اراکان کے مظلوم مسلمان اور امت مسلمہ کی ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اراکان کے مظلوم مسلمانوں کی بے بسی کے حوالہ سے دنیا بھر میں اضطراب بڑھ رہا ہے اور مختلف ممالک میں اس کا عملی اظہار بھی ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں اس پر بحث جاری ہے اور متعدد مسلم ممالک کے ادارے اور تحریکات اپنے احتجاج کا دائرہ وسیع کر رہی ہیں۔ حکومت پاکستان نے بھی اس سلسلہ میں عملی اقدامات کا عندیہ دیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اراکانی مسلمانوں کا مسئلہ عالمی فورم پر اٹھانے اور وہاں کے مہاجر مسلمانوں کو پاکستان میں پناہ دینے کی تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے۔ جبکہ ملک کے مختلف حصوں میں درجنوں دینی جماعتوں کی طرف سے اس سلسلہ میں احتجاجی جلسے اور مظاہرے جاری ہیں۔ 

اراکان بنگلہ دیش اور برما کے ساتھ چٹاگانگ سے متصل ایک پہاڑی سلسلہ کے ساتھ ملحقہ خطے کا نام ہے جہاں صدیوں سے روھنگیا مسلمان آباد ہیں۔ ایک دور میں وہاں مسلمانوں کی مستقل ریاست کم و بیش ساڑھے تین سو برس تک قائم رہی ہے اور چٹاگانگ بھی صدیوں اس کا حصہ رہا ہے۔ یہاں بدھوں اور مسلمانوں کی کشمکش اس زمانہ میں بھی عروج پر رہی ہے اور اس میں ہزاروں مسلمانوں کی قربانیاں تاریخ کے ریکارڈ پر ہیں۔ 

برطانوی استعمار نے برما کی طرح اس ریاست پر بھی قبضہ کر لیا تھا لیکن جب برما کو آزادی دی تو اراکان کو بھی اس کا حصہ بنا دیا، جبکہ چٹاگانگ بنگال میں شامل ہوگیا اور اس طرح مسلمانوں کی صدیوں تک رہنے والی اس آزاد ریاست کو غلامی کے ایک دور کے بعد تقسیم کر دیا گیا۔ مگر برما نے اراکان کے باشندوں کو اپنے ملک کا شہری تسلیم کرنے میں کبھی سنجیدگی نہیں دکھائی۔ اسے اراکان کے علاقہ سے تو دلچسپی رہی لیکن خطہ پر قبضہ اور تسلط کے بعد وہاں صدیوں سے رہنے والے بلکہ تین سو سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کو اس ملک کے باشندے تسلیم کرنے اور شہری کی حیثیت اسے انہیں مسلمہ حقوق دینے کے لیے برمی حکومت کبھی تیار نہیں ہوئی۔ یہی وہاں کا اصل مسئلہ ہے۔ برمی حکومت اپنے ملک میں شامل ایک خطہ کی اکثریتی آبادی کو اگر ملک کا شہری تسلیم نہیں کرتی تو اسے اس خطہ کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر لینا چاہیے اور اگر وہ اس خطہ کو آزادی دینے کے لیے تیار نہیں ہے تو وہاں کے باشندوں کو ملک کا شہری تسلیم کر کے انہیں شہری حقوق سے بہرہ ور کرنا چاہیے۔ اس کے سوا اس مسئلے کا اور کوئی حل نہیں ہے۔ 

اراکان کے مسلمانوں کی ایک ’’غلطی‘‘ یہ بھی ہے جو برمی حکمرانوں کو ابھی تک ہضم نہیں ہوئی کہ جب پاکستان کے قیام کی تحریک چلی تو وہاں کے سیاسی قائدین نے یہ خیال کیا کہ مسلم اکثریت کے اصول پر پاکستان کے نام سے ایک مستقل ریاست وجود میں آرہی ہے جو نہ صرف اس کے پڑوس میں ہیں بلکہ صدیوں اراکان کا حصہ رہنے والا چٹاگانگ بھی پاکستان میں شامل ہو رہا ہے، اس لیے انہوں نے تحریک پاکستان کے سربراہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے ملاقات کر کے درخواست کی کہ اراکان کے اس خطہ کو بھی پاکستان میں شامل کیا جائے۔ ہمارے خیال میں یہ بات بہت سے حوالوں سے قرین قیاس تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا اور اراکانی مسلمانوں کی اس خواہش نے برمی حکومت کے غیظ و غضب میں اضافہ کر دیا جس کا وہ ابھی تک شکار ہیں اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اراکانی مسلمانوں کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ برما کی حکومت انہیں اپنے ملک کا باشندہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ان پر ریاستی جبر کا دائرہ مسلسل تنگ کر کے انہیں ترک وطن پر مجبور کیا جا رہا ہے لیکن جب وہ ترک وطن کر کے اپنے قریب ترین پڑوسی اور مسلمان ملک بنگلہ دیش کا رخ کرتے ہیں تو وہاں انہیں قبول نہیں کیا جاتا اور وہ کشتیوں میں بے سروسامانی کی حالت میں سمندر کی لہروں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں اراکانی مسلمان دنیا کے مختلف ممالک میں پناہ گزین ہیں اور سینکڑوں سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔ اقوام متحدہ وقتاً فوقتاً برمی حکومت کو تنبیہ کر کے کہ وہ اراکانی آبادی کو شہری حقوق دے، مطمئن ہو جاتی ہے کہ اس کا فرض ادا ہوگیا ہے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے اخباری بیان اور اعداد و شمار جاری کر کے خود کو اپنی ذمہ داری سے سبکدوش سمجھ رہے ہیں جبکہ اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم کو تو گویا سانپ ہی سونگھ گیا ہے کہ وہ زبانی جمع خرچ کی ضرورت بھی نہیں محسوس کر رہی۔ اس صورت حال میں اگر حکومت پاکستان نے اس طرف توجہ دینے کا فیصلہ کیا تو یہ ’’دیر آید‘‘ کے باوجود خوش آئند ہے اور تحریک پاکستان کے موقع پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے اراکان کو پاکستان میں شامل کرنے کی درخواست کے تناظر میں یہ حق پاکستان ہی کا بنتا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں پیش رفت کرے۔ اس لیے ہم حکومت پاکستان کے اس ارادے کا خیر مقدم کرتے ہوئے درخواست کرتے ہیں کہ:

  • سمندر میں بھٹکنے والے اور بے گھر ہو جانے والے اراکانی مسلمانوں کو بچانے اور سنبھالنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور ہنگامی بنیادوں پر عملی کاروائی شروع کی جائے۔ 
  • اقوام متحدہ اور عالمی اداروں میں اراکانی مسلمانوں کی مظلومیت کا کیس سنجیدگی کے ساتھ اٹھایا جائے۔
  • اراکانی مسلمانوں کی امداد و تعاون اور ان کی بحالی کے اقدامات کے ساتھ ساتھ ان کے مذہبی اور قومی تشخص کے تحفظ اور اراکان کے اس خطہ کے محفوظ اور باوقار مستقبل کے لیے دیگر مسلمان حکومتوں کو اعتماد میں لے کر عالمی سطح پر کسی معقول فیصلے کا اہتمام کیا جائے۔ 

حالات و واقعات

(جولائی ۲۰۱۵ء)

تلاش

Flag Counter