مکرم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب دام لطفکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الشریعہ (شمارہ نومبر ۲۰۰۲ء) کے صفحہ ۷ پر چوکھٹے میں ڈاکٹر کریمر کا ایک اقتباس دیا گیا ہے جس کا ماقبل اور ما بعد کے مضامین سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ آپ سے محبت اور نیاز کا جو رشتہ ہے، اس کے پیش نظر خیال ہوا کہ اس اقتباس پر مبسوط تبصرہ اس وقت ممکن تو نہیں تو کم از کم اپنے فوری رد عمل کا نہایت اختصار سے اظہار کردوں۔ اقتباس کو دیکھنے کے بعد قارئین کے ذہن میں تصوف کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے حالانکہ اطراف و اکناف عالم میں ابلاغ واشاعت اسلام میں صوفیا کا کردار ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ اسلامی علوم و فنون میں کوئی علم یا فن رطب و یابس سے خالی نہیں حتیٰ کہ حدیث و تفسیر میں بھی صواب و ناصواب کی آمیزش ہوگئی ہے۔ تفسیری ادب میں غیر اسلامی افکار در آئے ہیں تو حدیث میں وضع حدیث کے فتنے نے فساد پیدا کیا ہے اور محدثین کرام کو ’’موضوعات‘‘ پر مستقل کتابیں تالیف کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ظاہر ہے کہ تصوف کا وسیع ادب بھی اس سے مبرا نہیں۔ مگر تصوف کے بارے میں بلا سیاق و سباق ایک ایسا اقتباس نقل کرنے کو جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ایک عیسائی فاضل تصوف کو عیسائی مبلغین کی کامیابی کا ایک ذریعہ تصور کرتا ہے‘ تصوف کے بارے میں ایک منفی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
تصوف میں مرور قرون کے ساتھ اور مختلف بلاد و اقالیم کے مقامی اثرات کے تحت بعض غیر اسلامی عناصر بھی داخل ہوتے رہے مگر اس سے صوفیا کے عظیم و تقدس مآب گروہ کی خدمات پر کوئی حرف نہیں آتا۔ علما و اکابر دیوبند کی عظیم شخصیتوں میں بھی تصوف ان کی سیرت کا شاندار اور تابناک پہلو رہا ہے۔
ناچیز کی ناقص رائے میں اس اقتباس کے ساتھ ادارہ الشریعہ کی طرف سے مختصر مگر شافی تبصرہ کسی بھی منفی تاثر کو زائل کرنے کے لیے مناسب ہوتا۔ تلافی مافات کسی آئندہ شمارے میں بھی ممکن ہے۔ الشریعہ کا بلند علمی معیار اس کا مقتضی ہے۔ شاید اس بارے میں آپ زیادہ احتیاط مناسب خیال فرمائیں۔
تحیات و تمنیات صالحہ کے ساتھ ۔
والسلام ، نیاز کیش ‘ ایس ایم زمان