رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح

محمد رفیع مفتی

کسی نبی کی سیرت، اس کے افعال و اعمال اور اس کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہوئے اگر اس بنیادی حقیقت ہی کو ملحوظ نہ رکھا جائے کہ وہ خدا کا نبی ہے اور اس کی ذمہ داریاں، عام آدمی کے مقابلے سے کہیں زیادہ ہیں تو وہ حکمت جو اس کے مختلف کاموں میں پائی جاتی ہے، وہ ہر گز سمجھی نہیں جا سکتی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازداجی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے پہلے دو نکاحوں کے علاوہ جتنے نکاح بھی کیے، ان کی وجہ بشری تقاضے نہ تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بشری اور اپنی نبوت و رسالت کی ذمہ داریوں کے حوالے سے چار مختلف حیثیتوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا تھی۔ آپ کی پہلی حیثیت ایک بشر کی تھی، دوسری نبی کی، تیسری خاتم النبیین کی اور چوتھی حیثیت رسول کی تھی۔آپ پر ان سب حیثیتوں کے اعتبار سے ذمہ داریاں ڈالی گئی تھیں۔یہ ذمہ داریاں آپ کی ازدواجی زندگی سے بھی ایک خاص تعلق رکھتی تھیں اور آپ کی ان ذمہ داریوں میں آپ کی ازواج مطہرات کو ایک خاص کردار بھی ادا کرنا تھا۔ اس ساری صورت حال نے آپ کے ہاں ان وجوہ اور ان مقاصد کو جنم دیا جن کی بنا پر آپ نے مختلف نکاح کیے۔

بحیثیت بشر

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بشری ضروریات کے تحت دو نکاح کیے۔ پہلا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اور دوسرا، ان کی وفات کے بعد، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آپ نے پچیس سال کی عمر میں نکاح کیا۔ یہ ایک بیوہ خاتون تھیں اور عمر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی رفاقت کا زمانہ پچیس سال کا ہے۔ ان پچیس برسوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر شباب کا سارا زمانہ گزر گیا، لیکن اس میں آپ کے ہاں کسی دوسری شادی کا کوئی خیال بھی نہیں پایا جاتا۔ آپ نے اسی عرصے میں اعلان نبوت کیا اور مکہ کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ آپ کی بھرپور مخالفت کی گئی۔ ستایا بھی گیا اور لالچ بھی دیا گیا۔ ایک موقع پر آپ کو یہ پیش کش بھی کی گئی کہ اگر آپ اپنی دعوت سے باز آجائیں یا کچھ مصالحانہ رویہ اختیار کرلیں، تو آپ کو عرب کی سب سے حسین خاتون جو آپ کو پسند ہو اس سے بیاہ دیتے ہیں۔ آپ اس طرح کی پیش کشوں سے، ایک بے نیاز آدمی کی طرح گزر جاتے تھے۔ نہ خدا کے انتخاب میں کوئی خامی تھی کہ آپ کے پاے ثبات میں لغزش آتی اور نہ آپ کی ازدواجی زندگی کسی تشنگی کا شکار تھی کہ اس طرح کی پیشکش کوئی اثر دکھاتی۔

پہلی شادی کے پچیس سال بعد، جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ پریشان کن مسئلہ پیدا ہوا کہ آپ کی صاحبزادیاں ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہما تنہا رہ گئیں۔ گھر میں ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی بھی نہ رہا۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سن رسیدہ خاتون سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بھی پچاس سال تھی اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی عمر بھی پچاس سال تھی۔ یہ ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھیں۔ انھوں نے بھی اسلام کے راستے میں دوسرے مسلمانوں کی طرح تکالیف اٹھائی تھیں۔ مکہ کے حالات جب ان پر تنگ ہو گئے تو یہ اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کر گئیں۔ کچھ عرصے بعد ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور یہ بیوہ ہو گئیں، چنانچہ آپ نے ان سے نکاح کر لیا۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کے ساتھ نکاح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر ان کی تالیف قلب بھی تھی۔

بحیثیت نبی

جیسے کہ اوپر بیان ہوا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریوں میں آپ کی ازواج مطہرات کو بھی شریک کیا گیا تھا، تاکہ وہ نبوت کے کام میں آپ کی ممدومعاون بنیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ واقعتہً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و عمل کا ایک بڑا حصہ ان ازواج مطہرات ہی کے ذریعے سے پھیلا ہے۔ یوں آپ کی سب ازواج مطہرات اس ذمہ داری میں شامل تھیں، مگر خاص کار نبوت میں معاونت کے حوالے سے جو خاتون آپ کے نکاح میں آئیں، وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ان کے ساتھ نکاح دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا انتخاب نہ تھا بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے کار نبوت میں اپنے رسول کی معیت و معاونت کے لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو منتخب فرمایا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: مجھے خواب میں تم دو دفعہ دکھائی گئیں اور کہا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں۔ 

چنانچہ، یہ کہنا بالکل درست ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت کے لیے اللہ تعالیٰ کا انتخاب تھیں۔ منصب نبوت میں ایک خاص معاونت کے لیے کون سی خاتون موزوں ہو سکتی ہے، ظاہر ہے کہ اس بات کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کر سکتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی پانے کے بعد، امت کی تعلیم و تربیت کے لیے اتنا زیادہ کام کیا، جتنا آپ کی تمام ازواج نے مل کر بھی نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ’واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من ایت اللہ والحکمۃ‘ کا مجسم نمونہ بنا دیا۔ آپ سے ۲۲۱۰روایات مروی ہیں۔ آپ فقیہ بھی تھیں اور مفسر و مجتہد بھی ۔ اکابر صحابہ آپ سے مسائل پوچھا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما بھی آپ سے مسائل کے بارے میں استفسار کیا کرتے تھے۔

اس کے بعد ہم آپ کے ان نکاحوں کی طرف آتے ہیں، جو آپ نے معاشرتی ضرورت کے تحت کیے۔ آپ چونکہ نبی ہونے کے حوالے سے مسلمانوں کے لیے اسوہ یعنی نمونہ ہیں، لہٰذا ہم نے آپ کے ان نکاحوں کو جو آپ نے معاشرتی ضرورت کے تحت کیے آپ کے حیثیت نبوت میں کیے گئے نکاحوں میں شمار کیا ہے۔ ان نکاحوں کا پس منظر اس طرح سے ہے:

تین ہجری میں مسلمانوں کو جنگ احد لڑنا پڑی۔ اس جنگ میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے اور اپنے پیچھے کئی یتیم بچے اور بیوائیں چھوڑ گئے۔ یہ ان شہدا کے لواحقین تھے، جنھوں نے اپنے خون سے تاریخ اسلام کا ایک اہم باب رقم کیا تھا۔ اسلام نے مسلمانوں میں ایثار و قربانی کا بے پناہ جذبہ پیدا کر دیا تھا۔ ایثار و قربانی کے اسی جذبے کی بنا پر کئی لوگوں نے ان یتیم بچوں اور بیواؤں کو اپنی سرپرستی میں لے لیا اور ان کی کفالت کرنے لگے۔ اس موقع پر سورۂ نسا نازل ہوئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے ان سرپرستوں کو مخاطب کرکے، ان کی ذمہ داریاں بتائیں اور ان کے لیے وہ صورت تجویز کی، جس سے وہ عدل و انصاف کے دائرے میں رہتے ہوئے، یتیموں کی سرپرستی کی اس عظیم ذمہ داری سے، بخوبی عہدہ برآ ہو سکتے تھے۔ فرمایا:

’’اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے، تو ان عورتوں (یتیموں کی ماؤں) میں سے، جو تمھارے لیے جائز ہوں، ان سے دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کر لو۔ اگر ڈر ہو کہ ان کے مابین عدل نہ کر سکو گے ، تو ایک ہی پر بس کرو۔‘‘ (النساء، آیت ۳)

اسلام نے یتیموں اور بیواؤں کو معاشرے کا باقاعدہ حصہ بنا دینے کے لیے ایک بڑا حکیمانہ حل پیش کیا، لیکن کسی بیوہ سے نکاح کرنا اور اس کے یتیم بچوں کی ذمہ داری ، باقاعدہ اپنے سر لے لینا، کوئی آسان کام نہ تھا۔ خصوصاًاس صورت میں ، جبکہ دوسروں کے حقوق ، انصاف کے ساتھ ادا کرنا بھی لازم تھا۔ لہٰذا یہ ضروری ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس معاملے میں اقدام کریں اور آپ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کی اس معاشرتی ذمہ داری میں مسلمانوں کے لیے اسوہ بنیں۔ اور آپ کا یہ نکاح کرنا ان مسلمانوں کے لیے ترغیب کا باعث بنے، جو یتیموں کے معاملے میں بے انصافی کا خوف رکھتے ہیں لیکن کسی سبب سے اس اقدام سے گھبراتے ہیں۔ چنانچہ، اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بیوہ خواتین سے نکاح کیا۔ یہ خواتین حضرت حفصہ، حضرت زینب اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہن ہیں۔ ان سے نکاح کی تفصیل درج ذیل ہے:

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ جنگ احد میں ان کے خاوند شہید ہو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے بارے میں فکر مند ہوئے اور انھوں نے چاہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ یا عثمان رضی اللہ عنہ میں سے کوئی ایک، ان کو اپنے نکاح میں قبول کر لے، لیکن ان دونوں حضرات نے خاموشی اختیار کی۔ حضرت عمر ان کی خاموشی سے رنجیدہ خاطر ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایتاً، حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے رویے کا ذکر کیا۔ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ بتایا کہ میں خود حضرت حفصہ کو اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ظاہر ہے سیدنا عمر اور بنت عمر رضی اللہ عنہما کے لیے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی تھی۔ چنانچہ حضرت حفصہ آپ کے نکاح میں آ گئیں۔

حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے۔ ان کی شادی طفیل بن حارث رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد، کسی وجہ سے انھوں نے طلاق دے دی۔ پھر ان کا نکاح عبداللہ بن جحش سے ہوا۔ کچھ ہی عرصہ بعد جب جنگ احد ہوئی تو یہ اس میں شہید ہو گئے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا ایک بار پھر بیوہ ہو گئیں۔ چنانچہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔ زینب بنت خزیمہ کے آنے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں چار ازواج مطہرات ہو گئیں۔ تعدد ازواج کے بارے میں سورۂ نساء میں جو قانون نازل ہوا تھا اس کے مطابق اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مزید کوئی نکاح نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن چند ماہ کے بعد، جب حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا انتقال کر گئیں،تو آپ کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ آپ کسی اور بیوہ کو سہارا دے سکیں۔

چنانچہ ۴ ہجری میں آپ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے حبالۂ عقد میں لے آئے۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد تھیں اور اسلام لانے والے ابتدائی لوگوں میں سے تھیں۔ مکہ میں جب مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوا تو یہ بھی ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ حبشہ چلی گئیں۔ وہاں کچھ عرصہ رہ کر واپس مکہ آگئیں۔ پھر جب مدینہ کی طرف ہجرت شروع ہوئی، تو یہ اپنے خاوند ابو سلمہ کے ساتھ مدینہ چل پڑیں، لیکن ان کے خاندان نے انھیں ہجرت کرنے سے روک دیا۔ سسرال والوں نے ان کا بیٹا بھی چھین لیا۔ چاروناچار ان کے خاوند کو تنہا ہجرت کرنا پڑی۔ ام سلمہ نے ایک سال تک جدائی کی صعوبتیں برداشت کیں۔ پھر ان کے خاندان والوں نے ان پر رحم کیا اور ہجرت کی اجازت دے دی۔ سسرال والوں نے بھی ان کا بیٹا انھیں واپس کر دیا۔ چنانچہ ایک سال کے بعد ان کا گھرانا مدینہ میں پھر سے یکجا ہو گیا۔ ۳ ہجری میں جنگ احد ہوئی۔ ابو سلمہ اس میں زخمی ہو گئے اور کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد، زخموں کے بگڑ جانے کی وجہ سے، شہید ہو گئے۔ ام سلمہ بیوہ ہو گئیں اور ان کے چار بچے باپ کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اسلام کی خاطر، ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ کے دوران میں جن سخت آزمایشوں سے گزری تھیں اور پھر جن حالات سے دوچار ہوگئی تھیں، ان سب کا خیال کرتے ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا، اور ان کی وہ اولاد، جو ابو سلمہ سے تھی، اب انسانیت کے مربی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ پرورش پانے لگی۔

بحیثیت خاتم النبیین

آخری نبی ہونے کے حوالے سے آپ کی یہ ذمہ داری تھی کہ آپ دین و شریعت کو ہر طرح سے مکمل کر دیں۔ یہ تکمیل آپ کو علم کے اعتبار سے بھی کرنا تھی اور عمل کے اعتبار سے بھی۔ دین کے نام پر جو غلط تصورات عرب معاشرے میں رائج تھے، ان کی اصلاح بھی آپ کے ذمہ تھی اور وہ باطل رسوم و رواج، جو عربوں کے ہاں اخلاقی اقدار بن چکے تھے، ان کا قلع قمع کرنا بھی آپ ہی کا فرض تھا۔ عربوں کے ہاں دین کے نام پر جو غلط رسوم و رواج اور تصورات پائے جاتے تھے، ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ متبنی (منہ بولے بیٹے) کی بیوہ یا مطلقہ سے نکاح حرام سمجھتے تھے۔ کسی چیز کے بارے میں حلال و حرام کا تصور جب ایک دفعہ قائم ہو جائے تو پھر اس کے خلاف سوچنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس باطل تصور کو توڑنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اس نوعیت کا کوئی موقع میسر آئے اور آپ آگے بڑھ کر خود اس رسم کا عملاً قلع قمع کر دیں تاکہ اس باطل تصور کی ہمیشہ کے لیے اصلاح ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ نے اس رسم کو عملاً توڑنے کا موقع آپ کو، آپ کے متبنی حضرت زید رضی اللہ عنہ کی مطلقہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہما سے نکاح کی شکل میں مہیا کر دیا ، اور آپ کو یہ حکم دیا کہ آپ ان سے نکاح کریں۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ نکاح کرنے میں متردد تھے لیکن خدا کے پیش نظر یہ تھا کہ وہ اپنے آخری پیغمبر کے ذریعے سے ہدایت کو اس کی آخری شکل میں مکمل کر دے۔ 

اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حکم ہوا کہ آپ یہ نکاح کریں، تاکہ آپ کے عمل سے عربوں کے ، متبنی کی بیوہ یا مطلقہ سے نکاح حرام سمجھنے کے تصور کا خاتمہ ہو جائے، اور جو دین فطرت آپ لوگوں کو دے رہے ہیں، اس میں کوئی غیر فطری بات شامل نہ ہونے پائے۔

ارشاد باری ہے:

فَلَمَّا قَضَی زَیْْدٌ مِّنْہَا وَطَراً زَوَّجْنَاکَہَا لِکَیْْ لَا یَکُونَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَاءِہِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَراً. (الاحزاب۳۳:۳۷) 
’’پس جب زید نے اس سے اپنا رشتہ کاٹ لیا تو ہم نے اس کو تم سے بیاہ دیا، تاکہ تم مومنوں کے لیے، ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں، جبکہ وہ ان سے اپنا تعلق کاٹ لیں، کوئی تنگی باقی نہ رہے۔‘‘

حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کے حکم سے یہ بات ، ازخود، نکلتی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نکاحوں کی حد عام مسلمانوں کی طرح چار ازواج تک نہیں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ آپ کی مختلف حیثیتوں کے حوالے سے جو ذمہ داریاں آپ پر ڈالی گئی تھیں، جو عظیم کام آپ کو انجام دینے تھے، جس ماحول میں آپ کو اپنا مشن پایۂ تکمیل کو پہنچانا تھا اور جس صورت حال سے آپ کو سابقہ پیش آنے والا تھا، وہ سب اس کے متقاضی تھے کہ آپ کے لیے چند دوسرے معاملات کی طرح، نکاح کے معاملے میں خصوصی قانون نازل ہو، تاکہ آپ اپنا مشن زیادہ خوبی سے انجام دے سکیں۔

چنانچہ جب نکاح کا وہ قانون جو سب مسلمانوں کے لیے نازل ہوا تھا، زینب بنت جحش کے ساتھ نکاح کے موقعے پر آپ کے لیے ناکافی ثابت ہوا تو اللہ تعالیٰ نے چار نکاحوں کی تحدید سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مستثنیٰ کرتے ہوئے آپ کو زینب بنت جحش سے نکاح کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی یہ بتا دیا کہ ہم تمھیں اس نکاح کا حکم اس لیے دے رہے ہیں تاکہ تمھارا یہ نکاح کرنا مسلمانوں کے لیے ایسے نکاح کے جوازکی مثال بنے اور ان کے لیے اس طرح کا نکاح کرنے میں کوئی (طبعی یا معاشرتی) رکاوٹ باقی نہ رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نکاح کی یہ وہ حکمت ہے جو خود پروردگار عالم نے بیان کی ہے۔ اس ایک نکاح کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو براہ راست حکم دیا، لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کے لیے نکاح کا خصوصی قانون بھی نازل کر دیا۔ یہ قانون سورۂ احزاب کی آیات ۵۰ تا ۵۲ میں بیان ہوا ہے۔ اس میں خود اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے وہ دائرہ متعین کر دیا، جس کے اندر آپ نکاح کر سکتے تھے، اور وہ حکمت بھی بیان کر دی، جس کی بنا پر آپ کے لیے یہ خصوصی قانون نازل کیا گیا تھا۔ ارشاد باری ہے:

یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْْتَ أُجُورَہُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّا أَفَاء اللَّہُ عَلَیْْکَ وَبَنَاتِ عَمِّکَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِکَ وَبَنَاتِ خَالِکَ وَبَنَاتِ خَالَاتِکَ اللَّاتِیْ ہَاجَرْنَ مَعَکَ وَامْرَأَۃً مُّؤْمِنَۃً إِن وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِیُّ أَن یَسْتَنکِحَہَا خَالِصَۃً لَّکَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِیْنَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْ أَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ لِکَیْْلَا یَکُونَ عَلَیْْکَ حَرَجٌ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً. تُرْجِیْ مَن تَشَاء مِنْہُنَّ وَتُؤْوِیْ إِلَیْْکَ مَن تَشَاء وَمَنِ ابْتَغَیْْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْْکَ ذَلِکَ أَدْنَی أَن تَقَرَّ أَعْیُنُہُنَّ وَلَا یَحْزَنَّ وَیَرْضَیْْنَ بِمَا آتَیْْتَہُنَّ کُلُّہُنَّ وَاللَّہُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوبِکُمْ وَکَانَ اللَّہُ عَلِیْماً حَلِیْماً. لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْأَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ إِلَّا مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ وَکَانَ اللَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْءٍ رَّقِیْبا. (الاحزاب۳۳:۵۰۔۵۲) 
’’اے نبی، ہم نے تمھاری ان بیویوں کو تمھارے لیے جائز کیا جن کے مہر تم دے چکے ہو اور تمھاری ان مملوکات کو بھی تمھارے لیے حلال کیا جو اللہ نے بطورِ غنیمت عطا فرمائیں اور تمھارے چچا کی بیٹیوں اور تمھاری پھوپھیوں کی بیٹیوں اور تمھارے مامووں کی بیٹیوں اور تمھاری خالاؤں کی بیٹیوں میں سے بھی ان کو حلال ٹھہرایا جنھوں نے تمھارے ساتھ ہجرت کی اور اس مومنہ کو بھی جو اپنے تئیں نبی کو ہبہ کر دے، بشرطیکہ پیغمبر اس کو اپنے نکاح میں لانا چاہیں۔ یہ خاص تمھارے لیے ہے، مسلمانوں سے الگ۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے جو کچھ ہم نے ان پر، ان کی بیویوں پر اور لونڈیوں کے باب میں، فرض کیا ہے، (یہ اجازت تمھیں اس لیے دی گئی ہے )تاکہ تم پر کوئی تنگی نہ رہے اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ تم ان میں سے جن کو چاہو دور رکھو اور اگر تم ان میں سے کسی کے طالب بنو جن کو تم نے دور کیا ہے، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ اس بات کے زیادہ قرین ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں، اور وہ غمگین نہ ہوں، اور اس پر قناعت کریں، جو تم ان سب کو دو اور اللہ جانتا ہے، جو تمھارے دلوں میں ہے اور اللہ تعالیٰ علم رکھنے والا بردبار ہے۔ ان کے علاوہ جو عورتیں ہیں وہ تمھارے لیے جائز نہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کی جگہ دوسری بیویاں کر لو، اگرچہ ان کا حسن تمھارے لیے دل پسند ہو، بجز ان کے جو تمھاری ملکیت ہوں اور اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے۔‘‘

ان تین آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نکاح کا جو قانون بیان کیا گیا ہے اس کے نمایاں پہلو یہ ہیں:

۱۔ آپ کی وہ ازواج ، جن کے مہر آپ ادا کر چکے ہیں، وہ بلااستثنا آپ کے لیے جائز ہیں۔

۲۔ وہ ملک یمین، جو بطور ’فے‘ آپ کو حاصل ہوں، اگر ان میں سے کسی سے آپ نکاح کرنا چاہیں، تو کر سکتے ہیں۔

۳۔ آپ کے لیے قریبی رشتے کی خواتین کے ساتھ، جنھوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ، نکاح کرنا جائز ہے۔

۴۔ اگر کوئی مومنہ، اپنے تئیں آپ کو ہبہ کر دے ، اور آپ اس کو نکاح میں لینا چاہیں، تو آپ کو اس کی اجازت ہے۔

۵۔ نکاح کا یہ قانون صرف آپ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ آپ (اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے) کسی تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔

۶۔ حقوق زوجیت کے معاملے میں آپ کو عام مسلمانوں کی بہ نسبت یہ رعایت ہے کہ آپ پر بیویوں کے درمیان عدل واجب نہیں۔

۷۔ اگر آپ کسی بیوی کو اپنے سے الگ رکھنے (یعنی ازدواجی تعلق سے معزول کرنے) کے بعد دوبارہ اسے اپنے پاس رکھنا چاہیں، توآپ ایسا کر سکتے ہیں۔ اس معاملے میں آپ پر کوئی پابندی نہیں۔

۸۔ آپ ان آیات میں بیان کردہ دائرے سے باہر کوئی نکاح نہیں کر سکتے، البتہ ملک یمین آپ کے لیے جائز ہے۔

۹۔ آپ کے لیے ان ازواج کو دوسری ازواج سے بدلنا جائز نہیں، خواہ وہ آپ کے لیے کتنی ہی دل پسند ہوں۔

ان آیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دائرۂ نکاح کی یہ تحدید جس طرح سے کی گئی ہے، وہ اس بات کی طرف واضح اشارہ کر رہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں نکاح کے عمومی مقاصد، ہرگز پیش نظر نہیں، بلکہ کچھ دوسری مصلحتیں ہیں جن کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تعدد ازواج کا یہ خصوصی قانون نازل کیا گیا ہے۔ ان آیات سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عام مسلمانوں کی طرح یہ جائز نہیں کہ آپ محرمات کے علاوہ جس خاتون سے چاہیں نکاح کرلیں۔ آپ کے لیے حلت نکاح کا عام دائرہ دو شرائط لگا کر انتہائی محدود کر دیا گیا۔ پہلی شرط یہ کہ وہ خاتون آپ کی قریبی رشتہ دار ہو اور دوسری یہ کہ اس نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو۔ لیکن یہ دائرہ، چونکہ ان سب حکمتوں کو سمیٹنے کے لیے کافی نہ تھا جو رسول اللہ کے ان نکاحوں میں پیش نظر تھیں تو آپ کے لیے مال فے سے حاصل ہونے والی لونڈیوں کو آزاد کرکے ان سے نکاح کرنا بھی جائز قرار دیا گیا۔ لہٰذا آپ کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ اگر آپ کسی دینی یا سیاسی مصلحت کے پیش نظر مال فے میں سے حاصل ہونے والی لونڈی کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرنا چاہیں تو کر لیں۔ اور اس عورت سے نکاح کرنا بھی آپ کے لیے جائز قرار دیا گیا، جو اپنے تئیں آپ کو ہبہ کر دے۔ ان آیات میں آپ کو، عام مسلمانوں سے ہٹ کر، حقوق زوجیت کے معاملے میں بہت سہولت دی گئی ہے۔

پھر مزید یہ کہ ’لا یحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بھن من ازواج ولو اعجبک حسنھن‘ کے الفاظ بھی اپنے سیاق و سباق میں اسی پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ کے نکاحوں سے، نکاح کے عام مقاصد پیش نظر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح کر دی کہ اس بیان کردہ دائرے سے باہر جتنی عورتیں بھی ہیں، وہ آپ کے لیے سرے سے حلال ہی نہیں اور نہ ان بیویوں کو کچھ دوسری عورتوں سے بدلنا آپ کے لیے جائز ہے، خواہ وہ عورتیں آپ کو بہت دل پسند ہوں۔ یہ اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس قانون میں جس حکمت کو ، اصلاً ملحوظ رکھا ہے، وہ نہ اس دائرے سے باہر کسی عورت میں پائی جاتی ہے اور نہ ان بیویوں کو دوسری بیویوں سے بدلنے کے بعد باقی رہتی ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے پیش نظر یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے رسولوں کے لیے بہت سی عورتیں اکٹھی کر دے، اور نہ اس نے نکاح کے عمومی مقاصد ہی کی خاطر یہ قانون نازل فرمایا ہے۔

اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح کر دی کہ رسول کا معاملہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ نسوانی حسن سے رغبت کے بجائے نفرت رکھتا ہے۔ وہ نخل فطرت کے بہترین ثمر ہوتا ہے۔ خدا اس کو مرد بناتا ہے تو عورت کی طرف طبعی رغبت بھی اس کی فطرت میں رکھتا ہے۔ البتہ نبی چونکہ روحانی اور اخلاقی بلندیوں پر فائز ہوتا ہے، لہٰذا یہ بات اس کی شان سے بہت فروتر ہے کہ کسی عورت کا فطری اور طبعی طور پر دل پسند ہونا اس کی زندگی میں ایسی اہمیت اختیار کر جائے جس کی بنا پر وہ اپنی ذمہ داریوں ہی سے غافل ہوجائے۔ یہ سب کچھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس ذات علیم و حکیم کی نگاہ میں آپ کے نکاح کے مقاصد، اس کے عمومی مقاصد سے بہت مختلف تھے۔

جہاں تک اس قانون کی حکمت کا تعلق ہے، تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ’لکیلا یکون علیک حرج‘ کے الفاظ سے یہ بتا دیا ہے کہ اس قانون سے اس کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کی تنگی کو دور کرنا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے راستے میں وہ کون سی تنگی محسوس کر رہے تھے جسے دور کرنے کے لیے نکاح ہی کے قانون کو وسعت دینا ضروری تھا؟ اس سوال کا جواب بھی اسی آیت میں موجود ہے۔ اس میں ضمیر خطاب کا مصداق ’النبی‘ کا وہ لفظ ہے، جس سے ان آیات کی ابتدا ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رسول بھی تھے اور نبی بھی۔ ان آیات میں چونکہ آپ کو ان دونوں حیثیتوں سے مخاطب بنانا مقصود تھا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ’النبی‘ کا لفظ، جو آپ کی بنیادی حیثیت کو واضح کرتا تھا، اس سے خطاب فرمایا اور یہ بتایا کہ اے نبی، یہ قانون ہم نے اس لیے نازل کیا ہے،تاکہ تمھیں اپنی (نبوت و رسالت کی) ذمہ داریاں ادا کرنے میں، کوئی دشواری نہ ہو۔ یہ تھی وہ حکمت جس کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ خصوصی قانون نازل کیا گیا۔

اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی کے مطالعے کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ اس قانون کے نازل ہونے کے بعد آپ نے جتنے نکاح بھی کیے، چونکہ وہ زیادہ تر رسالت کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں معاونت کا پہلو رکھتے تھے، لہٰذا ہم نے انھیں ان نکاحوں میں شمار کیا ہے جو آپ نے بحیثیت رسول اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے دعوتی یا سیاسی مصالح کے تحت کیے ہیں۔

بحیثیت رسول

رسول کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ مقدر کر دیا گیا تھا کہ آپ کو جزیرہ نماے عرب میں سیاسی غلبہ حاصل ہو۔ اس غلبے کے حصول کے لیے شرک کے علم برداروں سے جنگ ناگزیر تھی۔ لیکن جنگ، رسول کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا کر دیتی ہے۔ وہ یہ کہ اس سے پیدا ہونے والی نفسیات انسان کے لیے قبول اصلاح کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ناگزیر جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انتقامی نفسیات کو محبت، خیر اور بھلائی کے جذبوں میں بدل دینے کی ہر ممکن کوشش کی اور اس سلسلے میں آپ نے عربوں کی معاشرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ہر وہ اقدام کیا جس سے آپ کو ذرا بھی اصلاح کی توقع ہوئی۔

آپ کی انھی کوششوں میں یہ تدبیر بھی شامل تھی کہ آپ مختلف قبائل میں نکاح کے ساتھ ان کے ساتھ رشتہ داری پیدا کرلیں۔ یہ تدبیر، دراصل، آپ نے عرب کی مخصوص معاشرت کو مدنظر رکھتے ہوئے اختیار کی۔ آپ جس ملک میں غلبۂ دین کی یہ جدوجہد کر رہے تھے، وہاں قبائلی طرز کی معاشرت اپنی خاص روایات کے ساتھ موجود تھی۔ ان روایات میں جہاں بہت کچھ غلط تھا، وہاں بعض ایسے پہلو بھی تھے جو اپنے اندر بہت خیر رکھتے تھے۔ انھی میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ عرب رشتۂ مصاہرت کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان کے ہاں دامادی کا رشتہ مختلف قبائل کے مابین قربت و محبت کا ایک بڑا ذریعہ ہوتا تھا۔ داماد سے جنگ کرنا اور محاذ آرائی کرنا ان کے ہاں بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ان حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ تدبیر ممکن تھی کہ آپ مختلف خاندانوں میں نکاح کرکے عداوتوں کو ختم کر دیں اور ان سے پختہ تعلقات قائم کرلیں۔ ظاہر ہے کہ اس غرض کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نکاح کیے وہ محض سیاسی اور ملی مصالح کے تحت کیے تھے۔ ان سے نکاح کے عام مقاصد آپ کے پیش نظر ہی نہ تھے۔

آپ کی ازدواجی زندگی کے مطالعے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ سیاسی اور ملی مصالح کے پیش نظر آپ نے چار خواتین، حضرت جویریہ، حضرت ام حبیبہ، حضرت صفیہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہن سے نکاح کیا۔ ان خواتین کے ساتھ آپ کے نکاح کرنے کی تفصیل اس طرح سے ہے:

ان میں سے پہلی خاتون حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ہیں، جو ۵ ہجری میں امہات المومنین میں شامل ہوئیں۔ یہ قبیلہ بنو مصطلق کے سردار کی بیٹی تھیں۔ اس قبیلے کا پیشہ راہ زنی تھا۔ انھوں نے وہ حق قبول کرنے سے انکار کر دیا جو خدا کا رسول لایا تھا۔ ۵ ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ قبیلہ بنو مصطلق کے لوگ مسلمانوں سے جنگ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ آپ ان سے مقابلے کے لیے صحابہ کو لے کر نکلے۔ جنگ ہوئی، اللہ اور اس کا رسول غالب رہے۔ بنو مصطلق کی ایک کثیر تعداد گرفتار ہوئی۔ ان اسیران جنگ میں جویریہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ یہ جس صحابی کے حصے میں آئیں، ان سے انھوں نے مکاتبت کر لی، لیکن آزادی کے لیے جورقم چاہیے تھی، وہ نایاب تھی۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اس رقم کے لیے آپ کے در سخاوت پر دستک دی۔ میدان جنگ میں غالب رہنے والا میدان سخاوت میں غالب تر تھا۔ آپ نے نہ صرف زرمکاتبت ادا کر دیا بلکہ انھیں اپنی طرف سے پیغام نکاح بھی دیا۔ جو یریہ رضی اللہ عنہا نے اسے قبول کر لیا اور آزاد ہونے کے بعد آپ کی زوجیت میں آگئیں۔

پیغمبر کی نگاہ بہت دور رس ہوتی ہے۔ جویریہ حریم رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہوئیں۔ مسلمانوں نے بنو مصطلق کے سب قیدی آزاد کر دیے اور یہ کہا کہ یہ اب رسول اللہ کے سسرالی رشتہ دارہیں۔انھیں کوئی قیدی بنائے تو کیسے، یہ لوگ تو قابل احترام ہیں۔ اور پھر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ قبیلہ بنو مصطلق کے سبھی لوگ مسلمان ہو گئے۔ رسول اللہ کی تلوار نے جس سرکش مدمقابل کو مغلوب کر دیا تھا، آپ کے اخلاق نے اسے آپ کا ہم رکاب بنا دیا۔

۶ ہجری میں ام حبیبہ رضی اللہ عنہا آپ کی زوجیت میں آئیں۔ یہ رشتے میں آپ کے چچا کی پوتی تھیں اور اسلام لانے والے ابتدائی لوگوں میں سے تھیں۔ جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی ، تو اس وقت یہ بھی اپنے شوہر کے ہمراہ حبشہ ہجرت کر گئیں۔ وہاں ان کے شوہر نے عیسائیت اختیار کر لی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ میں پڑی ہوئی اس بے سہارا خاتون کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ حبشہ کے حکمران نجاشی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ام حبیبہ سے کر دیا۔ ان کا والد ابو سفیان ایک عرصے سے مسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں اپنی زوجیت میں لے آئے تو عرب معاشرے کی اس اخلاقی خوبی نے اپنا کام دکھایا اور ابو سفیان کی دشمنی کا زور ٹوٹ گیا۔ اب وہ اپنے داماد کے مقابل میں آنے سے گریز کرنے لگا۔ کچھ ہی عرصہ بعد مسلمانوں کا یہ سب سے بڑا مدمقابل حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ جہاں دلیل اور استدلال کارگر نہیں ہوا، وہاں نبی کی وہ سیاسی تدبیر جو ا س نے اخلاقی برتری کے ساتھ اختیار کی ، کامیاب رہی۔

۷ ہجری میں حضرت صفیہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما امہات المومنین میں شامل ہوئیں۔

مسلمانوں کے ساتھ کفار کی جتنی جنگیں بھی ہوئیں، ان سب میں یہود، خفیہ یا علانیہ شامل ہوتے رہے۔ حالانکہ قرآن مجید کے مطابق یہود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے پہچانتے تھے جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے۔ مگر کدورت اور حسد جب حد سے گزر جاتے ہیں تو پھر استدلال بے کار ہو جاتا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷ ہجری میں ، یہود کی شرارتوں کا قلع قمع کرنے کی غرض سے خیبر کا رخ کیا۔ خدا کا رسول ، جس کے لیے غلبہ مقدر تھا، اس نے خیبر فتح کر لیا۔ یہودی مغلوب ہو گئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ تلوار جسم کو مغلوب کرتی ہے، دل کو نہیں۔

حضرت صفیہ خیبر کے اسیران جنگ میں شامل تھیں اور یہود کے ایک بڑے سردار کی بیٹی تھیں۔ جب قیدی تقسیم کیے گئے، تو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آئیں۔ آپ نے اس بات کو خلاف احسان و مروت سمجھا کہ سردار کی بیٹی کو لونڈی بنا کر رکھا جائے۔ چنانچہ آپ نے انھیں آزاد کر دیا اور ان کی مرضی سے ان کے ساتھ نکاح کر لیا۔ آپ چاہتے تو انھیں زندگی بھر لونڈی کی حیثیت سے رکھ سکتے تھے، لیکن آپ نے نہ صرف یہ کہ ایسا نہیں کیا، بلکہ انھیں نہایت عزت کا مقام دیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صفیہ رضی اللہ عنہا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آ گئیں ، تو اس کے بعد یہود، مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہیں ہوئے۔

حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا وہ خاتون ہیں، جنھوں نے اپنے تئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا۔ ان کی پہلی شادی حویطب بن عبدالعزیٰ سے ہوئی تھی۔انھوں نے انھیں طلاق دے دی۔ پھر ان کی شادی ابورہم بن عبدالعزی سے ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہو گیا اور یہ بیوہ ہو گئیں۔ ان کی ایک بہن ام الفضل لبابۃ الکبریٰ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔ حضرت میمونہ اپنی بہن ام الفضل کے پاس آ گئیں اور اپنے آیندہ نکاح کے بارے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اختیار دے دیا کہ جہاں مناسب سمجھیں، ان کا نکاح کر دیں۔ ۷ ہجری میں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے، تو حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے تئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی سفارش کی۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی زوجیت میں قبول کر لیا۔

اس نکاح میں فریضۂ رسالت کے حوالے سے کیا حکمت مضمر تھی؟ اسے جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ۷ ہجری کے اس دور کو ذہن میں لایا جائے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کی پیش کش کو قبول فرمایا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب قریش مکہ کا زور اصلاً ٹوٹ چکا تھا، لوگوں کے اسلام لانے میں اب ایک ہی رکاوٹ باقی رہ گئی تھی اور یہ رکاوٹ وہ بدگمانیاں تھیں جو قریش کے سرداروں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے بارے میں ایک عرصے سے لوگوں میں پھیلا رکھی تھیں۔ اب یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ اہل مکہ اور مسلمانوں کو باہم اختلاط اور میل جول کا کچھ بھی موقع مل گیا تو ان کی وہ بدگمانیاں ختم ہو جائیں گی۔ قریش ہر اعتبار سے اس بات کے خواہاں تھے کہ اہل مکہ اور مسلمانوں کے مابین کوئی ربط و ضبط پیدا نہ ہو۔ انھوں نے صلح حدیبیہ کی شرائط میں خاص طور پر یہ لکھوایا تھا کہ مکہ کا کوئی رہنے والا اگر بھاگ کر مدینہ چلا گیا تو مسلمان اسے لازماً واپس کر دیں گے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہرحال یہ چاہتے تھے کہ اہل مکہ اور مسلمانوں میں ربط و ضبط کی صورت پیدا ہو۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے خاندان والے مکہ کے با اثر لوگوں میں سے تھے۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ آپ کے بھانجے تھے۔ اہل نجد کا سردار زیاد بن مالک الہلالی آپ کا بہنوئی تھا۔ یہ وہ صورت حال تھی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ ازواج مطہرات میں داخل ہوئیں، تو کچھ ہی عرصہ بعد خالد بن ولید بھی اسلام لے آئے اور اہل نجد جنھوں نے ایک زمانے میں اتنا سنگین جرم کیا تھا کہ ستر مسلمان مبلغین کو اپنے علاقے میں دعوت دین کے لیے بلا کر دھوکے سے قتل کر دیا تھا، ان کے لیے اب اپنی دشمنی اور مخالفت پر قائم رہنا مشکل ہو گیا۔ وہ اب رسول اللہ کے قرابت دار تھے۔ پھر زیادہ دیر نہ گزری کہ انھوں نے اپنی وفاداریاں اسلام اور اہل اسلام کے لیے خاص کر دیں۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا آپ کے نکاح میں آنے والی آخری خاتون تھیں۔

سیرت و تاریخ

(جون ۲۰۰۷ء)

تلاش

Flag Counter