ماہنامہ ’الشریعہ‘ فروری ۲۰۰۷ کے شمارے میں ہمارے شائع ہونے والے مضمون ’’ سید حسین احمد مدنی ؒ اور تجدد پسندی ‘‘ پر قدامت پسند حلقے کی طرف سے شدید منفی ردِ عمل سامنے آیا ہے ۔ مضمون کی ابتدائی سطروں ہی میں ہم نے لکھا تھا کہ’’ اگر مذہبی اصطلاح ’’ اجماع ‘‘ کو مستعار لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اکبر کی ’’ تجدد پسندی‘‘ کے خلاف مسلمانوں کے قدامت پسند حلقے کا اجماع ہو چکا ہے ‘‘۔ہمیں یہ قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ قدامت پسند، علمی اعتبار سے اس حد تک زوال کا شکار ہو چکے ہیں کہ ان کے مفتی صاحبان بھی ’’ مستعار ‘‘ کے معنی جاننے سے قاصر ہیں ۔ مفتی رشید احمد صاحب علوی ’’ حضرت مدنی ؒ اور تجدد پسندی ‘‘ کے زیرِ عنوان رقم طراز ہیں :
’’ اور حقیقت حال تو یہ ہے کہ نہ اکبر کی تجدد پسندی پر کوئی اجماع ہے اور نہ حضرت مدنی نے کسی اجماع کی مخالفت کی۔ یہ صرف کور باطنی کی وجہ سے یا نگاہ حقیقت بین سے محروی کی وجہ سے اور اجماع کے مفہوم سے نا آشنائی کی وجہ سے یا اس بات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے کہ تاریخ میں اجماع نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ ایک فقہی اصطلاح ہے‘‘ (الشریعہ مارچ ۲۰۰۷ ، ص ۳۸)
مفتی رشید صاحب جیسے قدامت پسند یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم نے سید مدنی ؒ کو تجدد پسند وں میں شمار کیا ہے۔ انھیں یہ غلط فہمی ایک تو اجماع و تفر دکی اصطلاحات کے مدرسی معانی میں الجھنے کی وجہ سے ہوئی ہے اور اس پر مستزاد ایسے لوگ بحث کے پس منظر سے پوری طرح واقف نہیں ہیں ۔ الشریعہ دسمبر ۲۰۰۶ کے شمارے میں ’’ قدامت پسندوں کا تصورِ اجتہاد : ایک تنقیدی مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے ہمارا مضمون شائع ہوا تھا ، جس کے جواب میں الشریعہ جنوری ۲۰۰۷ کے شمارے میں ابوعمار زاہدالراشدی صاحب نے ’’ تجدد پسندوں کا تصورِ اجتہاد ‘‘ کے زیرِ عنوان قلم اٹھایا۔ ( خیال رہے کہ ’قلم اٹھانے‘ کا مطلب تحریر کرنا ہوتا ہے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری محسوس ہوئی کہ ’ مستعار ‘ کے معنی سے نا واقف احباب کہیں ’قلم اٹھانے‘ پر بھی اعتراض نہ کر بیٹھیں) اپنے مضمون میں زاہد صاحب نے زیرِ بحث نکات کے بجائے اکبر اور اس کے اقدامات کو تجدد پسندی کا نام دے کر ہدفِ تنقید بنایا ۔ کیونکہ اکبر کے اقدامات پر قدامت پسند حلقے اکثرو بیشتر تنقید کرتے رہتے ہیں اس لیے ہم نے حضرت مدنی ؒ کا وہ مکتوب منظرِ عام پر لانا مناسب سمجھا جس میں تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی ( لہٰذا ، اس کا ہمارے اصل موقف سے، جو بہت واضح انداز میں دسمبر کے شمارے میں موجود ہے، براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا) ۔ اب کوئی بھی غیر جانبدار شخص ( جو لازمی طور پر اکابر پرست نہ ہو ) ، الشریعہ کے دسمبر ۲۰۰۶ ، جنوری، فروری ۲۰۰۷ کے شماروں کا مطالعہ کرکے حقیقت تک پہنچ سکتا ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قدامت پسند ہم سے وہ بات منسوب کر ہے ہیں جس کا ہمارے موقف سے دور کا بھی تعلق نہیں۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
اگر مفتی رشید صاحب، افتا و افترا کی قافیہ پیمائی کے بجائے علمی اسلوب میں قدامت پسندوں کے تصورِ اجتہاد کا دفاع کریں تو ہمیں یقیناًبہت خوشی ہو گی اور بہت سے لوگ جنہیں’’ مسلمان‘‘ ہوتے ہوئے بھی غوروفکر اور تنقید و تحقیق سے خواہ مخواہ کا خاص لگاؤ ہے ، مفتی صاحب کی مساعی جمیلہ کے نتیجے میں ’’ گمراہ ‘‘ ہونے سے بچ جائیں گے ۔
مفتی صاحب نے اپنے جوابی مضمون میں گلوبلائزیشن کی منفیت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے ۔ بات پھر وہی ہے کہ ہم سے وہ بات منسوب کی جارہی ہے جس کا ہمارے موقف سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہم نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ ہم گلوبلائزیشن کی منفیت کے حامی ہیں۔ کیونکہ یہ بحث ایک خاص پس منظر میں ہو رہی تھی اس لیے طوالت کے خوف سے ہمارے لیے ممکن نہیں تھا کہ گلوبلائزیشن کے تمام پہلووں پر سیر حاصل بحث کرتے ۔ گلوبلائزیشن پر ہمارے موقف کی ایک جھلک الشریعہ مارچ ۲۰۰۷ کے شمارے میں ص ۳۳، ۳۴ ، پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔ تفصیل کے لیے ماہنامہ الشریعہ فروری/جولائی ۲۰۰۳ کے شمارے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ مفتی رشید احمد صاحب ’’تبلیغی جماعت ‘‘ پر ہمارے دانت تیز کرنے پر خاصے سیخ پا ہوئے ہیں ، حالانکہ ہم نے دانت ’’ تجدد پسندی ‘‘ پر تیز کیے تھے ۔ملاحظہ کیجیے :
’’ چونکہ قدامت پسندوں کے نزدیک تجدد پسندی کے خاص معنی ہیں ، اس لیے ان کی نظروں میں اکبری اقدامات جیسے مظاہر تو چبھ رہے ہیں ، لیکن اعتقاد ی دھند میں انھیں تجدد پسندی کی وہ لہر دکھائی نہیں دے رہی جو پوری دنیا میں مذہب کا وہ ایڈیشن متعارف کروا رہی ہے جسے کمیونسٹوں نے عوام کے لیے افیون قرار دیا تھا ۔ یہ لہر تبلیغ کے نام پر اٹھ رہی ہے اور فیملی سسٹم کو تباہ و برباد کر رہی ہے ‘‘ ( الشریعہ فروری۲۰۰۷، ص۳۱)
چور کی ڈاڑھی میں تنکا کے مصداق، مفتی صاحب نے اس لہر کو تبلیغی جماعت پر محمول کیا ہے ۔ ہمارے لیے شکر کا مقام ہے کہ مفتی صاحب نے ہم پر تبلیغ کے منکر ہونے کا شوشہ نہیں چھوڑا ۔ موصوف نے غالباً یہ فقرہ بغور پڑھا ہے ’’ یہ لہر تبلیغ کے نام پر اٹھ رہی ہے‘‘۔ بہر حال ، تجدد پسندی کی اس لہر پرہم دوبارہ دانت تیز کرنا چاہیں گے ، کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فطرت ، افراد کی غلطیوں سے اغماض کر لیتی ہے لیکن گروہوں کی غلطیوں کو معاف نہیں کرتی ۔اس لیے جو کام بھی گروہی سطح پر ہو ، اس پر ہر وقت کڑی نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ جہاں تک کسی ’جماعت‘ کے مثبت پہلو اور فائدے کا تعلق ہے تو قرآن کے مطابق فائدہ ’ شراب ‘ میں بھی ہے ۔ مفتی صاحب کی برہمی خود اس امر پر شاہد ہے کہ موصوف تبلیغ کے بجائے تبلیغی جماعت سے خاص قلبی تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ان کا قلبی تعلق افراط و تفریط کا شکار نہ ہوتا ، تو وہ بخوبی جان لیتے کہ ہم نے ’’جماعت‘‘ پر دانت کیوں تیز کیے ہیں اور اس کا حضرت مدنی ؒ کی ’’ تجدد پسندی ‘‘ سے کیا تعلق ہے ؟ ( خیال رہے قدامت پسند ہی حضرت مدنی ؒ کو تجدد پسند قرار دینے پر مصر ہیں ، ہم نے کبھی انھیں تجدد پسند نہیں سمجھا ) ۔
مفتی رشید صاحب علوی نے علویت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشرے کی اکائی ’’افراد‘‘ کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ ہمیں فرد کی اہمیت اور معاشرے میں اس کے مقام سے قطعاً انکار نہیں ہے ۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ ہمارا موضوع فرد نہیں تھا ، ہم ایک خاص پس منظر میں بات کر رہے تھے ۔ اگر فرد کو لے کر بیٹھ جاتے تو بیٹھے ہی رہتے ۔ اگر مفتی صاحب کو اس موضوع سے دلچسپی ہے تو وہ ہمارا مضمون ’’ ارضی نظام کی آسمانی رمز‘‘ ماہنامہ الشریعہ جنوری فروری ۲۰۰۴ میں ملاحظہ کرسکتے ہیں اور چاہیں تو بات بڑھا بھی سکتے ہیں ۔
مفتی رشید احمد صاحب نے اپنے جوابی مضمون کا آغاز دو قومی نظریے جیسی ابحاث اور ان میں موجود تضاد کو نمایاں کرنے سے کیا ہے ۔ ان کے ’’ ذہنِ رسا‘‘ میں یقیناًاقبال ؒ کے وہ اشعار گھوم رہے ہیں جو اقبال ؒ نے ’’ قومیں اوطان سے بنتی ہیں ‘‘ کے جواب میں کہے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ دو قومی نظریے کی بحث کا زیرِ نظر نکات سے کیا تعلق تھا کہ مفتی صاحب کو باقاعدہ زور شور سے نہ صرف اس کا ذکر کرنا پڑا بلکہ مضمون کا آغاز بھی دو قومی نظریے سے کرنا پڑا ؟ کیا وہ اقبال ؒ کے مداحوں کو بحث میں گھسیڑ کر اصل موضوع سے کنی کترانا چاہتے ہیں؟ جہاں تک دو قومی نظریے میں موجود تضاد کا تعلق ہے جس کا ذکر کر کے مفتی صاحب نے ہم سمیت الشریعہ کے تمام قارئین کی معلومات میں ’’ گراں قدر‘‘ اضافہ کیا ہے تو عرض ہے کہ اکثر احباب اس تضاد سے بخوبی واقف ہیں ۔ مفتی صاحب کے نزدیک تو یہ محض ’’تضاد ‘‘ہے جبکہ ہم جیسوں کے نزدیک یہ ایک ’’تاریخی حقیقت‘‘ ہے جو فسانے کا منہ چڑا رہی ہے۔