(۱)
گرامی قدر جناب مولانا زاہدالراشدی صاحب زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی!
ماہنامہ الشریعہ باقاعدگی سے اعزازی طور پر موصول ہوتا ہے جس کے لیے سراپاسپاس ہوں۔ گزشتہ چند شماروں میں دور حاضر میں اجتہاد کی ضرورت پر ایک انتہائی وقیع بحث کا آغاز ہوا تھا، لیکن یہ بحث بتد ریج جدلیاتی اور طنزیہ رخ اختیار کرتی ہوئی شخصیات کی آرا کی توضیح وتشریح پر ختم ہو گئی۔ مجھے قوی امید تھی کہ اس علمی موضوع پر گراں قدر، تحقیقی اور فکر ودانش سے بھرپور مقالات آئیں گے جن سے استفادہ کا موقع ملے گا لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘۔
کبھی کبھی مجھے ایسا احساس ہونے لگتا ہے، جو ممکن ہے غلط ہو، کہ ماہنامہ الشریعہ جس قدر اہم، وقیع، علمی اور تحقیقی مجلہ ہے، اس کے معیار، مقام، اثرات، اور محبوبیت کا کار پردازانِ الشریعہ کو کماحقہ علم یا احساس نہیں جس کی وجہ سے اس میں بعض دفعہ متوقع معیار برقرار نہیں رہتا۔ ممکن ہے میری توقعات کی خامی ہو۔
دور حاضر میں اجتہاد کی ضرورت کے عنوان پر میرا خیال تھا کہ :
۱۔ یہ نقطہ نظر اب از کار رفتہ ہو چکا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔غالباً عملی طور پر اسلامی تاریخ میں ایسا کبھی ہوا بھی نہیں بلکہ جس درجے کے اجتہاد کی جس وقت اور جن مسائل میں ضرورت پیش آئی، اسلامی قانون کے ماہرین نے امت مسلمہ کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ حیرت انگیزبات یہ ہے کہ ماضی قریب کے وہ علما جو بہت شدت سے تقلیدکی تلقین کرتے نظر آتے ہیں، اپنی علمی تالیفات میں کسی نہ کسی درجے میں اجتہاد کے ذریعے مسائل کا حل پیش کرتے رہے ہیں۔ غالباً ان اساطین امت کے پیش نظر امت کی بھلائی کا یہ پہلو تھا کہ عام مسلمانوں کے لیے ائمہ فقہ کی متعین کردہ شاہراہ کو اختیار کرنے پر اصرار کیا جائے تا کہ معاشرہ مذہبی بدنظمی کا شکار نہ ہو جائے اور نئے پیش آمدہ مسائل میں امت کی رہنمائی کی جائے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ، مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ اور مفتی محمدشفیع عثمانیؒ کی تالیفات سے اس کی بکثرت مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ارتداد کا دروازہ بند کرنے کے لیے علامہ محمد اقبال ؒ کی کاوش اور اس حوالے سے مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ’’حیلہ ناجزہ‘‘ علمی حلقوں میں معروف ہے۔
۲۔ترجیح اقوال یا مختلف فقہی مذاہب میں سے ’’ایسر المذاہب‘‘ کے اختیار میں عرب علما نے بہت پیش رفت کی ہے بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر ایسے تمام مسائل میں جن میں نصوص سے متعین رہنمائی نہیں ملتی اور ان پر ائمہ مذاہب کی تحقیقات موجود نہیں ہیں، عرب ممالک میں موجود فقہی تحقیقات کے اداروں نے اجتہاد کے عام اصول مثلاً مصلحت عامہ، استحسان، مصالح مرسلہ اورمقاصد شریعہ کے تحت اجتہادات کیے ہیں۔ ان اجتہادات سے دوسرے متوازی اجتہادات کے ذریعے اختلافات بھی کیے گئے ہیں جن کی تفصیل مختلف فقہی مو ضوعات پر تحریر کی گئی عرب علما کی تالیفات میں دست یاب ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا درست نہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند کرنے کے نتیجے میں اسلامی ادبیات فقہ کی لائبریری میں تازہ ہوا کا جھونکا داخل نہیں ہو سکا، البتہ یہ بات درست ہے کہ مذکورہ اجتہادات اصول اور قواعد کے دائر ہ کا ر میں رہتے ہوئے کیے گئے ہیں۔
میرے خیال میں اجتہاد پر بحث کے آغاز میں بحث کی حدود اور دائرہ کا ر متعین کرنا ضروری تھا اور چند بنیادی سوالات طے کر لیے جانے چاہیے تھے، مثلاً:
۱۔ کیا اجتہاد کے ذریعے نص کے حکم شرعی کو منسوخ یا معطل کیا جا سکتا ہے؟
۲۔ اگر نہیں تو کیا غیر منصوص مسائل میں نصوص کی روشنی میں اجتہاد کی راہ تراشی جائے گی یا آزادانہ اجتہاد کا طرز عمل اختیار کیا جائے گا؟
۳۔ اس سلسلے میں حضرت معاذ بن جبلؓ کی مشہور حدیث میں ’ولا آلو جہداً‘ کا کیا مطلب ہے؟ کیا ا س سے قانونی دانش کا آزادانہ استعمال مراد ہے؟
۴۔ قواعد فقہیہ یا اصول کلیہ جو اجتہاد کے طے شدہ سانچے ہیں اور ریاضیاتی کلیات کی طرح ہیں، کیا وہ قواعد واصول غلط ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ متبادل درست کلیات دریافت کیے جائیں گے یا انہیں سانچوں کو برقرار رکھا جائے گا؟
۵۔ اگرچہ دور حاضر میں وسائل اجتہاد کی فراہمی ماضی کی بہ نسبت آسان ہو گئی ہے تاہم کثیر الجہاتی مسائل کے حل میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی شرکت سے شورائی اجتہاد کی راہ اختیار کرنے کا طریق کا رکیا ہوگا؟ جب کہ معاشی مسائل پر کیے گئے اجتہادات کے بارے میں عرب علما کی رائے یہ ہے کہ پاکستان کے بینکر ز اور ماہرین معاشیات نے علما کو نامکمل معلومات فراہم کر کے سودی نظام کو مشرف باسلام کر والیا ہے۔
میری گزارشات کا ماحصل یہ ہے کہ :
۱۔ طے شدہ مسائل اگر کو ئی عملی مشکل پیدا نہیں کر رہے تو ان کی از سرنو سرجری کی ضرورت نہیں ہے۔
۲۔ اجتہادی کا وشوں کو نصوص اور قواعد کلیہ کے دائرہ کا ر میں رکھنا ضروری ہے۔ مکمل آزادانہ اجتہاد کو نہ تو قبولیت حاصل ہو سکتی ہے اور نہ اسے اسلامی قوانین کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
۳۔ شوق اجتہاد میں یہ امر ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ انسان کی علمی محدودیت اس سے کوئی ایسا فیصلہ نہ کر وا دے جو انسانیت کی تباہی پر منتج ہو اور دوسری طرف پہیا دوبارہ ایجاد کرنا ایک بے مصرف عمل ہے۔
۴۔ حقیقی مسائل کے حل کے لیے اجتہادی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے جو سرکاری اثرات سے آزاد، گروہی، فرقی اور مسلکی تعصبات سے ماورا، امت مسلمہ کے علمی اور تحقیقی اثاثے کے قدردان اور عقیدت وتحقیق میں توازن قائم کرنے کے حامل ہوں۔
انڈیا میں مولانا مجاہد الاسلام قاسمی مرحوم کا ادارہ اس سلسلے میں خاصا متحرک رہا اور اس نے عرب اداروں میں ہونے والی تحقیقات سے بھی برصغیر کے اہل علم کو آگاہ کیا۔ کیا پاکستان میں الشریعہ کے مدیر اعلیٰ اور الشریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر اس طرف توجہ فرما کر ممنون فرمائیں گے ؟
(ڈاکٹر) محمد طفیل ہاشمی
مکان نمبر۱۰۴،سٹریٹ ۱۰،
گلشن خداداد، E-11/1، اسلام آباد
(۲)
محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔
مئی کے شمارے میں جناب چوہدری محمد یوسف صاحب کا فکر انگیز مضمون پڑھا۔ چوہدری صاحب نے یقیناًکئی اہم نکات اٹھائے ہیں اور پاکستانی اعلیٰ عدلیہ کے کئی مسلم اور غیر مسلم ججوں کے فیصلوں اور کردار کے متعلق اظہارِ رائے کیا ہے ۔ یہ موضوع اگرچہ حساس اور تفصیل طلب ہے ، تاہم میں مختصراً چند ہی نکات پیش کرنے پر اکتفا کروں گا ۔
۱ ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کئی غیر مسلم ججوں، اور بالخصوص جسٹس کارنیلیس نے قانون کی بالادستی یقینی بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی بحرانوں میں بعض مسلمان ججوں کا کردار قابل تعریف نہیں رہا۔ لیکن اس سے مسئلۂ زیر بحث پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کیا پاکستان میں مسلمان ججوں کا ریکارڈ اچھا رہا ہے یا غیر مسلم ججوں کا؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی قانون کی رو سے غیر مسلم جج، جو نہایت ہی اعلیٰ کردار کا حامل ہو ، عدلیہ کا سربراہ ہو سکتا ہے؟ قانونی فقہی اصطلاح میں، کیا غیر مسلم جج کو مسلمانوں کے مقدمات، بالخصوص قصاص، حدود اور قرآن و سنت کی تعبیر کے معاملات میں ولایت عامہ حاصل ہے؟ پاکستان کا دستور صریح الفاظ میں خواہ اس بات سے نہ روکتا ہو، لیکن آخر دفعہ ۲ (الف) بھی تو دستور کا حصہ ہے جس کے تحت قرار داد مقاصد کو دستور کا عملی حصہ بنادیا گیا ہے، اور قرارداد مقاصد میں طے کیا گیا ہے کہ اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور حکومت کے پاس جو اختیار ہے، وہ ایک مقدس امانت ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چوہدری صاحب نے حاکم خان کیس کے فیصلے کی بنا پر جسٹس نسیم حسن شاہ کو ’’آئینی ارتداد‘‘ کا مرتکب قرار دیا ہے کیونکہ اس فیصلے میں قرداد مقاصد کی بالادستی، یا بہ الفاظ دیگر اسلامی شریعت کی بالادستی تسلیم کرنے سے انکار کیاگیا تھا۔ حاکم خان کیس کا فیصلہ میرے نزدیک بھی ایک نہایت غلط فیصلہ تھا، لیکن اس فیصلے میں کم از کم ایک حقیقت کا تو اعتراف کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ آئین کی دفعہ ۲ (الف) اور دفعہ ۴۵ میں تصادم ہے، البتہ کہا گیا کہ اس تصادم کو پارلیمنٹ ہی دور کرسکتی ہے ۔
۲ ۔ چوہدری صاحب نے، معلوم نہیں کیوں ، ’’فقہ‘‘ کو طنز و تشنیع کا ہدف بنادیا ہے، حالانکہ وہ خود قانون دان ہیں اور ایک قانونی اصول ہی کی بالادستی کے لیے دیگر وکلا کے ساتھ جدوجہد کررہے ہیں۔ اگر وہ خود اپنی ’’فقہِ قانون ‘‘ یا ’’فقہِ دستور‘‘ کے ایک جزئیے کے نفاذ کے لیے جدوجہد کررہے ہیں تو پھر ’’فقہِ شریعت ‘‘ کے ایک اہم جزئیے کے نفاذ کے لیے آواز بلند کرنے پر اعتراض چہ معنی دارد؟
۳ ۔ غیر مسلم ججوں، بالخصوص جسٹس کارنیلیس، نے اسلامی قانون کی تعبیر میں اہم کردار ادا کیا ہوگا، لیکن کیا اسے اصطلاحاً اجتہاد کہا جا سکتا ہے؟ قانونی اصطلاح کا یوں غیر محتاط استعمال ایک قانون دان کو زیب نہیں دیتا ۔
۴۔ چوہدری صاحب نے حسبہ بل کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی ضمناً تنقید کا نشانہ بنایا ہے، حالانکہ میری ناقص رائے میں اس بل کے متعلق سپریم کورٹ کے دونوں فیصلے درست تھے۔ محض اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے کوئی چیز اسلامی نہیں ہو جاتی، نہ ہی کسی قانون کے مطابقِ اسلام ہونے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ اسے مذہبی جماعتوں کے اتحاد نے منظور کروایا ہے۔
تلخ نوائی کے لیے معافی کا خواستگار ہوں ۔
محمد مشتاق احمد
لیکچرر ، شعبۂ قانون ، کلیۂ شریعہ و قانون
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد
(۳)
برادرم محترم حافظ عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہنامہ ’الشریعہ‘ مئی ۲۰۰۷ میں جناب محمد سعد صدیقی صاحب کا مضمون بعنوان ’’سنت کی دستوری وآئینی حیثیت‘‘ پڑھا۔ اس سے متعلق چند باتیں جو دوران مطالعہ ذہن میں آئیں، قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ میں دین سیکھنے کا شوق رکھتاہوں او رقرآن مجید کا ادنیٰ سا طالب علم ہوں، امید ہے آپ راہ نمائی فرماتے رہیں گے۔
محترم ڈاکٹر صاحب نے پورے مضمون یا خطاب میں قرآن مجید سے استشہاد نہیں کیاجو بہت ہی حیرانی کی بات ہے اور سنت کی حیثیت کو متعین کرنے کے لیے علامہ آمدی کی رائے نقل کردی ہے۔میر ی نا چیز رائے میں یہ رائے کمزور ہے۔سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ قرآن اس کی تائید نہیں کرتا۔ دوسرے، خود علما ہی ایسی تعریف کرگئے ہیں جو مطابق قرآن ہے۔اس معاملہ میں اما م اہل سنت عبدالشکو ر لکھنوی کی یازدہ نجوم اور تاریخی مضامین، مولا نا سید سلیما ن ندوی کا مقالہ ’سنت‘ ،حنیف ندوی کی کتاب ’عقلیات ابن تیمیہ‘ تو قابل ذکر ہیں ہی، خود امام شاطبی کی رائے اس قابل ہے کہ نقل کی جائے: ’’سنت اپنے مضمون میں کتا ب کی طرف راجع ہوتی ہے اور وہ قرآن مجید کے اجمال کی تفصیل (اس کی مثال میں نما زپیش کی ہے کہ ’اقیموا الصلوۃ‘ مجمل ہے اور سنت اس کی تفصیل بتاتی ہے)، اس کی مشکل کی وضاحت اور مختصرکی تفصیل ہے۔ یہ اس لیے کہ حدیث قرآن کا بیان ہے او راس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے: ’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم‘ (النحل، ۶۴) لہٰذا سنت میں کوئی ایسی چیز نہیں ملے گی جس کی اجمالی یا تفصیلی دلالت قرآن کریم میں نہ ہو۔ قرآن میں ہے: ’وانک لعلی خلق عظیم‘ او رسید ہ عائشہ ؒ نے اس کی تفسیر یہ فرمائی کہ آپ کا خلق قرآن ہے او ر آپ کے خلق کو اسی پر محدو دکیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا قول، فعل ا ور تقریر سب کچھ قرآ ن کی طرف راجع ہے۔ (الموافقات ۴: ۲۴تا۲۷) آپ بہت ذی علم ہیں۔ یقیناً’’الموافقات ‘‘آپ نے پڑھ رکھی ہوگی۔ یہ ساری بحث پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ عصر حاضر کے نامورعالم دین ڈاکٹرالطاف احمد اعظمی نے اپنی کتا ب ’’خطبات اقبا ل پر ایک تبصرہ‘‘ میں یہی نقطہ نظر پیش کیا ہے۔
محترم ڈاکٹرصاحب نے ایک صحابی یا تابعی کے حوالے سے جو جملہ لکھا ہے، ہم جیسے محبین قرآن مجید کے لیے اسے ہضم کرنا سخت مشکل ہے کہ قرآن کے کسی حکم پر تو ’لم‘ اور ’کیف‘ کا سوال پید ا ہوسکتاہے، مگر سنت پر نہیں ۔اے کاش !ہم قرآن کریم کے مقام سے آگاہ ہوجا ئیں۔ الطارق:۱۳، آل عمر ان:۴، الانعام: ۱۱۴ و۱۵۵، الاعراف:۲، ہود:۱، وغیرہ بے شمار آیات صاف بتا رہی ہیں کہ یہ قول کسی صحابی یا تابعی کا نہیں بلکہ کسی دشمن قرآن نے گھڑ کر مشہور کیاہے۔ جب واضعین حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا کرنے سے نہ چوکے تو صحابہ کو کیسے معاف کر سکتے ہیں۔ یہ قول بھی اسی قبیل سے ہے جس میں حضرت علی پر افتر اکیا گیا ہے کہ ابن عباس کو حکم فرمایا کہ خوارج سے مناظرہ میں قرآن کی بجائے سنت سے استدلا ل کریں کیونکہ قرآن کے کئی پہلو ہوتے ہیں، حالانکہ قرآن میں ہے کہ ’انہ لقول فصل ‘۔
آخر میں عرض ہے کہ الشیخ الاستاذ السید محمد علی کاندھلوی نے اپنی بے نظیر اور منفر د تفسیر ’معالم القرآ ن‘ میں بھر پور طور پر دین کا ماخذ قرآ ن کو اور شارع صرف اللہ تعالیٰ کو بتایاہے۔ میری ناچیز رائے میں حق یہی ہے کہ قرآن سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔
محمد امتیاز عثمانی
امتیا ز پائپ سٹور، I-I 153,154
سردار عالم خان روڈ، راولپنڈی
(۴)
محترم جناب مولانا زاہدالراشدی، حفظہ اللہ ورعاہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔
باعث تحریر آنکہ بندہ کا گزشتہ کئی سالوں سے الشریعہ کے ساتھ ایک قاری کی حیثیت سے تعلق ہے۔ شمارہ اپریل ۲۰۰۷ سے ہمیں اچھی طرح اس کی قیمت ادا کرنی پڑی ہے کہ دو ناقابل تسخیر اور بلند قامت شخصیات کے درمیان کچے کھانے کے لیے پیش کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر ہمارے بہت سے قس بن ساعدہ، زیاد بن ابی سفیان قسم کے خطبا گہری خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جو کہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، حالانکہ اجتہاد وتقلید، طلاق ثلاثہ اور تبلیغی جماعت وغیرہ کے موضوعات پر کوئی بھی اختلافی بیان برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور رگ مذہبیت پھڑک اٹھتی ہے۔ ان عظیم شخصیات میں سے مولانا عتیق الرحمن سنبھلی جیسے عمل کی حد تک حنفی بھی خاموش دکھائی دیتے ہیں جو سلفیت کو سفلیت کانام دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے اور آداب تحریر بھی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ پر حق تولیت کے موضوع پر حصہ لینے میں صرف جناب عطاء اللہ صدیقی، (محدث، نومبر، دسمبر ۲۰۰۳) حافظ محمد زبیر (الشریعہ، فروری ۲۰۰۷ ) اور جناب حسن مدنی ( محدث، مارچ، اپریل ۲۰۰۷) ہی میدان میں کیوں ؟ ہمارے خیال میں ان حضرات گرامی قدر نے عقلی و نقلی، معروضی حقائق، تاریخی واقعات وغیرہ دلائل سے ثابت کیا کہ مسجد اقصیٰ کا تمام احاطہ مسلمانوں کا ہے اور حق تولیت صرف انہیں کا ہے۔ یہود کو اللہ تعالیٰ نے اپنی شرارتوں اور نالائقی کی وجہ سے امامت و سیادت کے منصب سے تحویل قبلہ کے ذریعے معزول کر دیا۔
جناب عمار صاحب نے فرمایا ہے کہ :
۱۔ قرآن و سنت کی رو سے کسی مذہبی گروہ کو اس کے قبلہ اور مرکز عبادت کی تولیت سے محروم کرنے کا معاملہ ایک واضح نص کا متقاضی ہے۔ اس کے بغیر محض عقلی استدلال کی بنیاد پر کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا۔ (الشریعہ، ستمبر اکتوبر ۲۰۰۳)
۲۔ اثریاتی تحقیق کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے کوئی آثار دریافت نہیں ہو سکے۔ خود فلسطین کے مسلم راہ نما، اسرائیل کے وجود میں آنے اور بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے سے قبل تک ان حقائق کو تسلیم کرتے رہے ہیں اور انہیں جھٹلانے کی جسارت کبھی نہیں کی ۔(الشریعہ، مارچ ۲۰۰۷)
۳۔ عالم عرب کا اجماعی موقف، متعدد اکابر علماے دین و مفتیان شرع متین کی تائید و نصرت، مسلم اور عرب میڈیا کا تسلسل کے ساتھ اسے دہرانا کتمان حق اور تکذیب آیات الٰہیہ کے زمرے میں آتا ہے۔ (ایضاً، ص۳۰)
۴۔ اصل مسجد اقصیٰ، ہیکل سلیمانی ہی ہے مگر اس کا محل وقوع معلوم نہیں۔ اس وقت مسلمان جس مسجد کو مسجد اقصیٰ کہتے ہیں، وہ اس جگہ پر ہے جہاں سیدنا عمر نے نماز پڑھی تھی۔ (الشریعہ، مارچ، اپریل ۲۰۰۷) اور موجودہ مسجد اقصیٰ، قرآن مجید کی ذکر کردہ مسجد اقصیٰ کی اصل عمارت کا حصہ نہ ہونے کے باوجود توسیعی طور پر مسجد ہی کے حکم میں ہے۔ اس میں نماز کی وہی فضیلت ہے جو صحیح احادیث سے مسجد اقصیٰ کے حوالے سے ثابت ہے۔ (الشریعہ، اپریل ۲۰۰۷)
۵۔ مخالف کی ساری باتیں اور دلائل اصل ہدف پر صادق نہیں آتے۔
جناب والا! جہاں تک ہم نے دونوں فریقوں کے نقطہ ہائے نظر اور ایک دوسرے کی تردید میں دلائل پڑھے ہیں، ان کی روشنی میں ہمیں پہلے جو کچھ اشکال تھا، وہ بھی ختم ہو گیا اور یقین ہو گیا کہ مسجد اقصیٰ صرف اور صرف مسلمانوں کی ہے ۔ یہود کا اس میں کوئی حق نہیں۔ جمہور مقالہ نگاروں نے قرآن و حدیث اور ان دونوں سے ماخوذ اجتہادات، عقلی دلائل، تمام مسلمانوں کے اتفاق و دیگر حقائق کی روشنی میں اسی چیز کو ثابت کر دیا ہے۔ ان حضرات نے عمار صاحب کے ایک ایک نقطہ نظر اور شبہات کی تردید فرمائی ہے۔ کم از کم ہمارے لیے اس حقیقت کو سمجھنے میں کوئی دقت نہیں کہ محترم عمار صاحب کا موقف غلط ہے اور ان کے دلائل کمزور ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ موصوف کی خوبی ہے کہ وہ کسی بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور کبھی اپنی ہار نہیں مانتے۔ مثلاً دیکھیے کہ آپ اور آپ کے ہم نوا عقل اور فہم کا خوب ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود یہاں بڑے دھڑلے کے ساتھ فرماتے ہیں کہ محض عقلی استدلال کی بنیادپر کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا، حالانکہ عقل و قیاس تو ہمارے دین کے مآخذ اربعہ میں سے ایک ہے۔ البتہ شرط یہ ہے کہ کتاب و سنت سے متصادم نہ ہو۔ ہمیں تو خود عمار صاحب کے بیان کردہ دلائل سے مسلمانوں کے اجماعی موقف کی تائید ملی۔ آپ اندازہ کریں کہ اگر اثریاتی تحقیق کے نتیجہ میں مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے آثار دریافت نہیں ہوئے تو عمار صاحب! آپ ناراض کیوں ہیں؟ یہود کا زور اسی پر ہے کہ اس کے نیچے آثار ثابت کریں اور مسجد کوگرائیں۔ مگر الحمد للہ وہ ناکام ہو چکے۔ یہ ناکامی خود مسلمانوں کی کامیابی ہے۔ یہودیوں کو کوئی شواہد نہ ملنے سے سبحان اللہ مسلمانوں کا کیا قصور ہے؟ فرض کریں اگر یہودیوں کو کوئی آثار ملے تو عمار صاحب آپ کا موقف کیا ہو گا؟ مجھے یقین ہے پھر تو یہودی جشن منائیں گے اور آپ کہیں گے کہ ہیکل کے نشانات مل گئے۔ میرے خیال میں اس امر کو کوئی بھی بندہ سمجھ سکتا ہے۔ آپ جیسے دانشوروں سے حقیقت مخفی نہیں ۔
نہلے پہ دہلا یہ کہ خود فلسطین کے مسلم راہنماؤں نے اسرائیل کے وجود میں آنے اور بیت المقدس پر قبضہ سے قبل تک ان حقائق کو جھٹلانے کی جسارت کبھی نہیں کی۔(الشریعہ، مارچ ۲۰۰۷) سوال یہ ہے کہ یہ تسلیم و اذعان کہاں ہے؟ نیز کوئی فریق یا مالک مکان اس وقت تک مکان کی ملکیت کے دلائل جمع نہیں کرتا جب تک کوئی منکر فریق سامنے نہ آئے۔ کیا آپ اپنے مکان پر کسی کے دعویٰ کرنے سے قبل عدالت میں وکیل کھڑا کرکے اپنی ملکیت کے دلائل و شواہد پیش کرتے ہیں؟ منحوس حکومت اسرائیل کے وجود سے قبل مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ پر اپنا حق تولیت ثابت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ۔ اسی طرح جس طرح اگر آپ آب صافی میں پتھر پھینک کر ابال نہ لاتے تو پیشگی طور پر حسن مدنی وغیرہ کو اتنے دلائل لانے اور تردید کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ویسے انہوں نے یا کسی مقالہ نگار نے مسلمانوں کے حق تولیت میں دلائل دیے تھے تو یہودیوں کے خلاف دیے تھے، مگر ناراضگی آپ نے مول لی ۔ فیاللعجب العجاب۔
آپ جانتے اور تسلیم کرتے ہوں گے کہ لفظ ’مسجد‘ مسلمانوں کے لیے جبکہ بیعۃ، کنیسہ، معبد وغیرہ اصطلاحات یہود و نصاریٰ کے لیے ہیں۔ قرآن بھی ’المسجد الاقصٰی‘ اور حدیث بھی ’المسجد الاقصٰی‘ کہتی ہے۔ ساری امت بھی مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق دار مسلمانوں کو ہی سمجھتی ہے، تو آخر آپ کو اور کیا چاہیے؟ فماذا بعد الحق الا الضلال۔ آپ کو سارا اصرار اجماع و اتفاق کو توڑنے میں ہے اور شاذ و خلاف اجماع معمولی سی باتوں میں بڑا مزہ آتا ہے۔ آپ جیسی فہم و فراست سے اللہ تعالیٰ ہی ہمیں بچائے۔ ہمیں ہماری اپنی حالیہ ناسمجھی پر کفایت ہے۔ ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدیٰ ویتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولیٰ ...
جہاں تک حسن مدنی صاحب کا تعلق ہے کہ انہوں نے لکھا کہ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں بہت سے حصے خالی ہیں، وہاں وہ قبہ بھی ہے جس کی کوئی شرعی فضیلت نہیں۔۔۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہود قبہ صخرہ پر کو ئی تصرف کرنے کی بجائے سارا زور مسجد اقصیٰ پر دے رہے ہیں (محدث، مارچ۲۰۰۷) تو واقعی بظاہر اس عبارت سے تسلیم واذعان کی تصویر دکھائی دیتی ہے، لیکن اس کے بعد مدنی صاحب نے کئی مضامین کے ذریعے اس کی وضاحت کر دی کہ میرا مدعا ہرگز وہ نہیں ہے جو عمار صاحب نے اخذ کیا ہے بلکہ یہ تو یہود کے لیے ایک الزامی اور علیٰ سبیل التنزل للخصم کے طور پر ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخاسرین‘ ۔ اسی طرح ’قل ان کان للرحمن ولد فانا اول العابدین‘ وغیرہ قرآنی ونبوی نصوص ہیں اور روز مرہ کے محاورے ہیں۔ یہ طریقہ غیر معروف نہیں ہے۔ بہرطور ہر صاحب متن اپنی بات کو دوسروں سے بہتر سمجھ سکتا ہے ۔اھل مکۃ ادریٰ بشعابھا یا اھل البیت ادریٰ بما فیہ۔
عمار صاحب بھی احاطہ ہیکل کے اندر کے کسی حصے کو یقینی طور پر اس کی بنیاد معلوم نہ ہونے کے باوجود مسجد اقصیٰ قرار دیتے ہیں، نیز حالیہ مسجد کو توسیعی طور پر مسجد اقصیٰ ہی کی فضیلت دے چکے ہیں تو ہمارے خیال میں آپ بھی امت کے اجماعی موقف میں لاشعوری طور پر شریک ہیں۔ اگر یہ مسجد ہماری نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں کیوں لے گئے؟ کیا یہودیوں کے مخصو ص مرکز عبادت میں مسلمانوں کے لیے نماز پڑھنے کو افضل قرار دینا اس صورت میں کچھ وزن رکھتا ہے کہ یہ مرکز عبادت خود مسلمانوں کی اپنی ملکیت نہ ہو؟ کیا اس بات کو تسلیم کرنے کے بعد یہودی مسلمانوں کو اس میں گھسنے دیں گے؟ اگر یہودی اپنے دعویٰ میں حق بجانب ہیں تو کہیں ہمیں بھی اقامت ہیکل کی فنڈنگ مہم میں تو حصہ نہیں لینا پڑے گا؟
اذا کنت لا تدری فتلک مصیبۃ
وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم
عمار وہم نوا کے اصول ونظریہ کے مطابق آج اگر وشوا ہندوپریشد ودیگر تنظیمیں بابری مسجد ودیگر مساجد کو اس بنیاد پر گرا دیں کہ یہاں ہمارے رام پیدا ہوئے تھے اور بفرض محال کوئی کافر کعبہ مکرمہ پر قبضہ کرنے کے لیے آئے کہ یہاں کسی زمانے میں ابوجہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ کا راج تھا تو شاید مسلمانوں کے مزاحمت کرنے کو عمار صاحب تکذیب آیات اللہ قرار دیں گے۔
چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی
آخرکعبہ بھی تو جناب ابراہیم علیہ السلام نے بنایاہے۔ کیا ان کی اولاد صرف مسلمان ہی ہیں؟ کیا مسلمانوں ہی کے نزدیک وہ محترم شخصیت ہیں یا یہود ونصاریٰ کے ہاں بھی محترم شخصیت ہیں؟ اگر وہ بھی کعبہ پر دعویٰ کریں تو عمار صاحب کیا فرمائیں گے؟ کیا عمار صاحب یہ بتا سکتے ہیں کہ بیک وقت پوری امت گمراہی پر ہو اور صرف ایک شخص غیر نبی حق پر ہو؟ لاتجتمع امتی علی ضلالۃ۔
خطوط و مراسلات سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ جناب حسن مدنی صاحب ودیگر ہم نوا آداب اختلاف کو سمجھتے ہیں اور زبان سے کوئی وقار کے منافی بات نہیں نکالتے، مگر عمار صاحب ودیگر اشراقی اپنے مؤدب ہونے کے دعویٰ کے باوجود اختلافی بات یا رائے سننے پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور اپنے دعوے کو خود توڑ ڈالتے ہیں۔ الشریعہ کے شمارے خصوصاًشمارہ اپریل اس کے گواہ ہیں۔ یہ حضرات اور ان کا نمائندہ لٹریچر صرف اپنے آپ کو مہذب، فاضل، عالم اور مدبر جبکہ پوری امت کو جاہل، نادان اور ناسمجھ قرار دیتے ہیں اور ان پر طرح طرح کی پھبتیاں کستے ہیں۔ روایت پسند، قدامت پسند وغیرہ کے الفاظ زبان زد ہیں۔ احادیث نبویہ کے سرمایہ اور اقوال سلف کو خس وخاشاک کے ڈھیر، اختلاف وافتراق کا شاخسانہ اور من گھڑت قرار دینا کوئی نئی اور غیر معروف بات نہیں رہی۔ اس کی مثالیں ماہنامہ طلوع اسلام، اشراق اور ظفر اقبال خان کے ’اسلامائزیشن‘ میں مل جاتی ہیں۔ ہاں قرآن کریم کی آیات کا سہارا تحریف وتاویل کے بعد بھی نایاب ہو جائے تو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ احادیث کا سہار الیتے ہیں بلکہ فقہا وسلف کے غیر معروف اقوال اور ضعیف احادیث تک اپنے مطلب کے لیے پیش کردیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں راہ ہدایت پر استقامت دے اور امت کے ذہین وفطین حضرات کو شاذ آرا واقوال پر ڈٹ جانے کی بجائے صحیح فہم وفراست سے نوازے۔ انک لاتھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء۔
رحیم اللہ وارثی
غواڑی، بلتستان ،شمالی علاقہ جات
(۵)
محترم حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب مدظلہ العالی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
حضرت والا! راقم الحروف کا آپ کے ساتھ خاندانی تعلق حضرت والد صاحب ؒ اور حضرت امام اہل سنت مدظلہ العالی سے شروع ہوا اور الحمدﷲ آج تک ہے اور امید ہے کہ ان شاء اللہ العزیز میدان حشر میں بھی ہو گا۔ اس کے علاوہ راقم ذاتی طور پر ۱۹۷۲ء سے آپ کے مضامین کا قاری اور ارشادات کا سامع ہے اور آپ ہی کی جہد اور محنت سے ہم لوگ مذہبی، سیاسی اور نظریاتی طور پر راہ سعادت پر گامزن ہیں اور اللہ تعالیٰ سے حسن خاتمہ کی درخواست کرتے ہیں اور قبولیت کی امید بھی رکھتے ہیں ۔
جناب والا! میں اس خط کی وساطت سے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘، جس کا میں روز اول سے قاری ہوں، اس کے متعلق کچھ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ پاک وہند میں الحمد ﷲ بہت سے دینی جرائد طبع ہو رہے ہیں۔ ان کا اپنا ایک حلقہ ہوتا ہے اور وہ اپنے حلقہ متعلقین کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ’’الشریعہ ‘‘کے اجرا کا مقصد بھی یہی ہے اور اس کے قارئین بھی اسی نظریے سے اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔آپ نے اس کو ایک فورم قرار دیا ہے اور آپ اس کے سر ورق پر تحریر فرماتے ہیں کہ مضمون نگار حضرات کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔ا س سلسلے میں میرا سوال یہ ہے کہ جس مضمون سے آپ کا اتفاق نہیں ہے، اس کی اشاعت کی کیا ضرورت ہے اور اپنے حلقہ احباب تک اس کو پہنچانے کا کیا داعیہ ہے؟ ’الشریعہ‘ نام، حضرت والا کی ذات، امام اہل سنت کا خاندان اور پھر ہر رطب ویابس کی اشاعت چہ معنی دارد؟ اگست۲۰۰۶ء سے مئی ۲۰۰۷ء تک کے شماروں کو اجمالی نظر سے دیکھیں تو نقشہ کچھ اس طرح ہے :
ان شماروں میں عالمی تبلیغی جماعت نشانہ بنی رہی اور دور تک بات گئی اور بالآخر متعدد بزرگوں نے ناکردہ گناہوں کی تحریری معافیاں مانگیں اور برادر محترم محمد صفوان صاحب کے مضمون نے ان کی مہم کو ختم کیا۔ پھر انہی شماروں میں سے ایک میں میرے اور آپ کے دادا استاد حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مد نی ؒ نشانہ بنے۔ پھر ان شماروں میں سے ایک میں موجودہ حکومت کو خوش اور مطمئن کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف ایک مضمون شائع کیا گیا۔ ایک ایسا شخص جس نے ساری گزری ہوئی زندگی ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ کے مطالعہ میں گزاری، جب اس نے ترجمان کے ایک مضمون کے جواب میں مضمو ن لکھا تو انہوں نے اس کو شائع نہیں کیا، اس کو بھی ’الشریعہ‘ میں جگہ ملی۔ صورت حال یہاں تک پہنچی کہ ایک قاری نے لکھا کہ ’’الشریعہ ‘‘ایک پلیٹ فارم ہے، مگرفرق یہ ہے کہ پلیٹ فارم پر لکھا ہوتا ہے کہ یہاں تھوکنا منع ہے، مگر اس پلیٹ فارم پر لکھا ہوا ہے کہ یہاں تھوکا جائے۔ بے شمار لوگ جناب کی ذات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایک لکھنے والے کو خوش کرنے کے لیے آپ اس کا لکھا ہوا شائع کر دیتے ہیں مگر یہ احساس نہیں کیا جاتا کہ ہم جیسے کتنے ہی لوگ جو آپ کے خوشہ چین ہیں اور آپ کے ساتھ اور آپ کے خاندان کے ساتھ گہری محبت اور عقیدت رکھتے ہیں، ہمارے جذبات کس قدر مجروح ہوتے ہیں۔ اس لیے اس سلسلے پر نظر ثانی کی جائے۔
مئی ۲۰۰۷ء کے شمارے میں چوہدری محمد یوسف صاحب کا مضمون انتہائی گھٹیا ہے جس میں انہوں نے آپ کو تنقید کا نشانہ اس طرح بنایا ہے کہ گویا ’’الشریعہ‘‘ ان کی ذاتی ملکیت ہے اور آپ ان کے ذاتی ملازم ہیں اور غالباً آپ نے ان کی مرضی کے خلاف لکھ دیا ہے۔ پھر انہوں نے مسلم پر غیر مسلم کو ترجیح دینے کی بھرپور محنت کی ہے۔ اسی مضمون میں انہوں نے فقہ حنفی کے ائمہ مجتہدین حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اور حضرت امام ابو یوسف قاضی ؒ پر بھی تنقید کی ہے۔ حضرت سیدنا عثما نؓ اور سیدنا مروان بن الحکمؓ پر بھی تنقید کے نشتر چلائے ہیں۔ میں تو مختصراً یہ کہتا ہوں کہ چوہدری محمد یوسف صاحب کے نزدیک ایک وہ خود اور انبیا علیہم السلام تنقید سے بالا ہیں، باقی سب نشانے پر ہیں۔ ’’ایک وہ خود‘‘ کا لفظ اس لیے میں نے پہلے لکھا ہے کہ ممکن ہے کہ ان کو کوئی حکم یا کوئی اد ا کسی نبی کی پسند نہ آئے اور ’الشریعہ‘ کا فورم ان کی (چوہدری صاحب کی)یہ خدمت بھی کر گزرے۔
اسی مضمون میں انہوں نے جناب نوید انور نوید مرحوم کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ کاش کہ وہ کسی انصاف کے آئینے میں نوید بھائی کا مقابلہ کر کے دیکھتے۔ جس شخص نے ایک مشکل ترین وقت میں علماے حق کے لیے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا اور آپ جیسے عظیم المرتبت لوگوں نے ان کی قیادت میں گرفتاریاں دیں، حضرت درخواستی ،ؒ حضرت انورؒ ،مفتی عبد الواحدؒ ،حضرت امام اہل سنت مدظلہ العالی، حضرت صوفی صاحب مدظلہ العالی اور پاکستان کے جمیع مشائخ، علما ،طلبا اور دین دار لوگوں کی دعائیں اور توجہات ان کی پشت پر تھیں، اس شخصیت کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ اور آپ سے کیا شکوہ! وہ نوید انور نوید مرحوم جس کی جوان اور نازک پیٹھ پر پولیس کے برسنے والے ڈنڈوں اور قید وبند کی صعوبتوں نے جامع مسجد نور اور مدرسہ نصرۃ العلوم کو حکومتی چنگل میں جانے سے بچایا اور مجھ جیسے کتنے ہی لوگوں نے حضرت امام اہل سنت سے استفادہ کیا اور آج آپ اسی مدرسے کے شیخ الحدیث ہیں اور اسی مسجد نور میں بیٹھ کر بخاری شریف پڑھا رہے ہیں، حضرت! آپ نے تو چوہدری یوسف کی خوشنودی کے لیے نوید بھائی کی روح کو قبر میں تڑپا دیا۔ (ہم تو وہ لوگ ہیں کہ تاریخ نے یہ بھی عجوبہ قلم بند کیا ہوا ہے کہ نوے سالہ قدیم قادیانی مسئلہ حل کرنے والے ذو الفقار علی بھٹو مرحوم جب دنیا سے گئے تو مسلمان بھی اپنے علما کی قیادت میں مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے اور قادیانی بھی۔ ہم اپنے محسنوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔زندہ مثال ڈاکٹر عبد القدیر حفظہ اللہ کی ہے )
انتہائی معذرت کے ساتھ امید ہے کہ آپ اس خط کے مندرجات سے ناراض نہیں ہوں گے اور اپنی توجہات اور دعاؤں سے محروم نہیں فرمائیں گے ۔
حسین احمد قریشی
خطیب مرکزی جامع مسجد، بھوئی گاڑ
تحصیل حسن ابدال، براستہ فاروقیہ، ضلع اٹک