(۱)
محترم جناب سید متین احمد شاہ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں مسلمان عورت کا غیر مسلموں کے ساتھ نکاح کے موضوع پر آپ کا مقالہ پڑھا۔ ماشاء اللہ خوب لکھا ہے ، اگرچہ کہیں کہیں مجھے طرز استدلال سے اختلاف ہے۔ تاہم مقدمات اور نتائج سے مجھے بنیادی طور پر اتفاق ہے۔ آخر میں برادرم جناب عمار خان ناصر کا مکتوب بھی شائع کیا گیا ہے اور مجھے یہ چند سطور لکھنے پر اسی مکتوب نے مجبور کیا ہے کیونکہ اندیشہ یہ ہے کہ کہیں ان کے مکتوب کی وجہ سے آپ کی رائے میں بھی کچھ تبدیلی نہ آگئی ہو۔
عمار بھائی کے مکتوب میں مجھے سب سے دلچسپ بات یہ لگی کہ اس نوعیت کے تعلق کو ’’قطعی طور پر منصوص کہنا ازروئے اصول فقہ کافی مشکل ہے۔‘‘
اولاً : مجھے یہ بالکل بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ ’’قطعی طور پر منصوص‘‘ سے ان کی مراد کیا ہے ؟ جہاں تک ان کے استاد گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے "اصول فقہ "کا تعلق ہے ، اس کی رو سے تو قرآن سارا کا سارا ’’قطعی الدلالۃ‘‘ ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس طرح کے مسائل میں انھیں وہ قطعیت نظر نہیں آتی ؟
ثانیاً : ’’منصوص‘‘ سے ان کی مراد کیا ہے ؟ ان کے مکتبِ فکر کے اصول فقہ میں کیا ظاہر ، نص ، مفسر اور محکم ؛اور اسی طرح خفی ، مشکل ، مجمل اور متشابہ ؛ نام کی تقسیمات مقبول ہیں یا نہیں ؟ بظاہر تو نہیں کیونکہ وہ تو صرف دو ہی اصطلاحات مانتے ہیں : قطعی الدلالۃ اور ظنی الدلالۃ۔ اس لیے ان کے لیے قطعیت (محکم ) اور ظنیت ( متشابہ ) کے درمیان کے چھ مدارج ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا یہ حکم صرف اسی صورت میں ’’منصوص‘‘ ہوتا جب قرآن طعام کی طرح نکاح کے متعلق بھی ’’دو طرفہ‘‘ ممانعت کا ذکر ’’قطعی الفاظ‘‘ میں کرتا ؟ اگر ہاں تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ قرآن کہیں کہیں قطعی الدلالۃ نہیں ہے؟
ثالثاً : یہ بات بھی حیران کن ہے کہ تحریم کے لیے تو وہ ’’قطعی طور پر منصوص‘‘ ہونا لازمی ٹھہراتے ہیں لیکن یہی شرط وہ تحلیل کے لیے نہیں لگاتے۔اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو فقہاے کرام ’’اشیا‘‘ میں اصلاً اباحت کے قائل ہیں، وہ بھی کم از کم نکاح میں اصلاً حرمت کے ہی قائل ہیں ؛ یعنی ان کے اصول فقہ کی رو سے کسی سے نکاح کی حرمت کے لیے نہیں ، بلکہ اس کی حلت کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اصولاً تو بارِ ثبوت جناب عمار خان ناصر صاحب پر تھا کہ وہ اس ’’نکاح‘‘ کی حلت کا ’’قطعی طور پر منصوص ہونا‘‘ ثابت کردیتے ؟ یا پھر وہ تصریح کرلیتے کہ ان کے اصول فقہ کی رو سے نکاح میں بھی اصل حکم حلت کا ہے۔
رابعاً : یہیں سے وہ اصل بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ؛اور وہ یہ کہ جب وہ کہتے ہیں کہ ’’ ازروے اصول فقہ‘‘ یہ معاملہ ایسا ہے یا ویسا ہے تو وہ ’’اپنے اصول فقہ‘‘ کی بات کرتے ہیں، نہ کہ حنفی ، شافعی یا کسی اور معروف فقہی مسلک کے اصول کا۔ اگر وہ مثال کے طور پر حنفی اصول فقہ کی روسے یہ بات کررہے ہیں تو یہ بداہتاً غلط ہے کیونکہ حنفی اصول فقہ کی رو سے تو یہ طے شدہ مسئلہ ہے جسے از سر نو کھولا نہیں جاسکتا۔ یہی معاملہ شافعی اصول فقہ کا بھی ہے اور مالکی اصول فقہ کا بھی۔ البتہ ’’غامدی اصول فقہ‘‘ کی روسے ہوسکتا ہے کہ یہ طے شدہ مسئلہ نہ ہو۔
خامساً : اس مکتب فکر کے اصول فقہ کا کچھ اندازہ اس ایک قاعدے سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں نکاح کے احکام مردوں کے لیے بیان کیے جاتے ہیں اور عورتوں کا حکم ان سے بالتبع اخذ کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ قاعدہ کلیہ ہے ؟ اگر ہاں تو اس کے دلائل کیا ہیں ؟ پھر کیا دیگر قواعد کی طرح اس سے کچھ مستثنیات بھی ہیں یا نہیں ؟ مثلاً مردوں کو چار شادیوں کی اجازت ہے (خواہ آپ اس جازت پر کتنی ہی قیود عائد کریں ) لیکن عورتوں کو کسی بھی صورت میں ، کسی بھی شرط پر ، دو نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسئلہ زیر بحث کو آپ قاعدے کے تحت لاتے ہیں، نہ کہ استثناء ات میں ؟
اس لیے اگر آپ عمار بھائی سے اس موضوع پر بحث کرنا چاہتے ہیں تو اپنے اصول فقہ کی رو سے نہ کریں کیونکہ یہ اصول تو وہ مانتے ہی نہیں ہیں ؛ اور اگر ان سے ’’ان کے اصول فقہ‘‘ کی روشنی میں بحث کرنے کا ارادہ ہے تو :
اولاً : اس کے لیے آپ کو ان کے اصول فقہ میں مہارت حاصل کرنی ہوگی ؛
ثانیاً : پھر ان کے اصول فقہ کی غلطی واضح کرنی ہوگی ، الا یہ کہ آپ خود ہی ان کے اصول فقہ کے قائل ہوجائیں ؛
ثالثاً: چونکہ ان کے اصول فقہ ابھی پوری طرح منقح اور مدون ہوکر نہیں آئے ، اور ابھی ان کا مکتبِ فکر طفولیت کے عہد میں ہے ، اس لیے ابھی ان کے اصول فقہ خام ہیں اور ان میں اخذ و رد کا سلسلہ بھی جاری ہے؛ انھیں باقاعدہ اصول فقہ بننے میں ابھی بہت وقت لگے گا ؛ آپ خود بھی جانتے ہیں کہ زلف کے سر ہونے تک ، یا قطرے کے گہر بننے تک کتنے مراحل ہوتے ہیں۔ اس لیے ابھی اس عہدِ طفولیت میں ان اصولوں کی بنیاد پر ان سے بحث محض وقت کا ضیاع ہے ، اور اصول کے بغیر ان کی فقہ پر بحث لایعنی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: من حسن اسلام المرء ترکہ ما لایعنیہ۔
باقی رہا ’’مقاصد شریعت‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے ’’تیسیر‘‘ کی بنیاد پر شرعی احکام رفع کرنے کا معاملہ تو یہ طرز فکر انتہائی حد تک سنگین نتائج کا حامل ہے اور اس کی وجہ سے شریعت کے ساتھ جس نوعیت کا مذاق شروع ہوگیا ہے اس کا کچھ اندازہ ’’اسلامی بینکاری ‘‘ کے ڈرامے سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک مستقل بحث ہے جسے میں کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دیتا ہوں۔ صرف اتنی سی بات عرض کروں گا کہ مسیحی تاریخ کی اس گواہی سے نتائج کا اندازہ لگائیے کہ جب پولس نے ’’ غیر قوموں‘‘ کو مسیحی بنانے کی خاطر ختنے کے حکم سے ان کو مستثنی قرار دینے کا فتوی حاصل کرلیا تو اس کے بعد اس کی تان ٹوٹی اس بات پر کہ شریعت ایک لعنت ہے اور مسیح کی آمد کا مقصد ہی اس لعنت سے لوگوں کو نجات دلانا تھا۔ یوں ’’تیسیر‘‘ اور ’’رفع حرج‘‘ اور لوگوں کو راہِ حق قبول کرنے کی طرف مائل کرنے کے نام پر جب ایک حکم شرعی اٹھا لیا گیا تو پھر وہ سلسلہ کہیں نہیں رکا، بلکہ اس کا اختتام پوری شریعت سے جان چھڑانے پر ہوا۔
محمد مشتاق احمد
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد