’’ایڈز‘‘ کے اسباب اور احتیاطی تدابیر

حکیم محمد عمران مغل

ایڈز کیا ہے؟

لفظ ’’ایڈز‘‘ دراصل انگریزی زبان کے چار حروف کا مجموعہ ہے۔ A سے مرادAcquired (شکار ہونا)، I سے مراد Immune (مدافعتی نظام)، D سے مراد Deficiency (کمی) اور Sسے مراد Syndrome (بیماریوں کا مجموعہ) ہے۔ ایڈز سے مراد مدافعتی نظام میں کمزوری کی وجہ سے کئی بیماریوں کا شکار ہونا ہے۔ انسانی مدافعتی نظام کا بڑا حصہ خون میں سفید خلیے (lymphocytes) ہیں۔ یہ سفید خلیے باہر سے آنے والے جراثیم (وائرس، بیکٹریا) کو ہلاک کر کے جسم کو بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ ایڈز کی صورت میں وائرس ان کو ہلاک کرتا ہے جس سے مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے اور کئی بیماریاں بیک وقت حملہ آور ہو جاتی ہیں۔

تاریخی پس منظر

ایڈز ایک نئی بیماری ہے۔ عام طور پر اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ ایڈز پھیلانے والا وائرس سب سے پہلے افریقہ میں ظاہر ہوا کیونکہ افریقہ میں بندر کاگوشت کھایا جاتا ہے جس میں یہ وائرس موجود ہوتا ہے۔ یہ وائرس بعد میں امریکہ اور یورپ میں پھیل گیا۔ امریکہ میں یہ وائرس غالباً ۱۹۵۰ء میں داخل ہوا۔ ۱۹۶۹ء میں ایک پندرہ سالہ لڑکا اس کا پہلا شکار ہوا اور Skin lesions (جلد پر دھبے) میں مبتلا ہو کر مر گیا۔ ڈاکٹر اس مرض کو نہ سمجھ سکے اور اس کی جلد کو محفوظ کر لیا گیا۔ حال ہی میں ان جلدی بافتوں (Tissues) کامعاینہ کیا گیا جس سے ایڈز کے وائرس کی موجودگی پائی گئی۔ ۱۹۵۹ء میں ۴۹ سالہ Hitian نیو یارک میں ایک قسم کے نمونیا سے ہلاک ہوا۔ اب اس کی موت کو ایڈز سے منسلک کیا جاتا ہے۔

برطانوی سائنس دانوں نے مانچسٹر سی مین (Manchester Seaman) جو ۱۹۵۹ء میں ہلاک ہوا، کے ٹشوز (بافتوں) سے ایڈز کا پتہ چلایا۔ اس مرض کا نام ایڈز ۱۹۸۲ء میں رکھا گیا اور ۱۹۸۳۔۸۴ء میں اس کا سبب وائرس HIV (Human Immuno Deficiency Virus)میں دریافت ہوا۔ 

ایڈز کا سبب

ایڈز کا سبب ایک قسم کا وائرس ہوتا ہے جسے HIVکہتے ہیں۔ وائرس بہت چھوٹے جاندار ہیں جو الیکٹران مائیکرو سکوپ کے نیچے دکھائی دیتے ہیں۔ وائرس کا لفظی مطلب ’’زہر‘‘ ہوتا ہے۔

HIV کا جینیاتی مادہ (Genetical Material) آر این اے پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب وائرس خون کے سفید جرثوموں(T. lymphocytes) میں داخل ہوتا ہے تو RNA سے DNA بنایا جاتا ہے۔ یہ ڈی این اے سفید جرثوموں کے کروموسوم میں داخل ہو کر اسے یرغمال بنا لیتا ہے اور اپنے لیے نیا RNA اور پروٹین کوٹ بنواتا ہے۔ اس طرح کئی وائرس ایک وقت میں سفید خون کے خلیوں سے ابھار کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اور خون کے نئے سفید خلیوں پر حملہ کر دیتے ہیں جن سے سفید خلیوں کی تعداد میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ 

HIV-I انفیکشن کے تین مرحلے ہوتے ہیں:

(۱) کیٹگری اے: اس مرحلے پر خون کے سفید خلیوں کی تعداد ۵۰۰ فی مکعب ملی میٹر یا اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس سٹیج پر عموماً لوگوں میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں مگر ایک سے دو فیصد لوگوں میں بخار، کپکپی، درد swollen lymphnodes اور خارش کے دھبے ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ علامات بعد میں ختم ہو جاتی ہیں لیکن انفیکشن جاری رہتا ہے۔اس اسٹیج پر جسم کو بیماریوں کے خلاف قائم رہنے کے لیے ہر دن ایک سے دو بلین (کروڑ) نئے سفید خلیے پیدا کرنا پڑتے ہیں۔

(۲) کیٹگری بی : انفیکشن کے کئی ماہ سے کئی سال بعد مریض آہستہ آہستہ کیٹگری بی تک پہنچ جاتا ہے۔ جسم میں سفید خلیوں کی تعداد ۲۰۰ سے ۴۹۹ فی مکعب ملی میٹر تک رہ جاتی ہے۔ گردن، پیٹ اور بغلوں میں lymphnodes سوج جاتے ہیں جو تین یا تین سے زیادہ مہینوں تک رہتے ہیں۔ دوسری علامات میں سخت تھکاوٹ (Fatigue)، مسلسل بخار، اکثر رات کو پسینہ آنا، مسلسل کھانسی جو تمباکو نوشی سے نہ ہو، سردی، زکام، اور مسلسل پیچش (Persistant Diarrhea) شامل ہیں۔ ممکن ہے دماغ میں خرابی سے یادداشت گم ہو جائے اور سوچنے کی کمی، پہچان کی نا اہلی اور ڈپریشن جیسی علامات ظاہر ہوں۔

(۳) کیٹگری سی : اس مرحلے پر سفید خلیوں کی تعداد ۲۰۰ فی مکعب ملی میٹر سے کم ہو جاتی ہے۔ لمف نوڈز ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔ مسلسل پیچش اور کھانسی کی وجہ سے وزن میں کمی اور کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔ کئی دوسری بیماریاں جیسے پھیپھڑوں کا نمونیا، ٹی بی، پٹھوں یا دماغ کے خلیوں کو تباہ کرنے والی بیماری (Toxoplasmic encephalitus)، بلڈ کینسر (Koposi's Sarcoma) وغیرہ حملہ آور ہوتی ہیں۔ مریض ایڈز سے کم اور ان بیماریوں سے زیادہ ہلاک ہوتا ہے۔ ان بیماریوں کے خلاف ادویات استعمال کرنے سے مریض کچھ مہینوں تک نارمل رہتا ہے لیکن آخر کار وزن کی کمی، مسلسل تھکاوٹ اور بیک وقت کئی بیماریوں کے حملے کی وجہ سے مریض کو بار بار ہسپتال لے کر جانا پڑتا ہے۔ دو سے چار سال میں مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

احتیاطی تدابیر

ابھی تک ایڈز لاعلاج مرض ہے لیکن دو قسم کی مشہور ادویات ہیں جن میں AZT شامل ہے۔ ایڈز سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا بہت ضروری ہے:

۱۔ غلط جنسی رویے اور نشہ ایڈز کا بڑا سبب ہے، ان سے باز رہنا چاہیے۔

۲۔ مریض کو خون لگانے سے پہلے یقین کر لیا جائے کہ یہ HIV سے پاک ہے۔

۳۔ نئی سرنج کا استعمال کرنا چاہیے۔

(ماخذ: Human Biology, 5th edition, Mader S.S, McGraw Hill )

امراض و علاج

(جنوری ۲۰۰۳ء)

تلاش

Flag Counter