(۱) ۱۸۸۷ء میں مولانا عبید اللہ سندھی نے، جب کہ ان کی عمر صرف پندرہ برس کی تھی، اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس کے بعد کے واقعات کو مولانا نے اپنی مختصر خودنوشت میں، جو انہوں نے مکہ مکرمہ سے اپنی روانگی سے قبل مولانا غلام رسول مہر مدیر روزنامہ انقلاب لاہور کو اشاعت کے لیے بھیجی تھی، تحریر کر دیا تھا۔ مولانا سندھی کی یہ خودنوشت گو بہت مختصر ہے لیکن بہت اہم ہے۔
(۲) ان کے دورِ جلاوطنی کے زمانے کے حالات میں سب سے اہم تحریر وہ ہے جو ’’کابل میں سات سال‘‘ کے عنوان سے پروفیسر محمد سرور نے سندھ ساگر اکادمی لاہور سے شائع کی تھی۔
(۳) روس اور ترکی کے سفر، ماسکو اور استنبول کے قیام و مصروفیات اور پھر حجاز کے سفر اور قیامِ مکہ کے زمانے کے حالات میں مولانا سندھی کے قلم سے بہت اہم معلومات اور بعض اشارات ان کے خطوط، مقالات اور خطبات میں آئے ہیں۔
(۴) کابل کے سفر و قیام اور جلاوطنی کے خاتمے کے بعد وطن واپس آنے تک کے حالات کی تفصیلات کے تین اہم ماخذ اور ہیں:
(الف) ظفر حسن ایبک کی ’’آپ بیتی‘‘ جس کا نیا ایڈیشن ’’خاطرات‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔
(ب) اقبال شیدائی کی خودنوشت جو ’’انقلابی کی سرگزشت‘‘ کے عنوان سے روزنامہ امروز لاہور میں قسط وار شائع ہوئی ہے۔
(ج) مولانا عبد اللہ تھانوی کی تالیف ’’مولانا عبید اللہ سندھی کی سرگزشتِ کابل‘‘۔
(۵) وطن واپسی کے بعد کے حالاتِ زندگی کے ماخذ اخباروں کی خبریں اور رپورٹیں، مضامین اور مقالات کی شکل میں ہیں اور اپنی بازیافت کے لیے کسی باذوق صاحبِ ہمت کی منتظر ہیں۔
اس طرح مولانا سندھی کی سرگزشتِ حیات کے بنیادی اور ثانوی ماخذ تاریخ کی روشنی میں آجاتے ہیں۔ البتہ اسلام لانے سے پہلے کے واقعات تک ہماری رسائی نہیں ہوئی تھی۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اب اس دور کے اہم اور ضروری حالات بھی ہماری دسترس میں آ گئے ہیں۔ مولانا سندھی نے اپنے حالاتِ زندگی لکھنے شروع کیے تھے لیکن اس کا صرف ایک باب جو پانچ چھوٹی چھوٹی فصلوں پر مشتمل ہے، لکھا گیا تھا۔ یہ باب ’’ولادت سے اظہارِ اسلام تک‘‘ کے مختصر واقعات میں ہے، اور خاندان کے مختصر تعارف، ابتدائی ماحول، اسکول میں داخلے، تعلیم کے شوق، ریاضی کے مضمون سے دلچسپی، اور ۱۸۸۶ء میں جب مولانا ساتویں جماعت کے طالب علم تھے، کے تذکرے پر ختم ہو جاتا ہے۔
یہ حالات مولانا سندھی کے عزیز و شاگرد مولانا عزیز احمد کے پاس خود مولانا کے قلم سے لکھے ہوئے موجود تھے۔ ان سے مولانا سندھی کے ایک اور شاگرد اور عقیدت مند مولانا عبد المجید امجد نے نقل کر لیے تھے۔ مجھے ان کا فوٹو اسٹیٹ عزیزم ثناء اللہ سرور کی عنایت سے مل گیا۔ اس کے لیے میں مولانا امجد صاحب اور سرور سلّمہ دونوں کا شکرگزار ہوں۔
حضرت مولانا سندھی کے ابتدائی عمر کے حالات کا یہ واحد ماخذ ہے جو خود مولانا سندھی کے قلم سے یادگار ہے۔ یہ حالات ابھی تک نہ تو کسی کتاب میں شامل ہوئے ہیں، نہ کسی اخبار کی زینت بنے ہیں۔ امید ہے کہ یہ ارمغانِ علمی قارئین کرام کے لیے نہایت انبساط کا موجب ہو گا۔ اس تحریر کے مطالعے سے کئی اہم باتوں کی نشان دہی ہوتی ہے:
(۱) اسلام سے عدمِ تعصب اور رغبت کا پہلا بیج ’’تحفۃ الہند‘‘ سے بہت پہلے ماموں کے موازنۂ اسلام و ہندو مذہب سے ہو چکا تھا۔
(۲) اسی طرح انگریز سے نفرت اور آزادیٔ وطن کے جذبے کا بیج بھی دلیپ سنگھ سے انگریزوں کی نا انصافی اور شہیدِ وطن مولراج کے خاندان سے تعلقات کی بنا پر اس کی جاں نثاری کے تذکروں میں پڑ چکا تھا۔ اس تخم کی آبیاری کا سروسامان بھی اسی ماحول میں فراہم ہو گیا تھا۔
(۳) نصابی کتاب میں دو بلیوں اور بندر کی تصویر پر ماموں کا یہ فرمانا کہ یہ بلیاں ہندو اور مسلمان، اور بندر انگریز ہے، مولانا سندھی کے لیے ہزار درسِ آزادی سے بڑھ کر مؤثر اور دل نشین ثابت ہوا۔
اگر انہیں بچپن ہی میں یہ ماحول میسر نہ آجاتا تو ان کا اسلام قبول کرنا محض اتفاق اور قسمت کی یاوری سمجھا جاتا۔ بعد میں فکری ارتقا کے جو عوامل پیش آئے، مثلاً آبائی مذہب کے بجائے اسلام قبول کرنا، لاہور کے انقلابی مرکز کے بجائے دہلی، پنجاب کے میدانِ سیاست کے بجائے ہندوستان کا وسیع میدانِ سیاست، یا سکھ قوم کی آزادی کے بجائے تمام اقوامِ ہند کی آزادی کی جدوجہد، وہ ابتدائی ماحول اور ماموں کی وسعتِ قلب اور تربیت کا لازمی نتیجہ تھے۔
معلوم نہیں پہلا عنوان ’’بچپن کا زمانہ یعنی ابتدائی عمر کے حالات‘‘ خود مولانا مرحوم کے قلم سے ہے یا نہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ باب اول کا عنوان ’’ولادت سے اظہارِ اسلام تک‘‘ حضرت مولانا سندھی کے قلم ہی سے ہے۔
(۱۔ س۔ ش)
باب اول: ولادت سے اظہارِ اسلام تک
اللھم اہد قومی!
فصل اول
سیالکوٹ پنجاب کا مشہور تاریخی شہر ہمالیہ کے دامن میں پرفضا زرخیز میدان پر بستا ہے۔ اس کے دیہات میں پسرور کے قریب ایک گاؤں چہیاں والی ہے۔ یہی میرا مولد ہے۔
راجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں جسپت راؤ اس گاؤں کے متوسط الحال لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ ایک سناشی سنار جس قدر اچھا ہو سکتا ہے، ایسا ہی وہ سمجھا جاتا تھا۔ حکومت کے کارندوں اور عام لوگوں کا اس پر اعتماد تھا۔ اس کے پانچ بیٹے تھے۔ ان میں متوسط کا نام رام راؤ تھا، جو میرا باپ ہے۔ حکومت کی تبدیلی پر میرا والد اپنے خاندانی پیشہ ’’سناری‘‘ سے ہی اوقات بسر کرتا رہا۔ وہ اپنے تمام بھائیوں میں اپنے والدین کی خدمت میں بہت ممتاز تھا۔ میرا نانا ’’میر علی والہ‘‘ ضلع گوجرانوالہ کا رہنے والا ایک خاندانی سکھ تھا اور ہلو وال ضلع سیالکوٹ میں منتقل ہو چکا تھا۔ اس کی سب سے بڑی لڑکی ’’پریم کور‘‘ میری والدہ ہے۔ میرا والد میرے نانا کی دعوت پر رام راؤ سے رام سنگھ بن گیا تھا۔ میرے والد کا چچا زاد بھائی حاکم راؤ اپنے گاؤں کا پٹواری تھا اور میرے دو ماموں بھی پٹواری تھے۔ میری دو بہنیں تھیں جو میری پیدائش سے پہلے ایک گکھڑ میں اور دوسری بیگواں میں بیاہی گئی تھیں۔
فصل دوم
میرا دادا ابھی زندہ تھا کہ میرا والد فوت ہو گیا۔ اس کے مرنے سے تین مہینے بعد پھاگن کے اخیر عشرے میں جمعہ کی رات کو طلوعِ فجر سے دو گھڑی پہلے میری ولادت ہوئی۔ والدہ صاحبہ کے بتلائے ہوئے واقعات کو مختلف جنتریوں سے تطبیق دینے کے بعد محقق ہوا کہ وہ تاریخ ۱۲ محرم الحرام ۱۲۸۹ ہجری اور ۱۰ مارچ ۱۸۷۲ عیسوی جو ہمارے حساب سے ۸۷۲ ہندی ہوتا ہے۔ میں دو برس کا تھا کہ میرا دادا فوت ہو گیا۔ مجھے اس کی صورت ایک خاص واقعے میں یاد ہے۔1 اس کے بعد میری والدہ زیادہ تر اپنے والد کے پاس رہنے لگی۔ اس کے بعد دو سال کے اندر اندر نانا بھی فوت ہو گیا۔ اس وقت میرا ایک ماموں جھنگ کے محکمہ بندوبست میں کام کرتا تھا۔2 اور دوسرا جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں پٹواری تھا۔ میری والدہ اور نانی جھنگ ہو کر جام پور پہنچیں۔ میری عمر اس وقت چار سال کی تھی۔ جس طرح نانا کے ساتھ شطرنج کھیلنا مجھے یاد ہے، اسی طرح جام پور میں ماموں جی کا فوجی قواعد سکھانا بھی نہیں بھولتا۔ ایک سال وہاں رہ کر والدہ اپنے گھر واپس آئی۔ وہ زیادہ عرصہ میری بہنوں سے دور نہیں رہ سکتی تھی۔ یہاں سال بھر سے زیادہ رہی۔ آخر میں سخت قحط پڑا اور میری والدہ پھر مجھے جام پور لے گئی۔
فصل سوم
میری چھ برس کی عمر تھی جب جام پور کے مڈل اسکول میں داخلہ ہوا۔ ۸۷۸ ہندی سے تین سال مسلسل پڑھتا رہا۔ ۸۸۱ (ہندی) کی مردم شماری میں، میں بھی کام کرتا رہا۔
اسی زمانے میں مجھے گرمکھی کی پہلی کتاب دی گئی۔ اگرچہ میں نے اس میں سے ایک حرف بھی نہیں پڑھا مگر اس میں ایک تصویر کہ ’’دو بلیوں کی روٹی بندر بانٹ رہا ہے‘‘ ضرور یاد ہے۔ مجھے ماموں نے بتلایا کہ یہ دو بلیاں ہندو اور مسلمان ہیں اور بندر انگریز ہے۔
اس کے بعد پھر والدہ اپنے گھر آئی اور دو سال ضلع سیالکوٹ کے مختلف دیہات میں دور و نزدیک رشتہ داروں سے ملانے کے لیے مجھے لے جاتی رہی۔ میں برادری کی غمی خوشی کی تقریبوں میں شریک ہوتا رہا۔ باوجود خورد سال ہونے کے بڑے بوڑھے بھی ایسی تعظیم سے پیش آتے جو میری والدہ کا حق تھا۔ میں اس کا خاص اثر طبیعت میں محسوس کرتا ہوں۔ اپنے ہم سن رشتہ داروں سے ممتاز رہنے کا خیال رہتا تھا۔
تھوڑے عرصے کے لیے جامکی کے مڈل اسکول کی چوتھی جماعت میں شامل رہا۔ اکثر اوقات دیہاتی مساجد کے ملاؤں سے فارسی کی کتابیں ضرور پڑھتا رہا۔ والدہ اس عرصے میں میرے لیے مناسب رشتہ تلاش کرتی رہی۔ جب اس میں کامیاب ہو گئی تو مجھے پھر جام پور بھیج دیا۔
فصل چہارم
اس زمانے کا ایک واقعہ قابل تحریر ہے۔ میرا چچا حاکم راؤ جب گاؤں کی چوپال (کچہری) میں بیٹھتا تو عام مجمع اس کے گرد جمع ہو جاتا۔ ایک دن میں بھی وہیں بیٹھا تھا کہ اس نے ہندو دھرم اور اسلام کا موازنہ کیا اور اسلام کو ترجیح دی۔ اس کی تقریر کا خلاصہ مجھے اچھی طرح یاد ہے:
’’ہندوؤں اور مسلمانوں میں طویل مناظرہ ہوا۔ بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ ایک ہندو اور ایک مسلمان کنویں میں چھلانگ لگائیں، جو سلامت رہا، اسی کا مذہب حق مانا جائے گا۔ پہلے ہندو کھڑا ہوا اور شری رام کو اپنی مدد کے لیے بلایا۔ اس کے کارندے آ رہے تھے کہ اس نے شری کرشن جی کو پکارنا شروع کر دیا۔ اس پر شری رام کے خادم واپس ہوئے۔ ابھی شری کرشن کے لوگ اس کی مدد کو نہیں پہنچنے پائے تھے کہ اس نے مہادیو کو پکارنا شروع کیا، اس لیے شری کرشن کی مدد بھی اسے نہ مل سکی۔ اسی طرح اپنے مختلف بزرگوں کو یکے بعد دیگرے مدد کے لیے بلاتا رہا۔ مگر جس وقت چھلانگ ماری اس وقت کوئی بھی اس کی امداد نہ کر سکا۔ اس لیے اس کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے۔ اس کے بعد مسلمان کھڑا ہوا، اس نے ایک اللہ کو زور سے پکارنا شروع کیا اور جھٹ کنویں میں کود پڑا، اللہ کے فرشتے اس کی مدد کو پہنچے اور اسے سلامت بچا لیا۔‘‘
جہاں تک مجھے یاد ہے، اسلام کی حقانیت پر یہ پہلی تقریر ہے جو میں نے سنی اور جس سے متاثر ہوا۔ رب زدنی علماً۔
فصل پنجم
اس دو سال کے توقف سے میرے ہم جماعت تو مارچ ۸۸۴ (ہندی) کو چھٹی جماعت میں تبدیل ہوئے اور میں دو مہینے محنت کر کے چوتھی جماعت کا امتحان دے سکا اور پانچویں جماعت میں شامل ہو گیا۔ یہاں سے میری طالب علمی کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔ اسکول کا مقررہ کام میرے لیے مشکل نہیں تھا۔ فارسی پڑھنے اور یاد کرنے میں خاص محنت کرتا۔ باقی مضامین شروع سال میں چند ہفتے صرف کر کے یاد کر لیتا۔ پھر سارا سال فارغ رہتا۔ امتحان سے تھوڑی دیر پہلے کتاب پر سرسری نظر ڈال لینا کافی ہوتا۔ سب سے زیادہ دلچسپی مجھے ریاضی سے تھی۔ حساب، الجبرا، اقلیدس میں جس قدر بہتر اور اعلٰی کتابیں ملتیں، ان کے حل کرنے میں مصروف رہتا، مشکل سوال حل کرنے میں خاص لذت محسوس کرتا۔ ’’مراۃ الاشکال‘‘ اقلیدس کے چار مقالوں کی شرح تھی، میں نے اس کے مشقی سوالات سارے کے سارے حل کر لیے تھے۔
۸۸۶ ہندی کو ساتویں جماعت میں تھا۔ قیصری جالندھر میں ایک حل طلب سوال چھپا:
ا+ب+ج=۶ د(۲)+ب(۲)+ح(۲)=۱۴ ا(۳) +ب(۳)+ح(۳)=۳۶
دوپہر کے بعد مدرسہ میں مجھے اخبار ملا۔ اپنے معمولی کاموں میں مصروف رہا۔ فقط فرصت کے لمحے اس کے حل پر صرف کرتا رہا۔ پھر بھی مغرب سے پہلے میں نے اخبار کے نام جواب بھیج دیا۔ دوسرے ہفتے میں میرے نام سے دو کالم میں چھپ کر آ گیا۔ میں اس خوشی کو نہیں بھولتا۔
اس کے بعد تاریخ اور قصوں، ناولوں میں طبیعت مسرور ہوتی۔ جو کتاب ملتی، جب تک ساری ختم نہ کر لیتا، چین نہ آتا۔ اس ضمن میں اخبار پڑھنا شروع کیا۔ ’’آفتاب پنجاب‘‘ ہفتہ وار3 مسلسل دیکھتا۔ ’’پنجابی‘‘4 اور ’’کوہ نور‘‘ کے پرانے فائل پڑھتا5۔ پھر ’’اخبار عام‘‘ دیکھنے لگا6۔
پنجاب کی تاریخ میں سکھوں کی حکومت سے زیادہ دلچسپی محسوس کرتا۔ اپنے سکھ ہونے پر فخر کرتا۔ بچپن میں عورتوں کے ساتھ دیوان مولراج کے عزیزوں کے گھر جاتا رہا ہوں7۔ اس لیے ان کے واقعات سے زیادہ متاثر ہوتا۔ حکومت پنجاب کی سالانہ رپورٹ اردو میں چھپتی تھی، اسے مفصل پڑھتا۔
’’راجہ دلیپ سنگھ‘‘ کو پنجاب واپس آنے کی اجازت ملی اور میرے ماموں رات کو یہ خبر لائے تو ہمارے گھر میں عید کی سی خوشی ہوئی کہ ’’ہمارے راجہ‘‘ آ رہے ہیں۔ دوسرے تیسرے ہفتے جب یہ خبر ملی کہ وہ عدن سے واپس کر دیے گئے تو ہمارے گھر میں ماتم کی صف بچھ گئی8۔
اگرچہ اس علمی شغف نے اچھا کھانے، اچھا پہننے کی خواہشات سے بے نیاز کر دیا تھا، پھر بھی سوسائٹی میں کوئی ایسی چیز نہیں نظر آتی جو گھر میں مجھے میسر نہ ہو۔ اعلٰی سوسائٹی میں میرا رابطہ تھا۔ جام پور کے سرکاری افسروں کی سوسائٹی میں بھی ایسے ساتھی ملے جن سے اعلٰی اس جگہ ممکن نہیں تھے۔ تحصیلدار، نائب تحصیلدار، منصف، پولیس افسر، پوسٹ ماسٹر سب ہندو تھے۔ اس اعلٰی سوسائٹی میں میرا تعارف عزت سے تھا۔ نائب تحصیلدار ہمارے قریب علاقے کا تھا۔ اس کے لڑکے ہمارے ساتھ پڑھتے تھے۔ ان سے اور ان کے گھر سے مساویانہ برتاؤ تھا اور یہی معاملہ سوسائٹی کے باقی افراد تحصیلدار، پولیس افسر، منصف، پوسٹ ماسٹر اور ڈاکٹر کے ساتھ تھا۔
حواشی
- مولانا سندھی نے فصل اول، دوم اور چند سطریں فصل سوم کی لکھ کر منسوخ کر دی تھیں اور دوبارہ شروع سے مسودہ لکھا تھا۔ منسوخ شدہ مسودے میں ہے کہ ’’نانا کے ساتھ شطرنج کھیلنا مجھے یاد ہے‘‘۔ یہاں ایک خاص واقعے سے اسی طرف اشارہ ہے۔ شطرنج کھیلنے کا ذکر چند سطروں کے بعد اس مسودے میں بھی آیا ہے۔
- شاید یہ ماموں بھی پٹواری ہی ہوں، منسوخ شدہ مسودے میں ہے کہ ’’میرے دو ماموں پٹواری تھے۔ ایک ضلع جھنگ میں مقرر تھا اور دوسرا جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں متعین تھا۔‘‘
- ہفتہ وار آفتاب پنجاب لاہور سے جولائی ۱۸۷۳ء میں نکلنا شروع ہوا تھا۔ اس کے مالک بوٹا سنگھ نامی ایک سکھ اور ایڈیٹر مولوی نبی بخش تھے۔
- پنجابی اخبار بھی لاہور سے ہفتہ وار مارچ ۱۸۵۶ء سے نکل رہا تھا۔ اس کے ایڈیٹر محمد اکبر خان خاور تھے۔ بعدہ محمد مروان علی خان رعنا ہو گئے تھے۔
- کوہ نور لاہور کا مشہور ہفتہ وار اخبار تھا۔ منشی ہرسکھ رائے کے اہتمام میں جنوری ۱۸۵۰ء میں نکلنا شروع ہوا تھا۔
- اخبار عام لاہور (ہفتہ میں تین بار) پنڈت گولی ناتھ کی ادارت میں جنوری ۱۸۷۱ء میں نکلنا شروع ہوا تھا۔
- جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کا ایک مجاہد، ملتان کے مقابلے میں شکست کھائی، گرفتار ہوا اور پھانسی کی سزا پائی۔
- دلیپ سنگھ دانی چنداں کے بطن سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا بیٹا، مارچ ۱۸۴۹ء میں گدی سے معزول کیا گیا۔ ہزار پونڈ سالانہ وظیفہ دے کر انگلستان بھیج دیا گیا اور عیسائی بنا لیا گیا۔ ایک مصری خاتون سے شادی کر لی تھی۔ بعدہ اس نے عیسائیت ترک کر دی تھی۔ انگریزوں کا مخالف تھا۔ تقریباً ۱۸۸۰ء میں وطن لوٹ رہا تھا کہ عدن سے واپس کر دیا گیا۔ تقریباً ۱۸۹۰ء میں انگلستان میں انتقال ہوا۔