عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مجھے ۵ مئی سے ۲۳ مئی ۲۰۰۷ء تک برطانیہ کے مختلف شہروں میں احباب سے ملاقاتوں، دینی اجتماعات میں شرکت اور مختلف اداروں میں حاضری کاموقع ملا اور متعدد نشستوں میں اظہار خیال بھی کیا۔ اس دوران میں اپنی دلچسپی کے خصوصی موضوع ’’مسلمانوں اورمغرب کے درمیان تہذیبی کشمکش‘‘ کے حوالہ سے بھی مطالعہ اورمشاہدات میں پیش رفت ہوئی اوراسی پہلو سے کچھ گزارشات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہ رہاہوں۔

سفر کے آغاز میں ہی ۵؍مئی کو روزنامہ نوائے وقت لاہور میں برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا یہ بیان نظر سے گزرا کہ ’’مغرب کو اسلام سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اپنی اقدارپر ڈٹے رہناچاہیے اوریہ بات ثابت کرنی چاہیے کہ مغرب اپنی اقدار پر یقین رکھتاہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اسلامی دنیا کو دکھانا چاہیے کہ ہم اپنی اقدار ہر ایک پر لاگو کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم مسلمانوں کے اس نظریے پر دفاعی انداز اختیار کرلیتے ہیں جس کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی مغرب کے رویے کا رد عمل ہے۔‘‘ لیکن جب لندن پہنچا تو روزنا مہ جنگ لندن میں ۷؍مئی کو یہ رپورٹ پڑھنے کو ملی جس کے مطابق چرچ آف انگلینڈنے دعویٰ کیاہے کہ مشرق وسطیٰ کے لیے حکومت کی تباہ کن پالیسیوں نے برطانوی مسلمانوں کو انتہا پسند بنا دیا ہے۔ برطانوی اخبار آبزرور کے مطابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی خارجہ پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے والی رپورٹ میں چرچ نے عراق میں کی جانے والی غلطیوں کی مذمت کی اورکہا کہ دنیا بھر میں برطانیہ کا چہرہ مسخ ہو چکا ہے اور یورپ میں وہ تنہا کھڑاہے اوراس کی وجہ امریکہ کے ہر حکم کی بجاآوری ہے۔ رپورٹ میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ قیادت کی تبدیلی سے فکرونظر کی تبدیلی بھی واقع ہوگی۔ آرچ بشپ آف انگلینڈڈاکٹر روون ولیمزنے رپورٹ کی توثیق کی ہے جس میں کہاگیاہے کہ عراق پر ناجائز تسلط اورحکومت کی نامناسب اورناانصافی پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے برطانیہ دہشت گردوں کی بھرتی کا سرگرم حصہ بن گیا ہے۔ 

۱۰؍مئی کو روزنامہ جنگ لندن نے یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے ہاؤس آف کامنز میں لیبر لیڈر کی حیثیت سے آخری بار سوالوں کا جواب دیتے ہوئے عراق جنگ کے ضمن میں غلطیوں پر معافی مانگنے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہر حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف ڈٹ جائے جو عراق کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ رکن پارلیمنٹ پیٹرلف نے ان سے سوال کیاتھا کہ عراق کی جنگ سے پیدا شدہ صورت حال سے نہ صرف آپ (بلیئر) پر بلکہ پورے سیاسی عمل پر بھر وسے کو ٹھیس پہنچ چکی ہے، اس لیے وزیر اعظم کو عراق کے معاملہ میں غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگنا چاہیے اور اقتدار چھوڑنے سے قبل معاملہ کی مکمل انکوائری کرانا چاہیے۔

اسی روزبرطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئرنے اعلان کیا کہ وہ ۲۷؍جون سے وزارت عظمیٰ چھوڑ رہے ہیں اور ان کے بارے میں ۱۰؍مئی کو روزنامہ جنگ لندن میں یہ خبر شائع ہوئی کہ وہ وزارت عظمیٰ سے سبک دوشی کے بعد بین المذاہب مکالمہ کے لیے کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خبر کے مطابق وہ ایک گلوبل فاؤنڈیشن قائم کرناچاہتے ہیں تاکہ تین مذاہب (عیسائیت، یہودیت اور اسلام) کے درمیان زیادہ مفاہمت پیدا کی جاسکے، کیونکہ ان کے نزدیک کوئی ادارہ متحرک طورپر انٹر فیتھ ڈائیلاگ کاکام نہیں کررہا۔ یہ فاؤنڈیشن لندن میں قائم ہوگی اورکلنٹن فاؤنڈیشن کی طرز پر کام کرے گی۔

دوسری طرف برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کے لیڈر اور مستقبل کے متوقع وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا ایک انٹرویو روزنامہ جنگ لندن نے ۱۲؍مئی کو شائع کیاہے جس میں انہوں نے بالسال ہیتھ میں ایک مسلمان فیملی کے ساتھ ۲۴گھنٹے گزارنے کے بعد اپنے تاثرات کا تفصیل کے ساتھ اظہار کیاہے جس کے اہم نکات یہ ہیں:

  • اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح مسلمانوں کو قومی دھارے سے دور کر رہی ہے۔
  • مسلمانوں کی فیملی اقدار بہت مضبوط ہیں۔ اس فیملی کے ساتھ ملنے کے لیے روزانہ توسیع شدہ فیملی کے جتنے لوگ آئے، اتنے رشتہ دار اُن (کیمرون) سے ملنے کے لیے سال بھر میں نہیں آئے۔
  • اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح مسلمانوں کو بہت ناگوار گزرتی ہے اورجب بھی میڈیا یا سیاست دان اس کے بارے میں بات کرتے ہیں، وہ بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔
  • آئر لینڈ میں آئی آر اے دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اگروہاں کیتھولک دہشت گرد یا پروٹسٹنٹ دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کی جاتی تو بہت تباہی ہوتی اوراب ہم جو کررہے ہیں، وہ اسی کے مساوی ہے۔
  • حکومت نے اسلامی دہشت گردوں کی اصطلاح ختم کرنے کا اعلان کیاتھا، لیکن کوئی متبادل اصطلاح سامنے نہیں لائی گئی جسے میڈیا استعمال کرسکے۔
  • مسلمان اس بات پر بھی برہم ہیں کہ دہشت گردوں کے حوالہ سے جس قدر چھاپے مارے گئے، ان میں سے کئی کی اطلاع قبل از وقت میڈیا کو دی گئی۔
  • مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کا یہ خیال ہے کہ ۱۱/۹ اور ۷/۷ کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ ہے۔ اگر پانچ یا دس فیصد مسلمانوں کی بھی یہ سوچ ہے تو یہ ایک مسئلہ ہے جس سے نمٹنا پڑے گا۔
  • * بیرون ملک بالخصوص مصر، شام اور اردن سے آنے والے علما نوجوان نسل کو انتہا پسندی کی ترغیب دے رہے ہیں، لیکن ان سے نمٹنے کے لیے زیادہ کام نہیں ہوا۔
  • ان کے نزدیک معاشرہ میں ادغام ’’ٹو وے سٹریٹ‘‘ ہے۔ ہم اقلیتی طبقہ سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجموعی برطانوی معاشرہ میں مدغم ہونے کے لیے بہت محنت کریں، لیکن ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ایسا اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک انہیں مدغم کرنے کے لیے دل کشی نہیں ہوگی۔ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر معاشرہ کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا اور معاشرہ میں شراب نوشی، منشیات، سماج مخالف رویہ اورغیر مہذبانہ طرز زندگی زیادہ دل کشی کاباعث نہیں بن سکتے۔ اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ 

اس کے ساتھ برطانیہ میں پاکستان کی ہائی کمشنر محترمہ ملیحہ لودھی کے ان ریمارکس پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے جو روزنامہ جنگ لندن ۱۲؍مئی ۲۰۰۷ء کی ایک خبر کے مطابق انہوں نے برٹش مسلم فورم کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے دیے۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں جہاں تک تہذیبوں کے ملاپ کا تعلق ہے تویہ دو طرفہ عمل ہے جبکہ انگریز کمیونٹی اس سلسلہ میں کوئی کردار ادا نہیں کررہی۔ میں نے ایک برطانوی وزیر سے سوال کیا کہ ایک انگریز نے اوسطاً ایک سال میں کتنے مسلمانوں کو اپنے گھر کھانے پر بلایا ہوگا؟ ایک کو بھی نہیں، تو پھر انٹگریشن کیسے ہوگی؟ یک طرفہ سلسلہ کہیں نہیں چل سکتا۔ اگر برطانوی حکومت چاہتی ہے کہ برطانوی مسلمان برطانوی معاشرہ میں اپنی پہچان رکھتے ہوئے اس میں گھل مل جائیں تو اس کے لیے صرف مسلمانوں پر توجہ دینا ہی کافی نہیں ہوگا، اہل برطانیہ کو بھی اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔

یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے برطانیہ میں مسلمانوں کے غیر مسلم اکثریتی آبادی کے ساتھ تعلقات کی نوعیت، مغرب اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کے درمیان کشمکش، برطانوی لیڈروں کے اس حوالہ سے خیالات وتاثرات میں تنوع اور مغربی ممالک بالخصوص برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کے مستقبل کے حوالہ سے امکانات، خدشات اور توقعات کی جو صرف دویا اڑھائی ہفتے کے مطالعہ اورمشاہدہ کے دوران سامنے آئی ہے۔ اسی سے اندازہ کیاجا سکتا ہے کہ اس سلسلہ میں علماے کرام اوراہل دانش کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور ہم کن لائنوں پر چل کر اس صورت حال میں اسلام کی صحیح نمائندگی اور مسلمانوں کی بہتر خدمت کی موثر صورتیں اختیار کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ملّی ذمہ داریاں اوردینی فرائض بہتر طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

حالات و واقعات

(جون ۲۰۰۷ء)

تلاش

Flag Counter