افکارِ سندھیؒ

ادارہ

(ماہنامہ الشریعہ شمارہ ستمبر ۱۹۹۴ء میں مولانا سندھیؒ کے حوالے سے شائع ہونے والے شذرات)



’’دنیا میں اب تک جو انقلابات ہوئے ہیں، وہ سب کے سب جزوی انقلابات تھے۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا انقلاب نہ تھا جو ساری انسانیت کو اپنے اندر لینے کی کوشش کرتا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری امامِ انقلاب ہیں، جن کی دعوت کل انسانیت کے انقلاب کے لیے ہے، اور آپؐ نے اس کا سب سے اچھا نمونہ حجاز میں قائم کر کے دکھا دیا، جسے دنیا اب تک اسی حیثیت سے جانتی ہے اور مانتی ہے۔ آپؐ کے انقلاب میں اس وقت کی مہذب قوموں کا بڑا حصہ آ گیا، اور سب کو انسانیت کی خدمت کے ایک نقطے پر جمع کر کے ان کے تعلقات ان کے خالق کے ساتھ درست کر دیے، بلکہ ان کے آپس کے تعلقات بھی ٹھیک کر دیے۔ اب جب کبھی کوئی جماعت جامع کُل قومی انقلاب پیدا کرنا چاہے گی، اسے آپؐ ہی کے پیچھے چلنا ہو گا۔ جو جماعت اس پروگرام کے خلاف کوئی اور پروگرام لے کر اٹھے گی، وہ یا تو سرے سے ناکام رہے گی یا صرف جزوی طور پر کامیاب ہو گی۔ چنانچہ فرانس، جرمنی، ترکی اور روس (وغیرہ) کے انقلابات اس اصول کی ظاہری مثالیں ہیں۔ یہ انقلاب سب انسانی ضرورتوں کو اپنے اندر نہیں لیتے، جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا کیے ہوئے انقلاب نے لیا تھا۔‘‘ 

(دستورِ انقلاب ۔ ص ۱۴۹ و ۱۵۰)


’’مشاورت کا مسئلہ اسلام میں بہت بڑا مسئلہ ہے، لیکن اسلامی حکومتوں کو شورٰی سے خالی کر کے مطلق العنان انسان، جاہل حکمرانوں اور امیروں کا کھیل بنا دیا گیا۔ وہ مسلمانوں کی امانت (سرکاری خزانے) سے اپنی شہوت پرستیوں پر روپیہ صرف کرتے ہیں۔ وہ بڑی بڑی مصلحت کے مقابلے میں خیانتیں کرتے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس قسم کی غلطیوں کا خمیازہ مسلمانوں کو صرف اس غلط تفسیر کی وجہ سے بھگتنا پڑا۔ ورنہ ہر ایک مسلمان ایک حاکم کے اوپر ننگی تلوار ہے اور وہ حاکم کیوں قانونِ الٰہی کی اطاعت نہیں کرتا؟ اگر وہ اطاعت نہیں کرتا تو کس بنا پر ہم سے اطاعت کا طلبگار ہوتا ہے؟ یہ طاقت مسلمانوں میں پھر سے پیدا ہو سکتی ہے اور اس سے ان کی جماعتی زندگی آسانی کے ساتھ قرآن کے مطابق بن سکتی ہے۔‘‘

(عنوانِ انقلاب ۔ ص ۱۲۶)


’’تنظیم و تبلیغ، تعلق باللہ کی استواری، غربا و مساکین کی باقاعدہ منظم خدمت، ظاہری و باطنی طہارت اور پاکیزگی کو اختیار کرنا، خیالات، افعال اور اخلاق کی طہارت کو اختیار کرنا، زرپرستی اور سرمایہ داری کی ہر شکل و صورت کو مٹانا، افراد و اشخاص کے تعلق کو اجتماعِ انسانی سے صحیح طریق پر قائم کرنا، انسان میں اپنے افکار و اعمال، افعال و کردار کی ذمہ داری کے احساس کو بیدار کرنا، ہر شخص کو اس قرآنی انقلاب میں حصہ لینے کے لیے اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا، تمام عالم میں کُل قومی پیمانہ پر عدل و انصاف کو قائم کرنے کا پختہ عزم، یہ سب قرآنی تحریک و انقلاب کا مقصد ہے۔‘‘

(شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک ۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ)


’’نام نہاد کمیونزم میں جس قدر مسکین نوازی ہے، اس سے کہیں زیادہ مسکین نوازی امام ولی اللہؒ کے فلسفے میں ہے، اور اس میں مزدور اور کاشتکار کے حقوق کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے، لیکن اس کی بنیاد خدا کے صحیح اور صاف تصور پر ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک کارکن اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس زندہ تصور کے ساتھ گزارتا ہے کہ خدا تعالٰی اس کے سامنے ہے یا کم از کم یہ کہ خدا تعالٰی اسے دیکھ رہا ہے۔ وہ یہ تصور بھی ایک زندہ اور پائیدار شکل میں اپنے سامنے رکھتا ہے کہ اگر اس نے کم تولا یا کسی کے حق کو ناجائز طور پر پاؤں تلے روندا تو وہ دنیا میں بھی سزا پائے گا اور مرنے کے بعد بھی اسے خدا تعالٰی کے سامنے حاضر ہو کر اپنے عملوں کی جوابدہی کرنی ہو گی۔ امام ولی اللہؒ صاحب کی حکمت اسے یہ بھی سکھاتی ہے کہ قرآن حکیم پر عمل کرنے والے کارکن کو خدا تعالٰی کے سوا کسی سے اپنے عمل کا بدلہ لینا ضروری نہیں۔ انسان بے شک اس لیے پیدا ہوا ہے کہ دنیا میں قرآن حکیم کی حکومت بین الاقوامی درجہ پر چلائے، لیکن وہ اس حکومت کے ذریعے سے اپنے لیے یا اپنے خاندان کے لیے کوئی فائدہ حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ قرآن حکیم کی تعلیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ کی حکومتیں بے نظیر ثابت ہوئیں اور آج تک دنیا ان کی مثال پیدا نہیں کر سکی۔ اب اس دور میں بھی امیر المومنین سید احمد شہیدؒ (۱۷۸۶ء۔۱۸۳۱) اور ان کے ساتھیوں نے انہی اصولوں پر اس نمونے کی حکومت پیدا کر کے ایک دفعہ پھر دکھا دی اور ثابت کر دیا کہ اس قسم کی حکومت پیدا کرنا ہر زمانے میں ممکن ہے۔ قرآن حکیم ماننے والوں کے لیے اس میں بہت بڑی عبرت اور ذمہ داری ہے۔‘‘

(عنوانِ انقلاب ۔ ص ۵۹)


’’یہ گھروندے جو تم نے بنا رکھے ہیں اور انہیں تم فلک الافلاک سے بلند سمجھتے ہو، یہ گھروندے زمانہ کے ہاتھ سے اب بچ نہیں سکتے۔ تمہارا تمدن، تمہارا سماج، تمہارے افکار، تمہاری سیاست اور تمہاری معاشرت سب کھوکھلی ہو چکی ہے۔ تم اسے اسلامی تمدن کہتے ہو، لیکن اس تمدن میں اسلام کا کہیں شائبہ بھی نہیں۔ تم مذہب کا نام لیتے ہو، لیکن یہ مذہب تمہاری ہٹ دھرمی کا نام ہے۔ مسلمان بنتے ہو تو اسلام کو سمجھو۔ یہ اسلام جسے تم اسلام کہتے ہو، یہ تو کفر سے بھی بدتر ہے۔ تمہارے امیر جاہ پرست ہیں، حکمران شہوات میں پڑے ہیں، اور غریب طبقے توہمات کا شکار ہو رہے ہیں۔ بدلو، ورنہ زمانہ تمہارا نشان تک بھی نہ چھوڑے گا۔ سنبھلو ورنہ مٹا دیے جاؤ گے۔‘‘

(مولانا عبید اللہ سندھیؒ از پروفیسر محمد سرور مرحوم ۔ ص ۳۷)


آراء و افکار

(ستمبر ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter