مکاتیب

ادارہ

(۱)

عزیز محترم حافظ محمد عمار ناصر زیدت مکارمکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

تازہ شمارہ میں محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی کا الشریعہ اکادمی کے حریم بادہ نوشاں ۔فکری نشست۔ سے خطاب بالاستیعاب پڑھ سکا۔ موصوف نے بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے۔ یہ سچ ہے، مگر ہمارے فکری انتشار کے بعض اہم پہلوؤں پر وہ توجہ نہیں فرمائی جو اس کا حق تھا۔ عصری علوم سے ہماری دوری یقیناًایک اہم معاملہ ہے، بے شک، لیکن ہمارے قعر مذلت میں جا گرنے کا ایک اہم سبب ہمارے اصل منصب ’کنتم شہداء علی الناس‘ سے رو گردانی ہے۔ بقول اقبال ؂ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔ ہماری خاص ہیئت ترکیبی سے ہمارا اغماض، شرک زدہ قوموں کی عقلی میراث کا اتباع ہی تو ہے۔ غزالی کا المنقذ من الضلال اس پر گواہ ہے۔

گر بہ استدلال کار دیں بود
فخر رازی راز دار دیں بود

بقول مولانا عیسیٰ منصوری ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات میں اضافہ فرماتا رہے۔ آمین۔ آج فخر الدین رازی کی نہیں، ابن عربی کی ضرورت ہے۔ ہم تو صدیوں سے اصل کو چھوڑ کر یونانیوں اور ایرانیوں کی طرح قال قالا قالوا قلن قلتن  کی خرافات میں ٹھہر گئے ہیں۔ اس دلدل سے کب کوئی قوم عہدہ برآ ہو سکی۔ اب تو ہمارا ہر کام بغیاً بینہم، ایک دوسرے کو عقلی ومنطقی ’’شہ مات‘‘ دینے کی کوششوں سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے۔ 

ملل سابقہ میں مصری تہذیب اور سیدنا سلیمان کے زمانے کی تہذیب جن مادی بلندیوں پر گئی، اس سے آپ سب واقف ہیں۔ اور بقول اقبال ’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی‘ کے مصداق یہ ساری عمارتیں محض شرکی وجہ سے ڈھے گئیں۔ آپ قوم سبا کے ذکر ہی کو لیجیے۔ یا تو وہ عالم تھا کہ ’بلدۃ طیبۃ ورب غفور‘ یا پھر وہ حالت کہ سارا ملک جھاڑ جھنکار ہو گیا۔

اس پورے خطاب میں اخلاقی وروحانی ہتھیار کا وہ ذکر نہیں جو ہونا چاہیے تھا۔ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ’واعدوا لہم مااستطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل‘  کی ضرورت سے غافل تھے؟ اور کیا ان کی محیر العقول کامیابیوں کا سبب محض علوم ظاہری میں برتری تھی؟ بلکہ ’’خلق عظیم‘‘ کا بحد توفیق جاں نثارانہ اتباع جو ’ان کنتم مومنین‘ کے بغیر ممکن نہیں، شرک کو اس کے ہر رنگ میں پہچاننے کے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ مجھے معاف کرے، موصوف خود علوم جدیدہ سے اتنے مرعوب ہیں کہ جو حل انھوں نے تجویز فرمائے ہیں، اسے پڑھ کر تو زبان سے یا للعجب نکلتا ہے۔ ’تا تریاق از عراق آوردہ شود، مار گزیدہ مردہ شود‘ ہی نکلتا ہے۔

(ایک محترم اور بزرگ قاری)

(۲)

محترم جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

وبعد!

گزشتہ دنوں محترم جناب پروفیسر حافظ محمد منیر صاحب کی وساطت سے آپ کے موقر ماہنامہ جریدے ’الشریعہ‘ سے تعارف ہوا جس کی فکر انگیز تحریروں نے بلاشبہ سوچ پر نقش چھوڑے ہیں۔ میں چونکہ خود نوائے وقت کے سیاسی ہفت روزہ ’ندائے ملت‘ سے وابستہ ہوں جہاں پر اسلامی دنیا، اسلامی تحریکیں اور مغرب کے ساتھ اسلام کی فکری اور سیاسی پنجہ آزمائی میرا شعبہ ہے، اس تناظر میں آپ سے یہی گزارش کروں گا کہ آپ کے اس موقر جریدے میں جدید فکری کشمکش کے حوالے سے ابھی بہت گنجایش ہے اور اس کو آپ جیسے دردمند افراد ہی پورا کر سکتے ہیں۔ مغرب عالمی صہیونیت کے ایما پر آج ہمیں فکر وعلم اور عمل کے ہر میدان میں للکار رہا ہے اور ایسی حالت میں مقابلے کی دعوت دے رہا ہے کہ تمام دنیاوی وسائل اس کے قبضے میں ہیں جبکہ ’’امت وسطی‘‘ جس کے کاندھوں پر انبیا کی دعوت کی ذمہ داری ڈالی گئی، بدقسمتی سے اس سلسلے میں بے وسیلہ سی نظر آ رہی ہے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے میں آپ کے موقر جریدے کے ذریعہ یہی کہہ سکوں گا کہ ماضی کے شان وشوکت کے قصے یاد کرنے اور مستقبل کی امیدوں پر آس لگانے کی بجائے اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے جدید علوم کی جانب راغب ہوں، ایسے ادارے قائم کرنے کی کوشش کریں جہاں مغربی ممالک کی لغات اور ان کے فکری محاسن ومراجع کی تعلیم دی جائے اور پھر ان کو ان کی ہی زبانوں میں اسلامی حقانیت اور مغرب کا فکری کھوکھلا پن ظاہر کیا جائے۔ میں آپ کو اور اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام کی طاقتور دعوت کا جواب تمام مادی وسائل ہونے کے باوجود نہیں دیا جا سکتا۔ میں خود اس سلسلے میں مغرب کی جامعات میں دوران تعلیم ان حقائق کا مشاہدہ کر چکا ہوں۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اس دعوتی ذمہ داری میں سرخرو کرے۔ آمین

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

خیر اندیش

محمد انیس الرحمن

انچارج بین الاقوامی امور

ہفت روزہ ندائے ملت (نوائے وقت) لاہور

(۳)

مکرم جناب زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔

’الشریعہ‘ میں مغربی فکر وفلسفے کے حوالے سے مضامین کی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مغرب اسلام سے بخوبی آگاہ ہے، لیکن ہم مغربی فلسفے سے قطعاً آگاہ نہیں۔ اس کمی کے باعث مغرب کی بے جا مخالفت یا خواہ مخواہ حمایت کا رویہ عام ہو گیا ہے۔ افراط وتفریط کی اس روش سے بچنے کے لیے آپ جیسے علماء کا وجود غنیمت ہے۔ آپ کے رسالے میں مہاتیر محمد، وزیر اعظم ملیشیا اور ڈاکٹر غازی صاحب کی تین تقاریر شائع ہوئی ہیں۔ تینوں کا منہاج یکساں ہے۔ براہ کرام اس موضوع سے متعلق دوسرے نقطہ ہائے نظر بھی شائع فرمائیے تاکہ قارئین آپ کے علم سے استفادہ کر سکیں۔

عمر حمید ہاشمی

(نائب ناظم)

شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ

جامعہ کراچی۔ یونیورسٹی روڈ۔ کراچی


(۴)

مخدوم گرامی قدر حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟

’الشریعہ‘ مارچ ۲۰۰۵ کے شمارے میں محترم المقام ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کا مقالہ پڑھنے کا موقع ملا۔ آپ کی دعوت کے باوجود ڈاکٹر صاحب کا مقالہ بالمشافہہ سننے کی جو محرومی وتشنگی تھی، الحمد للہ دور ہو گئی۔ استاذ مکرم مولانا چنیوٹی صاحب مرحوم سے ڈاکٹر صاحب کی تعریف بارہا سنی تھی، لیکن وہ صرف عربی وانگلش پر مہارت کے حوالے سے تھی۔ یہ مقالہ پڑھ کر ڈاکٹر صاحب کی وسعت نظر کا اندازہ ہوا اور یہ امر ان کے ساتھ غائبانہ عقیدت ومحبت میں اضافہ کا باعث بنا کہ وہ کاندھلہ کے علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سلامت باکرامت رکھے۔ آمین۔

ڈاکٹر صاحب محترم اپنے علمی ذوق اور وقت کی ضرورت کے پیش نظر ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر اکرام الحق صاحب مدظلہ سے تفسیر قرطبی کا اردو ترجمہ کرا رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ بھی ایک اہم کام ہے۔ میں ان سطور میں آپ کی وساطت سے چند مزید امور کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ 

۱۔ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں فلکیات، موسمیات، جغرافیہ وغیرہ علوم کی طرف اشارات ہیں، اگر ان علوم کی اصطلاحات سے واقفیت ہو جائے تو متعلقہ آیات کی بہت عمدہ تفسیر ہو سکتی ہے۔ یہ ایک کمی اور خلا محسوس ہوتا ہے۔ محض اس بنا پر کہ سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں، سائنس کو مسترد کر دینا مناسب طرز عمل نہیں ہے۔ بعض حضرات قرآن مجید کی ہر ہر آیت سے سائنسی نظریات کی تائید کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیے۔ افراط وتفریط نہیں ہونی چاہیے۔ طب نبوی اور جدید سائنس کے موضوع پر ڈاکٹر خالد غزنوی صاحب نے لکھنے کی ابتدا کی۔ اچھی محنت کی۔ اس کے بعد تو اس موضوع پر مستند وغیر مستند کتابوں کی بھرمار ہو گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض حضرات اس موضوع کو ایک فیشن کا درجہ دے کر اس پر خامہ فرسائی کر رہے ہیں۔ احقر سمجھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب محترم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسرز واسکالرز سے اپنی زیر نگرانی بہتر انداز میں یہ کام کروا سکتے ہیں۔

۲۔ علم نفسیات کہنے کو تو جدید علم ہے، مگر اس کے اصول وضوابط کی بنیادیں اسلامی تعلیمات میں مل جاتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات، انسانی نفسیات کے عین مطابق ہیں۔ حضور علیہ السلام سب سے بڑے ماہر نفسیات بھی تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ نفسیات کے بعض پروفیسر اس موضوع پر کام کرتے رہے ہیں۔ احقر کی معلومات کے مطابق وہ ناتمام ہے۔ چند برس پہلے سعدیہ غزنوی صاحبہ نے ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بطور ماہر نفسیات‘‘ نامی کتاب لکھی۔ اس پران کو صدارتی ایوارڈ بھی ملا، لیکن بہرحال وہ ابتدائی کوشش ہے، حرف آخر نہیں۔ مصنفہ مزید لکھ سکتی تھیں، لیکن کسی وجہ سے نہیں لکھ سکیں۔ اس موضوع پر مزید کام درکار ہے۔

۳۔ فلسفہ کو دین اسلام اور سائنس، دونوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ فلسفہ کے بعض نظریات، خلاف اسلام ہیں اور بعض جدید سائنسی علوم کے خلاف ہیں۔ دونوں پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت اقدس تھانویؒ نے ’التلخیصات العشر‘ میں اس موضوع پر کچھ محنت کی ہے، لیکن وہ ابتدائی کام ہے۔ اس کام کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ بھی لکھا جائے، آسان اور عام فہم ہو۔ ’’فہم فلکیات‘‘ کی طرح چیستان نہ ہو۔ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب ان موضوعات پر بھی توجہ فرمائیں تو اپنے اثر ورسوخ کی بدولت بہت کچھ لکھوا سکتے ہیں۔ امید واثق ہے کہ وہ ضرور توجہ دیں گے۔ وما علینا الا البلاغ۔

والسلام

(مولانا) مشتاق احمد

استاذ جامعہ عربیہ، چنیوٹ

(۵)

جناب پروفیسر وقار افضل صاحب 

السلام علیکم!

امید ہے مزاج بخیر ہوں گے 

بہت خوشی ہوئی کہ خاکسار کی ٹوٹی پھوٹی تحریریں آپ جیسے ذی وقار معلم کے ہاں افضل ٹھہرتی ہیں ۔ حوصلہ افزا کلمات کے لیے تہہِ دل سے مشکور ہوں ۔ 

جہاں تک کلیم احسان کے شعر کی تشریح میں فکری ابہام کا تعلق ہے کہ مٹھی میں جگنو سے انانیت کا سراغ نہیں ملتا بلکہ خوف یا خدشے کا اظہار ہوتا ہے، بظاہر درست معلوم ہوتا ہے۔لیکن ناچیز کی ناقص رائے اب بھی یہی ہے کہ مٹھی میں جگنو انانیت کا آئینہ دارہے کیونکہ اگر آپ کی رائے پر بھی غور کیا جائے تو مطلب یہی نکلتا ہے ۔ آپ نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ’’وہ اس طرح کہ ہتھیلی سے جگنوکے اڑنے کا اندیشہ ہے ۔ ‘‘ کیا اس بات کے یہی معانی نہیں کہ ہمارا شاعر جگنو کو possess کرتا ہے ؟ possession کی یہی نفسیات ایک طرف (واقعاتی حوالے سے ) ہتھیلی کے بجائے مٹھی کو ترجیح دیتی ہے تو دوسری طرف (فکری اعتبار سے ) انانیت کی علامت بنتی ہے ۔ البتہ یہ الگ بحث ہے کہ اس انانیت کے پیچھے خوف چھپا ہوا ہے یا کوئی اور معاملہ ہے ۔ وقار صاحب ! آپ سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ اس انانیت اور possession کے پیچھے درحقیقت خوف ہی گھات لگائے بیٹھا ہے ۔پھر خوف ، خدشے یا ڈر کی نوعیت ، انانیت کے مثبت یا منفی ہونے کا اشارہ کرتی ہے ۔ ناچیز کی رائے میں ، اس شعر میں جگنو کا استعارہ اور راستہ دکھائے جانے کا پورا یقین ، انانیت کے مثبت ہونے پر دال ہے کیونکہ یہ انانیت ظلمت کی بھول بھلیوں کے مقابل روشن راہ کی حامل ہے ۔ تاریکی کے متوقع دوراہے اور ظلمت کی امکانی بھول بھلیا ں کلیم کے اندیشوں کا سبب ہیں ۔

وقار صاحب ! جہاں تک میر و ناصر کی شعری روایت کی ترفیع کے حوالے سے ، کلیم کے اشعار کے انتخاب میں فروگزاشت کا تعلق ہے، اس کی بابت یہ کہنے کی جسارت تو نہیں کر سکتا کہ آپ خاکسار کی بات سمجھ نہیں سکے۔ البتہ یہ تسلیم کیے بنتی ہے کہ ناچیز اپنی بات صحیح طور کہہ نہیں پایا ۔ مضمون کی ابتدائی دو سطریں یہ تھیں :

’’چلو جگنو پکڑتے ہیں ‘‘ کلیم احسان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ۔ اس مجموعے میں اس شعری روایت کی ’’ترفیع ‘‘ جھلکتی ہے ، جو میر و ناصر کے ادوار سے گزر کر موسمِ گل کی حیرانگی میں رونما ہوئی اور خود اس مجموعے میں جا بجا بکھر گئی ۔‘‘

اس کے بعد جو اشعار پیش کئے گئے ہیں ، بلاشبہ وہ میر و ناصر کی باز گشت معلوم ہوتے ہیں ، کیونکہ مذکورہ سطروں میں اس شعری روایت کی طرف ہی اشارہ کیا گیا ہے۔ جہاں تک ترفیع کا معاملہ ہے اس کا ذکر پورے مجموعے کے تناظر میں کیا گیا ہے ، اسی لیے ان سطروں میں لفظ ’’مجموعہ ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ۔ امید ہے اب اس وضاحت کے بعد ، مضمون کی ابتدا میں اشعار کے انتخاب کو بطور بازگشت لیا جائے گا نہ کہ بطور ترفیع۔ 

ابہام کی طرف توجہ دلانے اور گہری دلچسپی ظاہر کرنے پر آپ کا ایک بار پھر مشکور ہوں ۔ 

والسلام

پروفیسر میاں انعام الرحمن 

(۶)

برادرم مولانا عمار ناصر صاحب زید مجدہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے مزاج اچھے ہوں گے۔ ’الشریعہ‘ ہر ماہ نظر سے گزرتا ہے اور اس کی تحریریں پڑھ کر قلب وذہن منور ہوتے ہیں۔ مارچ ۲۰۰۵ کے ’الشریعہ‘ میں مولانا سید سلمان الحسینی الندوی کے مضمون ’’اجتہادی اختلافات میں معاشرتی مصالح کی رعایت‘‘ میں جو نکتہ اٹھایا گیا ہے، وہ بے حد اہم اور وقت کی ضرورت کے مطابق ہے۔ ایک مجلس میں طلاق ثلاثہ کا موضوع ہمارے ہاں عام طور پر احناف اور اہل حدیث کے مابین ایک اختلافی نکتے کے طور پر زیر بحث آتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسے اس وقت ایک سنگین معاشرتی مسئلے کے طور پر دیکھنے اور اس کا معقول حل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ 

پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام ایک خاندان کے وجود میں آنے کے بعد انتہائی ناگزیر ضرورت کے بغیر اس کے ٹوٹنے کو پسند نہیں کرتا۔ ایک مجلس میں طلاق ثلاثہ کو، کوئی رعایت دیے بغیر، ہر حالت میں واقع ماننا شریعت کے اس منشا کے خلاف ہے۔ خاص طور پر ہمارے معاشرے میں ایسی صورت عام طور پر شرعی طریقے سے ناواقفیت اور محض وقتی جذباتی کیفیت کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے اور ایک لمحے میں پورا خاندان نادانی اور جذباتیت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ اسلام چھوٹے سے چھوٹا معاہدہ توڑنے کے لیے بھی سوچ بچار کا موقع دیتا ہے، جبکہ نکاح کو تو قرآن مجید میں ’میثاقا غلیظا‘ کہا گیا ہے۔ کیا اتنے بڑے معاہدے کو ایک لمحے میں ختم کر دینا اور غلطی کرنے والے کے لیے تلافی کا کوئی موقع باقی نہ رہنے دینا اسلام کے اصول عدل کے مطابق ہے؟

دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت اسلام کا خاندانی نظام خاص طور پر مغرب کی تہذیبی یلغار کا ہدف بنا ہوا ہے اور اس کے حملوں میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ طلاق ثلاثہ کے بارے میں اس قدر بے لچک موقف اختیار کر کے کہیں ہم بھی نادانستہ اس تہذیبی کشمکش میں مخالف قوتوں کے لیے مددگار تو ثابت نہیں ہو رہے؟

جہاں تک اس مسئلے کے شرعی پہلو کا تعلق ہے تو روایات سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک مجلس کے اندر تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔ اسی طرح خلیفہ اول سیدنا ابوبکر کے دور خلافت میں اور سیدنا عمر کے عہد کے ابتدائی دو سال تک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی تصور کی جاتی تھیں۔ اس کے بعد حضرت عمر نے مخصوص حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بحیثیت مجتہد اور خلیفہ کے یہ طے کیا کہ تین طلاقوں کو تین ہی تصور کیا جائے گا۔ سیدنا عمر فاروق کا یہ فیصلہ مخصوص معاشرتی صورت حال میں ایک اجتہادی فیصلہ تھا اور ایسی صورت میں بعض دفعہ اصل شرعی حکم کو عارضی طور پر معطل کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ زمانہ قحط میں انہوں نے چور کا ہاتھ کاٹنے کی سزا کو عارضی طور پر معطل فرما دیا اور جب قحط دور ہو گیا تو قطع ید کا حکم بھی اپنی اصل صورت میں بحال ہو گیا۔ گویا سیدنا عمر فاروق نے سوسائٹی کے اندر ایک خرابی کو دور کرنے کے لیے وقتی طور پر ایک فیصلے کو معطل کر کے دوسرا فیصلہ جاری کیا، لیکن یہ عبوری مدت کے لیے تھا نہ کہ مستقل اور ابدی طور پر۔

میں خود حنفی ہوں اور میں نے حنفی اساتذہ سے دینی تعلیم پائی ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ نکات کی روشنی میں اس مسئلے میں حنفی نقطہ نظر پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور میں متعدد ایسے حنفی علما کو جانتا ہوں جو اس ضرورت کا احساس بھی رکھتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلے کو ’الشریعہ‘ میں باقاعدہ بحث کا موضوع بنائیں اور اہل علم کو دعوت دیں کہ وہ شریعت کے مزاج اور سلف صالحین کی آرا کوسامنے رکھتے ہوئے امت کے لیے گنجایش نکالیں۔

فقط۔ والسلام

احمد الرحمن

خطیب جامع مسجد پاک سیکرٹریٹ

اسلام آباد

(۷)

محترم و مکرم مولانا عمار خان ناصر صاحب

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ‘

اللہ کی ذات سے امید کرتا ہوں کہ آپ بخیروعافیت ہوں گے۔ 

اپریل ۲۰۰۵ء کا ’’الشریعہ‘‘ پڑھا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ہر کتاب کے جنگل میں ایک شیر اور ایک گیدڑ ضرور چھپا ہوا ہوتا ہے، یعنی کہیں کوئی نہایت اعلیٰ چیز اور کہیں نہ کہیں کوئی کمزور چیز ضرور موجود ہوتی ہے، ’’الشریعہ‘‘ کے مطالعے کے بعد جنگل میں شیر کی موجودگی کی حد تک یہ بات رسالوں کے بارے میں بھی درست معلوم ہوتی ہے۔ مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب کا مضمون ’’قانونِ اسلامی کا اِرتقا اور امام ولی اللہ دہلویؒ ‘‘ پڑھا تو وہ شیر نظر پڑگیا۔ فرماتے ہیں: ’’ایک زمانہ تھا جب سو ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر زبان، تمدن، معاشرت اور رہن سہن کے طور طریق بدل جاتے تھے، مگر اب تیزی سے پوری دنیا کا کلچر، معاشرت، لباس اور طرزِزندگی ایک سا ہوتا جارہا ہے، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں کافرانہ (مغربی) ہوتا جارہا ہے۔ درحقیقت یہ تمہید ہے اِس بات کی کہ جلد ہی دنیا کا مذہب بھی ایک یعنی اسلام ہوگا، کیوں کہ قبولِ حق میں ایک رکاوٹ کلچر، تمدن اور طرزِزندگی کا اختلاف بھی رہا ہے۔۔۔ اِس لیے علماے کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دور اور اِس کے تقاضوں کو سمجھیں اور فروعی اختلافات کی شدت ختم کرکے اسلام کو ایک متفقہ شاہراہ کے طور پر پیش کریں۔۔۔‘‘

ایک ایسے دور میں جب کہ لوگ اُتنا اللہ سے نہیں ڈرتے جتنا پدرِفرنگ سے ڈرتے ہیں اور اچھے بھلے مسلمان بھی اپنا ’’اسلام‘‘ چھپائے رکھنے کو دین اور وقت کا تقاضا سمجھنے لگے ہیں، یہ ایک توانا آواز ہے جو نہ اسلام کے مستقبل سے مایوس ہے نہ مسلمانوں کی زبوں حالی اور زوال کی تصویر اُسے کم حوصلہ کیے ہوئے ہے۔ اِس بات کو پورے استحضار کے ساتھ کہنا کہ ’’درحقیقت یہ تمہید ہے اِس بات کی کہ جلد ہی دنیا کا مذہب بھی ایک یعنی اسلام ہوگا‘‘ ایک مجذوب کی بڑ نہیں بلکہ کھلی آنکھوں اور عمیق فہم والے ایک مدبر کے دل کی آواز ہے جو پوری بصیرت کے ساتھ اور اللہ کی قدرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر مکمل یقین ہونے کی کیفیت ہی میں کہی جاسکتی ہے۔ میں نے حضرت مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب کو زندگی میں صرف ایک ہی بار دیکھا ہے، جب وہ بھائی سید ذوالکفل کی شادی کے موقع پر تھوڑی دیر کے لیے دارِبنی ہاشم ملتان میں تشریف لائے تھے۔ اُن کا یہ جملہ پڑھنے کے بعد میں سوچتا ہوں کہ ایک دھان پان سا آدمی کیسا توانا دل لیے ہوئے ہے۔ اللہ اُن کی زندگی میں بہت برکت دے۔ آمین۔ 

والسلام، حافظ صفوان محمد چوہان

سینئر لیکچرر (کمپیوٹر اینڈ ڈیٹا سروسز)

ٹیلی کمیونیکیشن سٹاف کالج، ہری پور

(۸)

محترم ومکرم حضرت العلامہ زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے مزاج گرامی بخیر وعافیت ہوں گے۔

آپ کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں جولائی ۲۰۰۴ سے مارچ ۲۰۰۵ تک شیعہ سنی تعلقات کے حوالے سے دلچسپ اور سنسنی خیز مضامین شائع ہوئے ہیں جس میں مختلف حضرات کی آرا وافکار، تلخ نوائیاں اور شکوہ وشکایات سامنے آئی ہیں۔ مجھے اس بات سے قطعاً کوئی اختلاف نہیں کہ آپ نے شیعہ حضرات کے مضامین کیوں شائع کیے ہیں، بلکہ اس بات پر خوشی ہے کہ فرقہ واریت اور شیعہ سنی فسادات کے اس ماحول میں آپ نے فریقین کی توجہ باہمی رواداری کی طرف مبذول کروائی ہے جس کی موجودہ دور میں بے حد ضرورت بھی ہے، کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں سے ایک تیسرا گروہ (جس میں اسرائیل، امریکہ اور بھارت کے ایجنٹ شامل ہیں) ہمیں آپس میں لڑا رہا ہے اور ہم اس لڑائی کو سمجھ نہیں پا رہے۔ ہمارا سب سے بڑا جو نقصان ہوا ہے، وہ ہمارے قیمتی سرمایہ یعنی علماء کرام کا بے دریغ قتل ہے جن میں مولانا حق نواز، مولانا ضیاء الرحمن، مولانا ایثار قاسمی، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا محمد عبد اللہ، مفتی نظام الدین شامزئی اور مولانا اعظم طارق رحمہم اللہ جیسے قیمتی اور جید علما شامل ہیں۔ اسی طرح شیعہ برادری کے بھی بہت سے علما اور بے گناہ عوام قتل ہوئے ہیں، لیکن اس شیعہ سنی فساد اور بے دریغ قتل وغارت سے فریقین میں سے کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہاں! امریکا، اسرائیل اور بھارت کے ایجنٹوں اور آلہ کاروں نے ان فسادات سے ضرور فائدہ اٹھایا ہے۔

ہمارے علماء اہل سنت والجماعت شروع دن سے شیعہ سنی مسئلے کو درست تناظر میں دیکھتے رہے ہیں اور ہر نازک وقت میں انہوں نے شیعہ حضرات سے اتحاد اور اتفاق کی فضا کو قائم رکھا۔ تحریک ختم نبوت میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کا شیعہ حضرات کو ساتھ ملانا اور موجودہ ملکی وبین الاقوامی صورت حال کے پیش نظر متحدہ مجلس عمل میں شیعہ حضرات کی شمولیت ہمارے سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ رہی یہ بات کہ شیعہ سنی عقائد میں فرق ہے تو اس کے متعلق اکابر اہل سنت والجماعت یہ بتاتے چلے آ رہے ہیں کہ جو شیعہ تحریف قرآن کا قائل ہو، صحابہ کرام کو برا بھلا کہتا ہو، حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کرتا ہو، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس حوالے سے شیعہ حضرات کو بھی غور کرنا چاہیے اور اپنے لٹریچر سے ایسے مواد کو نکال دینا چاہیے جس میں صحابہ کرام کی (نعوذ باللہ) تکفیر اور حضرت عائشہ صدیقہ کی شان میں گستاخی ہو۔ اس کے متعلق شیعہ اور اہل سنت کے سنجیدہ اور معاملہ فہم حضرات کی ایک کمیٹی بننی چاہیے جس میں اس لٹریچر پر غور کیا جائے جو موجب فساد بنتا ہو اور پھر اس کو ہمیشہ کے لیے نکال دینا چاہیے اور جب بھی کوئی قومی یا بین الاقوامی معاملہ پیش آئے، آپس میں رواداری اور بھائی چارے کا ماحول پیدا کرنا چاہیے۔

اس ضمن میں، میں آپ کو اس بات کی طرف خاص طور سے توجہ دلانا چاہوں گا کہ شیعہ سنی تعلقات کے حوالے سے آپ کی کچھ باتیں بعض حضرات کی سمجھ میں نہیں آئیں اور اس پر وہ آپ سے نالاں ہیں۔ مثلاً کالعدم سپاہ صحابہ کے ترجمان ماہنامہ ’خلافت راشدہ‘ کے شمارہ ستمبر ۲۰۰۴ کے ص ۱۰ پر ہے کہ:

’’محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب سے دردمندانہ درخواست ہے کہ خدارا خود کو غیر جانب دار اور مذہبی سکالر ثابت کرنے کے لیے شیعہ کی سازشوں کا شکار ہو کر سپاہ صحابہ کے قائدین اور ہزاروں کارکنان کی قربانیوں اور اپنے اسلاف کے فتاویٰ جات کو خاک میں ملانے کی کوشش نہ کریں۔‘‘

اسی طرح مارچ ۲۰۰۵ کے شمارے کے ص ۱۵ پر حافظ ارشاد احمد دیوبندی فرماتے ہیں: 

’’اپنے آپ کو بہت بڑا سکالر شپ اور اتحاد امت کا داعی کہلانے کے لیے وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ والد محترم حضرت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر مدظلہ سے بغاوت کر کے یہ سب کچھ لکھا جا رہا ہے۔ حضرت شیخ کا عندیہ تو کیا، ایما بھی نہیں ہے۔ ان کے اس طرح کے طرز عمل سے صحابہ دشمنوں کی اعانت ہو رہی ہے۔‘‘

میری آپ کی خدمت میں گزارش ہے کہ آپ ان حضرات کی غلط فہمیوں کو دور کریں اور ایسا ماحول اور فضا پیدا ہونے سے ہمیں بچائیں جس کی وجہ سے ہم آپس میں ہی الجھ کر رہ جائیں۔ 

والسلام، حافظ خرم شہزاد

شریک دورۂ حدیث

مدرسہ انوار العلوم شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ


مکاتیب

(مئی ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter