مکاتیب

ادارہ

(۱)

عزیزنا الوفی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

قرأت مقالتکم فی فرصۃ یسیرۃ۔ أرید أن ألفت أنظارکم إلی الامور التالیۃ الناشءۃ عن الفکرۃ التی قدمتم إلی الجمہور۔

۱۔ لا یجوز للمسلمین أن یقوموا ضد العدو الغاشم مہما کانت الظروف والاحوال إذا لم یکن لدیہم الاستعداد الکامل۔

۲۔ الحرکات الجہادیۃ المعاصرۃ لا علاقۃ لہا بالجہاد وبالتالی ہذا العمل إضاعۃ للنفوس والمال لا یترتب أی أثر علی الامۃ الاسلامیۃ بل ہو ضار للمسلمین لأن العصابات لا تقوم مقام الخلیفۃ أو الإمام۔

۳۔ ہناک مصطلح جدید من حضرتکم، ألا وہو ’’کلاسیکل فقہ‘‘۔ أخی العزیز! بون شاسع بین الفقہ الکلاسیکی وبین الفقہ الاسلامی۔ الفقہ الاسلامی مستورد ومستنبط من المنابع الاسلامیۃ وہما القرآن والسنۃ۔ أما الفقہ الکلاسیکی، بما یسمی ’’روایتی فقہ‘‘، فمستنبط وماخوذ من آراء الناس وأعرافہم، لا علاقۃ لہا بالقرآن والسنۃ، وإن کان ہناک بعض القواعد تتوافق عشوائیا مع القرآن والسنۃ کالاقدار العالمیۃ (Universal Truth) مثل الحمیۃ، الحق، الملک، التصرف للمالک، الخیار۔ ولکن الفقہ من حیث المجموع مرتبط بالاحکام القرآنیۃ والسنۃ النبویۃ۔لذا أری أن ہذا المصطلح خطیر جدا یجب الحذر منہ۔

۴۔ ہل ہناک ’’إمام المسلمین‘‘ فی العالم الاسلام الذی یقوم باداء مہمات المسلمین؟ جمیع من یسمون أنفسہم بأئمۃ المسلمین أو لڈراۂم ہم عملاء الاستعمار الغربی أو الشیوعی۔ فما رأیکم فی الاحوال الراہنۃ؟

۵۔ ما رأیکم حول تحریر الأراضی المسلمۃ من أیدی الکفار وما ہو المقیاس للإستعداد؟ ہل قام أبو بصیر بإقامۃ منظمۃ إرہابیۃ بإذن الرسول علیہ السلام أم قام من عند نفسہ ورأیہ؟

أنصح لک: قبل أن تطبع الکتاب وأن یوضع الکتاب علی المکاتب التجاریۃ، قدم الکتاب إلی العلماء الراسخین حتی لا یکون جہدک ہباء ا منثورا۔

محمد رویس خان الأیوبی

میر پور۔ کشمیر الحرۃ

(۲)

برادر عزیز مولانا حافظ محمد عمار خان ناصر صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟

اہل علم کی کئی محافل میں احقر سے الشریعہ کی خصوصی اشاعت بیاد امام اہل السنۃ کی مندرجہ ذیل عبارت کے بارے میں استفسار ہوا ہے:

’’وہ (امام اہل السنۃ) نزول مسیح کو ایک اعتقادی مسئلہ قرار دے کر اس کا انکار کرنے والے کو کافر کہتے تھے، جبکہ حضرت صوفی صاحب کی رائے اس سے مختلف تھی۔‘‘ (ص ۷۱۹)

نیز صفحہ ۳۸۱  میں افتخار تبسم صاحب کے حوالے سے جو بات نقل کی گئی ہے اور اس کے متعلق آپ نے جو توجیہ کی ہے، وہ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ حضرت صوفی صاحب نے تفسیر معالم العرفان فی دروس القرآن ج ۵ ص ۶۴۷ میں بڑی وضاحت کے ساتھ فرمایا ہے:

’’عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کا عقیدہ بنیادی عقیدہ ہے۔ اہل حق میں سے اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ متواتر اور صحیح احادیث اس کثرت سے ہیں کہ ان کا انکار کفر ہے۔ ایسا شخص اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔‘‘

نیز ’’مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے علوم وافکار‘‘ ص ۷۳ میں لکھتے ہیں:

’’عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رفع الی السماء اور نزول، یہ اہل اسلام کے نزدیک اتفاقی عقائد ہیں۔ یہود ونصاریٰ میں البتہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ مسئلہ حیات ونزول مسیح علیہ السلام امت کے جمیع طبقات کے درمیان ایک مسلمہ مسئلہ ہے اور یہ اعتقادی مسئلہ ہے۔ اس میں تشکیک پیدا کرنا ازحد غلط اور گمراہ کن بات ہے۔ قرآنی آیات میں اورصحیح اور صریح احادیث مبارکہ میں اس کی مکمل تشریح موجود ہے۔ حضرت حکیم الامت امام شاہ ولی اللہؒ اور ان کے تمام پیروکار اور علماء دیوبند کا متفقہ عقیدہ ہے اور مولانا سندھیؒ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔‘‘ 

ہم نے اسباق، دروس اور خطبات کے علاوہ کسی نجی محفل میں بھی اس کے خلاف نہیں سنا۔ قرین قیاس یہ ہے کہ تبسم صاحب صحیح طور پر انگیخت نہیں کر سکے جس سے شکوک وشبہات کا باب وا ہوا ہے۔

(مولانا حاجی) محمد فیاض خان سواتی

مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ

(۳)

عزیز القدر عامر سلمہ اللہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

امید ہے مزاج اور صحت بعافیت ہوں گے اور معمولات بخیر وخوبی جاری ہوں گے۔

منکرین حدیث کے ساتھ انٹرنیٹ پر جاری جس مباحثے کا آپ نے ذکر کیا ہے، میرے لیے اس میں براہ راست شریک ہونا بوجوہ ممکن نہیں، البتہ اس حوالے سے اپنے فہم کے مطابق چند بنیادی نکات عرض کر دیتا ہوں۔ ان کی روشنی میں امید ہے کہ آپ اس مباحثے میں درست موقف کی موثر ترجمانی کر سکیں گے۔

جو حضرات قرآن مجید کے ابلاغ وتبلیغ سے ہٹ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریعی مقام کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، میرے خیال میں ان کی غلطی حسب ذیل نکات کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے:

۱۔ ایک مسلمان اصلاً واساساً اور براہ راست قرآن پر ایمان نہیں لاتا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتا ہے، کیونکہ قرآن کو خدا کا کلام ماننے سے پہلے اس کو پیش کرنے والی ہستی کو اللہ کا پیغمبر ماننا ضروری ہے۔ پیغمبر کے واسطے کے بغیر خدا کے کلام تک رسائی یا اس پر ایمان کی کوئی صورت ممکن نہیں۔

۲۔ کسی انسان کو پیغمبر ماننے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے اس کا دین لوگوں تک پہنچانے پر مامور ہے اور وہ جو چیز بھی اس اعلان کے ساتھ لوگوں کو دے گا کہ یہ خدا کا دین ہے، اسے ماننا لازم ہوگا۔ چنانچہ وہ خدا کے نازل کردہ کلام کے طور پر کوئی چیز پیش کرے یا اس کے علاوہ کوئی حکم یا ہدایت یہ کہہ کر لوگوں کو دے کہ یہ خدا کا دین ہے، ہر صورت میں اس کے پیش کردہ دین کو ماننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ فرض کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رسالت کا اعلان کرنے کے بعد کلام الٰہی کے طو رپر قرآن کو سرے سے پیش ہی نہ کرتے اور اس کے بجائے محض یہ فرماتے کہ میں خدا کا رسول ہوں اور اس حیثیت سے تمھیں فلاں بات کا حکم دیتا اور فلاں بات سے روکتا ہوں تو بھی اس کی اطاعت بدیہی طور پر لازم ہوتی، کیونکہ اس کے بغیر آپ کو ’’رسول‘‘ ماننے کا کوئی مطلب ہی نہیں بنتا۔ دوسرے لفظوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقلاً اور مطلقاً واجب الاطاعت ہونا قرآن پر ایمان لانے سے مقدم ہے، وہ اس پر موقوف نہیں کہ اس کے حق میں قرآن سے دلیل پیش کی جائے۔ یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مستقلاً مطاع ہیں، قرآن سے بھی ثابت ہے، لیکن اس پر موقوف نہیں۔ فرض کر لیں کہ پورے قرآن میں کہیں یہ بات مذکور نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مطلقاً فرض ہے، تب بھی صورت حال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، کیونکہ یہ چیز قرآن پر ایمان سے پہلے آپ کو ’’رسول‘‘ مان کر الگ سے تسلیم کی جا چکی ہے۔ قرآن، رسول کے مقام ومنصب کی تعیین کے لیے ماخذ نہیں۔ وہ تو خود کلام الٰہی کی حیثیت سے اپنا استناد تسلیم کرانے میں اس کا محتاج ہے کہ اسے رسول کی تائید وتصدیق حاصل ہو۔ 

البتہ اگر قرآن نے کسی مقام پر رسول کی ذمہ داری اور منصب اور اس کے دائرہ کار کی کوئی ایسی تحدید بیان کی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اللہ کا کلام لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رکھتا تو یقیناًوہ زیر بحث آنی چاہیے۔ ہمارے فہم کے مطابق قرآن میں کوئی ایسی تحدید بیان نہیں ہوئی۔ اگر کسی آیت یا بعض آیات سے کسی کو شبہ ہوا ہے تو ان مقامات کو سیاق وسباق کی روشنی میں الگ الگ زیر بحث لانا چاہیے۔

۳۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح امت کو قرآن دیا ہے، اسی طرح قرآن کے علاوہ بھی بہت سے احکام اور ہدایات بطور دین دی ہیں اور ان کی پابندی امت پر لازم ٹھہرائی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دین کی اس دوسری صورت کی نسبت اسی طرح یقینی ہے جس طرح قرآن کی نسبت یقینی ہے۔ امت جس طرح اپنے دور اول سے آج تک قرآن کو اس حیثیت سے مانتی آئی ہے کہ یہ اللہ کا وہ کلام ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا ہے، اسی طرح قرآن سے الگ دین کے ایک مفصل عملی ڈھانچے اور اس کی تعبیر وتشریح کے ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو بھی اسی حیثیت سے اور اسی یقین کے ساتھ مانتی چلی آ رہی ہے کہ اللہ کے رسول نے یہ چیزیں بھی دین ہی کی حیثیت سے امت کو دی ہیں۔ بعض جزوی امور کی نسبت آپ کی طرف درست ہونے یا نہ ہونے میں یقیناًاہل علم کے مابین اختلاف ہوتا رہا ہے، لیکن اصولی طور پر قرآن سے باہر بھی دین کا پایا جانا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کو یقینی سمجھنا امت کے اہل علم کے ہاں ہمیشہ متفق علیہ اور اجماعی رہا ہے۔ اس لحاظ سے قرآن کے اندر اور قرآن سے باہر پائے جانے والے ’’دین‘‘ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت یکساں درجے کا ہے۔ اگر قرآن سے باہر پائے جانے والے دین کی نسبت اور ثبوت میں امت کا اجماع اور تعامل قابل اعتبار نہیں تو وہ قرآن کی نسبت او ر ثبوت کے معاملے میں بھی قابل اعتماد نہیں ہو سکتا۔ ہذا ما عندی والعلم عند اللہ

محمد عمارخان ناصر

(۴)

بخدمت جناب مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

ماہنامہ الشریعہ کا ضخیم ’’امام اہل سنت‘‘ نمبر باصرہ نواز ہوا۔ محسوس ہوتا ہے کہ ایک ایک سطر خوش رنگ شگوفوں اور گلِ تر سے لکھی گئی ہے۔ اہل علم مشک وخستن اور صندل وعنبر سے اس کی تائید لکھیں گے۔ راقم الحروف نے بھی اپنے نحیف وناتواں قلم کے اشہب کو جولانی دی ہے اور تبصرہ لکھا ہے جو ماہنامہ ’’طائفہ منصورہ‘‘ اور ماہنامہ ’’فقاہت‘‘ میں شائع ہوگا۔ آپ کو بھی ارسال کر دوں گا۔ آنکھوں میں جچا تو زہے نصیب ورنہ ڈسٹ بن تو ہے ہی۔ 

آج ہی اپنی مسجد سے واپس گھر پہنچا تو اکتوبر ونومبر کا خوبصورت شمارہ آنگن کو روشن کیے ہوئے تھا۔ بھوکے کو کیا چاہیے؟ کھانا۔ بس مطالعہ شروع کیا اور ۱۶۸ صفحات پر مشتمل رسالہ پڑھ ڈالا۔ ماشاء اللہ، آپ کے حوصلوں کا بانکپن جوان ہے۔ آپ کے مضامین میں بعض اقتباسات سے بدہضمی سی ہوتی ہے، تاہم آپ کی نثر نگاری اور اسلوب تحریر کا قتیل ہوں۔ ’’دینی مدارس کا نظام: بین الاقوامی تناظر میں‘‘ کے زیر عنوان ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب کی گفتگو پڑھ کر تارے رقص کرنے لگے۔ اللہ، اللہ! باریک عنوان پر ایسا گھاگ اور بے لاگ تبصرہ متاثر کیے بغیر نہ رہ سکا۔ کلمہ حق میں مولانا زاہدالراشدی کا اداریہ کافی فکر انگیز تھا۔ 

مکاتیب میں سید مہر حسین بخاری کا یہ کہنا کہ ’’تحریف قرآن کی لچر اور بیہودہ روایات تو بعض کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں‘‘ بذات خود لچر اور بے ہودہ پن ہے۔ بخاری صاحب جن روایات کو تحریف کہہ رہے ہیں، وہ دراصل نسخ اور اختلاف قراء ت کی روایات ہیں۔ خود اہل سنت کے علماء نے اس کی تصریح کر دی ہے۔ نیز اہل سنت کی یہ روایات اخبار آحاد ہیں، متواتر نہیں ہیں۔ اہل تشیع تحریف قرآن کے قائل ہیں یانہیں؟ قمی، کلینی اور علامہ نوری طبرسی کی جمع کردہ تحریف قرآن کی روایات کی بنا پر کل شیعہ آبادی کو محرف قرآن ٹھہرایا جاسکتاہے یا نہیں؟ یہ ایک الگ اورمستقل بحث ہے، لیکن اس ضمن میں اہل سنت کی نسخ والی روایات کو لچر، بے ہودہ اور تحریف کہنا اہل تحقیق کا مزاج نہیں ہے۔ یہ دفاع تشیع ہی ہے جس سے بخاری صاحب انکاری ہیں۔ اسی طرح بخاری صاحب کایہ کہنا کہ راقم آثم اہل تشیع کے کفر کا قائل نہیں، یہ فتویٰ کی زبان ہے، رائے نہیں۔ لیکن چونکہ پہلے وہ لکھ آئے ہیں کہ ایک محقق شیعہ نوجوان عالم میرے دوست ہیں، اس لیے اب علمی وفکری طور پر کچھ لکھنا عبث ہے، کیونکہ ہمارے ہاں دوستی میں سب چلتا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے۔ والد گرامی کی خدمت میں سلام مسنون پیش فرما دیں۔ 

حافظ عبدالجبار سلفی 

جامع مسجد ختم نبوت، لاہور

(۵)

محترم المقام معالی الشیخ حافظ محمد عمار خان ناصرصاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ 

الشریعہ کا انتہائی جامع ومبسوط خصوصی شمارہ موصول ہوا۔ کتابت، طباعت، ترتیب وتہذیب اور عناوین کے اعتبار سے یہ ایک مثالی اور تاریخی اشاعت ہے۔ جب اس نمبرکو پہلی بار دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا اور جب اسے پڑھ لیا تو ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔ اللہ اکبر! اتنی عظیم شخصیت کے متعلق ایسی دلچسپ اور مفید معلومات اتنی کم مدت میں آپ اور آپ کے رفقاے کرام نے جمع کر کے پیش کردیں۔ میں اسے حضرت امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی مذہبی وعلمی خدمات کا زندہ معجزہ اور کرامت کہہ سکتا ہوں اور آپ کی محنت اور کوشش کا نتیجہ کہہ کر اس کی غیرمعمولی اہمیت کوکم کرنا پسند نہیں کر سکتا۔ 

الشریعہ کی خصوصی اشاعت بیاد مولانا سرفراز خان صفدرؒ دینی، مذہبی اور ادبی رسالوں کی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ حضرت کی شخصیت اور ان کے متعلق قلم کاروں کی بوقلمونیاں، رسالے کی ضخامت، اس کی حسین طباعت، غرض ہر ایک چیز آپ کی اور آپ کے معاونین کی خوش ذوقی، بے پناہ محبت اور اولو العزمی کا پتہ دیتی ہے۔ یہ خصوصی اشاعت ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جو آئندہ آنے والی کئی نسلوں اور مورخین کے لیے قابل قدر ماخذ کا کام دے گی۔ یہ بہت بڑا کارنامہ ہے جو آپ نے سرانجام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول ومقبول فرمائے۔ اس اشاعت کے گراں بہاہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اس تاریخی خصوصی اشاعت کی قدر نہ کرنا پرلے درجے کی سنگدلی ہے۔ اللہ تعالیٰ الشریعہ کو آسمان صحافت کا چمکتا دمکتا آفتاب بنائے۔

راقم آثم اس خصوصی اشاعت پر آپ کو، آپ کے والد گرامی مولانا زاہدالراشدی حفظہ اللہ کو اور آپ کے رفقاے کار کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہے۔ 

ابوسفیان محمد خان محمد ی

ملکانی شریف، ضلع بدین سندھ

(۶)

محترمی جناب سید مہرحسین بخاری 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ماہنامہ الشریعہ نومبر /دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں ایک دوست نے آنجناب کا مکتوب دکھلایا جس میں چند باتیں احقر کی ناقص معلومات کے مطابق خلاف حقیقت تھیں۔ ارادہ ہوا کہ ماہنامہ الشریعہ کے ذریعے ہی آنجناب کو مطلع کیا جائے۔ امیدہے کہ اس طالب علم کی گزارشات پر غور فرمائیں گے۔ 

۱۔ آپ نے لکھا کہ ’’ راقم آثم حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدخان سواتی ؒ کی طرح اہل تشیع کے کفر کا قائل نہیں ہے‘‘، حالانکہ حضرت صوفی صاحبؒ کے خطبات ودروس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اہل تشیع کی تکفیر فرماتے تھے۔ چند عبارات پیش خدمت ہیں: 

۱لف۔ ’’غرضیکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کا ایمان اس قدر پختہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود جو لوگ ان کے ایمان میں شک کرتے ہیں اور ان کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں، وہ یقیناًمنافق، زندیق اور کافر ہیں۔‘‘ (معالم العرفان ۱۷/۲۱۶)

ب۔ ’’ ہم تو صحابہ کرامؓ کی توہین کرنے والوں کو بھی ملعون ہی سمجھتے ہیں۔ روافض کے ساتھ ہمارا یہی جھگڑا ہے۔ خوارج کے ساتھ بھی ہمارا یہی تنازعہ ہے۔ اہل بیت کی توہین کرنے والا بھی مردود ہے۔ کسی بھی صحابی کی توہین کرنے والا مومن نہیں ہو سکتا۔‘‘ (خطبات سواتی، ۴/۳۶)

ج۔ ’’شیعہ حضرات کی کتب میں ان کا یہ نظریہ موجود ہے کہ خلفاے ثلاثہ مسلمان ہی نہیں تھے، صرف چوتھے خلیفہ حضرت علی ہی کامل ایمان تھے۔ یہ درحقیقت کفر کی بات ہے جو آدمی کو ایمان اور اسلام سے ہی خارج کر دیتی ہے۔‘‘ (خطبات ۵/۴۴)

د۔ اذ یقول لصاحبہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

’’ صاحب سے مراد حضرت ابوبکر صدیق ہیں۔ گویا آپ کی صحابیت نص قرآنی سے ثابت ہے، اس لیے حضرت صدیق کی صحابیت کے منکر کے خلاف علماء حق کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں، کیوں کہ یہ نص قرآنی کا انکار ہے۔‘‘ ( معالم العرفان ۸/۳۷۳)

ہ۔ ’’نبی کی بیویوں کی توہین کرنے والا شخص یا تو منافق ہے یا بے ایمان۔ رافضی لو گ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی توہین کے مرتکب ہوئے، حالانکہ ان کی براء ت کا ذکر ہم سورۂ نور میں پڑھ چکے ہیں۔‘‘ ( معالم العرفان ۱۶/۲۰۵ بحوالہ ’’رافضی کیا ہیں؟‘‘ جمع وترتیب مولانا عبد القدوس خان قارن مدظلہ)

۲۔ آنجناب رقم طراز ہیں کہ ’’ اگر چہ بعض کتب شیعہ میں تحریف قرآن کی روایا ت پائی جاتی ہیں، لیکن شیعہ عقائد کی کتابوں میں وہ تحریف قرآن کے قائل نہیں‘‘، حالانکہ شیعہ عقائد کی ایک کتاب میں تو یوں لکھا ہے:

’’قرآن کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے سامنے موجود ہے، حرف بحرف خدا کا کلام ہے لیکن یہ موافق تنزیل نہیں۔ اس میں مکی اورمدنی سورے ملے ہوئے ہیں، حالانکہ اول مکی ہونے چاہیے تھے، پھر مدنی۔ سورۃ اقرا جو سب سے پہلی سورۃ تھی، وہ پارہ آخر میں ہے اور ’’اکملت لکم دینکم‘‘ جو آخری آیت تھی، وہ سورۃ مائدہ میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیات کی ترتیب میں بھی فرق ہے، بعض سوروں سے آیات کم بھی کر دی گئی ہیں۔‘‘ (عقائد الشیعہ ص ۳۸ مولفہ ادیب اعظم مترجم اصول کافی سید ظفر حسین امروہوی) 

۳۔ آنجناب فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مجددالف ثانیؒ پر خود بھی کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے، وہ کیسے دوسروں کو کافر کہہ سکتے ہیں؟ ‘‘ حالانکہ حضرت امام اہل السنۃ ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے ’’رد روافض‘‘ میں رافضیوں کے مسلمان نہ ہونے کی تین وجوہ بیان فرمائی ہیں: 

(۱) وہ اس قرآن کو اصلی قرآن نہیں مانتے اور ظاہر بات ہے کہ جو شخص موجودہ قرآن کو اصلی قرآن نہ مانے، وہ کیسے مسلمان ہو سکتا ہے؟

(۲) مہاجرین اور انصار صحابہ کو کافر کہتے ہیں، جبکہ رب تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے: اولئک ہم المومنون حقا، یہ پکے مومن ہیں۔ اور پارہ ۲۶ میں فرمایا: لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ۔ البتہ راضی ہوگیا اللہ ان ایمان والوں سے جنھوں نے آپ کی بیعت کی درخت کے نیچے۔ 

(۳) یہ ائمہ کو معصوم مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اماموں پر وحی نازل ہوتی ہے۔ تو پھر نبی اور امام میں کیا فرق ہوا؟ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ نبی مانتے ہیں، یہ ختم نبوت کا انکار ہوا۔ (ذخیرۃ الجنان، ۸/۱۲۸) 

آنجناب کے مکتوب گرامی کے حوالے سے یہ چند گزارشات ذہن میں آئی تھیں جو اخلاص کے ساتھ عرض کر دی ہیں۔ خداوند قدوس تادم آخر اکابرین اہل السنۃ والجماعۃ علماء دیوبند کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم 

حسین احمدمدنی 

متعلم دارالعلوم مدنیہ، بہاولپور 

(۷)

محترم جناب مدیر الشریعہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

ماہنامہ الشریعہ کے نومبر دسمبر کے شمارے میں حافظ محمد زبیر صاحب کا مضمون باصرہ نواز ہوا۔ حافظ صاحب کے مضمون میں بہت سی باتیں قابل غور ہیں۔ بندہ ان میں سے چند اہم نکات پر بحث کرنا ضروری سمجھتا ہے۔

۱۔ حافظ صاحب نے مولانا فضل محمد صاحب کے مضمون کو علماء دیوبند کامتفقہ موقف قرار دیا ہے جو کہ حقائق سے چشم پوشی یا علماء دیوبند کی غلط ترجمانی کے مترادف ہے۔ یہ درست ہے کہ مولانا فضل محمد صاحب کے مضمون کے لہجے میں تندی وتیزی تھی، لیکن حافظ صاحب کو ان کے جواب میں حقائق کو اصل روپ میں پیش کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کے مضمون کی ثقاہت کو نقصان پہنچا اور ایک پوری جماعت کی دل آزاری ہوئی۔

۲۔ حافظ صاحب نے پاکستانی حکومت کی تکفیر، اس کے خلاف خروج اور خود کش حملوں کی تحریک کو اصلاً دیوبندی تحریک کہا ہے جو کہ دیوبندی فکر ومزاج رکھنے والوں پر محض الزام ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ حافظ صاحب جیسی باشعور شخصیت کے قلم سے ایسا غیر محتاط تبصرہ کیسے نکل گیا۔ علماء دیوبند نے ہمیشہ ملک وقوم کے مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھا۔ ملک میں خصوصاً قبائلی علاقوں میں موجودہ شورش وفساد میں اکثر وہ جماعتیں شامل ہیں جو باوجود اپنے آپ کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کرنے کے، علماء دیوبند سے بعض عقائد ومسائل میں شدید اختلاف رکھتی ہیں۔ مثلاً سوات کے مولوی فضل اللہ، باجوڑ کے مولوی فقیر محمد اور باڑہ کے منگل باغ وغیرہ کا تعلق اشاعۃ التوحید والسنۃ (پنج پیر) سے ہے جن کا علماء دیوبند سے اختلاف کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کے باوجود علماء دیوبند نے تمام اختلافات کوپس پشت ڈال کر وسعت فکری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ اہل حدیث کی ایک بڑی جماعت (شاہ جی گروپ) باجوڑ میں حکومت کے خلاف لڑ رہی ہے۔ یہ گروپ بعض مسائل (طالبان) میں بھی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا تھے، مگر کسی دیوبندی مولوی یا سیاست دان نے یہ نہیں کہا کہ یہ نہیں کہا کہ یہ اہل حدیث یا اشاعۃ التوحید والسنۃ کا مسئلہ ہے۔ بے چارے دیوبندی تو یہی صدا بلند کرتے رہے:

میں خود غرض نہیں، میرے آنسو پرکھ کے دیکھ
فکر چمن ہے مجھ کو، غم آشیاں نہیں

۳۔ حافظ صاحب کو شکوہ ہے کہ علماء دیوبند نے دہشت گردی کے مسئلے میں کوئی بنیادی کردار ادا نہیں کیا۔ غالباً حافظ صاحب تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں، ورنہ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مفتی نظام الدین شامزئ سے لے کرمولانا شیخ حسن جان مدنی تک نابغہ روزگار شخصیات کی شہادت کا اصل سبب ملک میں موجودہ شورش وفساد کے خلاف ان کا بنیادی کردار تھا۔ کیا حافظ صاحب اپنی جماعت کے کسی بھی فرد کا نام بتا سکتے ہیں جس کو اس مسئلے کے حل میں بال برابر بھی نقصان اٹھانا پڑا ہو؟

۴۔ حافظ صاحب کو ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی ایک دو پریس کانفرنسیں تو نظر آتی ہیں، لیکن یہ نظر نہیں آتا کہ جب سوات میں حکومت نے آپریشن کا ارادہ کیا تو معروف دیوبندی عالم دین مولانا رشید احمد سواتی نے سوات کے دو لاکھ لوگوں کو طالبان اور حکومتی آپریشن کے خلاف احتجاج کے لیے نکالا جس کے نتیجے میں حکومت نے مولانا سواتی کو اشتہاری مجرم قرار دے دیا اور کئی ہفتے قید وبند میں رکھا اور ان کے مدرسے کو بلڈوز کیا گیا۔

۵۔ حافظ صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ علماء دیوبند کی سیاسی نمائندگی کرنے والی تمام شخصیات نے طالبان کے طرز عمل کی شدید مخالفت کی اور موجودہ صورت حال میں حکومت کے خلاف خروج کو ناجائز کہنے کے باوجود حکومت کی ناقص پالیسیوں کو صورت حال کے بگاڑ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ پشاور جیسی حساس جگہ میں شیعہ، اہل حدیث اور جماعت اسلامی وغیرہ کے قائدین کو جمع کر کے ایک لاکھ کے قریب عوام پر مشتمل کانفرنس منعقد کرنے والے صرف دیوبندی علماء تھے۔ اس کانفرنس کا اعلامیہ ریکارڈ پر موجود ہے جس میں ایک طرف مسلح جدوجہد کو ناجائز ٹھہرایا گیا ہے اور دوسری طرف ڈرون حملوں اور افواج پاکستان کے ظلم وبربریت پر بھی انتہائی بے چینی کا اظہار کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ کانفرنس لاہور کے کسی آڈیٹوریم یا قرآن اکیڈمی کی وسیع مسجد میں نہیں، بلکہ پشاور جیسے خطرناک علاقے میں منعقد ہوئی۔

۶۔ حافظ صاحب کا خیال ہے کہ علماء دیوبند ایک طرف تو مختلف فروعی مسائل میں الجھ کر ایک دوسرے کے خلاف کتابیں لکھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وقت کے اہم مسئلے یعنی ملک کی موجودہ بد امنی کی صورت حال سے اغماض برت رہے ہیں۔ حافظ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ جن فروعی مسائل کا حوالہ آپ نے دیا ہے، وہ بغیر بحث وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے حل نہیں ہوتے، جبکہ موجودہ صورت حال کا واحد حل جدوجہد ہے نہ کہ تحریریں اور مقالہ جات۔

آخر میں حافظ صاحب سے مخلصانہ گزارش ہے کہ وہ جماعت یا مسلک کے کسی ایک فرد کی تحریر کو پوری جماعت کاموقف نہ سمجھیں اور نہ اس کی وجہ سے پوری جماعت کو معتوب بنائیں۔ ان کے مضمون سے یقیناًدیوبندی جماعت کی دل آزاری ہوئی ہے جس پر ان کو معذرت کرنی چاہیے اور حالات کی درست تحقیق پیش کرنی چاہیے۔ 

یاد رہے کہ سرحد میں جتنے بھی دیوبندی یا دوسرے مکاتب فکر کے علما نے مصالحت کی کوشش کی، ان تمام حضرات کو مشق ستم بنایا گیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

ابن مدنی 

ایڈیٹر اذان حق

(۸)

محترم جناب حافظ محمد زبیر صاحب! 

السلام علیکم 

الشریعہ نومبر/دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں ’’مولانا فضل محمد صاحب کے جواب میں‘‘ آپ کا مضمون پڑھا جس میں آپ نے بہت سی ادھر ادھر کی باتیں جمع فرما کر خواہ مخواہ بحث کو طول دیا ہے۔ اسی مضمون کے حوالے سے چند سوالات آپ کی خدمت میں پیش ہیں:

۱۔ آپ نے تحریر فرمایاہے کہ : ’’ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ عمامہ باندھ کر، داڑھی چھوڑ کرا ور شلوار ٹخنوں سے اوپر کر کے جہاد کا نعرہ لگا نے والے ہر شخص کی اندھا اور بہرا ہو کر حمایت نہیں کرنی چاہیے‘‘۔

جناب من! آپ کا ارشاد سر آنکھوں پر، لیکن مولانا فضل محمد صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہی کب تھاکہ عمامہ باندھ کر، داڑھی چھوڑ کر اور شلوار ٹخنوں سے اوپر کر کے جہاد کا نعرہ لگانے والے ہر شخص کی اندھا اور بہرا ہو کر ضرورحمایت کرنی چاہیے؟ آپ نے خود ہی ایک دعویٰ ان کے سر منڈھ دیا اور خود ہی اس کا جواب دینا شروع کر دیا۔ اگر ناراض نہ ہوں تو اپنے اس زریں اصول میں چند الفاظ کا اضافہ بھی فرما لیں، وہ یہ کہ جس طرح جہاد کا نعرہ لگانے والے ہر شخص کی حمایت نہیں کرنی چاہیے، اسی طرح جہاد کا نعرہ لگانے والے ہر شخص کی اندھا اور بہرا ہو کر مخالفت بھی نہیں کرنی چاہیے اور چند غلط افراد کی آڑ لے کرمجاہدین فی سبیل اللہ کی مخالفت پر بھی کمربستہ نہ ہونا چاہیے۔ 

آپ نے فرمایا ہے کہ ’’امریکہ بدمعاش نے افغانستان میں لڑنے والے طالبان کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔ اس طرح اس نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں، اپنی جان بھی بچالی ہے اور پاکستان کو کمزور بھی کیا ہے۔‘‘

حافظ صاحب! آپ کی رائے قطعاً درست نہیں۔ امریکہ بدمعاش نے طالبان کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا نہیں کیا، بلکہ امریکہ بدمعاش نے پاکستان کے بدمعاش حکمرانوں کو طالبان کے خلاف کھڑا کیا ہے۔ تعجب ہے کہ ایک طرف آپ ان طالبان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : ’’ ان قبائلیوں کا یہ دفاعی جہاد اور ان کا اپنے اوپر حملہ کرنے والے مقاتل ومحارب سیکیورٹی فورسز کو قتل کرناہمارے نقطہ نظر میں بالکل درست تھا۔ اب تک ہمارے علم کی حد تک یہ ایک دفاعی جہاد ہے‘‘۔

سوال یہ ہے کہ اگر ان طالبان کو امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا ہے توان کا جہاد دفاعی کیسے ہے؟ کیا محترم حافظ صاحب اس گتھی کو سلجھا سکیں گے؟ کیا جہاد امریکہ کے کھڑا کرنے سے بھی ہوتا ہے؟ 

آپ نے امام باڑوں اورمساجد پر حملوں سے متعلق مولانا فضل محمد صاحب کی رائے نقل فرما کر بڑے شاہانہ جلال اور طنطنے سے فرمایاہے کہ 

’’یہاں آپ کی دینی حمیت اور غیرت کو کیا ہو گیا ہے؟ حافظ زبیرنے تو ایک علمی رائے کا اظہار کیا تھا اور آپ نے اسے راندۂ درگاہ، ملحد اور ظالم تک قرار دے دیا اور یہاں جہاد کے نام پر معصوم شہریوں کو شہید کیا جا رہا ہے اور آپ اس کو بس ’’ناجائز‘‘ کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ کیوں نہیں کہتے کہ ایسے خود کش حملہ آور’’ مردار‘‘ ہیں اوریہ جہاد نہیں ’’فساد فی الارض ‘‘ ہے؟‘‘

بالکل بجا فرمایا۔ مولانا فضل محمد صاحب کوچاہیے کہ ہر فتویٰ لکھنے سے پہلے اس کے الفاظ کی منظوری حافظ زبیر سے لے لیاکریں کہ عالی جاہ! کس کس مقام پر صرف ناجائز لکھنا چاہیے اور کون کون سے مقام ایسے ہیں جہاں’’ مردار، حرام‘‘ اور فساد وغیرہ کے پر جلال الفاظ ضروری ہیں۔ لیکن حافظ صاحب! کیا میں آپ سے پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ جب مولانا فضل محمد صاحب ایک کام کو ناجائز کہتے ہیں تو آپ کو اسے ’’حرام‘‘ قرار دینے بلکہ انہی سے ’’حرام‘‘ قرار دلوا نے پرہی کیوں اصرار ہے؟ اور آپ کے سینے میں وہ کون سی آگ بھڑک رہی ہے جسے ’’مردار‘‘ وغیرہ الفاظ استعمال کیے بغیر سکون ہی نہیں ملتا؟ اور اگر ان ظالموں کومردار کہنا ایسا ہی ضروری ہے تو وزیرستان اور لال مسجد پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں آپ نے کیوں یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ وہ ’’مردار ‘‘ ہیں، حرام کام کر رہے ہیں؟ کیا محترم حافظ زبیر صاحب اس بات پر غور فرمانا پسند فرمائیں گے؟

حافظ صاحب موصوف نے ’’وما کان المومنون لینفروا کافۃ‘‘ کی آیت سے علماے کرام کے جہاد سے استثنا پر ناراض ہوتے ہوئے نرالی بات ارشاد فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں کہ 

’’طائفۃ جمع کا صیغہ ہے اور تین سے جمع شروع ہو جاتی ہے۔ پس مولانا کے نقطہ نظر کے مطابق جامعہ بنوری ٹاؤن کے تین اساتذہ کے علاوہ بقیہ پر تو جہاد فرض عین ہو جاتا ہے‘‘۔

سبحان اللہ! اس آسمان کے نیچے ایسے ایسے لطائف اور شگوفے بھی پھوٹتے ہیں۔ محترم طائفۃ جمع کاصیغہ نہیں، بلکہ اسم جمع ہے۔ اس کے معنی جماعت اور گروہ کے ہیں اوراس کی جمع طائفات اور طوائف آتی ہے۔ اگر یہ جمع کا صیغہ بھی ہوتا تو بھی اس سے آنجناب کامندرجہ بالا استدلال انتہائی مضحکہ خیز ہوتا، کیونکہ جمع کم از کم تین کے لیے استعمال ہوتی ہے، مگر اس سے تین سے زیادہ افراد پر جمع کا اطلا ق کیسے ممنوع ہوا؟ کیا تین سے زیادہ افراد پر جمع کا اطلاق نہیں ہو سکتا؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قبیلے والوں سے یہ فرمایا تھاکہ تم میں سے صرف اور صرف تین آدمی حصول علم دین کے لیے نکلیں، خبردار کوئی چوتھا نہ نکلنے پائے ورنہ جمع کااطلاق غلط ہو جائے گا؟ 

حضرت! اس آیت سے علماء وطلبہ کرام کا فرضیت جہاد سے استثنا بالکل درست ہے، کیوں کہ پاکستان کی ہر قوم اور ہر قبیلہ ایک ’’فرقہ‘‘ ہے اور ہرفرقے میں سے چند منتخب لوگوں کا ایک ’’طائفۃ‘‘ حصول علم دین کے لیے مدارس کی خاک چھانتا ہے۔ اور پھر آپ نے یہ کیسے فرض کرلیا کہ دیوبند کے ساڑھے بارہ ہزار مدارس کے ۳۰ لاکھ طلبہ میں سے کوئی بھی جہاد کے لیے نہیں جاتا؟ آپ کا کیا خیال ہے کہ جو جہاد پر جایا کرے، وہ اشتہار دیا کرے یا لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کر کے جایا کرے؟ اگر آپ زمینی حقائق دیکھنے سے معذور ہیں تو حسن ظن سے کام لینے میں آخر کیا قباحت ہے؟

آنجناب نے قبائلیوں کی پاک فوج کے خلاف جنگ کو دفاعی جہاد قرار دیا ہے اور پاکستان میں ہونے والے فدائی حملوں کو ناجائز قرار دیا ہے۔ کیوں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ پاکستان میں فوجیوں پر ہونے والے حملے اسی ’’دفاعی جہاد‘‘ کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہیں؟ مجاہدین وزیرستان نے مسلسل کئی سال کی ظالمانہ بمباریوں، آپریشنوں اور ڈرون حملوں پر مجبور ہو کر جنگ کی حکمت عملی کو تبدیل کیا ہے اور اس کا دائرہ کار وزیرستان کی پہاڑیوں سے پنجاب کے شہروں تک پھیلا دیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ وزیر ستان میں موجود فوج پر حملہ کرنا جائز اور پنجاب میں ناجائز ہے؟ کیا یہ فوج ان کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہے؟ اگرنہیں تو وزیرستان میں فوج کے قلعوں اور کیمپوں پر ہونے والے حملے کیونکر جائز ہیں جبکہ ان میں موجود فوج بھی بالفعل جنگ میں شریک نہیں؟ وہاں جائز اور یہاں ناجائز ہونے کی وجہ؟ پاکستانی فوج نے تو وتیرہ بنا رکھا ہے کہ آئے روز ان پر وحشیانہ بمباریاں اور ڈرو ن حملے کرتے رہتے ہیں۔ کیا وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ کیوں؟ 

آپ نے فرمایا ہے کہ: ’’ جب ایک خود کش حملہ آور کو معلوم ہے کہ اس کے حملے سے پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ عام شہری بھی شہید ہوں گے تو کیا اب بھی یہ قتل عمد نہیں ہے؟‘‘ 

محترم! آپ کی حالت قابل رحم ہے۔ ذرا بتلائیے کہ اس زمانے میں حملے کا وہ کون سا طریقہ ہے جس میں کسی بے گناہ شہری کی ہلاکت کا کوئی امکان بھی نہ ہو اور وہ کون سا ہتھیار ہے جو پھٹنے سے پہلے بے گناہوں کو تو ایک کونے میں لے جا کر کھڑا کر دے اور پھر سب گناہگاروں کے درمیان جا کر پھٹ جائے جس سے گناہگاروں کے تو پرخچے اڑ جائیں اور بے گناہ شہریوں کو خراش بھی نہ آئے؟ جناب من! کیا افغانستان اورعراق میں امریکی افواج پر ہونے والے فدائی حملوں کی زد میں بھی عام شہری نہیں آجاتے؟ ان فدائی حملہ آوروں کے بارے میں آنجناب کا کیا فتویٰ ہے؟ کیا وہ بھی قتل عمد کے سنگین جر م کی وجہ سے ملعون، جہنمی اور مغضوب علیہم ہیں؟ اگر نہیں تو پھر یہ کیوں؟ اس زمانے میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں سے تو عام شہریوں کو بالکل بچانا تو بے حد مشکل ہے۔ توآپ کا کیا مشورہ ہے کہ مجاہدین صرف ڈنڈوں اور سونٹوں سے جنگ کیا کریں؟ 

آپ نے فرمایاہے کہ : ’’ اورجب تک پاکستان میں شریعت نافذ نہیں ہوتی، اس وقت تک کشمیر کوآزاد کروا کر پاکستان سے اس کے الحاق کے لیے ہونے والے اس جہاد کو اعلائے کلمۃاللہ کے لیے ہونے والا جہاد فی سبیل اللہ قرار دینا ایک زیادتی اور خلاف واقعہ امر ہے۔ کشمیر کا موجودہ جہاد بھی جہاد ہے، لیکن جہاد آزادی ہے۔‘‘

بندہ اس بات کامفہوم بالکل بھی نہیں سمجھا۔ یہ جہاد آزادی کیا ہوتا ہے؟ اس کی کیا حیثیت ہے؟ اور کفار سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جہاد کرناکیوں جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہے؟ اور کشمیر کا یہ جہاد آزادی جائز ہے یا ناجائز؟ نیز فلسطینیوں کے جہاد آزادی کے بارے میں محترم کی کیا رائے ہے؟

آخری بات آپ کی خدمت میںیہ عرض ہے کہ موجودہ حالات میں علماء دیوبند سے آپ کا شکوہ کسی حد تک بجا ہے، لیکن اگر آپ ان کی مجبوریوں پر ایک نگاہ ڈال لیتے تو ان سے اس قدر خفا نہ ہوتے۔ اس وقت ملک میں افراتفری اور نفسانفسی کا عالم ہے۔ حکومتی پروپیگنڈا مشینری رات دن پورے زور وشور سے ان کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہے۔ ان کی حمایت کرنا یا ان کے موقف کو بیان کرنا حکومت سے ٹکر لینے کے مترادف ہے۔ میں خود تو ٹی وی نہیں دیکھتا، مگر سنا ہے کہ جب کسی چینل پر حکومتی مفادات کے خلاف کوئی بات دکھائی جانے لگے تو اسی وقت اس کی اسکرین آف کردی جاتی ہے۔ ضرب مومن پر کئی بار پابندی لگ چکی ہے اوراب ’’اسلام‘‘ حکومتی دباؤ کے نیچے سسک رہا ہے۔ دن رات پھیلائے جانے والے مکروہ پروپیگنڈے کی رو میں بڑے بڑے بہہ رہے ہیں۔ دیوبندی علماء کرام تک جو خبریں پہنچ رہی ہیں، وہ حکومتی ذرائع سے نشرشدہ ہیں جن پر یقین کرناحماقت ہے۔ مجاہدین کاعلماء کرام سے ملنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے کہ وہ انہیں صحیح حالات بتاسکیں اور نہ ہی علماے کرام کے لیے ہرایک پر اعتماد کرناممکن ہے۔ ایک دھند چھائی ہوئی ہے جس میں صحیح حالت کا پتہ لگانا بے حد مشکل ہے۔ اور پھر علماء کرام کواس بات کاخیال کرنا بھی ضروری ہے کہ اگر وہ عمومی فتویٰ جاری کریں توکوئی غلط گروہ اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔ لہٰذا ان حالات میں اگر دیوبندی علماء کرام کسی نتیجے پرنہیں پہنچ پاتے یا اپنے موقف کا برسر عام اظہار نہیں کرسکتے تو انہیں مطعون کرناکوئی شرافت نہیں۔ حافظ صاحب ! اس وقت پاکستانی حکومت مجاہدین کو ملیا میٹ کرنے پر تلی ہوئی ہے اور یوں کہا جائے تو بے جانہ ہو گا کہ اس وقت ان مجاہدین کی چند غلطیوں کی یا چند ایک غلط افراد کی آڑ لے کر ان کے خلاف نفرت پھیلانا اور مضمون با زی کابازار گرم کرنا امریکہ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔

انھی گزارشات پر اکتفا کرتا ہوں۔ گستاخی پر معذرت!

عبد الرحیم خان

زیرگی، ڈومل، بنوں

(۹)

مولانا عمار خان ناصر صاحب زیدت معالیکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے مزاج مع الخیرہوں گے۔

الشریعہ کے نومبر دسمبر کے شمارے میں جہاد کے حوالے سے آپ کا مقالہ نہایت پر مغز اور منطقی استدلال کی قوت سے بہرہ ور ہے۔ اسلوب کی ندرت، استدلال، موضوع کا پہلو دار تجزیہ غالب کے الفاظ میں ’’گنجینہ معنی کا طلسم‘‘ ہوتا ہے اور ذہن میں کسی کہنہ مشق مفکر کا تاثر ابھرتا ہے اور دینی مدارس کی خاموش فضا کے پروردہ دانش ور کا تصور کر کے شعور کے نقار خانے میں گفتہ اقبال کا زمزمہ گونجنے لگتا ہے کہ

ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی

اللہ تعالیٰ آپ کی فکر ارجمند کو امت کے نفع اور آخرت میں اپنی رضا کا ذریعہ بنائے اور ا س نہج پر استوار رکھے جو اس کے ہاں فی الواقع درست ہو، اگرچہ ’متفق گردید راے بو علی با راے من‘ کامصداق نہ بھی ہو۔

سید عبد المتین کشمیری

ایم فل اسکالر، کلیہ اصول الدین

اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد

(۱۰)

محترم عزیزی محمد عمار خان ناصر صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ 

مجھے افسوس ہے کہ میں محترم استاذ گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب کی یاد میں ’’الشریعہ‘‘ کے وقیع خصوصی شمارے کے لیے تحریری شکل میں کوئی حصہ نہیں ڈال سکا۔ دیگر بے شمار لوگوں کی طرح مجھے بھی حضرت مرحوم ومغفور کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل ہے۔ میں نے ۱۴۰۳ھ کے شعبان اور رمضان میں مسجد نور میں انعقاد پذیر ہونے والے دورۂ تفسیر میں شرکت کی تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، اس دورے میں کوئی ساٹھ کے قریب طلبہ شامل تھے اور ان میں سے بعض کا تعلق پاکستان کے دور دراز علاقوں سے تھا۔

استاذ گرامی آیات اور سور کا ربط بڑے اہتمام سے بیان فرماتے تھے اور تشریح طلب نکات کے لیے بیضاوی سے لے کر روح المعانی تک کے حوالہ جات بیان فرماتے تھے۔ اس سے طلبہ بجا طورپر یہ محسوس کرتے کہ گویا کتب تفسیر ان کے سامنے کھول کر رکھ دی گئی ہیں۔ تمام طلبہ آپ کے قوی حافظے اور ضبط علم کے بڑے معترف تھے۔ ضعف وپیری کے باوجود حوالہ جات کے لیے آپ کی یادداشت سب کے لیے قابل رشک تھی۔ استاذ گرامی اشعار کا حوالہ بھی بکثرت دیا کرتے۔ بعض اوقات تاریخ، جغرافیہ اور فلسفے کے حوالے سے کوئی بات ہوتی تو آپ میری طرف خصوصی التفات فرماتے۔ شاید ان کی نگاہ میں، میں ان علوم سے کسی قدر آشنا تھا، حالانکہ مجلس میں بڑے بڑے صاحبان علم بھی موجود ہوتے تھے۔ بہرحال حصول علم کے وہ ایام میری زندگی کے قیمتی ترین ایام تھے۔ اولاً اس لیے کہ دن کا ایک معتد بہ حصہ مسجد میں گزرتا۔ ثانیاً کثیر اہل علم کی صحبت میسر آتی اور ثالثاً فہم قرآن کے لیے استاذ گرامی کے تبحر علمی سے فائدہ ملتا۔ 

استاذ گرامی کے تقویٰ وورع کا تو ایک جہان معترف ہے، آپ کا شمار یقیناًاللہ تعالیٰ کے مقربین میں بھی ہوتا ہے۔ اس کا واضح ثبوت آپ کی نماز جنازہ کے لیے خلق خدا کا کثیر تعداد میں حاضر ہونا تھا۔ میں نے زندگی بھر کسی جنازے پر لوگوں کا اس قدر جم غفیر نہیں دیکھا۔ ہزاروں نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور ہزاروں حاضر ہونے کے باوجود شرکت سے محروم رہ گئے۔ میں بھی ایسے ہی محرومین میں شامل تھا۔ اس کی بڑی وجوہات بندگان خدا کا انبوہ کثیر، نقل وحرکت میں بے پناہ دقت اور جنازہ گاہ میں مزید گنجائش کا فقدان تھیں۔ اللہ تعالیٰ حاضر ہونے والے محرومین کو بھی اجر عطا فرمائے۔ آمین

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ راحتیں ارزاں فرمائے اور تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ 

ڈاکٹر محمد شریف چودھری

کوٹلی رستم، گلی 1، گوجرانوالہ

(۱۱)

محترم المقام جناب حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب

سلام مسنون مع نیاز مقرون

حضرت شیخ ؒ کے نمبر کے مضامین کے ظاہری ومعنوی حسن نے شیخ کے موفق من اللہ ہونے کی مہر ثبت کر دی ہے۔ شیخ کے نمبر نے علم کلام کو جدید انداز میں پیش کر کے ماخذ قدیم، دلائل جدید کی بنیاد فراہم کر دی ہے۔ مبارک ہو۔

نمبر میں مولانا عبد الحق خان بشیر صاحب کے مضمون نے شیخ کے علوم کی جو شرح کی ہے، وہ پوری کتاب کا متن ہے۔ آنے والا مورخ اسی ایک مختصر پر کئی مطول تیار کرے گا۔ مولانا بشیر صاحب کے مضمون سے قلمی نسبت شاید ان کے حصے میں آئی۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ! البتہ مولانا عبد الحق صاحب کے مضمون کے حوالے سے مفتی محمد عیسیٰ صاحب کے ارشاد پر عمل مفید معلوم ہوتا ہے۔

ماہنامہ الشریعہ نومبر/دسمبر میں مولانا یاسین ظفر صاحب نے مولانا مفتی محمد طیب صاحب پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اختلاف امتی رحمۃ‘‘ حدیث نہیں ہے اورمزید فرمایا کہ کسی ضعیف سند کے ساتھ بھی اس کا ذکر نہیں ملتا۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ امام بیہقی کی کتاب ’’المدخل‘‘ میں یہ روایت موجود ہے، امام زرکشی وغیرہ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے اور امام سیوطی کے ہاں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے مولانا ظفر اقبال صاحب کی کتاب ’’موضوع روایات‘‘ (شائع کردہ مکتبہ رحمانیہ) ص ۳۱ ملاحظہ فرمائیں۔

مولانا فضل محمد صاحب کے جواب میں حافظ زبیر صاحب کا مضمون عالمانہ سے زیادہ مجادلانہ ہے۔ تحقیق وانصاف کی عدالت میں دلائل کو دیکھا جاتا ہے، الزامات اہل قلم کے شایان شان نہیں ہوتے۔ 

نصرۃ العلوم، دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں مولانا فیاض خان صاحب کا مضمون ’’جانشین امام اہل السنۃ کے ناقدین کے نام کھلا خط‘‘ بڑا اچھا ہے۔ اگر مولانا ابو الحسن علی ندویؒ زندہ ہوتے تو یقیناًفیاض صاحب کو اس پر انعام دیتے۔

(مولانا قاری) محمد عبد اللہ

سوکڑی کریم جان، بنوں

مکاتیب

(جنوری ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter