آہ! حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تبلیغی جماعت کے امیر حضرت مولانا انعام الحسن ۹ جون کو دہلی میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی وفات کی خبر آناً فاناً دنیا بھر کے تبلیغی مراکز میں پہنچ گئی اور دنیا کے کونے کونے میں دعوت و تبلیغ کے عمل سے وابستہ لاکھوں مسلمان رنج و غم کی تصویر بن گئے۔ مولانا انعام الحسن کو تقریباً تیس برس پہلے تبلیغی جماعت کے دوسرے امیر حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ کی وفات کے بعد عالمگیر تبلیغی جماعت کا امیر منتخب کیا گیا تھا۔ ان کی امارت میں دعوت و تبلیغ کے عمل کو عالمی سطح پر جو وسعت اور ہمہ گیری حاصل ہوئی وہ ان کے خلوص و محنت کی علامت ہے۔

دعوت و تبلیغ کا یہ عمل جو حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ نے کم و بیش پون صدی قبل میوات کے سادہ اور دین سے بے بہرہ مسلمانوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آراستہ کرنے کے لیے شروع کیا تھا، آج عالم اسلام میں اسلامی تعلیمات کے فروغ اور دین کی بنیادی باتوں کی دعوت کی سب سے بڑی اور منظم جدوجہد کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اور اس میں مولانا انعام الحسنؒ کی پر خلوص محنت کا بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ جدوجہد سادہ اور فطری طریق کار پر مبنی ہے جس میں اعتقادی، فکری اور فقہی مباحث سے مکمل طور پر گریز کرتے ہوئے عام مسلمان کو کلمہ طیبہ، نماز، قرآن کریم اور سنت نبویؐ کے ساتھ جوڑنے کی فکر کی جاتی ہے۔ اور اس بات کی محنت کی جاتی ہے کہ آج کے مسلمانوں میں قرون اولیٰ والے مسلمانوں کے اوصاف و اعمال کو زندہ کیا جائے۔ تبلیغی جماعت کے اکابرین کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے اندر قرونِ اولیٰ والے اعمال اور اوصاف زندہ ہو جائیں تو آج بھی انسانیت کو نجات کے راستے پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ مولانا انعام الحسنؒ بھی انہی تعلیمات کے داعی تھے اور تبلیغی جماعت کے دیگر اکابرین کی طرح کوئی الگ اور امتیازی بات کرنے کی بجائے وہی اجتماعی بات کرتے تھے جو سب تبلیغی اکابر عام طور پر کرتے ہیں۔ لیکن ان کا خلوص، تقویٰ اور لہجہ کی سادگی اس قدر پرکشش تھی کہ عام لوگ ان کی گفتگو سننے کے لیے کھنچے چلے آتے تھے اور دین دار مسلمان ان کی زیارت اور ان کے ساتھ دعا میں شرکت کو اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتے تھے۔

مولانا انعام الحسنؒ کو تبلیغی حلقوں میں ’’حضرت جی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ رائے ونڈ میں نومبر کے دوران ہر سال منعقد ہونے والے عالمی تبلیغی اجتماع میں حضرت جی کی نصیحتیں سننے اور ان کے ساتھ دعا میں شریک ہونے کے لیے عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بڑے علماء اور اہل اللہ بھی موجود ہوتے تھے اور دعا میں ان کے سادہ جملوں پر لاکھوں آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں۔ رائے ونڈ کے عالمی تبلیغی اجتماع کو یہ وسعت اور قبول عام بھی انہی کے دور میں حاصل ہوا کہ اسے حج بیت اللہ اور حرمین شریفین میں آخری عشرۂ رمضان المبارک کی حاضری کے بعد عالم اسلام کا سب سے بڑا سالانہ اجتماع شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس اجتماع میں دنیا کے ہر خطہ اور براعظم سے تعلق رکھنے والے مسلمان نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ ان میں سے ہزاروں جماعتیں تشکیل پا کر دنیا بھر میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے نکل کھڑی ہوتی ہیں جو کسی حکومت یا ادارے پر بوجھ بنے بغیر اپنے ذاتی خرچہ پر دین سیکھنے اور دین پر عمل کی دعوت دینے کے جذبہ کے ساتھ قریہ قریہ بستی بستی گھومتی ہیں۔

راقم الحروف کو رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر حضرت مولانا انعام الحسنؒ کے ارشادات سننے اور ان کے ساتھ دعا میں شرکت کا موقع کئی بار ملا لیکن زیارت نہ کر سکا۔ کیونکہ اتنے بڑے ہجوم میں اس قدر آگے گھسنا اور دھکم پیل کرنا میرے مزاج کے خلاف ہے، البتہ گزشتہ سال رب العزت نے یہ موقع بھی عنایت فرما دیا جب حضرت جیؒ ڈیوزبری برطانیہ میں یورپ کے سالانہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ اس اجتماع میں شرکت کا مجھے بھی موقع ملا جو بلاشبہ مسلمانوں کا بہت بڑا اجتماع تھا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس سے پچاس ہزار تک افراد اس میں شریک تھے۔ اجتماع کے بعد دہلی واپسی کے لیے ہیتھرو ایئرپورٹ پر پہنچے تو رخصت کرنے والوں میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ حضرت جیؒ معذوروں کی کرسی پر بیٹھے تھے، جسم پر کمزوری اور نقاہت کے آثار تھے مگر چہرے کا نور دیکھ کر خدا یاد آرہا تھا۔ اس موقع پر رخصت کرنے کے لیے آنے والے سینکڑوں مسلمانوں کے ساتھ انہوں نے مختصر دعا کرائی۔ کیا خبر تھی کہ اس مردِ درویش کی یہ پہلی زیارت ہی آخری زیارت ثابت ہوگی۔

آج حضرت جیؒ اپنے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں عقیدت مندوں،بلکہ کروڑوں بھی کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو، داغِ مفارقت دے کر اپنے خالق و مالک کے پاس جا چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

مولانا محمد غفران ہزارویؒ

استاذ الاساتذہ حضرت مولانا رسول خان ہزاروی نور اللہ مرقدہ کے فرزند اور مولانا قاری عبد الرشید رحمانی، خطیب اسلامک سنٹر سیلون روڈ اپٹن پارک لندن کے والد گرامی حضرت مولانا محمد غفران ہزارویؒ گزشتہ دنوں مکہ مکرمہ میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ان کی عمر پچھتر برس تھی اور وہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے۔ کچھ عرصہ دارالعلوم اسلامیہ انارکلی لاہور میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ مولانا مرحوم رمضان المبارک کے دوران عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوگیا، انہیں حرم پاک میں نماز جنازہ کے بعد جنت المعلیٰ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یارب العالمین۔

مولانا عبد الرحیمؒ آف شکرگڑھ

گزشتہ ماہ کے دوران شکرگڑھ کے ممتاز عالم دین مولانا ڈاکٹر عبد الرحیم انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ انہوں نے عملی زندگی کا آغاز مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ کی حیثیت سے کیا اور کافی عرصہ تک گوجرانوالہ میں رہے۔ بعد میں انہوں نے شکرگڑھ میں مدرسہ رحیمیہ تعلیم القرآن کے نام سے دینی ادارہ قائم کیا اور آخر وقت تک اس کے ذریعے سے دینی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ وہ اپنے علاقہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور انہوں نے تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفیٰ اور تحریک نفاذ شریعت میں سرگرم کردار ادا کیا۔ مرحوم ہمارے انتہائی مہربان اور بزرگ دوست تھے اور ہمیشہ اپنی شفقت سے نوازتے رہے۔

الحاج بابو عبد الخالقؒ آف جہلم

اسی دوران جہلم کے سرگرم جماعتی بزرگ الحاج بابو عبد الخالق بھی دارِ آخرت کو سدھار گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم عالمِ دین نہیں تھے لیکن جماعتی اور مسلکی خدمات کے حوالے سے ہمیشہ علماء کی صف میں شمار ہوتے تھے۔ ایک عرصہ تک جمعیۃ علماء اسلام کے ضلعی امیر رہے، ان کا دستر خوان علماء اور جماعتی احباب کے لیے ہر وقت بچھا رہتا تھا۔ حضرت درخواستیؒ سے خصوصی تعلق تھا اور حضرت بھی ان پر خصوصی شفقت فرمایا کرتے تھے۔ انتہائی نیک دل اور خداترس بزرگ تھے، ان کی وفات سے دو تین روز قبل کی بات ہے کہ اسلام آباد سے واپسی پر تھوڑی دیر کے لیے جہلم رکا تو ان سے ملاقات ہوئی اور بہت سے معاملات پر گفتگو بھی ہوئی، کسے خبر تھی کہ یہ آخری ملاقات ہوگی؟

سچی بات ہے کہ ڈاکٹر عبد الرحیم صاحب اور بابو عبد الخالق صاحب جیسے مخلص دوستوں اور کرم فرما ساتھیوں کی جدائی نے دنیا کی بے ثباتی اور بے وفائی کا احساس اور زیادہ گہرا کر دیا ہے، رہے نام خدا کا۔

اللہ پاک دونوں حضرات کی مغفرت فرمائیں، ان کی حسنات کو قبولیت سے نوازیں، سیئات سے عفو و درگزر سے کام لیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں، آمین یارب العالمین۔

اخبار و آثار

(جولائی ۱۹۹۵ء)

جولائی ۱۹۹۵ء

جلد ۶ ۔ شمارہ ۷

ملی یکجہتی کونسل کی اپیل پر ملک گیر ہڑتال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اجتہاد کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

غیر حنفی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ
مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

آہ! حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’مغرب پر اقبال کی تنقید‘‘
پروفیسر غلام رسول عدیم

اخبار و آثار
ادارہ

الکیمیا
حکیم عبد الرشید شاہد

تلاش

Flag Counter