روحانی تدبر کائنات؟

ڈاکٹر محمد شہباز منج

کوئی بات کسی کے سر تھوپنے کا واقعی کوئی اخلاقی جواز نہیں۔لیکن کچھ مہربان صرف یہ جملہ استعمال کرکے دوسروں کے سر جو جی چاہے تھوپنے کی سند حاصل کر تے دکھائی دیتے ہیں۔میرا سائنس اور مغربی فکر سے متعلق اپنے مضامین میں ایک مقدمہ یہ تھا کہ قرآن کائنات میں تدبر کی جو دعوت دیتا ہے، اس کے نتیجے میں سائنسی ترقی میں مدد مہیا ہوتی ہے۔میں نے کہیں یہ بات نہیں کہی کہ قرآن سے کسی ایسے تدبر کی دعوت ملتی ہے جو آدمی کو خدا بیزار بنا دے یا اسے خدا اور اس کے مطالبات سے غافل کر دے ۔ الشریعہ جون 2014کے "تدبرِ کائنات کے قرآنی فضائل" نگارنے میرے مضامین سے یہ تدبر خدا جانے کہاں سے اخذ کر لیا؟

اگر بات صر ف میرے سر تھوپنے کی ہوتی تو ان سطور کی حاجت نہ تھی،مگر تنقید نگار تو روا روی میں قرآن کے سر بھی وہ تصور تھوپ گئے ہیں جواس کتاب الٰہی کے لیے یکسر اجنبی ہے۔ ان بے ربط جملوں کا ایک محرک یہ بھی ہے کہ جناب مدیر ’’الشریعہ‘‘ نے اسی تصور کو بڑی فکرِ رسا کا نتیجہ خیال کرتے ہوئے موقررسالے کے بیرونی صفحے پر نمایاں کیا ہے۔ تنقید نگار اور مدیر ہر دو احباب کے ذمے ہے کہ وہ قرآن سے کوئی حوالہ دے کر بتائیں کہ قرآن کے تدبر کائنات سے ضمنی طور پر بھی سائنسی تدبر مراد نہیں ہو سکتا؛قرآن نے اپنے تدبرِ کائنات کو روحانی و سائنسی خانوں میں تقسیم کیا اور ان مختلف تدبروں کے نتائج یا متوقع نتائج کو الگ الگ ذکر کیا ہے۔قرآن سے ذرا اس مقام کی نشاندہی فرمائیے جہاں قرآن نے کہا ہو کہ تدبر کرنے سے پہلے یہ طے کر لیں کہ آپ کا تدبر کس نوعیت کا ہے؟ آپ روحانی تدبر کرنے جا رہے ہیں یا سائنسی ومادی تدبر؟ جب تدبر کرنے لگیں تو فلاں نوع کا تدبر کریں، وہ آپ کو خدا تک پہنچائے گااور فلاں قسم کے تدبر سے گریز کریں، وہ آپ کو ملحد بنا دے گا ؟قرآن کہتا ہے کائنات میں تدبر کرو آپ کہتے ہیں کائنات میں روحانی تدبر کرو۔گویا صرف قرآنی تدبر سے قرآن کا مقصود حاصل نہیں ہو سکتا۔اس کو آپ کی اختراع کردہ روحانیت سے مقید کرنا ضروری ہے۔

قرآن کے مخاطب اگر صرف آپ ایسے مسلمان اور صاحباِنِ روحانیت ہی ہوتے تو وہ یقیناًآپ کی تشفی کا سامان کرتا مگر اس کے مخاطب تو وہ لوگ بھی ہیں جو روحانیت سے واقف ہیں اور نہ خدا و رسول سے۔آپ مطمئن ہوں یا نہ ہوں اسے معلوم تھا کہ ایسے لوگوں کو صرف تدبر کی ترغیب دی جا سکتی ہے آپ کے وضع کردہ روحانی تدبر کی نہیں۔جس شخص کو حقیقت و روحانیت تک پہنچنا ہی تدبر کے ذریعے سے ہے، اسے آپ روحانی تدبر کی دعوت کیونکر دے سکتے ہیں؟ نتیجہ ہاتھ میں تھما کر تدبر کی دعوت ایک صاحبِ ایمان کو تو دی جاسکتی ہے، اور اس کے لیے کار گر بھی ہو سکتی ہے، لیکن ایک خداناشناس کو نہ ایسی دعوت فائدہ مند ہو سکتی ہے اورنہ وہ ایسی دعوت پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ چیز اسے سوچ سمجھ کر اور غو و فکر کرکے ماننے کے دیے گئے اختیار اور اس کے حق میں منشا ومقصودِ الٰہی ہی کے خلاف ہے؟اگر اسے لازماً منوانا مطلوب ہوتاتو صرف ماننے کو کہا جاتا یا اس پر مجبور کیا جاتا، غور و فکراور تدبر کر کے ماننے کو نہ کہا جاتا۔ 

وہ تدبر جو ایک ملحد یا بے خداسائنسدان سائنسی ایجادات و انکشافات کے لیے کرتا ہے، بالکل اسی طرح اچھا یا برا ہو سکتا ہے جیسے ایک مسلمان اور باخدا شخص کا الٰہیات وغیرہ کے حوالے سے تدبر۔عین ممکن ہے کہ وہ ملحد جس کے تدبر کو آپ سائنسی تدبر کہہ کر مذموم قرار دے رہے رہیں، وہ اس کو با خدا اور صاحبِ ایمان بنا دے اور وہ مسلمان اور باخدا جس کے تدبر کو آپ روحانی ٹھہرا کر محمود بتا رہے ہیں، وہ اسے بے خدا اور بے ایمان بنا دے۔سعود عثمانی یاد آگیا:

میاں یہ عشق ہے اور آگ کی قبیل سے
کسی کو خاک بنا دے کسی کو زر کر دے

آپ نے سائنسی تدبر والے بڑے بڑے کافر وں کا تدبر روحانی اور بڑے بڑے روحانی تدبر والوں کا تدبر سائنسی بنتے دیکھا نہیں تو سنا ضرور ہوگا۔ کتنے کافر "سائنسی " تدبر سے مسلمان ہو جاتے ہیں اور کتنے" روحانی" تدبر سے کافر یا کم از کم کفر کے ملزم ؟کیا آپ اس روحانی تدبر کو نہیں جانتے جو بہت سے ایسے لوگوں کو کافر ٹھہرا دیتا ہے ،جس کو مسلمانوں کا ایک جم غفیر خدا رسیدہ اور اسلام کا سچا پیروکار سمجھتا ہے! نتیجہ ؟ تدبر تدبر ہوتا ہے روحانی یا سائنسی نہیں۔جب آپ کا روحانی تدبر تباہی کا موجب بن سکتا ہے اور آپ کے سائنسی تدبر سے خیر برآمد ہو سکتی ہے تو پہلے سے اس درجہ دوستی کا کیا جواز ہے کہ دوسرے سے دشمنی کے بغیر یہ نبھائی نہ جا سکے !

محترم صاحبِ مضمون تضاد خیالی میں مبتلا ہیں۔ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ"تدبر کائنات سے اصولی طور پر تو کیا ضمنی طور بھی سائنسی تدبر مراد نہیں ہو سکتا " اور دوسری طرف فرماتے ہیں:"قرآن نے سائنسی و مادی تدبر کی کہیں کوئی ترغیب دی ہے اور اور نہ ہی اس سے کوئی ممانعت فرمائی ہے۔ سائنسی تدبر ایک مباح سر گرمی ہے ۔۔۔ موجودہ دور میں جبکہ امت کو ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے تو اس دور میں مسلمانوں کے سائنسی تدبر کی طرف متوجہ ہونے کی کوئی فضیلت بھی ہو سکتی ہے۔" 

سوال یہ ہے کہ جس چیز کی فضیلت بھی ہو سکتی ہے، اسے بعض واضح نصوص سے اور وہ بھی ضمناً مراد لینے میں کون سا امر مانع ہے؟اگر آپ کا خیال یہ ہے کہ اس فضیلت سے اہلِ اسلام کے لیے کوئی مذہبی نوعیت کی فضیلت نہیں، محض دنیوی اور قومی و ملی فضیلت مراد ہے تو ہم آپ سے عرض کریں گے کہ قوم و ملت کے مفاد میں ایسی سر گرمی جس کی قرآن و سنت میں ممانعت نہ ہوثواب ہے یا گناہ ؟اگر گناہ ہے تو اس کی فضیلت نہیں ؛اگر ثواب ہے تو یہ خلافِ قرآن نہیں، موافقِ قرآن ہے۔ اورموافقِ قرآن ہے تو آپ کا مقدمہ باطل۔

قرآنی تدبر کائنات سے ضمنی طور پر بھی سائنسی تدبر مراد لینا ہمارے مہربانوں کو خلافِ قرآن بلکہ قرآن پر اتہام یا اس میں تحریف دکھائی دیتا ہے لیکن مذہب کے نام پر یہ "ضمنی طور پر" وہ وہ چیزیں مراد لے لیتے ہیں کہ بقول اقبال خدا و جبرائیل و مصطفی بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔آپ کی وہ ضمنی مرادیں جنہوں نے امت مرحومہ کو انتشار و تشتت میں مبتلا کر رکھا ہے،اور جن کا دین کے "سارے فسانے " میں کہیں کوئی ذکر نہیں ، آپ کو بالکل خلافِ قرآن نظر نہیں آتیں،خلافِ قرآن نظر آتا ہے تو بے چارہ بے ضرر سا ضمنی سائنسی تدبر !

ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے

تدبر کائنات کی قرآنی دعوت سے اہل اسلام نے جو ضمنی سائنسی فوائد حاصل کیے میں نے ان فوائد کو بہت سے حوالہ جات کے ساتھ الشریعہ میں شائع شدہ اپنے مضمون "فکر مغرب: بعض معاصر مسلم ناقدین کے افکار کا تجزیہ" میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔مضمون نگار سے گزارش ہے کہ ذرا اس تفصیل کو دوبارہ ملاحظہ فرما لیں۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ قرآنی تدبر کے مسلمانوں کے حق میں ضمنی سائنسی نتائج کوقرآن سے عقیدت رکھنے والے مسلمانوں ہی نے نہیں، بہت سے غیر مسلم محققین نے بھی تسلیم کیا ہے۔

"کسی مظہر قدرت یا آیت اللہ پر غور و فکر ترک کر دینا اس سے پہلے کہ اس کی حقیقت پوری طرح منکشف ہو، اس سے اعراض کے زمرے میں آتا ہے" یہ بات میں نے قرآنی آیات کے حوالے سے نقل کی تھی ۔مضمون نگار کو میرے مضمون میں اس بات سے متصل یہ آیاتِ قرآنی کیوں نظر نہیں آئیں: وکاین من آیۃ یمرون علیھا وھم عنھا معرضون؛ الذی خلق سبع سموات طباقا ما تری فی خلق الرحمن من تفوت۔فارجع البصر ھل تری من فطور۔ ثم ارجع البصر کرتین ینقلب علیک البصر خاسئا و ھو حسیر۔کیا یہ اور اس نوع کی دیگر بہت سی آیات حقیقت منکشف ہونے تک غور کی دعوت نہیں؟ ہاں، مگر مسئلہ یہ دکھائی دیتاہے کہ ہمارے مہربان دوست کے نزدیک حقیقت منکشف ہونے سے لازماً مراد کوئی معروف و اصطلاحی سائنسی دریافت ہی ہے، جبھی تو حضرت کو یہ فکر لا حق ہو گئی کہ یوں تو صحابہ پر بھی بہت سی چیزوں کی حقیقت منکشف نہیں ہوئی تھی۔کیا اس بار بار غور سے اللہ کا ایقان و عرفان حاصل کر لینا حقیقت کا منکشف ہونا نہیں ہے؟

تنقید نگار کا ایک نہایت ہی عجیب استدلال یہ ہے کہ "آخر نبی کی پوری زندگی میں اس نوع کی سائنسی سرگرمی کہیں کیوں نظر نہیں آتی۔" (یہ استدلال اسی نوعیت کا ہے جیسا کہ ہمارے روایتی مذہبی حلقوں میں بدعت کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں ہمارے یہاں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، ان سے متعلق راقم نے جنا ب مولانا زاہد الراشدی زید مجدہ کی ایک تحریر پر نقد کے ضمن میں تفصیلی گفتگو کی ہے، لیکن دیگر مصروفیات کی وجہ سے یہ تکمیل پذیر نہیں ہو پا رہی ۔ان شاء اللہ اسے جلد شائع کراؤں گا جس میں بدعت کے اس تصور کے بودے پن کو تحقیقی منہاج پر شرح و بسط سے نمایاں کیا جائے گا)۔ سوال یہ ہے کہ کیا حضور کی زندگی میں وہ سرگرمیاں نظر آتی ہیں جو ہم اور آپ آج کل ببانگ دہل دین کی خدمت کے نام پر انجام دے رہے ہیں ؟کیا حضور اور آپ کے صحابہ ہماری طرح مضمون نگاری کیا کرتے تھے؟ کیا انہوں نے بڑے بڑے مدارس اور اداروں کی ادارت سنبھال رکھی تھی ، اور ان کے لیے وہ نصاب وضع کر رکھا تھا جو ہمارے نزدیک قریب قریب الہامی ہے؟ کیا وہ اشعری ، ماتریدی ،حنفی ،شافعی ،دیوبندی ،بریلوی کہلایا کرتے تھے؟ کیا وہ غزالی اور ابن رشد کی کلامی بحثوں پر وقت ضائع کیا کرتے تھے ؟ کیا ان میں سے بہت سی بحثیں کبھی صحابہ کے خواب و خیال میں بھی آئی تھیں ؟ انہوں نے ایسی مذہبی سیاسی جماعتیں بنا رکھی تھیں جو اسلام کی خدمت کے نام پر ان سیکولرلوگوں کے ساتھ مل کر حکومت کیا کرتی تھیں جن کی کرپشن اور اسلام دشمنی کا خود ہی ڈھنڈورا پیٹا کرتی تھیں ؟ صحابہ نے تو آپ کے بقول" قرآنی لفظ "اب" کی تحقیقات کے لیے کمیٹیاں نہیں بنائی تھی "لیکن ہمارے فقہا اور متکلمین نے قرآن کے ایک ایک لفظ کے فقہی و کلامی مصداق ڈھونڈنے میں عمریں کھپا دیں۔ ہم اس پر بھی مطمئن نہ ہوئے اور ان کی مزید کرید کے لیے تھوک کے حساب سے دارالافتاء، مفتی اور متکلم بنا دیے اور مسلسل بنائے جا رہے ہیں۔ دفتروں کے دفتر سیاہ کر دیے اور کرتے جا رہے ہیں۔نبی اور صحابہ نے کھجوروں سے مسجدیں بنائیں، ہم نے بھوک سے بلکتی مخلوق کی سنی ان سنی کر کے قومی دولت کو تزئین منبر و محراب میں جھونک دیا۔ "شاگردانِ رسول نے مفتوحہ علاقوں میں پڑے کتا بوں کے انبار سے دلچسپی نہ لی" اور ہم ہیں کہ اپنی للہیت اور خدارسیدگی کو داؤ پر لگا کر مدارس اور کتب خانوں میں انواع واقسام کی کتابیں جمع کر تے رہتے ہیں؛اوران کتابوں میں بہت سی ایسی بھی ہیں جن میں ہمارے عقائد کے لحاظ سے کفر بھرا ہوا ہوتاہے۔ یہ فہرست بہت طویل ہے۔

یہ سب چیزیں اگر عہدِ نبوی و صحابہ میں موجود نہ ہونے کے باوجوددین و ملت کی خدمت ہیں تو سائنس بے چاری؛جس نے آپ کی ان دینی خدمات کے لیے اپنی بہت سی سروسز پیش کی ہیں، اس سے متعلق غور و فکر ہی دشمنی ملت اور مخالفتِ قرآن کیوں ٹھہری!

کسی ایک زمانے کی قومی وملی ،دینی و ثقافتی ،سیاسی و حربی ،علمی و فنی ضرورتوں اور تقاضوں کا حوالہ دے کر اسے ہر زمانے پر اپلائی کرنے کی سوچ سے زیادہ بودی سوچ کوئی نہیں ہو سکتی۔اس اعتبار سے چودہ پندرہ سو سال کے فرق کو چھوڑیے، عہدِ نبوی اور خلفاے راشدین ہی کے ادوار پر نظر ڈال لیجیے۔ آپ کو عہد نبوی ،عہد صدیقی ،عہد فاروقی ،عہدِ عثمانی اور عہدِ علی المرتضی ہر ایک میں واضح فرق نظر آئے گا۔

دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے حالاتِ زمانہ کے تحت توپیں ،بم اور ٹینک وغیرہ سامانِ حرب کی تیاری تقریباً تمام اہل علم کے نزدیک قرآن کی تعلیمِ اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ  کی مصداق ہے۔کیا یہ اسی نہج پر تدبر کے بغیر ممکن ہے؟ اور کیا اسلحہ کے لیے بے شمار انواع کے علوم و فنون کی ضرورت نہیں ،جو ظاہر ہے کہ تدبر ہی کی بنیاد پر استوار ہو سکتے ہیں۔ کیا اس تدبر کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والی چیزیں سائنسی دریافتیں نہیں کہلائیں گی ؟ان اشیا کے حوالے سے کیے گئے تدبر پر آپ کا فتویٰ کیا ہو گا؟روحانی تدبر یا سائنسی تدبر؟اگر روحانی تدبر ہے تو سائنسی دریافتیں روحانی ہو گئیں اور اگر سائنسی تدبر ہے تو اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ایک مباح سرگرمی ٹھہری۔

پھر اس تدبر(جسے آپ ضمناً بھی قرآن کی تعلیمِ تدبر کی مراد ماننے کو تیار نہیں ) کی واحد دینی و قرآنی بنیاد اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ  ہی نہیں، نوع انسانی کی بھلائی اور اسے سہولتوں کی فراہمی سے متعلق سینکڑوں نصوص بھی اس کی انتہائی غیر مبہم بنیادیں ہیں۔ کیا بجلی ،گیس وغیرہ اشیا اور ان سے جڑی دیگر لاتعداد چیزوں اور ضرورتوں ،جن کے بغیر آج کل اہل دنیا ہی نہیں، اہل دین کے لیے بھی رشتہ جسم و جاں قائم رکھنا مشکل ہے،کی فراہمی و تیاری وغیرہ کے امورپر غورو تدبر خلافِ قرآن ہے؟کتنی حیرت کی بات ہے کہ فضول قسم کی کلامی،فقہی ،مسلکی بحثوں اور دینی حلقوں میں مروج اس نوع کے بہت سے دیگرامورکے حوالے سے تدبر ،جو نہ قرآن کا مطالبہ ہے اور نہ ایک عام مسلمان کو اس سے کوئی سروکار اور فائدہ،" روحانی تدبر" ٹھہرا کرسر آنکھوں پر رکھا جائے اور جوتدبر قرآن کا مطالبہ بھی ہو اور بنی نوع انسان کے لیے نفع بخش بھی، وہ" سائنسی تدبر" اور"مباح سرگرمی "قرار دے کر "گناہِ بے لذت "کا مصداق بنا دیا جائے:

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

آراء و افکار

(اگست ۲۰۱۴ء)

تلاش

Flag Counter