قبل از ہجرت مکہ مکرمہ میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی متعین تبلیغی ودعوتی مرکز نہ تھاجہاں رہ کر وہ اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنی دعوتی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ۔ درحقیقت مکی دور میں خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس ہی متحرک درس گاہ تھی۔سفروحضر، دن اور رات ہر حال اور ہر مقام میں آپﷺ ہی کی ذات دعوت وتبلیغ کا منبع تھی۔صحابہ کرامؓ عام طو ر پر چھپ کر ہی قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے تاہم کفار مکہ کی ستم رانیوں کے باوجود رسول اللہ ﷺ کے علاوہ حضرت ابوبکرؓ ،خبابؓ بن الارت ،مصعبؓ بن عمیر اور دیگر صحابہ کرامؓ قرآن مجید کی تعلیم اور اشاعت میں مصروف رہے۔مکی دور کے ایسے مقامات اور حلقہ جات کو دعوت وتبلیغ کے مراکز سے تعبیر کیاجاسکتاہے جہاں حالات کی نزاکت اور ضرورت کے مطابق کسی نہ کسی انداز میں قرآن مجید کی تعلیم دی جاتی تھی یا قرآن کی تلاوت کی جاتی تھی۔ذیل کی سطور میں مکی دور کے چند دعوتی وتبلیغی مراکز کا مختصر تعارف پیش کیاجاتا ہے، جہاں پر صحابہ کرامؓنے کسی نہ کسی حیثیت میں فریضۂ دعوت انجام دیا۔
مسجد ابی بکرؓ
مکی دور میں دعوت وتبلیغ کا اولین مرکز حضرت صدیقِ اکبرؓ کی وہ مسجد تھی جو آپؓ نے اپنے گھر کے صحن میں بنا رکھی تھی۔ابتدا میں یہ ایک کھلی جگہ تھی جس میںآپؓ قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھا کرتے تھے۔عام طور پرآپؓ بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو کفار ومشرکین مکہ کے بچے اور عورتیں ان کے گر دجمع ہوکر قرآن سنتے، جس سے ان کا دل خود بخود اسلام کی طرف مائل ہوتا۔یہ صورت حال مشرکینِ مکہ کو بھلا کب گوارا تھی ،چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کو سخت اذیت میں مبتلا کیا جس کی وجہ سے آپؓ نے مکہ سے ہجرت کاارادہ کرلیا۔مگر راستے میں قبیلۂ قارہ کے رئیس ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔اس نے پوچھا اے ابوبکرؓکدھر کا ارادہ ہے؟ آپؓ نے فرمایاکہ میری قوم نے مجھے ہجرت پر مجبور کردیا ہے، اب دنیا کی سیر کروں گااور کسی گوشہ میں اطمینان سے اپنے رب کی عبادت کروں گا،مگر ابن الدغنہ یہ کہہ کرآپ کو واپس لے آیاکہ آپؓجیسے باکردار شخص کو ہجرت پر مجبور نہیں کیاجاسکتا اور پھر حضرت صدیقِ اکبرؓ کے لیے اپنی پناہ کا اعلان کیا۔ ابوبکرؓ واپس تشریف لے آئے اور گھر کے صحن میں باقاعدہ مسجد بنالی۔ صحیح بخاری میں ہے:
ثم بدأ لابی بکرؓ فابتنی مسجدا بفناء دارہ وبرز فکان یصلی فیہ ویقرء القرآن۔ (۱)
’’پھر ابوبکرؓ نے اپنے مکان کے باہر صحن میں ایک مسجد بنائی،اور اس میں نماز اور قرآن پڑھتے تھے‘‘۔
مسجد ابی بکرؓ میں نہ کوئی مستقل معلم مقرر تھا اور نہ کوئی باقاعدہ طالب علم تھا۔البتہ یہ مسجد تلاوتِ قرآن اور اشاعتِ قرآن کے لیے مکی دور کی اولین درس گاہ اور تبلیغی مرکز قراردی جاسکتی ہے جہاں پر کفار مکہ کے بچے بچیاں اور عورتیں قرآن کے آفاقی پیغام کو لحنِ صدیقیؓ میں سنتے تھے اور مائل بہ اسلام ہوتے تھے۔ چنانچہ ابن اسحاق حضرت عائشہؓ کی سند سے روایت کرتے ہیں:
وکان رجلا رقیقا،اذا قرأ القرآن استبکی، فیقف علیہ الصبیان والعبید والنساء، یعجبون لما یرون من ھیئتہ، فمشی رجال من قریش الی ابن الدغنۃ، فقالوا:یا ابن الدغنۃ! انک لم تجر ھذا الرجل لیؤذینا ! انہ رجل اذا صلی وقرأ ما جاء بہ محمدﷺ یرق ویبکی، وکانت لہ ھیئتہ ونحو،فنحن نتخوّف علی صبیاننا ونسا ئنا و ضعفتنا ان یفتنھم، فأتہ،فمرہ ان یدخل بیتہ فلیصنع فیہ ماشاء۔
’’حضرت ابوبکرؓ رقیق القلب انسان تھے،جب قرآن پڑھتے تو روتے ،اس وجہ سے آپؓ کے پاس لڑکے،غلام اور عورتیں کھڑی ہوجاتیں،اور آپؓکی اس ہیئت کو پسند کرتے ،قریش کے چند لوگ ابن الدغنہ کے پاس گئے اور اس سے کہا:اے ابنِ الدغنہ!تونے اس شخص کو اس لیے تو پناہ نہیں دی تھی کہ وہ ہمیں تکلیف پہنچائے۔ وہ ایسا شخص ہے کہ جب نمازمیں وہ کلام پڑھتا ہے جو محمدﷺ لایا ہے تو اس کا دل بھر آتا ہے اوروہ روتا ہے۔اس کی ایک خاص ہیئت اور طریقہ ہے جس کی وجہ سے ہمیں بچوں،عورتوں اور دیگر لوگوں کے متعلق خوف ہے کہ کہیں یہ انہیں فتنے میں نہ ڈال دے اس لیے تو اس کے پاس جااور حکم دے کہ وہ اپنے گھر کے اندر رہے اور اس میں جو چاہے کرے‘‘۔
چنانچہ ابن الدغنہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا اور کہا کہ یا تو آپؓ اس طریقے سے باز آجائیں یا میر ی پناہ مجھے واپس لوٹا دیں۔حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:میں نے تیری پناہ تجھے واپس کردی۔میرے لیے اللہ کی پناہ کافی ہے۔ (۲)
بیت فاطمہ بنتِ خطابؓ
حضرت فاطمہ بنتِ خطابؓ ،حضرت عمر بن خطابؓ کی بہن ہیں جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اپنے خاوند سعیدؓ بن زیدسمیت اسلام قبول کرلیا۔یہ دونوں میاں بیوی اپنے گھر میں ہی حضرت خبابؓ بن الارت سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کیاکرتے تھے۔حضرت عمرؓ ایک دن اسلام لانے سے پہلے گلے میں تلوار حمائل کیے رسول اللہﷺ کے قتل کے ارادے سے نکلے، لیکن راستے میں اپنی بہن اور بہنوئی کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو انتہائی غصے کی حالت میں تلوار ہاتھ میں لے کر ان کے مکان پر پہنچے تو ان کو قرآن کی تلاوت اور تعلیم میں مشغول پایا۔ابنِ اسحاق کی روایت ہے:
وعندھما خبابؓ بن الارت معہ صحیفۃ فیھا: ’’طٰہٰ ‘‘یقرء ھما ایاھا۔ (۳)
’’ان دونوں کے پاس خبابؓ بن الارت تھے جن کے پاس ایک صحیفہ تھا جس میں سورہ طہٰ لکھی ہوئی تھی جو وہ ان دونوں کو پڑھا رہے تھے‘‘
سیرتِ حلبیہ میں حضرت عمرؓ کی زبانی منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے میرے بہنوئی کے یہاں دو مسلمانوں کے کھانے کا انتظام کیاتھا،ایک خباب بن الارتؓ اور دوسرے کانام مجھے یاد نہیں۔ خباب بن الارتؓ میری بہن اور بہنوئی کے پاس آتے جاتے تھے اور ان کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔(۴)
اس سلسلہ میں حضرت عمرؓ کایہ بیان ہے :
وکان القوم جلوسا یقرء ون صحیفۃ معہم۔ (۵)
’’اور ایک جماعت بیٹھ کر صحیفہ پڑھ رہی تھی جوان کے پاس موجود تھا‘‘
بیتِ فاطمہ بنتِ خطابؓ کو مکی دور میں قرآن مجید کی تعلیم اور اشاعت کا مرکز کہاجاسکتا ہے جہاں کم ازکم دو طالب علم اور ایک معلم تھا۔اور اگر حضرت عمرؓ کے بیان میں لفظ’’قوم‘‘کا اعتبار کیا جائے تو یقینی طور پریہاں قرآن پڑھنے والی ایک پوری جماعت کا پتہ چلتاہے۔
دارِ ارقمؓ
حضرت ارقم بن ابی الارقمؓ (*۱) السابقون الاولون یعنی بالکل ابتدائی دور میں اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ آپؓ کے بیٹے عثمان بن ارقم ،جو ثقہ محدث ہیں،کہاکرتے تھے:
انا ابن سبع الاسلام، اسلم ابی سابع سبعۃ۔ (۶)
’’میں(عثمان)ایک ایسی ہستی کافرزند ہوں جنہیں اسلام میں ساتواں درجہ حاصل ہے،میرے والد اسلام قبول کرنے والے ساتویںآدمی ہیں‘‘۔
حافظ ابنِ حجر نے بھی الاصابہ میں ابن سعد کے قول کوہی اختیار کیا ہے تاہم ابن الاثیر کے مطابق حضرت ارقمؓ کاقبول اسلام میں دسواں یابارہواں نمبر ہے۔(۷)
البتہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت ارقمؓ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کرلیاتھا۔
وکانت دارہ علی الصفاء۔ (۸)
’’مکہ میں ان کا مکان کو ہ صفا کے اوپر تھا‘‘۔
دارِ ارقم (*۲)کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے اس مکان کو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ مکان ’’دارالاسلام‘‘کے متبرک لقب سے بھی یادکیا جاتا ہے۔(۹)
مشرکینِ مکہ جب اسلام کے پھیلاؤ کو کسی طرح بھی نہ روک سکے تو انہوں نے کمزور ضعفاء اسلام پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کو بیت اللہ میں آزادانہ نماز ادا کرنے سے روکتے،ذکر الٰہی اور تلاوتِ قرآن میں خلل انداز ہوتے ،دست درازی کرتے اور اکثر ان کارویہ انتہائی گستاخانہ ہوتاتھا۔حالات اس قدر نازک ہوچکے تھے کہ مسلمانوں کے لیے گوشوں اور گھاٹیوں تک میں محفوظ اور آزادانہ طور پر عبادت اور نماز کا ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ ابن اسحاق کا بیان ہے:
’’ایک دفعہ مسلمان مکہ کی ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کے ایک گروہ نے انہیں دیکھ لیا اوران کو سخت سست کہنا شروع کیا۔بات بڑھتے بڑھتے لڑائی تک پہنچ گئی اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ایک شخص کو اونٹ کی ہڈی کھینچ ماری جس سے اس کا سر پھٹ گیا۔ یہ پہلا خون تھا جو اسلام کے بارے میں بہایا گیا۔(۱۰)
یہ وہ سنگین حالات تھے جن میں رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو لے کر دارِارقم میں پناہ گزیں ہوگئے تاکہ مسلمان پورے انہماک سے اپنے رب کے حضور اپنی جبین نیاز کو جھکاسکیں،چنانچہ جلد ہی دارِارقم اسلا م اور دعوتی سرگرمیوں کامرکز بن گیاجہاں پر نہ صرف لوگوں کودائرۂ اسلام میں داخل کیا جاتا تھا بلکہ ان کی مناسب تعلیم وتربیت اور تزکیۂ نفس بھی کیاجاتا تھا ۔ ابنِ سعد کی روایت ہے:
کان النبیﷺ یسکن فیھا فی اول الاسلام وفیھا یدعو الناس الی الاسلام فاسلم فیھا قوم کثیر۔ (۱۱)
’’رسول اللہﷺ ابتدائے اسلام میں اس مکان میں رہتے تھے،لوگوں کواسلام کی دعوت دیتے تھے اور بہت سے لوگوں نے یہاں اسلام قبول کیا‘‘۔
ابنِ جریر طبری بھی مکی عہد نبوت میں دارِ ارقم کو دعوتی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیتے ہیں جہاں پر کثیر لوگوں نے اسلام قبول کیاچنانچہ حضرت ارقمؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وکانت دارہ علی الصفا، وھی الدار التی کان النبیﷺ یکون فیھا فی اول الاسلام وفیھا دعا الناس الی الاسلام فاسلم فیھا قوم کثیر۔ (۱۲)
’’حضرت ارقمؓ کا گھر کوہ صفا پرواقع تھا ۔ آغازِ اسلام میں رسول اللہ ﷺاسی گھر میں رہا کرتے تھے۔ یہیں آپﷺ لوگوں کو دعوتِ اسلام دیا کرتے تھے اور یہاں پر بہت سے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے‘‘
ابنِ عبد البر اپنی شہرہ آفاق کتاب’’الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب‘‘میں حضرت ارقمؓ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں:
وفی دارالارقمؓ بن ابی الارقم ھٰذا کان النبیﷺ مستخفیا من قریش بمکۃ یدعوالناس فیھا الی الاسلام فی اول الاسلام حتیٰ خرج عنھا،وکانت دارہ بمکۃ علی الصفا فاسلم فیھا جماعۃ کثیرۃ۔ (۱۳)
’’یہ ارقم بن ابی ارقمؓ وہی ہیں جن کے گھر میں رسول اللہﷺ مکہ مکرمہ میں قریش سے پوشیدہ مقیم رہتے تھے۔کھل کرسامنے آنے سے قبل اسلام میں آپ ﷺیہاں پر لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔حضرت ارقمؓ کا یہ مکان مکہ میں کوہ صفا پر واقع تھا،چنانچہ یہاں پر بہت بڑی جماعت نے اسلام قبول کیا‘‘
داارِ ارقم کے مرکزِ اسلام بننے کے بعد دعوت وتبلیغ کاکام اب قدرے اطمینان کے ساتھ مشرکین کی نظروں سے اوجھل انجام پانے لگا۔دعوتِ اسلام کایہ وہ مرحلہ ہے جس میں مکہ مکرمہ کے بے کس ،زیردست اور غلام اس نئی تحریک میں اپنی دنیاوآخرت کی نجات تصور کرتے ہوئے داخل ہوتے ہیں۔ابنِ الاثیر نے حضرت عمار بن یاسرؓاورصہیب رومیؓکے قبولِ اسلام کے متعلق ایک بڑا دلچسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔
ایک دن یہ دونوں حضرات چھپتے چھپاتے اور دبے پاؤں دارِ ارقم کے دروازہ پر اکٹھے ہوجاتے ہیں،حیرت واستعجاب سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں پھر گفتگو کا رازدارانہ اندازشروع ہوجاتاہے۔عمار بن یاسرؓ خود بیان کرتے ہیں:
’’میں نے صہیبؓ سے پوچھاتم یہاں کیوں کھڑے ہو؟صہیبؓ نے کہا!تم کیوں کھڑے ہو؟ میں نے کہا!میں چاہتا ہوں کہ محمدﷺ کے پاس جاؤں اور ان کی باتیں سنوں،صہیبؓ نے کہا!میں بھی تو یہی چاہتا ہوں‘‘
چنانچہ یہ دونوں حضرات اکٹھے ہی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اوراسلام قبول کرلیا۔ ان بزرگوں کا اسلام تیس سے کچھ زائد آدمیوں کے بعد ہوا۔(۱۴)
دارِ ارقم نہ صرف ضعفاء اسلام کی جائے پناہ تھی بلکہ یہاں صحابہ کرامؓ کی تعلیم وتربیت کے ساتھ اجتماعی طور پر عبادات،ذکراللہ اور دعاؤں کا سلسلہ ہمہ وقت جاری رہتا تھا۔اس میں وہ دعا خصوصیت سے قابلِ ذکرہے جو رسول اللہﷺ نے عمر بن خطابؓ اور (ابوجہل)عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کے قبولِ اسلام کے لیے مانگی تھی۔ابنِ اسحاق کی روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمرؓ(معاذ اللہ)رسول اللہﷺ کو قتل کرنے کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ راستہ میں اپنی بہن فاطمہ بنتِ خطابؓ کے گھر سورہ طٰہٰ کی تلاوت سنی تو کایا ہی پلٹ گئی ، ان کو مائل بہ اسلام دیکھ کر حضرت خبابؓ بن الارت نے انہیں خوشخبری کے انداز میں بتایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دارِ ارقم میں یہ دعا کرتے سناہے:
اللّٰھم اید الاسلام بابی الحکم بن ہشام او بعمر بن الخطاب۔ (۱۵)
’’اے اللہ!ابوالحکم بن ہشام یا عمر بن خطابؓ سے اسلام کی تائید فرما‘‘
چنانچہ حضرت عمرؓ یہاں سے سیدھے دارِ ارقم پہنچے اور اسلام قبول کرلیا۔
دارِ ارقم ’’دارالاسلام‘‘ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لئے’’دارالشوریٰ‘‘بھی تھا۔پہلی اور دوسری ہجرت حبشہ جیسے اہم معاملات بھی اسی جگہ باہمی مشاورت ہی سے انجام پائے۔ابنِ ہشام کے الفاظ اس مجلس مشاورت کی صاف غمازی کررہے ہیں:
قال لھم لو خرجتم الی ارض الحبشۃ فان بھاملکا لایظلم عندہ احد، وھی ارض صدق،حتی یجعل اللّٰہ لکم فرجا مما انتم فیہ۔ (۱۶)
’’رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓسے فرمایا! اگر تم سرزمینِ حبشہ کی طرف نکل جاؤ تو وہاں ایک بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ سچائی کی سرزمین ہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس مشکل سے نجات دلادے جس میں تم گرفتار ہو‘‘
ان الفاظ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ خطاب صحابہ کرامؓکے کسی اجتماع سے ہی ہو گا جو دارِ ارقم میں انعقاد پذیر ہوگا۔اسی طرح ایک روز رسول اللہﷺکے صحابہؓ جمع ہوئے اور باہمی مشاورت سے طے کیا کہ قریش نے قرآن کو اپنے سامنے بلند آواز سے پڑھتے ہوئے کبھی نہیں سنا لہٰذا کوئی ایسا شخص ہو جو یہ فریضہ انجام دے۔چنانچہ حضرت عبداللہؓ بن مسعودنے یہ ذمہ داری قبول کی اور قریش کو ان کی مجلس میں جاکر قرآن کی طرف دعوت دی۔(۱۷)
اگرچہ یہ تفصیل معلوم نہیں ہوسکی کہ صحابہ کرامؓ کی یہ مجلس مشاورت کہاں پر منعقد ہوئی تاہم گمان یہی ہے کہ یہ مجلس مشاورت دارِ ارقم ہی میں قائم ہوئی ہوگی، کیونکہ اس کے علاوہ صحابہ کا اجتماع کسی اور جگہ پر مشکل تھا۔
ابتدائی دور کے تذکرہ نگار اور مؤرخین رسول اللہﷺ کے دارِ ارقم میں فروکش ہونے کو اتنا اہم اور انقلابی واقعہ تصور کرتے ہیں کہ واقعاتِ سیرت وتذکرۂ صحابہ میں یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ یہ واقعہ دارِ ارقم میں داخل ہونے سے قبل کاہے اور یہ اس کے بعدکا ہے۔ گویا جس طرح عام الفیل اور حلف الفضول جیسے واقعات کے حوالے سے اہلِ مکہ اپنی معاصر تاریخ کے واقعات کا تعین کرتے تھے، مسلمان مؤرخین بھی مکی عہد نبوت میں سیرت وتاریخ اسلام کے واقعات کا تذکرہ اور اندراج بھی ہادئ اسلام ﷺکے دارِ ارقم میں فروکش ہونے کے حوالے سے کرتے ہیں۔ مثلاًمؤرخ ابن الاثیر نے مسعودؓ بن ربیعہ، عامرؓبن فہیرہ،معمرؓ بن حارث وغیرہ کے تراجم (تذکروں)میں تصریح کی ہے کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے دارِ ارقم میں منتقل ہونے سے قبل مسلمان ہوچکے تھے۔اسی طرح مصعبؓ بن عمیر،صہیبؓ بن سنان، طلیبؓ بن عمیر، عماربن یاسرؓ، عمر فاروقؓ وغیرہ کے تذکروں میں ابن الاثیر نے تصریح کی ہے کہ یہ لوگ دارِ ارقم میں جاکر اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے تھے۔ (۱۸)
ابنِ سعد نے مہاجرین مکہ میں سے اولین وسابقین اسلام کے قبول دینِ حق کو دومرحلوں میں تقسیم کیاہے اور یہ واضح کیا ہے کہ وہ حضرات کون کون تھے جو دارِ ارقم کو دعوتِ دین کا مرکز بنانے کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ابنِ سعدنے مندرجہ ذیل صحابہ کرامؓکے تذکروں میں یہ بات خصوصیت سے ذکر کی ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے دار ارقم میں تشریف فرماہونے سے قبل اسلام قبول کرچکے تھے: حضرت خدیجہؓ،ابوبکرؓ،عثمان غنیؓ،علی المرتضیؓ،زیدؓ بن حارثہ،عبیدہؓ بن حارث،ابو حذیفہؓ بن عتبہ،عبداللہؓ بن جحش ،عبدالرحمنؓ بن عوف،عبداللہؓ بن مسعود،خبابؓ بن الارت،مسعودؓ بن ربیع،واقدؓ بن عبداللہ،عامرؓ بن فہیرہ،ابوسلمہؓ بن اسد،سعیدؓ بن زید،عامرؓ بن ربیعہ،خنیسؓ بن حذافہ،عبداللہؓ بن مظعون اور حاطبؓ بن عمرو۔اسی طرح ابن سعدنے ان بزرگوں کی بھی نشاندہی ضروری سمجھی ہے جو دارارقم کے اندر آکر رسول اللہﷺ کے دستِ مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ان صحابہ کرامؓمیں حضرت صہیبؓ،عمار بن یاسرؓ،مصعبؓ بن عمیر،عمر بن خطابؓ،عاقلؓ بن ابی بکر249عامرؓ بن ابی بکر،ایاسؓ بن ابی بکراورخالدؓ بن ابی بکرشامل ہیں۔(۱۹)
ابن سعد کے اس طرزِ ترتیب سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک دارِ ارقم کو دینِ حق کی دعوتی وتبلیغی سرگرمیوں کا مرکزو محور بنانے کا واقعہ ایک ایسانقطۂ تغیر ہے جس نے دنیا کی بے مثال اور انقلابی اسلامی تحریک کو ایک نیا رخ عطاکرنے میں ایک محفوظ پناہ گاہ اور بے مثال تربیت گاہ کاکام دیا۔اس بات پرتمام مؤرخین اور محققین کا اتفاق ہے کہ رسول اللہﷺ حضرت عمرفاروقؓکے قبولِ اسلام تک دارِ ارقم میں ہی مقیم رہے۔جبکہ بعض روایات کے مطابق حضرت عمرؓ نے نبوت کے چھٹے سال میں اسلام قبول کیا تھا۔ البتہ مؤرخین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ رسول اللہﷺ دارِارقم میں کب فروکش ہوئے اور کتنا عرصہ دارِارقم مسلمانوں کی پناہ گاہ کاکام دیتا رہا۔اگرچہ بعض مؤرخین نے دارِ ارقم میں قیام کی مدت کے حوالے سے چھ ماہ اور ایک ماہ کے اقوال بھی نقل کیے ہیں(۲۰) لیکن اگر ماخذ کا تفصیلی جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دارِ ارقم میں رسول اللہﷺ کا قیام کافی مدت تک رہا ۔ اگرچہ اس مدت کا تعین تو مشکل ہے اور یہ بتانا بھی ممکن نہیں کہ رسول اللہﷺ کب دارِ ارقم میں پناہ گزین ہوئے تاہم مؤرخین کے بعض نامکمل اشارات سے ہم اس مدت کا اندازہ ضرور کرسکتے ہیں مثلاً ابن الاثیر حضرت عمرؓکے قبولِ اسلام کے واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’عمر بن خطاب تلوار لٹکائے گھر سے نکلے۔ ان کا ارادہ (معاذ اللہ)رسول اللہﷺکو قتل کرنے کاتھا۔مسلما ن بھی آپﷺ کے ساتھ دارِارقم میں جمع تھے ،جو کوہِ صفا کے پاس تھا۔اس وقت آنحضرت ﷺ ان مسلمانوں میں سے تقریباً چالیس مردوزن کے ساتھ وہاں پناہ گزین تھے جو ہجرت حبشہ کے لیے نہیں نکلے تھے۔‘‘ (۲۱)
ابن الاثیر کے اس قول سے واضح ہوتاہے:
۱۔ حضرت عمرؓنے ہجرتِ حبشہ کے بعد اسلام قبول کیاجبکہ ابنِ قیم نے تصریح کی ہے کہ پہلی ہجرت حبشہ ماہ رجب ۵نبوی میں پیش آئی۔ (۲۲)
۲۔ دارِ ارقم میں صرف وہ مسلمان پناہ گزین ہوئے تھے جو کسی وجہ سے حبشہ کی طرف ہجرت نہ کرسکے۔لہٰذا ان باقی ماندہ مسلمانوں کی تعداد تقریباًچالیس تھی نہ کہ اس وقت تک اسلام قبول کرنے والوں کی کل تعداد ہی چالیس تھی۔
پہلی اور دوسری ہجرت حبشہ کا فیصلہ دارِارقم ہی میں باہمی مشاورت سے ہوا تھا۔ اس لحاظ سے اگر حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام اور ہجرتِ حبشہ کے درمیانی عرصہ کو شمار کیا جائے تو وہ بھی ایک سال سے زائد ہی بنتا ہے۔جبکہ یہ بدیہی بات ہے کہ رسول اللہﷺ ہجرتِ حبشہ سے کافی پہلے دارِ ارقم میں پناہ گزیں ہوچکے تھے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی ایک دو سالوں میں ہی رسول اللہﷺ دارِا رقم میں مقیم ہو گئے تھے۔ مثلاً ابن الاثیرحضرت عمار بن یاسرؓ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں:
’’میں نے رسول اللہﷺکو (اپنے اسلام لانے کے بعد)دیکھاتو آپ ﷺکے ساتھ صرف پانچ غلام،عورتیں اور ابوبکر صدیقؓ تھے‘‘۔ (۲۳)
مجاہد کا بیان ہے کہ حضرت عمار بن یاسرؓ ابتدا میں اسلام قبول کرنے والے سات آدمیوں میں سے ایک تھے۔ (۲۴) جبکہ اس بات پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے دارِا رقم میں جاکر اسلام قبول کیا (۲۵) اس صور ت میں تو رسول اللہﷺ کا ابتدائے اسلام ہی میں دارِ ارقم میں قیام پذیر ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اسی طرح حضرت حمزہؓ نے کب اسلام قبول کیا؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں،بعض نے کہاہے کہ اعلانِ نبوت کے پانچویں سال اور بعض نے اعلانِ نبوت کے چھٹے سال ۔لیکن علماء محققین کی تحقیق یہ ہے کہ آپؓ اعلانِ نبوت کے دوسرے سال مشرف بہ اسلام ہوئے۔چنانچہ علامہ ابن حجر جو فن رجال کے امام ہیں،تحریر فرماتے ہیں:
واسلم فی السنۃ الثانیۃ من البعثۃ ولازم نصر رسول اللّٰہﷺ وھاجر معہ۔ (۲۶)
’’آپؓ بعثت کے دوسرے سال ایمان لائے اور ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کی مدد کرتے رہے اور آپ ﷺ کے ساتھ ہی ہجرت کی‘‘
اگرچہ ابن حجر نے ۶نبوی کا قول بھی نقل کیا ہے لیکن ’’قیل‘‘کے ساتھ جو ضعف پر دلالت کرتا ہے۔علامہ ابن الاثیر لکھتے ہیں:
اسلم فی السنۃ الثانیۃ من المبعث۔ (۲۷)
’’آپ بعثت کے دوسرے سال ایمان لائے‘‘ (*۳)
حضرت عمرؓ نے حضرت حمزہؓکے مسلمان ہونے کے صرف تین دن بعد اسلام قبول کیا اور علماء محققین کی یہ رائے بھی بیان کی گئی ہے کہ صحیح قول کے مطابق حضرت حمزہؓ نبوت کے دوسرے سال مشرف بہ اسلام ہوئے۔اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت عمرؓنے نبوت کے دوسرے سال حضرت حمزہؓکے تین دن بعد رسول اللہ ﷺکے دستِ مبارک پر اسلام کی بیعت کی۔ اس قول کی مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اکثر علما کی یہ رائے ہے کہ آپؓ سے پہلے انتالیس مرد مسلمان ہوچکے تھے۔آپؓکے مسلمان ہونے سے چالیس کا عدد پورا ہوا۔حضرت عمرؓکا بیان ہے :
لقد رایتنی وما اسلم مع رسول اللّٰہ ﷺ الا تسعۃ وثلاثون وکمّلتھم اربعین۔ (۲۸)
’’میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ صرف انتالیس آدمی اسلام لاچکے ہیں اور میں نے ایمان لاکرچالیس کا عدد مکمل کیا‘‘
حاصلِ بحث یہ ہے کہ اگر محققین کے اس قول کا اعتبار کیا جائے کہ حضرت حمزہؓاور عمرؓ نے نبوت کے دوسرے سال ہی اسلام قبول کرلیا تھا تو یہ حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہﷺ بہت ابتدا ہی میں دارارقم کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بناچکے تھے کیونکہ اس بات پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ ان دونوں حضرات نے دارِ ارقم میں ہی جاکر اسلام قبول کیاتھا۔
مؤرخین اسلام اور سیرت نگاروں کی مذکورہ بالا تصریحات سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے :
۱۔ رسول اللہﷺ یہاں آنے والے طالبانِ حق کو دعوتِ اسلام دیتے تھے اور جویہاں آیا فیض ہدایت پاکر ہی نکلا۔
۲۔ دارِ ارقم اہلِ اسلام کے لیے اطمینان قلب اور سکون کا مرکز تھا،بالخصوص نادار،ستائے ہوئے اور مجبور ومقہور اور غلام یہاں آکر پناہ لیتے تھے۔
۳۔ یہاں پر ذکر اللہ اور وعظ وتذکیر کا فریضہ بھی مسلسل انجام پاتا تھا ،رسول اللہﷺ اپنے جاں نثاروں کے ساتھ اجتماعی دعائیں بھی فرماتے تھے۔حضرت خبابؓ کے بیان سے تو یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ محسنِ انسانیت یہاں راتوں کو بھی بندگانِ خداکی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور التجائیں فرماتے تھے۔
۴۔ اس مکان میں مبلغینِ اسلام کی کارکردگی کاجائزہ لیاجاتا تھا ،تبلیغ کے آئندہ منصوبے بنتے تھے اور خود مبلغین کی تربیت کا کٹھن کام بھی انجام پاتا تھا۔ دارِارقم کے تربیت یافتہ معلمین میں سے حضرت ابوبکرؓ،خبابؓ بن الارت،عبداللہؓ بن مسعودؓ اور مصعبؓ بن عمیرخاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
۵۔ دارِ ارقم مسلمانوں کے لیے دارالاسلام ہونے کے ساتھ ساتھ’’دارالشوریٰ‘‘بھی تھاجس میں باہمی مشاورت سے آئندہ تبلیغ کے منصوبے بنتے تھے۔ ہجرت حبشہ کا فیصلہ بھی باہمی مشورہ سے یہیں پر طے ہوا،اور اس جگہ کو تاریخ اسلام میں وہی مقام حاصل تھا جو قریش کے ہاں دارالندوہ کو حاصل تھا۔
۶۔ دارِ ارقم میں رسول اللہﷺ کا پناہ گزین ہونا ایک تاریخ ساز مرحلہ تھا اور یہ بھی حلف الفضول ،حرب الفجار اور عام الفیل جیسا مہتم با لشان واقعہ تھا۔ جس طرح کفار مکہ اپنی معاصر تاریخ کا تعین ان واقعات سے کرتے تھے، اسی طرح مسلمان مؤرخین بھی مکی عہد نبوت میں پیش آنے والے واقعات کا تعین دارِ ارقم میں رسول اللہﷺ کے داخل ہونے سے قبل اور بعد کے حوالے سے کرتے ہیں۔
۷۔ حضرت ارقمؓ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بہت ابتدا ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا اس لیے بہت ممکن ہے کہ انہوں نے بہت ابتدا ہی میں اپنے مکان کو تبلیغی سرگرمیوں کے لیے وقف کردیا ہواور آپﷺابتدائی سالوں میں ہی دارارقم کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کامرکز بناچکے ہوں۔
۸۔ مؤرخین کے مختلف بیانات کی روشنی میں کہاجاسکتا ہے کہ دارارقم میں رسول اللہﷺ کے قیام کی مدت ایک سال سے بہرحال زائد تھی۔
۹۔ کفار مکہ مسلمانوں کے دارِ ارقم میں پناہ گزین ہونے سے پوری طرح واقف تھے۔ * تاہم دارارقم کی اندرونی سرگرمیوں اور منصوبہ بندیوں سے وہ قطعاًناواقف تھے۔
شعبِ ابی طالب
کفارمکہ کویہ خوش فہمی تھی کہ وہ اپنے وحشیانہ جبر وتشدد سے اسلام کی اس تحریک کوموت کی نیند سلادیں گے، لیکن جب ان کی تمام مساعی اور تدبیروں کے باوجود اسلام کا دائرہ پھیلتا ہی چلا گیا اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت حمزہؓ اور عمرؓ جیسے لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا اور نجاشی کے دربار میں بھی ان کے سفیروں کو ذلت آمیز ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو اس چوٹ نے کفارِ مکہ کو مزید حواس باختہ کردیا، چنانچہ ان لوگوں نے طویل غوروخوض کے بعد متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ رسول اللہﷺ اور ان کے خاندان کو محصور کرکے تباہ کردیاجائے، چنانچہ تمام قبائل نے ایک معاہدہ کیاکہ کوئی شخص خاندانِ بنی ہاشم سے قربت کرے گانہ ان کے ہاتھ خریدوفروخت کرے گااورنہ ہی ان کے پاس کھانے پینے کا سامان جانے دے گا۔یہ معاہدہ لکھ کر کعبۃ اللہ کے دروازے پر آویزاں کردیاگیا۔(۲۹)
حضرت ابوطالب مجبو ر ہوکر رسول اللہ ﷺ اور تمام خاندانِ بنی ہاشم سمیت شعبِ ابی طالب میں محرم۷ نبوی میں محصور ہوگئے۔رسو ل اللہ ﷺ نے اپنے خاندان سمیت اس حصار میں تین سال بسر کیے۔ایام حج میں چونکہ تمام لوگوں کو امن تھا اس لیے حج کے موسم میں رسول اللہ ﷺ شعبِ ابی طالب سے باہر نکل کر مختلف قبائل عرب کو دعوت دیتے جبکہ باقی اوقات میں آپ ﷺ اسی گھاٹی میں مسلمانوں کی تربیت فرماتے۔شعبِ ابی طالب میں خاندانِ بنی ہاشم کے علاوہ صحابہ کرامؓ کی موجودگی کے اشارات بھی ملتے ہیں۔امام سُہَیْلِی نے سعد بن ابی وقاصؓ کا بیان نقل کیا ہے جوؓ خود بھی محصورین میں شامل تھے۔ وہ فرماتے ہیں:
لقد جعت حتی انی وطئت ذات لیلۃ علی شئ رطب ووضعتہ فی فمی وبلعتہ وما ادری ما ھو الی الان۔ (۳۰)
’’میں ایک دن از حد بھوکا تھا۔ رات کو اندھیرے میں میرا پاؤں کسی گیلی چیز پر آگیا میں نے اسے اٹھا کر منہ میں ڈالا اور نگل لیا۔مجھے اتنی ہوش بھی نہ تھی کہ میں پتہ کرتا کہ وہ کیا چیز ہے اور اب تک مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں‘‘۔
اسی طرح حضرت عتبہ بن غزوانؓ نے ایک دفعہ خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:
فلقد رأیتنی سابع سبعۃ مع رسول اللّٰہ ﷺ مالنا طعام نأکلہ الا ورق الشجر،حتی قرحت أشداقنا۔ (۳۱)
’’میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتواں مسلمان تھااور ہمارے پاس کھانے کے لیے درختوں کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا،حتیٰ کہ ہماری باچھیں زخمی ہوگئیں‘‘۔
یہ اور اسی نوعیت کی وہ تمام حدیثیں جن میں صحابہؓ کی زبان سے مذکورہے کہ ہم گھاس اور پتیاں کھاکر گزر بسر کرتے تھے، یہ اسی زمانہ کا واقعہ ہے ۔ اس نوع کی احادیث سے جہاں محصوری کے اس دور میں صحابہ کراأؓ کی مشکلات کا پتہ چلتاہے، وہاں شعبِ ابی طالب میں صحابہ کرامؓ کی موجودگی کا بھی واضح طور پر اشارہ ملتا ہے۔محصوری کے اس دور میں جس قدر وحی نازل ہوئی، یقیناًشعبِ ابی طالب میں رسول اللہ ﷺنے صحابہ کرامؓ کو اس کی تعلیم دی ہوگی اور یہاں صحابہ کرامؓ بھی دینی امور پر تبادلۂ خیال کرتے ہوں گے ۔اس لحاظ سے شعبِ ابی طالب کو بھی مکی عہد نبوت کا ایک دعوتی مرکز قرار دیا جاسکتا ہے جہاں رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ عرصہ تین سال تک تعلیم وتعلم اور دعوت وتبلیغ میں مشغول رہے۔
حواشی
(*۱) حضرت ارقمؓ کا تعلق قبیلہ بنو مخزوم سے تھا ۔کنیت ابو عبداللہؓ اور سلسلۂ نسب اس طرح ہے: ارقمؓ بن (ابی الارقم)عبد مناف بن (ابی جندب)اسد بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم ( الاستیعاب ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم،۱/۱۳۱)
حضرت ارقمؓ کی والدہ ،کا نام تماضر بنت خدیم تھا جو قبیلہ بنو سہم بن عمرو بن ہصیص سے تعلق رکھتی تھیں۔( ایضاً، اسد الغابہ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم،۱/۶۰،المستدرک، تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم،۳/۵۰۲)
حضرت ارقمؓ کا قبیلہ بنو مخزوم قریش مکہ کے سرکردہ اوربااثر قبائل میں سرفہرست تھا اس قبیلے کے جد امجد مخزوم بن یقظہ کاسلسلہ نسب تیسری پشت میں رسول اللہ ﷺ کے سلسلہ نسب سے جاملتاہے۔یقظہ مرہ بن کعب کا بیٹا تھا اور سرتاجِ قریش قصی (جو ہاشم بن عبد مناف کا باپ تھا)کاباپ کلاب بن مرہ بن کعب کا ہی بیٹا تھا۔(ابن حزم،ابومحمد علی احمد بن سعید،’’جمہرۃ انساب العرب‘‘،ص:۱۴۱،دارالمعارف،قاہرہ)
رسول اللہ ﷺ کے والد گرامی عبداللہ بن عبدالمطلب کی والدہ ماجدہ فاطمہ (بنت عمرو بن عائذبن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ)کا تعلق بھی بنو مخزوم ہی سے تھا۔( جمہرۃ الانساب،ص:۱۴۱،۱۵)
حضرت ارقمؓ امیر معاویہؓ کے عہد حکومت میں ۵۵ھ اور ایک روایت کے مطابق ۵۳ھ میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اس وقت ان کی عمر تراسی یا پچاسی برس تھی۔آپ کی وصیت کے مطابق سعدؓ بن ابی وقاص نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔(اسد الغابہ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم، ۱/۶۰)
امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری کا قول ہے:وکان الارقم من آخر اہل بدر وفاۃ ’’حضرت ارقم ؓ بدری صحابہ میں سے سب سے آخر میں فوت ہوئے‘‘۔( المستدرک ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی االارقم،۳/۵۰۲)
حضرت ارقمؓ نے وقف علی الاولاد کے طور پر اپنے گھر کو فی سبیل اللہ وقف کردیا تھا ۔حضرت ارقمؓنے اپنے گھر کو وقف فی سبیل قرار دینے سے متعلق جو نوشتہ تحریر کیا تھا امام حاکم نے وہ عبارت نقل کی ہے وہ عبارت یہ تھی۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ ھٰذا ما قضٰی الارقمؓ فی ربعۃ ما حاز الصفا انھا صدقۃ بمکانھا من الحرم لا تباع ولا تورث شھد ہشام بن العاص ومولیٰ ہشام بن العاص۔
’’یہ وہ فیصلہ ہے جو ار قم ؓ نے اپنی حویلی کے متعلق دیا جو کہ کوہ صفا کے ساتھ واقع ہے ۔حرم پاک کے قریب ہونے کے باعث یہ حویلی مثل حرم محترم قرار دی جاتی ہے ۔نہ یہ فروخت ہو گی نہ وراثت میں دی جائے گی۔اس پر ہشام بن عاص اور مولیٰ ہشام بن عاص گواہ ہیں ۔‘‘(المستدرک،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم،۳/۵۰۳)
(*۲) لفظ ’’دار‘‘عموماً بڑے گھروں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔’’بیت ‘‘یا’’منزل‘‘بھی اگرچہ عربی الفاظ ہیں مگر ان کی حیثیت ’’دار‘‘سے کم تر ہے۔دار سے مراد ایسا مکان یا رہائش گا ہ ہے جس کی چار دیواری بالکل محفوظ ہو۔جس میں خواب گاہیں،صحن اور کمرے ہوں۔(تاج العروس،فصل الباء من باب التاء،۱/۵۲۹)
ابن منظور نے ’’لسان العرب‘‘میں ابن جنی کا قول نقل کیا ہے کہ جہاں لوگ محفوظ اور آزادانہ گزر بسر کرسکتے ہوں،اسے ’’دار‘‘ کہتے ہیں۔ (ابنِ منظور، جمال الدین محمد بن مکرم ،’’لسان العرب‘‘،دار،۴/۲۹۸ ،نشر ادب الحوزہ،قم،ایران، ۱۴۰۵ھ)
(*۳) پیر محمد کرم شاہ الازہری نے بڑے مضبوط دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حضرت حمزہؓ نبوت کے دوسرے ہی سال مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے۔ملاحظہ ہو، محمد کرم شاہ الازہری،پیر،’’ ضیاء النبی‘‘ ، ۲/۲۵۶۔۲۵۸،ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۰۰ء
* تمام رؤساء قریش رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کی جائے پناہ سے واقف تھے ۔اسی لیے جب حضرت عمرؓ رسول اللہ ﷺ ارادۂ قتل سے نکلے تو وہ سیدھے دارارقم کی طرف ہی جارہے تھے، البتہ بعد میں رخ تبدیل کر کے اپنی بہن کے ہاں چلے گئے ۔ (ابن ہشام ، اسلام عمر بن الخطابؓ ، ۱/۳۸۱) اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی ابو جہل کے ساتھ مڈبھیڑکا مشہور واقعہ ، جس کے نتیجہ میں حضرت حمزہؓ نے اسلام قبول کیا ، بھی کوہ صفا یعنی دار ارقم کے بالکل قریب ہی پیش آیا تھا ۔یقیناابوجہل آپ ﷺ کی قیام گاہ سے بھی واقف ہو گا۔ (ایضاً ،اسلام حمزہؓ ،۱/۳۲۸) ویسے بھی مکہ جیسے کم آبادی والے شہر میں تیس چالیس افراد کا کسی جگہ آتے جاتے رہنا ایسی بات نہ تھی جو اہل مکہ سے پوشیدہ رہ سکتی۔
حوالہ جات
(۱) صحیح البخاری،کتاب الکفالۃ،باب جوار ابی بکر الصدیقؓ فی عہد النبیﷺ وعقدہ ،ح:۲۲۹۷،ص:۳۶۷۔ ایضاً،کتاب الصلوٰۃ،باب المسجد فی الطریق.ح:۴۷۶، ایضاً، کتاب مناقب الانصار،باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ، ح:۳۹۰۵،
(۲) ابنِ ہشام،دخول ابی بکرؓ فی جوار ابن الدغنہ ورد جوارہ علیہ،۱/۴۱۱
(۳) ابنِ ہشام،اسلام عمر بن الخطابؓ۱/۳۸۲
(۴) السیرۃ الحلبیۃ،۲/۱۳
(۵) السمہودی،نورالدین علی بن احمد،’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ ،۲/۱۳،دارالنفائس،الریاض،
(۶) المستدرک،تذکرہ ارقم بن ابی الارقم،۳/۵۰۲
(۷) اسد الغابہ ، تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم ، ۱/ ۶۰
(۸) المستدرک ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم ،۳/۵۰۲
(۹) ابن سعد ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم،۳/۲۴۳
(۱۰) ابن ہشام ، مباداۃ رسول اللہﷺقومہ،وماکان منھم،۱/۲۶۳
(۱۱) ابن سعد ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم ۳/۲۴۲۔ المستدرک،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم،۳/۵۰۲
(۱۲) الطبری،محمد بن جریر،’’تاریخ الامم و الملوک‘‘ ،۳/۲۳۰،المطبعۃ الحسینیۃ،
(۱۳) ابنِ عبدالبر،’’الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب‘‘، تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم ، ۱/۱۳۱،دارالجلیل،بیروت،۱۹۹۲ء
(۱۴) اسد الغابہ ، تذکرہ عمار بن یاسرؓ ، ۴/ ۴۴
(۱۵) ابن ہشام ، اسلام عمر بن الخطابؓ ، ۱/۳۸۳۔ الکامل فی التاریخ ، ۲/ ۵۸
(۱۶) ابن ہشام ،ذکر الحجرۃالاولی الی ارض الحبشہ ، ۱/۳۵۸
(۱۷) ایضاً، اول من جہر بالقرآن ، ۱/۳۵۱
(۱۸) تفصیل کے لیے ’’اسد الغابہ‘‘ میں ان صحابہ کرامؓ کے تراجم ملاحظہ کیجئے ۔
(۱۹) ابن سعد ، ۳/۱۱۵، ۲۷۳،۴۲۵
(۲۰) حلےۃ الاولیاء ، ۱/۹۲ا۔۱۹۵
(۲۱) الکامل فی التاریخ ، ۲/۵۸
(۲۲) زادا لمعاد ، ۲/۱۰۰۔تاریخ الامم والملوک ، ۱/۹۵
(۲۳) اسد الغابہ ، تذکرہ عمار بن یاسرؓ ، ۴/۴۴
(۲۴) ایضاً
(۲۵) ایضاً
(۲۶) الاصابہ ، تذکرہ حمزہؓ بن عبدالمطلب ، ۱/ ۳۵۴
(۲۷) اسد الغابہ ، تذکرہ حمزہؓ بن عبدالمطلب ، ۲/۴۶
(۲۸) ابنِ حجر،ابوالحسن ،احمد بن علی’’فتح الباری‘‘ کتاب فضائل الصحابہ ، مناقب عمربن الخطابؓ ، ۷/۴۸،دارالمعرفۃ،بیروت
(۲۹) ابن ہشام ، خبر الصحیفۃ ، ۱/۳۸۸
(۳۰) الروض الانف ، حدیث نقض الصحیفۃ ، ۱/۲۳۲ ۔ حلیۃ الاولیاء،تذکرہ سعدؓ بن ابی وقاص ،۱/۱۳۵-۱۳۶
(۳۱) المسند، حدیث عتبہؓ بن غزوان ، ح:۲۰۰۸۶، ۶/۵۲۔ الاستیعاب ، تذکرہ عتبہؓ بن غزوان ، ۳/۱۰۲۶۔ حلیۃ الاولیاء،تذکرہ سعدؓ بن ابی وقاص،۱/۱۳۶