اس دنیا میں کامیابی اور ناکامی کے اصول وقوانین ہر کسی کے لیے یکساں ہیں۔ مومنین کو کامیابی حاصل کرنا ہو، تب اور غیر مومنین اس کے خواہاں ہوں، تب۔ دونوں کو انہیں قواعد کی راہ سے گزرنا ہوگا جو اس عالم کے خالق نے متعین فرما دیے ہیں اور تجربات کی روشنی میں وہ ہر دانا وبینا پر واضح ہو چکے ہیں۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی بعثت اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس ارادے اور اعلان کے ساتھ ہوئی کہ آپ کے ذریعہ دین حق کا بول بالا دنیا میں کیا جائے گا اور کفار ومشرکین خواہ کتنا ہی زور مخالفت میں لگائیں، اللہ کا یہ ارادہ پورا ہی ہو کر رہے گا۔ (ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون ۔ سورۃ الصف) لیکن سیرت طیبہ کا مطالعہ صاف طور پر بتاتا ہے کہ حضرت حق کا یہ مبارک ارادہ بھی ان تمام اسبابی مراحل سے گزر کر ہی تکمیل کو پہنچا جو اسبابی مراحل اس دنیا میں انجام پانے والے کاموں کی تقدیر بنا دیے گئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ کے وہ ۲۳ سال جو اس مشن کے لیے جدوجہد میں صرف ہوئے، ان میں جو مشقتوں اور آزمائشوں کا ایک سلسلہ ہے جس کا تار کہیں ٹوٹتا نظر نہیں آتا، وہ نتیجہ دنیا کے اسی اسبابی قانون ہی کا تو تھا ورنہ کام اللہ تعالیٰ کا اپنا تھا اور وہ جو چاہتے، سب اختیار میں تھا۔
کفر واسلام کی اس کشمکش کے سلسلے میں اہل ایمان کا ذہن اس بے لاگ قانون وسنت الٰہی کی بابت بالکل صاف رکھنے کے لیے غزوۂ احد کے موقع پر جبکہ مسلمان ایک ناگہانی آفت شکست سے دوچار ہو گئے تھے، اس قانون کی یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا گیا تھا کہ اس باب میں تم میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ وتلک الایام نداولہا بین الناس (یہ ہار جیت کی باری ان چیزوں میں سے ہے جس کی ہم لوگوں کے بیچ لوٹ پھیر کرتے رہتے ہیں۔ آل عمران ۳: ۱۴۰) یعنی اپنے ایمانی امتیاز کے باوجود تم بھی اسی طرح منجملہ ’’الناس‘‘ ہو جیسے تمہارے مقابل۔ اور ’’الناس‘‘ کے لیے ہمارا قانون عام یہی ہے۔ ہاں آخرت کے اعتبار سے بھرپور فرق ہے کہ ترجون من اللہ ما لا یرجون (تمہیں اس چیز کی امیدواری کا حق ہے جس کے وہ (دوسرے لوگ) امیدوار نہیں ہو سکتے۔ النساء ۴:۱۰۴)
علاوہ اس کے کہ یہ قانون وسنت الٰہی ہے ہی عام، اس میں اگر اہل اسلام کے لیے کوئی استثنائی صورت پیدا کر دی جاتی اور کلمہ اسلام کا غلبہ معجزانہ طور پر ہوتا تو پھر ایمان لانے والوں کا ایمان پوری طرح ایمان بالغیب کہاں رہتا؟ جب کہ ایمان کی تو جان ہی وہ ہے! بالفاظ دیگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہرگز نہیں چاہا کہ لوگ آزادانہ اختیار کے بجائے کسی دباؤ میں ایمان لاویں ورنہ وہ فرماتے ہیں کہ ان نشا ننزل علیہم من السماء آیۃ فظلت اعناقہم لہا خاضعین (ہمارے لیے تو ذرا بھی مشکل نہ تھا کہ آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتار دیں کہ اس کے آگے ان کی گردنیں جھکی ہی رہ جائیں۔ الشعراء ۲۶: ۴) سورہ شعراء کی یہ آیت آنحضرت ﷺ کو بایں الفاظ خطاب کرتے ہوئے نازل ہوئی ہے کہ لعلک باخع نفسک ان لا یکونوا مومنین (لگتا ہے کہ تم اس غم میں جان ہی دے ڈالو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے! ۲۶: ۳) نیز ایک اور بھی ایسی ہی بڑی مصلحت استثنائی صورت پیدا نہ کرنے میں یہ تھی کہ یہ پودا پھر آپ کے بعد (معاذ اللہ) زیادہ دن تک ہرا نہیں رہ سکتا تھا اس لیے کہ ساتھیوں کی کوئی تربیت ہی اس کی خاطر جدوجہد کی نہ ہو سکی ہوتی۔ اسی کو سورۂ محمد میں کفار کی چیرہ دستیوں کے مقابلے میں جنگ آزمائی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ولو یشاء اللہ لانتصر منہم ولکن لیبلو بعضکم ببعض (اللہ اگر چاہتا تو خود ہی ان سے انتقام لے لیتا، لیکن (اس کے بجائے تمہیں نپٹنے کا یہ حکم اس لیے دیا) تاکہ ایک کو دوسرے سے آزمائے۔ آیت ۵) پس اس قانون عام کے تحت ہر قسم کی جدوجہد لازم ہونے سے اصحاب کرام کے دلوں میں دین نے وہ جڑ پکڑی کہ نظام عالم بدل ڈالا اور زمانے میں اسی جدوجہد کے لیے جذبے کی امنگ قیامت تک کے لیے چھوڑ گئے۔ رضی اللہ عنہم
الغرض، اس دنیا میں مقاصد کی کام یابی کے لیے جو عام اصول وقانون ہیں، وہ سب کے لیے یکساں ہیں اور ان اصول وقوانین میں صرف محنت ومشقت اور جانبازی وجاں سپاری ہی نہیں، حالات او ر ماحول کا مطالعہ بھی ہے۔ ان کے ناموافق عنصر کو اپنے حق میں ڈھالنے یا ان کے بیچ میں سے اپنی راہ نکالنے کے لیے حکمت وتدبر بھی ہے اور ناگزیر صورتوں میں سمجھوتہ بھی۔ آنحضرت ﷺ کی سیرت پاک میں ہمیں ان سب چیزوں کی مثالیں ملتی ہیں۔ دعوت حق کی راہ میں شبانہ روز جدوجہد اور مخالفتوں اور اذیتوں کا تحمل، یہ تو تیرہ سالہ مکی زندگی کی وہ مسلسل کہانی ہے جس سے ہر دین آشنا مسلمان کم وبیش واقف ہے۔ البتہ اس دردناک کہانی کا ایک پہلو ایسا ضرور ہے کہ کم ہی ذکر میں آتا ہے۔ مناسب ہے کہ اس کی طرف اشارہ یہاں ہی کر دیا جائے۔ یہ وہ پہلو ہے جو طائف کی الم ناک کہانی کے بعد سامنے آتا ہے۔ طائف کی طرف آپ نے اس وقت رخ کیا تھا جب چچا ابو طالب انتقال فرما گئے اور مکہ والوں کے لیے کوئی روک اب آپ پر دست درازی سے نہ رہی۔ پر طائف کی سیہ بختی نے آپ کو لہولہان کر کے مکہ ہی میں لوٹ جانے پر مجبور کیا۔ یہاں سے آنحضرت ﷺ کا سارا زور حج کے لیے آنے والے عرب قبائل کی طرف متوجہ ہوا۔ آپ ایک ایک کے خیمے پر تشریف لے جاتے، دین حق کی دعوت پیش کرتے اور اس کے قبول میں ظاہر ہے بڑا پس وپیش سامنے آتا ہوگا۔ تب آپ صرف اس بات کے بھی طالب ہوتے کہ کوئی قبیلہ آپ کو اسی طرح کی اپنی حفاظت میں اپنے ساتھ لے جائے جیسی حفاظت آپ کو خواجہ ابو طالب کی سرپرستی میں حاصل تھی تاکہ آپ دعوت کا کام کر سکیں۔ اللہ اکبر! اللہ کا محبوب نبی اللہ کے دین کی دعوت جاری رکھ سکنے کے لیے بالکل اسی طرح غیر اللہ کی حفاظت کا طلبگار بنایا جا رہا ہے جیسے کسی دنیوی مشن کے لیے صاحب مشن کو اگر ضرورت ہوگی تو وہ یہ کرے گا۔ لیکن حضور رسالت مآب سے اگر یہ عملی نمونہ قائم نہ کرایا گیا ہوتا تو بعد والوں کو دین کے لیے ذات کو مٹانے کا حوصلہ کہاں سے ملتا؟ اللہم صل علی عبدک ونبیک صلوۃ وسلاما دائمین متلازمین الی یوم الدین۔
مکہ کے اس تیرہ سالہ دور کے بعد مدنی زندگی آئی اور کفار مکہ کے سراپا ظلم وجبر کے ماحول سے نجات پا کر آزادی کی فضا میں سانس لینا میسر آیا تو یہاں اس آزادی کے تحفظ کے لیے جہاں تلوار اٹھانا ناگزیر ہوا، وہاں حکمت وتدبر کے تقاضوں سے وہ تمام سیاسی اقدامات بھی ہوئے جو اس دنیا میں مخالفوں سے نپٹنے اور مخالفتوں کو توڑنے کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے یہود مدینہ سے یکجہتی کا معاہدہ کیا۔ پھر ایک وقت آیا تو مشرکین مکہ کے ساتھ صلح حدیبیہ کی وہ دستاویز لکھی گئی کہ ایک سیدنا ابوبکر صدیق کے علاوہ کسی مسلمان کے حلق سے نہیں اتر رہی تھی۔ صلح کی اکثر شرطیں وہ تھیں جن میں کفار کا ہاتھ اوپر اور مسلمانوں کا نیچے نظر آتا تھا مثلاً مسلمان جو کہ عمرہ کی نیت سے گئے تھے اور چھ برس سے اس کے لیے ترسے ہوئے تھے، انہیں بغیر عمرہ کیے عین مکہ کی اس سرحد سے واپس جانا تھا۔ مکہ میں جو مظلوم مسلمان اپنے کافر خاندان کے ہاتھوں میں قید پڑے تھے، وہ اگر کسی طرح موقع پا کر مدینہ کو نکل جائیں تو مکہ والوں کے مطالبے پرانہیں واپس کیے جانے کی بھی شرط تھی جبکہ مدینہ سے خدا نخواستہ کوئی مرتد ہو کر یا مزید کوئی اور جرم بھی کر کے مکہ کو بھاگ آئے تو اس کی واپسی کے مطالبے کا حق مسلمانوں کے لیے نہیں تھا۔ اور آخری درجہ کی بات یہ کہ ابھی دستاویز لکھی ہی جا رہی تھی یعنی معاہدہ ابھی ہو انہیں تھا کہ ایک نوجوان مظلوم مسلمان کسی طرح اپنی ہتھکڑیوں بیڑیوں میں گرتا پڑتا حدیبیہ میں آپہنچا کہ مسلمان اسے اس عذاب سے نجات دلا دیں۔ موقع پر مسلمان اس پوزیشن میں تھے کہ نوجوان کو اپنی حفاظت میں لے سکتے تھے مگر فریق ثانی بضد ہوا کہ اسے آپ اپنی تحویل میں نہیں لے سکتے ہیں ورنہ معاہدہ نہیں ہوگا۔ یہ قطعی بے جا ضد بھی قبول کی گئی تاکہ معاہدے کی تکمیل میں رکاوٹ نہ پڑے حالانکہ وہ نوجوان فریاد کرتا تھا کہ ہائے یہ کیا ستم ہے، مجھے ان بھیڑیوں کے ہاتھ میں واپس دیا جا رہا ہے۔ یہ اس قدر دب کر کی جانے والی مصالحت اگر نتیجے کے اعتبار سے ’فتح مبین‘ ثابت ہوئی، جیسا کہ قرآن پاک نے مسلمانوں کی بے چینی اور بد دلی کو دور کرنے کے لیے فوراً ہی اس کے ’’فتح مبین‘‘ ہونے کا مژدہ سنا دیا تھا، مگر ظاہری طور پر تو یہ ویسی ہی دب کر کی جانے والی صلح تھی جیسی نظر آ رہی تھی۔ البتہ ہوش وخرد کی زبان میں ایک سیاسی دور اندیشی اور تدبر کے ماتحت اختیار کی جانے والی محض ایک وقتی پسپائی تھی۔
یہ ہجرت مدینہ کے چھٹے سال کی بات ہے۔ اس سے ایک سال پہلے (ہجری ۵ میں) قریش مکہ اور خیبر کے یہود نے دوسرے مشرک عرب قبائل کو ملا کر مدینہ پر چڑھائی کی۔ اس واقعہ کو غزوہ احزاب اور غزوہ خندق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ احزاب کے لفظ سے اشارہ ہے دشمن کے مختلف گروہوں پر مشتمل ہونے اور خندق کا لفظ ان کے مقابلے کی دفاعی تدبیر کو بتاتا ہے جو کہ مدینے میں ان کے داخلے کو مشکل بنانے کے لیے ایک خندق کھود کر اختیار کی گئی تھی۔ یہ عرب بھر کے تمام دشمنوں کی ایک ساتھ ہو کر بڑی شدید یلغار تھی۔ دس بارہ ہزار کی جمعیت تھی جس نے مدینے پر چڑھ کر اسلام کی جڑیں کھود ڈالنے کی ٹھانی تھی اور اس کے چڑھ آنے سے مسلمان اس درجے کی آزمائش میں مختلف پہلوؤں سے مبتلا ہوئے تھے کہ قرآن پاک نے اس سے نجات دلانے کا ذکر کرتے ہوئے ان الفاظ میں اس کا نقشہ کھینچا ہے:
اذ جاء وکم من فوقکم ومن اسفل منکم واذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر وتظنون باللہ الظنونا ہنالک ابتلی المومنون وزلزلوا زلزالا شدیدا (الاحزاب ۳۳: ۱۰، ۱۱)
’’اور وہ وقت یاد کرو جب آئے وہ تمہارے اوپر کی سمت سے بھی اور نیچے سے بھی، اور جب آنکھیں (مارے دہشت کے) پھٹیں اور کلیجے آگئے منہ کو۔ اور گمان تمہیں آنے لگے تھے طرح طرح کے، اللہ کے حق میں۔ یہ وقت تھا کہ مومن ہلا ڈالے گئے تھے بری طرح۔‘‘
خندق کی تدبیر نے دشمن کو اندر آجانے سے تو روک دیا لیکن وہ آسانی سے واپس جانے کو بھی کیسے آمادہ ہو سکتا تھا؟ تقریباً مہینہ بھر محاصرہ رہا، اور ساتھ ہی پشت کی طرف سے یہودی قبیلے بنی قریظہ کی طرف سے بد عہدی کا خطرہ بھی نمودار ہو گیا تھا۔ پس اس مہینہ بھر کے طویل عرصے میں مسلمانوں کو اپنی قلت تعداد، پھر سخت سرد موسم، نیز معاشی تنگ حالی کے ساتھ ہمہ وقت پہرہ چوکی کی مشقت نے اس حال کو پہنچا دیا تھا جس کا حوالہ قرآن پاک نے مذکورہ بالا آیت میں دیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا شفیق ومہربان دل اپنے وفادار ساتھیوں کی اس حالت سے جتنا بھی پریشان ہوتا، کم تھا۔ آپ نے یہ اندازہ کرتے ہوئے کہ دشمن بھی لاحاصل محاصرہ کی طوالت سے تنگ آرہا ہوگا، ان کے تین میں سے ایک اس گروہ کو توڑنے کی تدبیر کا ارادہ فرمایا جس کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا کہ اس کی شرکت کا اصل محرک اسلام دشمنی نہیں بلکہ مال غنیمت ہونا چاہیے چنانچہ آپ نے اس پیشکش کے ساتھ اس سے سلسلہ جنبانی کی کہ وہ اگر باقی دو گروہوں کا ساتھ چھوڑ جائے تو مدینے کی کھجوروں کی فصل کا ایک تہائی اس کے عوض میں اس کو دیا جا سکتا ہے۔ یہ گروہ قبیلہ بنو غطفان تھا۔ حضور ﷺ کا اندازہ صحیح نکلا۔ یہ راضی ہونے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے انصار مدینہ کے سرداروں کو مشورہ کے لیے طلب فرمایا اس لیے کہ مال تو انہیں کاتھا مگر یہ پیش کش جس کے لیے اللہ کے حبیب ﷺ نے اپنے آپ کو راضی کرنے میں حرج نہیں سمجھا، اس پر آپ کے غلام ان سرداروں کا جواب کیا تھا؟ عرض کیا یا رسول اللہ، اگر آپ کو یہ بات پسند ہے تو سر آنکھوں پر اور اس سے بڑھ کر اگر حکم الٰہی ہے تو پوچھنا ہی کیا؟ لیکن اگر یہ کچھ نہیں بلکہ آپ محض ہماری خاطر اس حد پہ جانا قبول فرما رہے ہیں تو یا رسول اللہ، آج تو ہم آپ کی غلامی کی عزت کے تاج دار ہیں، کل جب کہ ہم انہیں بنو غطفان کی طرح بتوں کے پجاری تھے، ایسی بات کاتو یہ اس زمانے میں بھی خواب نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ہمارا مال یہ مہمان بن کے کھا سکتے تھے یا پھر خریدار بن کے۔ انصاری سرداروں کے اس جواب پر یہ تجویز قدرتی طور پر داخل دفتر ہو گئی اس لیے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: میں نے یہ بات صرف تم لوگوں کی پریشانی دور کرنے کے لیے سوچی تھی ورنہ مجھے نہ ذاتی طور پر یہ پسند ہو سکتی تھی نہ ہی اللہ کا کوئی حکم تھا۔
الغرض جو بات سرور عالم ﷺ کے غلام ازراہ غیرت سوچ نہیں سکتے تھے، اسے آپ ازراہ سیاست کر گزرنے کی گنجائش ایسے غیرت مند فداکاروں کی موجودگی میں بھی پاتے تھے جیسا کہ یہی صلح حدیبیہ میں بھی ہوا۔ حالانکہ وہی آپ تھے کہ مکہ کی بے نوایانہ ومظلومانہ زندگی تھی،خواجہ ابو طالب کا سایہ بھی سر سے اٹھ چکا تھا۔ حج میں آنے والے قبائل کے خیموں پر اس مقصد سے گشت فرماتے کہ کوئی آپ کا اور آپ کی اسلامی دعوت کا محافظ بن جانا قبول کر لے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے لیکن کسی نے اگر اس کی قیمت میں سوائے احسان مندی کے کوئی دنیاوی وعدہ مانگا تو شدید حاجت مندی کے اس حال میں بھی صاف انکار فرما دیا اس لیے کہ یہ معاملہ جذبہ احسان وخلوص کا طالب تھا، سودے بازوں سے بات نہیں بن سکتی تھی۔ ہاں، جہاں موقع حریفوں کے ساتھ سیاست کے تقاضے برتنے کا آیا، وہاں اگر حالات کا تقاضا پیچھے ہٹنے اور دب جانے کا ہے، تو آپ ﷺ کو ایسا کرنے سے کبھی یہ خیال مانع ہوتا ہوا نہیں ملتا کہ آپ تو فرستادۂ خدا ہیں، اور دنیا کو کہہ سنایا جا چکا ہے کہ آپ کے ذریعہ کلمہ حق کو غالب ہونا ہے اور کفر کو نامراد وخوار، پس دبنا اور ہٹنا حریف ہی کو ہوگا۔
حریفوں کے ساتھ معاملت میں سیاست کے تقاضوں اور احوال وظروف کی رعایت میں یہ واقعہ بھی جس کا ہمارے یہاں کافی تذکرہ ہوتا رہتا ہے، بھول جانے کا نہیں ہے کہ ایک غزوہ (غزوہ بن المصطلق) میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ جو لشکر تھا، ا س کے دو افراد ( ایک مہاجر اور ایک انصاری) میں شیطان کی فتنہ انگیزی سے ایک ناخوش گوار صورت پیدا ہو گئی تو رئیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی نے چاہا کہ اس موقع کو انصار ومہاجرین کے درمیان مکمل فتنے میں بدل ڈالے۔ اس نے انصار کو بھڑکانے کے لیے کہا کہ یہ ہمارا اپنا قصور ہے کہ یہ مکہ سے آئے ہوئے ہمارے سر چڑھ گئے ہیں، لیکن اب برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ’’اب جو عزت والا ہے، وہ ذلت والوں کو مدینہ سے نکال باہر کرے گا۔‘‘ ایک انصاری نوجوان نے یہ کلمہ کفر حضور ﷺ کو پہنچایا تاکہ آپ اس فتنہ انگیزی کا مناسب سدباب کریں۔ حضرت عمر فاروق کو علم ہوا، اذن چاہی کہ اس واجب القتل کو قتل کریں۔ سرکار دو عالم نے فرمایا: لوگ کہیں گے ’’محمد اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کر تا ہے۔‘‘ دنیا کیا کہے گی؟ اس کو بھی ملحوظ رکھنے کی اس سے بڑی اور کون سی مثال سیرت میں تلاش کرنے کو رہ جاتی ہے؟ ابن ابی کی طرف منسوب کی گئی یہ بات وہ تھی جس کو قرآن پاک نے بھی نہایت پر غیظ انداز میں بیان فرمایا۔ (سورۃ المنافقون ۶۳: ۸) مگر اللہ کے رسول ﷺ نے اہل ایمان کا غیظ ٹھنڈا کیا کہ اسلام کی مصلحت اس غیظ کو پی جانے ہی میں تھی! اور یہ ایک دن کی غیظ نوشی تھوڑا ہی تھی، مدینہ کے پورے دس سالہ عرصہ میں ان منافقین کی پیہم شرارتوں کے باوجود انہیں برداشت ہی کرنے کا حوصلہ دکھایا گیا۔
مختصر یہ کہ اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے لیے بھی اس سے چارہ نہیں رکھا کہ وہ اپنی رسالت کا مشن پورا کرنے کے لیے عالم اسباب کے وہ تمام طریقے عمل میں لائیں جو اس عالم کے اصول وقوانین کی رو سے کسی بھی مقصد ومدعا کی تکمیل کے لیے معروف ہیں اور اللہ کی خصوصی مدد کی امید بھی اسی طرز عمل کے پردے میں رکھیں۔ بدر میں مدد آئی تو وہی سب کچھ کرنے کے بعد جو بندے کے بس میں تھا۔ اور غزوہ خندق میں مدد آئی تو وہ بھی لگ بھگ ایک مہینہ تمام پاپڑ بیلنے کے بعد۔
آمدم بر سر مطلب۔ ۸/ اکتوبر ۲۰۰۱ء (مطابق ۲۰ رجب ۱۴۲۲ھ) کو جب امریکہ نے طالبان کی حکومت ختم کرنے کے لیے افغانستان پر حملے کا آغاز کیا تو اس کے بھی روس ہی کی طرح خوار ہو کر نکلنے کا خواب دیکھنے والے بے گنتی لوگوں میں ایک یہ راقم الحروف بھی تھا حالانکہ یہ ان میں سے نہ تھا جو طالبان کے طرز حکومت سے پوری طرح راضی ہوں۔ پھر بھی ایک طرف ایک جہاد پیشہ لوگوں کی اسلامی حکومت اور دوسری طرف بظاہر بالکل ایک بے جواز حملہ۔ اس لیے اس خواب کا پوری طرح جواز نظر آرہا تھا مگر جب رمضان مبارک کا اختتام ہوتے ہوتے یہ خواب بالکل الٹا ہو کر سامنے آیا تو اس جھٹکے سے ذہن کو تلاش ہوئی کہ خواب دیکھنے میں غلطی کیا تھی؟ اسی تلاش سے خیالات کا یہ سلسلہ ذہن میں قائم ہوا جو اوپر کی سطروں میں رقم ہوئے اور اس کے بعد ذہن جس نتیجہ پرمطمئن ہوا، وہ یہ تھا کہ غلطی اسی قسم کی تھی جس قسم کی خام خیالیوں کے ماتحت بنی اسرائیل نے خود کو (قرآن پاک کے بیان کے مطابق) اللہ کے ’ابناء واحباء‘ ٹھیرا لیا تھا اور زعم باندھ لیا تھا کہ ہمیں تو نار جہنم مشکل سے چھوئے گی۔ ہمیں قرآن پاک کی یہ آیتیں اور سیرت پاک کے یہ اوراق تو یاد نہیں رہے ہیں جن کی طرف اوپر کی سطروں میں کچھ اشارات کیے گئے ہیں۔ اس کے بجائے جو یاد رہ گیا، وہ حضرت علی مرتضیٰ، خالد بن ولید، عمرو بن العاص، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی (رضی اللہ عنہم) کے نعرہائے اللہ اکبر، ان کی شمشیروں کی چمک دمک اور قدم چومتی ہوئی فتوحات ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں بس گیا ہے کہ اس نعرۂ ایمانی کے سامنے کفر کو بس سرنگوں ہی ہونا ہوگا اور یہ ایسا جما ہے کہ صدیوں سے ’ترشی‘ کی پیہم خوراکیں بدقسمتی ہمیں دے رہی ہیں مگر اس کے جماؤ میں فرق نہیں آتا۔ جب بھی کسی نئی آزمائش کے بادل جمع ہوتے ہیں،ہمارے ذہنوں میں شعر رقصاں ہو جاتا ہے:
آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کوپھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟
اور جب نتیجہ امتحان میں ’فیل‘ ہونے کا نکلتا ہے تو زبان پر آئے نہ آئے، دلوں میں ضرور علامہ اقبال (غفر اللہ لہ) والے شکووں کا گزر شروع ہو جاتا ہے:
خندہ زن کفر ہے، احساس تجھے ہے کہ نہیں؟
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں؟
آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
خدا معلوم کتنوں کے دلوں سے نکل کر زبان پر بھی ایسی بات افغانستان کے اس المیہ پر آگئی ہو۔ متعین طور سے دو ایسے شکووں کی روایت تو ایسے ثقہ اور نہایت معروف ذی علم راوی سے براہ راست سننے میں آئی کہ شبہے کی گنجائش نہیں اور ان دو متعین روایتوں کے علاوہ ہمارے اسلامی رسائل وجرائد میں اس سانحہ پر لکھے گئے مضامین سے تو صاف شہادت مل رہی ہے کہ اس موقع پر مایوسی نے عام مسلمانوں کے ایمان کو ایسی سخت آزمائش میں ڈال دیا ہے کہ ان کی مایوسی دور کرنے کے لیے ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ کوئی بھی ممکن طریقہ بچا کے نہ رکھا جائے۔ اس پس منظر میں مناسب معلوم ہوا ہے کہ اپنی ذاتی مایوسی دور کرنے والی جو باتیں ذہن میں آئیں، انہیں اپنے ہی تک محدود رکھنے کے بجائے دوسروں تک پہنچ جانے دیا جائے، شاید کچھ دلوں کے لیے اس میں تسلی کا زیادہ سامان ہو اور آئندہ ایسی مایوسیوں سے بچانے کا ذریعہ بھی بن جائے۔ اپنے ذہن کی باتوں کا حاصل، جیسا کہ اوپر آ چکا، یہ تھا کہ غلطی خود خواب اور خواب دیکھنے ہی کی تھی۔ کیوں یہ خواب غلط تھا کہ ان شاء اللہ امریکہ بھی افغانستان سے ایسے ہی رسوا ہو کر نکلے گا جیسی رسوائی سے نکلنا روس کے حصے میں آیا تھا؟ کیوں نہیں یہ خواب دیکھنا صحیح تھا؟
اولاً اس لیے کہ روسی یلغار اور امریکی یلغار کے حالات میں زمین وآسمان کا فرق تھا۔ روسی یلغار کے موقع پر پاکستان تو فوراً ہی پشت پر آکھڑا ہوا تھا، پھر امریکہ بھی اپنی روس دشمنی میں موقع سے فائدہ اٹھانے کوبھرپور کمک لے کے آپہنچا۔ سعودی عرب اور امارات وغیرہ نے مالی مدد کا محاذ سنبھالا جبکہ اس دفعہ پاکستان نے ناتا ہی نہیں توڑ لیا، وہ حملہ آور امریکہ کا خیمہ بردار بن گیا۔ پھر ان دونوں کارخ دیکھ کر عربوں نے بھی سلام کر لیا۔ شمالی اتحاد کے نام سے آستین میں ایک سانپ پہلے ہی سے پلا بیٹھا تھا جسے برابر میں لگے ہوئے ایران علیٰ ہذا تاجکستان جیسی سابق روسی ریاستوں ہی کی حمایت حاصل نہیں تھی، بھارت کی حمایت بھی تھی اور یورپ کی حمایت بھی۔ پس عالم اسباب کے حالات تو یہ سمجھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ طالبان اس دفعہ کا وار سنبھال پائیں گے۔ قرآن پاک کی رو سے بھی اہل ایمان مقابل کی جس زیادہ سے زیادہ بڑی قوت پر غلبہ کی توقع رکھ سکتے تھے، وہ دس گنی قوت تھی۔ فرمایا گیا کہ بیس ہوں گے تو دو سو (۲۰۰) پر اور سو ہوں گے تو ہزار پر غالب آ جائیں گے۔ اور پھر بعد میں اس تناسب کو بھی گھٹا کر ایک اور ۱۰ کے تقابل کو ایک اور ۲ سے بدل دیا گیا۔ (سورۃ الانفال ۶: ۶۵، ۶۶) جبکہ یہاں تو دونوں قوتوں میں تناسب کا فرق سیکڑوں نہیں، ہزاروں میں ٹھہر رہا تھا۔
ثانیاً پاکستان گورنمنٹ نے افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے آگے جس طرح بے چوں چرا سر جھکایا، ہم اسے صحیح کہیں یا غلط، مگر وہ اس بات کا صاف سگنل تھا کہ اٹلانٹک کے پار سے آتا ہوا طوفان کچھ بہت ہی غیر معمولی ہے۔ پاکستان میں کوئی سی بھی حکومت رہی ہو، حالات کچھ بھی رہے ہوں، روس سے آزاد کرائے گئے افغانستان کا ساتھ چھوڑنے کی گنجائش وہاں (سوائے مسٹر نواز شریف کے بالکل آخری چند دنوں کے) کبھی نہیں سوچی جا سکی اور ایک فوجی حکومت (جنرل ضیا کی حکومت) کے ہاتھوں بنا کردہ اس پالیسی کے تسلسل میں اصل ہاتھ بھی پاکستانی فوج ہی کا رہا تھا، چنانچہ جنرل مشرف کے آتے ہی پالیسی میں تبدیلی کی وہ بساط لپٹ گئی جس کا آغاز نواز شریف امریکہ کے دباؤ میں کرنے لگ گئے تھے اور یہ بساط ۱۱ ستمبر تک اس کے باوجود علیٰ حالہ لپٹی رہی کہ مشرف حکومت کو طالبان سے اس طرح کی شکایات بھی چل رہی تھیں کہ ان کے یہاں ایسے افراد کوپناہ مل رہی ہے جو پاکستان میں برپا فرقہ وارانہ قتل وغارت میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔ دوستانہ وبرادرانہ پالیسی کا یہ تسلسل پاکستانی حکومتوں کی کوئی خالصتاً للہ فی اللہ مہربانی نہیں تھی کہ اگر پڑنے لگے تو بلا دقت اس سے دست بردار ہو جائیں، اس سے ان کی سلامتی اور دفاع جیسا اہم مفاد وابستہ تھا۔ ان کو ہندوستان سے جنگ میں یہ تجربہ ہوا تھا کہ ہندوستان سے زور آزمائی کے لیے ان کا ’آنگن‘ بہت چھوٹا ہے، افغانستان سے برادرانہ تعلق میں خاص کر طالبان جیسی ٹھیٹھ مذہبی حکومت وہاں موجود ہونے میں پھر سے کوئی وقت پڑنے پر اپنے ’آنگن‘ کو بھرپور وسعت میسر آ جائے گی۔ یہی راز تھا کہ مشرف حکومت پہلے دن سے کھلے سیکولر رجحان کا اظہار کرنے کے باوجود افغانستان کے ساتھ تعلق میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت سے ذرا بھی پیچھے نظر نہ آتی تھی۔ افغانستان سے تعلق کی اس نوعیت میں مشرف حکومت کا آن واحد میں اس تعلق کو پس پشت ڈالنے پہ راضی ہو جانا، اور اپنی ایٹمی ’طاقت‘ وغیرہ کو بھی یکسر بھول جانا، یہ سمجھانے کے لیے سو فی صد کافی ہونا ہی چاہیے تھا کہ طالبان حکومت کو نشانہ بنا کر آتا ہوا طوفان یقیناًایسا ہے کہ اللہ ہی اس حکومت کی خیر کرے۔ بے نظیر یا نواز شریف حکومت میں یہ صورت پیش آتی تو یہ گمان بھی آسان تھا کہ بزدلی میں سپر ڈال دی ہوگی مگر یہاں تو برسر حکومت وہ جنرل تھا جو ابھی ذرا پہلے کارگل جیسی خطرناک مہم جوئی کر چکا تھا۔ الغرض ایسی کھلی علامت قیامت سامنے آجانے پر بھی اگر ہم نے خواب دیکھا کہ غلبہ ان شاء اللہ طالبان ہی کو ملے گا تو یہ محض خوش عقیدگی کے سوا اور کیا تھا؟ اور غلطی اس میں خود اپنے سوا اور کس کی تھی؟ دعا بے شک کرنی تھی، بھروسہ بھی رکھنا تھا کہ اللہ چاہے تو خلاف قیاس وگمان ہو سکتا ہے مگر خطرہ دل میں حالات کے مطابق رکھنا تھا کہ مبادا دل ناصبور شکوہ سنجی کا گنہگار ہو جائے۔
ثالثاً اس لیے کہ طالبان، جہاں تک معلومات میسر تھیں، سچے جذبہ جہاد سے سرشار تھے، مخلص اہل ایمان تھے ، اللہ کے کلمہ حق کی بلندی ان کا منتہائے آرزو تھا، مگر میسر معلومات ہی کی روشنی میں یہ صاف نظر آتا تھا کہ وہ اللہ کی دی ہوئی ان خصوصیات ہی کو اپنی بقا اور مزید پیش رفت کی مکمل ضمانت سمجھتے، اور اس چیز کو کوئی خاص اہمیت نہیں دینے کو تیار تھے کہ زمانہ ان کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے، ان کے کس فعل وفیصلے کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور اس پر کیا رد عمل ظاہر کرتا ہے؟ طالبان ’اصحاب حال‘ ہو سکتے تھے جن کے یہاں خوب وناخوب کا پیمانہ ہی الگ ہوتا ہے مگر ہم کو تو سوچنا تھا کہ زمانہ میں، اور وہ بھی ایسی چوطرفہ مخالفت کے زمانے میں جیسی کہ طالبان کو درپیش تھی، اس طرح جینے اور مخالف طاقتوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی مثال کہیں ملتی بھی ہے کہ ا س سب کے ساتھ بھی ہم فتح طالبان کا خواب دیکھیں؟ زمانہ کے رخ کو خاطر میں نہ لانے اور احوال وظروف کی پروا سے بالاتر رہنے کی کوئی مثال تو ہمیں رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بھی نہیں ملی جب کہ آپ بھیجے گئے تھے تو نوشتہ فتح وظفر ہاتھ میں تھا۔ ہاں فتح وظفر نہیں، شہادت مطلوب ہو تو دوسری بات ہے اور تاریخ اسلام میں اس کی مثال ہمیں غزوہ موتہ (۸ ھ) میں ملتی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے تین ہزار کا ایک لشکر حضرت زید بن حارثہ کی سرکردگی میں سرحد شام کی طرف روانہ فرمایا تھا۔ لشکر کو وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ دشمن بظاہر آگاہ ہو گیا تھا اور اس نے اتنی غیر معمولی تیاری کر رکھی تھی کہ طرفین کاکوئی مقابلہ نہیں۔ حضرت زید کی رائے ہوئی کہ آنحضرت ﷺ کو اطلاع کی جائے اور پھر آپ کے حسب ہدایت قدم اٹھایا جائے مگر حضرت عبد اللہ بن رواحہ جن کو حضور ﷺ نے بشرط ضرورت تیسرے نمبر پر کمانڈر نامزد فرمایا تھا، انہوں نے اصرار فرمایا کہ نہیں، ہم تو فتح کے لیے نہیں شہادت کے لیے لڑتے ہیں، ہمیں بنام خدا اپنا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ اور اس تقریر سے شوق شہادت نے غلبہ حاصل کر لیا، چنانچہ شہادت ہی حصے میں آئی اور چوتھے نمبر پر جب کمان حضرت خالد بن ولید کو ملی تو آپ بڑی حکمت سے باقی ماندہ لشکر کو بچا کے مدینہ واپس لائے۔
طالبان کے اس ’اصحاب حال‘ جیسے رویے میں یوں تو وہ ہی باتیں آتی ہیں جن کو ان کے تمام فہمیدہ ہمدرد نفاذ شریعت میں غیر ضروری عجلت وشدت کا مظہر پاتے تھے اور جس سے نچلے اہل کاروں کے ہاتھوں ایسے واقعات تک ظہور میں آئے کہ ایک پاکستانی ٹیم میچ کھیلنے ان کے یہاں گئی اور یہ لڑکے اپنے معمول کے مطابق نیکر پہنے فیلڈ میں اترے تو اس پر یہ مہمان قابل گرفت قرار پا گئے اور سزا میں ان کے سر مونڈ دیے گئے۔ طالبان حکومت کو اس کے لیے بعد میں معذرت بھی کرنا پڑی لیکن اس سلسلے کے جس اقدام نے دنیا کی پروا کرنے نہ کرنے کے پہلو سے آخری درجے کی مثال قائم کی، وہ گوتم بدھ کے مجسموں کو توڑنا تھا۔ ان کے خلاف بدترین پروپیگنڈا تو نفاذ شریعت والے بعض اقدامات کی بنیاد پر پہلے ہی حقوق انسانی کے حوالے سے چل رہا تھا، اس اقدام نے پراپیگنڈے کی اس آگ پر تیل کا کام کر دیا۔ یہ وہ کام تھا کہ حالات کے پیش نظر خود راقم الحروف کی سمجھ میں، اس کے باوجود نہیں آ رہا تھا کہ محترم اور معتبر علما کے فتوے اس کی حمایت میں چھپ رہے تھے۔ امریکہ کے لیے طالبان کے باضابطہ نمائندہ (سید رحمت اللہ ہاشمی) کے بیان کے مطابق اس اقدام کی وجہ یہ تھی کہ ’’اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو اور سویڈن کی ایک غیر سرکاری تنظیم کا ایک وفد اس منصوبے کے ساتھ افغانستان آیا کہ ان مجسموں کے چہروں میں جو کچھ ٹوٹ پھوٹ گردش ایام سے آ گئی ہے، اسے درست کر دیا جائے۔ اس پر افغان علماء کونسل نے کہا کہ آپ اس کام پر رقم خرچ کرنے کے بجائے ہمارے ان بچوں کی جان بچانے میں صرف کریں جو (اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیوں کی بنا پر) مناسب دواؤں اور غذاؤں کی کم یابی سے ہلاک ہو رہے ہیں، لیکن وفد کو اپنے منصوبے ہی پر اصرار رہا تو ان سے کہا گیا کہ آپ کو اگر ہمارے بچوں کو بچانے کی فکر نہیں تو پھر ہم بھی ان مجسموں کو ختم ہی کیے دیتے ہیں۔‘‘ سید رحمت اللہ ہاشمی کا یہ بیان الفرقان کے صفحات (جولائی ۲۰۰۱ء) میں بھی چھپ چکا ہے یعنی یہ مجسمہ شکنی کا اقدام صرف ایک غصے کا اقدام تھا اور وہ ایسے مخالف حالات میں کہ دنیا نے بحکم اقوام متحدہ حقہ پانی بند کر رکھا تھا۔ اس اقدام نے دنیا پر کیا اثر ڈالا؟ اور گھات لگائے ہوئے دشمن نے اس سے کس قدر فائدہ اٹھایا؟ یہ اب کوئی ڈھکی چھپی کہانی نہیں ہے لیکن اس کے حق میں دیے جانے والے فتووں کی اشاعت نے بتایا کہ اس اقدام کا منفی اثر صرف غیر دنیا ہی پر نہیں پڑا، مسلم دنیا پر بھی ا س نے اس قدر مخالفانہ اثر چھوڑا کہ اس کے ازالے کی کوشش میں فتووں کی ضرورت پیش آگئی۔
فتوے تو ظاہر ہے کہ مسلم دنیا ہی میں کام آ سکنے والی چیز تھی، غیر دنیا کے لیے تو ان کے کوئی معنی نہ تھے۔ الغرض عالمی مخالفت کے ماحول کو زیادہ سے زیادہ طاقت پہنچانے والے اس رویے کے ساتھ بھلا کیسے یہ خواب دیکھنا معقول ہوتا کہ اس دفعہ کے حملہ آور کے ساتھ بھی افغانستان میں وہی ان شاء اللہ ہوگا جو روس کے ساتھ ہوا تھا؟ مگر کیا ہی لطیفہ ہے کہ جب حملہ ہوا تو استعجاب واعتراض کی یہ ساری منطق اپنے ذہن سے غائب ہو گئی اور معجزاتی فتح کی امید اس کی جگہ پر آبسی۔ وجہ بظاہر صرف وہی کہ ’’آساں نہیں مٹانا نام ونشاں ہمارا‘‘ والے ذہن کا جو ایک مبالغہ آمیز اور مغالطہ انگیز سانچہ ہمارے یہاں بنا ہوا ہے، وہ تھوڑا یا بہت لکھ پڑھ لینے کے باوجود بھی کم ہی بدلتا ہے اور یقین ہے کہ یہ سانچہ اگر اس قدر عام اور مضبوط نہ ہوتا تو کم از کم وقت کے خاص حالات میں اس مجسمہ شکنی کی حمایت کے فتوے ہمارے سامنے نہ آتے۔ اس سانحے کی عمومیت اور مضبوطی پر ۱۹۴۸ء کی بات یا دآ رہی ہے۔ حکومت ہند نے ریاست حیدر آباد کے خلاف ’’پولیس ایکشن‘‘ کے نام سے فوجی کارروائی کی۔ مسلم ریاست تھی، قدرتی طور پر مسلمان اس کارروائی سے خوش نہیں ہو سکتے تھے۔ میں اپنی نوعمری کے ان دنوں میں اتفاق سے ایک بڑی صاحب علم ومطالعہ شخصیت کی خدمت میں ٹھیرا ہوا تھا۔ دنیا اور اس سے باخبری والے علم ومطالعہ کے ساتھ بھی اس ایکشن پر میں نے ان کا بے تکلف تاثر یہ دیکھا کہ ریاست کو شکست دینا آسان نہیں ہے اور اسی زعم میں ریاست کی رضاکار تحریک نے حکومت ہند کو اس ایکشن تک لا کے ریاست کو اس تباہی سے دوچار کرایا کہ الامان الحفیظ!
چالیس سال کی عمر،جو قرآن پاک کی رو سے بھی شعوری پختگی کو پہنچ جانے کی عمر ہے، میرے والد ماجد اپنی عمر کے اس مرحلے کو پہنچے تو میری باشعور عمر کا اچھی طرح آغاز ہو چکا تھا۔ والد ماجد کے اس مرحلہ عمر تک پہنچنے سے کئی سال پہلے کی وہ بات ہے کہ انہوں نے جماعت اسلامی (برائے حکومت الٰہیہ) کی تاسیس میں پرجوش حصہ لیا اور یہ خود ان کے بقول اس رومانیت پسندی کا نتیجہ تھا جو تحریک خلافت کے پیدا کردہ فکری ماحول سے طبیعت میں بس گئی تھی (اور اس کی وجہ سے یہ حقیقت نظر سے اوجھل ہو رہی تھی کہ ہندوستان ۷۵ فی صد غیر مسلم اکثریت کا ملک ہے) جماعت سے رشتہ جلد ہی ٹوٹ جانے کے اسباب پیدا ہو جانے پر جن عملی میدانوں میں انہوں نے اپنی زندگی صرف کی، ان سب میں ان کا نقطہ نظر عملیت پسندانہ رہا اور جوں جوں عمر بڑھتی گئی، یہ طرز فکر مضبوط تر ہوتا گیا۔ اشخاص کی خصوصیات پڑھنے والے جن اصحاب کو بھی ان سے اچھے رابطے کا اتفاق ہوا، انہوں نے ہمیشہ ان کی اس عملیت پسندی کو نوٹ کیا۔ میری باشعور عمر کے ۳۵ سال پوری طرح ان کے عین زیر سایہ گزرے اور میں ان کی عملیت پسندی اور رومانویت سے دوری (یعنی ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کے بجائے ’’کیا ہو سکتا ہے‘‘ کا طرز فکر) دیکھتا اور اس سے اثر لیتا رہا (حتیٰ کہ بعض وقت میں نے خود کو ان سے بھی زیادہ عملیت پسند جانا) پھر یہ ۳۵ سال گزار کر اس مبارک سایہ سے دوری ہوئی تو اس مغربی دنیا میں بسنا ہو گیا جہاں عملیت ہی عملیت ہے، رومانویت کا کوئی خانہ نہیں اور اب یہاں اس بسیرے کو بھی ۲۵ سال ہو رہے ہیں مگر طالبان کی اسلامی حکومت پر، جو کہ مادی اعتبار سے تو کمزور تھی ہی، زمانے کے معیار سے فکری بلوغ وتوانائی کے حصول کے لیے بھی اسے ابھی وقت درکار تھا، جب امریکی دیو کی جارحیت مسلط ہوئی تو، جیسا کہ اوپر پڑھا جا چکا ہے، محض اس حکومت کی مخلصانہ اسلامیت کا تاثر یہ اعتماد دینے کو کافی ہو گیا کہ جارح ان شاء اللہ ذلیل ہوگا حالانکہ حالات اور اسباب کو ان کی واجبی اہمیت دینے والے عملی نقطہ نظر سے اس موقع پر بس دعا کی جا سکتی تھی کہ اللہ غیب سے حفاظت کی کوئی صورت پیدا فرما دے ورنہ مقابلہ تو کوئی تھا ہی نہیں۔ میرا احساس ہے کہ افغانستان کا یہ المیہ، جس کے لیے شیخ سعدی کا یہ مصرعہ برحق ہے کہ ع، آسماں را حق بود گر خوں ببارد بر زمیں، اس کی زیادہ ذمہ داری اسلامی حکومت کے ساتھ وابستہ اسی رومانوی طرز فکر پر، جس کے ہم سب ہی کم وبیش اسیر ہیں، جاتی ہے کہ اگر اسلام کے ساتھ خلوص ہے تو یہ بس اس حکومت کے تحفظ کی کامل ضمانت ہے اور پھر ’الاقرب فالاقرب‘ کے اصول پر یہ ذمہ داری طالبان سے ہمدردی رکھنے والے افغانستان سے باہر کے ان تمام اہل علم دین کی اسی اسیری پر ہے جو کہ طالبان سے رابطے کی سہولت اور ان کا کم وبیش اعتماد رکھتے تھے۔
طالبان سے رابطے کی سہولت اور ان کا کم وبیش اعتماد رکھنے والے باہر کے علما ہمارے علماء پاکستان تھے۔ ا ن میں سے کئی ایک حضرات کے بارے میں کامل اطمینان سے یہ کہنا صحیح معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت کی دنیا کے حالات کوجاننے اور سمجھنے کے لیے اس سے بدرجہا زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے جیسی پوزیشن طالبان رہنماؤں کو حاصل تھی۔ ان غریبوں کو تو اول اپنے بے پناہ قسم کے اندرونی مسائل ہی سے فرصت نہ تھی جو پہلے دس برس میں روسی جارحیت پیدا کر گئی تھی اور پھر مجاہدین کمانڈروں کی آپس کی خون ریزی نے جو اضافہ ان میں کیا، نیز ان کے ملک میں نہ ایسے ذرائع معلومات تھے نہ علمی اور ذہنی سطح میں ترقی کے لیے درکار وہ سہولتیں انہیں حاصل تھیں جن سے اہالیان پاکستان بہرہ ور تھے۔ اس بہتر پوزیشن کی بنا پر ہمارے علماء پاکستان سے ان نیک دل طالبان کو وہ رہنمائی مل سکتی تھی جس کے نتیجے میں سانحہ شاید ٹل جاتا ۔ وہ اپنی حکمرانی میں جیسا طرز عمل اپنے ایمانی خلوص اور اپنی صالح قومی روایات کا تقاضا جان کر اختیار کیے ہوئے تھے، اگر معاصر دنیا کے حالات ومزاج سے پوری طرح واقف ہوتے تو ان کا ذہن دوسری طرح کام کرتا۔ اس معاملے میں رہنمائی کی مدد ان کو جن لوگوں سے ملنا تھی، وہ علماء پاکستان تھا جن کی دینی، علمی یا سیاسی منزلت کے طالبان قائل تھے اور ان سے روابط رکھتے تھے۔ (۱) مگر کیسے اپنے رنج والم کا اظہار کیا جائے کہ، جہاں تک علم ہے، ہر ممکن مدد ان کو دینے والے ہمارے علماء کرام سے جو واحد مدد انہیں نہ ملی وہ یہی ایک مدد تھی اور اس کا جو سبب صاف نظر آتا تھا، وہ یہی تھا کہ احساسات کی جو رومانوی کیفیت میرے جیسوں پر ہزاروں یا سیکڑوں میل کی دوری میں اس مرحلے پر طاری ہوئی جب حملے کے نقارے پر چوٹ پڑ گئی، ان بزرگوں پر یہ کیفیت شاید اسی لمحے سے طاری ہو گئی تھی جب طالبان کا جھنڈا کابل پر لہرا گیا اور پھر بڑھتے بڑھتے وہ اپنے نفاذ شریعت کے اعلان کے ساتھ ملک کے۹۵ فیصد علاقے پر حاکم ہو گئے۔ یقیناًیہ ان لوگوں کے لیے جن کے اسلاف حضرت سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کے خوابوں کی تعبیر کے لیے تمنائیں لیے دنیا سے گزرتے گئے تھے، وہ لمحہ تھا کہ اگر سارا عالم ہی اسلام کے زیر نگیں آیا دکھائی دے گیا ہو تو بعید نہیں۔ ایسے لمحات تو شادی مرگ کا باعث بن جاتے ہیں مگر شکایت اس کی ہے کہ اس لمحے کو برسوں پر محیط ہونے دیا گیا۔ طالبان کا طرز نفاذ شریعت، ان کے اخلاص اور ان کی فدائیت کی پوری تعظیم وتوقیر کے ساتھ بلاشبہ اس کا محتاج تھا کہ اہل علم انہیں صحیح راہ (راہ اعتدال) بتائیں۔ ان کا طرز صاف بتا رہا تھا کہ وہ واقعی صرف ’طالبان‘ ہیں، انہیں کاملان وپختہ کاران کی رہنمائی درکار ہے۔
راقم کے زمانہ دیوبند کے استاذ مرحوم حضرت مولانا عبد الحق صاحب (اطاب اللہ ثراہ) کا قائم کردہ دار العلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک، صوبہ سرحد طالبان کا زبردست حامی ومددگار ادارہ تھا۔ اس کا ماہنامہ ’الحق ‘ ہر ماہ ان کے بارے میں پرجوش تحریروں اور اطلاعات سے بھرا ہوا ملتا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ ادارہ کے موجودہ سربراہ استاد زادہ محترم مولانا سمیع الحق صاحب کو لکھوں کہ ان لوگوں کو آپ کی حامیانہ سرپرستی کے ساتھ استادانہ ومصلحانہ سرپرستی کی بھی ضرورت ہے، ورنہ اس مبارک پودے کی عمر نظر نہیں آتی، مگر ان کے ماہنامہ میں حمایت کے لیے جوش وجذبہ کی کیفیت وہ ہوتی تھی جسے دیکھ کر کچھ لکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی، لیکن آج سے کوئی دو سال قبل ایک شمارہ جو آیا تو اس کے اداریہ کا عنوان تھا ’’خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے‘‘ ! یہ خطاب طالبان سے تھا اور ’گلہ‘ وہی سب کچھ تھا جس کے بارے میں دماغ پریشان ہوتا تھا کہ الٰہی! ایک خالص اسلامی حکومت کی داغ بیل صدیوں کی دعاؤں اور آرزوؤں کے بعد ایک ایسے زمانے میں پڑی ہے کہ غیر تو غیر، اپنوں میں بھاری تعداد ایسوں کی ہو چکی ہے جو اس کے تصور کی مزاحمت میں غیروں سے بھی کچھ آگے ہی ہیں،ایسی مخالف دنیا میں، جب کہ طاقت کے خزانے بھی ہماری شامت اعمال سے انہیں اغیار کے ہاتھوں میں آ گئے ہیں، اگر اس نوخیز حکومت کے کھیون ہاروں کو اپنے پاکیزہ جذبات کے ساتھ زمانہ فہمی کی طرف توجہ نہ ہوئی اور نفاذ شریعت میں دینی حکمت کا باب ان پہ نہ کھلا تو ڈر ہے کہ یہ کلی کہیں بن کھلے ہی مرجھا نہ جائے۔ ’الحق‘ کے اس اداریے سے دل کو ایک گونہ اطمینان ہوا کہ وہاں بھی یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ طالبان نے اگرچہ افغانستان کو امن وامان کی نایاب دولت دے کر بہت نام کمایا ہے، مخالف بھی مجبور ہیں کہ اعتراف کریں، ان کی سادہ زندگی اور بلا استثنا مساوات بھی دنیا سے اپنا کلمہ پڑھوا رہی ہے، پھر بھی نفاذ شریعت کے معاملے میں ان کی ترجیحات اور شدت پسندی اصولاً ہی قابل اصلاح نہیں بلکہ ان کے وجود کے لیے خطرناک بھی ہے۔ مگر افسوس کہ بات ا س ایک تحریر پر ہی اس طرح ختم ہو گئی کہ جیسے یہ صاحب تحریر نوجوان (صاحب زادہ مولانا سمیع الحق صاحب) کی ایک نوعمرانہ سبقت قلم ہو۔ مزید کسی طرح کی کوئی دل چسپی یا سرگرمی اس رخ پر پھر دیکھنے میں نہ آئی حالانکہ اس کی توقع اس لیے بھی کی جانی چاہیے تھی کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کی جو جدوجہد عرصہ دراز سے یہ حضرات کرتے آ رہے تھے، خود اس کی مصلحت بھی اس بات کا تقاضا کرتی تھی۔ پاکستان میں نفاذ شریعت یا قیام نظام اسلام کے نام سے جاری جدوجہد کو جن مشکلات کا سامنا تھا، ان میں نئے تعلیم یافتہ طبقے کی ایک خاصی تعداد کا، جو کہ مقتدر طبقوں میں اثر ونفوذ رکھتی تھی، یہ ذہن یا اندیشہ تھا کہ اس نظام کے تحت وہ پرانی فقہ رائج کر دی جائے گی جو آج کے بالکل بدلے ہوئے حالات میں من وعن موزوں نہیں ہو سکتی۔ طالبان کی سرگرم حمایت کرتے ہوئے ان کے نفاذی طرز عمل میں اصلاح کے لیے کوشش نہ کرنا اس اندیشے یا پراپیگنڈے کو مضبوط کرنے کے ہم معنی تھا۔
چند ہی مہینے اس پر گزرے ہوں گے۔ ۲۰۰۱ء کا آغاز ہوا اور اس کے ساتھ ہی بدھ مجسمے توڑے جانے کا اعلان گونجا اور پھر جب اعلان پر عمل ہونے گا اور دنیا بھر میں ہاہاکار مچی، خود پاکستانی حکومت اور دوسرے مسلم ممالک نے چاہا کہ اس پر نظر ثانی ہو تو دوسری طرف سے اعلان کی شرعی حمایت میں علما کے فتوے آئے۔ کس مسلمان کو کوئی دل چسپی ان مجسموں سے ہو سکتی تھی، بس یہی سوچ کر کہ یہ مجسموں کا معاملہ ایسا نہیں کہ اس پر اگر کسی بزرگ کو اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کیا جائے تو ان کے دل میں وسوسہ آئے کہ یورپ میں رہ کر مولوی صاحب بھی شاید کچھ اپ ٹو ڈیٹ ہو گئے ہیں، ایک ایسے محترم کی خدمت میں جن کی شخصیت اس وقت پاکستانی علماء دیوبند میں نہایت موقر بھی ہے، وہ طالبان کے حامی اور سرپرست بزرگوں میں بھی ہیں اور چند ہی مہینے پہلے لندن میں ان سے مل کر یہ تاثر بھی لیا جا چکا تھا کہ وہ نہ صرف میرے ساتھ نہایت خلیق بلکہ طبعاً بھی منکسر مزاج کے ہیں، میں نے طالبان کے اس فعل کی حمایت میں فتووں کے مسئلے پر اپنے خیالات ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کو میں نے لکھا کہ کیا آپ اس کے روادار ہوں گے کہ یہ فتوے جو مصلحت وقت کے علاوہ شرعاً بھی میری ناقص سمجھ میں بالکل نہیں آ رہے ہیں، ان کے بارے میں اپنانقطہ نظر آپ سے عرض کروں؟ میں نہیں جانتا کہ عریضہ نہیں پہنچا یا جواب مجھے نہیں پہنچا یا جواب کسی وجہ سے دیا ہی نہیں گیا، بہرحال طالبان نے ہمارے علما کی پوری حمایت کے ساتھ ان مجسموں کے بارے میں اپنا اعلان پورا کر دیا جس پر پیدا ہونے والے عالمی رد عمل کے بعد، جیسا کہ اوپر لکھا گیا، یہ خواب دیکھنا ہی اپنی ناقص سمجھ کے مطابق غلط تھا کہ اس دفعہ امریکہ افغانستان سے اسی طرح ذلیل ہو کر نکلے گا جس طرح روس اپنی باری پرنکلا تھا۔
میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے علماء پاکستان کا جو رویہ طالبان کے اس طرز حکومت کے سلسلے میں رہا، جو کہ اس حکومت کے ساتھ مکمل ہم دردی اور محترم علما کے لیے کامل شعور واجب الاحترامی کے باوجود اپنی سمجھ میں کسی طرح نہ آ پاتا تھا، اس کی کوئی اور توجیہ سوائے اس کے کیا کی جا سکتی ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا تھا کہ یہ حکومت ان حضرات کے لیے ایک عام اسلامی حکومت نہیں، بلکہ اس مقدس خواب کی تعبیر تھی جو تقریباً دو صدی قبل بالاکوٹ کے میدان میں بکھر گیا تھا اور ان کے (اور ہمارے) اسلاف کی نسلوں پر نسلیں اس کی تعبیر کے لیے سراپا جہدوعمل اور دعا وآرزو بنی گزرتی رہی تھیں۔ ان حضرات کا جو مزاج دان ہے، وہ سمجھ سکتا ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں یہ کارنامہ انجام پایا، وہ ان کے دلوں اور ان کی نگاہوں میں کیا کچھ نہ ہو گئے ہوں گے ورنہ ان باتوں کی کیا توجیہ آخر ہم کریں گے کہ مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی کی شہادت کا سانحہ پیش آتا ہے، وہ جماعت کے اساطین میں ہیں، پوری جماعت ہی مشرق سے مغرب تک نہیں ہل جاتی، فوجی سربراہ مملکت پاکستان جنرل پرویز مشرف تک تعزیت کے لیے گھر پر آتے ہیں، ملا محمد عمر صاحب امیر المومنین (یقیناًکسی معقول وجہ سے) صرف تعزیتی پیغام پر اکتفا کرتے ہیں مگر ان کا محض پیغام تعزیت ہم لوگوں کی نگاہ میں کیا غیر معمولی درجہ پاتا ہے؟ تقریباً ایک سال کے بعد جب کہ انہدام مجسمہ جات کا واقعہ پیش آ چکا ہے، علما کا ایک وفد اسی سلسلے میں اظہار یک جہتی کے لیے افغانستان جاتا ہے تو اس دورہ کی رپورٹ (مرتبہ مفتی محمد جمیل خان صاحب، شائع شدہ روزنامہ جنگ ۲۵ اپریل ۲۰۰۱ء) کے مطابق، یہ وفد امیر المومنین سے ملاقات میں سب سے پہلے اس سال پرانے پیغام تعزیت پر اظہار تشکر کرتا ہے۔ کیا فی الواقع یہ پیغام تعزیت اسی اہمیت کا مستحق تھا؟ اسی طرح طالبان کی حمایت کے لیے کراچی سے ہمارے ایک بڑے عالم کی سرپرستی میں جاری کیا جانے والا اخبار ’ضرب مومن‘ ملا محمد عمر صاحب کے دست راست ملا محمد ربانی کے انتقال پر تعزیتی مضمون شائع کرتا ہے تو ملا صاحب (حفظہ اللہ) کے چند تاثراتی کلمات نقل کر کے لکھتا ہے ’’یہ الفاظ کسی عام شخص کے نہیں بلکہ اس امیر المومنین کے تعزیتی کلمات ہیں جس کے نام، کارناموں اور کردار پر روس اور امریکہ سمیت پورا عالم کفر لرزہ بر اندام ......‘‘ ذرا غور کیجیے کہ وہ جس نے امت کو چودہ سو برس پرانی یہ بات آج تک بھولنے نہیں دی کہ مسلمانوں کا واقعی امیر المومنین بالکل ایک عام آدمی ہوتا ہے، اگرچہ وہ فاتح روم وایران ہو جائے، وہ ہمارے علماء کرام کے سوا اور کون تھا؟ مگر امیر المومنین ملا محمد عمر کے معاملے میں وہ خود ہی اس بات کو بھولے جا رہے ہیں کہ اس امیر المومنین کو بھی بالکل ایک عام آدمی ہونا اور شمار کیا جانا چاہیے، خاص کر جب کہ اس کی تو ایک اہم شہرت ہی سادگی اور بے امتیازی کی ہے۔
ہمارے جیسوں کے خوابوں کا نقصان تو ایک مایوسی اور بد مزگی کی شکل میں زیادہ تر ہمیں تک رہنا تھا، لیکن علماء پاکستان کے رویہ کو خود طالبان کی قسمت پر بھی، ان کے اپنے عمل اور طرز عمل کے ساتھ اثر انداز ہونا تھا کیونکہ وہ طالبان کا اعتماد نیز ان کے ہاں بزرگانہ حیثیت رکھتے تھے۔ طالبان کی ہمت کو تو آفریں ہے کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو مہمان کہہ کے، اپنی روایات کے مطابق، اس قول کی آن کو اپنی جان جانے تک نباہنے کا بیڑا جو بل کلنٹن کے دور کی میزائل باری کے وقت سے اٹھایا تو جارج بش کا ۱۱/ستمبر کے بعد کا الٹی میٹم بھی ان کو اس سے پیچھے نہ ہٹا سکا لیکن کیا اسی طرح کی داد کا استحقاق ہمیں اپنے محترم علما کے لیے بھی اس پر ماننا ہوگا کہ انہوں نے بھی اپنے اس رویہ سے طالبان کے اس انداز فکر کی ہمت ہی بڑھائی؟ بے ادبی کی معافی چاہتے ہوئے، اپنی ناقص رائے میں اس رویہ کو داد وستائش کا حق دار نہیں مانا جا سکتا ہے۔ طالبان کا رویہ رومانوی مروت ومردانگی کے اعتبار سے بے شک لائق صد ستائش تھا مگر عملی دنیا کے تقاضوں کے اعتبار سے ہرگز قابل تائید وہمت افزائی نہ تھا، اور یہ وہ پہلو تھا جس کو سمجھنے اور اہمیت دینے کی توقع بجا طور پر ان علماء واجب الاحترام سے کی جا سکتی تھی جن میں ایسے بھی تھے جو برس ہا برس سے پاکستانی سیاست کا حصہ تھے اور ہیں۔ کیا سیاست کی دنیا میں ایسے بے لچک رومانوی رویوں کے ساتھ زندگی ممکن ہے؟ ہرگز بھی نہیں ہے، اور طالبان کو جو قضیہ اسامہ کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ درپیش تھا، وہ خالصتاً ایک سیاسی ہی قضیہ تو تھا۔ اول تو معزز مہمان ہی کو توجہ دلائی جا سکتی تھی کہ جہاں میزبان اس درجہ شرافت کا ثبوت دینے کو آمادہ ہو، وہاں مہمان کا بھی تو کچھ فرض بنتا ہے کہ اسے مخمصے سے نکلنے میں مدد دے۔ اور نہیں تو طالبان اور ملا محمد عمر ہی سے کہنا فرض بنتا تھا کہ وہ امیر المومنین کہلانے کے بعد صرف افغان روایت کے پاسبان ہی نہیں رہتے ہیں، انہیں پوری ملت اسلامیہ کی مصلحت اور سود وزیاں کی ذمہ داری کے انداز سے سوچنا ہوگا، اور اس انداز نظر کا اولین تقاضا ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ کا تحفظ ہے نہ کہ کسی فرد کا، وہ چاہے اسامہ ہوں چاہے خود ملا عمر ہی ہوں، اور نہ ہی کسی روایت کا، وہ کیسی ہی مقدس کیوں نہ ہو! مگر کیسے کہا جائے، اور نہیں تو کیسے رہا جائے، کہ جو ہمہ وقت سیاست کی دنیا میں رہ رہے تھے، انہیں نے طالبان کے روایت پرستانہ رویے کی سب سے بڑھ کر ہمت افزائی اس حد تک کی کہ خود فریق بن کر امریکہ کو وارننگ دے ڈالی کہ اگر افغانستان پر دست درازی ہوئی تو امریکنوں کی بھی پاکستان میں خیر نہیں ہے! حالانکہ وہ کیونکر نہ جانتے ہوں گے کہ ان کے پاس اس دھمکی کو جامہ پہنانے کا کوئی وسیلہ نہیں، اور کسی طرح سے وہ کچھ کرنا اگر چاہیں گے بھی تو ان کی حکومت فی الفور انہیں بند کر دے گی، پھر امریکہ کو بھلا کیا ڈر ہو سکتا تھا؟ معلوم ہوا کہ ہم موجودہ سیاست کی دنیا کے کوچہ میں رہ بھی رہے ہوں، ہمیں دنیا کو جاننے کا اور اس کے مقابلہ میں اپنے آپ کو ناپنے کا موقع بھی مل رہا ہو، مگر جب بات طاقت کفر سے ٹکراؤ کی آجاتی ہے تو ہم اپنی اس وقت کی قابل رحم حالت کو بھول کر، صدیوں پہلے کی اسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جب ہمارا ستارہ عروج پر تھا اور ہماری للکار سے ایوانوں میں زلزلے آ جاتے تھے۔ اس دنیا میں آج تک کوئی بھی اپنی شرائط پر نہیں جی سکا ہے، کہیں نہ کہیں سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔ قرآن پاک مسلمانوں سے صف آرا کفار سے موالات کو منافی ایمان بتاتا ہے، مگر ساتھ ہی بقدر ضرورت کی اجازت بھی دے دینا ضروری سمجھتا ہے۔ (الا ان تتقوا منہم تقاۃ۔ آل عمران ۲۸) ’’مگر یہ کہ ان کے شر سے بچاؤ چاہ رہے ہو‘‘ ہم اس کو اپنی زبان میں سیاست کہتے ہیں۔ اللہ کا کرم کہ اس نے اس کو دینی مسند سے بھی مستند کر دیا۔ اہل علم سے مخفی نہیں ہو سکتا کہ یہ اس طرح کی واحد مثال نہیں۔ اسی طرح سیرت نبوی کے صفحات میں بھی کمی نہیں ہے۔
معاملے کے سیاسی پہلو کی بات آئی ہے تو واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلے کی سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر ذمہ داری حکومت پاکستان پر آتی ہے۔ اسے کم از کم صدر کلنٹن کے دور کی میزائل باری کے وقت سے ضرور اچھی طرح معلوم ہو گیا ہوگا کہ عالم عرب میں امریکہ کی خرمستیوں سے مشتعل اسامہ بن لادن امریکہ کے سلسلے میں ایسے عزائم رکھتے ہیں کہ امریکہ ان کو بہت اہمیت دے نہ دے، وہ ان عزائم کو کسی اقدام کا بہانہ بنا سکتا ہے، اور یہ بات تو وہ خوب ہی جانتی تھی کہ پاکستان کی آزادی بس وہیں تک ہے جہاں تک امریکہ کی رضامندی ہے۔ پس افغان حکومت کے ساتھ اپنے خصوصی تعلق کی مصلحت میں اس کا فوری اقدام ہونا تھا کہ اسامہ کے مسئلے کو حل کر لیا جائے، مگر اس طرح کی کوئی کوشش علم میں بالکل نہیں آئی یہاں تک کہ پانی سر سے اونچا ہو گیا اور ۱۱ ستمبر کے سانحہ کو (صحیح یا غلط طور پر) اسامہ کے نام ڈال کر طالبان کو الٹی میٹم دے دیا گیا اور مشرف صاحب سے پوچھ لیا گیا کہ طالبان اور اسامہ کے ساتھ ہیں یا ہمارے ساتھ؟ اس کے بعد بے شک زبردست دوڑ دھوپ شروع ہوئی مگر الٹی میٹم کے بعد اولاً افغانی فطرت اور اس پرمزید طالبانی اسلامیت سے کوئی ایسا مصالحتی فارمولا منوانا جس میں صاف طور پر جھک جانا آتا ہو، بالفرض ممکن تھا تو وہ پاکستانی علما کے متحدہ دباؤ سے! ورنہ کوئی صورت بظاہر نہ تھی، اور علماء کا رویہ ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ شاید ان کے لیے بھی یہاں غیرت کا سوال اہم تر ہو گیا۔
بلکہ علامات تو اس طرح کی ہیں کہ جیسے ہمارے محترم علما کی نظر میں اسامہ بن لادن کا دینی مرتبہ ملا محمد عمر صاحب سے کچھ خاص کم نہ تھا۔ اسامہ بھی وہاں اسلامی ہیرو ہی کا رتبہ پائے ہوئے تھے۔ اس کی ایک وجہ جہاں یہ ہو سکتی تھی کہ جہاد افغانستان میں ان کا بھی بڑا کردار تھا، پھر جب طالبان کے دور میں تعمیر نو کے کاموں کا کچھ سلسلہ شروع ہوا تو اس میں وہ اپنی دولت سے بھی شریک ہوئے اور تعمیری انجینئرنگ میں مہارت سے بھی۔ مزید اور بہت اہم وجہ ان کا یہ مخالف امریکہ جذبہ بھی ضرور تھا کہ علماء دیوبند اس کی خصوصی قدر کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ انہیں مغرب دشمنی کی میراث اپنے اکابر سے ملی تھی، اور یہ وہ شے تھی کہ جہاں بھی نظر آ جائے، مبالغے کی زبان میں، وہ اسے بے اختیار ’سجدہ‘ کریں۔ الغرض اسامہ کے معاملے میں ہمارے علما کو اس وجہ سے بھی کسی ایسے فارمولے کی بات میں مددگار ہونے سے معذور ہی ہونا چاہیے جس کا مطلب ایسے جیالے مجاہد کو تنہا چھوڑ دینا ہو۔
علما تو علما، جہاد تو وہ چیز ہے کہ اس کے نام پر ایک عام سے مسلمان کا دل بھی دھڑکنے لگتا ہے اور اللہ کرے وہ دن کبھی نہ آئے جب مسلمان کا دل اس جذبے کا حامل نہ رہے کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’جس مومن نے کبھی جہاد میں حصہ لیا اور نہ کبھی اس کا دل اس جذبے سے دھڑکا، اس کی موت ایک درجے میں حالت نفاق کی موت ہوگی‘‘ اور یہ بات اس لیے ہونی چاہیے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے صلے میں آخرت کے جس اجر وانعام کی بشارتیں دی گئی ہیں اور مجاہدین کے لیے جن مراتب عالیہ کا اعلان کیا گیا ہے، یہ وہ چیزیں ہیں کہ مومن کو ان پر مرنا چاہیے، پس جو ان پر مرنے کی آرزو نہیں رکھتا، وہ خود ہی سمجھے کہ کیسا مومن ہے! مگر جس طرح یہ بات حق ہے، اسی طرح ہم اس سامنے کی حقیقت سے کس طرح آنکھ بند کرنے کا جواز پا سکتے ہیں کہ آج نماز بے شک ہے، مگر وہ نماز خال خال ہی کہیں ہے جو اللہ کو مطلوب ہے اور جس کے فضائل آئے ہیں۔ یہی حال روزوں کا ہے، یہی حج کا اور یہی زکوٰۃ کا۔ اگر ان خالص عبادات کا یہ حال ہو گیا ہے کہ اپنی اصلیت پر نہ رہ سکیں تو جہاد ہی کے لیے کہاں سے گارنٹی مل سکتی ہے کہ یہ سو فی صدی آج بھی وہی ہو جس کا مرتبہ اور جس کے فضائل ہمیں قرآن وحدیث میں ملتے ہیں؟ جب کہ جہاد عبادات محضہ کے زمرہ کی چیز بھی نہیں! ہمارے سامنے اسامہ بن لادن کے جہادی تخیل کی جو تصویر اپنے علما ہی کے ذرائع سے آئی ہے، اسے دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ ایک طرف ہمارا وہ موروثی مغرب دشمن ذہن اور دوسری طرف جہاد افغانستان میں اسامہ کا ناقابل فراموش کردار، ان دونوں سے تاثر کے غلبہ نے، جو بالکل فطری تھا، ہمارے علماء واجب الاحترام کے لیے اس بات پر توجہ آسان نہ رکھی کہ اسامہ جس جہاد کے علم بردار تھے، وہ کہاں تک اہل علم کی تائید وستائش کاحق دار تھا؟ ورنہ اگر مسئلہ کو واقعی اس نظر سے دیکھا جاتا تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اسامہ کے جذبات اور قربانیوں کی پوری قدر دانی کے باوجود ان کے خاص جہادی مشن کو لائق تائید نہیں مانا جا سکتا تھا۔ جس جہادی مہم میں اس قوت کا کوئی توازن بمقابلہ حریف نہ ہو جس قوت کے لیے قرآن کہتا ہے اعدوا لہم مااستطعتم من قوۃ اور یہ اس طرح کی کوئی دفاعی مہم نہ ہو جس طرح کی مہم روس نے افغانیوں پر تھوپ دی تھی، تو اس کی تائید کا سوال کیونکر پیدا ہو سکتا ہے؟ ہرچند کہ یہ مہم عربی واسلامی دنیا میں امریکن خرمستیوں سے مشتعل ہونے والے مومنانہ جذبات کا نتیجہ ہو مگر اس سے اس کی حقیقت ایک خود کشی کے اقدام سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی تھی؟ اور خود کشی بھی فرد واحد کی نہیں، کل ملت افغان کی! اور اس صورت حال میں ان کے جذبات کی پوری قدر وعزت کے باوجود ہمارے محترم علماء پاکستان کا پورا اور باصرار وزن نہ صرف افغان علماء کونسل کے اس فیصلے ہی میں پڑنا تھا کہ شیخ اسامہ سے کہا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے افغانستان چھوڑ دیں، بلکہ اس سے بھی آگے اور شیخ اسامہ سے کھلی اپیل کی جانی تھی کہ امارت اسلامیہ افغانستان ہی کی سلامتی کا خطرہ نہیں، کل ملت اسلامیہ اور بالخصوص پاکستان کی عزت وآبرو بچانے کی خاطر وہ خود کو جبار وقت کے حوالے کردیں اور اپنے لیے حدیبیہ کے حضرت ابوجندل کا کردار قبول کر لیں اس لیے کہ بیچ کی کوئی راہ نہ تھی۔ یا یہ ہونا تھا اور یا افغانستان پر وہ حملہ جس کے تیور جانچ کر پوری اسلامی دنیا نے دم سادھ لیا! اسے کاش کہ اسامہ خود سے جرات کا ثبوت دے کر اسلامی تاریخ میں وہ نام پالیتے کہ اسلامی دنیا میں ان کے جو مخالف بھی تھے، وہ بھی تحسین وستائش کے سوا اور دوسری بات کے روادار نہ رہ پاتے۔
شیخ اسامہ کے جہادی تخیل کی تصویر کے لیے اپنے علما کے ذرائع کا جو حوالہ دیا گیا ہے، اس کااشارہ خاص طور پر دار العلوم حقانیہ (اکوڑہ خٹک) کے ماہنامہ ’الحق‘ کے خاص نمبر (نومبر ۲۰۰۱ء) کی طرف ہے، جس نے موصوف کا خصوصی پیغام شائع کیا ہے۔ یہ پیغام از اول تا آخر پوری امت کے لیے دعوت وتلقین جہاد ہے۔ اسے دیکھ لینے پر یہ حقیقت صاف سامنے آتی ہے کہ جذبات سے بھرے اس داعی کی علمی سطح ایسی نہ تھی کہ وہ بذات خود جہاد اسلامی کی تحریک کا آغاز کر دیتے۔ زیادہ کی ان صفحات میں گنجائش نہیں، اور ضرورت بھی اس ایک مثال سے زیادہ کی غالباً نہ ہوگی کہ مشہور حدیث: امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا کا حوالہ دے کر موصوف لکھتے ہیں، ’’لہٰذا دعوت الی اللہ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں ۔ اگر غیر مسلم ہماری دعوت کو قبول کر لیں تو وہ ہمارے بھائی ہیں، بصورت دیگر جہاد فرض ہو جاتا ہے۔‘‘ (صفحہ ۱۲) اس میں صحیح مسلم کی ایک حدیث بھی (اس نامکمل صورت میں) استعمال کی گئی تھی کہ ’’جو (مسلمان) اس حالت میں مرا کہ بیعت امام کا قلادہ اس کی گردن میں نہیں ہے، وہ گویا جاہلیت کی موت مرا‘‘ یہ کم علم تو ’ضرب مومن‘ (کراچی) میں اس قسم کے استدلال والے پیغام کی اشاعت دیکھ کر حیران ہی رہ گیا تھا، (لا تقربوا الصلوۃ .....والا وہ ادھورا استدلال ہے جو برطانیہ میں ایک گروہ، جس کے آگے پیچھے کا کچھ پتہ یہاں کسی کو نہیں ہے، قیام خلافت کی فرضیت کے لیے سنایا کرتا ہے) اور یہ دیکھ کر تو کچھ کہنے کا یارا ہی نہ تھا کہ ملا محمد عمر کی امارت کی طرف دعوت دینے کا اصل مقصد دنیائے کفر بالخصوص سامراجیوں کے خلاف جہاد مسلح جہاد تھا۔ بے مہار امریکہ اسی عنوان سے طالبان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے کہ اسامہ بن لادن تمہارے زیر سایہ ہمارے خلاف جہاد کا منصوبہ باندھے ہے، اور اسامہ اس کے لیے ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔ یا للعجب!
الغرض اسامہ اپنے جذبات اور قربانیوں کے اعتبار سے یقیناًاعلیٰ قدر ومنزلت کے لائق تھے مگر علمی معاملات میں تو وہ محتاج تھے کہ علما ان کی رہنمائی کریں۔ مگر قسمت کا کچھ نہیں کیا جا سکتا کہ معاملہ الٹا ہو گیا، اور ان کا یہ مرتبہ مان لیا گیا کہ وہ علماء کانفرنس کے نام ’پیغام‘ جاری کریں۔
پشاور کانفرنس میں دار العلوم دیوبند سے بھی ایک بڑا وفد شریک ہوا تھا۔ ان حضرات نے یقیناًاس ’پیغام‘ کو قابل اعتنا نہیں پایا، ورنہ یہ بات زور وشور سے سامنے آتی اور اس عدم اعتنا سے ان کے رد عمل کا خاموش اظہار ہو جاتا تھا مگر کیا اچھا ہوتا کہ وہ اس موقع پر اپنی مسلم اور موقر حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے امارت اور جہاد کے بارے میں اس علمی حقیقت کو بھی واشگاف فرما دیتے جو سرزمین پاکستان پر جذبات کے ہجوم وہیجان میں مستور ہو رہی تھی۔ ان حضرات سے بہتر کون اپنے پاکستانی ہم منصبوں کو یہ یاد دلانے والا ہو سکتا تھا کہ اپنے اکابر نے ۱۸۵۷ء میں شاملی کے میدان میں بڑے اعتماد سے انگریزوں کے خلاف قدم رکھا مگر اس پہلے ہی تجربے میں ان پر یہ حقیقت کھلی کہ حریف کی طاقت اور ان کی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے تو انہوں نے دانش مندی کی روایت اپناتے ہوئے کہ ’’جاہا سپر باید انداختن‘‘ فوراً میدان جنگ بدلنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں دار العلوم دیوبند اور اس کی تحریک وجود میں آئی۔ پھر پچاس ساٹھ سال کے بعد اگرچہ اکابر کی دوسری نسل نے دوبارہ اسی مسلح جدوجہد کا منصوبہ ایک دوسرے انداز سے عمل میں لانے کو بنایا مگر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، انہیں جیسے ہی اسبابی پہلو سے اس کی کام یابی کی راہ بند نظر آئی اور دیکھا کہ عالم اسلام کمزوری کے اس درجے کو پہنچ چکا ہے کہ یورپین سامراج سے اب اسلحہ کی لڑائی جیتی نہیں جا سکتی، اب صبر سے کام لیتے ہوئے بے اسلحہ کی لڑائی ہی وہ واحد راہ ہے جس سے وقت کوبدلا جا سکتا ہے، تب سے انہوں نے اور ان کے اخلاف نے پورے شرح صدر کے ساتھ یہی راہ عمل اپنائی حتیٰ کہ ہندوستان آزاد ہوا۔ اور آج گو عالم اسلام کہنے کو آزاد ہے، اس میں ایک مملکت پاکستان کا اضافہ بھی ہو گیا ہے، اس کے پاس نیو کلیر اسلحہ بھی ہیں، مگر کون ہے جو کہہ سکے کہ ’فی الواقع‘ آزاد اور کافی طاقتور ہیں؟ اے کاش کہ اکابر وفد دیوبند نے اس ضرورت کی طرف توجہ کو وقت پایا ہوتا اور ان کے ہم قبیلہ علماء پاکستان طالبان اور اسامہ بن لادن کے سلسلے میں عین دیوبندی روایت ہی کے نام سے جس راہ پر کامل عزم واعتقاد کے ساتھ گامزن تھے، اس کے بارے میں انہیں ضرورت محسوس ہوتی کہ پھر سے غور کریں۔ اور چھوڑیے ’دیوبندی روایت‘ کے سوال کوبھی، جہاد جو اپنی اصل میں ذلت سے اٹھاتا اور عزت سے سرفراز کرتا تھا، کیا ہوا ہے کہ آج وہ عزت بخشنے کے بجائے ذلت ونکبت کی منزلیں طے کرا رہا ہے؟ کیسے نہیں ضرورت ہے کہ اس سوال پر غور کیا جائے؟
راقم آثم کے لیے یہ بات محض خوش بختی کی ہوگی کہ یہ خیالات جو ان صفحات میں پیش کیے گئے، انہیں کسی بڑے پیمانے پر قبولیت یا قابل توجہ ہونے کی حیثیت حاصل ہو جائے۔ افغانی سانحہ کے سلسلے میں اب تک جاری جتنا بھی اپنے لوگوں نے لکھا ہے، یہ اس کے بیچ میں ایک اجنبی سی آواز ہے وللناس فی ما یعشقون مذاہب کی رو سے کوئی مضائقہ اس میں نہ ہونا چاہیے۔ پھر بھی بے حد تامل رہا کہ روک کے رکھا جائے، یا ہرچہ بادا باد سے راہ دی جائے اور آج تک قدر ومحبت سے نوازنے والے کِتوں ہی کے شکوہ شکایت کا خطرہ مول لیا جائے؟ آفتاب عمر اب لب بام ہے، یہ خطرہ مول لینا آسان نہ تھا اس لیے اتنی دیر لگی کہ مجلس نوحہ وماتم برخواست ہونے کو آ رہی ہے اور اسی لیے ان خیالات کو بطور ایک مضمون شائع ہونے کے لیے نہ کہ ’الفرقان‘ کا اداریہ بننے کے لیے لکھا تھا تاکہ کسی محب ومہربان کو شکوہ ہو تو میری ذات سے ہو نہ کہ ادارہ الفرقان سے، مگر عزیز مرتبین الفرقان نے اسے ادارتی صفحات ہی میں جگہ دینا پسند کر لیا۔ میری خواہش اس کے باوجود یہ ہے کہ ان گزارشات کو میری ذاتی رائے کے طور پر پڑھا جائے۔ میں نے حتی الامکان سوچ وچار کے بعد ان خیالات کا اظہار اپنا ایسا ملی فریضہ سمجھا ہے کہ اگر اسے ادا نہ کروں تو اپنے ضمیر کی گنہگاری کا بوجھ لیے ضرور دنیا سے جاؤں گا۔ امارت طالبان کے سقوط کا حادثہ، پے در پے حادثوں کے بعد، اس قدر کرب ناک ہے کہ اور ایسے کسی حادثے کے لیے اب طاقت برداشت نظر نہیں آتی اور ہر ایسے حادثے پر دل ودماغ سوچتے سوچتے اس نتیجہ پر پختہ ہو گئے ہیں کہ قصور دشمنوں کا جو ہوتا ہے، وہ ہوتا ہے، اپنی بھی خام خیالیوں اور جذباتیت کا حصہ اس میں کم نہیں ہوتا حتیٰ کہ بنی بنائی باتیں بگڑ جاتی ہیں۔ یاد کیجیے، مصر میں صدر ناصر آئے، ان کے متنازعہ دینی خیالات سے قطع نظر عرب دنیا کو ایک نئی زندگی ملتی نظر آئی، مگر جذباتیت کی رو نے جب ارد گرد کے حقائق نظر انداز کرا دیے تو چند دن کے اندر اندر بات کیا سے کیا ہو گئی اور انہیں ماننا پڑا۔ قذافی آئے، انہوں نے بھی اس سے کچھ سبق نہ لیا حتیٰ کہ امریکہ وبرطانیہ کی دراز دستی کا ذاتی تجربہ کر لیا، تب بات ان کی بھی سمجھ میں آئی۔ اے کاش کہ اب یہ تجربات بند ہو جائیں۔
(بشکریہ ماہنامہ ’الفرقان‘ لکھنو)
(۱) اس مدد کی طالبان کو کتنی ضرورت تھی، اس کا اندازہ کرنے کے لیے اس بیان کا حوالہ بالکل کافی ہونا چاہیے جو بدھ مجسموں کے انہدام کے سلسلے میں ان کے نمائندہ برائے امریکہ، سید رحمت اللہ ہاشمی، کے حوالے سے اوپر درج ہو چکا ہے۔ یہ بیان سید صاحب نے جنوبی کیلیفورنیا کی ایک یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے دیا تھا۔ وضاحتی بیان دینے کے بعد انہوں نے حاضرین سے سوال بھی کیا تھا کہ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ اگر آپ ان مسائل کا شکار ہوتے تو آپ خود کیا کرتے؟ گویا ہاشمی صاحب کے خیال میں ان کے اس استدلال سے مغربی دنیا مطمئن ہو سکتی تھی کہ ہاں افغانوں نے جو کیا غلط نہیں کیا۔ بیرونی اور خاص کر مغربی دنیا سے ناواقفیت کے لیے اس سے بڑھ کر اور کون سا ثبوت چاہیے؟