شیعہ سنی تنازع اور اس کا پائیدار حل

ڈاکٹر محمد امین

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے دسمبر ۲۰۰۴ کے شمارے میں مولانا زاہد الراشدی صاحب نے اپنے ادارتی شذرہ بعنوان ’سنی شیعہ کشیدگی۔ چند اہم معروضات‘ میں تکفیر شیعہ کے بارے میں مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کے فتوے کی تصویب کرتے ہوئے کالعدم سپاہ صحابہ کے رویے کی شدت پر بھی گرفت کی ہے۔ مولانا اور ’الشریعہ‘ کا موقف ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کے فروغ، مسلکی اختلافات میں وسعت سے کام لینے اور رواداری کا مظاہرہ کرنے کی تلقین پر مشتمل ہوتا ہے جس کی ہر متوازن اور غیر جانبدار شخص تعریف وتائید کرتا ہے اور خود ہم اس کے مداحوں میں سے ہیں۔ تاہم تکفیر شیعہ کے بارے میں مولانا زاہد الراشدی نے جو کچھ لکھا ہے، ہماری طالب علمانہ رائے میں وہ بھی ایک لحاظ سے سخت موقف ہے۔ اس لیے ہم اس ضمن میں نیز اس مسئلے کے پائیدار حل کے لیے بعض تجاویز مولانا اور دوسرے اہل فکر ونظر کے لیے پیش کرنا چاہتے ہیں۔

مسئلہ تکفیر

جہاں تک تکفیر شیعہ کا تعلق ہے، ہمارے علم کی حد تک یہ اہل سنت کا کوئی متفق علیہ مسئلہ نہیں ہے، بلکہ غالباً یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمہور علماء اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ اہل تشیع کا نقطہ نظر غلط ہے۔ چلیے اسے گمراہی کہہ لیجیے، لیکن سوائے خلافیات اور مناظرہ کا ذوق رکھنے والے کچھ سخت موقف رکھنے والے علما کے، اکثریت نے کبھی انہیں کافر نہیں کہا اور نہ سمجھا۔ اسی طرح امت کے اہل علم کی اکثریت نے ان کے مزعومہ کفر کی بنا پر کبھی انہیں واجب القتل نہیں کہا اور نہ مسلم معاشرے میں بالعموم اہل سنت واہل تشیع میں قتل وغارت گری کا وہ ماحول رہا ہے جو اس وقت پاکستان میں ہے، بلکہ ان دونوں مسالک کے پیروکار مسلم معاشروں میں صدیوں سے امن وسکون سے رہتے آئے ہیں اور اب بھی رہ رہے ہیں۔

محترم مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کے فتوے میں دو باتیں محل نظر ہیں: ایک تو یہ کہ انہوں نے ’شیعہ‘ کا عمومی لفظ استعمال کر کے اور ان کے چند اہم قابل اعتراض عقائد کا ذکر کر کے انہیں کافر قرار دیا ہے۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اہل تشیع کے کسی وضاحتی موقف کو ماننے سے اس لیے انکار کر دیا ہے کہ وہ تقیہ پر مبنی ہو سکتا ہے۔ ہم ادب کے ساتھ عرض کریں گے کہ یہ دونوں باتیں عدل وانصاف کے مسلمہ معیارات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ پہلے جزیے کی تو خود مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بھی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کا اطلاق سارے شیعہ گروہوں پر نہیں ہو سکتا۔ ہم کہتے ہیں کہ سارے اثنا عشری شیعوں پر بھی اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا، کیونکہ سارے اثنا عشری شیعہ مذکورہ تینوں عقائد پر یقین نہیں رکھتے۔ لہٰذا انہیں ایک گروپ کے طور پر کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تکفیر مسلمین کے بارے میں سخت شرعی احکام کے پیش نظر احتیاط وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ فتویٰ یہ دیا جائے کہ جس شخص کے یہ اور یہ عقائد ہوں، وہ کافر ہے اور یہ نہ کہا جائے کہ سارے شیعہ کافر ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں اختلاف وانصاف کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ فریق مخالف اگر کسی الزام کے جواب میں کوئی وضاحت پیش کرے تو اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر ایک اثنا عشری عالم یہ کہے کہ وہ ان تینوں مذکورہ عقائد کا حامل نہیں تو ہمیں اس کی اس وضاحت کو قبول کرنا چاہیے اور یہ کہہ کر اسے رد نہیں کرنا چاہیے کہ تم تقیہ کر رہے ہو۔ یہ بھی واضح ہے کہ اس طرح کے علمی مسائل کا فیصلہ عوام الناس کی رائے پر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح خلافیات وجدلیات کا ذوق رکھنے والے شدت پسند انفرادی آرا کے حامل کسی ایک شخص یا بعض اشخاص کی رائے پر بھی کسی سارے گروہ کو مطعون نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً اگر کوئی مولانا عبید اللہ سندھی صاحب کی آرا بیان کر کے کہے کہ یہ سب اہل دیوبند کی رائے ہے یا مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی آرا بیان کر کے کوئی کہے کہ اہل ہند کے سب علماء احناف کی یہ آرا ہیں تو کیا اس بنیاد پر کوئی فیصلہ دینا صحیح ہوگا؟ اسی طرح اثنا عشری اہل تشیع میں سے کسی شدت پسند عالم دین نے اگر کبھی کوئی غلط بات لکھ دی ہے تو اس کی بنیاد پر سارے اثنا عشری گروہ یا سارے اثنا عشری افراد کو کافر کہنا صحیح نہ ہوگا۔

یہاں ایک اور بات بھی اہم ہے اور وہ یہ کہ فرض کیجیے کہ اہل سنت کا ایک عالم یا ایک عام شخص اگر کسی اثنا عشری عالم یا فرد کے بارے میں تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کے عقائد کافرانہ ہیں اور وہ اس کی نظر میں کافر ہے تو کیا اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ بندوق پکڑے اور اسے گولی مار کر ہلاک کر دے؟ یہ تو قرآن وسنت میں کہیں بھی نہیں لکھا۔ اہل سنت کے کسی امام نے بھی اس کا فتویٰ نہیں دیا۔ پھر اسے جائز کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے اور موجودہ قتل وغارت گری کی شرعی اساس کیا ہے؟

خلاصہ یہ کہ سارے شیعوں کی تکفیر کا بلا استثنا فتویٰ نہیں دینا چاہیے بلکہ صرف اس شخص کے کفر کا فتویٰ دینا چاہیے جو تسلیم کر ے کہ اس کے یہ عقائد ہیں۔ دوسرے یہ کہ جو شخص وضاحت طلبی پر ان عقائد سے براء ت کا اظہار کرے، اس کا موقف قبول کیا جانا چاہیے اور یہ کہہ کر اسے رد نہیں کرنا چاہیے کہ وہ تقیہ کر رہا ہے۔ اور تیسرے یہ کہ اگر اہل سنت کے کسی شخص کی رائے میں اہل تشیع کا کوئی شخص کفریہ عقائد رکھتا ہو اور اس کی رائے میں وہ صریحاً کافر ہو تو بھی اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے اور اسے خود قتل کر دے۔ کسی فرد یا گروہ کے ارتداد یا قتل کا فیصلہ کرنا مسلم ریاست کا کام ہے نہ کہ کسی فرد کا، جیسا کہ قادیانیوں کی تکفیر کے بارے میں ہمارے سامنے ایک فیصلہ ہو بھی چکا ہے۔

کسی التباس سے بچنے کی خاطر ہم یہاں یہ وضاحت کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ ذاتی طور پر ہمارا عقیدہ وہی ہے جو جمہور اہل سنت کا ہے یعنی جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ موجودہ قرآن اصلی نہیں، جو صحابہ پر سب وشتم روا رکھتا ہو اور انہیں کافر سمجھتا ہو، اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی رہنما کو ان ہی کی طرح معصوم عن الخطا اور صاحب دعوت (گویا نبی) سمجھتا ہو، ہمارے نزدیک بھی وہ کافر ہے۔

سنی شیعہ تنازع کا حل

تکفیر شیعہ کے بارے میں ہماری گزارشات تمام ہوئیں۔ لیکن اس مسئلے کا ایک اور اہم پہلو بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں اس وقت جو شیعہ سنی کشیدگی پائی جاتی ہے، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اہل سنت کے سارے علماء اور عامۃ الناس اہل تشیع کو کافر سمجھتے ہیں، بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ اہل تشیع ہمارے معاشرے میں صدیوں سے رہ رہے ہیں لیکن اکا دکا واقعات کے سوا جن میں کسی ایک طرف سے کسی شدت پسند شخص کی زیادتی ہوتی ہے، کبھی اس طرح کی قتل وغارت گری والی صورت پیدا نہیں ہوئی جو اس وقت پاکستان میں پیدا ہو چکی ہے۔ لہٰذا موجودہ تنازع کی اصل وجہ اہل تشیع کے عقائد نہیں ہے، بلکہ اگر تعیین کے ساتھ تصریح کی جائے تو یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ دراصل عموم اہل سنت اور عموم اہل تشیع میں اس وقت بھی کوئی کشیدگی نہیں پائی جاتی۔ کشیدگی دراصل اہل سنت میں سے دیوبندی حضرات کے ایک گروپ اور اہل تشیع کے ایک بڑے گروپ میں ہے، ورنہ ان دونوں گروہوں کے علاوہ شیعہ سنی عامۃ الناس میں باہم کوئی نفرت ہے اور نہ اہل سنت واہل تشیع کی ساری دینی قیادت اس میں شامل ہے۔ تو اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں گروپوں میں جھگڑے کی وجہ کیا ہے اور اس کی ابتدا کس نے کی ہے؟ کچھ کہنے سے پہلے یہ ہم یہاں یہ صراحت کر دیں کہ ہم کسی گروہ کے حامی ہیں نہ مخالف، ہم تو دونوں کے خیر خواہ ہیں اور ہماری رائے محض غیر جانبداری اور معروضیت پر مبنی ہے۔

ایرانی انقلاب کی کامیابی پچھلی دہائیوں کا ایک اہم واقعہ ہے۔ وہاں انقلابیوں کو کامیابی ملی تو انہوں نے اس انقلاب کو برآمد کرنا چاہا۔ اب عملاً صورت حال یہ ہے کہ اس پوری پٹی میں اہل تشیع موجود ہیں۔ عراق، شام، بحرین میں معتد بہ تعداد میں اور سعودی عرب، امارات، پاکستان، افغانستان میں معمولی مقدار میں۔ چنانچہ ان ممالک کی شیعہ اقلیتوں میں اضطراب اور ہیجان کی کیفیت پید اہو گئی۔ بعض لوگوں کے نزدیک ایرانی انقلابیوں کی اپنے انقلاب کو برآمد کرنے کی خواہش فطری تھی، لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس میں معروضیت کو پیش نظر رکھنا ضروری تھا کہ ہوش جوش پر غالب نہ آئے ، ورنہ گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں پیدا ہوئے۔

پھر عقل ومنطق، حق وانصاف اور دوسرے ملکوں میں عدم مداخلت کے بین الاقوامی اصول ومعاییر سے ایک لحظہ کے لیے صرف نظر کرتے ہوئے، ایران کے اپنے قائم کیے ہوئے معیار کو دیکھا جائے تو بھی اس بات کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ پاکستان میں ’’تحریک نفاذ فقہ جعفریہ‘‘ کی بنیاد رکھی جائے۔ ایران نے یہ اصول اپنے دستور میں لکھا ہے اور وہ اس پر عمل پیرا بھی ہے (اور ہمارے نزدیک بھی یہ اصول صحیح ہے) کہ ملک کا دستور اور عام قانون وہ ہوگا جو ملک کی اکثریت کا عقیدہ ہے، حکومت بھی انہی کی ہوگی لیکن اقلیتی نقطہ نظر کے حقوق بھی پامال نہیں کیے جائیں گے۔ چنانچہ ایرانی دستور اور قوانین اثنا عشری عقائد کے مطابق ہیں اور اسی عقیدے کے حامل لوگ اقتدار میں ہیں۔ اسی اصول کا اطلاق پاکستان میں بھی ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں اہل تشیع کی تعداد پانچ سات فی صد سے زیادہ نہیں (چونکہ مصدقہ اعداد وشمار موجود نہیں لہٰذا اہل تشیع اگر کچھ زیادہ تعداد کا دعویٰ کریں تو بھی صورت حال پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا) اس لیے یہاں ملک کا قانون تو وہی بنے گا جو اکثریت (اہل سنت) کا ہے، لہٰذا یہاں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ قائم کرنا اور اس کے لیے عملاً جدوجہد کرنا اور دھرنے دینا غیر منطقی بھی ہے اور نا انصافی بھی۔ یہ خود ایران کے اپنے بنائے ہوئے اصول کے بھی خلاف ہے لہٰذا یہاں فقہ جعفریہ کے نفاذ کا مطالبہ کرنا یا الگ تعلیمی نصاب کا مطالبہ کرنا بلاجواز تھا اور ہے۔ اس پر جب ایرانی پشت پناہی سے دھن اور دھونس سے عمل کروانے کی کوشش کی گئی اور عاقبت نااندیش پاکستانی حکومتیں بھی بروقت صحیح فیصلہ نہ کر سکیں تو ا س کا رد عمل ہوا اور اہل سنت میں سے ایک گروہ اس کی مزاحمت پر تل گیا۔ اگر یہ عمل اور رد عمل پرامن اور علمی رہتا تو شاید قابل برداشت ہوتا، لیکن ایک دفعہ جب قانو ن ہاتھ میں لے لیا گیا تو بظاہر ظالم ومظلوم برابر ہو گئے۔ اب دونوں گروہ ایک دوسرے کے آدمی مار رہے ہیں اور مسابقت اور مقابلہ اس میں ہے کہ کس نے کس کے زیادہ آدمی مارے! انا للہ وانا الیہ راجعون۔ نہ کسی کو دین وشریعت کی پروا ہے اور نہ حق وانصاف کی۔ یہ قوم کی بدقسمتی ہے۔ یہ ایک مصیبت ہے بلکہ مصیبت کبریٰ ہے اور ہم جیسے عام مسلمان یہ دیکھ کر کڑھتے ہیں اور یہ سوچ کر پریشان ہوتے ہیں کہ اس مصیبت سے امت کو کیسے نکالا جائے؟

اس صورت حال کی اصلاح کے حوالے سے دو باتیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ حکومت پاکستان (بلکہ اسٹیبلشمنٹ کہنا چاہیے کیونکہ حکومتیں تو بدلتی رہتی ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ یعنی سول اور ملٹری بیورو کریسی اور جاگیردار وسرمایہ دار سیاست دانوں کی مستقل ہیئت مقتدرہ ہمیشہ قائم رہتی ہے) نے اس سلسلے میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا اور نہ آئندہ اس سے اس کی توقع ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کی پالیسی ہی یہ ہے کہ دینی عناصر کو آپس میں لڑاؤ تاکہ یہ متحد ہو کر مضبوط نہ ہو جائیں اور ان کے لیے کوئی سنجیدہ چیلنج نہ بن جائیں۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ ہر مسلک کی اپنی سیاسی جماعت ہے بلکہ ہر مسلک میں جتنے لیڈر ہیں، اتنی ہی دینی وسیاسی جماعتیں ہیں اور انتخابات میں ان کو ایک دوسرے کے خلاف لڑایا جاتا ہے تو کیا یہ محض اتفاق ہے؟ اور کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ حکومت ہر مسلک کی مسجد اور مدرسے کو رجسٹرڈ کر کے باقاعدہ سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے اور اس نے ہر مسلک کی دینی تعلیم کا ایک وفاق منظور کیا ہوا ہے جس کی اسناد کو وہ تسلیم کرتی ہے۔ نہیں جناب! یہ سب کچھ اتفاقیہ اور الل ٹپ نہیں ہو رہا، اس کے پیچھے اسٹیلبشمنٹ کی باقاعدہ سوچ اور منصوبہ بندی ہے اور ان اقدامات کے ذریعے سے اس نے کامیابی سے دینی عناصر کے اندر افتراق کے بیج بوئے ہیں اور انہیں پروان چڑھایا ہے۔ ہمارے علما اگر ’بھولے بادشاہ‘ نہ بنیں اور بصیرت وتدبر سے کام لیں تو ان کو یہ سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ حکومت اگر چاہے تو مسلک پر مبنی سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ نہ کرے یا دینی تعلیم کے بہت سارے وفاقوں کی جگہ ایک وفاق بنا دے اور مسجدیں ومدرسے مسلکی بنیادوں پر رجسٹر نہ کرے ، لیکن وہ تو اس مسلک پرستی کو فروغ دینا چاہتی ہے، علما کو آپس میں لڑانا چاہتی ہے لہٰذا اسے ان اقدامات کی کیا ضرورت ہے؟ 

تو خلاصہ یہ کہ ہماری کسی حکومت نے شیعہ سنی اختلافات کو پاٹنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں کی اور نہ ہمیں موجودہ یا آئندہ کسی حکومت سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ موجودہ شیعہ سنی تنازع کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کردار ادا کرے گی۔ لہٰذا ا س کا ایک ہی حل ممکن ہے اور وہ یہ ہے کہ شیعہ سنی متحارب گروپوں کے علاوہ جتنے بھی دردمند دینی اور ملی عناصر ہیں، وہ اکٹھے ہو کر ایک کمیشن، کمیٹی یا عدالت بنا لیں جو اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرے اور اس کے اسباب دور کرے۔ اوپر اوپر سے لیپا پوتی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں (جس طرح حکومت کرتی ہے کہ جب محرم آئے یا مسلسل قتل وغارت گری کی وارداتیں ہوں تو علماکو صدر اور وزیر اعظم یا گورنر صاحب سے ملوایا جاتا ہے، اتحاد کے حق میں بیان دلوائے جاتے ہیں، حکومت دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے اعلان کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور جب محرم گزر جاتا ہے یا وارداتیں کچھ ٹھنڈی پڑ جاتی ہیں تو پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ پھر اگلے سال جب محرم آتا ہے یا وارداتیں تیز ہوتی ہیں تو پھر وہی بیانات اور اٹھک بیٹھک دہرائی جاتی ہے اور عملاً کوئی دیرپا اقدام مسئلہ سلجھانے کے لیے نہیں کیا جاتا) اس طرح کی ایک ’’ملی یک جہتی کونسل‘‘ پہلے بنی بھی تھی، لیکن اس نے بھی ٹھوس منصوبہ بندی سے اس تنازع کے مستقل خاتمے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرض کو جڑ سے ختم کیا جائے۔ اس غرض سے ضروری ہے کہ دردمند، جہاں دیدہ اور غیر جانبدار لوگوں پر مشتمل ایک کمیشن یا کمیٹی یا عدالت سارے دینی وملی عناصر کی طرف سے بنائی جائے جو اہل تشیع کو قائل کرے کہ وہ ایران کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نفاذ فقہ جعفریہ کی تحریک اور جدوجہد ختم کریں۔ (ہاں! اگر وہ چاہیں تو اپنے حقوق کے پرامن انداز میں تحفظ کے لیے کوئی انجمن، ادارہ یا سیاسی جماعت بنا سکتے ہیں) اس کے بعد سپاہ صحابہ کے بزرگوں سے بھی درخواست کی جائے کہ ہ اپنی تنظیم رضاکارانہ طور پر ختم کر دیں اور دینی وسیاسی مقاصد کے لیے دوسرے پلیٹ فارم استعمال کریں۔ یہ کام ایک آدھ دن یا ایک آدھ نشست کا نہیں بلکہ اس کے لیے مسلسل محنت کرنی پڑے گی لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر اخلاص، غیر جانب داری اور درد مندی کے ساتھ یہ کوشش کی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائیں گے اور اس کے اچھے نتائج نکلیں گے۔ ان شاء اللہ۔ ہم مولانا زاہد الراشدی صاحب سے درخواست کریں گے کہ وہی اس نیک کام کی ابتدا کریں اور مختلف مسالک کے سرکردہ اور معتدل علماء کرام (ترجیحاً غیر سیاسی) پر مشتمل ایک بڑا کمیشن یا عدالت بنوائیں جو اس مسئلے کو جڑ بنیاد سے ختم کرنے کی کوشش کرے اور ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرے۔

امت مسلمہ کو اتحاد کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ سقوط بغداد اول کے وقت شیعہ سنی اور دوسرے فرقے آپس میں لڑ رہے تھے، یہاں تک کہ ہلاکو خان نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ آج پھر ایک ہلاکو خاں کے ہاتھوں بغداد کا دوبارہ سقوط ہو چکا ہے، افغانستان روندا جا چکا ہے، ایران کی باری آیا چاہتی ہے اور ہمارا نمبر شاید اگلا ہو، لیکن ہم شیعہ سنی ہونے کی بنا پر آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں، متحد ہونے کو تیار نہیں، حالانکہ ہلاکو کی فوج نے جب حملہ کیا تو شیعہ سنی میں تمیز نہیں کی تھی، سب کو مسلمان سمجھ کر مارا تھا۔ بش بھی آج مسلمانوں کو مار رہا ہے، وہ شیعہ سنی میں تفریق نہیں کرتا۔ جو بھی مسلمان ہو، وہ اس کے نزدیک گردن زدنی ہے، لیکن ہم شیعہ سنی کی بنیاد پر ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں، خود کو کمزور کر رہے ہیں، دوسروں کو اپنے اوپرہنسنے کا اور دشمنوں کو اپنے اندر گھسنے کا موقع دے رہے ہیں، لیکن عبرت پکڑنے کو تیار نہیں، سبق سیکھنے کو تیار نہیں، متحد ہونے کو تیار نہیں! کیا ہم نے خود کشی کا ارادہ کر لیا ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

مکاتب فکر

(مئی ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter