(اردو کے ممتاز شاعر افتخار اعظمی گزشتہ دنوں لندن میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم ورلڈ اسلامک فورم کے مقاصد اور پروگرام کے ساتھ گہری دلچسپی رکھتے تھے اور وقتاً فوقتاً فورم کے پروگراموں میں شریک ہونے کے علاوہ گراں قدر مشوروں کے ساتھ راہنمائی کیا کرتے تھے۔ اللہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔ مرحوم کی زندگی کے آخری ایام میں فورم کی ایک فکری نشست ان کی زیرصدارت منعقد ہوئی جس میں انہوں نے بھی اظہار خیال فرمایا، اس نشست کی کارروائی مرحوم کی یاد کے طور پر شائع کی جا رہی ہے۔ ادارہ)
ورلڈ اسلامک فورم کا اجلاس بعنوان ’’قرآن اور ادبِ اسلامی‘‘ اردو عربی اکادمی النگٹن پارک میڈن ہیڈ (یوکے) میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت بزرگ شاعر و ادیب جناب افتخار اعظمی صاحب نے کی۔
مولانا عیسٰی منصوری
فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے کہا کہ تحریر اور بیان کی قوت عطیۂ خداوندی اور خدا کا انعام ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو قوتِ گویائی عطا کی، اس بات کا سلیقہ دیا کہ اپنی بات کو واضح کر سکے۔ یہ ایک عظیم طاقت ہے جو تعمیر کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے اور تخریب کے لیے بھی۔ بین الاقوامی تاریخ میں ایسا واقعہ اور ایسا دور بار بار آیا ہے جب متاثر کرنے والا اور طاقتور قلم گمراہ ہاتھوں میں پہنچ گیا تو اس سے ایسا ادب وجود میں آیا جس نے پورے معاشرے کو متاثر کیا۔ اس ادب سے جاہلیت کی دعوت کا کام لیا گیا۔ عقائد، اخلاق اور معاشرت میں گراوٹ، کج روی اور بگاڑ پیدا ہوا۔ روم و یونان کی تاریخ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے زوال میں بڑا حصہ اس ادب کا تھا جو لا دینیت کا ادب، نفس و شہوت پرستی کا ادب تھا۔ قرونِ وسطٰی کی تاریخ بتاتی ہے کہ قوموں کی تباہی و بربادی کا سب سے بڑا سبب یہ ہوا کہ قلم ان لوگوں کے ہاتھ میں آ گیا جو فساد کے داعی تھے۔ نفس و خواہشات کے غلام تھے، نہ انہیں انسانیت سے محبت تھی نہ خوفِ خدا تھا۔
یہ صرف مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بدقسمتی ہے کہ آج پھر قلم، صحافت، پریس و میڈیا پر ان کا کنٹرول ہے جو اسلام سے شدید عناد رکھتے ہیں، اور اسلام کو رجعت پسندی، فرسودگی اور بنیاد پرستی سے تعبیر کر کے اسلام کے خلاف اتنی نفرت پیدا کر رہے ہیں کہ پڑھا لکھا آدمی اپنے آپ کو مسلمان یا اسلام پسند کہتے ہوئے شرمائے۔ عالمِ اسلام کے لیے آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ صحافت اور الیکٹرونک میڈیا میں امتیاز پیدا کرے۔ طاقتور اور مؤثر اسلوبِ تحریر حاصل کرے۔ مغربی میڈیا و پریس کا مقصد مغرب کے استیلا و غلبہ کو دوام بخشنا ہے۔ مغرب کا ہی دانشور، صحافی، مفکر و معلم مغربی غلبہ و تسلط کا نمائندہ ہے۔ اس میڈیا کے حملہ کا ہمارے پاس کیا جواب ہے؟ اسی مغربی میڈیا کے لیے ورلڈ اسلامک فورم نے کئی محاذوں پر کام شروع کیا ہے جس میں ایک شعبہ تحریکِ ادبِ اسلامی ہے۔ آپ کو مغرب کے اسلام دشمن میڈیا کا طلسم توڑنا ہے اور اس کے لیے بھرپور تیاری کرنی ہو گی۔ بقول علامہ اقبال نگاہ بلند، سخن دلنواز اور جان پرسوز درکار ہے۔ بلند نگاہ پیدا کرنے کے لیے بڑی محنت جانفشانی کی ضرورت ہے۔ علماء کو نہ صرف انگریزی و یورپین زبانوں کو سیکھنا ہو گا بلکہ جدید عصری علوم سے آراستہ ہونا ہو گا۔ زمانہ کے معیار و مذاق کو سمجھنا ہو گا، مطالعہ کو وسیع کرنا ہو گا، تحریر و تقریر کے معیار کو بلند کرنا ہو گا۔ ادب و صحافت میں امتیاز پیدا کرنا اس دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور اس کے لیے ورلڈ اسلامک فورم کوشاں ہے۔
جناب افتخار اعظمی
بزرگ شاعر و ادیب جناب افتخار اعظمی صاحب نے کہا کہ قرآن کے نازل ہونے سے عربی زبان میں علوم کے سرچشمے پھوٹے۔ قرآن نہ آتا تو علمِ بیان پر کتابیں نہ آتیں، علمِ نحو و علمِ صرف پر کتابیں نہ آتیں۔ قرآن فصاحت و بلاغت اور علمِ بیان کا شاہکار ہے۔ علمِ بیان دراصل علمِ نقد و نظر ہے، علمِ تنقید ہے۔ بیان کے معنی نہاں کو واضح کرنا۔ جو ادیب اور شاعر اپنے مافی الضمیر کو واضح نہیں کر سکتا، ناقص ہے۔ علامہ حمید الدین فراہی نے فرمایا، ہر دماغ ایک کلیا (چھوٹا برتن) ہے اور قرآن ایک سمندر ہے جو کلیا میں ظرف کے مطابق سماتا ہے۔ قرآن نے عربوں کے ادبی لہجے کو وقار اور تمکن بخشی، قرآن نے عربی ادب کو ایک مثالی اسلوب عطا کیا، عربوں کو علوم و فنون سے مالامال کیا، انہیں دنیا کا استاذ و معلم بنا دیا۔ قرآن ان کے رگ و ریشے میں اتر گیا۔
قرآن کی بدولت اسلام ہمارے اندر نفوذ کیے ہوئے ہے اور ہماری روح میں ڈھل گیا ہے۔ کمیونزم کسی کی طرح میں نہیں ڈھلا اس لیے زوال پذیر ہو گیا۔ قرآن کا ادبی پہلو کمیونزم پیدا کر سکا نہ سرمایہ داری۔ آج کل ادب و شاعری کے نام پر اسلام کے خلاف محاذ قائم کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے ترقی پسند شاعر سردار علی جعفر نے پچھلے دنوں اقبال کو چھوٹا فلسفی اور بڑا شاعر کہہ کر اپنے کمیونزم کی رحلت کی بھڑاس نکالی ہے۔ کمیونزم کی شکست و زوال کے بعد بھی ترقی پسند اسلام کے خلاف اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اقبال کی شخصیت کو گرا کر لینن کے مجسمہ گرانے کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ یہاں بھی ایک لابی سرگرم ہو گئی ہے، گزشتہ دنوں پروفیسر الف رسل نے کہا کہ اقبال بڑا شاعر نہیں ہے، اس کی شاعری محض مذہبی ہے۔ انہوں نے اس دعوے کی کوئی توجیہ، کوئی دلیل نہیں دی۔ معلوم نہیں ان کے نزدیک بڑے شاعر کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ مجھے پروفیسر الف رسل کے اس بیان پر حیرت بھی ہوئی اور مسرت بھی۔ حیرت اس پر کہ ایک پروفیسر نے اتنی سطحی بات کہی، اور مسرت اس پر کہ خدا نے مجھے پروفیسر نہیں بنایا۔ پروفیسر الف رسل کے اس بیان کو روزنامہ جنگ، آواز، راوی اور پورے اردو پریس نے اس طرح چھاپا گویا کوئی اچھوتی نئی تحقیق پیش کی ہو۔
ڈاکٹر حمید اللہ (پیرس) نے کہا کہ اگر صبح کہر آلود ہو تو یہ مطلب نہیں کہ سورج طلوع نہیں ہوا۔ الف رسل کے دماغ پر کہر طاری ہے۔ مغربیت کا یہ کہر ہٹے گا تو انہیں اقبال کے سورج کا احساس ہو گا۔ بنارس یونیورسٹی کے ہندو فلسفہ کے پروفیسر مشہور آریہ سماجی عالم ہوش نارائن نے خود مجھ سے کہا کہ کالی داس سے ٹیگور تک ہندوستان کی تین ہزار سالہ تاریخ میں اقبال کے برابر کوئی خلاق اور معمارِ قوم پیدا نہیں ہوا۔ وہ مذہبی و سیاسی لیڈر نہ ہونے کے باوجود اپنے کلام اور شاعری کی بدولت ایک ملک و ریاست کا بانی بن گیا۔ اس کے اشعار کے سانچے میں ایک قوم ڈھل گئی۔ اگر مسلمان کچھ نہ پڑھیں صرف اقبال کو پڑھیں تو کافی ہے کیونکہ اقبال کا کلام قدیم و جدید دونوں فکر کا مرقع ہے۔ اقبال نے اپنے کلام میں فلسفہ، علمِ کلام اور جدید و قدیم علوم کو سمو کر جو شاعری پیش کی ہے اگر یہ اسلامی شاعری ہے تو پھر اسلامی شاعری سے بڑھ کر کوئی شاعری نہیں۔ اقبال نے صرف چند نعتیں یا اسلامی قصیدے نہیں کہے، بلکہ اسلام کا پورا نظریہ حیات اپنے کلام میں سمو دیا ہے۔
اسی طرح مفکرِ اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی کے استاذ خلیل عرب یمنی اور عبد الوہاب غزالہ نے کہا، امراء القیس، نابغہ، شوقی، محلل و متبنی جیسے قادر الکلام شعراء رکھنے کے باوجود عربوں نے اقبال جیسا شاعر پیدا نہیں کیا جس کی شاعری قرآن کی آئینہ دار ہو۔ قرآن کو کسی شاعر کے کلام میں ظہور میں چودہ سو سال لگے۔ کلامِ اقبال کو ہم ’’ہست قرآن در زبان ہندوی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ شیخ عبد الوہاب غزالہ نے کہا، تعجب ہے قرآن کا عکس عرب شاعری پر نہیں ایک ہندی شاعر کے کلام میں جھلکتا ہے۔
پروفیسر الف رسل نے اتنا بڑا دعوٰی کیا لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں دی کہ اقبال کیوں بڑا شاعر نہیں۔ اگر وہ استدلال پیش کرتے تو ہم مل کر دلائل کا تجزیہ کرتے۔ اس دور میں اقبال کی شاعری اسلام کے احیا کی معاون ہے اور اقبال مغرب کا سب سے بڑا نقاد ہے۔ اس لیے مغربی دانشور اپنے تحت الشعور سے اسلام کے عناد کو، جو صلیبی جنگوں سے چلا آ رہا ہے، نہیں نکال سکے۔ ایک مخالف مغرب شاعر کو کوئی مغربی دانشور کیسے بڑا شاعر مان سکتا ہے، جبکہ وہ شاعر اسلام کا عاشق اور مغربی تہذیب و تمدن کا نقاد بھی ہو۔ یاد رہے کہ اقبال فرنگی تہذیب و سیاست کا مخالف ہے، مغربی علوم و عالمی علوم و فنون کا مخالف نہیں۔ پروفیسر الف رسل کا بیان اسلام کے احیا کے خلاف یورپی مغربی ذہن و فکر کا آئینہ دار ہے۔ مجھے تعجب و حیرت ہے کہ یہاں (برطانیہ میں) شعراء، ادباء، صحافی الف رسل کے بیان پر ساکت و دم بخود ہیں اور پورے اردو پریس و صحافت میں کوئی ردعمل نہیں ہوا۔
جناب نصر اقبال ڈار
ممتاز ادیب جناب نصر اقبال ڈار نے کہا کہ آج مغرب کی سپر طاقتیں اسلام سے خوفزدہ ہیں۔ روس کی شکست کے بعد مغربی میڈیا نے اسلام کا یہ ہوا کھڑا کیا ہوا ہے کہ اسلام مغرب کو نگل جائے گا۔ اسلامی احیا کے خدشہ کے پیش نظر مغرب کا تعصب دوبالا ہو گیا ہے۔ پروفیسر الف رسل کے بیان کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔
جناب انور نظام الدین
پاکستان سے آنے والے معزز مہمان اور تحریکِ اتحادِ اسلامی کے راہنما جناب انور نظام الدین صاحب نے کہا کہ مغرب نے ماضی میں اسپین میں جو کیا وہی آج بوسنیا میں کر رہا ہے۔ یورپ میں اسلام کا وجود مغرب کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ اسلام کی اس مظلومیت کے عالم میں بھی مغربی میڈیا کے اسلام پر حملے مغرب کے کھوکھلے پن کی دلیل ہے۔
جناب عادل فاروقی
تحریکِ ادبِ اسلامی کے کنوینر جناب عادل فاروقی نے کہا، اقبال نے وسطِ ایشیا کی ریاستوں کے ایک ہونے کا خواب دیکھا تھا۔ فارسی زبان وسطی ایشیا میں اب بھی مقبول ہے۔ اقبال کا کلام ان کو نئی طاقت و توانائی دے سکتا ہے۔ شاید پروفیسر الف رسل اسی اندیشہ کی بنا پر اقبال کی اہمیت گھٹانا چاہتے ہیں۔ اقبال نے فرنگی تہذیب و تمدن اور اس کی انسانیت نوازی کا پردہ چاک کیا ہے، اور مغرب کے مکر و فریب اور گھناؤنے عزائم کو عریاں کیا ہے۔ یہ ایک فرنگی دانشور الف رسل کیسے گوارا کر سکتا ہے۔
اجلاس کے آخر میں کاؤٹری کے ممتاز عالمِ دین مولانا عبد الوہاب صدیقی کے انتقال پر جناب عادل فاروقی صاحب نے تعزیتی قرارداد پیش کی اور اجلاس میں ان کی مغفرت و رفع درجات کے لیے دعا کی گئی۔