(محمد حسین، گزشتہ کئی سالوں سے امن و مکالمہ کے ماہر نصابیات اور ٹرینر کے طور پر کام کر رہے ہیں اور مختلف موضوعات پر ایک درجن سے زائد کتابوں کی تحریر و تدوین کے علاوہ مذہبی ہم آہنگی پر کئی ہزار مذہبی و سماجی قائدین کو تربیت دے چکے ہیں۔)
انفرادی و اجتماعی زندگی کے متعدد محرکات کی بنیاد پر انسان اپنی تاریخ کے طول و عرض میں مختلف و متعدد ارتقائی مراحل سے گزرا ہے۔ گزشتہ تین صدیوں کے دوران دنیا کے مختلف ممالک و تہذیبوں میں بٹے انسانی معاشرے نے ترقی ( یا بسا اوقات تنزل) کے کئی سنگ میل کئی انقلابات کی صورت میں تیز رفتاری سے طے کیے ہیں۔ اکیسویں صدی میں سائنس اور سماج میں ہوشربا ترقی کے نتیجے میں دنیا سکڑ کر ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے، ایک ایسا گاؤں جس میں اس کے ایک کونے میں پیش آنے والے حالات پورے گاؤں کو متاثر کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اس عالمگیریت کے باعث اقوام عالم متعدد فکری، سیاسی، سماجی، قانونی اور مذہبی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں۔ ایسے میں ایک طرف انفرادی، گروہی اور ریاستی مفادات نے مختلف اقوام کے اندر ایک تناؤ کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے اور دوسری طرف مختلف نسلی، لسانی، مذہبی اور سماجی و سیاسی تعصبات نے پْرامن بقائے باہمی کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ مفادات اور تعصبات کی چپقلش نے کبھی مذہبی رنگ تو کبھی سیاسی رنگ اور بسا اوقات نسلی رنگ اختیار کرتے ہوئے مختلف اقوام و رنگ و نسل کے کروڑوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا ڈالا ہے۔
شعور اور تجربات کے اس تلخ و شیریں سفر نے انسان کو کبھی مختلف تہذیبوں کے اندر سے کچھ چیزوں کے احیائے نو کی راہ دکھائی ہے تو کبھی فکر و عمل کی نئی راہوں کی تلاش پر اسے لگا دیا ہے۔ دنیا کو درپیش مشکلات کے حل، اور اس میں رہنے والوں کی زندگی میں امن، خوشحالی، توازن اور ترقی کے لیے جن چیزوں پر پھر سے اصرار کیا جانے لگا ہے، ان میں سے ایک دنیا کے مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کی ثقافت کا احیا ہے۔ غلط یا صحیح، موجودہ دنیا میں تنازعات و فسادات کے ایک اہم عنصر کے طور پر مذہب کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، اور مذہبی تعلیمات و روایات کو بھی تشدد کے ایک اہم سرچشمے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس پورے پس منظر میں بین المذاہب مکالمے کی ثقافت کے احیاء کی بنیاد اس سوال پر ہے کہ کیا مذاہب کی تعلیمات واقعتا تشدد کا سرچشمہ ہیں یا وہ امن کا سرچشمہ کہلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟ بہت سے اہل فکر و دانش کا خیال یہ ہے کہ مذہب انسان کو تقسیم کرتا ہے اور انسانی معاشرے کو فسادات و تعصبات کی بھینٹ چڑھادیتا ہے جبکہ بہت سے ایسے ہیں جو یہ دلائل دیتے ہیں کہ مذہب انسان کو روحانیت اور اخلاقیات کی اعلیٰ اقدار پر متحد کر سکتا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ مذہب میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ انسان کو ان فسادات و مسائل سے نجات دلا سکے۔ ان کے نزدیک دنیا کے تمام مذاہب میں ایسی تعلیمات موجود ہیں جن میں انسانیت کی بہتری اور فلاح کا سامان موجود ہے۔ سب مذاہب نے انسانوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے، ان کی خدمت کرنے، ضرر رسانی سے بچنے اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے پر زور دیا ہے۔
عام طور پر جب بھی بین المذاہب مکالمے کا نام سامنے آتا ہے تو اس سے طرح طرح کا تاثر لیا جاتا ہے:
- بعض لوگوں کے ذہن میں یہ آتا ہے کہ بین المذاہب مکالمے سے مراد یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے اعتقادی نقطہ ہائے نظر سے دست بردار ہو کر مذہب کی ایک بالکل نئی تفہیم کے قائل ہو جائیں جس کی بنیادیں ان کے دینی تعلیمات سے متصادم ہوں۔
- بعض کا خدشہ ہے کہ بین المذاہب مکالمہ شاید مذاہب کے اتحاد کا نام ہے۔
- کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بین المذاہب مکالمہ سے مراد مذاہب پرسمجھوتہ کرتے ہوئے ان سے مضبوط وابستگی سے دست برداری کا نام ہے اور کم از کم جدت پسند مذہبی بننا مقصود ہے۔
- کچھ کا خیال ہے کہ یہ موجودہ مذاہب کو چھوڑ کر ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھنے کا نام ہے۔
- بین المذاہب مکالمہ کا نام جب لیا جاتا ہے تو اس سے عام طور پر یہ تاثر بھی لیا جاتا ہے کہ شاید یہ کوئی مغربی ایجنڈا ہے۔
- بعض اسے روایتی مذہبی فکر کے خلاف ابھرتی ہوئی ایک متوازی فکر قرار دیتے ہیں۔
مذکورہ بالا سارے خدشات کے پیچھے کچھ باتیں قابل غور بھی ہیں، خاص طور پر کچھ اداروں، تنظیموں اور ممالک کے اپنے مخصوص اہداف، طرز عمل اور سرگرمیوں نے ایسے شکوک و شبہات کو مزید قوی کر دیا ہے۔ یہ تلخ حقیقت بھی ملحوظ رہے کہ طاقتور ممالک اور ریاستی اداروں نے دنیا کے مختلف خطوں میں مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مضبوط اور اثر انگیز لبادے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ بھی قرین قیاس ہے کہ شاید بعض تنظیموں نے بین المذاہب مکالمے کے نام سے کوئی خاص مفہوم کشید کر لیا ہو جس سے تاثر بنتا ہو کہ بین المذاہب مکالمہ سے مراد مذہب پر سمجھوتہ کرتے ہوئے اس سے وابستگی کے عنصر کو کم کرنا ہے.
میری نظر میں بین المذاہب مکالمہ سے مراد سارے مذاہب (جو اس وقت دنیا میں موجود ہیں ) کی موجودگی اور ان کے کردار کا اعتراف کرنے کا نام ہے۔ موجودگی کے اعتراف کے ساتھ ہر انسان چاہے وہ جس مذہب سے وابستہ ہو، اس کے جینے اور انسانی قدر و منزلت کے بنیادی حق کو تسلیم کرنے اور مختلف مذاہب کے درمیان پْرامن بقائے باہمی کو یقینی بنانے کی خاطر باہمی رواداری اور احترام کو فروغ دینے کا نام ہے۔
بین المذاہب مکالمے کے دو اہم پہلو ہیں۔ پہلا، مذاہب کی تعلیمات (مآخذ، عقائد، احکامات، مذہبی رسومات، اخلاقی تعلیمات اور تصور کائنات)، اور دوسرا، ان سے وابستہ افراد و اقوام کی بشریات (اطوار، رسوم، تاریخ، حالات و واقعات، وسائل و مسائل )۔ ان دونوں پہلووں کو دیکھنے اور سمجھنے کے بھی دو مختلف تناظرات ہیں۔ ایک داخلی تناظر جسے متعلقہ مذہب سے وابستہ اہل علم پیش کرتے ہیں۔ اور دوسرا بیرونی تناظر جو ایسے مکالمے کے دوران دوسرے لوگ اس مذہب یا ان سے وابستہ افراد و اقوام کے بارے میں پیش کرتے ہیں۔ بین المذاہب مکالمے کی سرگرمیوں میں کبھی دونوں پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور کبھی ایک پہلو ہی زیر نظر ہوتا ہے۔
بین المذاہب مکالمے میں دو چیزیں اگر ملحوظ رہیں تو فکرمندی کا پہلو کافی کم ہو جاتا ہے؛ ایک دیانت دار ی یعنی اگر آپ ایسے مکالمے میں حصہ لے رہے ہیں تو آپ کو اپنے نقطہ نظر پیش کرنے میں کسی قسم کی شرمندگی محسوس کرنے، معذرت خواہانہ رویہ اپنانے اور لیپا پوتی کا سہارا لینے کی ضرورت پیش نہیں آنی چاہیے۔ دیانت داری، خود اعتمادی اور شائستگی کا دامن تھامے رکھنا بین المذاہب مکالمے کو تقویت بخشتا ہے۔ دوسرا، آپ دوسروں کے اختلافی نقطہ نظر کو سننے کا حوصلہ پیدا کریں اور اس اختلاف کے باوجود اس کے ساتھ اخلاص اور احترام پر مبنی تعلق قائم رکھنا سیکھیں۔
گزشتہ کئی سالوں کے دوران مختلف اداروں خاص طور پر ادارہ امن و تعلیم، اسلام آباد کے پلیٹ فارم سے مجھے پاکستان بھر میں بین المذاہب قائدین کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران طلبہ، اساتذہ، ائمہ و خطباء، ٹرینرز کے لیے نصاب تیار کرنے کے علاوہ ان لوگوں کے ساتھ تربیتی پروگرامات اور مشاورتی اجلاسوں اور علمی مذاکروں میں افادہ و استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ مختلف مسالک ومذاہب کی عبادت گاہوں، سماجی مراکز اور تعلیمی درسگاہوں کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ اس کے علاوہ حال ہی میں امریکہ میں ڈریو یونیورسٹی ، نیو جرسی اسٹیٹ کے تحت مذہب اور تنازعات کے حل کے عنوان سے تین ہفتوں پر مبنی ایک بین الاقوامی بین المذاہب مکالمے کے پروگرام میں شرکت کی جہاں دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے شرکا سے ان کے نقطہ ہائے نظر کو جاننے اور مختلف موضوعات پر منتخب ماہرین سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔
گزشتہ کئی سالوں کے تجربات اور مختلف مسالک و مذاہب، ممالک و علاقوں سے تعلق رکھنے والے پانچ ہزار سے زائد مذہبی قائدین سے تربیتی نشستوں، مشاورتی اجلاسوں، علمی مذاکروں ، مکالموں اور تعامل کے دوران بارہا محسوس کیا ہے کہ بین المذاہب مکالمہ سے جہاں آپ کو مختلف مذاہب اور ان سے وابستہ افراد کے نقطہ نظر کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے، وہیں آپ کو اپنے مذہب کے ساتھ وابستگی کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ نیز ایک چیز بہت صراحت کے ساتھ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ بین المذاہب مکالمے کی کوششوں کے دوران آپ کو اپنے مذہب کو مختلف افقی و عمودی تناظر ات میں سمجھنے کا موقع میسر آتا ہے۔اس دوران آپ کو اپنے مذہب سے اپنی وابستگی مستحکم ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔