صحابہ کرامؓ کا اسلوب دعوت (۲)

پروفیسر محمد اکرم ورک

مصعب بن عمیر کا اہلِ مدینہ کے لیے بطور مبلغ تقرر

۱۱ نبویؐ میں بیعتِ عقبہ اولیٰ کے بعد اہلِ مدینہ نے ایک تربیت یافتہ معلم کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا:

ابعث الینا رجلا یفقھنا فی الدین ویقرئنا القرآن (۴۷)

’’(یارسول اللہ ﷺ) ہمارے ساتھ کسی ایسے آدمی کو بھیجیں جو ہمیں دین سکھائے اور قرآن پڑھائے‘‘

چنانچہ ابنِ اسحاق کی روایت ہے:

فلما انصرف عنہ القوم، بعث رسول اللّٰہ ﷺ معھم مصعبؓ بن عمیر وأمرہ ان یقرۂم القرآن، ویعلمہم الاسلام، ویفقہم فی الدین (۴۸)

’’جب انصار بیعت کے بعد واپس پلٹے تو رسول اللہﷺ نے ان کے ساتھ مصعبؓ بن عمیر کو روانہ فرمایا اور ان کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو قرآن پڑھائیں، اسلام کی تعلیم دیں اور دین کی بصیرت اور صحیح سمجھ پیدا کریں‘‘

سرزمین مدینہ کو دارالہجرت کا شرف حاصل ہونے والا تھا اور یہ ایسی سرزمین تھی جسے جلد ہی مرکزِ اسلام بننا تھا اس لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ مدینہ کی سرزمین میں دعوت کا کام منظم انداز میں کیاجائے تاکہ ہجرت عامہ سے سرزمینِ مدینہ ہر لحاظ سے مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ اور مضبوط پناہ گاہ کاکام دے سکے۔چنانچہ جب انصار مدینہ نے ایک معلم ہمراہ بھیجنے کی درخواست کی تو رسول اللہ ﷺ کی نگاہِ انتخاب حضرت مصعبؓ بن عمیر پر پڑی جو ہجرت حبشہ کے کٹھن مراحل سے گزرکر کندن بن چکے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے ان جاں نثاروں میں سے تھے جو اسلام کی خاطر ہر مصیبت کا سامنا بڑی خندہ پیشانی سے کرنے کاحوصلہ رکھتے تھے۔نیز رسول اکرم ﷺ کو ان کے متعلق یہ اعتماد بھی تھا کہ وہ دعوت کے ہر اسلوب سے واقفیت رکھنے والوں میں سے ہیں اورمخاطب کو متاثر کرنے کا ہر ڈھنگ جانتے ہیں ۔

پروفیسر ٹی۔ڈبلیو۔آرنلڈ لکھتے ہیں:

’’یہ نوجوان مومنین اولین میں سے تھے اور ابھی ابھی حبشہ سے واپس آئے تھے ،اس وجہ سے ان کو بہت کچھ تجربہ حاصل تھا۔انہوں نے اعدائے دین کے ہاتھوں جو ظلم وستم برداشت کیے تھے،اس سے ان میں نہ صرف متانت اور سنجیدگی پید اہوگئی تھی بلکہ انہوں نے یہ بھی سیکھ لیا تھا کہ ظلم وتعدی کا کس طرح مقابلہ کرنا چاہیے اور ان لوگوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرنا چاہیے جو اسلام کی تعلیم کو سمجھے بغیر اسے مطعون کرتے ہیں۔لہٰذا رسول اکرمﷺ نے کامل بھروسے کے ساتھ نومسلموں کی تعلیم وتربیت اور یثرب کی سرزمین میں نخل اسلام کی آبیاری کا مشکل کام مصعبؓ بن عمیر کے سپردفرمادیا‘‘۔(۴۹)

پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی حضرت مصعبؓ بن عمیر کے تقرر کی حکمت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’کبار صحابہؓ اور سابقین اولین میں سے حضرت مصعبؓ بن عمیر عبدری کا انتخاب ظاہر ہے کہ ان کی سبقتِ اسلام اور شخصی وجاہت کے سبب نہیں ہوا تھا ۔وہ یقیناًسابق صحابی تھے اور انہوں نے اسلام کے لیے بڑی قربانیاں دی تھیں۔لیکن ان سے کہیں زیادہ سبقت اور قربانی کا شرف رکھنے والے صحابہ موجود تھے۔ان کا انتخاب محض اس بنا پر کیاگیا تھا کہ وہ مجموعی اعتبارسے اس منصبِ گرامی کے لیے موزوں ترین تھے۔وہ پاسداران کعبہ کے خاندان کے ایک متمول خانوادہ عبدالدار کے فرد ہونے کے علاوہ اسلام کے وفادار وجاں نثار،ثابت قدم اور ٹھنڈے مزاج کے شخص تھے جو اسلام کا پیکرِ دلنواز ہونے کا دعویٰ کرسکتے تھے ۔ان کی یہی مجموعی صفاتِ حمیدہ تھیں جنہوں نے ایک مختصر عرصہ میں اسلام کے قدم مدینہ منورہ میں مضبوطی سے جما کر ہجرت کی راہ ہموار کردی‘‘ (۵۰)

مصعبؓ بن عمیر کی دعوتی سرگرمیاں اور اسلوبِ دعوت

حضرت مصعبؓ بن عمیر مدینہ پہنچ کر حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے مکان پر فروکش ہوگئے اور گھرگھر پھر کر تعلیمِ قرآن اور اشاعتِ اسلام کی خدمت انجام دینے لگے۔ اس طرح رفتہ رفتہ جب کلمہ گو لوگوں کی ایک جماعت پیدا ہوگئی تو نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ان کو کبھی حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے مکان پر اور کبھی بنی ظفر کے ہاں جمع کیا کرتے۔ایک روز مصعبؓ بن عمیر حسبِ معمول بنی ظفر کے ہاں چند مسلمانوں کو تعلیم دے رہے تھے کہ قبیلہ بنی عبدالا شہل کے سردار سعد بن معاذنے اپنے رفیق اسیدبن حضیر سے کہا کہ اس داعیٔ اسلام کو اپنے محلہ سے نکال دو جو یہاں آکر ہمارے ضعیف الاعتقاد لوگوں کو گمراہ کرتاہے۔اگر اسعدؓ بن زرارہ سے مجھ کو رشتہ داری کاتعلق نہ ہوتا (سعدؓ بن معاذ حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے خالہ زاد بھائی تھے)تو میں تم کو اس کی تکلیف نہ دیتا ۔یہ سن کر اسیدؓ بن حضیر نے نیز ہ اٹھایا اور حضرت مصعبؓ بن عمیراور اسعدؓ بن زرارہ کے پاس آکر ان کو خوب گالیاں دیں اور پھر انتہائی درشت لہجہ میں کہا:

’’تمہیں یہاں آنے کی کیسے جرأت ہوئی ؟ تم ہمارے کمزور اورضعیف الاعتقاد لوگوں کو گمراہ کرتے ہو۔ اگر تم کو اپنی جانیں عزیز ہیں تو یہاں سے چلے جاؤ‘‘۔

اس قدر ناروا اور درشت گفتگو کے باوجود حضرت مصعبؓ بن عمیر نے بڑی نرمی سے فرمایا:

’’آپ تشریف تورکھیں اور ہماری بات سنیں ۔اگر کوئی بات معقول اور آپ کی مرضی کے مطابق ہو تو قبول کرلیجیے گا اور اگر ہماری بات آپ کو پسند نہ آئے تو ہم خود یہاں سے چلے جائیں گے‘‘۔

اسیدؓبن حضیر نے کہا:تم نے انصاف کی بات کی ہے۔اس کے بعد انہوں نے اپنا نیزہ زمین میں گاڑ دیا اور ان کی بات کو غور سے سننے لگے۔ چنانچہ حضرت مصعبؓ بن عمیر نے قرآن مجید کی چند آیات تلاوت کیں اور پھر اسلام کے عقائد ومحاسن کو اس خوبی کے ساتھ بیان فرمایا کہ تھوڑی ہی دیر میں اسید بن حضیر کا دل نورِ ایمان سے چمک اٹھا اور بے تاب ہوکر کہنے لگے! کیسا اچھا مذہب ہے اور کیسی بہتر ہدایت ہے۔ اس مذہب میں داخل ہونے کا کیا طریقہ ہے؟ حضرت مصعبؓ نے فرمایا:

’’غسل کیجیے،پاک صاف ہوجائیے، کپڑے بھی پاک صاف کرلیجیے اور اس کے بعد حق کی گواہی دیجیے اور نماز ادا کیجیے‘‘۔

چنانچہ اسیدؓ کھڑے ہوگئے، غسل کیا ،کپڑے پاک کیے،کلمہ توحید پڑھا اور پھر دو رکعت نماز پڑھ کر کہنے لگے میرے پیچھے ایک شخص ہے، اگر اس نے بھی تمہاری پیروی کرلی تو اس کے بعد اس کی قوم سے کوئی فرد اسلام سے باہر نہ رہے گا۔میں ابھی اس کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں،وہ سعد بن معاذ ہے۔پھر اپنا نیزہ لیا اور سعد اور ان کی قوم کی جانب واپس گئے ۔ وہ لوگ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ۔جب سعد بن معاذ نے انہیں آتے دیکھا تو کہا! میں اللہ کی قسم کھا تا ہوں کہ اسیدؓ جس حالت میں گیا تھا، اس سے بالکل جدا حالت میں واپس آرہا ہے۔جب وہ آکر مجلس میں کھڑے ہوگئے تو سعدنے پوچھا : تم نے کیاکیا؟ انہوں نے کہا: ان دونوں سے گفتگو کی۔واللہ مجھے ان دونوں سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا اور میں نے انہیں منع بھی کردیا ہے اور دونوں نے اقرار کیا ہے کہ جیسا تم پسند کرو، ہم ویسا ہی کریں گے۔البتہ مجھے خبر ملی ہے کہ بنی حارثہ ،اسعدؓ بن زرارہ کوقتل کرکے تمہیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ تمہارا خالہ زاد بھائی ہے۔چنانچہ سعد بن معاذ غصے سے بھرے ہوئے بڑی تیزی سے اٹھے کہ کہیں بنی حارثہ ان کوواقعتا قتل ہی نہ کردیں، پھر ان کے ہاتھ سے نیزہ لیا اور تیزی سے ان دونوں کی طرف گئے۔ سعد بن معاذ نے دیکھا کہ وہاں حالات بالکل ٹھیک ہیں تو وہ سمجھ گئے کہ اسیدؓنے یہ حیلہ فقط اس لیے کیا ہے تاکہ مجھے ان لوگوں کی باتیں سنوائی جائیں۔چنانچہ انہوں نے جاتے ہی ان کوگالیاں دینا شروع کردیں اور اسعدؓ بن زرارہ سے کہا:

’’اے ابوامامہؓ،سنو!اگر تمہارے اور میرے درمیان رشتہ داری نہ ہوتی تو تمہیں یہ جرأت قطعاً نہ ہوتی کہ تم ہمارے محلہ میں آکر ایسی باتیں کرتے جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں‘‘۔

حضرت مصعبؓ بن عمیرنے ان کی گفتگو اور گالی گلوچ کو بڑے تحمل کے ساتھ سنا اور بڑی نرمی سے کہا:کیا آپ تشریف رکھ کر ہماری کچھ بات بھی سنیں گے؟اگر کوئی بات آپ کی مرضی کے مطابق ہو اور آپ کو پسند آئے تو اسے قبول کرلیجیے گا اور اگر اسے ناپسند کریں تو ناپسندیدہ بات کو آپ سے دور کردیاجائے گا۔سعد بن معاذ نے کہا:تم نے انصاف کی بات کہی۔اس کے بعد اپنا نیزہ گاڑ کر ان کے پاس بیٹھ گئے۔ پھر حضرت مصعبؓ بن عمیرنے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور ان کو قرآن پڑھ کر سنایا اور اسلام کا نقشہ کچھ اس انداز میں پیش کیا کہ وہ فوراً ہی مسلمان ہوگئے اور جوش میں بھرے ہوئے اپنے قبیلہ اور قوم کی طرف آئے۔حضرت اسیدؓ بن حضیربھی ان کے ساتھ ہوگئے۔

جب ان کی قوم بنی عبدالا شہل نے انہیں آتے دیکھا تو کہنے لگے:اللہ کی قسم سعدؓ بن معاذبالکل مختلف انداز میں تمہاری طرف لوٹ رہے ہیں ۔جب وہ قوم کے پاس آکر کھڑے ہوگئے تو کہا: اے بنی عبدالاشہل!تم اپنے درمیان مجھے کیاسمجھتے ہو؟انہوں نے کہا،آپ ہمارے سردار ،ہم سب سے زیادہ خویش پرور،بہترین رائے والے اور بڑی عقل والے ہیں۔ انہوں نے کہا،تو تمہارے مردوں اور عورتوں سے بات کرنامجھ پر حرام ہے جب تک تم لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان نہ لاؤ اور پھر شام ہونے سے پہلے پہلے قبیلہ بنی عبدالاشہل نے حضرت سعدؓ بن معاذ کے زیرِ اثر اسلام قبول کرلیا۔ (۵۱)

حضرت مصعبؓ بن عمیرکا رسول اللہﷺ سے مسلسل رابطہ تھا اور آپؓ نبوی ہدایت کے مطابق ہی تبلیغِ دین کا فریضہ انجام دیتے تھے۔چنانچہ ایک دن ان کو رسول اللہ ﷺ کا خط موصول ہوا کہ وہ یہود کے ہفتہ وار اجتماع کے مقابلے میں جمعہ کے دن زوال کے بعد مسلمانوں کو جمع کریں اور ان کو دو رکعت نماز پڑھائیں:

امابعد! فانظر الیوم الذی تجھر فیہ الیھود بالزبور لسبتہم، فاجمعوا نساء کم وابناء کم فاذا مال النھار عن شطرہ عندالزوال من یوم الجمعۃ فتقرّبوا الی اللّٰہ برکعتین (۵۲)

حضرت مصعبؓ بن عمیر کو رسول اللہ ﷺ نے ۱۱ نبوی میں بیعتِ عقبہ اولیٰ کے بعد اہلِ مدینہ کے ہمراہ دعوت وتبلیغ کے لیے روانہ فرمایا۔حضرت مصعبؓ بن عمیرمدینہ میں کم وبیش ایک سال تک مقیم رہے اوراگلے سال ۱۲نبوی میں بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر بہتّرانصار صحابہ کے ہمراہ مکہ واپس لوٹ آئے۔اس دوران آپؓ نے مدینہ میں دعوت وتبلیغ کاکام اتنے احسن انداز میں کیاکہ اوس وخزرج کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کرلیااور ہر طرف اسلام اور رسول اللہ ﷺ کا ذکر ہونے لگا۔مختصر وقت میں دعوت کے میدان میں اتنی بڑی اور اہم کامیابی کی بڑی وجہ وہ اسلوبِ دعوت ہے جس کی بنا پر آپ نے اہلِ مدینہ کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ذیل کی سطور میں آپؓکے اسلوبِ دعوت کے اہم نکات کا اختصار کے ساتھ ذکر کیاجارہاہے۔

۱۔حضرت مصعبؓ بن عمیر اسلام کی دعوت لے کر خود کوچہ کوچہ اور گلی گلی گئے اور یہ انتظار نہیں فرمایا کہ لوگ خود چل کر ان کے پاس آئیں بلکہ آپ ؓ مختلف محلوں میں تشریف لے جاتے اور لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچاتے۔

۲۔آپؓنے دعوت وتبلیغ کاکام محض اللہ ورسول ﷺ کی رضا کی خاطر کیا ۔آپؓ کے اس خلوص اور للہیت کی بنا پر بھی لوگ متاثر ہوکر حلقہ بگو ش اسلام ہوتے۔

۳۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر کے طریق دعوت کی ایک اہم خصوصیت دعوت بالقرآن بھی ہے ۔جیسا کہ آپؓنے اسیدؓ بن حضیر او ر سعدؓ بن معاذکے سامنے قرآن کی تلاوت فرمائی تو دو نوں حضرات قرآن کی تعلیمات اور اس کے اسلوبِ بیان سے متاثر ہوکراسلام لے آئے۔اسیدؓ بن حضیرنے قرآن سنا تو بول اٹھے،کیسا اچھا مذہب ہے اور کیسی بہتر ہدایت ہے۔

۴۔ اگرمخاطب سے ایسے انداز میں بات کی جائے جو براہِ راست دل اور عقل کو متاثر کرنے والی ہو تو داعی کے لیے اپنا کام کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت مصعبؓ بن عمیر نے اسیدؓ بن حضیراور سعدؓ بن معاذ کی دھمکیوں اور گالیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑی معقول اور متاثر کرنے والی بات کہی، یعنی ان سے فرمایا:آپ تشریف رکھیں اور ہماری بات سنیں، اگر کوئی بات معقول اور آپ کی پسند کے مطابق ہوتو قبول کرلیجیے گا اور اگر ہماری بات آپ کو پسند نہ آئے تو ہم خود یہاں سے چلے جائیں گے‘‘۔ آپؓنے اس انداز سے درحقیقت اپنے مخاطبین کی عقل اور دل کومتاثر کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی عملی زندگی میں قوتِ محرکہ اس کا دل اور عقل ہی ہے ۔لہٰذا اگر داعی دل اور عقل کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ یقینی طور پر اپنے مخاطب کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے۔چنانچہ جب حضرت مصعبؓ بن عمیرنے یہ بات کہی تو دونوں سرداروں کا ایک ہی جواب تھا: ’’تم نے انصاف کی بات کہی ہے‘‘۔چنانچہ اس کے بعد دونوں وہاں سے اسلام قبول کرکے ہی اٹھے۔

۵۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر نے دعوت وتبلیغ میں نرمی اور تحمل مزاجی کے اسلوب کو اختیار فرمایا جس کی بناء پر اسیدؓ بن حضیراور سعدؓ بن معاذ جیسے درشت مزاج لوگوں کو بھی حلقہ بگو ش اسلام کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اور اس کے نتیجہ میں بالآخر سعدؓ بن معاذ نے اپنے پورے قبیلے کو بھی مسلمان بنا لیا۔

قبل از ہجرت مدینہ میں نقباء اور انصار صحابہ کرامؓ کی دعوتی سرگرمیاں

دعوت وتبلیغ کے حوالے سے مکی اور مدنی دور ایک دوسرے سے مربوط نظر آتے ہیں ۔مکی دور کے آخری ایام میں کفار مکہ کی طرف سے مخالفت اور عداوت اس قدر بڑھ گئی کہ اب آپﷺ اور آپ کے صحابہ کے لیے مکہ مکرمہ میں رہنا اور دعوت وتبلیغ کے کام کو جاری رکھنا ناممکن ہوگیا۔علاوہ ازیں تیرہ سالہ مکی دورسے حاصل شدہ کامیابیوں کوکسی منطقی انجام سے ہمکنار کرنے کے لیے اسلام کو ایک مرکز کی اشد ضرورت تھی جہاں مسلمان اسلام کو ایک ضابطۂ حیات کے طور پر اپنا سکیں۔

انصار میں اسلام کی ابتدا

اس کی بظاہر یہ صورت پیدا ہوئی کہ ۱۰ نبوی کے موسم حج میں جب رسول اللہﷺ مختلف قبیلوں کی خیمہ گاہوں پر دعوت وتبلیغ کی غرض سے تشریف لے جارہے تھے تو آپﷺ کا گزر یثر ب (مدینہ)سے آئے ہوئے بنوخزرج کے چھ خوش نصیب افراد پر بھی ہوا۔آپﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی، قرآن سنایا اور انہیں ایمان لانے کے فوائد سے آگاہ کیا۔ان لوگوں نے یثرب کے یہود سے نبی آخر الزماں ﷺکے متعلق سن رکھا تھا،اس لیے انہوں نے دیکھتے ہی آپﷺ کو پہچان لیا اور ایمان لے آئے۔اس وفد میں اسعدؓ بن زرارہ،عوفؓ بن الحارث،رافعؓبن مالک بن عجلان،قطبہؓبن عامر، عقبہؓ بن عامر اور جابرؓ بن عبداللہ بن رباب تھے۔ (۵۳)

قبولِ اسلام کے بعد ان لوگوں نے رسول اللہﷺ سے اس وعدہ کے ساتھ اجازت لی کہ اگلے سال پھر اسی موسم میں اسی مقام پرملیں گے،نیز آپ ﷺ کی دعوت کو آگے پہنچائیں گے۔ابنِ ہشام کا بیان ہے:

فلما قدموا المدینہ الی قومہم ذکروا لھم رسول اللّٰہ ﷺ ودعوہم الی الاسلام حتی فشا فیھم ،فلم یبق دار من دور الانصار الا وفیھا ذکر من رسول اللّٰہﷺ (۵۴)

’’جب یہ لوگ اپنی قوم کے پاس مدینہ پہنچے ،تو ان سے رسول اللہﷺ کا تذکرہ کیااور انہیں اسلام کی دعوت دی،یہاں تک کہ ان میں بھی اسلام پھیل گیا اور انصار کے گھروں میں سے کوئی گھر ایسا نہ رہا،جس میں رسول اللہ ﷺکا تذکرہ نہ ہورہا ہو‘‘۔

بیعتِ عقبہ اولیٰ (۱۱ نبوی)

آئندہ سال یہ لوگ حسبِ وعدہ مزید چھ افراد معاذؓ بن حارث بن رفاعہ،ذکوانؓ بن قیس ،عبادہؓ بن صامت،یزیدؓ بن ثعلبہ،عباسؓ بن فضلہ اور عویمؓ بن ساعدہ کے ساتھ آئے۔ رات کے وقت رسول اللہﷺ سے ملاقات کی اور آپﷺ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی۔حضرت عبادہؓ بن صامت کا بیان ہے: 

کنت فیمن حضرالعقبۃ الاولیٰ، وکنا اثنی عشر رجلا، فبایعنا رسول اللّٰہ ﷺ علی بیعۃ النساء علی ان لا نشرک باللہ شیئا ،ولا نسرق، ولانزنی، ولا نقتل اولادنا، ولا نأتی ببھتان نفتریہ بین ایدینا وارجلنا،ولا نعصیہ فی معروف، فان وفیتم فلکم الجنۃ، وان غشیتم من ذالک شیئا فأمرکم الی اللّٰہ ان شاء عذبکم وان شاء غفرلکم (۵۵)

’’میں ان لوگوں میں سے تھا جو بیعتِ عقبہ اولیٰ کے موقع پر حاضر تھے۔ ہم بارہ آدمی تھے۔ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عورتوں جیسی بیعت کی، یہ کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے،چوری نہ کریں گے،زنا نہ کریں گے،اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے، جھوٹا الزام نہیں لگائیں گے،اور آپ ﷺ کی نیکی کے کاموں میں مخالفت اور نافرمانی نہ کریں گے۔پھر آپﷺ نے فرمایا: اگر تم نے اس عہد کوپورا کیا تو تمہارے لیے جنت ہے اوراگر تم نے بددیانتی کی تو تمہارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ چاہے تو تمہیں سزادے اور چاہے تو معاف فرما دے‘‘۔

ابنِ اسحاق کا بیان ہے کہ جب یہ لوگ وہاں سے واپس ہوئے تو رسول اللہﷺ نے ان کے ساتھ مصعبؓ بن عمیر کو بھیجا اور انہیں حکم دیا ’’ان لوگوں کو قرآن پڑھائیں،اسلام کی تعلیم دیں اور ان میں دین کی سمجھ پیدا کریں۔اسی لیے مصعبؓ بن عمیر کانام’’مقرئ المدینۃ‘ ‘پڑگیا تھا‘‘۔ (۵۶)

ابنِ قیم کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے مصعبؓ بن عمیر کے ساتھ ایک دوسرے صحابی حضرت عبداللہؓ بن ام مکتوم کو بھی بھیجا۔ یہ دونوں ابوامامہ اسعدؓ بن زرارہ کے ہاں ٹھہرے۔لوگوں کی کثیر تعداد نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔اسیدؓ بن حضیر اور سعدؓ بن معاذ بھی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھے (۵۷) چنانچہ سعدؓ بن معاذ کے اثر سے بنی عبد الاشہل اور اسیدؓ بن حضیر کے اثر سے تمام قبیلہ اوس نے اسلام قبول کرلیا۔

حضرت براءؓ بن عازب کابیان ہے:

اول من قدم علینا مصعبؓ بن عمیر وابن ام مکتومؓ وکانوایقرؤن الناس۔ (۵۸)

’’سب سے اول جو ہمارے پاس آئے وہ مصعبؓ بن عمیر اور ابن ام مکتومؓ تھے۔ یہ دونوں لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے‘‘

جب مدینہ میں اسلا م پوری طرح پھیل گیا تو حضرت مصعبؓ بن عمیر واپس مکہ تشریف لے آئے۔

بیعتِ عقبہ ثا نیہ (۱۲ نبوی)

اگلے سال بہتّرانصاری مسلمان موسم حج میں مکہ آئے اوررسول اللہﷺ سے بمقام عقبہ چھپ کر ملاقا ت کی۔آپﷺنے اس گروہ میں سے بارہ افرادکا بطو رنقیب انتخاب فرمایاجن کے نام خو د انصار نے پیش کیے تھے۔ان میں نو کا تعلق قبیلہ خزرج سے اور تین کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا ۔ناموں کی تفصیل یہ ہے:قبیلہ خزرج سے اسعدؓ بن زرارہ، سعدؓ بن ربیع،عبداللہؓ بن رواحہ، رافعؓ بن مالک ،براءؓ بن معرور، عبداللہؓ بن عمرو بن حرام،عبادہؓ بن الصامت،سعدؓ بن عبادہ، المنذرؓ بن عمروبن خنیس۔ اور قبیلہ اوس سے اسیدؓ بن حضیر ،سعدؓ بن خثیمہ، رفاعہؓ بن عبدالمنذر1(۵۹)

رسول اللہ ﷺ نے نقباء کو مقرر کرتے وقت اپنے قبائل میں ان کے اثرورسوخ اور مقام ومرتبہ کو پیشِ نظر رکھا۔ اس کے علاوہ یہ افراد اپنے ذاتی خصائل اور تقدم ایمانی کی وجہ سے بھی یقینی طور پر اس ذمہ داری کے اہل تھے۔حضرت جابرؓ بن عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیعت عقبہ ثانیہ میں انصار کے نمائندہ افراد سے یہ عہد لیا:

تبا یعونی علی السمع والطاعۃ فی النشاط والکسل ، وعلی النفقۃ فی العسر والیسر، و علی الامر بالمعروف والنھی عن المنکر، وعلی ان تقولوا فی اللّٰہ لا تأخذکم فیہ لومۃ لائم، وعلی ان تنصرونی اذا قدمت یثرب، فتمنعونی مما تمنعون منہ انفسکم وازواجکم وابنائکم ولکم الجنۃ۔ (۶۰)

’’تم چستی اور سستی ہرحال میں میری بات سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کرو،اور تنگی اور خوشحالی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر ،اور نیکی کاحکم کرنے اور برائی سے منع کرنے پر،اور اس بات پر کہ حق بات کہنے میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہ کروگے،اور اس بات پر کہ جب میں یثرب آؤں تو تم میری مدد کروگے اورتم میری ان تمام چیزوں سے حفاظت کرو گے جن سے تم اپنی جانوں، بیویوں اور اولا د کی حفاظت کرتے ہو۔ اس کے بدلے میں تمہارے لیے جنت ہے‘‘۔

رسول اللہ ﷺنے ان تمام پر حضرت اسعدؓ بن زرارہ کو، جو قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار سے تھے،’’نقیب النقباء‘‘2 مقرر فرمایا۔ (۶۱)

جہاں تک ان نقباء کے فرائض کا تعلق ہے، رسول اللہﷺ نے بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر نقیبوں کوان کے فرائض سے اس طرح آگاہ فرمایا:

انتم علی قومکم بما فیھم کفلاء ککفالۃ الحواریین لعیسیٰ بن مریم، وانا کفیل علی قومی ، قالوا: نعم (۶۲)

’’تم اپنی قوم کے معاملات کے اس طرح ذمہ دار ہو جس طرح عیسیٰ بن مریم کے حواری ذمہ دار تھے۔ اور میں بھی اپنی قوم کا ذمہ دار ہوں۔ لوگوں نے اقرار کیا کہ ٹھیک ہے‘‘۔

ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کے معاشرتی اور سیاسی معاملا ت کی ذمہ داریاں ان نقیبوں کو سونپی گئی تھیں۔لیکن سب سے اہم فریضہ جو یہ نقباء انجام دیتے تھے،وہ تربیت اورتہذیب نفس کافریضہ تھا۔یہ لوگ اپنے حلقہ اثر میں لوگوں کی اخلاقی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے بھر پور جدوجہد کرتے تھے۔حضرت عبداللہؓ بن رواحہ،جو ان بارہ نقیبوں میں سے ہی ایک تھے، کی تربیتی مجلس مؤرخین کے ہاں ’’مجالس ایمان‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت ابو درداءؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہؓ بن رواحہ کے انداز تربیت کو کبھی نہیں بھول سکتا ۔وہ جب مجھ سے ملتے تو بہت شفقت کے ساتھ میرے شانہ پر ہاتھ رکھ کر فرماتے:

یا عویمرؓ! اجلس فلنؤمن ساعۃ فنذکراللّٰہ ماشاء ثم یقول :یا عویمرؓ! ھذہ مجالس الایمان (۶۳)

’’میرے عزیز عویمرؓ! آؤ تھوڑی دیر بیٹھ کر ایمان تازہ کریں،پس ہم اللہ کا ذکر کرتے پھر وہ فرماتے: اے عویمرؓ !یہ ایمان کی مجالس ہیں‘‘۔

حضرت اسعد بن زرارہ نے اپنے آپ کو دعوت وتبلیغ کے لیے وقف کردیا۔ انہوں نے مدینہ منورہ میں اشاعتِ اسلام اور دعوت وارشاد کاکام بڑی جدوجہد ،انتہائی خلوص اور جذبہ کے ساتھ کیا ،انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ مدینہ منورہ میں اسلام بہت تیزی کے ساتھ پھیل گیا ۔ابن ہشام کی روایت ہے کہ مدینہ میں جمعہ کا اہتمام بھی انہیں کے زیرنگرانی تھا اور وہی اس کے بانیوں میں سے تھے۔ (۶۴)

رافعؓ بن مالک بن عجلان بیعتِ عقبہ اولیٰ وثانیہ میں شامل تھے ۔یہ ہجرت کرکے رسول اللہﷺ کے پاس مکہ ہی میں رہتے تھے یہ پہلے شخص تھے جو مدینہ میں سورہ یوسف لے کر آئے۔ جب سورہ طہٰ نازل ہوئی تو انہوں نے اس سورت کو لکھااور مدینہ لے آئے اور پھر بنی زریق کو اس کی تعلیم دی۔ (۶۵)

ابنِ اثیر انصار کی ہمہ گیر اور بھر پور دعوتی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فلما قدموا المدینۃ ذکروا لقومہم الاسلام ودعوہم الیہ ففشا فیہم فلم تبق دار من دورالانصار الا وفیھا ذکر من رسول اللّٰہﷺ۔ (۶۶)

’’جب وہ واپس مدینہ پلٹے تو اپنی قوم سے اسلام کا تذکرہ کیا اور ان کو اسلام کی طرف بلایاپس ان میں اسلام اس طرح پھیل گیا کہ انصار کے گھرانوں میں سے کوئی ایسا گھر نہ تھا جس میں رسول اللہ ﷺکاذکر خیر نہ ہو‘‘۔

بیعتِ عقبہ سے پلٹنے والے انصارِ مدینہ نے دعوت کے کام کو بڑی عمدگی سے انجام دیا چنانچہ ان کی ہمہ گیر کوششوں کاہی یہ نتیجہ تھا کہ بہت جلد مدینہ کے ہر گھر میں رسول اللہﷺ کا ذکرِ خیر ہونے لگا۔ نقباء انصار اور دیگر مسلمانوں نے بھی فروغِ دعوت میں بھرپور حصہ لیا۔لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے حالات کے مطابق مختلف اسالیب دعوت اختیار کیے۔

ابن ہشام نے حضرت معاذؓبن عمرو،جو کہ خودبیعتِ عقبہ میں شامل تھے ،کی دعوتی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ ذکر کیاہے۔ حضرت معاذؓ بن عمرو کے والد عمرو بن الجموح بنو سلمہ کے سردار تھے اور بت پرستی کے مرض میں مبتلا تھے۔عرب میں چونکہ شرک کااصلی مظہر بت ہی تھے، اس لیے صحابہ کرامؓنے قبولِ اسلام کے بعد سب سے پہلے راہِ توحید سے اسی سنگ گراں کو دور کیا۔

عرب میں دستور تھا کہ سردارانِ قبائل خاص اپنے لیے بت بناتے تھے اور ان کو گھروں میں رکھتے تھے چنانچہ اسی روایت کے مطابق عمرو بن الجموح نے لکڑی کاایک بت بنواکر گھر میں رکھا ہواتھا۔جب نوجوانانِ بنو سلمہ یعنی حضرت معاذؓبن جبل اورمعاذؓ بن عمروبن الجموح نے اسلام قبو ل کیا تو ان دونوں حضرات نے فیصلہ کیا کہ ایسا اندازاختیار کیاجائے کہ نہ صرف عمروؓ بن الجموح بلکہ تمام لوگوں پر بتوں کی بے بسی اور کمزوری عیاں ہوجائے۔ چنانچہ یہ لوگ را ت کے وقت خفیہ طو رپر آئے اور اس بت کواٹھا کر بنی سلمہ کے ایسے گڑھے میں پھینک آئے جس میں لوگ گندگی وغیرہ پھینکتے تھے۔ عمرو بن الجموح صبح اٹھے،بت کو وہاں نہ پایا تو اس کی تلاش میں نکلے۔ اسے گندگی کے ایک ڈھیر پر پایا تو دھوکراور پاک صاف کرکے خوشبو لگاکر یہ کہتے ہوئے اس کو اسی جگہ پررکھ دیا کہ واللہ! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کس نے تجھ سے ایسا کیا ہے تو میں اسے ضرور ذلیل کروں گا۔جب رات کااندھیرا چھاگیا تو ان پرجوش نوجوانوں نے بت کے ساتھ وہی سلوک دوبارہ کیا۔اسی طرح جب یہ واقعہ پے درپے ہوا تو ایک دن عمرو بن الجموح نے بت کے گلے میں تلوار لٹکادی اور کہا: واللہ! میں نہیں جانتا کہ کون تجھ سے یہ معاملہ کررہا ہے اور تو بھی اسے دیکھ رہا ہے،اگر تجھ میں طاقت ہے تو خو د اپنی حفاظت کرلے ۔یہ تلوار بھی تیرے ساتھ ہے۔

رات کو یہ لوگ حسبِ معمول آئے اور بت کو تلوار سمیت ایک مردہ کتے کے ساتھ باندھ کر گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ صبح عمرو بن الجموح نے بت کو اس بری حالت میں دیکھا،اور ان کی قوم کے وہ لوگ جو مسلمان ہوچکے تھے، انہوں نے بھی ان کو سمجھایا،ان پرحقیقت آشکاراہوگئی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب انہوں نے اسلام قبو ل کرلیا۔ (۶۷) پھر بت کی بے بسی پر اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اظہارِتشکر کے طور پر چند اشعار کہے جن کو ابنِ ہشام نے نقل کیاہے۔3


حوالہ جات

(۴۷) الوثائق السیاسیۃ،ص:۱۰

(۴۸) ابن ہشام،العقبۃ الاولیٰ ومصعبؓ بن عمیر۲/۴۷۔۴۸

(۴۹) آرنلڈ،ٹی،ڈبلیو، ’’دعوتِ اسلام‘‘،ص:۲۷،محکمہ اوقاف،حکومتِ پنجاب،لاہور،۱۹۷۲ء

(۵۰) یٰسین مظہر صدیقی،پروفیسر،’’عہد نبوی کانظامِ حکومت‘‘ص:۹۴،الفیصل ناشران وتاجرانِ کتب اردو بازار 

لاہور،۱۹۹۵ء

(۵۱) ابنِ ہشام،اول جمعۃ اقیمت بالمدینۃ، ۲/۴۹۔۵۰ اسد الغابہ،تذکرہ مصعبؓ بن عمیر،۴/۳۶۹

(۵۲) السہیلی،ابوالقاسم عبدالرحمن بن عبداللہ’’الروض الانف‘‘ فصل فی تجمیع اصحاب رسول اللہ ﷺ الجمعۃ...۱/۲۷۰

(۵۳) ابن ہشام،بد أ اسلام الانصار، ۲/۴۲۔۴۳ زاد المعاد ،۳/۴۵

(۵۴) ابنِ ہشام،بدأاسلام الانصار، ۲/۴۴

(۵۵) المسند ،حدیث عبادہؓ بن صامت،ح:۲۲۲۴۸،۶/۴۴۱ ایضاً........ح:۲۲۱۹۴،۶/۴۳۱۔۴۳۲

(۵۶) ابن ہشام،العقبۃ الاولیٰ ومصعبؓ بن عمیر،۲/۴۸

(۵۷) زاد المعاد، ۳/۴۷ اسد الغابہ،تذکرہ مصعبؓ بن عمیر،۴/۳۶۹

(۵۸) صحیح بخاری ، کتاب مناقب الانصار،باب مقد م النبی واصحا بہ المدینۃ ،ح:۳۹۲۵،ص:۶۶۲

ایضاً،کتاب التفسیر،سورۃ سبح اسم ربک الاعلیٰ،ح:۴۹۴۱، ص:۸۸۲۔ 

المسند،حدیث البراءؓ بن عازب، ح:۱۸۰۴۱، ۵/۳۶۰

(۵۹) ابن ہشام،امر العقبۃالثانیۃ،۲/۵۶۔۵۷

(۶۰) المسند ،مسند جابرؓ بن عبداللہ ، ح :۱۴۲۴۳، ۴/۹۲۷

(۶۱) ابنِ سعد ،ذکر النقباء الاثنی عشر رجلاً....۳/۶۰۳

(۶۲) البدایہ ، ۳/ ۱۶۲۔ ابن سعد ،ذکر العقبۃ الاخرۃ، ۱/۲۲۳

(۶۳) اسد الغابہ ، تذکرہ عبداللہؓ بن رواحہ ، ۳/ ۱۵۷

(۶۴) ابن ہشام ، اول جمعہ اقیمت بالمدینۃ ، ۲/۴۸

(۶۵) اسد الغابہ ، تذکرہ رافعؓ بن مالک بن عجلان ، ۲/ ۱۵۷ 

(۶۶) اسد الغابہ ، تذکرہ رافعؓ بن مالک بن عجلان ، ۲/ ۱۵۷۔ زادالمعاد،۳/۴۵

(۶۷) ابن ہشام ، قصہ عمروؓ بن الجموح ، ۲/ ۶۵۔ ۶۶


حواشی

  1. ابنِ سعدکی روایت میں رفاعہؓ بن عبدالمنذر کے بجائے ابوالہیثمؓ بن تیہان کا نام ملتا ہے۔ (ابنِ سعد ،ذکر العقبۃ الاولیٰ، ۱/۲۲۰)
  2. صاحب تاج العروس نے نقیب کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :

’’النقیب شاھد القوم و راس ھم یفتش احوالھم و یعرفھا۔۔۔۔۔۔وقیل النقیب الرئیس الاکبر‘‘ ( الزبیدی ،محمد بن محمد الحسینی ،’’تاج العروس‘‘ ، فصل النون من الباب الباء ، ’’نقب ‘‘ ۱/ ۴۹۲،دارالفکر، بیروت)

’’نقیب قوم کا شاہد و سردار ہوتاہے ۔اس لیے وہ قوم کے حالات کی چھان بین کرتاہے اور ان کے حالات سے حکومت کو با خبر رکھتاہے ۔۔۔۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نقیب بڑا سردار ہو تا ہے۔‘‘

نقیب کی مزید وضاحت کرتے ہو ئے لکھتے ہیں :

’’وانما قیل للنقیب نقیب لا نہ یعلم دخلےۃ امر القوم ویعرف منا قبھم و ھو الطریق الی معرفۃ امور ھم‘‘ (ایضاً)

’’نقیب کو نقیب اس لیے کہا جاتاہے کیونکہ وہ قوم کے اندرونی حالات سے آگاہ ہوتاہے۔ ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں سے (حکومت ) کو متعارف کراتاہے اور قوموں کے حالات کو سمجھنے کا یہی طریقہ ہے ‘‘

نقباء کا ذکر ہمیں سابقہ اقوام میں بھی ملتاہے ۔قرآن حکیم نے بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے عہدمیں نقیبوں کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِےْثَاقَ بَنِیٓ اِسْرَآءِیْلَ وَ بَعَثْنَا مِنْھُمُ اثْنَیْ عَشَرَنَقِےْبًا ( المائدہ ، ۵:۱۲)

’’اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں بارہ نقیب مقرر کیے ‘‘

  1. یہ اشعار حسب ذیل ہیں:

واللّٰہ لو کنت الٰھا لم تکن
انت و کلب وسط بئر فی قرن 
اف لملقاک الٰھا مستدن 
الاٰن فتشناک عن سوء الغبن
الحمد للّٰہ العلی ذی المنن
الواھب الرزاق دیان الدین 
ھوالذی انقذنی من قبل ان 
اکون فی ظلمۃ قبر مرتھن

’’اللہ کی قسم تو معبود ہو تا تو ایک گڑھے میں کتے کے ساتھ نہ پڑا رہتا ۔ باوجود معبود ہونے کے تیرے اس طرح پڑے رہنے پر تف ہے اب تیر ے متعلق رائے کی بدترین غلطی آشکاراہو گئی ہے ۔ ساری تعریف تو اللہ کے لیے ہے جو احسانات والا ، صاحب عطا،روزی دینے والا اور دین داروں کو جز اء دینے والا ہے ۔ وہی ذات ہے جس نے قبر کے اندھیرے میں پھنسنے سے پہلے ہی مجھے (کفرو شرک سے)بچا لیا ۔‘‘ (ابن ہشام ،قصہ عمروؓ بن الجموح ۲/ ۶۶۔۶۷)

(جاری)

سیرت و تاریخ

(جنوری ۲۰۰۳ء)

تلاش

Flag Counter