جذبات سے مغلوبیت
تحریک اسلامی جس طرح کے بگاڑ کا شکار ہو رہی ہے‘ اس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ عقلی اور علمی پہلو پر جذبات کی دھندچھا رہی ہے۔ تحریک کی راہوں میں بلاشبہ جذبات کا ایک رول ضرور ہے۔ اس حد تک جذبات کی اہمیت سے انکار نہیں۔ جذبات وکیفیات قلبی کی لطیف لہروں کو یکسر مسدود کر دینا مقصود نہیں ہے اور نہ یہ منشاہے کہ عقل کو اتنا غلبہ حاصل ہو جائے کہ تحریک اسلامی عقلیت کے تابع ہو کر رہ جائے۔ یہ چیز نہ صرف تحریک کے مزاج کے خلاف ہے بلکہ اسلام کے مزاج سے بھی اس کو کوئی مطابقت نہیں۔ اسلام عقل کا احترام سکھاتا ہے اور فکر ونظر کو کام میں لانے کی دعوت دیتا ہے لیکن یہ کوئی مجرد جامد عقلی ومنطقی فلسفہ نہیں ہے جس میں جذبات انسانی کا سرے سے کوئی گزر ہی نہ ہوتا ہو۔ اس کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جذبات وواردات کے عمل دخل سے انکار ممکن نہیں ہے۔ یہ جذبات اپنے مقام پر بڑی قدر وقیمت کے حامل ہیں۔ اللہ کے لیے محبت‘ اللہ کے لیے نفرت‘ خدا کی نعمتوں اور فراغت کو پا کر فرحت وطمانیت‘ نیکی پر مسرت کی کلیوں کاکھلنا‘ معصیت کے ارتکاب پر حزن کی کیفیت پیدا ہونا‘ اللہ کا خوف دلوں میں بیٹھنا اور اس سے امید بھرا ایک تعلق قائم کرنا‘ سب ایسے نفسیاتی احوال ہیں جن کی اہمیت مسلم ہے۔ اہل تصوف نے تو ان جذبات وکیفیات پر اپنی کتابوں میں پورے پورے باب باندھے ہیں۔ اس کی واضح مثالیں ہرویؒ کی ’’منازل السائرین‘‘ اور ابن قیمؒ کی طرف سے اس کی شرح ’’مدارج السالکین‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح کی اور بھی کئی کتب ہیں۔
اس حد تک جذبات کی ہواؤں سے نہ ناپسندیدگی ہے اور نہ ان کے وجود کے حوالے سے کوئی اختلاف اور جھگڑا۔ اسلام انسانی عقل اور قلب کو بیک وقت مخاطب بناتا ہے۔ اسی بنا پر اسلام نے ان لوگوں کو لائق مذمت ٹھہرایا ہے جو عقل وفہم کو استعمال نہیں کرتے۔ ساتھ ہی ان لوگوں کی مذمت بھی آئی ہے جن کے دل اللہ کے ذکر اور پیغام سے نرم نہیں پڑتے۔ چنانچہ عقل وجذبات کو بیک وقت کام میں لانا ضروری ہے۔ یہ متفق علیہ حدیث یہی حقیقت ہمیں سمجھاتی ہے: ’’جس شخص میں تین چیزیں پائی جائیں‘ اس نے حقیقت میں ایمان کی حلاوت کا مزا چکھ لیا۔ یہ کہ اللہ اور رسول سے بڑھ کر اس کے لیے کوئی محبوب نہ ہو۔ اس کی محبت اور نفرت خالص اللہ کے لیے ہو۔ اسلام سے دوبارہ کفر کی طرف پلٹ کر جانا اس کے لیے ایسے ہی ناگوار ہو جیسے اسے اپنا آگ میں جلایا جانا ناگوار ہے۔‘‘
تحریک اسلامی کے مزاج میں ایمانی کیفیات‘ شعور ووجدان کا جہاں لحاظ موجود ہے‘ وہیں پر جذبات کے شعلوں کی لپک کے لیے گنجائش بھی ہے۔ تحریک کے لیے ضروری ہے کہ عقل کی روشنی میں جہد وعمل کا اہتمام بھی کرے اور محبت‘ اخوت اور ایثار جیسے جذبوں کے سوتوں کو بھی خشک نہ ہونے دے۔
اسلامی جماعت اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں ہے۔ اس میں فہم وفکر کی ہم آہنگی بھی ہونی چاہیے‘ تنظیمی وحدت بھی قائم رہنی چاہیے اور ساتھ ساتھ جذباتی رشتے بھی مستحکم رہنے چاہییں۔ قلوب کی تالیف ہوتی رہے۔ دل اللہ کی محبت کی رسی سے باہم جڑے رہیں۔ وہ کیفیت پیدا ہو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ پر بطور احسان بیان فرمایا ہے:
ھو الذی ایدک بنصرہ وبالمومنین والف بین قلوبہم لو انفقت ما فی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبہم ولکن اللہ الف بینہم انہ عزیز حکیم (الانفال ۶۲‘ ۶۳)
اور وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمہاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے۔ مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑ دیے۔ یقیناًوہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔
امام حسن البناؒ ہر منگل کو اپنے ہفتہ وار خطبوں اور تقریروں میں اس امر کی شدید خواہش اور کوشش کرتے تھے کہ دلوں کو ایمان ومحبت کے ذریعے سے ہمیشہ کی تازگی اور زندگی بخشی جائے۔ اسی بنا پر انہوں نے ارکان بیعت کے لیے ’’اخوت‘‘ کو علامت تعلق بنایا اور جماعت کا نام ’’الاخوان المسلمون‘‘ رکھا۔ امام اپنے پر اثر ارشادات میں بتاتے تھے‘ ’’ہماری دعوت کی تین بنیادیں ہیں: فہم دقیق‘ ایمان عمیق اور حب وثیق۔‘‘
ان ساری گزارشات کی غرض یہ بتانا تھا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تحریک اسلامی کے اندر عواطف وجذبات کا یہ مقام اور اہمیت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ تحریک کے اندر جذبات کی کارفرمائی بڑھ گئی ہے تو درحقیقت ہماری اس سے مراد کیا ہے؟ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ تحریک اسلامی میں جملہ حالات وتعلقات‘ فکر وعمل‘ افعال واقوال‘ آرا وموقف‘ شخصیات اور اجتماعی ہیئت میں انفعالیت اور جذبات سے مغلوبیت کا حصہ عقل کے استعمال سے زیادہ ہے۔ غلبہ جذبات کے رجحان کے سلسلے میں متعدد دلائل ومظاہر موجود ہیں اور ان کے اثر سے منفی نتائج کی بھی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ہم ان میں سے تین سب سے بڑے مظاہر ونتائج کا ذکر کرتے ہیں:
(الف) ناکافی غور وخوض اور منصوبہ بندی
اسلام عقل وعلم کو پکارتا اور انہیں کام میں لانے کی دعوت دیتا ہے۔ جادۂ حق پر چلتے ہوئے معروف روایات کا لحاظ رکھنے کی تلقین اور بہت سی جگہوں پر احتیاط وپرہیز کی تاکید کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کل کا سامان اور مستقبل کے لیے تیاری کرو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک اسلامی میں اس نوعیت کا اہتمام کرنے کا رجحان کمزور ہے۔
میں نے ایک مرتبہ ایک بڑے داعی اسلام کے سامنے حالات وواقعات کے مطالعے اور اس کی روشنی میں منصوبہ بندی کی ضرورت کا اظہار کیا۔ جواب میں ان کا ارشاد تھا ’’کیا اللہ کی طرف بلانے اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم دینے کے لیے بھی کسی منصوبہ بندی اور نقشہ گری کی ضرورت ہے؟‘‘ اس کے مقابلے میں ذرا نبی ﷺ کا عمل دیکھیں۔ آپ نے مدینہ ہجرت کرکے آنے کے بعد اسلام کے نام لیواؤں کی سرشماری کا حکم دیا تھا۔ بخاری کی روایت ہے کہ آپ کے حکم کی تعمیل میں مردم شماری ہوئی اور مسلمانوں کی کل تعداد ڈیڑھ ہزار تھی۔ اس عمل سے جس حقیقت پر دلالت ہوتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ آپ افرادی قوت کی اہمیت کا احساس رکھتے تھے۔ آپ نے نام لیوان اسلام کی تعداد کا شمار اس لیے کرایا تاکہ ان کی قوت وقیمت اور احوال وپوزیشن سے ٹھیک ٹھیک واقفیت ہو جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ مطالعہ اور غور وفکر کو اسلام میں بھی واقعی اہمیت حاصل ہے اور تحریک اسلامی میں بھی اسی سے اپنی اور مخالفین کی قوت کا اندازہ ہو پاتا ہے۔ متعلقہ بیانات‘ ضروری معلومات اور ٹھوس حقائق کو جمع کر کے ان کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی صحیح نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں اور ایسا لائحہ عمل وضع ہو سکتا ہے جس کو اختیار کر کے نصب العین کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
تحریک سے نسبت رکھنے والے بعض لوگوں کو غور وخوض اور عمل کے لیے نقشہ سازی بڑی گراں گزرتی ہے۔ ہمارے ایک دوست کے نزدیک غور وفکر کے بعد عمل کے لیے راست راہوں کا تعین ایک ایسا فریب ہے جس کا مظاہرہ اکثر ماہرین اقتصادیات معاشی منصوبہ بندی میں نفع کے گوشوارے دکھا کر کرتے رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اصل اہمیت آغاز کار کی ہے۔ ہمیں کام شروع کر دینے کے بجائے ٹک کر چین سے بیٹھ نہیں جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا ناقص عمل پر بھی یقین ہے۔ کام ہونا چاہیے خواہ وہ نقص وخطا کے پہلو اپنے اندر رکھتا ہو۔ آج ہم ناقص عمل کر دکھائیں گے تو کل کوئی اللہ کا بندہ آکر اسے درست کر دے گا۔ نقص رفع اور خطا صحیح ہو جائے گی۔
ممکن ہے اس نقطہ نظر کو بھی کچھ سند جواز حاصل ہو اور کسی سطح پر اندھا دھند اور اضطراری عمل کے مثبت نتائج بھی نکل آتے ہوں لیکن اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ بے سوچے سمجھے اور غلط اعمال کی پیوند کاری اور ٹیڑھے میڑھے اور آنکھیں موند کر بنائے جانے والے منصوبوں کے ذریعے سے منزل تک پہنچنا صحیح اور گہری منصوبہ بندی کے مقابلے میں ہزار گنا دشوار ہے۔ بعد میں بڑے مخلص لوگوں کی تھکا دینے والی مساعی وجہد‘ راہوں کی کجی کو درست کرنے میں ہوتی رہتی ہے اور نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ غلط بنیادوں پر استوار ہونے والی جملہ مساعی غیر مشکور اور حوصلہ شکن ثابت ہوتی ہیں کیونکہ مساعی کی دیوار کی پہلی اینٹ ہی غلط رکھی گئی ہوتی ہے۔
زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے اور امتیاز وخصوصیت پیدا کرنے کے لیے بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ علمی‘ قانونی‘ سیاسی‘ اقتصادی‘ اجتماعی‘ ثقافتی‘ تربیتی‘ نشریاتی اور تنظیمی میدانوں میں ترقی کر کے دکھانا اور مہارت بہم پہنچانا جدید معاشرے میں اس لیے بھی ضروری ہے کہ عوامی ضروریات کی تکمیل اور تحریکی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ان میں سے کوئی شعبہ حیات بھی غیر اہم اور نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔ چنانچہ ترقی ومہارت اور تخصص وامتیاز کے لیے پلاننگ ناگزیر ہے۔ یہ کمپیوٹر‘ ایٹمی اسلحے‘ فضائی جنگوں‘ طب وریاضی میں زبردست ترقی کا دور ہے۔ دنیا ایجادات کے میدان میں بہت آگے جا چکی ہے۔ یہ گہرے غور وخوض اور منصوبے کا نتیجہ ہے۔ لکیر کا فقیر بنے رہنا‘ آپس میں غیر مفید چیزوں پر الجھتے رہنا اور بے نتیجہ ورد کرتے رہنا باعث ضیاع ہے۔ مختلف شعبہ ہائے حیات میں مہارت وتخصص شریعت کی نظر میں بھی امت مسلمہ پر واجب ہے۔ ایک میدان میں اپنی ساری قوتیں اور توانائیاں کھپا دینا اور دوسرے شعبوں سے غافل رہنا کسی طور پر بھی روا نہیں ہے۔
اسلام میں جہاد کی منزلت واہمیت کا کون اندازہ کر سکتا ہے؟ اس کے باوجود نبی ﷺ کے عہد میں تمام مسلمانوں کے یک بارگی جہاد پر نکل جانے کو بھی ایک موقع پر قرآن نے خامی بتایا ہے کیونکہ اس وجہ سے مسلمان ایک دوسرے میدان سے غافل ہو گئے تھے جو اہمیت کے اعتبار سے کچھ کم نہیں۔ یعنی دین کے فہم کے سلسلے میں ان کی توجہ وطلب جہاد میں شرکت کے مقابلے میں کم ہو گئی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وماکان المومنون لینفروا کافۃ فلولا نفر من کل فرقۃ منہم طائفۃ لیتفقہوا فی الدین ولینذروا قومہم اذا رجعوا (التوبہ ۱۲۲)
اور کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے۔ تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تا کہ وہ پرہیز کرتے۔
ذرا غور کریں ہمارے کام اٹکل پچو اور ہمارے تیر بے ہدف کے چل رہے ہیں، جبکہ معاندین اسلام اور مخالفین تحریک اسلامی ٹھوس پلاننگ کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری جدوجہد کا پھل ان کی جھولی میں پڑتا ہے۔ پھل پکنے اور توڑنے کے وقت ہم بے خبر ہوتے ہیں کیونکہ منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث ہمیں پھل پکنے کے موسم ہی کی خبر نہیں ہوتی۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ استعمار غرب کے خلاف آزادی کی تحریکوں میں یا کسی باطل قوت کے خلاف عوامی احتجاج کی لہر اٹھتے وقت ان تحریکوں کے لیے قوت محرکہ اسلام ہی بنتا رہاہے، عوامی جذبات کا سرچشمہ وابستگی اسلام ہی ثابت ہوتا رہا لیکن اسلام کے نام پر جو کھیتی بوئی گئی اور جو پودے لگائے گئے، انہیں کاٹا اور ان کی باغ بانی کا کام آگے چل کر سنبھالا تو ان اسلام دشمن، مکار اور کینہ پرور عناصر نے جو چپکے سے ہماری صفوں میں گھس آئے تھے؟ ایسے عناصر ان تحریکوں میں مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہو کر اس تاک میں لگ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں پھاڑا اور لڑا دیا جائے ، آگے بڑھ کر جدوجہد کی قیادت سنبھال لی جائے اور عظیم کوششوں کا پکا ہوا پھل اپنے دامن میں سمیٹ لیا جائے۔ یہ ہماری بے تدبیری، معاملہ نافہمی اور بے فکری ولا پروائی ہی کے باعث ہوتا ہے کہ اسلام دشمن اور فریب کار لوگ ہمارے کندھوں پر سوار ہو کر اور ہمارے نعروں کی گونج میں ہیرو بن بیٹھتے ہیں، لوگ اپنا تن من دھن ان کے سپرد کر دیتے ہیں اور وہ نام نہاد ہیرو اطمینان کے ساتھ فتح وکام رانی کا ثمرہ پا لیتے ہیں۔ کتنوں کو دیکھا گیا کہ اسلام کا محض لبادہ اوڑھ لیتے ہیں، ان کی زبانوں پر اسلام، اسلام کا ورد جاری ہو جاتا ہے، دل کے اس خلاف سوچ رہے ہوتے ہیں۔ اسلام عملاً ان کی زندگی سے کوئی میل نہیں کھاتا۔ اپنی لچھے دار تقریروں اور دجالانہ تدبیروں کے باعث وہ مسلم عوام کو دھوکہ دینے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ جب اقتدار کا منصب اور ہیرو کا مرتبہ پا لیتے ہیں تو اسلام والا نقاب اتار پھینکتے اور اپنے حقیقی روپ میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔
کمال اتاترک کو لیجیے۔ اسلام کے جھنڈے کے تحت، اسلام ہی کے نام پر، اس نے ترک عوام کی قیادت سنبھالی۔ عوام نے اپنی جانیں اور مال بخوشی اس کو سونپ دیے، اس کی عظمت کے نعرے لگائے، خوب خوب تعریف وستائش ہوئی، غازی کہلایا لیکن جب سادہ لوح مسلم عوام کی حمایت اور اسلام کے نام کے استعمال کے ذریعے کام یابی نے اس کے قدم چومے، اسلام کی تلوار اور غازی کا لقب پانے والا یہ شخص خود اسلام اور مسلمانوں کے لیے زہر میں بجھا ہوا خنجر ثابت ہوا۔ اس نے خلافت کی بساط کمال ہوشیاری سے لپیٹی اور اسلام والا پورا باب ہی خود اس نے مقفل کر دیا۔ ترکی عوام کے اسلام سے سارے رشتے کاٹنے کے درپے ہو گیا۔