فقہ حنفی کو اللہ نے جس قبول عام سے نوازاہے، اس سے ہرخاص وعام بخوبی واقف ہے۔ دنیابھرکے سنی مسلمانوں کا دوتہائی حصہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے اجتہادات کے مطابق عبادات کی ادائیگی کرتاآرہاہے ۔فقہ حنفی کے اس قبول عام کی کچھ خاص وجوہ رہی ہیں؛ لیکن اکثر ایسا ہوا ہے کہ اس کے اسباب پر گہرائی سے غوروفکر کرنے کے بجائے محض یہ کہہ کر اس حقیقت کو گدلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومت عباسیہ کی سرپرستی اوراثرونفوذ کے سبب فقہ حنفی کوفروغ حاصل ہوا۔ یہ ایک وجہ ہوسکتی ہے؛ لیکن مکمل اور سب سے بڑی وجہ نہیں ۔دورحاضر میں بعض لوگ جب فقہ حنفی کی خداداد مقبولیت کا انکار نہیں کرسکے توانھوں نے بطورتحقیر بعض نامکمل حوالے پیش کرکے یہ کہنا اور بھرم پھیلاناشروع کردیاکہ فقہ حنفی کو مسلمانوں کے درمیان اتنی بڑی پذیرائی ملنا محض حکومت وسلطنت کے نظرکرم کی وجہ سے تھا،اس کاخداداد مقبولیت سے کوئی لینادینانہیں ہے۔ ذیل کے مضمون میں اسی غلط فہمی کو دورکرنے کی کوشش کی گئی ہے اوریہ اس کی قبولیت کے واقعی اسباب ووجوہ بیان کیے گئے ہیں:
(۱) امام ابوحنیفہ کا اخلاص
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس کے اندر اپنے کام کے تعلق سے اخلاص ہوتاہے، خداکی رضامقصود ہوتی ہے، خداکے بھی اس کے نام اورکام کو زندہ اورباقی رکھتاہے۔ہم میں سے کون نہیں جانتاکہ امت محمدیہ کثیرالتصانیف امت ہے۔اس کے باوجود عالم گیر قبولیت کی حامل کتابوں کی فہرست بہ آسانی مرتب کی جاسکتی ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ جن کے مذاہب مٹ گئے یاپھرزیادہ مقبول نہ ہوئے ان کے موسسین کے اندراخلاص نہ تھا، ایسی بات سے خداکی پناہ!ہوسکتاہے اس کی کچھ دوسری وجوہ ہوں۔ ان کے موسسین کے اخلاص میں شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہماراکہنایہ ہے کہ جولوگ فقہ حنفی کی توسیع اورنشرواشاعت اوراکثر بلادوامصار میں قبولیت عامہ کو صرف سلطنتوں کی پشت پناہی کا ثمرہ سمجھتے ہیں وہ لوگ یقیناغلطی پر اورفاش غلطی پرہیں۔ اس قبولیت عامہ کا مرجع اورمنبع امام ابوحنیفہ کا اخلاص اور خداکی رضاجوئی ہے۔
عن وکیع بن الجراح کان واللہ ابوحنیفۃ عظیم الامانۃ، وکان اللہ فی قبلہ، جلیلا عظیما یوثر رضاہ علی کل شی ولواخذتہ السیوف فی اللہ تعالی لاحتمل، (مناقب الائمۃ الاربعۃ لعبد الہادی المقدسی، ص۶۰)
’’وکیع بن جراح کہتے ہیں :ابوحنیفہ بڑے امانت دار تھے، اللہ تبارک وتعالیٰ کی ان کے دل میں بڑی عظمت وکبریائی تھی، اللہ کی رضاکو ہرچیز پر ترجیح دیتے تھے خواہ اس میں جان ہی جانے کا خطرہ کیوں نہ ہو۔‘‘
عن ابِی ھریرۃ قال قال رسول اللہِ صلی اللہ علیہِ وسلم: ان اللہ اذا احب عبدا دعا جِبرِیل فقال: انِی احِب فلانا فاحِبہ، قال فیحِبہ جِبرِیل، ثم ینادِی فِی السماء فیقول : ان اللہ یحِب فلانا فاحِبوہ فیحِبہ اہل السماء ،قال ثم یوضع لہ القبول فِی الارضِ (بخاری باب ذکر الملائکۃ ،حدیث نمبر۳۲۰۹،مسلم باب اذا احب اللہ عبدا ،حدیث نمبر۲۶۳۷)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلا کر فرماتے ہیں: میں فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر،چنانچہ جبریل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور (ساتھ ہی)آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ فلاں شخص سے اللہ تعالی محبت فرماتے ہیں تم بھی اس سے محبت کرو،چنانچہ آسمان والے(سب کے سب) اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔پھر زمین میں اس کے لیے قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘
یہ امام ابوحنیفہ کااخلاص ہی تھاکہ انھوں نے زندگی بھراپنے مخالفین سے الجھنے کی کوشش نہیں کی۔اگرکسی نے کچھ غلط سلط کہابھی تواس کو سناان سناکردیااورمعاملہ خداکے سپرد کردیا۔اللہ کو اپنے بندے کی اداپسند آئی کہ اس کی خاموشی کے بدلے پورے عالم میں شہرت دے دی۔
جعفر بن حسن کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ کو خواب میں دیکھاتوپوچھاکہ اللہ نے آپ کے ساتھ کیامعاملہ فرمایا انھوں نے کہا:میری مغفرت فرمادی۔انھوں نے پوچھاعلم کی وجہ سے۔ توفرمایاکہ فتوی توفتوی دینے والے کے لیے بہت ہی سخت معاملہ ہے۔پھرانھوں نے پوچھاکہ کس وجہ سے مغفرت ہوئی توفرمایاکہ لوگوں کی میرے بارے میں ایسی باتوں کی وجہ سے جومجھ میں نہیں تھی۔(مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ ص۵۲)
عباد تمار کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ کو خواب میں دیکھاتوپوچھاکہ کیامعاملہ پیش آیا۔ انھوں نے کہاکہ اپنے رب کی وسیع رحمت کا معاملہ ہوا۔میں نے پوچھاکہ علم کی وجہ سے۔ انھوں نے جواب دیاکہ ہائے افسوس علم کے لیے توسخت شرائط ہیں اوراس کی اپنی آفتیں ہیں بہت کم لوگ اس سے بچ سکتے ہیں۔پھرمیں نے پوچھاکہ توپھرکس وجہ سے رحمت کا معاملہ ہوا؟فرمایاکہ میرے بارے میں لوگوں کی ایسی ایسی باتوں کی وجہ سے جس سے میں بری تھا۔(مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ ص۵۲)
یہی وجہ ہے کہ جولوگ امام ابوحنیفہ کے مخالفت کرتے رہے انھوں نے بھی اعتراف کیاکہ امام ابوحنیفہ کی مقبولیت کا دائرہ کوفہ سے گزرکرسارے عالم اسلام میں پہنچ چکاہے۔
عبد اللہ بن الزبیر الحمیدی، قال: سمعت سفیان بن عیین، یقول: شیئان ما ظننت انھما یجاوزان قنطرۃ الکوفۃ، وقد بلغا الآفاق: قراء ۃ حمزۃ، ورای ابِی حنیفۃ (تاریخ بغداد ۱۵؍۴۷۵، اسنادہ صحیح)
’’سفیان بن عینیہ کہتے ہیں کہ دوچیزوں کے بارے میں میراگمان تھاکہ وہ کوفہ کی حدود سے بھی تجاوز نہیں کریں گی؛ لیکن وہ دنیابھر میں پھیل چکی ہیں۔ایک حمزہ کی قرات دوسرے ابوحنیفہ کے اجتہادات۔‘‘
فقہ حنفی کی قبولیت عامہ کی بنیادی اوراولین وجہ یہی ہے۔ (واللہ اعلم)
(۲) رضائے الٰہی
حقیقت یہ ہے کہ فقہ حنفی سے جس طرح اسلامی ممالک اوربلادوامصار معمور رہے، اسے صرف اللہ کی مرضی اورمنشا سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ورنہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ کسی کے اجتہاد کو اتنی ہردلعزیزی اورمقبولیت نصیب ہو اور عالم اسلام کا بیشتر علاقہ فقہ حنفی کواپنائے؛ حالانکہ یہ تمام علاقے ثقافت اورکلچر کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ کہاں چین اورکہاں عراق،کہاں ہندوستان اورکہاں بلادروم،اس کے باوجود فقہ حنفی کاعلم ہرجگہ نور افشاں ہے، تویہ صرف مشیت الٰہی اوررضائے خداوندی ہی ہے۔ ہم دنیا میں ایسے کتنے ہی واقعات سے واقف ہیں کہ بہت سارے اشخاص جونہ صرف نہایت قابل اورعالم وفاضل تھے؛ لیکن دنیاان کے فیض سے محروم رہی اوربہت سارے افراد بھلے ہی علمی اعتبار سے کم درجہ کے ہوں؛ لیکن ان سے زیادہ فیض پہنچا۔اوراس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ اس شخص کی کوئی ادااللہ کوپسند آجاتی ہے اوراللہ اس کے فیض کو عام کردیتے ہیں اوراس کے لیے صدقہ جاریہ بنادیتے ہیں۔
خدانخواستہ ہماراکہنایہ نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ علم یاعمل کے اعتبار سے کسی سے کمترتھے؛ بلکہ وہ علم وعمل کی جس بلندی پر تھے وہ تاریخ اورکتب سوانح میں مذکور ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت اورلوگوں کے قبول عام کو صرف رضائے الہی کا ثمرہ سمجھناچاہیے ۔اس کی جانب بعض علمائے نے رضائے الہی اوربعض نے سرالہی سے تعبیر کرکے اشارہ کیاہے۔چنانچہ امام ابن الاثیر لکھتے ہیں۔
ویدل علی نزاھتہ عنھا ما نشر اللہ تعالی لہ من الذِکر المنتشر فی الآفاق، والعلم الذی طبق الارض، والاخذ بمذھبہ وفقہہ والرجوع الی قولہ وفعلہ، وان ذلک لو لم یکن للہ فیہ سر خفی، ورضی اِلہی وفقہ اللہ لہ لما اجتمع شطر السلامِ او ما یقاربہ علی تقلیدہ، والعمل برایہ ومذھبہ حتی قد عبِد اللہ ودیِن بفقھہ، وعمل برایہ ومذھبہ، واخذ بقولہ الی یومنا ھذا ما یقارب اربعماءۃ وخمسین سنۃ (جامع الاصول۱۲؍۹۵۲)
’’اورامام ابوحنیفہ کے فقہ کی پاکیزگی کی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے ان کو پوری دنیا میں شہرت بخشی ہے اوران کے علم سے روئے زمین کے علما سیراب ہورہے ہیں اور پوری دنیا میں ان کے مذہب اورفقہی اجتہادات پر عمل کیاجاتاہے اوران کے قول وفعل کی جانب توجہ دی جاتی ہے اور اگراس بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا پوشیدہ رازنہ ہوتا اوراللہ کی مرضی نہ ہوتی جس کی اللہ نے امام ابوحنیفہ کو توفیق ارزانی کی ہے تونصف اہل اسلام یااس کے قریب ان کی تقلید پر اوران کی رائے پر عمل کرنے پر متفق نہ ہوتے اوریہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے دور سے لے کرآج تک سنہ ہجری تک ان کے اجتہادات کے مطابق اللہ کی عبادت کی جاتی رہی ہے، ان کی رائے اور مذہب پر عمل کیاجاتارہاہے۔‘‘
واضح رہے کہ یہ ابن اثیر نے اپنے عہد کے بارے میں تحریر کیاہے۔ ورنہ امام ابوحنیفہ کے دور سے لے کر پندرہویں صدی یعنی موجودہ دورتک امام ابوحنیفہ کی فقہ پر بیشتراہل اسلام عمل کرتے چلے آرہے ہیں۔
ایک دوسری وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ فقہ حنفی بواسطہ امام حماد،ابراہیمی نخعی، علقمہ واسود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے خزانہ علم وفکر سے مستفیض ہے ۔اورصرف فقہ حنفی ہی کیوں کہیے؛ بلکہ تمام فقہائے کوفہ کافقہ وفتاویٰ میں اصل مرجع حضرت عبداللہ بن مسعود ہی ہیں اوروہی دراصل فقہ کوفی کے بانی مبانی ہیں۔اورحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ ابن ام عبد جوتمہارے لیے پسند کریں، میں بھی اس کو تمہارے لیے پسند کرتاہوں۔
رضِیت لامتِی ما رضِی لہا ابن امِ عبد (مستدرک حاکم۳؍۳۱۳)
ایک دوسری روایت میں یہ لفظ بھی آیاہے۔
قد رضِیت لکم ما رضِی لکم ابن امِ عبد (مستدرک حاکم۳؍۳۱۹)
جب کہ ایک اورروایت میں اس طرح مذکور ہے:
رضِیت لامتِی ما رضِی لھم ابن امِ عبد، وکرِھت لامتِی ما کرِہ لھا ابن امِ عبد (فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل،حدیث نمبر۱۵۳۶)
’’میں نے اپنی امت کے لیے وہی پسند کیاہے جس کوابن ام عبد(عبداللہ بن مسعود)نے پسند کیاہے اور میں نے اپنی امت کے لیے اس کو ناپسند کیاہے جس کو ابن ام عبد نے ناپسند کیاہے۔‘‘
اوریہ سمجھنامشکل نہیں کہ جواللہ کے رسول کی پسند ہوگی، وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بھی پسندیدہ ہوگی۔ اس طرح اگرمنطق کی زبان میں کہیں تو اللہ کے رسول نے عبداللہ بن مسعود کے بارے میں فرمایاکہ میں اپنی امت کے بارے میں وہی پسند کرتاہوں جس کو ابن مسعودپسندکریں،ابن مسعود کے اقوال ہی فقہ حنفی کا اصل سرمایہ ہیں ،اس طرح یہ منطقی نتیجہ کے طورپر حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند قرارپاتی ہے اور بالواسطہ طورپر اللہ تبارک وتعالیٰ کی پسند قرارپاتی ہے اورظاہرسی بات ہے کہ قبول عام اسی کو نصیب ہوگاجس کو اللہ پسند کریں گے ۔فقہ حنفی کوقبول عام جونصیب ہواہے تواس لیے کہ اس کو اللہ نے پسند کیاہے۔
فقہ حنفی کی قبولیت میں رضائے الٰہی کو دخل ہے، اس کی جانب حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی اپنے بعض رسالوں میں اشارہ کیاہے۔ وہ اپنے مکاتیب میں لکھتے ہیں:
’’ایک روز اس حدیث پر ہم نے گفتگو کی کہ ایمان اگرثریاکے پاس بھی ہوتا تو اہل فارس کے کچھ لوگ یاان میں کاایک شخص اس کوضرورحاصل کرلیتا۔فقیر (شاہ صاحب)نے کہاکہ امام ابوحنیفہ اس حکم میں داخل ہیں؛ کیونکہ حق تعالیٰ نے علم فقہ کی اشاعت آپ ہی کے ذریعہ کرائی اور اہل اسلام کی ایک جماعت کو اس فقہ کے ذریعہ مہذب کیا۔ خصوصا اس اخیر دور میں کہ دولت دین کا سرمایہ یہی مذہب ہے۔سارے ملکوں اورشہروں میں بادشاہ حنفی ہیں،قاضی حنفی ہیں ۔اکثر درس علوم دینے والے علما اوراکثرعوام بھی حنفی ہیں۔‘‘ (کلمات طیبات مطبع مجتبائی ص۱۶۸)
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے ایک دوسرے مقام پر اپنے مکاشفات ذکر کرتے ہوئے لکھاہے:
’’مذہب کا معاملہ بھی ایساہی ہوتاہے کہ کبھی ایک ملت کی حفاظت کی طرح حق تعالی کی عنایت خودکسی مذہب کی حفاظت کی طرف بھی متوجہ ہوتی ہے۔ اس معنی کرکہ اس مذہب کے نگہبان وپیرو ہی اس وقت ملت کی جانب سے مدافعت کرنے والے ہوتے ہیں۔یایہ کسی علاقے میں انہی کا شعارحق وباطل کے درمیان وجہ فرق ہوتاہے۔اس صورت حال کے پیش نظرملا اعلی یاملا اسفل میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ملت دراصل یہی مذہب ہے۔‘‘
آگے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’جب یہ تمہید ذہن نشیں ہوگئی توآگے کہتاہوں:مجھے ایسانظرآتارہاکہ مذہب حنفی میں کوئی خاص بات اور اہم راز ہے ۔میں برابر اس مخفی راز کو سمجھنے کے لیے غوروفکر کرتارہاحتی کہ مجھ پر وہ بات کھل گئی جسے بیان کرچکاہوں۔میں نے دیکھاکہ معنی دقیق کے اعتبار سے اس مذہب کو ان دنوں تمام مذاہب پر غلبہ وفوقفیت حاصل ہے۔ اگرمعنی اولی کے اعتبار سے بعض دوسرے مذاہب اس پر فائق بھی ہیں۔اورمیرے سامنے یہ بات بھی آئی کہ یہی وہ راز ہے جس کابسااوقات بعض ارباب کشف کسی درجہ میں ادراک کرلیتے ہیں اورپھراس کو تمام مذاہب کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں اوربعض مرتبہ یہی رازتصلب وپختگی کی بابت الہام کے طورپر اورکبھی خواب کی صورت میں اس طورپر ظاہر ہوتاہے کہ اس سے اس مذہب پر عمل کے سلسلہ میں تحریض ہوتی ہے۔‘‘ (فیوض الحرمین ص۱۰۵ ،بحوالہ فقہ ولی اللہی ص۱۵۰)
یہ حقیقت ہے کہ تاریخ کے بیشترادوار میں اسلامی مملکتوں کے سربراہ حنفی رہے ہیں اور سرحدوں کی حفاظت،دشمنان دین اسلام سے مقاتلہ،دارالاسلام کی توسیع اوراحکام شرعیہ کانفاذ انہی کے ہاتھوں میں رہا، لہٰذا حنفی مذہب کی بقا اور حفاظت خود مرضی الٰہی رہی ہے۔
ایک دوسرے مقام پر حضرت شاہ صاحب نے فروعات فقہیہ میں اپنی قوم کی مخالفت کومراد حق کی مخالفت قراردیاہے؛چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
ان مراد الحق فیک ان یجمع شملا من شمل الامۃ المرحومۃ بک وایاک ان تخالف القوم فی الفروع فانہ مناقض لمراد الحق (فیوض الحرمین ص۶۲)
’’حق تعالیٰ کی مراد تم سے یہ ہے کہ امت مرحومہ کی شیرازہ بندی کی جائے اورخبردارفروعات میں اپنی قوم کی مخالفت سے بچتے رہنا؛کیونکہ وہ حق تعالی کی مراد کے خلاف ہے۔‘‘
یہ تھوڑے سے نصوص یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ رضائے الہی کے عنوان سے میں نے جوفقہ حنفی کی نشرواشاعت کا سبب بیان کیاہے ۔وہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اوریہ راقم الحروف کی اختراع نہیں؛ بلکہ دیگر سابق علما کی تحقیق سے استمداد واستفادہ ہے۔
(۳) قابل اور باصلاحیت شاگرد
حقیقت یہ ہے کہ شخصیت کتنی بھی عظیم کیوں نہ ہو؛ لیکن تاریخی طورپر اس کانام اورکام جاری رہنے کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جواپنی ذات کی قربانی دے کر اپنے استاد یاتحریک کے موسس کے کام کو آگے بڑھا سکیں۔ ایسے شاگردوں کاملنااورایسے افراد کا تحریک سے جڑنامحض فضل ربانی اورعطائے ایزدی ہے۔ ورنہ تاریخ کی کتنی ہی نامور ہستیاں ایسی ہیں جوباوجود علم وفضل کا پہاڑ ہونے کے محض اس لیے صرف کتابوں میں دفن ہوکر رہ گئیں کہ ان کے بعد ان کے کام اورکاز کوآگے بڑھانے والے مخلص شاگرددستیاب نہ ہوئے ،یاان کے شاگردان کے علمی امانت کے لائق امین نہ بن سکے۔
حضرت لیث بن سعد علم حدیث وفقہ میں ممتاز مقام کے حامل ہیں، مجتہد ہیں،مصر میں ان کا مذہب بھی ایک عرصے تک رائج رہا۔ان کی فقاہت کی تعریف موافق ومخالف سبھی نے کی ہے، وہ امام مالک کے ہم عصر تھے۔ ان دونوں میں بعض امور کے تعلق سے اختلاف بھی تھا،جس پر دونوں میں مشہور خط وکتابت بھی ہوئی جس کو پڑھ کر آج بھی آنکھوں میں ٹھنڈک اترتی ہے اوردل کوسکون ملتاہے کہ ہمارے اسلاف اختلاف میں بھی کتنا مہذب اورشائستہ طریقہ کاراختیار کرتے تھے۔
لیث بن سعد کے بارے میں امام شافعی کہتے ہیں:
اللیث ا فقہ من مالک الا ان اصحابہ لم یقوموا بہ
لیث مالک سے زیادہ فقیہ تھے لیکن لیث کے شاگرد اپنے استاذ کے علم کی حفاظت نہ کرسکے۔
(طبقات الفقہاء ا۷۸، تاریخ دمشق لابن عساکر۵۰؍۳۵۸،تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ۲۴؍۲۷۵، سیر اعلام النبلاء ۷؍۲۱۶)
یہ دیکھیے، امام شافعی کااعتراف کہ لیث امام مالک سے زیادہ فقیہ تھے۔ امام شافعی نے امام مالک کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیاتھااوران کے بڑے قدرشناس تھے۔ کہتے ہیں کہ جب علما کا ذکر ہوتوامام مالک ستاروں کے مانند ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء ۷؍۱۵۵)لیکن فقہی تقابل میں انھوں نے امام مالک پر لیث بن سعد کو ترجیح دی اوراس کے ساتھ ہی ایک چھپے ہوئے سوال کاجواب بھی دے دیا۔ جب لیث بن سعد مصری زیادہ فقیہ ہیں توپھران کو وہ شہرت وہ مقام اورمتبعین کی وہ کثرت کیوں نصیب نہ ہوئی جوامام مالک کونصیب ہوئی تواس کا جواب امام شافعی یہ دیتے ہیں کہ ان کے شاگردان کے کام اورمشن کو لے کر کھڑے نہیں ہوئے، اس وجہ سے ان کا علم اوران کی فقاہت عروج پذیر نہیں ہوئی اور ان کا نام اور کام اورکارنامہ شہرت دوام حاصل نہ کرسکا۔
امام ابوحنیفہ کو اللہ نے ایسے باصلاحیت مخلص اورمحبت کرنے والے شاگردوں سے نوازا جنہوں نے اپنے استاد کے منہج کو اپنامنہج بنایااوراپنے استاد کے علمی کارنامہ کو دنیابھر میں مشتہر کیا۔ انھوں نے اپنے استاد سے بجاطورپر علمی اختلاف بھی کیا، استاد کے دلائل اورنظریہ پر تنقید بھی کی؛ لیکن اسی کے ساتھ استاد کی ذات سے چمٹے رہے۔ ان کو چھوڑانہیں ان سے جدائی اختیار نہیں کی۔
یوں توامام ابوحنیفہ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے؛ لیکن جوشاگردان سے بطورخاص وابستہ رہے وہ ہیں: امام ابویوسف،امام محمد بن الحسن،امام زفر،امام حسن بن زیاد۔
امام ابویوسف علیہ الرحمہ نے جب دیکھاکہ اوزاعی نے امام ابوحنیفہ کے سیر کے مسائل پر تنقید کی ہے توانھوں نے اس کا مدلل جواب لکھا جو الرد علی الاوزاعی کے نام سے مشہور ہے۔اسی طرح انھوں نے اپنے استاد کی مرویات کو کتاب الآثار کے نام سے جمع کیا۔ اسی طرح اپنے سابق استاد ابن بی لیلیٰ اورامام ابوحنیفہ کے درمیان بعض مسائل میں اختلاف کو دلائل کے ساتھ واضح کیا اور اپنا رجحان بھی بتایا۔
امام محمد نے استاد کے مسلک اورمنہج پر کتابیں لکھیں جو ظاہر الروایۃ کے نام سے مشہور ہے۔ اہل عراق اوراہل مدینہ کے اختلافات پر الحجۃ علی اھل المدینہ لکھی اوراس کے علاوہ دیگر کتابیں لکھ کر استاد کے نام اورکام کو آگے بڑھایا۔
امام زفر نے اہل بصرہ کی اہل کوفہ سے عداوت کی وجہ سے امام ابوحنیفہ سے برگشتگی کو حکمت اور حسن تدبیر سے دورکیااوراہل بصرہ کو بھی آپ کا محب ومطیع اور فرمانبردار بنادیا۔
امام ابن عبدالبر اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’زفربصرہ کے قاضی بنائے گئے تو انھوں نے فرمایاکہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اہل بصرہ اورہمارے مابین حسد وعداوت پائی جاتی ہے۔لہذا آپ کا سلامت بچ نکلنادشوار ہے۔جب بصرہ میں قاضی مقرر ہوکر آئے تو اہل علم جمع ہوکرروزانہ آپ سے فقہی مسائل میں مناظرہ کیاکرتے تھے۔ جب ان میں قبولیت اور حسن ظن کا رجحان دیکھتے توکہتے یہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ اہل بصرہ متعجب ہوکر پوچھتے کیاابوحنیفہ ایساکہہ سکتے ہیں، امام زفرجواب دیتے: جی ہاں اوراس سے بھی زیادہ!اس کے بعد تومعمول ساہوگیاکہ جب بھی زفراہل بصرہ کا رجحان تسلیم وانقیاد دیکھتے تو کہتے کہ یہ ابوحنیفہ کاقول ہے اس سے اہل بصرہ اورمتعجب ہوتے چنانچہ امام زفر کااہل بصرہ سے یہی رویہ رہا یہاں تک کہ بغض وعداوت چھوڑ کر وہ امام صاحب کے معتقد ہوگئے ۔پہلے برابھلاکہتے تھے اب ثناخوانی میں رطب اللسان رہنے لگے۔‘‘ (الانتقاء لابن عبدالبرص۱۷۳)
عبدالبرکے اس بیان میں یہ بات غلط ہے کہ امام زفر بصرہ کے قاضی بناکر بھیجے گئے تھے؛ بلکہ جب ان کو قاضی بنانے کا فرمان صادر ہواتو انھوں نے اپناگھر منہدم کردیااورروپوش ہوگئے۔ بصرہ وہ اپنے بھائی کے میراث کے سلسلہ میں گئے تھے۔ اہل بصرہ کوان سے اتنی عقیدت ہوگئی کہ انھوں نے پھران کو بصرہ سے باہر جانے نہیں دیا۔علامہ کوثری ’’لمحات النظر فی سیرۃ الامام زفر ‘‘ میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔(دیکھئے ص۲۵)
مغرب میں امام ابوحنیفہ کے مذہب اورمسلک کوپھیلانے والے اسد بن فرات ہیں۔اسد بن فرات نے امام مالک سے بھی تحصیل علم کیاتھااوراسی کے ساتھ امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کے خرمن علم سے بھی خوشہ چینی کی تھی۔ ان کا رجحان احناف کی جانب زیادہ تھا؛چنانچہ مغرب میں ان کی علمی وجاہت سے فقہ حنفی کو فروغ ہوا ۔(’’حیاتِ امام ابوحنیفہ‘‘، مصنف ابوزہرہ ص۷۵۷)
امام حسن بن زیاد نے مختلف موضوعات پر خصوصاقضاء کے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھ کر اس موضوع کے خس وخاشاک کو صاف کیااوربعد والوں کے لیے راہ ہموار کی۔پھران چراغوں سے نئے چراغ جلے اوران چراغوں نے مزید چراغ جلائے اورپوری دنیا فقہ حنفی سے منور ہوگئی اوراس کی ضیا پاشیوں نے پوری دنیا کو اپنے احاطہ میں لے لیا۔ ان چاروں کے علاوہ امام ابوحنیفہ کے دامن فقہ سے وابستہ دیگر تشنگان علم نے بھی خوشہ چینی کی اورجہاں رہے وہاں امام ابوحنیفہ کے نام کوروشن کیااوران کے دبستان فقہ کو فروغ بخشا۔مثلاعبداللہ بن المبارک کی ذات گرامی کو لے لیں، انھوں نے بھی فقہ حنفی کی خدمت کی ہے اورامام ابوحنیفہ کے مسائل پر مبنی کتاب لکھی ہے۔
سلیم بن سلیمان یقول: قلت لِابنِ المبارکِ: وضعت مِن رایِ ابِی حنِیفۃ ولم تضع مِن رایِ مالِک قال: لم ارہ علما (جامع بیان العلم وفضلہ ۲؍۱۱۰۷)
’’سلیم بن سلیمان کہتے ہیں :میں نے ابن مبارک سے کہاکہ آپ نے امام ابوحنیفہ کی فقہ پر کتابیں لکھی ہیں، امام مالک کی فقہ پر کتاب کیوں نہیں لکھی توفرمایاکہ وہ مجھ کو زیادہ جچی نہیں۔‘‘
اس حوالہ سے مقصود امام مالک کی تنقیصِ شان نہیں؛بلکہ مراد یہ ہے کہ فقہ حنفی کی خدمت کرنے والوں میں سے ایک عبداللہ بن المبارک ہیں۔
شیخ ابوزہرہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تحت لکھتے ہیں۔
’’جب سیاسی قوت کمزور پڑگئی تو وہ علما کی ہی جدوجہد تھی جس نے مختلف امصاروبلاد میں فقہ حنفی کو زندہ رکھا۔ اس ضمن میں علما کی کوشش ایک نہج پر قائم نہیں رہی؛ بلکہ رفتار زمانہ کے پیش نظر کبھی اس میں قوت رونماہوئی اورکبھی کمزوری واقع ہوئی۔جن بلاد وامصار میں علما اثرورسوخ کے حامل تھے، وہاں یہ مذہب پھلا پھولا اور برگ وبار لایا؛لیکن جہاں علما کمزورتھے، وہاں مذہب بھی کمزورپڑگیا۔‘‘ (حیات حضرت امام ابوحنیفہ ص۷۵۶)
(۴) تصنیفی خدمات
اس کا تعلق اگرچہ ماقبل سے ہی ہے؛ لیکن اس کے باوجود اس کو اس کی اہمیت کے پیش نظرعلیحدہ طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ کسی بھی مسلک اورمذہب کو تابندہ اورزندہ رکھنے میں تصنیفی خدمات بہت اہم کرداراداکرتی ہیں۔تصنیفی خدمات سے اندازہ ہوتاہے کہ کسی مذہب کے خدوخال کیا ہیں، اس کے نقوش کیاہیں، اس کی بنیاد اوراصول کیاہیں۔ اگرتصنیفی خدمات نہ ہوں اوراس کے جاننے والے فنا کے گھاٹ اترجائیں توپھریہ مذہب سرے سے نیست ونابود ہوجاتاہے۔ کسی مذہب کے دوام کے لیے دونوں چیزیں ضروری ہیں یعنی اس مذہب کے جاننے والے اوراس مذہب کی تصانیف۔
اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے بھی یہی نظام قائم کیاہے؛ چنانچہ ایک جانب انبیا اوررسولوں کو بھیجا اور دوسری طرف صحائف اورکتب بھی نازل فرمائیں ۔ کتابوں میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک کوئی ان کو عملی طور پر برت کرنہ بتائے سمجھنامشکل ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ محض تصنیفی خدمات یاپھر محض اس مذہب کے جانکار رہنے سے کسی مذہب کو دوام نصیب نہیں ہوتا،دونوں چیزوں کا ہوناضروری ہے۔
مذاہب اربعہ زندہ ہیں اوراس کے نام لیوا آج بھی دنیا کے ہرخطے میں موجود ہیں تواس کی وجہ یہی ہے کہ ہردور میں اس مذہب کے علما اورفقہا بھی رہے ہیں اورانھوں نے تصنیفی خدمات کے ذریعہ پیش آمدہ واقعات اورحوادث میں لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیاہے۔محمد بن جریرالطبری،ابن حزم ظاہری کی کتابیں موجود ہیں؛ لیکن چونکہ اس مذہب کے جاننے والے واقف کار علما نہیں ہیں، لہذا یہ مذہب تاریخ میں باقی نہیں رہا۔
ابن خلدون اس تعلق سے لکھتے ہیں:
’’آج ظاہریہ کامذہب بھی مٹ مٹاگیا کیونکہ اس کے امام ختم ہوگئے بہت سے طلبہ جوان کے مذاہب کا مطالعہ کرناچاہتے ہیں اوران کتابوں سے ان کا فقہ اورمذہب سیکھناچاہتے ہیں وہ اپناوقت ضائع کرتے ہیں اور اس سے جمہور کی مخالفت اوران کے مذہب سے انکار بھی لازم آتاہے ۔ہوسکتاہے کہ وہ اس مذہب کی وجہ سے بدعتیوں میں شمار کرلیے جائیں؛ کیونکہ وہ اساتذہ کی چابی کے بغیرکتابوں سے علم کو نقل کررہے ہیں۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون ص۲۸۳)
ائمہ اربعہ میں سے ائمہ ثلاثہ کی تصانیف تومشہور ہیں؛لیکن امام ابوحنیفہ کی تصانیف کے تعلق سے تاریخی نقوش اتنے دھندلے ہیں کہ کچھ کہنامشکل ہے۔ویسے ماقبل کے مورخین نے اس تعلق سے کچھ کتابوں کے نام لیے ہیں تواس بنا پر کہاجاسکتاہے کہ امام ابوحنیفہ نے کچھ کتابوں کی تصنیف ضرورکی لیکن وہ ہم تک نہیں پہنچ سکی جیساکہ دیگر علما کے ساتھ بھی ہواہے۔ ان کے شاگردوں نے جوکتابیں لکھیں ان میں سے کچھ ہم تک پہنچی ہیں اوربیشتر ہم تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔
ان کے شاگردوں میں نمایاں نام امام ابویوسف کاہے۔ انھوں نے درج ذیل کتابیں لکھی ہیں۔ابن ندیم نے امام ابویوسف کی تصانیف میں مندرجہ ذیل کتب کانام لکھاہے۔
کتاب الصلاۃ، کتاب الزکا، کتاب الصیام، کتاب الفرائض، کتاب البیوع، کتاب الحدود، کتاب الوکالۃ، کتاب الوصایا، کتاب الصید والذبائح، کتاب الغصب والاستبرا ء، کتاب اختلاف الامصار، کتاب الرد علی مالک بن انس، کتاب رسالۃ فی الخراج الی الرشید، کتاب الجوامع الفہ لیحیی بن خالد یحتوی علی اربعین کتابا ذکر فیہ اختلاف الناس والرای الماخوذ بہ(الفہرست لابن ندیم ۱؍۳۵۳)
اس فہرست میں ابن ندیم نے کتاب الردعلیٰ مالک بن انس کانام لیاہے؛ لیکن ایسالگتاہے کہ یاتوسبقت قلم سے ایساہوگیاہے، صحیح نام ہوناچاہیے: کتاب الرد علیٰ سیرالاوزاعی۔
امام زفر کی کتابوں کا ابن ندیم نے کوئی تذکرہ نہیں کیاہے؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے بھی کچھ کتابیں لکھی ہیں۔ ابن ندیم نے امام زفر کے ترجمہ میں صرف اتنالکھ کر چھوڑدیاہے کہ ان کی چند کتابیں ہیں۔ کون کون سی ہیں، یہ نہیں بتایا۔ الفہرست کے محقق نے حاشیہ میں لکھاہے کہ ان کی ایک کتاب مجرد فی الفروع کے نام سے ہے۔ اس کے علاوہ جیساکہ مولانا عبدالرشید نعمانی نے ثابت کیاہے کہ ان کی ایک اورکتاب کتاب الآثار کے نام سے ہے جس کاحاکم نے بھی ذکر کیاہے۔لہذاان کی زیادہ تصانیف نہ ہوناکوئی مستبعد نہیں ہے۔
امام محمد بن الحسن کی درج ذیل کتابوں کاابن ندیم نے ذکر کیاہے۔
ولمحمد من الکتب فی الاصول کتاب الصلوٰۃ، کتاب الزکاۃ، کتاب المناسک، کتاب نوادر الصلوۃ، کتاب النکاح، کتاب الطلاق، کتاب العتاق وامھات الاولاد، کتاب السلم والبیوع، کتاب المضارب الکبیر، کتاب المضارب الصغیر، کتاب الاجارات الکبیر، کتاب الاجارات الصغیر، کتاب الصرف، کتاب الرھن، کتاب الشفع، کتاب الحیض، کتاب المزارع الکبیر، کتاب المزارع الصغیر، کتاب المفاوضۃ وھی الشرکۃ، کتاب الوکالۃ، کتاب العاریۃ، کتاب الودیعۃ، کتاب الحوالۃ، کتاب الکفالۃ، کتاب الاقرار، کتاب الدعوی والبینات، کتاب الحیل، کتاب الماذون الصغیر، کتاب الدیات، کتاب جنایات المدبر والمکاتب، کتاب الولاء، کتاب الشرب، کتاب السرق وقطاع الطریق، کتاب الصید والذبائح، کتاب العتق فی المرض، کتاب العین والدین، کتاب الرجوع عن الشھادات، کتاب الوقوف والصدقات، کتاب الغصب، کتاب الدور، کتاب الھبۃ والصدقات، کتاب الایمان والنذور والکفارات، کتاب الوصایا، کتاب حساب الوصایا، کتاب الصلح والخنثی والمفقود، کتاب اجتھاد الرای، کتاب الاکراہ، کتاب الاستحسان، کتاب اللقیط، ، کتاب الآبق، کتاب الجامع الصغیر، کتاب اصول الفقہ، کتاب یعرف بکتاب الحجۃ یحتوی علی کتب کثیر، کتاب الجامع الکبیر، کتاب امالی محمد فی الفقہ وھی الکیسانیات، کتاب الزیادات، کتاب زیادات الزیادات، کتاب التحری، کتاب المعاقل، کتاب الخصال، کتاب الاجارات الکبیر، کتاب الرد علی اھل المدینۃ، کتاب نوادر محمد (الفہرست لابن ندیم۱؍۲۵۴ )
حقیقت یہ ہے کہ امام محمد نے اپنی تصانیف کے ذریعہ ہی فقہ حنفی کا نام زندہ اورروشن رکھاہے اورانہی کی کتابیں فقہ حنفی کا دارومدار ہیں۔اگرکہاجائے کہ فقہ حنفی کو زندہ رکھنے میں ایک بڑاسبب اوراہم کردار امام محمد بن الحسن کی کتابوں اورتصنیفی خدمات کا ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔
امام حسن بن زیاد لولوئی۔یہ بھی بڑے مرتبہ کے فقیہ تھے۔یحییٰ بن آدم جوبڑے درجہ کے مجتہد ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے بڑھ کر فقیہہ نہیں دیکھا،ان کی تصنیفات بقول امام طحاوی درج ذیل ہیں:
قال الطحاوی ولہ من الکتب کتاب المجرد لابی حنیفۃ، روایتہ کتاب ادب القاضی، کتاب الخصال، کتاب معانی الیمان، کتاب النفقات، کتاب الخراج، کتاب الفرائض، کتاب الوصایا (الفہرست لابن ندیم ۱۵۵)
پھراس کے بعد امام ابویوسف،امام محمد ،امام زیاد بن حسن کے شاگردوں اورپھران کے شاگردوں نے جوتصنیفی خدمات انجام دی ہیں: سفینہ چاہیے اس بحربیکراں کے لیے،اوراس کے بعد بھی حالت یہی ہوگی۔ورق تمام ہوااورمدح ابھی باقی ہے۔
مشہور مورخ ابن خلدون لکھتے ہیں: ان کے(امام ابوحنیفہ)فقہ پر کثرت سے کتابیں لکھی گئیں اورشافعیوں سے مناظرہ کی مجلسیں بھی خوب گرم رہیں اوراختلافی مسائل میں انتہائی نفیس ومفید مذاکرات ہوئے اورانھوں نے گہرے وسنجیدہ نظریات پیش کیے۔ (مقدمہ ابن خلدون ص۶۲۵)
اصول فقہ کے باب میں ابن خلدون حنفیہ کی کاوشوں کااعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’پھر (امام شافعی کے بعد)اس پر فقہائے احناف نے کتابیں لکھیں اوران قواعد کی تحقیق کی اوران میں تفصیل سے گفتگو کی۔ اسی طرح اہل کلام نے بھی اس پر کتابیں لکھیں؛ مگراس موضوع پر فقہا کی کتابیں فقہ کے لیے زیادہ موزوں اورفروع کے مناسب ہیں؛ کیونکہ وہ ہرجزئی مسئلہ میں کثرت سے مثالیں وشواہد پیش کرتے ہیں اورفقہی نکات پر مسائل اٹھاتے ہیں،فقہائے حنفیہ اس میں بڑے ماہر ہیں ۔وہ فقہی نکات کے دریا میں غوطہ لگاکر مقدوربھرمسائل فقہ سے ان قوانین کے موتی چن لیتے ہیں۔ جیساکہ انہی کے امام میں سے ابوزید دبوسی کازمانہ آیاتوانھوں نے قیاس پر سب سے زیادہ لکھااوران بحثوں اورشرطوں کو تکمیل تک پہنچادیا، جن کی قیاس میں ضرورت پڑتی ہے۔ ان کی تکمیل سے اصول فقہ کی صنعت مکمل ہوگئی اوراس کے مسائل مرتب اور قواعد تیار ہوگئے ،حنفیہ نے بھی اس علم پر بہت سی کتابیں لکھیں ہیں۔پہلے علما میں ابوزید دبوسی کی اور پچھلے علما میں سیف الاسلام بزدوی کی بہترین کتاب ہے۔جو اس فن کے تمام مسائل کی جامع ہے۔ ابن ساعاتی حنفی نے کتاب الاحکام اوربزدوی کی کتاب کو ایک جگہ ترتیب سے جمع کردیااوراس کا نام البدائع رکھا۔ اس کی ترتیب انتہائی بہترین ہے اوریہ بے حد نادرکتاب ہے۔اس زمانے کے علما کے مطالعہ میں یہی رہتی ہے اوروہ اسی کے مسائل پر تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔بہت سے علمائے عجم نے اس کی شرحیں لکھی ہیں۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون، ص۶۳۲)
جن کو اس تعلق سے زیادہ معلومات چاہیے وہ کشف الظنون، معجم المولفین، المدخل الی المذھب الحنفی اوردیگر کتابوں کا مطالعہ کریں۔جس سے یہ حقیقت بخوبی کھل کر واضح ہوگی کہ علمائے احناف نے تصنیف وتالیف اورپیش آمدہ مسائل میں لوگوں کی رہنمائی ہر دور میں جاری رکھی اوریہی وجہ ہے کہ امت کا ایک بڑاطبقہ فقہ حنفی سے وابستہ رہاہے۔
(۵) فقہ حنفی کی اپنی خصوصیات
فقہ حنفی کی ایک مزید خصوصیت یہ ہے کہ وہ صیقل شدہ ہے۔ یعنی حکومت اورکارقضا اس کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے پیش آمدہ مسائل کاحل اس نے پیش کیاہے اورلوگوں کو جو مختلف طرح معاملات پیش آتے ہیں، اس میں رہنمائی کی ہے۔ تیرہ صدیوں سے وہ تجربات کی بھٹی میں تپ تپ کر کندن ہوچکی ہے، اس معاملے میں اگرکوئی دوسری فقہ اس کے ساتھ شریک ہوسکتی ہے تووہ صرف فقہ مالکی ہے۔
فقہ مالکی اورفقہ حنفی کے تقابل میں فقہ حنفی کو ایک امتیاز یہ حاصل ہے کہ فقہ مالکی کادائرۂ کار صرف اندلس اوران کے اطراف ہی رہے ہیں، جہاں کی تہذیب اومعاشرت ایک جیسی ہے۔ جب کہ فقہ حنفی نے مختلف الاذہان اورمختلف ممالک وقبائل کو اپنے سانچے میں ڈھالاہے۔ایک جانب اگروہ عراق اوردارالسلام بغداد میں حکومت کا سرکاری مذہب ہے تواسی کے ساتھ وہ ترک اورروم میں بھی کارقضا وافتا انجام دے رہاہے۔ اگرایک جانب چینی مسلمان فقہ حنفی کے حلقہ بگوش ہیں تودوسری طرف ہندی مسلمان بھی، اسی کے دائرہ اطاعت میں داخل ہیں۔
بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگرکوئی مذہب اورمسلک تجربات کی بھٹی میں تپ تپ کر کندن ہواہے تووہ صرف فقہ حنفی ہے ۔اگرفقہ حنفی میں جان نہ ہوتی تو وہ تاریخ کے اتنے رگڑے نہیں سہہ سکتی تھی۔وہ اب تک زندہ ہے پایندہ ہے تویہ اس کی نافعیت اورتاریخ کی کسوٹی پر ثابت ہونے والی صداقت ہے۔
اس سلسلہ میں یہ بتادیناشائد نفع سے خالی نہ ہوگاکہ حضرت مولانا مناظراحسن گیلانی نوراللہ مرقدہ یہ کہتے تھے کہ فقہ حنفی اورمالکی تعمیری فقہ ہیں اورفقہ شافعی وحنبلی تنقیدی ہیں اوراس کی توجیہ وہ یہ کرتے تھے:
’’لوگ جانتے ہیں کہ حنفی اورمالکی فقہ کی حیثیت اسلامی قوانین کے سلسلہ میں تعمیری فقہ کی ہے اورشافعی وحنبلی فقہ کی زیادہ تر ایک تنقیدی فقہ کی ہے۔ حنفیوں کی فقہ کومشرق اورمالکی فقہ کو مغرب میں چوں کہ عموماً حکومتوں کے دستور العمل کی حیثیت سے تقریباً ہزار سال سے زیادہ مدت تک استعمال کیاگیاہے؛ اس لیے قدرتاً ان دونوں مکاتب خیال کے علما کی توجہ زیادہ تر جدید حوادث وجزئیات وتفریعات کے ادھیڑبن میں مشغول رہی۔ بخلاف شوافع وحنابلہ کے کہ بہ نسبت حکومت کے ان کا زیادہ ترتعلیم وتعلم، درس وتدریس اور تصنیف وتالیف سے رہا؛ اس لیے عموماً تحقیق وتنقید کا وقت ان کو زیادہ ملتارہا۔‘‘ (شاہ ولی اللہ نمبرص۲۰۰)
(یہاں پر یہ بتادیناضروری ہے کہ فقہ حنفی نے اجتہاد وتقلید کے مابین ایک مناسب خط کھینچا ہے جو افراط وتفریط سے عاری اوراعتدال وتوازن پر مبنی ہے۔ انھوں نے ایک جانب عوام پر مجتہدین کی تقلید کو ضروری قراردیا تو دوسری جانب پیش آمدہ مسائل کی رہنمائی کے لیے اجتہاد فی المذہب کے باب کو مفتوح رکھا؛کیونکہ واقعات وحوادث بے شمار ہیں اور کوئی شخص کتناہی ذہین کیوں نہ ہو؛ لیکن وہ تمام پیش آمدہ واقعات اوراس کی جزئیات نہیں بتاسکتا،لہٰذا اس کی ضرورت باقی رہتی ہے کہ اجتہاد فی المذہب کا سلسلہ جاری رہے۔)
فقہ حنفی کی ایک اورخصوصیت جواس کو دیگر فقہ سے ممتاز کرتی ہے، یہ ہے کہ امام ابویوسف، امام محمد اورامام زفر اگرچہ خود اپنی جگہ مجتہد مطلق تھے؛ لیکن ان کے اقوال بھی امام ابوحنیفہ کے اقوال کے ساتھ ہی کتابوں میں ذکر کیے گئے ہیں، لہٰذا یہ سب مل ملاکر فقہ حنفی ہوگئے ہیں۔ جس کی وجہ سے فقہ حنفی کادائرہ بہت وسیع ہوگیاہے۔شیخ ابوزہرہ اس تعلق سے لکھتے ہیں:
’’صرف امام ابوحنیفہ کے اصحاب وتلامذہ کے افکار وآرا ہی ان کے اقوال سے مخلوط نہیں ہوئے؛ بلکہ آگے چل کر لوگوں نے ان میں ایسے اقوال کوبھی داخل کردیے، جو امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب سے منقول نہ تھے۔ ان میں سے بعض اقوال کو حنفی مسلک سے وابستہ سمجھاگیااوربعض کو نہیں۔ بعض علما نے کچھ اقوال کوراجح اورکچھ کومرجوح قراردیا۔اس طرح اختلاف وترجیح میں اضافہ ہوتارہا اوریہ سب کچھ بڑے دقیق اورمحکم قواعد پر مبنی تھے۔اس طرح فقہ حنفی میں وسعت پیداہوئی اوراس کا دامن اتناوسیع ہوگیاکہ اس میں زمانہ کے لوازمات اورعام حالات کاساتھ دینے کی صلاحیت پیداہوئی۔‘‘ (حیات حضرت امام ابوحنیفہ ص۷۲۴)
آگے چل کر شیخ ابوزہرہ لکھتے ہیں کہ فقہ حنفی کی ترقی کا باعث تین عوامل ہوئے :
(۱) حنفی مذہب کے دائرہ کے مجتہد اورتخریج مسائل کرنے والے فقہا
(۲) امام صاحب اورآپ کے اصحاب سے منقول اقوال کی کثرت
(۳) تخریج مسائل کی سہولت اورمخرجین کے اقوال کامعتبرہونا
(۶) داعیان دین کی کوششیں اورکاوشیں
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ سلطنت عباسیہ کے خلفا حنفی مذہب سے ارادت اورعقیدت رکھتے تھے۔سلطنت عباسیہ کے قاضی اورچیف جسٹس وغیرہ حنفی ہواکرتے تھے۔یہ حکومتیں کفر کی سرزمین پر لشکرکشی کیاکرتی تھیں۔ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہزاروں افراد اسلام لے آتے تھے۔ان نومسلموں کواسلامی تعلیمات سکھانے کی ذمہ داری قاضیوں کی ہوا کرتی تھی ۔یہ قاضی چونکہ خود بھی حنفی ہوتے تھے؛ لہذا ان کو مسائل فقہیہ کی تعلیم بھی فقہ حنفی کے مطابق دیاکرتے تھے۔ اس طرح رفتہ رفتہ تھوڑے ہی عرصہ میں فقہ حنفی نے ایک بڑی اوروسیع جگہ پیداکرلی۔بالخصوص نومسلمین تمام کے تمام فقہ حنفی سے ہی وابستہ ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ ان نومسلمین قبائل میں سے آگے چل کر جنھوں نے سلطنت وحکومت کی باگ ڈورسنبھالی۔ جیسے کہ سلجوقی،مغل،آل عثمان وغیرہ ۔وہ سب کے سب بھی حنفی ہوئے۔اس کے علاوہ بھی دیگر داعیانِ دین جنہوں نے انفرادی طورپر دعوت دین کاعلم بلند کیاوہ بھی زیادہ تر حنفی تھے۔
جب چنگیز خان کی قیادت میں تاتاریوں نے عالم اسلامی کوروند دیاتواس وقت عالم اسلام زوال کا شکار تھا۔ اورایسالگتاتھاکہ اس کے دن پورے ہوچکے ہیں؛ لیکن خداکی رحمت جوش میں آئی اورفاتحین نے مفتوحین کے مذہب کوقبول کرلیا۔ چنگیز خان کی حکومت اس کے بیٹوں میں تقسیم کردی گئی تھی۔چنگیز کے بڑے بیٹے کی نسل جوجی خان میں سے برکہ خان نے اسلام قبول کیا،اس طرح کہ اس کو خود اسلام کی طرف رغبت ہوئی اور اس نے مسلم تاجروں سے اس کے حوالے سے پوچھااوراسلام قبول کرلیااوراپنے چھوٹے بھائی کوبھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ چنگیز خان کا پوتاقازان بن ارغوان امیرتوزون کی تلقین سے ان کے ہاتھ پرمشرف بہ اسلام ہوا۔چنگیز خان کے خاندان کی تیسری شاخ جو بلادمتوسطہ پر قابض تھی، اس میں سے تیمور خان نے ایک مسلم داعی شیخ جمال الدین کاشغر کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔(بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص۳۳۱)
حقیقت یہ ہے کہ مغل اورترک تمام کے تمام حنفی گزرے ہیں اوراس کی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے جن کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیاوہ سب حنفی تھے، لہذا اس اثر سے انھوں نے بھی فقہیات میں حنفی مسلک کواپنایا۔
اسی طرح ہم ہندوستان میں دیکھیں کہ حضرات صوفیا کرام کے وجود باجود سے ہندوستان میں اسلام کی نشرواشاعت ہوئی ۔صرف خواجہ اجمیر ی کے تعلق سے بعض مورخین نے لکھاہے کہ نوے لاکھ افراد حلقہ بگوش اسلام ان کی وجہ سے ہوئے۔پھران کے خلفا اورمریدین نے دوردراز کے مقامات پر جس طرح اسلام کو پھیلایا،وہ تاریخ کاحصہ ہے۔
سیر الاولیا کے مصنف حضرت خواجہ معین الدین چشتی اوران کے خلفا کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ملک ہندوستان اپنے آخری مشرقی کنارہ تک کفروشرک کی بستی تھی ۔اہل تمرد انا ربکم الاعلی کی صدا لگارہے تھے۔اورخداکی خدائی میں دوسری ہستیوں کوشریک کرتے تھے اوراینٹ، پتھر، درخت، جانور، گائے کوسجدہ کرتے تھے۔ کفر کی ظلمت سے ان کے دل تاریک اورمقفل تھے۔ سب دین وشریعت سے غافل، خداوپیغمبر سے بے خبرتھے۔ نہ کسی نے قبلہ کی سمت پہچانی۔نہ کسی نے اللہ اکبرکی صداسنی،آفتاب اہل یقین حضرت خواجہ معین الدین کے قدم مبارک کا یہاں پہنچنا تھاکہ اس ملک کی ظلمت نوراسلام سے مبدل ہوگئی۔ اوران کی کوشش وتاثیر سے جہاں شعائرشرک تھے، وہاں مسجد ومحراب ومنبر نظرآنے لگے۔ جوفضا شرک کی صدا سے معمورتھی، وہ نعرۂ اللہ اکبر سے گونجنے لگی۔اس ملک میں جس کو اسلام کی دولت ملی اورقیامت تک جو بھی اس دولت سے مشرف ہوگا۔ نہ صرف وہ بلکہ اس کی اولاد دراولاد نسل درنسل سب ان کے نامہ اعمال میں ہوں گے اوراس میں قیامت تک جوبھی اضافہ ہوتارہے گا اوردائرہ اسلام وسیع ہوتارہے گا۔ قیامت تک اس کاثواب شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجری کی روح کو پہنچتارہے گا۔‘‘ (سیر اولیا ص، بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص۲۸-۲۹)
سیر الاقطاب کے مصنف لکھتے ہیں: ہندوستان میں ان کی وجہ سے اسلام کی اشاعت ہوئی اورکفر کی ظلمت یہاں سے کافور ہوئی۔(سیرالاقطاب ص۱۰۱)
یہ صرف صوفیانہ خوش عقیدگی نہیں ہے؛ بلکہ دیگر مورخین نے بھی اس کااعتراف کیاہے۔ ابوالفضل آئین اکبری میں لکھتاہے: اجمیر میں عزلت گزریں ہوئے اوراسلام کا چراغ بڑی آب وتاب سے روشن کیااوران کے انفاسِ قدسیہ سے جوق درجوق انسانوں نے ایمان کی دولت پائی۔(آئین اکبری،سرسید ایڈیشن ص ،بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص۳۰)
یہ سب صوفیائے کرام چونکہ حنفی تھے، لہذا نومسلم بھی فقہ حنفی سے ہی وابستہ ہوئے۔
برصغیر ہندوپاک میں کس طرح اسلام پھیلا۔اس پرپروفیسر آرنلڈ کی کتاب پریچنگ آف اسلام کا مطالعہ کیاجائے۔ہم اس مختصر مضمون میں کچھ اشارے کردیتے ہین بالخصوص ہندوستان کے تعلق سے۔
کشمیر جوبرہمنوں کا گڑھ تھا،اس کو سید علی ہمدانی نے اپنی دعوتی کوششوں سے اسلام کے مرکز میں تبدیل کردیا اور اس طرح تبدیل کیاکہ آبادی کاتوازن ہی بالکل الٹ دیا۔جہاں کبھی برہمن اکثریت میں تھے، اب وہ اقلیت میں آگئے۔ سید علی ہمدانی حنفی تھے، لہذا ظاہرسی بات ہے کہ ان کے اثر سے اسلام قبول کرنے والے بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہوئے۔
خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے جس طرح ہندوستان میں اسلام کی نشرواشاعت کی۔ اس کے بارے میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:
’’سلسلہ چشتیہ کی بنیاد ہندوستان میں پہلے ہی دن سے اشاعت وتبلیغ اسلام پر پڑی تھی۔ اوراس کے عالی مرتبت بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ہاتھ پر اس کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے کہ تاریخ کے اس اندھیرے میں اس کا اندازہ لگانابھی مشکل ہے‘‘۔ (تاریخ دعوت وعزیمت جلد سوم)
’’پنجاب کے مغربی صوبوں کے باشندوں نے خواجہ بہاء الحق ملتانی اوربابافرید پاک پٹن کی تعلیم سے اسلام قبول کیا۔یہ دونوں بزرگ تیرہویں صدی عیسوی کے قریب خاتمہ اورچودھویں صدی عیسوی کے شروع میں گزرے ہیں۔ بابافرید گنج کے بارے میں مصنف نے لکھاہے کہ انھوں نے سولہ قوموں (برادریوں) کو تعلیم وتلقین سے مشرف بہ اسلام کیا‘‘۔ (پریچنگ آف اسلام)
اس کے علاوہ تمل ناڈو کے بارے میں آتاہے کہ وہا ں نویں صدی میں ایک بزرگ مظہر نامی آکربسے تھے اوران کے ساتھ مریدین تھے۔ انھوں نے وحشیوں کو زیربھی کیااوراپنے اخلاق وکردارسے ان کو اسلام کی جانب مائل بھی کیا۔ بنگال وبہار میں بھی اسلام کی شاعت صوفیا کرام ہی کے زیر اثر ہوئی۔اوریہ بات مخفی نہیں ہے کہ صوفیا کرام میں سے تمام کے تمام حنفی تھے، لہٰذا ان کے وابستگان بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہوئے۔
انڈونیشیا اور ملیشیا میں حنفیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔جب کہ وہاں پر کوئی لشکر کشی نہیں ہوئی، وہاں تاجروں کے ذریعہ اسلام پھیلا۔گمان غالب یہ ہے کہ یہ تاجربھی حنفی ہوں گے اوران کے اثر سے اسلام قبول کرنے والوں نے فقہ حنفی کو اپنایاہوگا۔
یہ اگرچہ انتہائی مختصر جائزہ ہے؛ لیکن اس سے اتنی بات ثابت ہورہی ہے کہ صوفیا کرام اور داعیان دین کا فقہ حنفی کی نشرواشاعت میں اہم کردارہے۔
(۷) حکومت وسلطنت کا اثر
عمومی طورپر مورخین نے بھی فقہ حنفی کے قبولِ عام اوراقطارِعالم میں پھیلنے کاایک سبب حکومت وسلطنت کی سرپرستی قرار دیا ہے اور امام ابویوسف کے عباسی سلطنت میں قاضی القضا(چیف جسٹس)بننے کو بڑی وجہ قراردیاہے۔ابن حزم لکھتے ہیں:
مذہبان انتشرا فی بدء امرھما بالریاسۃ، الحنفی بالمشرق والمالکی بالاندلس (وفیات الاعیان۲؍۲۱۶)
’’دومذہب ابتدا میں حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے پھیلے، مشرق میں حنفی اوراندلس میں مالکی مذہب۔‘‘
ابن خلدون لکھتے ہیں: امام ابوحنیفہ کے ماننے والے آج عراقی، سندھی، چینی ،ماورا النہر اورتمام عجمی شہروں کے مسلمان ہیں؛ کیونکہ ان کامذہب خصوصیت سے عراق اوردارالسلام کامذہب تھااورسرکاری مذہب کو ہی زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
وکان اشھر اصحابہ ذکرا ابو یوسف، تولی قضاء القضاۃ ایام ھارونِ الرشید فکان سببا لظھور مذھبہ والقضاء بِہِ فِی اقطارِ العراقِ وخراسان و ما وراء النھر (الانصاف فی اسباب الاختلاف ص ۳۹)
اس سے انکار نہیں کہ یہ بھی فقہ حنفی کے نشرواشاعت کاایک سبب ہے؛ لیکن اسی کو مکمل سبب قراردینا،نہ صرف امام ابوحنیفہ اوران کے شاگردوں کے کارناموں کے ساتھ ظلم ہے؛ بلکہ ان تمام فقہائے احناف کے ساتھ ظلم ہے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی فقہ حنفی کی خدمت میں لگادی۔
(۸) فقہ حنفی کو حکومت کی مخالفت کا سامنا
یہ شاید بہتوں کومعلوم نہ ہوکہ فقہ حنفی پرسرکاری ظلم واستبداد بھی خوب ہوئے ہیں۔ دیگرمسالک اس سے بہت حد تک بچے رہے ہیں۔اندلس وغیرہ میں فقہ حنفی رواج پذیرتھی؛ لیکن وہاں کے سلطان نے شاہی استبداد سے کام لے کر فقہائے احناف کو اپنی مملکت سے جلاوطن کردیا۔مقدسی احسن التقاسیم میں بعض اہل مغرب کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
ایک مرتبہ سلطان کے سامنے دونوں فریق جمع ہوئے سلطان نے پوچھا:امام ابوحنیفہ کہاں کے ہیں؟کہاگیا:کوفہ کے۔ پھراس نے پوچھا:امام مالک کہاں کے ہیں؟ جواب دیاگیا: مدینہ کے۔ تواس نے کہا: ہمارے لیے صرف امام دارالہجرت کافی ہیں۔ اس کے بعد اس نے تمام فقہائے احناف کوملک سے باہر نکل جانے کاحکم دے دیااورکہنے لگامیں اپنی سلطنت میں دومذہب پسند نہیں کرتا۔(احسن التقاسیم)
مصر میں فقہ مالکی شافعی اورحنفی سبھی موجود تھے؛ لیکن فاطمی حکمرانوں کے دورمیں صرف فقہ حنفی کووہاں کے حکام نے نشانہ بنایا۔اوراس کی وجہ سیاسی تھی؛ کیونکہ فقہ حنفی سلطنت عباسیہ کاسرکاری مذہب تھااورعباسی خلفا اورفاطمی حکمرانوں میں ہمیشہ چپقلش رہتی تھی، دونوں دینی سیادت وقیادت کے دعویدار تھے۔ایک سنیوں کا نمائندہ تودوسراشیعوں کا نمونہ تھا۔اسی وجہ سے فاطمی حکمرانی کے دورمیں جوطویل عرصہ تک ممتد رہا، فقہ حنفی کونشانہ بنایاگیا۔
اسی طرح فارس یعنی موجودہ ایران پورا کا پورا فقہ حنفی پر عمل پیرا تھا؛ لیکن ایک جانب وہاں صفوی خاندان کے حکمرانوں نے شیعیت کی ترویج میں جم کر حصہ لیاتودوسری جانب سلطنتِ عثمانیہ سے چپقلش کی وجہ سے ایرانی حکمرانوں نے حنفیوں پر زندگی تنگ کردی اوران کو ہرطرح سے ستایاگیا۔نتیجہ یہ ہواکہ وہ شہراوربلاد وامصار جوکبھی فقہائے احناف کے گڑھ ہواکرتے تھے، ویران اورسنسان ہوگئے۔اورفارس جوکبھی علمی رہنمائی میں اسلامی دنیاکا نقیب اوررہنماتھاعلمی تنزلی سے ایسادوچارہواکہ کل تک جوزمانہ کے امام تھے، وہ غیروں کے پیروکار بن گئے۔
ہم نے یہ کچھ وجوہ اس لیے بیان کیے ہیں تاکہ فقہ حنفی کے شیوع اور قبولِ عام کے تعلق سے مخالفانہ پروپیگنڈہ کرنے والے اپنے نظریات پرسنجیدگی سے غورکریں اورسمجھیں کہ مورخین کے چند بیانات کوجس طرح وہ اپنی دلیل بنائے ہوئے ہیں، وہ اس موضوع کے موضوعی اور غیرجانبدارنہ مطالعہ میں کہاں تک درست اورباصواب ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنی مرضیات پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)