ڈاکٹر عبد الخالق کا مکتوب

ڈاکٹر عبد الخالق

محترم و مکرمی مولانا زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی

آپ سے تعارف خاصا پرانا ہے۔ آپ کی تحریر اور تقریر کی صلاحیت کا معترف بھی ہوں اور مداح بھی۔ ندائے خلافت کے تازہ شمارہ نمبر ۱ مؤرخہ ۸ جنوری ۲۰۰۳ء  میں آپ کے مضمون ’’قصور وار کون؟‘‘ نے اتنا متاثر کیا کہ آپ سے تحریری رابطہ کرنے پر مجبور ہوگیا۔ حالانکہ میں تحریر کا کافی ’’چور‘‘ واقع ہوا ہوں۔ ٹیلی فون پریا بالمشافہ ملاقات مجھے آسان محسوس ہوتی‘ بہ نسبت تحریر کے۔ 

مولانا ! آپ نے آج کے جدید علوم کے علمبردار طبقہ کو بہت ہی مدلل اور مؤثر جواب دیا ہے اور باوجود اس کے کہ میں نہ عالم دین ہوں اور نہ کسی روایتی مدرسے سے تعلیم یافتہ بلکہ علم کے نام پر زیادہ تر ان ’’نام نہاد جدید تعلیمی اداروں‘‘ ہی سے استفادہ کیا ہے جن پر آپ نے تنقیدکی ہے، اس کے باوجود مجھے آپ کی تحریر پسند آئی ہے۔

لیکن مولانا ! آپ سے کچھ ’’آپس کی بات‘‘ کرنے کو بھی دل چاہتا ہے۔

میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ آپ کی یہ تحریر جدید علوم کے علمبردار طبقے پر ’’ایک الزامی جواب‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسے بقول علامہ اقبال ؂ 

کہا اقبال نے شیخ حرم سے تہہ محراب مسجد سو گیا کون؟

ندا مسجد کی دیواروں سے آئی فرنگی بت کدے میں کھو گیا کون؟

یہ بات درست ہے کہ جدید علوم کے نام پر اتنے وسائل خرچ کرنے (جن میں سب سے زیادہ حکومتی وسائل ہی خرچ ہوتے ہیں) کے باوجود ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں اتنے پیچھے کیوں ہیں؟ اور آپ نے اس پر جدید علوم کے علمبرداروں اور مسلمان حکومتوں اور مسلمان حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور اس کے مقابلے میں دینی علوم کے علمبرداروں نے باوجود وسائل کی کمی اور نا مساعد حالات کے قرآن و حدیث کے علم کا سلسلہ جاری رکھا اور آج نہ کسی خطیب کی کمی ہے اور نہ حافظ قرآن کی۔

مولانا ! آپ نے جدید ٹیکنالوجی میں مہارت کے مقابلے میں عام دینی تعلیم کا حوالہ دے دیا۔ جدید تعلیم میں مہارت کے مقابلے میں تو دینی علوم میں مہارت کی مثال پیش کی جانی چاہیے تھی۔ جہاں تک عام مروجہ تعلیم کا تعلق ہے، اس کے ذریعے مروجہ حکومتی نظام چلانے والے کارندوں کی ضرورت ہے جو بحسن و خوبی پوری ہو رہی ہے۔ جہاں تک عام ٹیکنیکل علم و مہارت کا تعلق ہے، اس میں تو کہیں کوئی کمی نہیں ہے۔ ہاں البتہ جہاں تک جدید ٹیکنالوجی اور اس میں تحقیق اور ایجادات اور اس میں مہارت کا تعلق ہے، قریباً تمام ہی مسلمان ممالک اس میں ’’پھسڈی‘‘ ہیں۔ صرف ایک استثنا ہے کہ پاکستان نے کم از کم ایٹمی ٹیکنالوجی میں تو وہ ترقی کی ہے جس کا اعتراف ہمارا دشمن اور مغرب بھی کرنے پر مجبور ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ مہارت بھی ہمیں اللہ تعالیٰ نے خالصتاً معجزانہ انداز میں عطا فرمادی ہے، بغیر کسی باقاعدہ منصوبہ بندی اور علم و تحقیق میں عمومی ترقی کے۔ اب آئیے دینی علم کی طرف۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام دینی علوم کی ترویج کا سلسلہ جاری رہا ہے لیکن جدید ٹیکنالوجی میں مہارت کے مقابلے میں دینی حلقوں نے کون سا کارنامہ سر انجام دیا ہے؟ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق دین کو کس نے اور کہاں پیش کیا ہے؟

بعض خود ساختہ شرائط کے ساتھ اجتہاد کا دروازہ ہم نے بند کر رکھا ہے۔ طبقہ علما میں کوئی ایسی قیادت ابھر کر آئی ہے جس نے واقعتا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا ہو؟ پوری امت مسلمہ ’’ایک امام‘‘ سے محروم ہے۔ بلکہ برا نہ مانیے، اس عام دینی علم نے جہاں خطیب اور حافظ فراہم کیے ہیں، وہیں بدترین قسم کی فرقہ بندی اور فرقہ پرستی بھی اسی طبقے سے ابھری ہے اور دین کے غلط تصورات کو بنیاد بنا کر تخریب کاری اور دہشت گردی کی ترویج کا باعث بھی یہی طبقہ بنا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ تمام طبقات ایسے نہیں ہیں لیکن جو ہیں، ان کا بھی تعلق تو اسی طبقے سے ہے نا۔ 

میں تو محسوس کرتا ہوں کہ 

ہم الزام ان کو دیتے ہیں قصور اپنا نکل آیا

۵۶ کے قریب مسلمان ملکوں میں کہیں بھی طبقہ علما نے دین کو بطور نظام زندگی برپا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ دور جدید میں اسلامی فلاحی ریاست کے قیام‘ کہ جس کے ذریعے ہم اسلام کے زریں اصولوں اخوت و مساوات اور عدل و قسط کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرتے‘ میں ہم ناکام رہے ہیں۔ (ایران میں اسلامی نظام کے نام پر جو کچھ ہوا، اس میں معاشرتی سطح پر تو تبدیلی آئی لیکن معاشی سطح پر سود اور جاگیرداری نظام جاری ہے اور سیاسی سطح پر قرآن و سنت کی بجائے ’’رہبر‘‘ کی بالادستی کا طوق بھی موجود ہے۔ گویا فلاحی ریاست کا تصور وہاں بھی عنقا ہے۔) بلکہ افسوس تو یہ ہے کہ اس کی اہمیت کا احساس بھی ہمارے طبقہ علما کے بیشتر حصے میں موجود نہیں ہے۔ الا ما شاء اللہ۔ اگر ہم اپنے معاملات میں خود مختار ہوتے تو یہ جدید ٹیکنالوجی بھی ہمارے ہاتھ میں ہوتی اور اسے ہم اپنی مرضی سے استعمال کرتے۔ کجا یہ کہ ہم خود اغیار کے زیر تسلط ہیں۔ کرنے کا اصل کام تو دینی حلقوں نے بھی نہیں کیا۔ 

بری الذمہ کوئی بھی نہیں ! ہم سب ’’قصور وار‘‘ ہیں۔

والسلام،  ڈاکٹر عبد الخالق 

ناظم نشر و اشاعت تنظیم اسلامی

۹ جنوری ۲۰۰۳ء


مکاتیب

(فروری ۲۰۰۳ء)

فروری ۲۰۰۳ء

جلد ۱۴ ۔ شمارہ ۲

پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مکی عہد نبوت کے اہم دعوتی وتبلیغی مراکز
پروفیسر محمد اکرم ورک

مسلم امہ کو درپیش فکری مسائل
ڈاکٹر محمد امین

ڈاکٹر شیر محمد زمان کا مکتوب
ڈاکٹر ایس ایم زمان

ڈاکٹر عبد الخالق کا مکتوب
ڈاکٹر عبد الخالق

گلوبلائزیشن: چند اہم پہلو
پروفیسر میاں انعام الرحمن

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تلاش

Flag Counter