غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ

حافظ محمد زبیر

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر دور اور ہر قوم میں اپنے انبیا و رسل بھیجے اور ان کی رہنمائی کے لیے وحی کا سلسلہ جاری فرمایا ۔اس وحی کے نزول کے دو طریقے ہیں : 

۱) بعض اوقات یہ وحی لفظاً ہوتی ہے یعنی اس میں الفاظ بھی اللہ کے ہوتے ہیں اور معنی بھی اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ ’وحی لفظاً‘ تحریری صورت میں ہی انبیا پر نازل ہوتی تھی یا بعد میں اسے تحریر کی شکل دے دی جاتی تھی۔ وحی لفظاً کی مثالیں صحف ابراہیم ،تورات ،انجیل ،زبور اور قرآن وغیرہ ہیں۔

۲) اکثر اوقات یہ وحی معناً نازل ہوتی یعنی اس میں الفاظ اللہ کے نہیں ہوتے تھے، لیکن پیغام اللہ ہی کی طرف سے ہوتا تھا۔ مثلاً حضرت جبرائیل کا آپ کو نمازوں کے اوقات، اسلام ،ایمان ،احسان اور قیامت کی علامات کے بارے میں تعلیم دینا، حضرت ابراہیم کو خواب میں بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دینا،اللہ تعالیٰ کا کسی نبی کے دل میں کوئی بات ڈال دیناوغیرہ 

وحی کی پہلی قسم کو وحی متلو کہتے ہیں یعنی یہ وہ وحی ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے جبکہ وحی کی دوسری قسم کو وحی غیر متلو کہتے ہیں۔ بعض اوقات علما وحی متلو کو ’وحی جلی‘ اور وحی غیر متلو کو ’وحی خفی‘ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ وحی متلو ’قرآن‘ ہے جبکہ ’سنت وحی غیر متلو ہے۔ صحابہ کرام نے وحی کی ان دونوں قسموں کو محفوظ کیا اور امت تک پہنچایا۔قرآن کی روایت کو ’قراآت‘ اور سنت کی روایت کو ’حدیث‘ کہتے ہیں ۔یعنی سنت (وحی خفی) کو جب کو ئی صحابی اللہ کے رسول سے اخذ کر کے آگے نقل کرتا ہے تو صحابی کے اس نقل کرنے کو ’حدیث‘ کہتے ہیں۔سنت اگر وحی خفی ہے تو حدیث اس وحی کی روایت ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سنت اور حدیث میں کچھ فرق نہیں ہے۔ حدیث میں اللہ کے رسول پر اتاری جانے والی وحی کے حوالے سے جو کچھ بیان ہو رہا ہے، وہ سنت ہے ،یہی وجہ ہے کہ حدیث کی امہات الکتب میں سے اکثر کے نام سنن سے شروع ہوتے ہیں، مثلاً سنن ابی داؤد ،سنن نسائی ،سنن ابن ماجہ وغیرہ ۔

غامدی صاحب کے نزدیک سنت کی تعریف

غامدی صاحب اپنی کتاب اصول و مبادی میں سنت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی ﷺ نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ۔قرآن میں اس کا حکم آپ کے لیے اس طرح بیان ہوا ہے :
ثُمَّ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (النحل۱۶:۱۲۳)
’’پھر ہم نے تمھیں وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اورمشرکوں میں سے نہیں تھا ۔‘‘
اس ذریعے سے جو دین ہمیں ملا ہے ،وہ یہ ہے :
۱۔اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا۔ ۲۔ملاقات کے موقع پر’ السلام علیکم‘ اور اس کا جواب۔ ۳۔چھینک آنے پر ’الحمد للہ ‘ اور اس کے جواب میں ’یرحمک اللہ‘۔ ۴۔نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت۔ ۵۔مونچھیں پست رکھنا۔ ۶۔ زیر ناف کے بال مونڈنا۔ ۷۔بغل کے بال صاف کرنا۔ ۸۔ لڑکوں کا ختنہ کرنا۔ ۹۔بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔ ۱۰۔ناک ،منہ اور دانتوں کی صفائی۔ ۱۱۔استنجا۔ ۱۲۔حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب۔ ۱۳۔حیض و نفاس کے بعد غسل۔ ۱۴۔غسل جنابت۔ ۱۵۔میت کا غسل۔ ۱۶۔تجہیز و تکفین۔ ۱۷۔تدفین۔ ۱۸۔عید الفطر۔ ۱۹۔عید الاضحی۔ ۲۰۔اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ۔ ۲۱۔نکاح و طلاق اور ان کے متعلقات۔ ۲۲۔زکوٰۃ اور اس کے متعلقات۔ ۲۳۔نماز اور اس کے متعلقات۔ ۲۴۔روزہ اور صدقہ فطر۔ ۲۵۔اعتکاف۔ ۲۶۔قربانی۔ ۲۷۔حج وعمرہ اور ان کے متعلقات۔
سنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے،یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآ ن ہی کی طرح ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے، لہٰذا اس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ دین لاریب، انھی دو صورتوں میں ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے اور نہ اسے دین قرار دیا جا سکتا ہے ۔‘‘ (میزان:ص۱۰)

ہمار ے نزدیک غامدی صاحب کا یہ تصور سنت بھی غلط ہے اور اس کے اطلاق میں بھی ان سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ ہم نے اپنی بحث کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں ہم ان کے تصور سنت کی غلطیوں کو واضح کریں گے۔ دوسرے حصے میں ہم سنت کے ذریعہ روایت یعنی ’تواتر عملی ‘ پر بحث کریں گے۔تیسرے حصے میں ہم ان کے اس اصول کی اطلاقی غلطیوں کی نشاندہی کریں گے کہ کہاں کہاں انھوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے اصول کی مخالفت کی ہے ۔ 

غامدی صاحب کا یہ تصور سنت بوجوہ غلط ہے۔ ہم اس تصور سنت کی غلطی پر دو اعتبارات سے بحث کریں گے۔ پہلی بحث میں ہم عقلی، منطقی اور شرعی دلائل کی روشنی میں غامدی صاحب کے تصور سنت کا جائزہ لیں گے۔دوسری بحث میں ہم غامدی صاحب کی کتاب ’’اصول ومبادی‘‘ میں بیان کردہ ان کے اصولوں کی روشنی میں ان کے تصور سنت کا جائزہ لیں گے اور اس بات کو واضح کریں گے کہ ان کی کتاب ’’اصول و مبادی‘‘ درحقیقت تناقضات کا پلندہ ہے جس میں بیان کردہ اصولوں میں سے ہر ایک اصول ان کے کسی دوسرے اصول کا رد کر رہا ہوتا ہے ۔ 

تمام اہل سنت کے نزدیک ’سنت‘ کی تعریف میں اللہ کے رسول ﷺ کے اعمال کے ساتھ ساتھ آپ کے اقوال اور تقریرات بھی شامل ہیں، اسی لیے اصول فقہ کی کتب میں جب علمائے اہل سنت، سنت پر بطور مصدر شریعت بحث کرتے ہیں تو سب اسی بات کا اثبات کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول وﷺکے اعمال کے علاوہ آپ کے اقوال اور تقریرات بھی مصدر شریعت ہونے کی حیثیت سے سنت کی تعریف میں شامل ہیں۔ جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ کے جمیع اقوال اور تقریرات سنت نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک سنت وہ ہے جس کا تعلق عمل سے ہو۔ غامدی صاحب اصول و مبادی میں لکھتے ہیں :

’’دوسرا اصول یہ ہے کہ سنت کا تعلق تمام تر عملی زندگی سے ہے ،یعنی وہ چیزیں جو کرنے کی ہیں ‘‘۔  (میزان: ص۶۵)

جس طرح غامدی صاحب اللہ کے رسو لﷺ کے اقوال اور تقریرات کو سنت نہیں مانتے، اسی طرح وہ اللہ کے رسولﷺکے جمیع اعمال کو بھی سنت نہیں مانتے۔ وہ صرف انہی اعمال کو سنت مانتے ہیں جو عملی تواتر سے امت میں چلے رہے ہوں اور ان کے بارے میں امت میں کوئی اختلاف نہ ہو۔ اگر اللہ کے رسول ﷺ کا کوئی عمل حدیث سے ثابت ہو مگر تواتر عملی سے ثابت نہ ہو تو وہ عمل بھی ان کے نزدیک سنت نہیں ہے۔ مثلاً رفع الیدین کو وہ اس لیے سنت ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ یہ حدیث سے ثابت ہے، لیکن پوری امت کا اس پر عمل نہیں ہے ۔ رفع الیدین سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے غامدی صاحب فرماتے ہیں :

’’میرے نزدیک صرف وہی چیز سنت کی حیثیت رکھتی ہیں جو صحابہ کرام کے اجماع سے ہم تک منتقل ہوئی ہو۔ ہم انھی چیزوں پر اصرار کرسکتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی پر لوگوں کو توجہ بھی دلا سکتے ہیں۔جن امور میں صحابہ کرام کا اجماع نہیں ہے، انھیں نہ سنت کی حیثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ ان پر عمل کے لیے اصرار کیا جا سکتا ہے۔ میری تحقیق کے مطابق رفع یدین بھی ان چیزوں میں شامل ہے جن پر صحابہ کرام کا اجماع نہ ہو سکا، اس وجہ میں اسے سنت نہیں سمجھتا۔ اس کے بعد چاہے ساری دنیا متفق ہو کر اسے سنت قرار دینے لگے تو میرے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں۔‘‘ (ماہنامہ اشراق : جون ۲۰۰۲،ص۲۹)

غامدی صاحب کے اس تصور سنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ احادیث میں بیان شدہ اللہ کے رسول ﷺ کی ہزاروں سنن ستائیس اعمال پر مشتمل اس فہرست تک محدود ہو کر رہ گئیں جس کو غامدی صاحب کے حوالے سے ہم اوپربیان کر چکے ہیں ۔

غامدی صاحب نے سنت کی تعریف میں یہ لکھا ہے کہ سنت صحابہ کے اجماع سے ثابت ہوتی ہے اور ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پاتی ہے ۔

ہم غامدی صاحب سے یہ کہتے ہیں کہ سنت کے ثبوت کی بحث تو بعد میں کریں گے، پہلے خود ’سنت کی تعریف‘ تو صحابہ اور امت کے اجماع سے ثابت کر دیں۔ غامدی صاحب کا دعویٰ ہے کہ کسی چیز کے سنت بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحابہ اور امت کے اجماع سے ثابت ہو۔ہم کہتے ہیں کہ اپنے اسی اصول پر غامدی صاحب اپنی بیان کردہ سنت کی تعریف کو پرکھ لیں، خود غامدی صاحب کی اس بات سے ہی ان کے تصور سنت کا رد ہو رہا ہے۔کیونکہ جب کسی چیز کے سنت بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحابہ اور امت کے اجماع سے ثابت ہو تو سنت کی تعریف کے لیے توبدرجہ اولیٰ یہ بات ضروری ہونی چاہیے کہ وہ بھی صحابہ اور امت کے اجماع سے ثابت ہو، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غامدی صاحب کی بیان کردہ یہ تعریف سنت، نہ توصحابہ کے اجماع سے ثابت ہے اور نہ امت کے اجماع سے ، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ان کی یہ تعریف، صحابہ کی سنت کی اجماعی تعریف کے خلاف ہے۔ جب تعریف سنت ہی اس معیار پر پوری نہیں اتر رہی جو کہ سنت کے ثبوت کے لیے غامدی صاحب نے مقرر کیا ہے تو اگلی بحث کرنا ہی فضول ہے۔ 

الفاظ و معانی کا رشتہ لازم و ملزوم کا ہے۔ہر زبان میں یہ طریقہ کار ہے کہ اہل زبان اپنے احساسات، جذبات، معانی، مفاہیم اور افکار کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے کچھ الفاظ مقرر کرتے ہیں۔ اس کو اہل علم یوں تعبیر کرتے ہیں کہ فلاں لفظ کو اہل زبان نے فلاں معنی کے لیے وضع کیا ہے۔ جب اہل زبان ایک لفظ ایک خاص معنی یا تصور کی ادائیگی کے لیے متعین کر لیتے ہیں تو لفظ کے اس معنی کو لغوی مفہوم کہتے ہیں۔مثلاً عربی زبان میں لفظ ’أب‘ ایک خاص معنی یعنی ’باپ ‘کی ادائیگی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔لیکن آج کل کے زمانے میں کوئی عرب شاعر یا ادیب یہ بات کہے کہ میں جب ’أب ‘ کا لفظ اپنی نثر یا نظم میں استعمال کروں گا تو اس کا معنی میرے نزدیک ’بیٹا‘ہو گا تو یہ جائز نہیں ہے۔ تمام اہل زبان اس کی مخالفت کریں گے کیونکہ اس سے زبان میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح اہل علم بعض اوقات ان وضع شدہ الفاظ کو اپنے مختلف تصورات کی ادائیگی کے لیے مخصوص کر لیتے ہیں جس کو اصطلاحی مفہوم کہتے ہیں۔ لفظ ’اصطلاح‘ کا مادہ ’صلح‘ہے۔یعنی اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ اہل علم یا اہل فن کے ایک طبقے کی اس بات پر صلح ہو گئی ہے کہ آئندہ جب وہ یہ لفظ استعمال کریں گے تو ان کی مراد کوئی مخصوص تصور ہو گا ۔اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اصطلاح فرد واحد کی نہیں ہوتی بلکہ جماعت کی ہوتی ہے ۔فرد واحد کی تعبیر کو شاذ کا نام تو دیا جاسکتا ہے، اصطلاح نہیں کہا جا سکتا۔ مثلاً علما نے اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ جب ہم لفظ ’کتاب اللہ ‘بولیں گے تو اس سے ہماری مرادقرآن ہو گی۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں جب یہ لفظ اپنی تحریروں میں استعمال کروں گا تو اس سے میری مراد ’کتاب مقدس‘ ہوگی تویہ جائز نہیں ہے،کیونکہ اس سے ذہنی اور فکری انتشار پیدا ہوتا ہے۔ لفظ سنت کا بھی ایک لغوی مفہوم ہے اورایک اصطلاحی مفہوم ہے۔ جس طرح سنت کے لغوی مفہوم کی مخالفت جائز نہیں، اسی طرح سنت کے اصطلاحی مفہوم کی مخالفت کر کے اس سے ایک نیا مفہوم مراد لینا بھی جائز نہیں ہے ۔غامدی صاحب نے سنت کا لغوی مفہوم ’پٹا ہوا راستہ بیان کیا ہے۔ گویا لفظ سنت کالغوی مفہوم بیان کرتے وقت تو انھوں نے اہل زبان کے ہی بیان کردہ مفہوم کو لیا ہے، لیکن جب سنت کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہیں تو اہل فن کے مقرر کردہ اصطلاحی مفاہیم کو نظر انداز کرتے ہوئے بالکل ایک نیا مفہوم مراد لیتے ہیں۔ غامدی صاحب کے حلقہ احباب کے علاوہ اگر امت مسلمہ کے کسی فرد سے یہ سوال کیا جائے کہ سنت سے کیا مراد ہے یا جب لفظ سنت بولتے ہیں تو اس وقت تمہارے ذہن میں کیا تصور اجاگر ہو تا ہے تو اس کا جواب یقیناًیہی ہو گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جمیع اعمال، اقوال اور تقریرات یا آپ کی ساری زندگی۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب بھی لفط’ سنت‘ استعمال ہوتا ہے تو اس وقت ہر مسلمان کے ذہن میں ایک ہی تصور آتا ہے اور وہ محمد ﷺ کا تصور ہوتاہے نہ کہ حضرت ابراہیم کا ،اور سنت کا یہ اصطلاحی تصور اتنا عام ہو گیا ہے کہ وہ اس کے لغوی تصور پر بھی غالب آ گیا ہے، اس لیے اس کی مخالفت جائز نہیں ہے ۔اگر اصطلاحی مفاہیم کی مخالفت جائز ہے تو پھر یہ صرف غامدی صاحب کے لیے بلکہ ہر کسی کے لیے جائز قرار پائے گی ۔اگر کل کو کوئی یہ کہے کہ ’سنت سے میری مراد دین آدم کی وہ روایت ہے...‘ تو یہ بھی جائز ہو گا اور کوئی دوسرا یہ کہے کہ’ سنت سے میری مراددین موسوی کی وہ روایت ہے... ‘ تو یہ بھی جائز ہو گا۔ اس طرح امت مسلمہ کو سوائے ذہنی اور فکری انتشار کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔اس طرح ہر آدمی سنت کا اپنا مفہوم لے کر بیٹھا ہو گا اور زبان کا جو مقصد تھا کہ الفاظ کو استعمال کر کے دوسروں تک اپنے تصورات کو پہنچایا جائے، وہ مقصد فوت ہو جائے گا۔

اگر غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ہم سے پہلے اہل علم حضرات نے اگر ایک لفظ کو ایک خاص تصور کی ادائیگی کے بطور اصطلاح مقرر کر لیا تھا تو ہمارے پاس بھی یہ حق ہے کہ ہم بھی اپنے لیے اصطلاحات وضع کریں ، تو ہم اس کا انکا ر نہیں کرتے ۔ غامدی صاحب اپنے تصورات کی ادائیگی کے لیے ضرور اصطلاحات بنائیں لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ غامدی صاحب اپنے تصورات اور اپنی مراد واضح کرنے کے لیے سلف صالحین کی اصطلاحات استعمال نہ کریں۔ہوتا یہ ہے کہ غامدی صاحب کی مرادتو اپنی ہوتی ہے اور اس کے لیے اصطلاحات علما کی استعمال کر لیتے ہیں جس سے مغالطے پیدا ہوتے ہیں۔ اب سنت کا لفظ اہل علم میں، اللہ کے رسول ﷺ کے حوالے سے مخصوص ہے۔اب اگر غامدی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ ’سنت‘ کا تعلق در اصل حضرت ابراہیم سے ہے تو انھیں چاہیے کہ اپنے اس تصور کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے کوئی نئی اصطلاح وضع کریں۔ اپنے اس تصور کی ادائیگی کے لیے لفظ ’سنت ‘ کو استعمال نہ کریں ۔جب کچھ الفاظ اصطلاحی طور پر ایک خاص تصور کی ادائیگی کے لیے مخصوص ہو جائیں تو ان الفاظ کو استعمال کر کے اپنی مرضی کا مفہوم مراد لینا علمی خیانت ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جب علما کی طرف سے غامدی صاحب پر یہ تنقید ہوتی ہے کہ غامدی صاحب سنت کو نہیں مانتے تو جواب میں غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ہم تو سنت کو مآ خذ دین میں شمار کرتے ہیں اور سنت سے ان کی مراد وہ ستائیس چیزیں ہوتی ہیں جنہیں ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ غامدی صاحب کو چاہیے کہ جب بھی وہ لکھیںیا بات کریں تو یوں نہ کہیں کہ ’ہمارے نزدیک اصل دین قرآن اور سنت ہے ‘بلکہ وہ یوں کہیں کہ ہمارے نزدیک ’اصل دین قرآن اور سنت ابراہیمی ہیں‘۔ کیونکہ لفظ سنت ،محمد وﷺ کے تصور کے حوالے سے امت مسلمہ میں رائج ہو چکا ہے، اس لیے مجرد اس لفظ کو استعمال کر کے حضرت ابراہیم کی سنت مراد لینا صحیح نہیں ہے ۔

غامدی صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ کے نزدیک سنت وہ ہے جس کا منبع حضرت ابراہیم ہوں۔ آپ نے جن ستائیس سنن کو بیان کیا ہے، پہلے ان کو حضرت ابراہیم تک تواتر عملی سے ثابت تو کریں ۔کیونکہ خود آپ کے بیان کردہ اصول کے مطابق سنت خبر سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ تواترعملی سے ثابت ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کسی شے کو اخذ کرنے کا ذریعہ یا تو براہ راست مشاہدہ ہے یا بالواسطہ مشاہدہ۔ یہ بات تو واضح ہے کہ غامدی صاحب نے اپنی بیان کردہ سنن کا حضرت ابراہیم سے براہ راست مشاہدہ نہیں کیا۔ رہی دوسری صورت یعنی بالواسطہ مشاہدہ تو اس کا ذریعہ خبر ہے۔ غامدی صاحب خبر سے ثابت کر دیں کہ یہ حضرت ابراہیم کی سنن ہیں تو ہم پھر بھی مان لیں گے ۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ غامدی صاحب خبر کے ذریعے بھی حضرت ابراہیم کی طرف اپنی بیان کردہ سنن کی فہرست کی نسبت ثابت کرنے سے عاجز اور قاصرہیں۔ غامدی صاحب نے یہ لکھ تو دیا ہے کہ سنت کامنبع و سرچشمہ حضرت ابراہیم ہیں اور سنت تواتر عملی سے ثابت ہوتی ہے، لیکن ہمیں حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم کی طرف ان اعمال کی نسبت تواتر عملی سے کیسے ثابت کریں گے ؟ چلیں تواترعملی نہ سہی، خبرصحیح سے ثابت کر دیں کہ ان اعمال کو حضرت ابراہیم نے بطوردین جاری کیا تھا۔ جب تک غامدی صاحب اپنی بیان کردہ سنن کی فہرست کے بارے میں یہ ثابت نہ کر دیں کہ ان اعمال کو حضرت ابراہیم نے دین کی حیثیت جاری کیا، اس وقت تک اس بات کا کوئی جواز نہیں بنتاکہ وہ ان اعمال کو دین ابراہیمی کی روایت کے نام سے پیش کریں، کیونکہ یہ اعمال ان کی تعریف کے مطابق اسی وقت سنت بنیں گے جب ان کی نسبت حضرت ابراہیم سے صحیح ثابت ہو جائے۔ اور حضرت ابراہیم کی طرف ان اعمال کی نسبت صحیح ثابت کرنے کا واحد ذریعہ اب ان کے پاس خبر ہے اور خبر سے ان کے نزدیک سنت ثابت نہیں ہوتی بلکہ سنت تو ان کے نزدیک تواتر عملی سے ثابت ہوتی ہے۔ غامدی صاحب کی بیان کردہ سنن کی نسبت حضرت ابراہیم سے ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ جب کسی عمل کے بارے میں یہ ثابت کرنا ہی ممکن نہیں ہے کہ ان اعمال کوحضرت ابراہیم نے بطور دین جاری کیا تھا، تو پھر کسی عمل کے بارے میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ سنت ابراہیمی ہے ۔ صرف تین اعمال ایسے ہیں جن کی نسبت احادیث میں حضرت ابراہیم کی طرف کی گئی ہے۔ ایک قربانی کا عمل ہے ۔حدیث میں قربانی کے عمل کے بارے میں یہ الفاظ ہیں: 

سنۃ أبیکم ابراہیم (سنن ابن ماجہ)
’’یہ تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے ۔‘‘

لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ اس کی سند میں دو راوی ’عائذ اللہ‘ اور’ ابوداؤد‘ ضعیف ہیں بلکہ’ ابو داؤد‘ کو تو بعض ائمہ جرح وتعدیل نے کذاب بھی کہا ہے۔

دوسرا عمل جس کی حضرت ابراہیم کی طرف نسبت کی گئی ہے، ختنہ ہے اور تیسرا مونچھوں کا تراشناہے۔ مؤطا امام مالک کی ایک روایت ہے:

عن سعید ابن المسیب أنہ قال کان ابراہیم أول الناس ضیف الضیف و أول الناس اختتن وأول الناس قص الشارب (مؤطا امام مالک )
’’حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا، حضرت ابراہیم وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے مہمان نوازی کی ،اور ختنہ کیا اور مونچھوں کو تراشا۔‘‘

لیکن یہ روایت مقطوع ہونے کے علاوہ ان صحیح روایات کے بھی خلاف ہے جن میں آپ نے ختنے اور مونچھوں کے تراشنے کو انسانی فطرت قرار دیا ہے ۔ہم یہاں یہ بھی واضح کر دیں کہ غامدی صاحب کے تصور سنت کا اصل مأخذ ڈاکٹر جواد علی کی کتاب ’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘ ہے ۔ہم تو یہ کہتے ہیں کہ غامدی صاحب کے لیے یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اس کتاب کو ہی بنیاد بنا کر اپنی بیان کردہ ستائیس سنتوں کو دین ابراہیمی کے شعائر کی حیثیت سے ثابت کر سکیں ۔

مذکورہ بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غامدی صاحب کی تعریف سنت ،مجرد تعریف ہی ہے، اس کا کوئی مسمیٰ نہیں ہے جس پر اس تعریف کا اطلاق کیا جا سکے۔ اگر غامدی صاحب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو ستائیس چیزیں ہم نے بیان کی ہیں، وہ اس تعریف کا مسمیٰ ہیں تو ہم ان سے یہ سوال کریں گے کہ پہلے کسی شرعی دلیل سے ثابت تو کیجئے کہ ان اعمال کامنبع حضرت ابراہیم ہیں۔ اہل سنت کے شرعی دلائل سے نہ سہی، اپنے مزعومہ شرعی دلائل سے ہی ثابت کر دیں کہ ان اعمال کا آغاز حضرت ابراہیم سے ہوا ہے ۔ اس فہرست میں بیان کردہ تمام اعمال نہ سہی، کچھ کے بارے میں تو ثابت کر دیں کہ ان کوحضرت ابراہیم نے جاری کیا۔

غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنت کی تعریف میں حضرت ابراہیم کا تذکرہ ایک تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کیا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ تاریخی حقیقت تو یہ کہتی ہے کہ غامدی صاحب کو سنت کی تعریف میں حضرت ابراہیم کی بجائے حضرت آدم کا نام شامل کرنا چاہیے۔ غامدی صاحب کی بیان کردہ اکثر و بیشتر سنن وہ ہیں جو حضرت آدم کے زمانے سے چلی آ رہی ہیں۔ مثلاً غامدی صاحب کی بیان کردہ دو سنن قربانی اور تدفین کو ہی لے لیں ۔ ان سنن کی تاریخ اس بات کی طرف اشارہ کر تی ہے کہ ہم ان کی نسبت حضرت آدم کی طرف کریں۔ قرآن کے مطابق قربانی اور تدفین کی سنن کی ابتدا حضرت آدم کے زمانے ہی سے ہو گئی تھی۔ قرآن میں حضرت آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:

إِذْ قَرَّبَا قُرْبَاناً فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ (المائدہ:۲۷)
’’جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی‘‘ 

اسی طرح آگے یہ ذکربھی موجود ہے کہ جب نوع انسانی میں پہلا قتل ہوا، اس وقت سے تدفین کی ابتدا ہوئی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

فَبَعَثَ اللّہُ غُرَاباً یَبْحَثُ فِیْ الأَرْضِ لِیُرِیَہُ کَیْْفَ یُوَارِیْ سَوْء ۃَ أَخِیْہِ قَالَ یَا وَیْْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَکُونَ مِثْلَ ہَذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِیَ سَوْء ۃَ أَخِیْ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِیْنَ (المائدہ:۳۱)
’’پھر اللہ تعالیٰ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تا کہ اسے بتائے کہ کیسے وہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپائے۔ اس نے کہا افسوس مجھ پر کہ میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ میں اپنے بھائی کی لاش کو چھپاتا،تو وہ ہو گیا ندامت کرنے والوں میں سے۔‘‘

ان آیات سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قربانی اور تدفین ،سنت ابراہیمی نہیں ،بلکہ سنت آدم ہیں۔ اسی طرح غامدی صاحب کا نکاح و طلاق، نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب، حیض و نفاس کے بعد غسل، غسل جنابت اور اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ کرنے کو سنت ابراہیم کہنے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ معاذاللہ حضرت ابراہیم سے پہلے انبیا میں زن و شو کے تعلقات کے لیے نکاح و طلاق کا کوئی تصور نہ تھا، حیض و نفاس کی حالت میں انبیا اپنی بیویوں سے مباشرت کرتے تھے اور مباشرت کے بعد غسل کا بھی کوئی حکم ان کی شریعت میں موجود نہ تھا۔ حضرت ابراہیم سے پہلے گزر جانے والے انبیا کی امتوں میں جانوروں کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیا جاتا تھااور نہ حیض و نفاس کے بعد عورتیں غسل ہی کرتی تھیں۔ مزید برآں پچھلے انبیا میں نہ نماز تھی نہ روزہ نہ حج نہ زکوٰۃ۔ اگر یہ سب کچھ پچھلے انبیا کی شریعتوں میں نہیں تھاتو پھر ان کی شریعت کیا تھی جس کے بارے میں قرآن نے ہمیں حکم دیا ہے:

قُلْ آمَنَّا بِاللّہِ وَمَا أُنزِلَ عَلَیْْنَا وَمَا أُنزِلَ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِیَ مُوسَی وَعِیْسَی وَالنَّبِیُّونَ مِن رَّبِّہِمْ (آل عمران:۸۴)
’’آپ کہہ دیں کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور جو شریعت ہم پر نازل کی گئی، اس کو بھی مانتے ہیں اور جو حضرت ابراہیم، حضرت اسمعیل، حضرت اسحق، حضرت یعقوب اور اولاد یعقوب پر نازل کی گئی، اس کو بھی مانتے ہیں اور جو شریعت حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کو دی گئی، اس کو بھی مانتے ہیں اور جو ان کے علاوہ دوسرے انبیا کو دی گئی، اس کو بھی مانتے ہیں ۔‘‘

ہماری اس تنقیح پر اگر غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ان احکامات کے بارے میں ہمارا بھی نقطہ نظر یہی ہے کہ یہ حضرت ابراہیم سے ماقبل شریعتوں میں بھی موجود تھے تو پھر غامدی صاحب کی یہ بیان کردہ سنن،سنن ابرہیمی نہ رہیں گی بلکہ سنن آدم ہوں گی ۔ غامدی صاحب کوچاہیے کہ جس عمل کی ابتدا جس نبی سے پہلی مرتبہ ثابت ہو رہی ہے، اس عمل کی نسبت اسی نبی کی طرف کریں اور اس کو اس نبی کی سنت کے نام سے پیش کریں۔ پھر دیکھیں کہ حضرت ابراہیم کے حوالے سے جو سنن انہوں نے بیا ن کی ہیں، ان میں سے کتنی ان کی تعریف سنت کا صحیح مصداق بنتی ہیں۔

آخر میں ہم غامدی صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ اپنی سنت( ستائیس چیزوں) کو وحی شمار کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر غامدی صاحب یہ جواب دیتے ہیں اور یقیناًان کا جواب یہی ہو گا کہ ہمارے نزدیک سنت( ستائیس چیزیں) وحی نہیں ہے تو پھرہمارا سوال ہے کہ جب آپ کے نزدیک آپ کی سنت وحی نہیں ہے تو پھر وہ دین کیسے بن گئی؟ اگر غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک سنت (ستائیس چیزیں) وحی ہے تو ہم یہ سوال کریں گے کہ اس کی دلیل کیا ہے کہ یہ وحی ہیں؟ اور یہ وحی کس پیغمبر پر اتری تھی ؟پھر اس کی دلیل کیا ہے کہ یہ فلاں پیغمبر پر اتری تھی؟

غامدی صاحب نے اپنی بیان کردہ تعریف سنت کے ثبوت کے لیے درج ذیل آیت کو بطور دلیل بیان کیا ہے :

ثُمَّ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (النحل۱۶:۱۲۳)
’’پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ آپ حضرت ابراہیم کی ملت کی پیروی کریں جو با لکل یکسو تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘

غامدی صاحب بحث ’سنت‘ کی کر رہے ہیں اور دلیل ایک ایسی آیت کو بنا رہے ہیں جس میں لفظ ’ملت ‘استعمال ہوا ہے، حالانکہ یہاں پر’ملت ابراہیم ‘ سے مراد ہرگز سنت ابراہیمی (وہ ستائیس چیزیں جو کہ غامدی صاحب نے بیان کی ہیں) نہیں ہے۔ ملت کا لفظ قرآن میں معمولی سے فرق کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ اس آیت میں ’ملت ابراہیم ‘ سے مراددین اسلام کی وہ اساسی تعلیمات ہیں جو کہ حضرت ابراہیم کی شخصیت میں نمایاں تھیں یعنی ہر قسم کے شرک سے اجتناب کرنااور اللہ کا انتہائی درجے میں فرمانبردار ہو جانا۔ہماری اس تفسیر کی تائید درج ذیل قرائن سے ہو رہی ہے :

۱) شرک سے اجتناب اور اللہ کی فرمانبرداری، یہ حضرت ابراہیم کی وہ امتیازی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے وہ باقی تمام پیغمبروں میں نمایاں ہیں۔ علاہ ازیں حضرت ابراہیم کی قرآن میں جہاں بھی مدح بیان کی گئی ہے، انہی دو اوصاف کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔

۲) ملت ابراہیم کا یہ مفہوم نظم قرآن سے بھی واضح ہو رہا ہے،کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت میں بھی اور اس کے علاوہ بھی قرآن میں جہاں کہیں حضرت ابراہیم کی ملت کی اتباع کا حکم ہے ،وہاںیہ حکم شرک کے بالمقابل یا اطاعت کے پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ درج ذیل آیات سے واضح ہو رہا ہے :

وَقَالُواْ کُونُواْ ہُوداً أَوْ نَصَارَی تَہْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (البقرۃ :۱۳۵)

اس آیت میں اللہ کے رسول ﷺ کو کہا گیا ہے کہ آپ ان یہود و نصاریٰ سے کہہ دیں کہ ہم تو حضرت ابراہیم کی پیری کرتے ہیں جو کہ یکسو تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے ۔یعنی ان کو بتا دیں کہ ہم تودین ابراہیمی پرہیں ۔اور دین ابراہیمی کیا ہے ؟اللہ کے بارے میں یکسو ہو جانا اور اس کے ساتھ شرک نہ کرنا۔

قُلْ صَدَقَ اللّہُ فَاتَّبِعُواْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (آل عمران :۹۵)

اس آیت میں بھی یہودیوں سے خطاب کر کے فرمایا جارہا ہے کہ اپنی بدعات (مثلاً اونٹ کے گوشت کو حرام قرار دیناوغیرہ) کو دین ابراہیم کے نام سے پیش نہ کرو، بلکہ حضرت ابراہیم کے اس دین کی پیروی کرو جو کہ بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ اللہ کے لیے یکسوہو جاؤ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔

وَمَنْ أَحْسَنُ دِیْناً مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْہَہُ للہ وَہُوَ مُحْسِنٌ واتَّبَعَ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً (النساء :۱۲۵)

اس آیت مبارکہ میں اہل کتاب اور مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ تمہاری خواہشات سے کچھ نہیں حاصل ہوگا۔ اصل چیز عمل ہے اور سب سے اچھا دین اس کا ہے جس نے اپنے آپ کو اللہ کے احکامات کے سامنے اس طرح جھکا دیا جیسا کہ حضرت ابراہیم نے جھکا دیا تھااور اللہ کے معاملے میں یکسو ہوگیا۔حضرت ابراہیم کا اصل دین نہ یہودیت تھا نہ عیسائیت، بلکہ ان کا اصل دین اسلام اللہ کی فرمانبرداری اور اطاعت تھا، اس لیے جو اللہ کا مطیع اور فرمانبردار ہے اور اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا، وہ دین ابراہیمی پر ہے اور جو اللہ کا مطیع اور فرمانبردار نہیں ہے اور اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، وہ دین ابراہیم پر نہیں ہے۔ 

وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّۃِ إِبْرَاہِیْمَ إِلاَّ مَن سَفِہَ نَفْسَہُ وَلَقَدِ اصْطَفَیْْنَاہُ فِیْ الدُّنْیَا وَإِنَّہُ فِیْ الآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِیْنَ ۔ إِذْ قَالَ لَہُ رَبُّہُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ (البقرۃ : ۱۳۰، ۱۳۱)

و من یرغب عن ملۃ ابراہیم الا من سفہ نفسہ ‘ سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر ہم ملت ابراہیم کی اتباع سے جزئیات میں ان کی اتباع مراد لیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ جن انبیا نے جزئیات میں حضرت ابراہیم کی اتباع نہیں کی، معاذ اللہ وہ بے وقوف ہیں۔حضرت ابراہیم کی ملت کی اتباع سے مراد یہاں بھی ان کے اس رویے کی پیروی ہے جو انہوں نے اللہ کی اطاعت کے معاملے میں پیش کیا، یعنی اللہ کے لیے انتہائی درجے میں فرمانبرداری اختیار کرنا۔آگے جا کر اسی کو ’الدین ‘ کہا گیا ہے، کیونکہ دین بھی دراصل اطاعت ہی کو کہتے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیْمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (البقرہ: ۱۳۲)

چونکہ دین بھی اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کو کہتے ہیں جیسا کہ ’ولا تموتن الا و انتم مسلمون ‘ سے ظاہر ہو رہا ہے، اسی لیے اکثر مفسرین نے ملت کا ترجمہ دین یعنی اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کیا ہے ۔

ان سب آیات کا سیاق و سباق یعنی نظم قرآنی اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ ملت ابراہیمی کی اتباع سے مرادہر قسم کے شرک سے اجتناب اور اللہ کے لیے انتہائی درجے میں فرمانبردار ہو جانے میں حضرت ابراہیم کے اسوہ کی پیروی کرنا ہے ۔

۳) اسی معنی کو جلیل القدر مفسرین مثلاً امام طبری ، امام قرطبی وغیرہ نے اپنی تفاسیر میں اختیار کیا ہے ۔

۴) غامدی صاحب کی تعریف کے مطابق سنت، اعمال کا نام ہے اور عقیدہ اس میں شامل نہیں ہوتا جبکہ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ملت میں عقیدہ بھی شامل ہے جیسا کہ درج ذیل آیت سے معلوم ہو رہا ہے: 

أَجَعَلَ الْآلِہَۃَ إِلَہاً وَاحِداً إِنَّ ہَذَا لَشَیْْءٌ عُجَابٌ ۔ وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْہُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَی آلِہَتِکُمْ إِنَّ ہَذَا لَشَیْْءٌ یُرَادُ ۔ مَا سَمِعْنَا بِہَذَا فِیْ الْمِلَّۃِ الْآخِرَۃِ إِنْ ہَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ (ص: ۵تا۷)

۵) لفظ ملت کا ترجمہ ’دین ‘ تو کیا جاسکتا ہے(جیسا کہ امام راغب اصفہانی نے المفرادات میں، ابن الاثیر الجزری نے النہایہ میں، علامہ ابن الجوزی نے تذکرۃ الأریب میں، ابن المنظور الافریقی نے لسان العرب میں اور ابو بکر السجستانی نے غریب القرآن میں لکھا ہے) اس کی وجہ یہ ہے کہ دین کا اصل معنی بھی اطاعت اور فرمانبرداری ہی ہے، لیکن ملت کا ترجمہ’سنت ‘ کسی طرح نہیں بنتا۔

۶) اگر ملت ابراہیمی سے مراد وہ ستائیس اعمال لے بھی لیے جائیں جو کہ غامدی صاحب بیان کر رہے ہیں تو بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین ابراہیمی کی بنیادی عبادات نماز اور مناسک حج وغیرہ بھی محفوظ نہ تھیں چہ جائیکہ باقی اعمال محفوظ رہے ہوں۔ جب دین ابراہیمی ہی محفوظ نہ تھا تواللہ تعالیٰ کا اپنے رسول ﷺ کواس کی اتباع کا حکم دینا کچھ معنی نہیں رکھتا ۔

مذکورہ بالا بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملت اور سنت میں فرق ہے ۔لفظ ملت کا ترجمہ’ سنت‘ کرنا عربی زبان سے جہالت اور قرآنی اصطلاحات سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔

غامدی صاحب کے تصور سنت کی تردید ان کے اپنے اصولوں کی روشنی میں

غامدی صاحب نے استنجاکرنے، بڑھے ہوئے ناخن کاٹنے، ناک،منہ اور دانتوں کی صفائی، مونچھیں پست رکھنے، زیر ناف کے بال مونڈنے اور بغل کے بال صاف کرنے کوسنت ابراہیمی میں شمار کیا ہے،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں انسانی فطرت میں شامل ہیں، ان کی نسبت حضرت ابراہیم کی طرف کرنے کامطلب یہ بنتا ہے کہ حضرت ابراہیم سے پہلے لوگوں کے ہاں نہ توکسی قسم کے استنجے کا تصور تھا، نہ ہی وہ اپنی مونچھیں پست رکھتے تھے، نہ زیر ناف کے بال مونڈتے تھے، نہ بغل کے بال صاف کرتے تھے اور نہ ناک، منہ اور دانتوں کی صفائی کرتے تھے۔یہ تصور قطعاً غلط ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ جسم کی صفائی سے متعلق یہ سارے احکامات فطرت انسانی کا حصہ ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:

الفطرۃ خمس أو خمس من الفطرۃ الختان و الاستحداد و نتف الابط و تقلیم الأظافر و قص الشارب (صحیح بخاری)
’’فطرت پانچ چیزیں ہیں یا پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں، ختنہ کرنا،زیر ناف کے بال مونڈنا،بغل کے بال اکھیڑنا،ناخنوں کو کاٹنا،اور مونچھوں کو پست کرنا۔‘‘

اس کے علاوہ علما بھی جب ان احکامات کو بیان کرتے ہیں تو ’سنن الفطرۃ ‘ کے نام سے بیان کرتے ہیں۔ مثلاً السید سابق اپنی کتاب’ فقہ السنہ ‘اور شیخ محمد بن ابراہیم التویجری اپنی کتاب ’مختصر الفقہ الاسلامی ‘ میں اس بحث کو اسی عنوان کے تحت لے کر آئے ہیں۔ جب ثابت ہو گیا کہ یہ اعمال انسانی فطرت کا حصہ ہیں تو ان اعمال کی نسبت حضرت ابراہیم کی طرف کرناصحیح نہیں ہے۔ غامدی صاحب کو چاہیے کہ ان اعمال کو’ سنت ابراہیمی‘ کے تحت بیان کرنے کی بجائے اپنے اصول ’دین فطرت کے حقائق ‘کے تحت بیان کریں ۔غامدی صاحب کے بیان کردہ اصول فطرت کی رو سے بھی یہ بات درست نہیں کہ ان اعمال کی نسبت حضرت ابراہیم کی طرف کی جائے۔غامدی صاحب اصول و مبادی میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’پانچواں اصول یہ ہے کہ وہ چیزیں جو محض بیان فطرت کے طور پر آئی ہیں، وہ بھی سنت نہیں ہیں‘‘۔ (میزان:ص۶۶)

غامدی صاحب کے اس اصول سے ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک فطرت کی بنیاد پر ثابت شدہ اعمال کو سنن کہنا صحیح نہیں ہے اور یہاں وہ خود اپنے اس بنائے ہوئے اصول کی مخالفت کر رہے ہیں اور جسم کی صفائی کے احکامات کو، جو کہ بیان فطرت ہیں، بیان سنت بنا کر پیش کررہے ہیں۔ اس سے ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ کسی طرح اپنی تعریف سنت کے ثبوت کے لیے کھینچ تان کر کوئی مسمیٰ نکال لائیں۔ 

علاوہ ازیں غامدی صاحب نے قرآن پر تدبر کے جواصول بیان کیے ہیں، ان میں پہلا اصول ’عربی معلی ‘ہے جس کی بنیاد ہی یہ ہے کہ اہل زبان کے محاورہ کی مخالفت جائز نہیں ہے اور قرآن جن پر نازل ہوا، اسے انہی کی زبان کے محاورے میں سمجھنا چاہیے۔ غامدی صاحب کے نزدیک جب قرآن، جو کہ دین ہے اور قطعی الدلالۃ ہے، اس پر تدبر کے لیے اہل زبان کے محاورے کی پابندی ضروری ہے تو سنت جو کہ قرآن ہی کی طرح دین ہے اور قطعی الدلالۃ ہے اور اس پر مزید یہ کہ وہ قرآن سے بھی پہلے ہے، تو اس کو سمجھنے کے لیے اہل زبان(صحابہ کرام) کے محاورے کی پابندی کیوں ضروری نہیں ؟ تصور سنت کی تفہیم میں خود غامدی صاحب اہل زبان کے محاورے کی مخالفت کر رہے ہیں ۔بیسیوں احادیث ایسی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل زبان (صحابہ کرام)کے محاورے میں سنت سے مراد اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ہے، نہ کہ حضرت ابراہیم کی، جبکہ غامدی صاحب نے اہل زبان(صحابہ کرام) کے محاورے کے برعکس سنت کے مفہوم میں حضرت ابراہیم کا تصور بھی ڈال دیا۔

سنت اور تواتر عملی 

اہل سنت کے نزدیک سنت سے مراد وحی خفی ہے اور اس کی روایت حدیث کہلاتی ہے یعنی اس سنت کے ہم تک پہنچنے کا ذریعہ’حدیث ‘ہے ، جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک سنت وہ ستائیس چیزیں ہیں جن کی فہرست ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اور یہ سنت ہم تک تواتر عملی سے پہنچی ہے۔ ہمارے نزدیک غامدی صاحب کے تصور تواتر عملی میں درج ذیل غلطیاں ہیں:

غامدی صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ کا وہ عمل جو تواتر عملی سے ہم تک پہنچاہو، سنت ہے ،اور سنت دین ہے، گویا کہ ان کے نزدیک تواتر عملی سے ایک عمل دین بن جاتا ہے اوراللہ کے رسول ﷺ کا ایک دوسراعمل جو تواتر عملی سے منقول نہ ہو بلکہ خبر واحد سے مروی ہو،وہ دین نہیں ہے۔غامدی صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ کے کسی عمل کے دین بننے میں اصل حیثیت تواتر عملی کی ہے۔گویایہ تواتر عملی ہی ہے جو کہ آپ کے کسی عمل کو دین بنا دیتا ہے اور کسی دوسرے عمل کو دین نہیں بناتا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب آپؐ کے کسی عمل کے دین بننے کے لیے اصل معیار تواتر عملی ٹھہرا تو معاذ اللہ تواتر عملی کی حیثیت آپؐ سے بڑھ کر ہو گئی جو اللہ کے رسول ﷺ کے بعض اعمال کو دین بنا دیتا ہے اور بعض کو دین نہیں بناتا۔ نتیجتاً اصل شارع تولوگ ہوئے ،نہ کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ۔اللہ کے رسول وﷺکے جس عمل کو لوگوں نے تواتر سے نقل کر دیا، وہ دین بن گیا اور جس عمل کو تواتر سے نقل نہ کیا، وہ دین نہ بن سکا،یعنی اصل حیثیت اللہ کے رسول ﷺکے اعمال کی نہیں ہے بلکہ اصل حیثیت لوگوں کے آپؐ کے اعمال پر عمل کی ہے ۔آپؐ کے جس عمل پر لوگوں نے تواتر سے عمل کیا ہے، وہ دین ہے اور جس پر تواترسے عمل نہیں کیا، وہ دین نہیں ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ دین اور چیز ہے اور اس کو آگے نقل کرنے کے ذرائع اورچیز ہیں ۔دونوں میں فرق ہے ۔دین کو روایت اور نقل کرنے کے ذرائع ،نہ تو دین ہیں اورنہ ان کو کسی چیز کے دین قرار دینے کے لیے معیار بنایا جا سکتا ہے۔ تواتر عملی دین کو پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے، نہ کہ کسی چیز کے دین بننے کا معیار ،اگر غامدی صاحب کا یہ نقطہ نظر مان لیاجائے کہ تواتر عملی سے ایک چیز دین بن جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ صحابہ کے لیے دین اور تھا اور ہمارے لیے دین اور ہے کیونکہ غامدی صاحب کے بقول ہمارے لیے تو اللہ کے رسول ﷺ کے وہ اعمال دین قرار پائیں گے جو کہ تواتر عملی سے نقل ہوئے ہوں جبکہ صحابہ کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کا ہر عمل دین ہو گاکیونکہ وہ تو اللہ کے رسول ﷺ کے ہر عمل کا براہ راست مشاہدہ کر رہے تھے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ایک عمل جو کہ خبر واحدسے ثابت ہے، غامدی صاحب کے نزدیک وہ ہمارے لیے دین نہیں ہے کیونکہ وہ تواترعملی سے ثابت نہیں ہے، تو کیا وہ عمل صحابہ کے لیے بھی دین نہیں ہوگاجو کہ دیکھتی آنکھوں اس کا مشاہدہ کر رہے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ تواتر عملی کسی چیز کو دین ٹھہرانے کا کوئی معیار نہیں ہے۔ دین وہ ہے جسے اللہ اور اس کا رسول ﷺ دین قرار دیں، چاہے وہ خبر واحدسے ہمیں ملے یاقولی یا عملی تواتر سے۔’ذریعے‘ سے کوئی چیز دین نہیں بنتی ،بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے دین بنانے سے ایک چیز دین بنتی ہے اور بعد میں کسی ذریعے سے ہم تک پہنچتی ہے ۔یعنی دین پہلے موجود ہے، پھر وہ ذریعہ ہے جس سے وہ ہم تک پہنچا ہے۔جبکہ غامدی صاحب کے بقول ذریعہ پہلے ہے اور دین بعدمیں ہے۔ ذریعے نے ہی کسی چیز کو دین بنانا اور کسی چیز کو دین سے خارج کرنا ہے۔ 

جس زمانے میں بیٹھ کر غامدی صاحب تواترعملی کی بات کر رہے ہیں، اس سے بدعات تو ثابت ہو سکتی ہیں لیکن دین کسی طور ثابت نہیں ہو سکتا۔ خلافت راشدہ کے بعد سے امت مسلمہ کا سواد اعظم جس کو دین کے نام سے پیش کرتا رہا ہے یا کررہا ہے، اسے ہر گز دین کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ شرک و بدعات کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ نوع انسانی کی، اس لیے یہ سمجھنا کہ بدعات تو اٹھارویں یا انیسویں صدی کی ایجاد ہیں ،محض خیال باطل ہے ۔

غامدی صاحب کے نزدیک سنت کی روایت کا ذریعہ تواتر عملی ہے۔ ہم غامدی صاحب سے یہ سوال کرتے ہیں کہ جس زمانے میں آپ موجود ہیں، اس کے تواتر عملی کو توآپ ثابت کر دیں گے ،لیکن اللہ کے رسول ﷺ کی سنت کو جاری ہوئے چودہ صدیاں گزر چکی ہیں،ہرصدی میں اللہ کے رسول ﷺ کی ہر ایک سنت کے حوالے سے تواتر عملی کو آپ کیسے ثابت کریں گے؟ کسی مسئلے کے بارے میں یہ جاننے کے لیے کہ یہ امت میں تواتر سے چلا آرہا ہے ،اس کا واحد ذریعہ خبر ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ جس خبر واحد سے جان چھڑانے کے لیے غامدی صاحب نے تواتر عملی کا فلسفہ گھڑا تھا ،خود تواترعملی کا ثبوت اس خبرکے بغیر ممکن نہیں ہے۔کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ غامدی صاحب کے بقول جس طرح سنن تواتر عملی سے نقل ہوتی چلی آرہی ہیں، اسی طرح بدعات بھی تواتر عملی سے ہی نقل ہوتی رہی ہیں ۔اب ایک عمل کے بارے میں یہ فیصلہ کیسے کیا جائے گا کہ وہ سنت ہے یا بدعت ؟ اس کاجواب دیتے ہوئے غامدی صاحب فرماتے ہیں :

’’ تواتر ایک ٹھوس حقیقت ہے ،یہی کسی عمل کے محکم اساس پر قائم ہونے کی دلیل ہے ۔بے شک بہت سی بدعات رائج ہو گئیں، بے عملی بڑھ گئی ،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس امت کی ساری تاریخ کا واضح ریکارڈ موجود ہے ۔حضور کا زمانہ ،صحابہ کا دور اور تابعین کے عہد سے لے کر آج تک کیا کچھ اصل ہے، کیا کچھ اختراع کیا گیا، یہ سب امت کے سامنے ہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق:نومبر۱۹۹۹،ص۵۳)

غامدی صاحب کے بقول جب کسی چیز کے بارے میں یہ اختلاف ہو جائے گا کہ یہ سنت ہے یا بدعت تو امت مسلمہ کی تاریخ اس بارے میں فیصلہ کرے گی کہ یہ عمل واقعتا اللہ کے رسولﷺ کے زمانے سے چلا آرہا ہے یا بعد کے کسی زمانے کی ایجاد ہے۔ غامدی صاحب کی حالت تو اس شخص کی سی ہے جس کے بارے میں عربی زبان میں ایک کہاوت معروف ہے: فر من المطر و قام تحت المیزاب (بارش سے بچنے کے لیے بھاگا اور پرنالے کے نیچے آ کے کھڑا ہو گیا)۔

غامدی صاحب خبر واحد سے بھاگے تھے اور تاریخ ان کے گلے پڑ گئی ،جو ایسی اخبار پر مشتمل ہے جن کی نہ تو کوئی سند ہے، نہ اسماے رجال اور نہ اس کے پرکھنے کے لیے اصول الروایۃموجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ کی چودہ صدیوں کی تاریخ میں کسی عمل کے بارے میں تواتر عملی کو ثابت کرنا بغیر خبر کے ممکن نہیں ہے ۔جن ستائیس چیزوں کے بارے میں غامدی صاحب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں تواتر عملی سے ملی ہیں ،ان مسائل کو وہ ذرا مذاہب اربعہ کی کتابیں کھول کردیکھیں تو ان پر واضح ہو جائے گا کہ ائمہ کے مابین ان مسائل میں کس قدر اختلاف موجود ہے۔مثال کے طور پر نماز کو ہی لے لیں، ارکان اسلام میں سب سے اہم رکن اور اس کی ہیئت تک میں اختلاف موجود ہے ۔ہاتھ چھوڑے جائیں یا باندھے جائیں؟ اگر باندھے جائیں تو کہاں باندھے جائیں؟ رکوع میں جاتے وقت او ر اس سے اٹھتے وقت رفع الیدین کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ جلسہ استراحت کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ تشہد میں تورک کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ یہ اختلافات آج کے دور کی پیدوار نہیں ہیں بلکہ یہ اختلافات ائمہ أربعہ سے چلے آرہے ہیں اور مذاہب اربعہ کی ہر دور کی کتب فقہ میں ان مسائل کے بارے میں تفصیلی ابحاث موجود ہیں جن کو دیکھ کر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ائمہ أربعہ نے ان مسائل میں اختلاف تواتر عملی کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ اپنے مؤقف کی تائید کے لیے خبر کو پیش کیاجس یہ ثابت ہوتا ہے کہ اوائل اسلام میں بھی دین کے ثبوت کے لیے تواتر عملی کوئی دلیل نہ تھی، بلکہ اصل دلیل خبر تھی ۔جہاں تک مالکیہ کے اصول ’تعامل اہل مدینہ‘ کا معاملہ ہے جسے امین احسن اصلاحی صاحب نے’ تدبرحدیث‘ میں تواتر عملی کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ اس اصول کی نسبت امام مالک سے ثابت ہی نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ مالکیہ کے اصول ’تعامل اہل مدینہ ‘ اور فکر اصلاحی کے تصور ’تواتر عملی ‘میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جس تعامل کو وہ حجت سمجھتے ہیں، اس سے ان کی مرادمدینہ کے صحابہ کا تعامل ہے نہ کہ بعد کی نسلوں کا ۔

آج تواترعملی سے یہ بات ثابت ہے کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا نماز کا حصہ ہے،وتر کی نماز عشا کی نماز کاحصہ ہے نہ کہ تہجد کی نماز کا،نماز تراویح اور ہے اور نماز تہجد اور ہے ۔کیا غامدی صاحب ان سب اعمال کوایسے ہی مانتے ہیں جیسا کہ تواترعملی سے ثابت ہے؟ اگر نہیں تو کس بنیاد پر ؟خبر واحد کی بنیاد پر یا تاریخ کی بنیاد پر ؟ 

غامدی صاحب کا اپنے اصول سے انحراف

جس طرح ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ غامدی صاحب کا اصول سنت غلط ہے، اسی طرح اس اصول کے اطلاق میں بھی غامدی صاحب سے بعض مسائل میں غلطی ہوئی ہے ۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب ڈاڑھی کو سنت میں شمار نہیں کرتے جیسا کہ ان کی بیان کردہ سنن کی فہرست سے واضح ہے،حا لانکہ ڈاڑھی حضرت ابراہیم سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا کی سنت رہی ہے۔ دور جاہلیت میں اہل عرب ڈاڑھی رکھتے تھے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ڈاڑھی رکھی ،اس کا حکم بھی دیا اور تمام صحابہ کی ڈاڑھی تھی ۔ ڈاڑھی غامدی صاحب کی تعریف سنت پر سو فی صد پورا اترتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تمام انبیا کی سنت رہی ہے۔ یہ دین ابراہیم کی وہ روایت ہے جس پردور جاہلیت میں بھی اہل عرب قائم تھے اور آپ نے دین ابراہیمی کی اس روایت کو عملاً برقراررکھا اور اس کا امت کو حکم بھی جاری فرمایا۔ بعد میں یہ سنت صحابہ کرام کے اجماع سے ثابت ہوئی اور امت کے عملی تواتر سے ہم تک منتقل ہوئی۔ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے: 

خالفوا المشرکین وفروا اللحی و أحفوا الشوارب (صحیح بخاری)
’’مشرکین کی مخالفت کرو، ڈاڑھیوں کو چھوڑ دو اور مونچھوں کو پست کرو۔‘‘

ابن حجر عسقلانی ’خالفوا المشرکین‘  کی شرح میں لکھتے ہیں :

فی حدیث أبی ھریرۃ عند مسلم خالفوا المجوس و ھو المراد فی حدیث ابن عمر فانھم کانوا یقصون لحاھم ومنھم من کان یحلقھا
’’حضرت ابوہریرہ کی حدیث جو مسلم میں ہے، اس میں ’خالفوا المشرکین‘ کی جگہ ’خالفوا المجوس‘ کے الفاظ ہیں اور اس حدیث میں بھی یہی مراد ہے کیونکہ مجوسیوں کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنی ڈاڑھیاں کاٹتے تھے اور ان میں سے بعض اپنی ڈاڑھیاں مونڈتے تھے ۔‘‘

ابن حجر کی اس تشریح اور تاریخ و سیر کی کتب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین مکہ بھی اپنی ڈاڑھیوں کو چھوڑتے تھے ۔ 

مسلم کی روایت میں الفاظ ہیں: 

جزوا الشوارب و أرخوا اللحی خالفوا المجوس (صحیح مسلم)
’’مونچھوں کو پست کرو اور داڑھی کو چھوڑ دو۔ مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘

اللہ کے رسول ﷺ کے ان فرامین سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے دین ابراہیمی کی اس روایت کو بطور دین اس امت میں جاری کیا اور ڈاڑھی منڈانے کو مجوسیوں کی تہذیب قرار دیا۔ 

ایک دوسری مثال لیجیے۔ صحابہ کرام اور امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت کے سر کے بال اس کے ستر میں داخل ہیں اور تواتر عملی سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ عورتیں ہمیشہ سے ایک بڑی چادر لے کر گھر سے باہر نکلتی ہیں جس سے وہ اپنے سارے جسم کو ڈھانپ لیتی ہیں ۔لیکن غامدی صاحب عورت کے ہاتھ ،پاؤں اور چہرے کے ساتھ ساتھ سر کے بالوں کوبھی ستر شمار نہیں کرتے ۔دوپٹے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اصل میں ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ ان کی تہذیب و ثقافت کیا ہے اور انھیں کن حدود کا پابند رہ کر زندگی بسر کرنی چاہیے۔دوپٹا ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے، اس بارے میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ دوپٹے کو اس لحاظ سے پیش کرنا کہ یہ شرعی حکم ہے ،اس کا کوئی جواز نہیں۔ البتہ اسے ایک تہذیبی شعار کے طور پر ضرور پیش کرنا چاہیے۔ اصل چیز سینہ ڈھانپنا اور زیب و زینت کی نمائش نہ کرنا ہے۔ یہ مقصد کسی اور ذریعے سے حاصل ہو جائے تو کافی ہے ۔اس کے لیے دوپٹا ہی ضروری نہیں ہے ۔‘‘ (ماہنامہ اشراق:مئی ۲۰۰۲،ص۴۷)

غامدی صاحب کس سادگی سے کہہ رہے ہیں کہ دوپٹے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم جاری نہیں کیا۔ سبحان اللہ عما یصفون۔ حالانکہ دوپٹہ تو سنت کی اس تعریف سے بھی ثابت ہوتاہے جو غامدی صاحب نے اختراع کی ہے۔ عورت کے ہاتھ ،پاؤں اور چہرے کے بارے میں تو علما کا اختلاف ہے کہ یہ عورت کے ستر میں داخل ہیں یا نہیں ،لیکن عورت کے سر کے بالوں کے بارے میں امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ یہ عورت کا ستر ہیں اور عورت کے لیے ان کو چھپانا لازم ہے۔ علاوہ ازیں امت مسلمہ میں تواترعملی سے یہ بات ثابت ہے کہ مسلمان عورتیں ،صحابیات کے زمانے سے لے آج تک جب بھی کسی کام سے گھر سے باہر نکلتی ہیں توایک بڑی چادر لے کر باہرنکلتی ہیں جس سے اپنے سارے جسم کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ اس تواتر عملی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام غزالی لکھتے ہیں :

لسنا نقول أن وجہ ا لرجل فی حقھا عورۃ کوجہ المرأۃ بل ہو کوجہ الأمرد فی حق الرجل فیحرم النظر عند خوف الفتنۃ فقط و ان لم تکن فتنہ فلا، اذ لم تزل الرجال علی ممر الزمان مکشوفی الوجوہ و النساء یخرجن منتقبات فلو استووا لأمر الرجال با لتنقب أو منعن من الخروج (احیاء العلوم،کتاب النکاحِ ، باب آداب المعاشرۃ)
’’ ہم یہ نہیں کہتے کہ مرد کا چہرہ عورت کے لیے ستر ہے جیسا کہ عورت کا چہرہ مرد کے لیے ستر ہے ،بلکہ مر د کا چہرہ (عورت کے لیے) ایسا ہی ہے جیسا کہ بے ریش بچے کا چہرہ مرد کے لیے ہے ۔یعنی اگر فتنے کا اندیشہ ہوگا تو اس (مرد)کی طرف دیکھنا حرام ہو گا اور اگر فتنہ نہ ہو تو پھر اس ( مرد ) کی طرف دیکھنا جائز ہے، کیونکہ ہمیشہ سے یہ بات چلی آرہی ہے کہ مرد ہر زمانے میں کھلے چہرے کا ساتھ باہر نکلتے ہیں ،جبکہ عورتیں نقاب پہن کر باہر نکلتی ہیں۔ اگر مرد بھی اس مسئلے میں عورتوں کے برابر ہوتے تو ان کو نقاب پہننے کاحکم دیا جاتا یا عورتوں کو باہر نکلنے سے منع کر دیا جاتا۔‘‘

یہاں امام غزالی ،عورت کے بال تو چھوڑیے ،نقاب یعنی چہرے کے پردے کے بارے میں اپنے زمانے کے مشاہدے کے سا تھ ساتھ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ وہ تواتر عملی سے ثابت ہے۔ اسی تواتر عملی کو علامہ ابو حیان اندلسی نے ’البحر المحیط‘ میں، ابن حجر عسقلانی نے ’فتح الباری ‘ میں اورامام شوکانی نے ’نیل الأوطار‘ میں نقل کیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ عورت کے بال بھی ستر میں داخل ہیں۔ اس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے اور صحابیات کے زمانے سے لے کر آج کل کے بگڑے ہوئے اور بے عمل مسلمان معاشروں میں بھی یہ دوپٹہ تواترعملی سے ثابت ہے ۔تہذیب کا مسئلہ آج کل کا مسئلہ توہو سکتا ہے لیکن آج سے چودہ صدیاں پہلے مروجہ معنوں میں تہذیب کا کوئی نام بھی نہیں جانتا تھا ۔اس وقت صحابیات کا اپنے سراور چہرے کو ڈھانپ کر رکھنا تہذیبی روایت نہیں تھی، بلکہ وہ اس پر عمل ،اسے اللہ کا دین سمجھ کرکرتی تھیں نہ کہ تہذیبی روایت!

خلاصہ کلام

غامدی صاحب کا تصور کتاب ہو یا تصور سنت، اس کے پیچھے ایک ہی بنیادی محرک نظر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی طرح دین اسلام کی ایسی جامع تعبیر پیش کی جائے جو تمام مذاہب سماویہ کو ایک بنا دے ۔اسی تصور کے تحت انھوں نے لفظ’کتاب‘ کے مفہوم میں تورات، انجیل اورزبورکو بھی شامل کر دیا [غامدی صاحب نے کتاب کا یہ مفہوم اپنے استاذ امام امین احسن اصلاحی صاحب سے لیا ہے۔ لفظ کتاب کے اس نادر مفہوم کو غامدی صاحب کی تفسیر’ البیان ‘اور ان کے استاذ امام کی تفسیر’ تدبر القرآن‘ میں ’ذلک الکتاب لا ریب فیہ‘ کی تشریح میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ’اصول ومبادی‘ کے حوالے سے بھائی طالب محسن نے غامدی صاحب کی کتاب کی جو تعریف بیان کی ہے، اس میں ان کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔غامدی صاحب نے ’اصول ومبادی‘ میں کسی جگہ کتاب کی تعریف بیان نہیں کی۔ انہوں نے اصول و مبادی کے آغاز میں قرآن کی تعریف بیان کی ہے جس کو بھائی طالب محسن نے کتاب کی تعریف کے طور پر پیش کر دیا۔ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن کتاب الٰہی کا ایک حصہ ہے، کل کتاب نہیں ہے۔ کتاب کے مفہوم میں ان کے نزدیک تورات ،انجیل اور زبور وغیرہ بھی شامل ہیں۔غامدی صاحب کے اس تصور کتاب کو ’اصول ومبادی ‘ کے صفحہ ۴۷ پر’ دین کی آخری کتاب‘ کے عنوان کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔] اور اسی تصور کے تحت انھوں نے ’سنت ‘کی نسبت حضرت ابراہیم کی طرف کی ،کیونکہ حضرت ابراہیم ہی وہ واحدشخصیت ہیں جن کی طرف اپنی نسبت کرنے میں یہودی ،عیسائی اور مسلمان فخر محسوس کرتے ہیں۔غامدی صاحب نے کتاب وسنت کی اصطلاحات کا اہل سنت کے ہاں معروف معنی لینے کی بجائے اپنا نیا معنی متعارف کروایا تا کہ وہ مذاہب سماویہ کو ایک جامع تصور اور فکر کے تحت جمع کر سکیں۔ لیکن ہمیں افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ غامدی صاحب نے مذاہب سماویہ کو اکٹھا کرنے کے چکرمیں امت مسلمہ کو تفرقے میں ڈال دیا۔ وہ امت جو آپ ؐسے لے کر آج تک اس تصور پر متفق تھی کہ کتاب سے مراد قرآن ہے جو آپؐ پر نازل ہوا اور سنت سے مراد آپؐ کی سنت ہے جو بذریعہ وحی خفی آپؐ کو ملی ،غامدی صاحب نے وحدت مذاہب سماویہ کے مقصد کے تحت کتاب وسنت کی ایسی تعریف بیان کی جو امت مسلمہ کے اس اجماعی تصور کے مخالف ہے جو آپؐ کے زمانے سے لے کر آج تک ان کے ہاں معروف ہے۔

غامدی صاحب اپنی فکر کو عالمی فکربنانے کے لیے کوشاں ہیں ،جبکہ صورت حال یہ ہے کہ شاید یہودی اور عیسائی تو ان کے تصورات کتاب و سنت کو تسلیم کر لیں، لیکن پورا عالم اسلام توکیا ،خوف خدا رکھنے والا کوئی ایک عالم بھی ان کے اس تصور کتاب وسنت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو گاجو کہ چودہ صدیوں سے امت میں رائج تصور کے خلاف ہے۔ غامدی صاحب کا خلوص اپنی جگہ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہود و نصاریٰ بھی غامدی صاحب کے تصور کتاب وسنت کو اسی وقت قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے جب غامدی صاحب اپنے اصولوں کی طرح فروع میں بھی ایسے تصورات پیش کریں جو کہ ان کے لیے قابل قبول ہوں اور غامدی صاحب خود نہ سہی، لیکن ان سے مستفید ہونے والے سکالرز بخوبی یہ فریضہ بھی سر انجام دے رہے ہیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ غامدی صاحب کی سر پرستی میں شائع ہونے والے انگریزی رسالے Rennaisance  میں ہم جنس پرستی کو فطرت انسانی قرار دیا جا رہا ہے۔ 

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلَن تَرْضَی عَنکَ الْیَہُودُ وَلاَ النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ (البقرۃ :۱۲۰)
’’اے نبی ﷺ یہود و نصاریٰ آپ سے اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کریں ۔‘‘

لہٰذا غامدی صاحب کو چاہیے کہ مذاہب سماویہ کو جمع کرتے کرتے امت مسلمہ میں انتشار پیدا نہ کریں ۔اگر وہ مذاہب سماویہ کو اکٹھا کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس بنیاد پر اکھٹا کریں جو کہ خود قرآن نے پیش کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْْئاً وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْہَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران:۶۴)
’’اے نبی ﷺ کہہ دیں، اے اہل کتاب، آؤایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں بعض ،بعض کو رب نہ بنا لیں اللہ کو چھوڑ کر،پس اگر تم پھر جاؤ گے (یعنی یہ ہمارے تمہارے درمیان جو اتحاد کی بنیاد ہے، اگر تم اس بنیاد پر ہم سے اتحاد کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گے) تو گواہ رہو کہ ہم تو مسلمان ہیں ۔‘‘

آراء و افکار

(ستمبر ۲۰۰۶ء)

تلاش

Flag Counter