مادی ترقی اور شناخت کا بحران

حافظ کاظم عثمان

مئی ۲۰۱۴ء کے شمارے میں ایک مضمون ’’مادی ترقی کا لازمی نتیجہ: شناخت کا بحران، واہمہ یا حقیقت‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ جناب محمد ظفر اقبال صاحب کا موضوع قابل ستایش ہے اور مغربی عقائد و نظریات کے بارے میں ان کا مؤقف بھی مضبوط ہے، لیکن مضمون پڑھتے ہوئے بعض باتوں نے پریشان کیا اور ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوئے۔ یہ مضمون دراصل ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں لکھا گیا ہے۔ 

1۔ محمد ظفر اقبال صاحب ابتدا ہی میں لکھتے ہیں کہ ’’امر واقعہ ہے کہ مسلمان آج مادی ترقی میں بہت پیچھے ہیں۔ ‘‘

سوال یہ ہے کہ مسلمان آج مادی ترقی میں کس سے پیچھے ہیں اور یہ پیچھے ہونا کیا واقعی ایک problematic issue ہے؟ اور کیا مسلمانوں کو اس belated consciousness میں مبتلا ہونا چاہیے؟ پیچھے رہ جانے کا تعلق تو اس گروہ کا ہوتا ہے جو اس دوڑ میں شامل ہو جبکہ امت مسلمہ کے معتبر اہل علم حضرات نے کبھی بھی اس دوڑ میں شامل ہونے کی ترغیب نہیں دی بلکہ اس ترقی کی دوڑ کے بارے میں ان کا رویّہ ہمیشہ حقارت آمیز رہا ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ہم پیچھے نہیں ہیں، بلکہ ہم اس سے لاتعلق ہیں کیوں کہ یہ ترقی دنیا کو پوجے بغیر ممکن نہیں۔ 

اس معاملے کو دوسری طرح دیکھیں تو آج مسلمان مادی ترقی میں کوئی اتنا پیچھے بھی نہیں، بلکہ آج بلا تفریقِ مذہب، بنی نوع انسانی میں کچھ لوگ اس ترقی میں پیچھے ہیں اور کچھ آگے ہیں۔ یہی صورتحال مسلمانوں کی بھی ہے۔ اسی لیے آج مسلم و غیر مسلم ممالک میں cosmopolitan urbanization ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آج مادی ترقی میں کوئی خاص قوم آگے یا پیچھے نہیں ہے بلکہ ایک خاص گروہ ( The Elite) ہے جو کہ رنگ ونسل، زبان اور جغرافیائی سرحدوں کے اختلاف کے باوجود ایک ہی تہذیب کا پیروکار ہے۔ اْن کے تصرف میں دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی ہے، ان تمام لوگوں کی پسند نا پسند، بود و باش، برانڈ، پسندیدہ کھانے، پسندیدہ میوزک اور فلمیں وغیرہ سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ان میں مسلمان بھی ہوتے ہیں، ہندو بھی، عیسائی بھی اور یہودی بھی لیکن کوئی ان کے طرز حیات سے یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

C. Wright Mills اس حوالے سے کہتا ہے:

"The upper class style of life is pretty much the same-although there are regional variations- in each of the big cities of the nation. The houses and clothing, the types of social occasions the metropolitan 400 care about, tend to be homogeneous. The brooks brother suit-and-shirt is not extensively advertised nationally and the store has only four branches outside New York City, but it is well known in every major city of the nation, and in no key city do the "representatives" of Brooks Brothers feel themselves to be strangers. There are other such external that are specific and common to the proper upper-class style."1 
’’اشرافیہ کی طرزِ زندگی تقریباً ایک جیسی ہے، البتہ کہیں کہیں کسی قوم کے بڑے شہروں میں علاقائی تغیر پایا جاتا ہے۔ ان کے مکانات اور لباس، معاشرتی اجتماع کے مواقع یکسانیت کی طرف مائل ہیں۔ (مثلاً) بروک برادر سوٹ اینڈ شرٹ کے زیادہ اشتہار نہیں چھپتے اور نیو یارک میں اْس کی محض چار شاخیں ہیں، مگر پورے امریکا میں (یہ برانڈ) اچھی طرح جانی جاتی ہے اور بروک برادرز کے کپڑے پہننے والے کہیں بھی اجنبی محسوس نہیں ہوتے۔ اسی طرح مزید بھی کچھ مخصوص مظاہر ہیں جو کہ اشرافیہ میں مشترک ہیں۔ ’’

آج دراصل اس تناظر میں اقوام کو دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ صحیح منظر نامہ پیش نظر رہ سکے اور عالم اسلام میں سے اگر کوئی اس اشرافیہ طبقے میں شامل ہو بھی جائے تو ہم اْسے اسلام کی کامیابی نہ سمجھیں اور نہ ایسے مسلمانوں کو اپنا ہیرو تصور کریں۔ مسلمان آج جس مغلوبیت اور پسپائی کا شکار ہیں، اْس کا اس ترقی اور مقابلہ بازی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسلمانوں کی زبوں حالی کی وجہ اْن کے دین سے نکلتی ہے نہ کہ خارجی عوامل سے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی مسلمان ایمانی طور پر مردہ ہوئے، زمانے کے ہاتھوں مفتوح ہوگئے۔ خواہ ہندوستان ہو، خلافت عثمانیہ ہو یا اسپین، مسلمانوں کو ہمیشہ ایمانی کمزوری کی وجہ سے شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑ ا اور غیروں نے بالعموم مردوں پر جھنڈے گاڑ کے فتح کا جشن منایا۔ 

2۔ کیا بیک وقت کئی ادوار میں زندہ رہنا صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے؟ 

ان چار ادوار کی نشاندہی محترم جناب ڈاکٹر عبد الوہاب سوری صاحب نے ایک مضمون میں فرمائی ہے جس کا نام What is live and what is dead in Iqbal's thought ہے اور یہ مضمون آکسفرڈ کی شائع کردہ کتاب "Revisioning Iqbal As a poet and Muslim Political Thinker" میں شامل ہے۔ حیرت ہے کہ اس مضمون کا حوالہ شامل نہیں کیا گیا۔ بہرحال یہ چار ادوار کا مسئلہ آج ہر قدیم تہذیب کے ساتھ ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ ہندوستانی، چینی اور جاپانی اقوام وغیرہ بھی ایک ساتھ کئی ادوار میں زندہ ہیں۔ ان کا بھی معاشرتی ڈھانچہ قدیم ہے بلکہ ان کا مذہبی ورثہ اسلام سے بھی پہلے کا ہے تو پھر مسلمان ہی اس مخمصے میں مبتلا کیوں ہیں؟ ہمارے خیال میں کئی ادوار میں زندہ رہنے سے زیادہ یہ بات با معنی ہے کہ ہم اپنی دینی اقدار پر مصر ہیں اور ہمارا معاشرتی ڈھانچہ بھی دین ہی کی بدولت پوری طرح جاہلیت جدیدہ کا شکار نہیں ہوا۔

3۔کیا یہ تین طبقات مسلم اہل فکر کی صحیح نمائندگی کرتے ہیں؟

امت مسلمہ کے کئی گروہ ایسے ہیں جن کی نمائندگی اس زمرہ بندی میں نہیں ہوتی۔ مثلاً تبلیغی جماعت نہ تو مادی ترقی کو اصل شے مانتی ہے، نہ مغرب کی کچھ چیزیں لینے اور کچھ چھوڑنے کی قائل ہے اور نہ ہی مغرب پر تنقیدی نظر رکھتی ہے۔ وہ تو ایک خالص دینی جماعت ہے جن کی علمیت روایتی مذہب سے نکلتی ہے۔ لیکن کیا یہ منہج اپنی ذات میں کوئی قابلِ التفات شے نہیں ہے؟ کیا یہ مغرب سے تصادم کے نتیجے میں کامیاب ترین گروہ نہیں ہے؟ بلکہ آج تو محسوس ایسا ہوتا ہے کہ مغرب سے نبردآزما ہونے کا واحد راستہ مغرب سے کلیتاً بے اعتنا ہوجانا ہی ہے۔ مزید یہ کہ علماء دیوبند، علماء اہل حدیث یا بریلوی علما ء اس زمرہ بندی میں کہاں کھڑے ہوتے ہیں؟

جب ہم کسی شے کی زمرہ بندی کرتے ہیں اور اس کو ایسے بیان کرتے ہیں کہ جو ہے یہی ہے تو اس سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ مثلاً اس مضمون میں امت مسلمہ کا سوادِ اعظم نظر انداز کردیا گیا جس کی وجہ سے ایک قاری یا تو ان افراد کو امت کی mainstream میں شامل ہی نہیں سمجھے گا اور اگر سمجھے گا بھی تو بس بے وقعت سی شے کے طور پر۔ دوسرا یہ کہ اس طرح کی ناقص زمرہ بندی سے درست نتائج اخذ کرنا کیونکر ممکن ہوگا۔ 

4۔تیسرے طبقے کی وضاحت کرتے ہوئے موصوف نے اظہارِ خیال فرمایا: ’’مادی ترقی کے حصول کے لیے صرف مغربی زبان اور سائنسی علوم و فنون کی تحصیل و تعلیم کافی نہیں ہے۔ زبان تو علوم کے ابلاغ، اظہار و تفہیم کا محض ایک ذریعہ ہے۔ وہ فکری سرمایہ اور خرد افروزی امر دیگر ہے جو مادی ترقی کا لازمہ ہے۔‘‘

اس عبار ت میں دو مسئلے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ کوئی بھی زبان محض اظہار کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ یہ اپنے بولنے والوں کی نفسیات، اْ ن کے احساسات، چیزوں کے بارے میں اْن کا نظریہ اور اْن کی جمالیات وغیرہ کو منعکس کرتی ہے۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ اْردو میں مخاطب حاضر کے کئی صیغے ہیں، احترام کے رشتوں میں ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، بے تکلف احباب کو ’’تم‘‘ یا ’’تو‘‘ سے پکارا جاتا ہے، جبکہ انگریزی میں مخاطب کرنے کے لیے صرف ایک ہی لفظ You ہے۔ تو کیا جب ایک انگریز اپنے والد اور احباب کو "You" کہہ کر مخاطب کرتا ہوگا اور ایک ارد و بولنے والا اپنے والد کو آپ کہہ کر اور دوستوں کو تم کہہ کر پکارتا ہوگا تو ان کی نفسیاتی کیفیت ایک جیسی ہوتی ہوگی؟ کیا یہ دونوں زبانیں بولنے والے اپنے بڑوں کا ایک جیسا احترام کرتے ہوں گے؟

ہائیڈیگر اس حوالے سے کہتا ہے:

"Language is a human activity. The kind of being of this activity will be determined from the kind of being of the human being, for the human being alone, as distinguished from stone, plant and animal, speaks. The being of the human being in itself the being of the language." 2 
’’زبان دراصل ایک انسانی عمل ہے۔ کسی معاشرے میں جس طرح کے انسان ہوں گے اْسی طرح کی زبان وجود میں آئے گی۔ جمادات، نباتات اور حیوانات کے برعکس انسان گفتگو کر سکتا ہے۔ لہٰذا انسان ہونے کا معاملہ درحقیقت زبان کے تعین سے طے پاتا ہے۔ ‘‘

دوم یہ کہ یہاں تک آپ کی بات ٹھیک ہے سائنسی علوم و فنون کی تعلیم مغربی مادی ترقی کے لیے کافی نہیں ہے۔ لیکن اْن عقائد کی راہ ہموار کرنے کے لیے اس کی طاقت بھی غیر معمولی ہے، اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب ہم ان عقائد کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اشیاء کا استعمال کرتے ہیں تو وہ عقائد بھی غیر محسوس طریقے سے در آتے ہیں۔ 

ایک گزارش:

موجودہ دور لفظوں کی بے توقیری کا دور ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے انسان کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ جو لکھنا چاہے لکھے، جس موضوع پر چاہے قلم اْٹھائے، دفتر کے دفتر سیاہ کردے۔ اس وجہ سے آج لفظوں کا خالق کون ہے، یہ بات غیر اہم ہوگئی ہے اور مضمون کی تفہیم کی واحد صورت لفظ رہ گئی ہے۔ ہمارے اسلاف میں لکھنا ایک مشق نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا تھا ا ور معاشرے کے بڑے لوگ ہی لکھنے کے فریضے کو سرانجام دیتے تھے۔ اسی لیے معاشرے میں علمی ذوق اور کتابوں کے بارے میں ان کا رویّہ یکسر مختلف تھا۔ اور پھر جو علم وجود میں آتا تھا وہ مشقی یا مشغلے کے طور پر یا ڈگری حاصل کرنے کے لیے معرض وجود میں نہیں آتا تھا بلکہ اْس کے پیچھے علم و فہم کا ایک سمندر ہوتا تھا، وہ معاشرے کی کوئی ضرورت پوری کرتا تھا، حوالوں کے مجموعے کے بجائے خود ایک حوالہ بنتا تھا۔ 

الفاظ کی بھر مار سے ایک اور مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ خیالات کا معیار اور لفظوں کی اہمیت گھٹ گئی۔ یہ سانحہ صرف مغرب کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ مشرقی اقوام بھی اپنے اپنے قلم تھامے اس میدانِ عمل میں نکل پڑے۔ اس طوفانِ افکار و نظریات کی وجہ سے آج ایک شخص کے پاس کسی تحریر کو پڑھنے کے بعد کچھ سوچنے کا، reflect کرنے کا یا کوئی لائحہ عمل بنانے کا وقت نہیں رہا۔ ذرا سوچیں کیا ہم انسانوں کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے میں مغرب کے ساتھ برابر کے شریک نہیں ہیں؟ کیا اس رویّے سے امت مسلمہ کی بحیثیت مجموعی سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت مفقود نہیں ہوجائے گی؟

نیل پوسٹ مین نے اپنی کتاب Amusing Ourselves to Death میں جارج آرویل اور ایلڈس ہکسلے کے مستقبل کے بارے میں خیالات کا بہت دلچسپ موازنہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ ان دونوں ناول نگاروں نے تقریباً ربع صدی سے پہلے اگلے دور کی پیش گوئی کی تھی۔ 

"Orwell feared those who would deprive us of information. Huxley feared those who would give us so much that we would be reduced to passivity and egoism. Orwell feared that the truth would be concealed from us. Huxley feared the truth would be drowned in a sea of irrelevance."3 
’’آرویل اس بات سے خوفزدہ تھا کہ ہم سے معلومات چھپائی جائے گی جبکہ ہکسلے کا یہ خدشہ لاحق تھا کہ ہمیں اتنی معلومات دی جائے گی کہ ہماری جہالت اور غفلت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ آرویل اس بات سے ڈرتا تھا کہ ہم سے سچ چھپایا جائے گا۔ لیکن ہکسلے کو اس بات کا ڈر تھا کہ سچ کو غیر ضروری معلومات کے دریا میں بہا دیا جائے گا۔‘‘

ڈاکٹر اسرار احمد کا دینی تحریکوں اور افراد کارکے حوالے سے کیا گیا تجزیہ بھی بہت relevant ہے۔’’ اسلام کی نشاۃ ثانیہ: کرنے کا اصل کام‘‘ میں آپ فرماتے ہیں:

’’مغربی تہذیب و تمدن اور فلسفہ و فکر کا یہ تسلّط اس قدر شدید اور ہمہ گیر ہے کہ بعض اْن قوّتوں کے نکتہ نظر کا جائزہ بھی اگر دقت نظر سے لیا جائے جو مختلف ممالک میں مغربی تہذیب و تمدّن کے خلاف صف آرا ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی مغربی اثرات سے بالکلیہ محفوظ نہیں ہیں اور خود ان کا طرزِ فکر بہت حد تک مغربی ہے۔‘‘4

ہمارے خیال میں اس طرح تابڑ توڑ لکھنا بذات خود جدیدیت کی ایک علامت ہے اور اس نقار خانے میں محض ایک اور آواز کا اضافہ ہے۔ اس کے بجائے اگر ہم خاموش ہوجائیں تو شاید کئی آوازوں سے زیادہ مؤثر ہوجائیں۔


حواشی

1- C. Wright Mills, The Power Elite, Oxford university press, 1959, p. 6
2- Martin Heidegger, Logic As the Question Concerning the Essence of Language, State University of New York, 2009, p.23
3- Neil Postman, Amusing Ourselves to Death: Public Discourse in the Age of Show Business, New York Penguin, 1985, p. 80

4۔ ڈاکٹر اسرار احمد ، ’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ : کرنے کا اصل کام‘‘، انجمن خدام القرآن، 1968، صفحہ ۵۰

آراء و افکار

(اگست ۲۰۱۴ء)

تلاش

Flag Counter