باسمہ تعالیٰ
اسلام آباد
۱۴؍ اگست ۲۰۰۶
گرامی قدر حضرت مولانا زاہد الراشدی، زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ مزاج گرامی؟
آپ کا موقر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ بلا مبالغہ پاکستان کے فکری افلاس کے تپتے ہوئے صحرا میں زلال صافی ہے جو جرعہ کشان علم وتحقیق کی سیرابی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ اگر کبھی اس میں درد تہ جام کی مقدار زیادہ ہو جائے تو بھی ہم تشنگان محبت اسے اسی ذوق وشوق سے پی جاتے ہیں، تاہم خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے۔
آپ نے الشریعہ کے جولائی ۲۰۰۶ کے شمارے میں نیاز مند کو بھی یاد فرمایا اور اپنے علمی مقام ومنصب، فکری بلند پروازی، بین الاقوامی امتیاز اور استاذ حدیث ہونے کے تقاضوں کے برعکس ’’صحافتی طریقہ واردات‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے اپنی ثقاہت کو لابی کے مفادات پر قربان کر دیا۔ اگر آپ اسی شمارے کے سرورق پر شائع ہونے والے اقتباس یا صفحہ ۲۶ پر موجود ’’صدق جدید‘‘ کے اقتباس کو درخور اعتنا سمجھتے تو یقیناًآپ کا طرز عمل مختلف ہوتا۔ مجھے معلوم ہے کہ انتخابات کی آمد آمد ہے اور لابی سے غیر مشروط وفاداری مجبوری اور ضرورت ہے، لیکن کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے ایک دیرینہ نیازمند کو مصلوب کر کے اپنے قدوقامت میں اضافہ کریں؟ اللہ نے آپ کو پہلے سے دراز قامتی سے نوازا ہوا ہے۔ اگر آپ ایسے مفکر، محقق، محدث اور فقیہ کی طرف سے میری حقیر کاوش پر علمی تنقید ہوتی تو مجھے اپنے نتائج بحث کو ازسرنو جانچنے اور ان میں اصلاح کرنے کا موقع ملتا اور میں اسے انتہائی خوش دلی سے خوش آمدید کہتا، کیونکہ میں جن اسلاف کے دامن سے وابستہ ہوں، انھیں اپنی غلطی تسلیم کرنے اور اپنی تحقیقات سے رجوع کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی۔ میں بلاناغہ مرشد تھانویؒ کی ’’تربیت السالک‘‘ کا مطالعہ کر کے اپنی اصلاح کے لیے کوشاں رہتا ہوں، لیکن آپ نے اپنے علمی خانوادے کی تابندہ روایات کے بجائے زرد صحافت والوں کی راہ کو پذیرائی بخشی، فالی اللہ المشتکیٰ۔
مولانا، کیا یہ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ آپ نے ایک دوست کے ساتھ اپنے مکالمے کی روداد لکھی، ان کی اوٹ پٹانگ گفتگو نقل کی اور ’’کلمہ حق‘‘ کے آخر میں میرا نام لکھ کر یہ تاثر دیا کہ یہ سب کچھ میری ہفوات ہیں، جبکہ اس موضوع پر آپ کی میری کبھی کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ نیز میری تالیف کی ایک ایک سطر گواہ ہے کہ میں نے کہیں بھی کتاب وسنت، اقوال صحابہ، ائمہ مجتہدین، فقہاے امت اور اسلام کی نامور علمی شخصیات کا دامن نہیں چھوڑا۔ میری کتاب تمام تر ’’منقول‘‘ پر مشتمل ہے۔ البتہ فقہی اقوال واختلافات کی خوب صورتی اور افادیت یہی ہے کہ پیش آمدہ حالات کی تاریکی کو سورج کی کسی بھی کرن سے دور کیا جا سکتا ہے۔
بدم گفتی وخور سندم عفاک اللہ نکو گفتی
جواب تلخ مے زیبد لب لعل شکر خا را
تاہم اگر ایسا کسی غلط فہمی کی بنا پر ہوا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ میرا فرض ہے کہ میں حتی المقدور اسے دور کرنے کی کوشش کروں۔ نیز آپ کی تحریر پر اعتماد کر کے کچھ لوگوں نے مجھے دراب پٹیل اور عاصمہ جہانگیر سے بریکٹ کیا ہوگا، میرا یہ حق ہے کہ ان کی غلط فہمی دور کروں، اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ میرے اس مکتوب کو ’’الشریعہ‘‘ میں شائع کر کے ممنون فرمائیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے دینی حلقوں نے فکری، فقہی اور جدید مسائل پر سوچنے کی ذمہ داری دو ایک افراد کے سپرد کر دی ہے اور باقی لاکھوں فضلا اعتماد کی مسرتوں سے سرشار ہو کر دماغی آسودگی کے مزے لوٹتے ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ حدود، اللہ نے مقرر کی ہیں اس لیے حدود آرڈیننس لازماً کتاب وسنت پر مبنی ہے، اسی اعتماد کا شاخسانہ ہے۔ میں نے بھی جب تک خود اس کا مطالعہ نہیں کیا تھا، یہی سمجھتا تھا کہ اہل علم کا تیار کردہ قانون ہے، کتاب وسنت کے مطابق ہی ہوگا۔ مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ پاکستان کا بڑا دینی طبقہ اسی اعتماد کی پر کیف فضا میں محو خرام ہے۔
حدود آرڈیننس پر تنقید کرنے والے افراد دو طرح کے تھے۔ ایک وہ طبقہ جو حدود آرڈیننس کی خرابیوں کو اجاگر کر کے سابقہ قانون فوج داری بحال کروانا چاہتا ہے، تاکہ وہ اس ملک میں یورپ اور امریکہ کی طرح فری سیکس (free sex) کا کلچر پروان چڑھا سکے۔ چونکہ وہ صاف الفاظ میں اپنے اس مقصد کا اظہار نہیں کر سکتا تھا، اس لیے انھوں نے اس کے لیے حدود آرڈیننس کا سہارا لیا اور اسے منسوخ کر کے سابقہ قوانین بحال کرنے کی مہم چلائی۔ یہ مہم بلاشبہ شرف انسانیت، انسان کے فطری شرم وحیا اور عزت وغیرت کے خلاف ایک گھناؤنی سازش ہے لیکن بعض اہل علم نے حدود آرڈیننس کو قرآن وسنت کا قانون قرار دے کر ایسے افراد کو موقع فراہم کیا کہ وہ اس کی آڑ میں اسلامی حدود اور اللہ کے قانون کے خلاف ہرزہ سرائی کریں۔
دوسرا طبقہ ایسے لوگوں کا تھا جو ناجائز طور پر حدود کے مقدمات میں ماخوذ ہوئے یا جو لوگ قانون کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے، وہ اس پر انگشت بدنداں تھے کہ اگر حدود آرڈیننس اللہ کا قانون ہے تو اس کے نفاذ سے عدل قائم کیوں نہیں ہوتا؟ اس میں بے گناہ کو سزا کیوں ہو جاتی ہے اور بڑے بڑے مجرم کیوں چھوٹ جاتے ہیں؟ کیا اللہ کا قانون اپنی تاثیر کھو چکا ہے؟
اس پس منظر میں، میں نے فیصلہ کیا کہ حدود آرڈیننس کا کتاب وسنت کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تاکہ اسلام دشمن، اسلام کو گالی دینے کے لیے حدود آرڈیننس کی آڑ نہ لے سکیں اور اسلامی نظام عدل کے بارے میں شک میں مبتلا ہونے والوں کے ایمان کی حفاظت کی جائے۔ لیھلک من ہلک عن بینۃ ویحییٰ من حی عن بینۃ۔ میں نے اپنے مطالعے کے نتائج بے کم وکاست پیش کر دیے۔ مجھے معلوم تھا کہ اسلام کے نام پر سیاست کا بازار گرم کرنے والی لابی اسے پسندنہیں کرے گی او ر مجھے افسوس ہوا کہ ایک ٹی وی چینل نے اسے ناپسندیدہ طریقے سے اپنی ناشایستہ مہم کا حصہ بنایا لیکن میرے سامنے سیدنا صدیق اکبرؓ کا ارشاد تھا کہ ’’اینقص الدین وانا حی‘‘ لہٰذا میں نے لومۃ لائم کے خوف کے بغیر وہ بات کہہ دی جسے میں حق سمجھتا تھا۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
میرے نتائج یہ تھے کہ حدود آرڈیننس کی ایک سو ایک دفعات میں سے صرف اٹھارہ دفعات کا تعلق حدود سے ہے اور ان اٹھارہ میں سے صرف چار دفعات کتاب وسنت کے مطابق ہیں۔ درحقیقت صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ فلاں فلاں سزائیں کتاب وسنت میں ہیں، اس لیے یہ قانون کتاب وسنت پر مبنی ہے۔ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس قانون کے تحت جس فرد کو آپ سزا دینے جا رہے ہیں، وہ کتاب وسنت کی رو سے اس جرم کا مرتکب بھی ہے یا نہیں؟ حدود آرڈیننس کے تحت شرعی نکاح کرنے والوں پر حد زنا جاری کرنا ٹھیک اسی طرح ہے جیسے اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گردی کا مجرم قرار دے کر سزاے موت دی جائے۔ کیا آپ سزا کے اس جواز سے متفق ہیں؟
مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اپنے ’’کلمہ حق‘‘ میں دلیل سے تہی دامن لوگوں کی دلیل کا سہارا لیا ہے۔ بالعموم جب کوئی فریق دلیل کی بازی ہار جاتا ہے تو وہ اجماع اور تعامل امت کی دہائی دیتا ہے۔ اگر اجماع سے آپ کی مراد امت کا اجماع ہے تو میں نے امت کے اجماع کے خلاف دانستہ ایک لفظ بھی نہیں لکھا اور اگر آپ جنرل ضیاء الحق کے دور میں حدود آرڈیننس مدون کرنے والوں کے اجماع کو اجماع امت قرار دیتے ہیں تو مجھے معاف فرمائیں، میں اس کے ماننے سے ابا کرتا ہوں۔ اگر آپ کو ناگوار نہ گزرے تو میں حدود آرڈیننس کی چند دفعات کے بارے میں مختصراً عرض کروں کہ کیا میں نے اجماع کے خلاف کہا یا آپ کا اجماع کا دعویٰ بے بنیاد ہے؟
۱۔ میں نے لکھا ہے کہ وہ تمام دفعات جن کا تعلق تعزیرات سے ہے، وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ نہیں ہیں بلکہ تمام امت کا اجماع ہے کہ تعزیری سزائیں مفوض الیٰ رای الامام (دور حاضر کے مطابق مقننہ یا عدلیہ کے سپرد) ہیں۔ اس بنا پر میں نے کہا کہ حدود آرڈیننس کی ایک سو ایک میں سے تراسی دفعات کا کتاب وسنت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے، انھیں خدائی قوانین قرار دینا غلط ہے۔ آپ ہی فرمائیں کہ میری رائے اجماع کے مطابق ہے یا حدود آرڈیننس کا preamble جو تعزیرات کو بھی کتاب وسنت کی سزائیں قرار دیتا ہے؟
۲۔ جہاں تک حدود کی دفعات کا تعلق ہے تو حد زنا دفعہ ۴ میں دی گئی زنا کی تعریف پورے فقہی لٹریچر میں آج تک کسی نے نہیں کی۔ یہ تعریف تاریخ میں پہلی بار حدود آرڈیننس میں آئی ہے جس کی بنا پر تقریباً ایک درجن سے زائد ایسے نکاح ہیں جو مختلف فقہی مکاتب فکر کے نزدیک شرعی نکاح ہیں لیکن حدود آرڈیننس کی رو سے زنا ہیں۔ تمام فقہا کا اجماع ہے کہ جو نکاح کسی بھی مکتب فکر کے نزدیک جائز ہو، وہ زنا موجب حد نہیں ہے، جبکہ حدود آرڈیننس کی دفعہ ۴، اس اجماع کے خلاف ہے۔
۳۔ زنا بالجبر کو بالعموم فقہا ’’اکراہ‘‘ کے باب میں زیر بحث لائے ہیں، کتاب الزنا میں نہیں۔ اس لیے اس کا ثبوت اور اس کی سزا اسی حوالے سے متعین ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے عدالتی فیصلے اور متعدد فقہا کی تصریحات اسے زنا بالرضا سے الگ جرم قرار دیتی ہیں۔ اس کا معیار ثبوت اور اس کی سزا مختلف ہے۔ رہی یہ بات کہ اس پر حد جاری ہوگی یا تعزیر، اس کا دار ومدار فقہا کے اس اختلاف پر ہے کہ حرابہ کی سزا حد ہے یا تعزیر؟ تاہم حدود آرڈیننس میں زنا بالجبر کے معیار ثبوت اور اس کی سزا میں ظالم ومظلوم کا عدم امتیاز قرآن، سنت اور اجماع امت کے خلاف ہے۔
۴۔ زنا کے اقرار کے بعد انکار کرنے پر یا گواہوں کی تعداد کم ہونے پر ازسرنو تحقیق کرنا اور تعزیری سزا دینا کتاب اللہ، سنت نبوی اور اجماع امت کے خلاف ہے۔ کیا سنت نبوی، اجماع صحابہ اور تمام فقہا اس امر پر متفق نہیں ہیں کہ جس طرح اقرار معتبر ہے، اسی طرح انکار معتبر ہے؟ کیا قرآن کی نص نہیں کہ چار گواہ نہ ہوں تو تہمت لگانے والوں پر حد قذف جاری کرو؟ آخر وہ کون سا تعامل امت ہے جس کا آپ نے ’’کلمہ حق‘‘ میں حوالہ دیا ہے؟
۵۔ سنگ سار کرنے کی سزا سنت نبوی سے صراحتاً ثابت ہے۔ اس پر جو بحث کی گئی ہے ، وہ بہت مختصر اور اس حوالے سے ہے کہ اس کی اصل قرآن میں موجود ہے۔ مولانا، آپ کو اندازہ نہیں کہ کچھ لوگ اس پر کس قدر سیخ پا ہیں کہ ہم رجم سے جان چھڑانا چاہتے تھے، لیکن ڈاکٹر ہاشمی نے حضرت عمر کے خطبے میں جس آیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کی نشان دہی کر کے ہمارے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ لیکن مولانا، مجھے آپ پر حیرت ہے کہ آپ، جنھوں نے مولانا مفتی محمود کے حوالے سے رجم کا دفاع کرتے ہوئے اپنے ایک اخباری کالم میں لکھا تھا کہ اس میں مجرم کے بھاگ کر جان بچانے کے مواقع ہوتے ہیں، اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا کہ حدود آرڈیننس میں یہ ہے کہ مجرم کو آخر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے۔ کیا یہ دفعہ اجماع امت کے منافی نہیں ہے؟
۶۔ کیا قرآن، سنت اور اجماع امت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اگر تہمت لگانے والے قرآن کا مقرر کردہ ثبوت نہ پیش کر سکیں تو ان پر عدالت حد قذف جاری کر دے؟ جبکہ حدود آرڈیننس کے تحت ایسے ملزم کے خلاف ازسرنو تحقیق کر کے اسے تعزیری سزا دی جائے گی اور اگر وہ کئی سال جیل میں رہنے کے بعد عدالت سے ’’باعزت‘‘ بری ہو جاتا ہے اور تہمت لگانے والوں کو سزا دلوانا چاہتا ہے تو ازسرنو عدالت میں کیس لے جائے۔ حدود آرڈیننس کی یہ دفعہ کون سے اجماعی تعامل اور کس فقیہ کی تعبیر وتشریح کے مطابق ہے؟
۷۔ راقم کی معروضات میں سے زیادہ سے زیادہ جن امور سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، وہ چند اصولی مباحث ہیں جو کتاب کے باب اول میں ہیں۔ ان میں، میرے تمام مباحث کا دار ومدار ’’منقول‘‘ پر ہے۔ ان مباحث میں، میں نے ائمہ مجتہدین، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ، مولانا انور شاہ کاشمیری اور حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن کی آرا کو ترجیح دی ہے۔
شنیدم ہر چہ از پاکان امت
ترا با شوخی رندانہ گفتم
اگر ان اساطین امت کی آرا اجماع کے خلاف تھیں تو میرے لیے ایسے کسی ’’اجماع‘‘ کو ماننا ممکن نہیں جس میں ایک شخص رائے دے، دو خاموش رہیں اور پھر وہ رائے ساری امت کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دلیل قطعی قرار پائے۔ میں اپنی آخرت کو ان ’’مخالفین اجماع‘‘ سے وابستہ کرنا اپنے لیے باعث سعادت اور موجب مغفرت سمجھتا ہوں۔ آپ بھی اگر لابی کا چشمہ اتار کر علم وتحقیق کی جو نعمت وافر مقدار میں اللہ نے آپ کو دی ہے، اس کی نظر سے دیکھیں توآپ کو طفیل ہاشمی، دراب پٹیل اور عاصمہ جہانگیر کے ساتھ نہیں، بلکہ امام الہند شاہ ولی اللہ اور خاتم المحدثین انور شاہ کاشمیری کے پیچھے مودب کھڑا نظر آئے گا۔
ہم جور پرستوں پہ گماں ترک وفا کا
یہ وہم کہیں تجھ کو گنہ گار نہ کر دے
تاہم اگر وہ سب کچھ جو باب اول میں لکھا گیا ہے، سراسر غلط بھی ہو، تب بھی حدود آرڈیننس کی دفعات پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا، ان کا بڑا حصہ بہرحال قرآن، سنت اور اجماع امت کے خلاف ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے لیکچر کے بعد، جسے اسلام آباد سے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے شائع کیا ہے اور جس میں مولانا نے حدود آرڈیننس کی کئی خرابیوں کی نشان دہی اور اصلاحات تجویز کرنے کے بعد کہا ہے کہ تعزیرات حدود کا حصہ نہیں ہیں او ریہ اللہ کا قانون نہیں بلکہ مقننہ اور عدلیہ کا بنایا ہوا قانون ہے، نیز ایسا کوئی زنا نہیں ہوتا جو موجب تعزیر ہو، آپ کی لابی کی رائے بھی تبدیل ہو جانا چاہیے، کیونکہ اب تو
لو، وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ ونام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
مولانا، میری معروضات میں اگر کوئی بات آپ کو ناگوار گزری ہو تو معاف فرما دیں۔ آپ صاحب علم ہیں اور میں ہمیشہ سے آپ کا نیاز مند ہوں۔ آپ میری غلطیوں کی اصلاح کیا کریں۔ دھکا دے کر نکال دینا اور کسی دوسری لابی کی طرف منسوب کر دینا اس ذات ستودہ صفات صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں جس کی نظر کرم کے بغیر کہیں آسودگی ہے نہ جائے پناہ۔ دعاؤں میں یاد رکھیں۔
نیاز کیش
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی
مکان ۱۰۴، گلی ۱۰، گلشن خداداد
E-11/1، (گولڑہ شریف) اسلام آباد