جہاد اور دہشت گردی : عصری تطبیقات

ادارہ

(مجلس فکر ونظر لاہور ایک غیر حکومتی، غیر سیاسی، غیر مسلکی اور آزاد علمی وتحقیقی مجلس ہے جس کے پیش نظر مسلم امہ کو درپیش جدید مسائل میں اسلامی رہنمائی مہیا کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کو بروئے کار لانا ہے۔ مجلس اس سے قبل سود کے متبادل معاشی نظام، دینی وعصری نظام تعلیم کی اصلاح کی حکمت عملی اور پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات جیسے اہم موضوعات پر مذاکروں اورسیمینارز کے انعقاد کے علاوہ تحقیقی وتجزیاتی رپورٹس بھی پیش کر چکی ہے۔ نومبر ۲۰۰۴ میں مجلس کی طرف سے عصری تناظر میں جہاد اور دہشت گردی سے متعلق سوالات پر غور وفکر کے لیے مختلف مکتبہ ہائے فکر کے ممتاز علما پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے مشورے سے ایک سوال نامہ مرتب کر کے ملک بھر کے جید علماء اور اسکالرز کو بھجوایا گیا۔ بعد ازاں مجلس نے ۲۲ مارچ ۲۰۰۵ کو لاہور میں اس موضوع پر ایک روزہ سمپوزیم منعقد کیا جس میں مولانا حافظ فضل الرحیم، مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی، مولانا عبد المالک، مولانا مفتی محمد طیب، مولانا مفتی محمد خاں قادری، مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ڈاکٹر قبلہ ایاز، ڈاکٹر محمد امین اور دیگر اہل علم نے شرکت کی اور اس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ مجلس کے مرتب کردہ سوال نامہ اور سمپوزیم کے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ کا متن قارئین کی دل چسپی کے لیے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)


سوال نامہ

۱۔ جہاد کی تعریف

اقسام جہاد

۲۔ جہاد بالدعوۃ:  کیا مسلم یا غیر مسلم معاشرے میں زبان وقلم اور دیگر پر امن ذرائع سے دین کی دعوت وتبلیغ اور اعلاء کلمۃ اللہ کی کوشش بھی جہاد ہے؟

۳۔ جہاد بالنفس: کیا دینی احکام پر عمل کے لیے اپنی ذات کی اصلاح اور اس کے لیے کوشش وجدوجہد بھی جہاد شمار ہوگی؟

اقدامی جہاد

یعنی وہ مسلح جدوجہد جس میں کسی ایسی کافر حکومت کی طاقت توڑنا اور اسے جھکانا مقصود ہو جو اپنے عوام کے فہم اسلام میں رکاوٹ ہو۔

اس جہاد کی شرائط

۴۔ شرط امام:  کیا یہ جہاد صرف کسی مسلم ریاست (یا ریاستوں) کی طرف سے ہی ہو سکتا ہے یا یہ مسلم افراد اور ان کی پرائیویٹ تنظیموں کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے؟

۵۔ شرط مقدرت:  کیا یہ جہاد ہر حالت میں فرض ہوتا ہے یا صرف اس وقت جب مسلم حکومت (یا حکومتیں) اتنی طاقتور ہوں کہ طافر حکومت کی شکست کا احتمال غالب ہو؟ کیا سورۂ انفال کی دو گنا اور دس گنا والی شرط کا اطلاق یہاں ہوتا ہے؟

۶۔ اس جہاد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یعنی یہ فرض ہے یا مستحب؟

دفاعی جہاد

جب کوئی غیر مسلم طاقت کسی مسلمان ریاست پر حملہ کر دے/ قبضہ کر لے تو اس وقت:

۷۔ اگر مسلم حکومت شکست کھا جائے تو کیا اس ملک کے مسلم عوام پر جہا دیا مسلح مزاحمت فرض ہو جاتی ہے؟

۸۔ اس مزاحمت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یعنی یہ فرض کفایہ ہوتی ہے یا فرض عین یا محض مستحب؟

۹۔ کیا اس حالت میں شرط امام اور شرط مقدرت ساقط ہو جاتی ہیں؟

۱۰۔ اگر محض استخلاص وطن مقصود ہو اور اس کے بعد اسلامی حکومت قائم کرنے کا عزم واعلان موجود نہ ہو تو کیا پھر بھی یہ مسلح مزاحمت جہاد شمار ہوگی؟

۱۱۔ اگر کفار ایسے مفتوحہ ملک میں اپنی گماشتہ مسلم حکومت قائم کر دیں تو کیا اس حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت جائز ہوگی اور وہ شرعی جہاد سمجھی جائے گی؟

۱۲۔ کیا اس طرح کے دفاعی جہاد میں دشمن ملک (اور اس کے حلیف ممالک) کے اندر جاکر حملہ کرنا جائز ہوگا؟

۱۳۔ کیا اس ملک کی شہری آبادی اور شہری مقامات پر حملہ کرنا جائز ہوگا؟

۱۴۔ کیا اس ملک کے سفارت خانوں پر حملہ جائز ہوگا؟

۱۵۔ کیا اس ملک کے معاشی مفادات پر حملہ کرنا جائز ہوگا؟

اگر ایک مسلمان ملک پر کفار کا حملہ/ قبضہ ہو جائے توکیا

۱۶۔ ساری مسلم حکومتوں پر جہاد فرض ہو جائے گا؟

۱۷۔ یا صرف مجاور مسلم حکومت/ حکومتوں پر جہاد فرض ہوگا؟

۱۸۔ یا ساری مسلم حکومتوں پر محض اس کی اعانت فرض ہوگی؟

۱۹۔ یا صرف مجاور مسلم حکومت/ حکومتوں پر اعانت فرض ہوگی؟

۲۰۔ اس اعانت کی حدود کیا ہوں گی؟ کیا محض سیاسی اعانت سے بھی حق ادا ہو جائے گا؟

۲۱۔ اس اعانت کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ یعنی فرض ہوگی یا مستحب؟

۲۲۔ اگر مسلمان ریاستیں اس متاثرہ مسلم ریاست کی مدد نہ کریں تو کیا اس صورت میں ساری امت کے مسلمانوں پر (یعنی ہر فرد مسلم پر) جہاد فرض ہو جائے گا؟

۲۳۔ یا صرف مجاور مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوگا؟

۲۴۔ مسلم افراد (یا ان کی بنائی ہوئی پرائیویٹ تنظیموں) پر یہ جہاد فرض کفایہ ہوگا یا فرض عین یا مستحب؟

۲۵۔ دفاعی جہاد میں کیا خود کش حملے جائز ہیں؟

۲۶۔ دفاعی جہاد میں اگر ان بین الاقوامی معاہدوں کے ضوابط کی خلاف ورزی ہو جن پر مسلمان حکومتوں نے دستخط کر رکھے ہیں تو اس صورت میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟

۲۷۔ دہشت گردی کی تعریف کیا ہے؟

مسلمان ریاست کے داخلی معاملات

۲۸۔ اگر مسلمان حکمران بالجبر مسلمان رعایا پر حکومت کریں، ان کی پالیسیاں بھی غیر اسلامی ہوں اور وہ کفار کے گماشتے بھی ہوں تو کیا ان کے خلاف مسلح جدوجہد جائز ہوگی اور یہ جہاد شمار ہوگی؟

۲۹۔ یہ مسلح جدوجہد فرض کفایہ ہے، فرض عین ہے یا مستحب؟

۳۰۔ ایسے مسلمان حکمران کے خلاف پرامن اصلاحی جدوجہد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ فرض کفایہ ہے، فرض عین ہے، مستحب ہے یا غیر ضرور ی ہے؟

۳۱۔ کیا مسلمان افراد اور تنظیموں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ باہمی دینی اختلافات (جیسے مثلاً شیعہ سنی میں، اہل سنت اور منکرین حدیث میں یا دیوبندی بریلوی وغیرہ میں ہیں) کی بنا پر ایک دوسرے کو کافر کہیں؟

اگر ایک مسلمان حکومت میں ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان فرد یا گروہ کے بارے میں یہ رائے رکھے کہ وہ کافر ہے تو:

۳۲۔ اسے کیا کرنا چاہیے یعنی کیا اقدامات کرنے چاہییں؟

۳۳۔ کیا وہ خود سے انہیں قتل کرنے کا مجاز ہے؟

مشترکہ اعلامیہ

جہاد اور دہشت گردی کی عصری تطبیقات کے موضوع پر مجلس فکر ونظر کی طرف سے طلب کردہ پاکستان کے مختلف مکتبہ ہائے فکر اور اداروں کے علما، محققین اور اسکالرز کا یہ اجلاس، منعقدہ لاہور ۲۲ مارچ ۲۰۰۵، مندرجہ ذیل مشترکہ اعلامیے کا اعلان کرتا ہے:

جہاد

یہ کہ

۱۔ اسلامی احکام پر عمل ا ور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کی جانے والی ہر وہ کوشش جو فی سبیل اللہ ہو، اسلامی اور شرعی جہاد ہے۔

۲۔ جہاد اسلام کا انتہائی اہم حکم ہے اور وہ قیامت تک کے لیے ہے۔

۳۔ اگر کسی مسلمان ملک پر کفار ناحق حملہ کر دیں تو وہاں کے مسلم حکمران اور عوام کا فرض ہے کہ اس کی ہر طرح سے مزاحمت کریں، یہاں تک کہ جارح کو ملک سے باہر نکال دیں اور مسلمانوں کا اقتدار بحال ہو جائے تاکہ وہ اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزار سکیں۔

۴۔ مذکورہ صورت میں مجاور اور دیگر مسلمان ممالک کا فرض ہے کہ وہ حتی المقدور اس مسلم ممالک کی حمایت کریں کیونکہ سارے مسلمان ایک امت ہیں۔

۵۔ صحیح اسلامی اور شرعی جہاد (بمعنی قتال) میں بوقت ضرورت ایسی لڑائی میں شرکت اعلیٰ درجے کی عزیمت ہے جس کا نتیجہ پہلے سے واضح طور پر شہادت نظر آ رہا ہو۔

دہشت گردی

۶۔ جہاد (بمعنی قتال) کے علاوہ کسی مسلم حکومت، تنظیم یا فرد کا قانون ہاتھ میں لینا اور مسلح کارروائی کرنا دہشت گردی ہے، الا یہ کہ مسلم حکومت باغیوں اور قانون شکنوں سے نمٹے یا حکمرانوں کے کفر بواح کے نتیجے میں مسلمان عوام متحد ہو کر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

۷۔ کسی کافر حکومت کا ناحق کسی مسلمان حکومت پر چڑھائی کرنا، اس کا اقتدار ختم کرنا اور مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانا بھی دہشت گردی ہے۔

مسلمانوں کے داخلی معاملات

۸۔ کسی مسلم ملک کا دوسرے مسلم ملک پر حملہ کرنا ناجائز ہے اور یہ جہاد نہیں۔

۹۔ اختلاف عقیدہ اور فکر ونظر کی بنیاد پر کسی مسلمان کا کسی دوسرے مسلمان کو کافر قرار دے کر اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا ناجائز ہے، جہاد نہیں۔ نیز کسی فرد یا مسلم گروہ کو غیر مسلم قرار دے کر اس کے خلاف کارروائی کرنا ریاست کا کام ہے نہ کہ کسی فرد یا پرائیویٹ تنظیم کا۔

۱۰۔ اگر کوئی مسلم حکومت اسلامی احکام پر پوری طرح عمل نہ کرے اور نہ کرائے تو اس کی اصلاح اور اسے بدلنے کی کوشش پرامن طریقے سے ہوگی، الا یہ کہ اس کے کفر بواح کے نتیجے میں مسلمان متحد ہو کر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

جہاد کے باب میں مندرجہ بالا موقف طے کرنے کے ساتھ ہی ہم اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کر سکتے کہ امت مسلمہ اس وقت کمزور اور منتشر ہے اور اس کی بقا خطرے میں ہے۔ لہٰذا اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے دو لازمی تقاضے ہیں:

ایک، یہ جانتے ہوئے کہ مسلمانوں کی عزت وقوت کا منبع دین حنیف سے ان کے تمسک میں ہے، ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں، ہر قسم کے اختلاف وانتشار سے بچتے ہوئے بنیان مرصوص بن جائیں، ہر قیمت پر جسد ملت کی حفاظت کریں اور اسلام کی عظمت وشوکت کی بحالی کے لیے ہر طرح کی کوششیں بروئے کار لائیں۔

دوسرے، اپنے موقف سے دست بردار ہوئے بغیر ہم اسے حکمت، فراست اور قوت کے ساتھ غیرمسلموں کے سامنے رکھیں اور اس کی حکمتیں اور اس کا معقول اور مناسب ومعتدل ہونا ان پر واضح کریں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین)


جہاد / جہادی تحریکات

(مئی ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter