرکین۔ ’’میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت وحفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔‘‘ اس طرح اسلامی قانون نے اس جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے، کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑ جاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔ ... ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دھند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اخلاقی حدود کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جا سکے گا۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دار الاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جا سکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو۔‘‘ (تفہیم القرآن ۲/۱۶۱، ۱۶۲)
اگرچہ کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پابندی کا اصول کلاسیکی فقہ میں بھی تسلیم کیا گیا ہے، تاہم فقہا اسے ایک محدود اور وقتی اصول کی حیثیت دیتے ہیں۔ مولانا کے اقتباس سے واضح ہے کہ وہ اسے بین الاقوامی سیاست اور مسلم وغیر مسلم حکومتوں کے تعلقات کی تشکیل کے ضمن میں ایک مستقل اور بنیادی اصول کا درجہ دیتے ہیں جس کی پاس داری مظلوم مسلمان اقلیتوں کی مدد کرنے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ دونوں زاویہ ہائے نگاہ کی ترجیحات کا فرق اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب ۱۹۴۸ء میں کشمیر کے مقامی مسلمانوں نے بھارت کے خلاف جنگ آزادی کا آغاز کیا تو مولانا مودودی نے حکومت پاکستان کی پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ:
’’جہاد کشمیرکے سلسلے میں میرے نزدیک یہ کوئی معقول بات نہیں ہے کہ وہاں لڑائی بھی ہو اور نہ بھی ہو۔ یعنی ایک طرف ہماری حکومت تمام دنیا کے سامنے اعلان کرے کہ ہم لڑ نہیں رہے بلکہ لڑنے والوں کو روک رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لڑے بھی تو اس سے نہ صرف ہماری اخلاقی پوزیشن خراب ہوگی بلکہ ہم لڑ بھی نہیں سکیں گے۔ حکومت کا یہ موقف خود پاکستانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ میں بیان کیا تھا۔‘‘ (تصریحات ص ۴۷۰)
اس نکتے پر مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے مابین ایک اہم اور دلچسپ بحث بھی ہوئی کہ آیا پاکستانی حکومت مجاہدین کی عسکری اور افرادی امداد کر سکتی ہے یا نہیں۔ مولانا عثمانی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کا عملاً مجاہدین کو مدد فراہم کرنا گویا اس بات کا اعلان ہے کہ وہ معاہدے کی پابند نہیں رہی، جبکہ مولانا مودودی کا استدلال یہ تھا کہ حکومت کا اس بات کا واضح اعلان اور اقرار نہ کرنا بلکہ ظاہری طور پر اس کی تردید کرنا اور پہلے کی طرح بھارتی حکومت سے سفارتی اور سیاسی تعلقات قائم رکھنا اس امر کو تسلیم کرنے سے مانع ہے۔ تاہم بحث کے آخر میں مولانا مودودی نے یہ قرار دیا کہ چونکہ پاکستانی حکومت کی طرف سے مجاہدین کشمیر کی امداد کے علانیہ اعتراف کے باوجود بھارتی حکومت نے اسے نبذ عہد کے مترادف نہیں سمجھا، اس لیے قانونی طور پر اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ صرف کشمیر کی حد تک دونوں حکومتیں امن معاہدے کی پابند نہیں رہیں، جبکہ عمومی طور پریہ معاہدہ برقرار ہے۔ (یہ مراسلت مولانا مودودی اور مولانا شبیر احمد عثمانی، ہر دو بزرگوں کے مجموعہ مکاتیب میں شامل ہے)۔
۱۹۷۹ء میں افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کی طرف سے افغان مسلمانوں پر ظلم وستم کے واقعات رونما ہوئے تو وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ اس موقع پر مولانا سے دریافت کیا گیا کہ آیا پاکستان سے مسلمانوں کو افغان بھائیوں کی مدد کے لیے سرحد پار جانا چاہیے؟ مولانا نے فرمایا:
’’کوئی شک نہیں کہ ہمارے افغان بھائی اس وقت نہ صرف صدی کے بہت بڑے جہاد میں مصروف ہیں، بلکہ جن مشکلات کا انھیں سامنا ہے، دوسروں کو ان کا اندازہ بھی نہیں ہو سکتا۔ ... لیکن جب تک کابل حکومت ریاست پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کرتی یا حکومت پاکستان اس سے تمام تعلقات توڑ کر اعلان جنگ نہیں کرتی، آپ پاکستانی شہریوں کو سرحد پار کر کے میدان جنگ میں نہیں اترنا چاہیے۔ یہ نہ صرف اسلامی قانون بین الاقوام کی نگاہ میں مناسب نہیں ہوگا بلکہ پاکستان کے لیے بھی مشکلات کا باعث بنے گا۔ البتہ قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے آپ کے کارکنان جا سکتے ہیں، مگر زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ بھی اسی پالیسی کو اختیار کریں جسے حکومت پاکستان اور آپ کا نظم طے کرے۔... اگر حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو جائیں اور وہاں پر جہاد میں مصروف مجاہدین کی قیادت یہ چاہے کہ دوسرے مسلم ممالک سے انھیں افرادی قوت بھی درکار ہو، تب ایسے مسائل کا مرکزی سطح پر حل تلاش کیجیے، مگر یہ چیز انفرادی یا مقامات کی سطح پر نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ (تصریحات ص ۴۵۷، ۴۵۸)
مولانا کی ان تمام تصریحات سے واضح ہے کہ ان کی نظر بصیرت معاملات کو کس قدر گہرائی سے اور کتنی دور تک دیکھ رہی تھی۔ یہ بات اس تناظر میں خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کی اہمیت وضرورت کو اجاگر کرنے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کو منظم کرنے کے حوالے سے مولانا مودودی کا شمار دور حاضر کے ممتاز ترین مسلم مفکرین اور قائدین میں ہوتا ہے، تاہم مولانا کے زاویہ نظر میں نظری اور فلسفیانہ بحث ومباحثہ اور عملی اجتہادی ضروریات اور تقاضوں کے مابین فرق کا بھرپور ادراک دکھائی دیتا ہے، جبکہ معاصر جہادی تحریکوں کے ہاں اصولی اور نظری بحث اور عملی ومعروضی حالات کے تقاضوں کے مابین حکیمانہ امتیاز کا شدید فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصولی اور نظریاتی اشتراک کے باوجود جہادی عناصر نے بحیثیت مجموعی تشدد اور تصادم کی راہ اختیار کر لی ہے جبکہ مولانا موودی نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاس داری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولانا کی پیش کردہ تعبیرات اور افکار کے مختلف پہلوؤں سے اختلاف کے تمام تر امکانات کے باوجود دور جدید میں دینی جدوجہد کے لیے ایک متوازن حکمت عملی کے اصول اور خط وخال واضح کرنے کے حوالے سے مولانا کی یہ خدمت بے حد غیر معمولی ہے اور درحقیقت اسی میں ان کی فکری عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔
البتہ یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ فکری قیادت کی سطح پر اتنے واضح اور دوٹوک انداز نظر کے ہوتے ہوئے وہ صورت حال کیسے پیدا ہو گئی جس کا اب ہمیں سامنا ہے۔ یقیناًاس کے بہت سے عملی وواقعاتی اسباب بھی ہیں، لیکن اس کا فکری پہلو بھی کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آئندہ کسی نشست میں ان شاء اللہ ہم اس پر بھی اپنی معروضات پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
ترکی کا ناکام انقلاب ۔ کیا چیز سیکھنے کی ہے اور کیا نہیں؟
ترکی میں فوجی انقلاب کی حالیہ ناکام کوشش مختلف حوالوں سے اور مختلف ذہنی سطحوں پر ہمارے ہاں بھی زیر بحث ہے اور حسب سابق ساری بحثیں اور تجزیے نفس واقعہ کی تفہیم میں کوئی مدد دینے سے زیادہ اپنے ہی ذہنی رویوں اور فکری سانچوں کو سمجھنے میں ہمارے لیے مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔
اس ساری بحث میں غالب ترین رجحان تو، ہمارے قومی مزاج اور ماضی کی روایت کے عین مطابق، یہی ہے کہ اسے حق وباطل کا معرکہ تصور کرتے ہوئے خود کو باقاعدہ ایک فریق کے ساتھ نتھی کیا جائے اور اقصائے عالم کی لڑائیوں کو درآمد کر کے اپنے گلی کوچوں میں لڑا جائے۔ اس طرز فکر کی توجیہ محض اسلامی اخوت یا عالم اسلام کے امور میں دلچسپی وغیرہ سے نہیں کی جا سکتی۔ اس کا گہرا تعلق اس ذہنی اضطراب اور فکری پریشانی سے ہے جو ہمیں خود اپنے قومی وجود اور اس کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے لاحق ہے اور جس نے فکری ہمتیں اتنی کمزور کر دی ہیں کہ تلخ حقیقتوں کو بطور امر واقعہ کے قبول کرتے ہوئے خود کو ایک صبر آزما جدوجہد کے لیے آمادہ کرنے کی صلاحیت معدوم سے معدوم تر ہوتی جا رہی ہے۔ نگاہیں کسی ایسے آسمانی اور معجزانہ حل کے لیے بے تاب ہیں جو تاریخ کی سطح پر جاری سلسلہ اسباب وعلل کو توڑ کر ایک نئی دنیا وجود میں لے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ خود اپنے تناظر میں اپنے مسائل سے نبرد آزمانے ہونے کا کوئی نقشہ عمل ہمارے لیے زیادہ کشش نہیں رکھتا۔ ہم دنیا بھر میں رونما ہونے والی انقلابی تبدیلیوں میں اپنے دکھوں کا مداوا ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں بھی کوئی اس طرح کا واقعہ رونما ہو، فوراً متحارب فریقوں میں سے کسی ایک کے کیمپ میں شامل ہو کر کہانی کے کرداروں اور واقعات کا انطباق اپنی صورت حال پر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ رویہ دنیا اور خاص طور عالم اسلام کے معاملات میں دلچسپی سے زیادہ اپنی زمینی حقیقتوں سے ذہنی فرار کی ایک کوشش ہے اور بلاشبہ کوئی مستحسن نہیں، بلکہ ایک قابل علاج ذہنی کیفیت ہے۔
مذکورہ سطحی اور بچگانہ انداز نظر کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر اس واقعے کو ، بلکہ اس نوعیت کے حالیہ سبھی واقعات کو، زمینی صورت حال کے سمجھنے کا ایک ذریعہ تصور کیا جائے تو ہمارے سامنے ایک بہت اہم سوال آتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایک پچھڑی ہوئی اور مغلوب ومقہور قوم کو دنیا کے غالب نظام اقدار اور نظام طاقت کے ساتھ اپنے تعلق کی نوعیت کیا متعین کرنی چاہیے؟ یہ ایک بہت بنیادی اور سنجیدہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت پیچیدہ سوال بھی ہے اور اس وقت مسلمان معاشروں میں پائی جانے والی گہری تقسیم بنیادی طور پر اسی سوال کے حوالے سے ہے۔ اس سوال کے فکری وتہذیبی ابعاد بھی ہیں اور سیاسی ومعاشی بھی۔ گویا کوئی بھی طبقہ اس سوال کے حوالے سے جو بھی پوزیشن لے گا، اس میں فکری وتہذیبی موقف کے ساتھ ساتھ سیاسی ومعاشی محرکات بھی کار فرما ہوں گے۔ ہمارے نزدیک اس نوعیت کی صورت حال میں اس امکان کو بطور مقدمہ ماننا ناگزیر ہے کہ دیانت داری کی ایک کم سے کم سطح کو برقرار رکھتے ہوئے دو بالکل متخالف اور متضاد نقطہ ہائے نظر وجود میں آ سکتے ہیں۔
ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں اس کی بعض واضح مثالیں بھی موجود ہیں۔ ۱۸۵۷ء کے واقعے کے بعد سرسید احمد خان اور ان کے مکتب فکر نے بالکل علانیہ، جبکہ بہت سے دوسرے طبقات نے نسبتاً خاموشی اور کسی قدر تفاوت کے ساتھ صورت حال کا یہی تجزیہ کیا تھا کہ انگریزی اقتدار کی موافقت اور اس کے ساتھ اعتماد کا رشتہ مسلمانوں کے سیاسی مفاد کے تحفظ یا ان کی قومی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ سرسید کی پیش کردہ نئی مذہبی فکر پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے اور اسے قبول عام بھی حاصل نہیں ہوا، لیکن ان کے سیاسی وتہذیبی موقف پر ، چند استثنائی اور غیر نمائندہ تنقیدوں کے علاوہ، ان کی دیانت یا قائدانہ مقام اور خدمات پر حرف رکھنے کی جسارت عموماً نہیں کی گئی۔ اس کا لازمی مطلب ان کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں تھا، بلکہ دراصل یہ صورت حال کی پیچیدگی اور اس کے پہلو دار ہونے کا اعتراف تھا جس میں ایک سے زیادہ ، اور بالکل متضاد مواقف کا وجود میں آنا پوری دیانت داری کے ساتھ ممکن ہوتا ہے۔
اس فکری تقسیم کو وفاداری اور غداری جیسی اصطلاحات میں بیان کرنا ایک طرف تو اس ذہنی لچک کے فقدان کی نشان دہی کرتا ہے جو تبدیلی کے ایک بہت بڑے اور گہرے عمل کو معروضیت کے ساتھ سمجھنے کے لیے ضروری ہے اور دوسری طرف بحث کو تقارب واشتراک کے دائرے کی طرف بڑھانے کے بجائے، جس کے سوا اس ساری صورت حال کا سرے سے کوئی عملی حل ہی موجود نہیں، تقسیم اور افتراق کو مزید گہرا کرنے کا موجب بنتا ہے۔ کوئی چارہ اس کے سوا نہیں کہ اس طرح کے فتووں کو ، چاہے کسی کو ان کی صداقت وواقعیت پر کتنا ہی یقین ہو، سینوں میں تھام کر رکھا جائے اور اپنے زاویہ نظر کی صداقت پر پورا اطمینان رکھنے کے ساتھ ساتھ اتنی ذہنی وسعت رکھی جائے جو اجتہادی معاملات میں رکھنا اسلامی فکری روایت کا ہمیشہ سے طرہ امتیاز رہا ہے۔
اس ضمن میں یہ بات بطور خاص پیش نظر رہنی چاہیے کہ داخلی نظریاتی یا سیاسی اختلافات کو اس طرح کے سیاہ اور سفید خانوں میں تقسیم کرنا جبر اور استبداد کو براہ راست جواز دینے کا موثر ترین ذریعہ ہے اور عالم اسلام کی حالیہ تاریخ میں جمال عبد الناصر سے لے کر امام خمینی، جنرل ضیاء الحق اور صدام حسین تک، ہمارے لیے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں جن سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مسلم معاشروں کی ضرورت ایسی ’’مدبر‘‘ سیاسی قیادت ہے جو ان کی داخلی تقسیم کو کسی طرح سنبھالے اور باہمی کشمکش میں ضائع ہوتی توانائیوں کو کوئی تعمیری رخ دے، نہ کہ ایسی قیادت کی جو کچھ ’’جرات مندانہ‘‘ اقدامات کر کے مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرے اور پھر موقع پاتے ہی اس طاقت کو نظریاتی وسیاسی مخالفین کو روندنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دے۔