اگر کسی اہم سوال پر مبنی مضمون کا مقدمہ عقل و شعور کو اپنا مخاطب بنانے کی بجائے مناظرانہ اسلوب میں کیے گئے ان دعوؤں سے شروع ہو کہ بات تو نہایت واضح ہے مگر چوں کہ یہ سائنسی علمیت کا شکار نام نہاد دانشور عوام میں غلط فہمیاں پیدا کر کے ان کو صراط مستقیم سے بھٹکا رہے ہیں اس لیے ہمیں قلم اٹھانا پڑ رہا ہے، تو یہ مکالمہ کی موت ہے اور علمی تنقیدکا کیاکہیے کہ وہ توشاید مکالمہ سے کہیں آگے کا مرحلہ ہے۔ یہ تھا وہ فوری احساس جو مولانا عبداللہ شارق کا مضمون ’’تدبر کائنات کے قرآنی فضائل: روحانی تدبر مراد ہے یا سائنسی‘‘ پڑھ کے ذہن میں پیدا ہوا۔ مگر یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ فاضل مصنف نے ایک اہم سوال اٹھایا ہے اور ان کا مضمون ہماری جدید کلاسیکی مذہبی فکر کے ایک کافی بڑے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ کچھ قارئین کے لیے لفظ ’جدید‘ کا استعمال شاید حیرانی کا سبب ہو مگر ہمارے عظیم علمی ورثہ میں ایسا بہت کچھ ہے جس کی بنیاد پرمذہبی فکر کے ان سادہ لوح رجحانات کو ’جدید‘ کہنا شاید اتنا بھی غیر مناسب نہیں۔ ان مخصوص رجحانات کی جدیدیت اس لیے بھی واضح ہے کہ حقائق کائنات اور ایجاد و ابداع عالم کے متعلق اولین دور کے سادہ مگر جامع اور مکمل نظریاتی ڈھانچے اور عہد وسطیٰ کے پیچیدہ اور دقیق علم الکلام کے برعکس یہ جدید رجحانات یا توظاہراً اِس بحث کی فلسفیانہ اور سائنسی جہتوں، یعنی کہ نظریہ علم و وجود، اِس کی تکوینی نسبتیں، اْن کا شعور انسانی سے تعلق اور اس کے نتیجے میں حق تک رسائی سے بالکل ہی نابلد ہیں اور یا پھر نیت یہ ہے کہ بحث کو ان تمام ’خرافات‘ سے پاک رکھ کر اس کا دائرہ اتنا سکیڑ دیا جائے کہ مفتیانِ کرام کو فتوی ٰ دینے میں آسانی ہو کہ کون سا تدبر کائنات قابل تقلید ہے اور کون سا مکروہ۔
اعادے کے طور پر زیر نظر مضمون کا خلاصہ کلام کچھ یوں ہے: قرآن اپنے مخاطب سے کائنات کی حقیقت کی بارے میں جس قسم کے تدبر کا مطالبہ کرتا ہے وہ ’سائنسی ‘ نہیں بلکہ ’روحانی‘ ہے۔ کیوں کہ مصنف کی اپنی بنائی گئی اصطلاح ’سائنسی تدبر‘ ایک مادی اورتجربی ذریعہ تحقیق ہے اور ہر انسان اسے کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا اس قسم کا تدبر ایک پرکیف مذہبی تجربے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔اس کے برعکس قرآن کا مطلوب تدبر کائنات، مصنف کی وضع کی گئی ایک اور اصطلاح کے مطابق ایک ’روحانی تدبر ‘ ہے جو انسان کو خدا کی موجودگی کے ایک روحانی جذبے سے سرشار کر دے۔ سائنسی علم و تحقیق محض مباحات میں سے ہے اور اسے کسی ایسے کائناتی تدبر پرمنطبق نہیں کیا جا سکتا جس کا مطالبہ اللہ تعالیٰ انسان سے کرتا ہے۔ اگر سادہ طور پر دیکھیں تو مصنف شاید اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کائنات کے بارے میں سائنسی غوروفکر اور تدبر سے کوئی مطلب نہیں اور سائنسی تدبر کو خدا کے مطالبے کے طور پر کرنا تو ہے ہی غلط۔ نتیجتاً کیوں کہ مذہبی تجربہ خالص روحانی ہے اس لیے وہ اس کے اور سائنسی غوروفکر کے مابین بعد المشرقین ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ’سائنسی تدبر‘ میں عدم دلچسپی کا حوالہ دے کرمصنف یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ اتنا ہی اہم اور ضروری تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب کیوں نہ دی اور آخر عباسی دور کی تحریک ترجمہ تک مسلمانوں نے شدومد سے کائنات میں سائنسی غوروفکر شروع نہ کیا؟(۱)
مزید آگے بڑھنے سے پہلے یہ ضروری صفائی پیش کرنا ناگزیر ہے کہ جدید سائنسی مادہ پرستی اور روایتی مذہبی روحانیت کے درمیان جاری تنازعات کے تناظر میں مصنف کا ذہنی جھکاؤ قابل تحسین ہے۔ اس بات سے کوئی صالح ذی فہم شخص شاید ہی انکار کرے کے جدید سائنسی سرمایہ دارانہ علمیت ایسے علمی نظریات کو زیادہ فروغ دے رہی ہے جن کا رجحان مقابلتاً الحادی افکار کی جانب ہے۔ اس کے علاوہ جدید انسان کا فکری نمونہ، اگر بالکل مادہ پرستی کی طرف مائل نہ بھی ہو تو کم سے کم ایک ناگزیر دوئی کاشکار تو ضرور ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس ساری بحث میں ہمارے پیش نظر ایک مذہبی شخص ہے جو کم از کم اتنا جدید تو ضرور ہے کہ ا س کا شعور کئی کسری اکائیوں میں بٹا ہوا ہے۔ لہٰذا ہمیں پورے وثوق سے اس بات کا اقرار ہے کہ روایتی مذہبی فکر کا ایک خاص دھارا ، جس سے فاضل مصنف کا تعلق ہے، کی نیت اس بحث کو سائنسی اور فلسفیانہ موشگافیوں سے نکال کے روحانیت کی آفاقی بنیادوں میں واپس لوٹانے کی ہے۔ جہاں تک ان آفاقی بنیادوں کا تعلق ہے، ہم ان سے متفق ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ قرآن کے مطالبہ تدبر کائنات کی تعریف و توضیح کسی بھی ایسے مقام سے کرنا ناممکن ہے جو ماورائے زمان و مکان ہو، کیوں کہ ایسا کوئی بھی مقام ہمیں کم از کم کائنات کے اندر تو شاید نہ مل سکے۔ مزید برآں یہ کہ ذہن کی کسی ایسے مقام تک رسائی بھی ناممکن ہے جو قلب و ذہن سے باہررہ کر کسی بھی قسم کے تدبر کائنات کا دعوی ٰ کر سکے۔ لہٰذاہمیں اس مفروضے پر متفق ہونا پڑے گا کہ اگر شاعرانہ تخیل کا سہارا نہ لیا جائے تو تدبر کائنات کے روحانی احوال، جن کا مصنف نے اپنے مضمون کے شروع میں ذکر کیا ہے، عقل و شعور اور ذہن و وجود کے راستوں سے گزر کے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں قرآنی اصطلاح، ’تدبر‘ کی قوس کسی بھی طرح انسانی تجربے سے قائم الزوایہ تو نہیں کھینچی جا سکتی، ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے کہ ایک بدو اور ایک ریاضی دان قرآن کے یکساں مخاطب ہیں۔ مگرتدبر کائنات کے پس منظر میں ان کی ذہنی واردات کا ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہونا اس بات پر ہر گز دلیل نہیں کہ حضورِ حق کے احوال،انسانی قلب وذہن پر منکشف ہونے سے پہلے کسی ایک خاص ذریعہ علم ہی کے متقاضی ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔
اب اس سارے مسئلے کو اس مختصر پس منظر میں رکھتے ہوئے ایک فلسفیانہ ذہن اور ہماری بحث کی حد تک محدود رکھا جائے توایک ایسے سائنسی ذہنی رجحان رکھنے والے مذہبی شخص کے سامنے کچھ اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں جو سائنس کی سطحی اور افادی حیثیت سے بالا تر ہو کر اسے ایک نظریہ علم اور ایک ایسے مستند ذریعہ علم کے طور پر مانتا ہو،جو کائنات کے ابدی حقائق تک رسائی بہم پہنچا سکتا ہے۔ اولاً تو یہ کہ قرآنی علم المعانی کے دائرے میں رہتے ہوئے تدبرِ کائنات آخر ہے کیا؟ یعنی کیا یہ تدبر ،کائنات کے عام فہم معانی، یعنی کائنات کے طبیعی عوامل ، اس کی حقیقت وجود اور اس کے دوام و بقا اور ایجاد وغیرہ سے بالا تر کوئی کارِ عظیم ہے اور قرآن کس درجے میں اس کا طالب ہے؟ ثانیاً یہ کہ خارجی دنیا کے متعلق انسانی تجربے کی ساخت کیا ہے؟ اور یہ تجربہ انسان کی داخلی دنیا یعنی وجدانی کیفیات، جذباتی رویوں ، نفسیات اور دیگر رجحانات سے کیا تعلق رکھتا ہے اور ان پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟ کیا اس اندرونی نفسیات اور خارج کا علم دینے والے حسی تجربات کی حیثیت ایک مربوط ٹھوس اکائی کی ہے یا ان میں زمانی درجے میں علت ومعلول کا کوئی رشتہ ہے؟ ثالثًا کیا فی الوقت کوئی ایسے متفقہ نفسیاتی نمونے موجود ہیں جو دنیا کے تمام افراد کے آفاقی حقائق کے متعلق باطنی تجربات کی ماہیت اور اس کے نتیجے میں واردقلبی سکینت کی کیفیت کو غیر مبہم طور پر بیان کر سکیں ؟ یاد رہے کہ یہ وہی آفاقی سچائیاں ہیں جو تدبر کائنات کے نتیجے میں قرآن کو مطلوب ہیں۔ رابعاً چوں کہ قائم کردہ مفروضہ یہ ہے کہ ابدی حقیقت تک رسائی کے لیے تدبر کائنات تو ناگزیر ہے ہی، لہٰذا کیا قرآن کسی خاص قسم کے عارفانہ تجربے پراصرار کرتا ہے ، یعنی ایک سری وحدت قسم کا باطنی تجربہ ، یا پھر جدید انسان کی ٹھوس فکر کی عادت بھی ایسا یقینی علم حاصل کرنے کے قابل ہے، جس کے لیے ذہن کی آخری حد تک ابدی حقیقت کی رسائی اور زبان و بیان کی آخری حد تک ترسیل ممکن ہو؟
ظاہر ہے کہ مقصودآخری درجے میں ان سوالوں کے تسلی بخش جواب فراہم کرنا نہیں اور نہ ہی ہم جیسے طالب علم اس طرح کی جرات کر سکتے ہیں، کیوں کہ قدیم زمانے سے لے کر آج تک کے اعلیٰ ترین دماغ فلسفیانہ ، سائنسی ، نفسیاتی، جمالیاتی اور مذہبی نقطہ ہاے نگاہ سے ان سوالوں کے جواب مہیا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد انبیاوصالحین اور ائمہ کرام کی بھی ہے،مگر چوں کہ نئے اور کثیرالجہت علمی تجربوں کی روشنی میں انسانی شعور کا اپنے آپ سے متعارف ہونے کا سلسلہ قیامت تک جاری وساری ہے ، ہمارا مقصد روایتی مذہبی سوچ سے جذباتی وابستگی کے باوجود اس کے اس زیربحث فکری دھارے کے سامنے ان سوالوں کا اٹھانا ہے تاکہ جدید اور روایتی ذہن ایک ہی درجے میں فہم حق کی منازل طے کر سکیں۔
زیرتبصرہ رجحان کے ظاہری طرزفکر کے برعکس، ’علم‘ اور ’حق‘ جیسے قرآنی مقولات ایک ٹھوس اکائی ہیں، یعنی کائنات کی حقیقت مطلق اپنی بنیادی حیثیت میں واحد ہے۔ اقسامِ علم یعنی طبیعات، حیاتیات اور نفسیات وغیرہ اسی حقیقت واحد کی سمت راہ نمائی کرتی ہیں۔ فلسفہ سائنس میں ایک جدید اور غالب رجحان، کہ تمام عالم ایک واحد اور قابلِ شناخت طبیعی اصول کے ماتحت ہے،اورجس کی جانب کم از کم پچھلی کچھ صدیوں سے تحقیق جاری ہے، عمومی طور پر قرآنی روح سے متضاد نہیں ہے۔ مزید برآں یہ کہ انسان کی داخلی دنیا بھی چوں کہ کائنات ہی کا حصہ ہے، اس لیے یہ مفروضہ کم از کم ممکنات کی حد تک قائم کیا جا سکتا ہے کہ انسان کا شعوری تجربہ ،جو اس آفاقی اصول سے ہر گز ماورا نہیں ہے، اس حقیقتِ مطلق تک رسائی کی قابلیت رکھتا ہے۔ اس روشنی میں اگر صرف سادہ طور پر ہی تجزیہ کیا جائے تو یہ تصور کہ حضور حق کا ایک خاص قسم کا عارفانہ تجربہ ہر صورت میں ایک ٹھوس عقلی بنیادوں پر قائم ایک سائنسی فکر ی تجربے سے متضاد کوئی الگ شے ہے، اتنا معقول معلوم نہیں ہوتا۔ یہ وہ جوہریت زدہ رجحان ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے۔ اس رجحان کی استغراقی تجریدیت اس شاعرانہ تخیل سے واضح ہے جو کہ ’روحانی تدبر‘ کی تعریف میں مصنف بیان کرتے ہیں:
’’اس سے مراد وہ تدبر ہے جو انسان کو خالق کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اس میں توجہ الی اللہ پیدا کرتا ہے، جس کے ساتھ انسان کو کائنات کے ہر ہر ذرہ میں خداوند جل و علا کا نور نظر آتا ہے اور دیکھنے والا خود اس نور میں نہا جاتا ہے، جس تدبر کے دوران، تدبر کرنے والا زمین و آسمان کو دیکھتے دیکھتے خدا کی ذات میں محو ہو جاتا ہے، اللہ کی قدرت و عظمت کے احساس سے مغلوب ہو جاتا ہے اور تعلق مع اللہ کی کیفیات اس میں موجزن ہوتی ہیں۔‘‘ (۲)
یہاں درپیش مسئلہ ہرگز وہ نمونہ فکر نہیں جہاں کائنات کا ایک حسی تجربہ، مثلاً زمین و آسمان کو نگاہ اٹھا کر ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہنا، ایک آفاقی حقیقت مطلق کے عارفانہ مذہبی تجربے کو تحریک دے رہا ہے، جس کے نتیجے میں ناظر کی حسِ بصیرت اسے خدا کی انفس و آفاق میں موجودگی کا شدید جذباتی احساس دلا رہی ہے۔ اگر یہ کیفیت اس طرح حاصل ہو جاتی ہے تو یقیناًیہی مطلوب ہے، مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اس قسم کا تدبر کائنات عصر حاضر میں عمومی طورپر حقیقت مطلق تک رسائی کا ضامن ہے، بعید از قیاس ہے۔ علاوہ ازیں یہ مسئلہ کہ قدیم دور، ازمنہ وسطیٰ اور زما نہ جدید کے انسانوں کے تصور کائنات میں کیا فرق ہے اور اس کا تدبر کائنات کے ساتھ کیا تعلق ہے ،بھی یقیناًغور طلب ہے۔ مگر فی الوقت ان دونوں مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم روایتی ذہن کے اس رجحان میں دلچسپی رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں تقریباً فطری غفلت سے ایک سرّی عارفانہ تجربے کو ایک ٹھوس یا نام نہاد سائنسی تجربے کے بالمقابل رکھ کر دیکھا جا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے رجحانات کی ایک اہم وجہ مذہبی تجربے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے احساسِ سکینت کو بڑی حد تک ایک عارفانہ سعادتمندانہ جذبہ سرشاری تک محدود رکھنا ہے، اور اسے اسی تناظر میں دیکھنے پر اصرار کرنا ہے۔ پچھلی صدی کی اہم ترین مذہبی نفسیات اور سائنس کے مطالعوں کو علامہ اقبال نے اپنے خطبہ اول میں زیر بحث لاتے ہوئے اسلامی نظریے کی ندرت اور اہمیت کو واضح کیا ہے اور عیسائیت کے مقابلے میں اسلام کے مابعدالطبیعی عنصر کومحض ایک پیچیدہ،مخفی اور ناقابل ابلاغ عارفانہ تجربے کے بجائے ایک ٹھوس حسی و عقلی و ذہنی تجربے کے نتیجے کے طور پر ثابت کیا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:
’’بے شک قرآن حکیم کے نزدیک مشاہدۂ فطرت کا بنیادی مقصد انسان میں اس حقیقت کا شعور اجاگر کرنا ہے جس کے لیے فطرت کو ایک آیت یا نشانی قرار دیا گیا ہے، مگرمقام غور تو قرآن کا تجربی رویہ ہے جس نے مسلمانوں میں واقعیت کا احترام پیدا کیا او ریوں انہیں بالآخر عہد جدید کی سائنس کے بانی کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ اسلام نے مسلمانوں میں تجربی روح اس دور میں پیدا کی جب خدا کی جستجو میں مرئی کو بے وقعت سمجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا تھا۔‘‘ (۳)
پھر آخر اس بات کا آخر کیا مطلب ہے کہ تدبر کائنات ، جو کہ آخر ایک حسی تجربے ہی سے تحریک پاتا ہے، مجھے حقیقت مطلق تک رسائی دے سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نفسِ تدبر اس شے کے بارے میں جو مقصودِ تدبر ہے، کوئی نہ کوئی رائے تو قائم کر ے گا ہی ، اور اس بات پر تو ہم آغاز ہی سے متفق ہیں کہ قرآن کائنات کو خدائی تخلیق کے مظہر کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہ غایتی مقدمہ اپنے اندر یہ واضح مطالبہ رکھتا ہے کہ کائنات کو جانا جائے، سادہ لفظوں میں اس بات کو اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ تدبر کائنات اور تصور کائنات کا آپس میں ایک پیچیدہ گٹھ جوڑ ہے؛ لہٰذا یہ مسئلہ کلاسیکی مسئلہ علم کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہے، اور یہی وہ دائرہ ہے جہاں عقل اس شے سے، جسے وہ جاننا چاہتی ہے، مسلسل مصروف پیکار ہوتی ہے۔ علم کی نظریاتی پیچیدگیوں سے بالا تر ہو کر ہم صرف اس سادہ سوا ل میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ اشیاومظاہر کائنات تدبر کے لیے اپنے آپ کو ذہن وعقل کی تجربہ گاہ میں کس طرح پیش کرتے ہیں؟ وحی بنیادی طور پر ہمارے شعور کے وجدانی حصے کو اپنا مخاطب بناتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ حسی تجربے کی دعوت دیتی ہے تاکہ اس وجدانی طور پر جانی گئی حقیقت کا اثبات یا انکار کیا جاسکے۔ ظاہر ہے کہ عمومی حسی تجربہ ہی تمام نوع انسانی کی مشترکہ میراث ہے۔ مذہبی تجربے کی ناقابل ابلاغ عارفانہ روایات کے بالمقابل حقیقت مطلق تک رسائی کے تجربی طریق کو متعارف کروانا قرآنی فلسفے کا ایک اہم ندرتی پہلو ہے، ایک ایسا پہلو جو کسی بھی زمانے کے انسان کی تجرباتی تسکین و اعتماد کے ساتھ ساتھ تدبر کائنات کے جدید سائنسی میلان سے بھی بالکل ہم آہنگ ہے۔ لہٰذا سائنسی تناظر میں بھی قرآن حقیقت مطلق تک راہ نمائی کے لیے کائناتی مناظر کو محض وجدانی علامات کے طور پر پیش کرتا ہے اور ان علامات کے ذریعے حصولِ علمِ کائنات کے لیے ایک ذہنی وعقلی جاذبیت پیدا کرتا ہے۔ رہا روحانی و عارفانہ تجربہ تو وہ تدبر کائنات کا نہیں بلکہ حقیقت مطلق کو پا لینے کالازمی نتیجہ ہے۔ مثلاً جب قرآن اپنے قاری کی اس حقیقت تک راہ نمائی کرتا ہے جیسا کہ ان اللہ ینزل الغیث (لقمان: ۴۳) یا ولقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین (المومنون: ۲۱) یا اولٰئک کالانعام بل ھم اضل (الاعراف: ۹۷۱) تو یہ علمی درجے میں محض کچھ وجدانی سچائیوں کا تعارف ہے۔ اور موسمی اور ماحولیاتی تغیرات اور ان کی طبیعاتی علل کی دریافت، انسانی مادۂ تخلیق کے بارے میں علم حیاتیات کی تحقیق اور علم نفسیات اور فلسفہ اخلاق کی وہ جہات جو انسان کو جانوروں اور درندوں سے ممتاز کرتی ہیں، قرآن کا براہ راست موضوع نہیں ہیں ،مگر ان علوم کی تشکیل کی حقیقی اساس ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو وہ ناگزیر وجدانی مفروضے بھی فراہم کرتی ہیں جو ان کی صحیح سمت متعین کرتے ہیں اور جن کے بغیر یہ محض الل ٹپ ٹامک ٹوئیاں ہی مار سکتے ہیں۔ (۴)
فلسفیانہ اور سائنسی تناظر میں دیکھا جائے تو بہ طور مسلمان ہمارا بنیاد ی مفروضہ چوں کہ ایک سچے نبی کے ذریعے وحی خداوندی کا ابلاغ ہے، اس لیے قرآن تدبر کائنات کی آفاقی ہدایت کے طور پر اپنے آپ کو مختصر وجدانی حقائق تک محدود رکھتا ہے۔ ان وجدانی حقائق کا تدبر کائنات سے گہرا تعلق ہے، مگر ان کے نتیجے میں جو تصور کائنات قائم ہوتا ہے وہ ہر گز ماورائے زمان نہیں ہے۔ اسے ماورائے زمان ماننا اصل میں ان وجدانی حقائق اور ان کے نتیجے میں حاصل کردہ علوم کو قران کے مطلوب تدبر کائنات سے کوئی لاتعلق شے ماننا ہے، اور یہ نہ صرف قرآن کا ایک سطحی مطالعہ ہے بلکہ تاریخ ِ فلسفہ سائنس سے ناآشنا ہونے کا بھی ثبوت ہے۔ خدا کے رسول اسی لیے آتے ہیں کہ حقیقت مطلق سے متعلق مختلف عقائد اور پہلے سے موجود وجدانی نظریات کا بذریعہ وحی اثبات یا ابطال کر دیں مگر جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، یہ اثبات و ابطال کچھ متبادل علامات ہی فراہم کرتا ہے جو ظاہر ہے کہ حق پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان علامات پر تعقل و تدبر ظاہر ہے کہ ایک انسانی کاوش ہے اور عصری علوم اور افکار پر ہی منحصر ہے۔
ذہن جدید اور تجربہ جدید کا پیچیدہ ہونا محض ایک واقعاتی و تاریخی حقیقت ہے اور اس کا نتیجہ کسی بھی قسم کی ذہنی برتری یا کم تری کی صورت میں نکالنا نہ صرف فکری تعصب بلکہ سراسرناواقفیت پر مبنی ہے جس کے مقلدین آج کے کئی معاشرتی دانشور، فلسفی، ماہرین نفسیات اور سائنسدان ہیں۔ ہم یہاں قارئین کی مدد کے لیے نہایت مختصراً صرف اتنا واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک صحابی اور عصر حاضر کے انسان کے تدبر کائنات میں کیا فرق ہو سکتا ہے اور اس کے کون سے عوامل ہیں؟ قدیم اور جدید انسان کے فطرت وکائنات کے بارے میں مشاہدات اور تجربات کا موازنہ ایک مستقل تحقیق طلب مضمون ہو نا چاہیے ، اور ہمیں فی الوقت اس سے کوئی غرض نہیں کہ عرب کی قبائلی معاشرت کے خاص فکری پہلو کیا تھے جنہیں کسی بھی طور ’سائنسی‘ کہا جا سکے، مگر ہمارے مکالمے کی حد تک کم از کم یہ باور کرانا ناگزیر ہے کہ اس تصور کائنات کے مطابق، جس کے زمانے میں قرآن نازل ہوا،وہ ایک جکڑ ی ہوئی تنگ کائنات تھی۔ (۵) اس کے تغیرات کا دائرہ نہایت محدود تھا اور ہر انسان ان تغیرات کے روزمرہ کے عمومی تجربے سے واقف تھا۔اس قدیم فکر کے مطابق ایک کائنات کا ایک مربوط نظام فکر صرف انہی تغیرات کی بنیاد پر قائم ہو سکتا ہے جس کا علت و معلول ظاہراً واضح ہو یا جن سے کوئی معینہ یا مقررہ افادی نتیجہ برآمد ہو۔ آپ قرآن کی کوئی کائناتی مثال ایک قدیم قاری کے ذہن سے پڑھیں تو آپ کو سائنسی تجریدیت کا شائبہ تک نہ ہو گا۔ یہ دنیا یقینی طور پر غیر مبہم واضح اقسام میں بٹی ہوئی تھی اور یہ طبقے مقرر تھے اور قدرت کے کارخانے میں بھی ذات پات کا ایک سلسلہ قائم تھا۔ اس سلسلے میں یہ ہونا ناممکن تھا کہ انواع وطبقات آپس میں گڈ مڈ ہو جائیں یا دو مختلف الانواع اشیا ایک تیسری نوع کو وجود میں لا سکیں۔ (۶)
یہ اس زمانے کا خاصہ تھا کہ ناقابل ابلاغ اور ناقابل فہم علل کو فوق الفطرت قوتوں سے منسوب کیا جائے۔ اصولوں اور مبینہ صداقتوں کو تجربے ، تشکیک اور سوال کی دنیا میں رکھنے کے بجائے آفاق گیر سمجھا جاتا تھا۔ سائنس یا فلسفے کا کوئی ادنیٰ درجے کا طالب علم بھی آج یہ سیکھتا ہے کہ کسی بھی مبینہ صداقت کو آج اپنا جواز پیش کرنا ضروری ہے۔ایک دس سالہ بچے کا ذہن بھی جدید درس گاہوں میں آج اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ فطرت کو مابعدالطبیعاتی یا دینیاتی مقصد کے تابع سمجھنے کے بجائے اسے انسانی غرض کا مطیع سمجھا جائے۔ سورۃ الملک کی وہ عظیم آیات جن میں دو بار افلاک کی طرف نظر دوڑانے کا ذکر ہے، کیا آج کا انسان ایک قدیم انسان کے ذہن سے پڑھنے کا تصور بھی کر سکتا ہے؟ یا پھر وہ آخری آیت جس میں پانی کے بند ہو جانے کی تنبیہ ہے، کیا ہماری ہنسلی کی ہڈی میں بھی وہی سنسناہٹ دوڑا سکتی ہے جو ایک صحابی کو محسوس ہوتی ہو گی؟ اگرعصر حاضر کاانسان اس قابل ہے کہ محض خلا میں گھورنے سے ازلی حقائق پر غوروخوض کرتے ہوئے حقیقت مطلق کا احاطہ کر سکے اوردیکھتے دیکھتے اپنے آپ کو نورِ رباّنی کی حضوری سے سرشار محسوس کرے تو اس میں ظاہرہے کہ کچھ قابل اعتراض نہیں، مگر آج کے انسان کی ذہنی و فکری ساخت اور تجربے کو قدیم اور قبل از دورِ وسطیٰ کے انسان، جن میں انبیاو صالحین و صحابہ کرام وغیرہ بھی شامل ہیں، پر قیاس کرنا اور اس سے عمومی طور پر اْس قسم کے تدبرکا مطالبہ ایک عجیب و غریب طرح کی سادہ لوحی ہے۔
ایک اوراہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا فکری عوامل کی بدولت اس طرح کا مخفی عارفانہ تجربہ عصر حاضر میں ٹھوس بنیادوں پر ایک عالم گیر سچائی کے طور پر ناقابل ابلاغ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک طرح کی انفرادی وجدانی کیفیت تو ہو سکتی ہے مگر یہ کیفیت تصدیق یا تکذیب کی متلاشی ہے۔ یہ بھی یقیناًسچ ہے کہ اس وجدانی کیفیت کا تعلق کائنات کی کسی طبیعی حقیقت ، جیسا کہ زمین کا کروی یا چپٹا ہونا، سے نہیں ہے مگر پھر اس کا کیا جائے کہ قرآن کا مطالبہ تدبر کائنات تجریدی ہر گز نہیں بلکہ تجرباتی ہے ، جو اپنے قاری کو بار بار حسی تجربے پر اکساتا ہے اوراپنے دلائل میں جا بہ جا کائنات کے ان گنت طبعی عوامل اور مناظر کا حوالہ دیتا ہے۔ اب اگر پورا تجرباتی تناظر ہی بدل چکا ہے تو پھر یا تو اس گردش ایام کو پیچھے کی طرف دوڑائیے اور یا پھر اپنی تدبرانہ نگاہ کو بدلیے۔ ہاں یہ ذکر پہلے گزر چکا ہے کہ وحی کائنات کے طبعی یا نفسیاتی حقائق تک صرف ایک وجدانی علامتی پیرایے میں ضرورت کی حد تک ہی راہ نمائی کرتی ہے اور آگے کی گرہیں کھولنے کا کام عقل و شعور ہی کے حوالے کر دیتی ہے۔ تدبر کائنات کے پس منظر میں ہم میں سے ہر انساناپنے اخلاقی، جمالیاتی اور مذہبی شعور کی حد میں رہتے ہوئے ، اپنے اپنے علم کی مطابق، وحی سے معانی اخذ کرتا رہتا ہے اور جوں جوں علم کا دائرہ وسیع ہورہا ہے تدبر کائنات بھی زرخیزی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ اسی عمل کا نتیجہ مذہبی تجربے کاتدریجاً قابل ابلاغ ہونا ہے۔ اور ہماری ناچیز راے میں قرآن کا یہ وعدہ کہ سنریھم اٰیتنا فی الاٰفاق و فی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق (حم السجدہ: ۳۵) اسی کا مصداق ہے۔
مذہبی ایمانیات سے قطع نظر ہو کے بھی دیکھا جائے تو ایسے حقائق کی کیا وقعت ہے جن کا ہم دعویٰ تو کرتے نہ تھکیں ،مگر ہمیں اس بات پہ قدرت نہ ہو کہ ان سچائیوں کا اظہار پوری قوت سے ایک عالم گیر اصول بلاغت کو بنیاد بنا کر اپنے خارج میں کر سکیں؟ اگر کسی کا اس بات پر اصرار ہے کہ واحاط بما لدیھم و احصی کل شیء عددا (الجن: ۸۲) اور وان من شی ء الا عندنا خزائنہ و ما ننزلہ الا بقدر معلوم (الحجر: ۱۲) جیسی علامات پر تدبر اسے ایک روحانی کیفیت اور تعلق مع اللہ کے جذبہ سے سرشار کر دیتا ہے تو پھر اسے اس حقیقت کو، جو اس پر تدبر کے نتیجے میں آشکار ہوئی ہے، اس درجے میں قابل ابلاغ بنانے پر یقین کامل ہونا چاہیے کہ وہ آنے والے تمام زمانوں کے اعلیٰ ترین ذہنی و فکری مطالبوں کے مطابق ایک حقیقی سچائی کے طور پر قبول کی جائے۔ اس کے لیے ایسے عالم گیر اصولوں کا علم ناگزیر ہے جن کی نسبت قطعی العلم اور جن کی ساخت قطعی الدلالت ہو۔ قدیم اور جدید دنیا میں یہی حق کا معیار ہے۔ اس لیے اگر آج ایک ماہر علم منطق، ریاضی دان یا سائنسدان ان آیات پر تدبر اس طرح کرے کہ یہ شاید متناہیات اورلامتناہیات کی جانب کچھ حتمی وجدانی علامات ہیں تو ایساسائنسی تدبر قابل تعریف و تقلید ہے؛ کیوں کہ یہ حقیقت مطلق تک عالم گیر رسائی کی راہ کھولتا ہے۔ سائنسی، معاشرتی اور نفسیاتی وجوہات سے بالا تر ہو کر، علم و وجود کے درمیان کامل اتفاق اور ایک میٹا تھیوری کی تشکیل تو اصلاً مذہب ہی کا اہم ترین مطالبہ ہے۔
آخر میں ایک بار پھر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ قرآن تدبر کو کسی خاص ترکیبی اصطلاح سے مخصوص نہیں کرتا؛ لہٰذا ہمیں بھی کوئی حق نہیں پہنچتا کہ قارئین کے اپنے مزاج کے مطابق اس مطالبہ قرآنی کو پورا کرنے کی کوشش کو حق یا باطل ثابت کرتے پھریں۔ اس بات پر تو ہم سب متفق ہیں کہ قرآن کوئی طبیعات ، کیمیا، حیاتیات یا نفسیات کی کتاب تو ہے نہیں، مگر چوں کہ قرآن ہدایت کی خاطر جا بجا ہمیں مظاہرِ انفس و آفاق کی طرف متوجہ کرتا ہے؛ لہٰذا عصر حاضر کا قاری ان علوم کے دلائل کو استعمال کیے بغیر شاید تدبر کائنات کے مطالبے کا مکمل حق ادا نہیں کر سکتا۔ رہی اللہ کے انعام کی بات تو وہ جس کو چاہے جس طور حقیقت مطلق کی تجلی سے نواز دے۔ اس لیے کسی بھی سائنسی یا فلسفیانہ رجحان کے تدبر کا مطلب ہر گز روحانی مقاصد واحوال کا انکار نہیں ہے۔ حقیقت اور شعور کے مابین یقیناًکچھ پیچیدہ مخفی نسبتیں ہیں مگر انہیں جاننے کا عمل بھی تدریجاً سائنسی دائرہ اختیار میں آتا جا رہا ہے، اور انہیں مکمل طور پر جاننے سے پہلے کسی آفاقی حقیقت پر اپنے خارج میں اصرار محض ایک اصرار یا پھر زیادہ سے زیادہ تخیلاتی شاعری سے ملتی جلتی کوئی شے ہے۔ انسان اپنے مختلف المزاج ہونے کے باعث تدبرکی متعدد شاہراہوں سے گزر کر منزل حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں مگر ملکیت حق اور تائید حق فی نفسہ اس بات پر دلیل نہیں کہ یہ حقیقت قابل بیان وابلاغ بھی ہے۔ حلقہ فیثا غورث کے دور سے آج تک انسان اس کوشش میں ہے کہ ریاضی کے تجریدی نظریات استعمال کرتے ہوئے حقیقت مطلق کی ٹھوس شبیہات تخلیق کر سکے۔ اسی طرح یونانی المیے سے لے کرآج تک ایمان و یقین کی تمام روحانی ونفسیاتی و جذباتی اشکال، انسا ن کے جمالیاتی شعور کے مختلف مظاہر ہیں۔ جدید سائنس کا دائرہ کار مسلسل وسعت پزیر ہے اور اس کے قواعدوضوابط کا اطلاق آج عمرانیات، لسانیات، نفسیات، تاریخ یہاں تک کہ تخلیقی جمالیاتی علوم پر بھی ہو رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب مذہبی تحریر ومکالمہ بھی سائنسی اسلوب ہی میں مستند ٹھہرے گا۔ مزید برآں حقیقت مطلق کی ربانی تعبیرکی ملکیت کا واحد دعوے دار ہونے کی وجہ سے مذہبی انسان کو فطری طور پر علم ووجود کی عالم گیر وحدت کا علم بردار ہونا چاہیے۔ سائنسی علمیت کو محض مادہ پرستی یا افادیت تک محدود کرنے اور اپنے بودے مفروضوں کے دلائل، تواریخ میں تلاش کرنے کی بجائے روایتی علمیت کے حامل مذہبی ذہن کو آگے بڑھ کر فلسفہ اور سائنس کی سمت متعین کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ذہن و عقل اور روحانیت، اور مادیت اور ناگفتنی لطافت کا ایک مثالی میل ممکن ہو۔
حواشی
۱۔ اس آخری سوال پر کلام سے میں نے اس تحریر میں جان بوجھ کر گریز کیا ہے، کیوں کہ مسئلہ تدبر کائنات کے پس منظرمیں اولین معاشرے اور عصر حاضر کا فرق تو کافی گہرائی سے زیر بحث آچکا تھا جس سے بات بہت حد تک واضح ہو چکی ہے، مگر پھر بھی یہ تاریخی پس منظر میں مسلم بنیادیں دریافت کرنے کا ایک اہم تحقیقی مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں دو سے زائد مکتبہ فکر موجود ہیں اور ایک دلچسپی رکھنے والے قاری کو ان تفصیلات سے کلی طور پر آگاہی کے لیے جارج سلیبا کی کتاب کا Islamic Science and the Making of European Renaissance (2011) کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
۲۔محمد عبداللہ شارق، ’’تدبر کائنات کے قرآنی فضائل‘‘ (الشریعہ، جون ۲۰۱۴)
۳۔ علامہ محمد اقبال، ’’تجدید فکریاتِ اسلام‘‘ ، ترجمہ: ڈاکٹر وحید عشرت، اقبال اکادمی پاکستان(۲۰۰۲)
۴۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، ’’قرآن اور علم جدید‘‘، ڈاکٹر رفیع الدین فاؤنڈیشن(۲۰۱۱)
5- John Dewey, Reconstruction in Philosophy, Henry Holt and Company, New Jersey (1920)
ترجمہ :انتظار حسین، ’’فلسفہ کی نئی تشکیل‘‘، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور (۱۹۹۱)