دینی مدارس میں اصلاح کی مساعی: اصل توجہ طلب پہلو

حبیب الرحمن اعظمی

مدارس اسلامیہ کے ذریعہ برصغیر بالخصوص ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی بقا وترقی کا جو محیر العقول کام ماضی قریب میں انجام پایا، وہ تاریخ کا ایک حیرت انگیز باب ہے۔ عالم اسباب میں اس کی صورت یہ ہوئی کہ ان مدارس نے مسلسل ملت اسلامیہ کو ایسے افراد اور رجال کار عطا کیے جو اپنی اپنی جگہ ایک ایک امت سے کم نہ تھے۔ ان نابغہ روزگار علما نے زندگی کے ہر میدان میں بھرپور کارگزاری کا مظاہرہ کیا، اخلاص وایثار کے ساتھ مسلمانوں کی دینی، ملی، سیاسی اور سماجی ضرورتوں کو پورا کیا اور پچھلی صدی کے زبردست سیاسی وتہذیبی طوفان کے درمیان سے برصغیر کے مسلمانوں کا سفینہ پوری احتیاط اور دانش مندی سے نکال کر لے گئے۔ فجزاہم اللہ عنا وعن سائر المسلمین

مسلمانوں کے مردم ساز اداروں کی اس تاریخی خدمت کو جس قدر بھی خراج تحسین پیش کیا جائے، ]کم ہے[ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عرصہ دراز سے مردم سازی کا یہ کام توقع کے مطابق پورا نہیں ہو رہا ہے اور امت مدارس کی کثرت کے باوجود ان دینی وملی فوائد سے بڑی حد تک محروم ہے جو اس کو ماضی میں مدارس کی قلت کے باوصف مہیا رہے ہیں۔ ملت کے ہوش مند اس غم ناک صورت حال سے تشویش محسوس کر رہے ہیں اور اپنے اپنے نقطہ نظر سے ان خامیوں اور کمزوریوں پر غور اور ان کی تلافی کی راہیں تلاش کر رہے ہیں جن کے سبب یہ سانحہ پیش آ رہا ہے۔ 

ایک نقطہ نظر کا حاصل یہ ہے کہ نصاب تعلیم ان ضرورتوں کو پورا نہیں کر رہا ہے جنہیں عصر حاضر اپنے جلو میں لے کر آیا ہے اور اس سے وہ ذہن سازی نہیں ہو پاتی جو عصر حاضر کے چیلنج کا جواب بن سکے اس لیے اس نقطہ نظر والوں کی تمام ذہنی توانائیاں نصاب تعلیم میں ترمیم وتبدیل، حذف واضافہ پر صرف ہو رہی ہیں۔

کوئی کہتا ہے کہ اساتذہ میں جوہر علم منتقل کرنے کی وہ صلاحیت باقی نہیں ہے جو ماضی میں موجود تھی۔ ان میں کردار کا وہ مقناطیس نہیں جو افراد کو اپنی طرف جذب کر لے۔ ان کے دلوں میں حسن نیت اور اخلاص کی وہ لو نہیں ہے جس سے دوسرا چراغ روشن ہو سکے۔

کسی کے نزدیک اس صورت حال کا سرچشمہ خود طلبہ کی کمزوریاں ہیں۔ ان میں طلب صادق نہیں جو منزل کی رہنمائی کے لیے ضروری ہے۔ وہ ذوق تشنگی نایاب ہے جو آب حیات کی طرح گامزن کر دے۔ وہ جذبہ اخلاص نہیں جو علم کی خاطر شمع کی طرح پگھلنے کی کیفیت پیدا کرتا رہے۔

ایک جماعت کے نقطہ نظر کے مطابق اس صورت حال کی ذمہ داری مدارس اسلامیہ کے ماحول پر عائد ہوتی ہے کہ مدارس میں وہ ماحول باقی نہیں رہا جو خوش گوار موسم کی طرح غنچوں میں زندگی اور شادابی کی روح پھونکتا رہتا ہے اور بہاریں خود سمٹ کر ان کا جزو حیات بن جایا کرتی تھیں۔

یہ تمام اسباب وعوامل یقیناًکسی نہ کسی درجہ میں موجود ہیں جن سے انکار کی گنجائش نہیں ہے لیکن اسی کے ساتھ واقعہ یہ ہے کہ یہ مرض کی صحیح ومکمل تشخیص نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ کردار اور شخصیت سازی کی وہ سعی ومحنت باقی نہیں رہی جو حضرات اکابر کا طرۂ امتیاز رہی ہے۔ موجودہ انحطاط کی سب سے بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ افراد سازی کی مہم سے غفلت برتی جا رہی ہے۔ عرصہ دراز سے فضلاء مدارس کو ان کی صلاحیت وحیثیت کے مطابق مشغلے نہیں دیے جا رہے ہیں بلکہ ہر نوعمر فاضل کو خلاء بسیط میں اس طرح آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے جس کو کنٹرول کرنے والی کوئی طاقت موجود نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خلا میں گردش کرتا ہوا کسی ایسی سمت نکل جاتا ہے جہاں اس کی تمام علمی وفکری توانائیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ حضرات اکابر ہر سال کے فضلا پر گہری نظر رکھتے تھے اور ان کو حسب صلاحیت تدریسی، تصنیفی، ملی اور سماجی خدمات پر مامور فرما دیتے تھے۔ اس طرح صالح اور کارآمد عناصر کی تربیت کا کام انجام پاتا رہتا تھا۔ حضرت شیخ الہند اور حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمہما اللہ کے طریق تربیت کو اس کی نظیر میں پیش کیا جا سکتا ہے کہ ان دونوں بزرگوں نے کس کس طرح افراد کی تربیت کی اور فضلا کی صلاحیتوں کو صحیح سمت دینے کے لیے کس طرح ان پر نظر رکھی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ مدارس دینیہ کی سرزمین پر جو نہال تازہ لگتا ہے، یا تو جامعہ طبیہ وغیرہ میں اس کا قلم لگا دیا جاتا ہے یا معاشی استحکام کی طمع اس کو ہندوستان کے عصری اداروں اور عرب کے جامعات وغیرہ میں کھینچ لے جاتی ہے اور ہمارے یہاں پیدا ہونے والا ایک ایک جوہر قابل اپنی صلاحیتوں کو دوسرے میدانوں میں منتقل کر دیتا ہے اور ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔

بہتر ہوگا کہ مدارس کے ذمہ دار اکابر ماضی کے صرف بیس سال کا تفصیلی چارٹ تیار کرائیں اور یہ دیکھیں کہ مدارس سے نکلنے والے جم غفیر میں جوہر قابل کتنے تھے؟ پھر یہ کہ ان میں کتنے فضلا جامعہ طبیہ کی نذر ہو گئے، کتنوں نے اپنا سفینہ جدید تعلیم کے طوفان میں ڈال دیا اور کتنے عرب جامعات وغیرہ کی طرف پرواز کر گئے اور کتنے ایسے ہیں جو ہندوستان کے مسلمانوں کی علمی، دینی، ملی خدمت کا کام انجام دے رہے ہیں؟ پھر یہ کہ جو خدمت بخت واتفاق سے ان کے سپرد ہو گئی ہے، کیا وہ ان کی صلاحیتوں کا صحیح استعمال ہے؟ نیز ہندوستان کے مسلمانوں کی خدمت میں مصروف فضلا واقعتا یہ کام خدمت سمجھ کر انجام دے رہے ہیں یا ایسی مجبوریاں آ گئیں کہ وہ زندگی کا رخ اور نہج تبدیل نہ کر سکے؟

ہمیں یقین ہے کہ اس طویل مدت میں معدودے چند فضلا ہی امت کے ہاتھ آئے ہوں گے اور وہ بھی ایسی جگہوں پر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہے ہوں گے جو ان کے لیے موزوں نہیں۔ بس یہی ایک سب سے بڑی وجہ ہے کہ امت ان مدارس کے صحیح فائدے سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔

اس اندوہ ناک صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مردم سازی کی مہم بڑے اہتمام سے شروع کر دی جائے۔ مدارس دینیہ سے فارغ ہونے والے باصلاحیت نوجوانوں کا انتخاب، پھر ان کی صلاحیت کے مطابق کاموں کی تفویض اور نگرانی ہی دراصل اس صورت حال کو ختم کر سکتی ہے، ورنہ اگر نصاب تعلیم، اساتذہ اور طلبہ کی خامیاں اور مدارس کا ماحول ہی پیش نظر رہا اور اصلاح کا سارا زور بس اسی جانب صرف کیا جاتا رہا تو اس سے صورت حال میں کسی خاطر خواہ بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ کتنا اچھا ہو کہ مدارس کے ذمہ دار بالخصوص بڑے مدارس کے ارباب حل وعقد اس طرف توجہ دیں اور امت کے اجڑے ہوئے گلستاں میں پھر وہی بہاریں خیمہ زن ہو جائیں جن کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔

(بشکریہ ماہنامہ ’’دار العلوم‘‘ دیوبند)

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(جنوری ۲۰۰۳ء)

تلاش

Flag Counter