غیر حنفی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ

مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

(روزمرہ فقہی اختلافات پر بحث و تمحیص ’’الشریعہ‘‘ کے دائرۂ کار میں شامل نہیں ہے لیکن حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان نے زیرنظر مضمون میں دوسرے فقہی مذہب سے تعلق رکھنے والے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے مسئلہ پر اصولی بحث کی ہے، اس لیے ان کی خواہش پر اسے شائع کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)



نمازِ وتر میں دو رکعتوں پر سلام نہ کرنا، تینوں رکعتیں ملا کر پڑھنا اسے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، یہ امام اعظمؒ کا مذہب ہے۔ تہجد کی دو رکعتوں پر سلام کر کے تیسری رکعت کو اس سے ملا کر سب کو وتر بنا دینا شروع میں جائز تھا، مستقل طور پر وتر کی تین رکعتیں مقرر ہوئیں تو عملاً اس سے منع کر دیا گیا۔

جو امام نمازِ وتر میں سلام سے فصل کرتا ہو، ایسے امام کی اقتداء میں وتر پڑھے جائیں یا نہ؟ اس سلسلہ میں دو رائیں سامنے آئی ہیں:

(۱) مقتدی کی رائے میں سلام کرنے سے امام کی نماز ٹوٹ گئی اور وتر مکمل نہ ہوئے۔ لہٰذا ایسے امام کی اقتداء نہیں کرنی چاہیے۔ علامہ شامیؒ نے اسے اصح کہا ہے۔ متون فقہ اور فتاویٰ کی عبارات میں اس مسئلہ کی وضاحت اسی طرح ملتی ہے۔

(۲) ابوبکر رازیؒ نے کہا ہے: ’’جو امام وتر میں سلام سے فصل کرتا ہو، حنفی کو اس اقتداء جائز ہے۔ بقیہ ماندہ رکعت کو امام کی معیت میں ادا کرے۔ امام کے سلام نے مقتدی کو نماز سے نہیں نکالا (مقتدی کی نماز فاسد نہیں ہوئی( کیونکہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔‘‘ (فتح القدیر ج ۲ ص ۳۱۱ طبع مصر)

گویا ابوبکر رازیؒ اقتداء کے مسئلہ میں امام کی رائے کو معتبر سمجھتے ہیں۔ امام کی رائے میں یہ سلام افضل ہے، سلام فراغت نہیں، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ایسے امام کی حنفی کو اقتداء کرنا جائز ہے۔ نہایہ میں اس رائے کو قرین قیاس قرار دیا گیا ہے۔ (شامی ج ۱ ص ۵۶۳)

اس وقت ہمیں درپیش اختیاری حالات نہیں کہ ہم فتویٰ دیں: ’’سلام سے قطع کرنے والے کی اقتداء میں وتر نہ پڑھے جائیں، حنبلی امام کی بجائے حنفی کی اقتداء کی جائے‘‘۔ بلکہ صورتحال یہ ہے کہ غیر حنفی امام کی اقتداء کے بغیر چارہ کار نہیں۔ ایک طرف جماعت کے فوت ہونے اور ثواب سے محرومی کا اندیشہ ہے۔ دوسری طرف بالکل نماز کے ضائع ہونے کا فکر۔ بالخصوص جبکہ یہ مشکل حرمین شریفین میں پیش آئے۔ نیز فرض نماز اور تراویح امامِ حرم کی اقتداء میں ادا کر کے وتر کے لیے صفوں کے حلقوں کو توڑ کر اعراض کی شکل اختیار کر لینا، یہ ایک ہنگامی حالت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس نادر الوقوع اور ہنگامی صورتحال کے بارے میں فقہائے احناف نے ہماری کیا راہنمائی فرمائی ہے؟

علامہ ابن عابدین شامیؒ اس سلسلہ میں علماء کی آراء کا حاصل ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں‘

ان الاقتداء بالمخالف المراعی فی الفرائض افضل من الانفراد ادتم مجید غیرہ والا فالا اقتداء بالموافق افضل (ج ۱ ص ۵۶۳)

’’جو امام فرائض میں مقتدیوں کی رعایت کرتا ہو، ایسے غیر حنفی امام کی اقتداء میں نماز ادا کرنا علیحدہ پڑھنے سے بہتر ہے۔ ورنہ اگر موافق مذہب کی امامت میسر ہو تو اس کی اقتداء افضل ہے۔‘‘

البحر الرائق کے حاشیہ میں شیخ زملی حنفی کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں:

وکیف یکون الافضل ان یصلی منفردا مع وجود شافعی صالح تقی یراعی الخلاف بہ تحصل فضیلۃ الجماعۃ ما ۔۔ ان فقیہ نفس یقول بہ (ج ۲ ص ۴۶)

’’ایک صالح پرہیزگار شافعی عالم کی موجودگی میں جو خلافیات میں مقتدیوں کی رعایت کرتا ہو، جس کی بدولت جماعت کی فضیلت حاصل ہوتی ہو، الگ نماز پڑھنا کیسے افضل ہو گا؟ کسی فقیہ النفس عالم کے بارے میں مجھے اس قسم کا خیال نہیں جو یہ کہتا ہو۔‘‘

اب رہا یہ سوال کہ فرائض، جن کی پابندی امام پر ضروری ہے، ان سے کیا مراد ہے؟ اسی طرح وہ امام جو فرائض کے علاوہ واجبات اور سنن میں مقتدیوں کی رعایت نہ کرتا ہو، اس کا کیا حکم ہے؟ اس کے جواب میں علامہ شامیؒ یوں رقم طراز ہیں:

ای المرعاۃ فی الفرائض من شروط و ارکان فی تلک الصورۃ و ان لم یراع فی الواجبات والسنن کما ہو ظاہر سیاق کلام البحر (ج ۱ ص ۵۶۳)

’’اب امام جو حالیہ نماز میں فرائض یعنی شروط اور ارکان جیسے ضروری احکام کی پابندی کرتا ہو، اس کی اقتداء میں نماز جائز ہے، خواہ وہ واجبات اور سنن کی پابندی نہ کرتا ہو۔ جیسا کہ بحر الرائق کے سیاق سے ظاہر ہے۔‘‘

صورتِ مسئولہ میں جبکہ امام وتر میں سلام سے فصل کرتا ہے، اور یہ سلام بھی نماز سے فراغت کا سلام نہیں بلکہ سنت اور افضل سمجھ کر، تو اس میں کسی شرط یا رکن کا ترک لازم نہیں آتا۔ سنت کا، یا زیادہ سے زیادہ احناف کے نزدیک اس سے واجب کا ترک ہو گا۔ یہی قرینِ قیاس ہے، کیونکہ سہواً سلام کرنے میں شرط یا رکن چھوٹ جاتا تو نماز جاتی رہتی ہے، حالانکہ اس سے سجدۂ سہو کرنا پڑتا ہے اور یہ اس کے واجب ہونے کی علامت ہے۔

و ان توہم مصلی الظہر انہ اتمہا فسلم ثم علم انہ صلی رکعتین اتمہا و سجد للسہو (الشامی علیٰ ہامش البحر الرائق ج ۲ ص ۱۱)

’’اگر یہ خیال کر کے سلام کیا کہ اس نے ظہر کی چار رکعتیں پوری کر لی ہیں، پھر معلوم ہوا کہ اس نے ابھی دو رکعتیں پڑھی تھیں، تو دو اور رکعتیں پڑھے اور سجدہ سہو کرے۔‘‘

لہٰذا وتر میں سلام سے فصل کے باوجود حنفی کو غیر حنفی کی اقتداء جائز ہے۔ اس سے بلا حیل و حجت اس کے وتر ادا ہو جاتے ہیں۔ امام کے ساتھ سلامِ فصل نہ کرے، بغیر سلام کے اس کی معیت میں تیسری رکعت ادا کرے۔ اس لیے کہ ہمارے ہاں سلامِ فصل قطعی طور پر منسوخ ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ وتر میں سلامِ فصل کے باعث فقہاء حنفیہ نے غیر حنفی امام کی اقتداء سے منع کیا ہے۔ اور حنفی امام نہ ملنے کی صورت میں شروط اور ارکان کے علاوہ واجبات اور سنن میں رعایت نہ کرنے والے امام کی اقتداء کو جائز قرار دیا ہے۔ علیحدہ نماز پڑھنے کی بجائے نماز باجماعت کو اس صورت میں افضل تسلیم کیا ہے۔ جس سے اتنی بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اختیاری اور عمومی حالات میں مسئلہ کا جواب اور ہے، غیر اختیاری اور مخصوص حال میں جواب کی نوعیت اس سے ذرا بدل جاتی ہے۔ ہر ایک جواب کا محمل ایک دوسرے سے جدا ہے۔

افادہ

ترکیوں کے دور میں حکومت میں جب شافعی امام حرمِ مکی میں پہلی امامت کرا لیتا تھا تو حنفیوں کو اس جماعت کی شرکت میں تردد پیدا ہوا۔ اول جماعت کی فضیلت کو پا لیا جائے یا اپنے حنفی امام کا انتظار کیا جائے؟

علامہ شامیؒ نے اس پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر ان الفاظ میں ثبت کیا ہے، جس سے ہمارے زیر بحث مسئلہ میں بھی کافی مدد ملتی ہے:

والذی یمیل الیہ القلب عدم کراہۃ الاقتداء بالمخالف ما لم بین غیر مراع فی الفرائض لان کثیرا من الصحابۃ والتابعین کانوا ائمۃ مجتہدین و ہم یصلون خلف امام واحد مع تباین مذاہبہم۔ (ج ۱ ص ۶۴ عکس مصری طبع کراچی)

’’دل کا میلان اس طرف ہے کہ مخالف مذہب کی اقتداء مکروہ نہیں ہے، جب تک وہ فرائض میں مقتدیوں کی رعایت کرتا ہو۔ بہت سے صحابہ اور تابعین فروعی مسائل میں الگ الگ ہونے کے باوجود ایک امام کی اقتداء میں نماز پڑھتے تھے۔‘‘

غیر حنفی علماء جن کی اقتداء میں ہم حرمین شریفین میں وتر پڑھتے ہیں، ذرا ان کی آراء بھی مطالعہ میں آجائیں تو بہتر ہو گا۔

مذہب حنبلی کے ترجمان شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ جن کو موجودہ وقت کے حنابلہ اور سعودی حکومت امام کا درجہ دیتی ہے، اس باب میں لکھتے ہیں:

و لو کان الامام یری استحباب شئی والمامومون لا یستحبونہ فترکہ لاجل الاتفاق والائتلاف کان قد احسن۔ مثال ذلک الوتر فان للعلماء فیہ ثلاثۃ اقوال: احدھہما انہ لا یکون الابثلات متصلۃ کالمغرب کقول من قالہ من اہل العراق۔ والثانی انہ لا یکون الا رکعۃ مفصولۃ عما قبلہا کقول من قال ذٰلک من اہل الحجاز۔ والثالث ان الامرین جائز ان کما ہو ظاہر مذہب الشافعی واحمد وغیرہما وہو الصحیح و ان کان ہولاء یختارون فصلہ عما قبلہ فلو کان الامام یری الفصل فاختار المامومون ان یصلی الوتر کالمغرب فوافقہم علی ذلک تالیفا لقلوبہم کان قد احسن۔ (مجموع فتاویٰ ج ۲۲)

’’امام ایک عمل کو مستحب سمجھتا ہے، مقتدی نہیں، امام ان کے اتفاق اور دلداری کی غرض سے اس عمل کو ترک کر دے تو اچھا ہے۔ اس کی مثال وتر میں سمجھ لیجئے۔ علماء کے اس میں تین قول ہیں: (۱) نمازِ مغرب کی طرح اس کی تین رکعتیں متصل ہیں۔ اہلِ عراق کی طرح کچھ لوگ اس کے قائل ہیں۔ (۲) دو رکعتوں سے جدا وتر ایک رکعت ہے، اہلِ حجاز کی طرح لوگ کچھ اس کے قائل ہیں۔ (۳) سلام سے فصل کرنا یا وصل کرنا دونوں جائز ہیں۔ جیسا کہ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کا ظاہر مذہب ہے اور یہ صحیح ہے۔ البتہ ان کے ہاں فصل کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔ امام فصل بالسلام کا قائل ہو اور مقتدیوں کی پاس خاطر کر کے وہ فصل کی بجائے تین رکعتیں اکٹھی پڑھ لے اور وصل کرے تو یہ ایک اچھا عمل ہے۔‘‘

شیخ الاسلامؒ کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے ظاہر مذہب میں وسعت ہے۔ ان کے ہاں جواز اور عدمِ جواز کا مسئلہ نہیں بلکہ اولیٰ اور غیر اولیٰ کا ہے۔ یہی شیخ کا مطمح نظر ہے۔ بلکہ آپ نے تو اس حد تک اس میں اپنی فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ امام کو چاہیے ’’مقتدیوں کے لیے فصل چھوڑ دے اور وصل کرے‘‘۔ والنعم ما قال الرومیؒ ؎

تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی

واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم و احکم۔

(ضمیمہ) وتر میں ائمہ کا اختلاف

امام اعظمؒ کے نزدیک وتر واجب ہیں اور دیگر ائمہ کے نزدیک سنت ِموکدہ۔ حجۃ اللہ میں ہے:

والحق ان الوتر سنۃ وہو اوکد السنن۔

’’وتر سنت ہیں اور دوسری سنتوں کی نسبت زیادہ موکد ہیں۔‘‘

مجموع فتاویٰ میں ہے:

تنازع العلماء فی وجوبہ فاوحبہ ابوحنیفہ و طائفہ من اصحاب احمد والجمہور لا یوجبونہ کمالک والشافعی واحمد لکن ہو باتفاق المسلمین سنۃ موکدۃ لا ینبغی لاحد ترکہ (ج ۲۳ ص ۸۸ طبع الریاض)

’’علماء نے وتر کے وجوب میں اختلاف کیا ہے۔ ابوحنیفہؒ نے واجب کہا، اسی طرح احمدؒ کے کچھ احباب نے۔ جمہور اس کے وجوب کے قائل نہیں جیسے مالکؒ، شافعیؒ اور احمدؒ، لیکن سب مسلمان اس کے سنتِ موکدہ ہونے پر متفق ہیں، کسی کو اس کا ترک کرنا روا نہیں۔‘‘

ایک شبہ اور اس کا ازالہ

حنفی کی غیر حنفی کے پیچھے نماز کیسے درست ہو گی؟ حنفی وتر کو واجب مانتا ہے اور غیر حنفی سنت، جبکہ مقتدی کی نماز امام کی نماز سے زیادہ قوی ہے۔

الدر المختار میں احناف کا مذہب یوں لکھا ہے:

صح اقتداء متنفل بمتنفل و من یری الوتر واجبا لم یراہ  سنۃ۔ (علیٰ ہامش الشامی ج ۲ ص ۵۹۱)

’’امام اور مقتدی دونوں نفل ادا کر رہے ہوں تو یہ جائز ہے۔ اور وہ مقتدی جو وتر کو واجب سمجھتا ہے، اس شخص کی اقتداء کرے جو وتر کو سنت کہتا ہے، تو یہ جائز ہے۔‘‘

علامہ شامیؒ نے اس کی وجہ میں لکھا ہے:

ان ما اتی بہ کل واحد منہما ہو الوتر فی نفس الامر واعتقاد احدہما سنیۃ والاخر وجوبہ امر عارض لا یجوب اختلاف الفصلین۔ (ج ۱ ص ۵۱)

’’شافعی کی اقتداء میں حنفی نے جو نماز پڑھی ہے، دونوں کا مودیٰ اور مصداق وتر ہیں، اور حقیقت میں وہ ایک نماز ہے دو نہیں ہیں۔ ایک کا اسے سنت سمجھنا اور دوسرے کا واجب، یہ ایک عارضی امر ہے، فصل سنت اور فصل واجب میں اختلاف کا موجب نہیں ہے۔‘‘

علامہ شامیؒ کی اس تقریر و تعلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ فصل سنت اور فصل واجب میں چنداں تفاوت نہیں بلکہ دونوں میں اتنا تقارب ہے کہ مقتدی اور امام کی نیت میں واجب اور سنت کے فرق سے بھی ان میں بُعد پیدا نہیں ہوتا۔

علامہ ابن نجیم مصریؒ نے البحر الرائق میں التجنیس لصاحب الہدایہ کے حوالے سے لکھا ہے:

وان الامام ان نوی الوتر وہو یراہ سنۃ جاز الاقتداء کمن صلی الظہر خلف من یری ان الرکوع سنۃ وان نواہ بنیہ التطوع لا یصح الاقتداء لانہ یصیر اقتداء المفترض بالمتنفل (ج ۲ ص ۴۰)

یعنی وتر کو جبکہ امام سنت اور مقتدی واجب سمجھتا ہو تو اس امام کی اقتداء جائز ہے جیسا کہ اس امام کی اقتداء میں نماز ظہر ادا کی جائے جو رکوع کو سنت سمجھتا ہو اور یہ جائز ہے۔ اور اگر امام وتر میں نفل کی نیت کرے تو اس کی اقتداء صحیح نہیں ہے، اس کی مثال ایسے ہو گی جیسے فرض نماز والا نفل والے کی اقتداء کرے۔

فقہ / اصول فقہ

(جولائی ۱۹۹۵ء)

جولائی ۱۹۹۵ء

جلد ۶ ۔ شمارہ ۷

ملی یکجہتی کونسل کی اپیل پر ملک گیر ہڑتال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اجتہاد کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

غیر حنفی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ
مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

آہ! حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’مغرب پر اقبال کی تنقید‘‘
پروفیسر غلام رسول عدیم

اخبار و آثار
ادارہ

الکیمیا
حکیم عبد الرشید شاہد

تلاش

Flag Counter