ضعیف اور موضوع احادیث کا فتنہ

ڈاکٹر یوسف القرضاوی

داعی کے لیے ضروری ہے کہ موضوع ہی نہیں بلکہ ضعیف اور منکر حدیثوں سے بھی اپنے کو دور رکھے۔ علماے امت نے موضوع حدیثوں کی روایت سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ جواز کی صرف ایک صورت ہے جبکہ اس کا مقصد لوگوں کو ان کے خلاف آگاہی دینا ہو اور وہ ساتھ ہی صاف صاف بتاتا جائے کہ یہ روایت ’موضوع‘ ہے تاکہ اس کو پڑھنے اور سننے والے اپنے کو اس سے بچا کر رکھیں۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ موضوع حدیث کی روایت حرام ہے اگر آدمی کو اس کا پتہ ہے، قطع نظر اس سے کہ اس کا مضمون کیا ہے۔ وہ احکام سے متعلق ہے یا واقعات اور قصص سے یا ترغیب وترہیب وغیرہ سے۔ اس کے جواز کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ روایت بیان کرنے کے ساتھ ہی وہ اس کے موضوع ہونے کی وضاحت کر دے اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیث ہے جس کی روایت امام مسلم نے حضرت سمرۃ بن جندب سے کی ہے۔ آپ نے فرمایا:

من حدث عنی بحدیث یری انہ کذب فہو احد الکاذبین۔
’’جو شخص میرے حوالہ سے کوئی حدیث بیان کرے جو صاف دکھائی دیتی ہو کہ جھوٹ ہے تو جھوٹوں میں وہ بھی ایک جھوٹا ہے۔‘‘

علماے امت میں بہت سے لوگوں نے خاص انہی احادیث کو اپنا موضوع بنایا۔ انہوں نے ان کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا اور ان کے باطل اجزا کی ایک ایک کرکے نشان دہی کی اور واضعین حدیث اور حدیث کے چشمہ صافی میں اپنی طرف سے کھوٹ کی آمیزش کرنے والوں کی ناپاک حرکتوں کا انہوں نے بالکل پردہ چاک کر کے رکھ دیا۔ حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ (آپ لوگوں کے بعد) ان موضوع حدیثوں سے کون عہدہ برآ ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ’’ان سے نمٹنے کے لیے ان شاء اللہ ہر دور میں کچھ قد آور لوگ زندہ رہیں گے۔‘‘ اسی طرح علامہ ابن جوزیؒ فرماتے ہیں: ’’گمراہی پھیلانے والوں نے جب یہ دیکھا کہ قرآن کے اندر کسی قسم کی ترمیم وتحریف پر ان کا بس نہیں چلتا ہے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں اپنی طرف سے اضافے کرنے شروع کر دیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فتنے کا مقابلہ کرنے کے لیے امت کے اندر ایسے علما پیدا کیے جو حدیث پاک کے دفاع کے لیے سینہ سپر ہو گئے اور انہوں نے صحیح احادیث کو غلط حدیثوں سے بالکل چھانٹ کر الگ کر دیا۔ اور امید ہے کہ ان شاء اللہ کوئی زمانہ ایسے لوگوں سے خالی نہیں رہے گا۔ یہ ضرور ہے کہ اس زمانے میں یہ جنس گراں بہا بہت کم یاب ہو گئی ہے۔ ہزاروں لاکھوں میں دو چار لوگ بھی اس کام کے بمشکل ہی نکل سکیں گے۔ غالباً حال وہ ہو گیا ہے جس کی طرف شاعر نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے:

وقد کانوا اذا عدوا قلیلا 
فقد صاروا اعز من القلیل
’’تعداد تو ان کی پہلے بھی کم ہی تھی لیکن اب تو وہ کہیں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔‘‘

ابن جوزی کا انتقال ۵۹۷ھ میں ہوا ہے۔ بھلا جب چھٹی صدی ہجری کے سلسلے میں ان کا یہ تاثرتھا تو آج اگر وہ ہمارے زمانے کو دیکھتے تو پتہ نہیں ان کے تاثرات کیا ہوتے؟

بہرحال اس میں دو رائیں نہیں کہ ضعیف اور موضوع احادیث نے اسلامی ثقافت کے چشمہ صافی کو بہت کچھ گدلا کیا ہے۔ اسلامی ثقافت کے مختلف اجزا میں انہیں نفوذ حاصل ہوا جس کے اثرات تفسیر وتصوف اور فضائل کی مختلف کتابوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ فقہ واحکام کی کتابیں بھی ان کی آمیزش سے نہ محفوظ رہ سکیں۔ یہی نہیں بلکہ حدیث کے بہت سے متداول مجموعے بھی اپنے آپ کو ان کی زد سے بچانے میں کام یاب نہ ہو سکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اور لوگوں کو تو چھوڑیے، بہت سے وہ لوگ جو اپنے کو دین کا داعی کہتے ہیں، ان کے اوپر بھی یہ چیز اثر انداز ہوئے بغیر نہ رہی، خاص طور پر ان میں وہ لوگ جن کے اندر قومیت ووطنیت کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس طرح کی حدیثوں سے استشہاد کرنا ان حضرات کا عام معمول ہے اس لیے کہ ان کے اندر اعجوبہ پن اور مبالغہ آمیزی کے وہ مضامین ہوتے ہیں جن سے عوامی ذوق کو تسکین ملتی ہے اور عجائب پسند طبیعتوں کو ایک طرح کی راحت نصیب ہوتی ہے۔ جمعہ کا خطیب ہو یا مسجد میں درس دینے والا یا وہ عالم دین جس کے ذمہ ریڈیو پر حدیثیں سنانے کی خدمت سپرد ہے، آپ ا ن میں سے کسی کو سن لیں۔ یہ جب کوئی حدیث بیان کریں گے، اس کا تعلق مردود ومنکر احادیث کے ذخیرہ سے ہوگا بلکہ اکثر وبیشتر رسائل اور مجلات کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی ایسی حدیثیں سامنے آتی ہیں جو خلاف عقل ہونے کے علاوہ نقل صحیح سے متصادم اور شریعت کے مسلمہ اصولوں سے ہٹی ہوئی ہوتی ہیں اور رسائل ہی پر کیا موقوف، بہت سے معاصرین کی تصنیفات بھی ان کی زد سے محفوظ نہیں ہیں۔ اگر یہ حدیثیں موضوع نہ ہوں تو ان میں کمزوری کے ایسے بے شمار پہلو ہوتے ہیں جو انہیں پایہ اعتبار سے گرا دیتے ہیں۔

عام طور پر ان حضرات کی بناے استدلال یہ چلتا ہوا خیال ہے کہ ترغیب وترہیب، فضائل اور واقعات وقصص وغیرہ کے باب میں ضعیف اور کمزور سے کمزور حدیثوں کا نقل کرنا جائز ہے۔ یہاں ہم اس رائج خیال کے سلسلے میں چند باتوں کی نشان دہی ضروری سمجھتے ہیں:

۱۔ پہلی چیز تو یہ کہ یہ کوئی ایسی رائے نہیں جس پر پوری امت کا اتفاق ہو۔ بہت سے بلند پایہ علما کسی باب میں ضعیف اور بے اصل حدیثوں سے استدلال کو روا نہیں رکھتے، خواہ بات فضائل کی ہو یا کسی اور سلسلے کی۔ یحییٰ بن معین اور ائمہ حدیث کی ایک بڑی جماعت کی یہی رائے ہے۔ امام بخاریؒ کا مسلک بھی اس کے سوا دوسرا نہیں ہو سکتا جبکہ حدیث کے قبول کرنے کے سلسلے میں انہوں نے انتہائی کڑی شرطیں عائد کی ہیں۔ امام مسلم کو بھی اس کے علاوہ کسی دوسری صف میں نہیں رکھا جا سکتا اس لیے کہ انہوں نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں ضعیف اور منکر حدیثوں کی روایت کرنے والوں پر بڑی سخت تنقید کی ہے کہ یہ بدقسمت صحیح حدیثوں کی روایت کرنے کے بجائے اس نامبارک کام میں کیوں لگ گئے۔ یہی خیال قاضی ابوبکر بن عربی کا بھی ہے جو اپنے زمانے میں مالکیہ کے سرخیل تھے۔ابو شامہ جو اپنے زمانے میں شوافع کے سرخیل تھے، وہ بھی اسی خیال کے حامی ہیں۔ علامہ ابن حزم اور دوسرے بہت سے علماے ظاہر کا بھی یہی مسلک ہے۔

۲۔ دوسری بات یہ کہ جب صحیح اور حسن حدیثوں کا خود اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے جو لوگوں کی تعلیم وتذکیر کے لیے بالکل کافی ہے تو پھر انہیں چھوڑ کر کمزور اور بے سند حدیثوں کا رخ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب اللہ نے ہمیں اعلیٰ وارفع چیز دے رکھی ہے تو پھر گھٹیا اور بے وزن چیزوں کے لیے طبیعت میں اضطراب کیوں رہے؟ دین واخلاق کا کوئی مسئلہ نہیں نہ فکر ونظر کا کوئی ایسا دائرہ پایا جاتا ہے جس کے لیے صحیح اور حسن احادیث کے ذخیرے میں کافی وافی مواد موجود نہ ہو لیکن ہمتیں ایسی گھٹیں اور مذاق اس قدر بگڑ گیا ہے اور تحقیق وتفتیش کی زحمت اٹھائے بغیر بس جو چیز ہاتھ میں آ جائے، اسے لے لینے کا رجحان ایسا بڑھ گیا ہے کہ لوگ ضعیف اور بے اصل حدیثوں کے نقل کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتے اور بے تکان ان کے حوالوں پر حوالے دیے چلے جاتے ہیں۔

۳۔ تیسری چیز دھیان دینے کی یہ ہے کہ ضعیف اور کمزور حدیثوں کو جزم کے صیغے سے نبی ﷺ کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں۔ علامہ سیوطیؒ تدریب شرح تقریب میں فرماتے ہیں:

’’جب تم کسی ضعیف روایت کو بغیر سند کے بیان کرنا چاہو تو یہ نہ کہو کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح فرمایا ہے۔ قال رسول اللہ ﷺ کذا۔ اسی طرح جزم کا کوئی اور صیغہ بھی استعمال نہ کرو بلکہ اس طرح کہو: آپ سے یہ مروی ہے۔ روی عنہ کذا۔ یا ہم تک آپ سے یہ بات پہنچی ہے۔ بلغنا عنہ کذا۔ یا یہ کہ آپ سے یہ بات آئی ہے۔ ورد عنہ۔ یا یہ کہ آپ سے یہ بات نقل کی گئی ہے۔ جاء او نقل عنہ۔ یا اسی کے مانند دوسرے اور صیغے جو اپنے اندر بجائے جزم کے، احتمال کا معنی رکھتے ہیں مثلاً یہ کہ بعض لوگ اس طرح روایت کرتے ہیں۔ روی بعضہم۔‘‘

پس یہ جو خطیبوں اور واعظوں نے عادت بنا لی ہے کہ کمزور اور ضعیف سے ضعیف حدیثوں کے سلسلے میں بھی اس سے کم ان کی زبان سے کوئی بات نکلتی ہی نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے، قال رسول اللہ ﷺ، یہ طریقہ بالکل غلط ہے اور اسے بلا تاخیر ترک کیا جانا چاہیے۔ 

۴۔ چوتھی بات یہ کہ جن علماے امت نے ترغیب وترہیب وغیرہ کے باب میں ضعیف اور کمزور روایتوں پر عمل کی اجازت دی ہے، انہوں نے اس دروازے کو چوپٹ نہیں کھول دیا ہے بلکہ اس کے لیے کچھ شرطیں لگائی ہیں۔ یہ شرطیں تین ہیں:

اول یہ کہ وہ حدیث بہت زیادہ ضعیف نہ ہو۔

دوم یہ کہ وہ کسی اصل شرعی کے ذیل میں آتی ہو جس پر قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں عمل کرنا ثابت ہو۔

سوم یہ کہ اس پر عمل کرتے ہوئے نبی ﷺ سے اس کے ثابت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے بلکہ یہ خیال رکھتے ہوئے عمل کیا جائے کہ معاملہ صرف احتیاط کا ہے۔

اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہے کہ علماے امت نے کسی قید اور شرط کے بغیر کمزور اور ضعیف حدیثوں کے دروازے کو چوپٹ نہیں کھول دیا ہے بلکہ اس کے لیے انہوں نے کچھ شرطیں عائد کی ہیں جن میں مذکورہ بالا تین شرطوں کے علاوہ ایک دوسری بنیادی شرط بھی شامل ہے کہ حدیث فضائل اور ترغیب وترہیب وغیرہ کے ذیل سے ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب نہ ہوتا ہو۔

ہماری رائے میں مذکورہ بالا شرطوں کے ساتھ دو مزید شرطوں کا اضافہ کیا جانا چاہیے:

اول یہ کہ حدیث مبالغہ آمیز اور گھبرا دینے والے مواد پر مشتمل نہ ہو جسے عقل کسی طرح باور کرتی ہے نہ شریعت سے اس کی کسی صورت تائید ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کی زبان کا غرابت سے پاک اور اہل عرب کے معروف انداز بیان سے ہم آہنگ ہونا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ حدیث نے موضوع حدیث کا پتہ لگانے کے لیے راوی کے علاوہ روایت کے داخلی شواہد کو کافی اہمیت دی ہے۔ روایت کے انہی داخلی شواہد میں سے ایک چیز جو موضوع احادیث کا پتہ لگانے کے سلسلے میں بھی دلیل راہ کا کام دیتی ہے، یہ ہے کہ روایت ایسے مواد پر مشتمل ہو جو سرتاسر عقل کے خلاف ہو اور کسی صورت سے اس کی توجیہ ممکن نہ ہو۔ اسی سے ملتی ہوئی بات یہ ہے کہ اس کا مضمون تجربہ ومشاہدہ سے کھلے طو رپرمتصادم ہو یا پھر یہ کہ وہ قرآن وسنت کے صریح اورقطعی نصوص سے ٹکراتی ہو یا اجماع امت کے خلاف پڑتی ہو۔ واضح رہے کہ ان تمام صورتوں میں یہ بات اسی وقت کہی جا سکے گی جبکہ دو باتوں میں کسی طرح تطبیق ممکن نہ ہو۔ کسی صورت سے تطبیق ہو سکے اور تعارض رفع ہو جائے تو پھر یہ بات نہیں رہ جائے گی۔ علاوہ ازیں وہ حدیث بھی قابل قبول نہیں قرار پائے گی جو متعلق تو ہو کسی مہتم بالشان امر سے جسے عوام کے بڑے مجمع کے سامنے بیان کیا جانا ضروری ہو لیکن اس کو نقل کرنے والا تنہا ایک آدمی ہو۔ موضوع حدیث کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ ایک چھوٹے معاملے پر بہت بڑی وعید سنائی گئی ہو یا کسی معمولی کام پر بہت بڑے اجر کی بشارت دی گئی ہو۔ واعظ اور قصہ گو حضرات کے یہاں عام طور پر ہمیں اسی قبیل کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔

افسوس ہے کہ ہمارے زمانے میں حدیث سے اشتغال رکھنے والے بہت سے لوگ بھی ترغیب وترہیب اور اس ذیل کے دیگر موضوعات کے سلسلے میں روایتوں کو نقل کرتے ہوئے ان اصولوں کا خاطر خواہ لحاظ نہیں رکھتے۔ گزشتہ ادوار میں تو یہ بات کسی حد تک چل جاتی تھی لیکن ہمارے زمانے میں ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کا جو رجحان پیدا ہو گیا ہے، اس کے پیش نظر اس طرح کی مبالغہ آمیز چیزیں لوگوں کے لیے قابل قبول قرار نہیں پاتیں اور آسانی کے ساتھ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتی ہیں بلکہ یہ بات بھی چنداں تعجب انگیز نہ ہوگی کہ حقائق سے دور اس طرح کی بے اصل حدیثوں کے سننے کے نتیجے میں بہت سے لوگ نفس دین کے سلسلے ہی میں شک وتردد کا شکار ہو جائیں اور اس پر اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کر دیں۔

اہل عرب کے معروف اندا زبیان سے ہٹی ہوئی اور زبان وادب کے پہلو سے استغراب کی حامل روایتوں کی مثال جنہیں ذوق سلیم کسی طرح قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں، وہ حدیثیں پیش کرتی ہیں جو مثلاً دراج ابی السمح جیسے قصہ گویوں سے قرآن کریم کے بعض الفاظ کی تشریح وتفسیر کے سلسلے میں مذکور ہیں جبکہ زبان ولغت کی روشنی میں ان کا مفہوم بالکل واضح ہے لیکن روایتوں کی صورت میں وہ ان کی ایسی تشریحات پیش کرتا ہے جو غرابت کا شکار اور لفظ کے لغوی مفہوم سے ایسی دور ہیں کہ اس سے زیادہ دوری کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر یہی دراج ابو الہیثم سے اور وہ ابو سعید سے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتے ہوئے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ ’’ویل‘‘ (جبکہ قرآن میں یہ لفظ متعدد بار آیا ہے) جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس میں کافر چالیس برس تک مسلسل گرتا چلا جائے گا تب کہیں جا کر وہ اس کی تہ تک پہنچ پائے گا۔‘‘ یہ روایت احمد اور ترمذی نے نقل کی ہے، البتہ ترمذی میں چالیس کے بجائے ستر سال (سبعین خریفا) کے الفاظ ہیں۔ حالانکہ ہر شخص کو معلوم ہے، لفظ ’’ویل‘‘ ہلاکت اور بربادی کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد ہمیشہ سے یہ لفظ اس معنی کے لیے مشہور ومعروف چلا آتا ہے۔

اسی کے مانند وہ روایت بھی ہے جسے طبرانی اور بیہقی حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول: ’فسوف یلقون غیا‘ کے سلسلے میں لفظ ’غی‘ کی تشریح میں نقل کرتے ہیں کہ یہ جہنم کی ایک وادی کا نام ہے یا یہ کہ جہنم میں ایک دریا اس نام سے موسوم ہے۔ حالانکہ ’غی‘ کے معنی سرکشی کے معروف ہیں اور آیت کریمہ کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ کافر اپنی سرکشی کے انجام سے دوچار ہوں گے۔

اسی طرح بیہقی وغیرہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ’وجعلنا بینہم موبقا‘ کے سلسلے میں حضرت انس کے واسطے سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ یہ خون اور پیپ کی ایک وادی کا نام ہے جبکہ ’’موبق‘‘ کے معنی صاف جائے ہلاکت کے ہیں۔ آیت کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ ’’ہم ان کے بیچ ایک جائے ہلاکت لاکھڑی کریں گے‘‘۔

اس سے بھی زیادہ عجیب وغریب ابن ابی الدنیا کی روایت ہے جسے وہ شفی بن مانع کے واسطے سے نقل کرتے ہیں کہ جہنم میں ایک وادی ہے جس کا نام ’’اثام ہے‘‘ جو سانپوں اور بچھوؤں سے بھری ہوئی ہے وغیرہ۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ’ومن یفعل ذلک یلق اثاما‘ سے یہی وادی مراد ہے۔ حالانکہ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے گناہ کے انجام سے دوچار ہوں گے۔ ’اثام‘ کے معنی گناہ عربی زبان کا ہر طالب علم جانتا ہے۔

ہمارے محدثین کی طرف سے اس طرح کی روایتوں کو سند قبول عطا کرنے کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ حافظ منذری جیسے ناقد حدیث نے بھی ان تمام روایتوں کو اپنی کتاب ’الترغیب والترہیب‘ میں جگہ دے دی ہے۔

۲۔ حدیث کے قابل قبول قرار دیے جانے کے سلسلے میں دوسری شرط جس کا اضافہ ہم ضروری خیال کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ کمزور حدیث اپنے سے صحیح تر احادیث سے ٹکراتی نہ ہو۔ اس کی مثال میں ان کمزور حدیثوں کو پیش کیا جا سکتا ہے جو حضرت عبد الرحمن بن عوف کے سلسلے میں مروی ہیں کہ ’’وہ دنیا میں اپنی مال داری کے سبب جنت میں گھٹنوں کے بل داخل ہوں گے۔‘‘

اس طرح کی احادیث کے سلسلے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ کسی اصل شرعی سے ٹکراتی نہیں ہیں بلکہ یہ دین کے اس مسلمہ اصول کے تحت ہیں کہ انسان کو مال کے فتنہ سے ڈر کر رہنا چاہیے اور بڑھی ہوئی مال داری اپنے ساتھ جو سرکشی اور نافرمانی لے کر آتی ہے، اس کے پیش نظر اس سے دامن کش ہی رہنا مناسب ہے۔ لیکن یہاں صورت یہ ہے کہ مذکورہ حدیث ان بے شمار صحیح حدیثوں سے ٹکراتی ہے جن میں حضرت عبد الرحمن بن عوف کو عشرہ مبشرہ میں شامل قرار دیا گیا ہے۔ دیگر مستند واقعات اور وہ مشہور ومستفیض روایات مزید برآں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آں موصوف کا شمار اسلامی جماعت کے اعلیٰ ترین لوگوں میں سے تھا اور دین داری اور تقویٰ کے لحاظ سے وہ گنے چنے لوگوں میں شامل تھے۔ دراصل آپ کی ذات گرامی غنی شاکر یعنی شکر وسپاس کے پیکر مال دار کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھی (دین میں جس کے مقام ومرتبہ سے ہر شخص واقف ہے) حضور پاک ﷺ نے داعی اجل کو لبیک کہا دریں حالیکہ وہ آپ سے پوری طرح راضی اور خوش تھے۔ اسی طرح لسان حق ترجمان حضرت عمر نے اپنے انتقال سے چند دن پہلے اگلے خلیفہ کے انتخاب کے لیے جن چھ حضرات پر مشتمل شوریٰ کمیٹی تشکیل دی تھی، اس میں آپ کا نام نامی بھی شامل تھا، اس امتیازی حیثیت کے ساتھ کہ اگر جانبین سے رائیں مساوی ہوں تو ترجیحی ووٹ کا حق آں جناب کو حاصل ہوگا۔ اسی لیے حافظ منذری نے الترغیب والترہیب میں کہا ہے کہ اگرچہ مختلف طریقوں سے، جن میں صحابہ کرام کی ایک جماعت بھی شامل ہے، یہ بات نقل کی گئی ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف جنت میں گھٹنوں کے بل داخل ہوں گے اور اس کی وجہ (دنیا میں) ان کی بڑھی ہوئی مال داری ہوگی، لیکن اس کا بہتر سے بہتر کوئی ایک بھی طریق روایت ایسا نہیں جس پر کچھ نہ کچھ کلام نہ ہو اور ان مختلف طریقوں میں ایک بھی نہیں جو تنہا ’حسن‘ کے درجہ تک پہنچتا ہو۔ اگر وہ مال دار تھے تو ان کی یہ مال داری رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مصداق تھی کہ ’نعم المال الصالح للرجل الصالح‘ (یعنی خدا ترس اور نیک طینت انسان کے لیے مال کیا ہی بہترین چیز ہے) پھر سوال یہ ہے کہ اس مال داری کے سبب آں جنا ب کے درجات آخرت میں کم کیوں ہوں؟ نیز یہ کہ امت کے تمام مال دارو ں میں صرف آں موصوف ہی کے ساتھ یہ روش اپنائے جانے کی کیا وجہ ہے جبکہ کسی اور مال دار کے سلسلے میں ہمیں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ملتی۔ البتہ یہ بات صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ اس امت کے فقرا، اغنیا کے مقابلے میں جنت میں پہلے داخل ہوں گے۔ لیکن یہ بات علی الاطلاق تما م مال داروں کے لیے ہے، کسی ایک شخص کے لیے اسے خاص کر لینا صحیح نہیں ہو سکتا ہے۔ (الترغیب والترہیب ۵/۳۰۸۔ طبع السعادۃ)

داعیان حق کے یہاں ضعیف اور موضوع روایات کس طرح راہ پا لیتی ہیں؟

عام طور پر داعیان حق کے یہاں ضعیف اور غیر معتبر روایات اس لیے راہ پا لیتی ہیں کہ ان کا تمام تر انحصار حدیث کے ان مجموعوں پر ہوتا ہے جن میں حدیثوں کی چھان پھٹک اور ان کی تحقیق وتفتیش کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا ہے۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ اکثر وبیشتر ان میں اس کا بھی ذکر نہیں ہوتا کہ حدیث کی تخریج کس امام حدیث نے کی ہے حالانکہ اگر یہ چیز معلوم بھی ہو ، جب بھی صرف اتنی سی بات کسی حدیث پر اعتماد کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی اس لیے کہ اکثر مولفین حدیث نے اپنی کتابوں میں اس کا اہتمام نہیں کیا ہے کہ وہ صرف صحیح اور حسن حدیثیں ہی بیان کریں گے۔

چنانچہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ وہ وعظ وتذکیر، تصوف اور تفسیر وغیرہ کی کتابوں سے بے تکلف حدیثیں نقل کرتے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی حدیث کی صحت اور اس پر اعتماد کرنے کے لیے حدیث کے نام سے کسی کتاب میں صرف اس کے اندراج کو کافی سمجھتے ہیں حالانکہ کسی حدیث کے قابل اعتماد ہونے کے لیے کم سے کم یہ بات ہے کہ حدیث کے مقبول ہونے کا جو کم تر سے کم تر معیار ہے، وہ اس پر پوری اترتی ہو۔ بہرحال جو لوگ وعظ وتذکیر کے مجموعوں کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، ان کو میرا مشورہ ہے کہ وہ صرف ان کے اعتماد پر کبھی کسی حدیث کی روایت نہ کریں اس لیے کہ ان میں رطب ویابس ہر طرح کی روایتیں بھری پڑی ہیں۔ احادیث وآثار کا معاملہ ہو یا قصص وواقعات کا، کسی چیز کے سلسلے میں ان کے اندر ادنیٰ درجے میں بھی تحقیق وتفتیش کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے۔ دلیل صرف یہ ہے کہ ان سے کوئی حکم شرعی تو وابستہ نہیں ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ وعظ وتذکیر کے فن کی خاصیت ہی کچھ ایسی ہے۔ چنانچہ حدیث کے عام مولفین کو چھوڑیے، جب ناقدین حدیث بھی اس موضوع کو ہاتھ لگاتے ہیں تو وہ بھی ڈھیل اور سہل انگاری کو راہ دیے بغیر نہیں رہتے اور بسا اوقات تو بات اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اسے سوائے کوتاہی اور عدم توجہ کے کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں تک کہ علامہ ابن جوزی جیسا ناقد حدیث بھی، جس نے اس موضوع پر ’الموضوعات‘ اور ’العلل المتناہیہ‘ جیسی کتابیں لکھی ہیں، یہی ابن جوزی جب وعظ وتذکیر کے میدان میں قدم رکھتے ہیں اور ’ذم الہویٰ‘ نامی کتاب تصنیف کرتے ہیں تو ان کے ناقدانہ تعقل پر واعظانہ جذبہ غالب آ جاتا ہے اور وہ بڑی حد تک سہل انگاری سے کام لینے لگتے ہیں۔ یہی حال حافظ ذہبی کا ہے کہ وہ اپنی واعظانہ تصنیف ’الکبائر‘ میں حدیثوں کے انتخاب کے سلسلے میں بالکل ڈھیلے نظر آتے ہیں۔

جو لوگ تفسیر کی کتابوں سے کسی حدیث کو نقل یا بیان کرنا چاہیں، ان کو میرا مشورہ ہے کہ ابن کثیر کی طرف رجوع کریں اس لیے کہ یہ مفسر کے ساتھ بلند پایہ حافظ حدیث بھی ہیں اور روایتوں کے سلسلے میں نقد وجرح کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب میں جو حدیث بھی نقل کرتے ہیں، اس کے سلسلے میں بالعموم یہ رائے دے دیتے ہیں کہ یہ روایت قابل اعتماد ہے اور اس میں یہ ضعف پایا جاتا ہے۔

اسی طرح تصوف کی نمائندہ غزالی کی ’احیاء العلوم‘ سے جو شخص کوئی روایت نقل یا بیان کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ حافظ عراقی نے اس کی حدیثوں کی جو تخریج کی ہے، اس کی طرف رجوع کرے۔ یہ تخریج ’احیا‘ کے ساتھ ہی چھپی ہوئی ہے۔ جو شخص اصل کتاب کا مطالعہ کرنا چاہے، اس کے لیے بھی اس تخریج کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے چہ جائیکہ وہ شخص جو اس سے کسی حدیث کو نقل یا بیان کرنا چاہے کہ اس کے لیے تو اس کی ضرورت بدرجہ اولیٰ ہے۔ اس کے بغیر کچھ پتہ نہیں چل سکتا کہ غزالی جو حدیث بیان کر رہے ہیں، وہ کس پائے کی ہے۔

جو شخص حافظ منذری کی الترغیب والترہیب کے حوالہ سے کوئی حدیث بیان کرے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مقدمہ کا ضرور مطالعہ کرے جس میں انہوں نے اپنی کتاب میں بیان کردہ حدیثوں کی نوعیت سے بحث کی ہے اور ان اصطلاحوں کی وضاحت کی ہے جنہیں وہ کسی حدیث کے قوی یا ضعیف ہونے کے سلسلے میں استعمال کرتے ہیں۔ نیز یہ کہ وہ قوی یا ضعیف ہے تو اس کا یہ قوت یا ضعف کس درجے کا ہے تاکہ وہ بہت زیادہ کمزور حدیثوں کو نقل کرنے سے محفوظ رہے۔ مصنف کی اصطلاح سے واقف نہ ہونے کی صورت میں وہ کسی حدیث کے ساتھ صرف اس پر ’حسن‘ یا ’صحیح‘ لکھا ہوا دیکھ کر اسے بے کھٹکے بھروسے کے قابل تصور کر لے گا حالانکہ مصنف کی منشا اس سے مختلف ہوتی ہے۔

اسی طرح جو شخص سیوطی کی ’الجامع الصغیر‘ سے کوئی حدیث نقل یا بیان کرنا چاہے، اس کے لیے میرا مشورہ ہے کہ اسے اس کے علاوہ مناوی کی مطول شرح ’فیض القدیر‘ یا اس کے اختصار ’التیسیر‘ کی طرف ضرور مراجعت کر لینی چاہیے۔ سیوطی نے حدیثوں پر ’صحیح‘، ’حسن‘ اور ’ضعیف‘ کے لیے ص ، ح اور ض کی جو علامتیں بنا دی ہیں، صرف ان علامات پر اکتفا نہ کرے اس لیے کہ نقل وطباعت کی اغلاط سے ان میں بڑا ہیر پھیر ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ ’الجامع الصغیر‘ کی ان شرحوں کا اس لیے بھی دیکھنا ضروری ہے کہ شارح نے اصل کتاب پر جو گرفتیں کی ہیں اور ان کی جن خامیوں کی نشان دہی کی ہے، ان سے فائدہ نہ اٹھانا یقیناًمحرومی کی بات ہوگی۔ ہمارے زمانہ کے عظیم محدث علامہ محمد ناصر الدین البانی نے ’الجامع الصغیر‘ اور اس پر مصنف کا بعد کا اضافہ جو ’الفتح الکبیر‘ کے نام سے ہے، ان کی صحیح حدیثوں کو ضعیف حدیثوں سے چھانٹ کر الگ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کی یہ عظیم کاوش کئی جلدوں میں مطبوعہ صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ کوئی شک نہیں کہ موصوف نے اس کام کا حق ادا کر کے خدمت حدیث کا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے جس سے واقعہ یہ ہے کہ حدیث کا کوئی طالب علم بے نیاز نہیں ہو سکتا۔

اس کے علاوہ حدیث کی ایک دوسرے طرز کی کتابیں ہیں جن سے بھی بہرحال استفادہ کیا جانا چاہیے۔ یہ اپنے فن کی بعض مشہور کتابوں کی احادیث کی تخریج ہیں جن کے مصنفین نے اپنی روایت کردہ حدیثوں کی تخریج کا اہتمام خود نہیں کیا ہے۔ مثال کے طور پر تفسیر کی مشہور کتاب ’الکشاف‘ کی حدیثوں کی تخرج حافظ ابن حجر کی طرف سے، تصوف کی نمائندہ ’احیاء العلوم‘ کی روایت کردہ احادیث کی تخریج حافظ عراقی کی طرف سے یا کتب فقہ مثلاً ہدایہ کی احادیث کی تخریج حافظ زیلعی کی طرف سے، یا اسی طرح ’الاختیار‘ کی حدیثوں کی تخریج جو علامہ محمد قاسم کی کاوش کا نتیجہ ہے، یا مثلاً ’الرافعی الکبیر‘ کی حدیثوں پر نقد ونظر حافظ ابن حجر کی طرف سے جس کا نام ’تلخیص الحبیر‘ معروف ہے۔

اسی طرح حدیث کی ایک دوسری نوعیت کی کتابیں ہیں جن کا موضوع وہ مشہور اور پھیلی ہوئی احادیث ہیں جو ہر شخص کی زبان زد ہیں۔ ان میں اس بات کی تفصیل ہوتی ہے کہ حدیث کس امام کی تخریج کردہ ہے، نیز یہ کہ وہ صحیح ہے یا حسن یا کہیں اور ضعیف اور موضوع تو نہیں ہے۔ اس نوع کی کتابوں میں حافظ سخاوی کی ’المقاصد الحسنہ‘ سرفہرست ہے۔ یہی موضوع ابن ربیع شیبانی کی ’تمییز الطیب من الخبیث فی ما یدور علی السنۃ الناس من الحدیث‘ اور عجلونی کی ’کشف الخفاء ومزیل الالباس فی ما اشتہر من الحدیث علیٰ السنۃ الناس‘ کا بھی ہے جیسا کہ ان کے ناموں ہی سے ظاہر ہے۔ البتہ موخر الذکر زیادہ جامع اور موضوع پر حاوی ہے۔ اس کی ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے ہے۔

ان کے علاوہ کتابوں کا ایک اور سلسلہ ہے جس سے حدیث کا کوئی طالب علم بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ ہماری مراد کتب موضوعات سے ہے جن میں بے سروپا اور حضور پاک ﷺ کی طرف منسوب من گھڑت حدیثوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ علامہ ابن جوزی کی ’الموضوعات‘ ا س سلسلے میں سرفہرست ہے۔ اسی طرح علامہ سیوطی کی ’اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ‘ نیز انہی کی ’تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص‘ ، علامہ ابن قیم کی ’المنار المنیف فی الصحیح والضعیف‘، ملا علی قاری کی ’الموضوعات الکبریٰ‘ نیز ان کی ’الموضوعات الصغریٰ‘ جس کا دوسرا نام ’المصنوع فی معرفۃ الموضوع‘ بھی ہے۔ ابن عراق کی ’تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ من الاحادیث الشنیعۃ الموضوعۃ‘، شوکانی کی ’الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ‘، علامہ عبد الحئی لکھنوی کی ’الاسرار المرفوعۃ‘ اور محدث عصر محمد ناصر الدین الالبانی کی ’الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ واثرہا فی الامۃ‘ وغیرہ بھی اس موضوع سے متعلق ہیں۔ حدیث کے ہر طالب علم کے لیے ان کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(ستمبر ۲۰۰۴ء)

تلاش

Flag Counter