مولانا سندھیؒ کے تلامذہ، افادات اور تحریرات

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی طرف منسوب تحریریں اکثر وہ ہیں جو املائی شکل میں ان کے تلامذہ نے جمع کی ہیں۔ مولانا کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی تحریرات اور بعض کتب بہت دقیق، عمیق اور فکر انگیز ہیں اور وہ مستند بھی ہیں، لیکن املائی تحریروں پر پورا اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور بعض باتیں ان میں غلط بھی ہیں جن کو ہم املا کرنے والوں کی غلطی پر محمول کرتے ہیں، مولانا کی طرف ان کی نسبت درست نہ ہو گی۔ مولانا کا ذہنی پس منظر، فکر، ذہانت، قوتِ حدس بہت بلند تھی۔ ذہانت اور قوتِ حافظہ بھی بے مثال تھی اور ان کا ذہن قوتِ قدسیہ کا مالک تھا۔ دقیق اور مشکل ترین باتوں کی تہہ تک پہنچنا مولانا کا کمال تھا۔

مولانا کا انہماک اور توجہ زیادہ تر قرآن مجید کی طرف رہا ہے۔ مولانا نے زندگی کے کم و بیش پچاس سال قرآن کریم کے مطالعہ اور افہام و تفہیم میں بسر کیے تھے۔ بالخصوص امام ولی اللہؒ کی حکمت اور علوم و فلسفہ کی روشنی میں مشکلاتِ قرآن حل کرتے رہے، اور یہ کہ قرآن کے نظام اور اس کے قوانین کو عہدِ حاضر میں کس طرح سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔ مولانا نے قرآن کریم کے پڑھانے میں بھی بہت وقت صرف کیا تھا اور آپ سے پڑھنے والے مختلف استعداد کے حضرات ہوتے تھے۔ کبھی بڑے ذہین و فطین ۔۔ قسم کے علماء ہوتے تھے اور بعض اوقات عام معمولی استعداد کے طلبا بھی شریک ہوتے تھے۔ جدید تعلیم یافتہ حضرات بھی ہوتے تھے اور قدیم درسِ نظامیہ کے فارغین بھی۔ مولانا کو خدا تعالٰی نے ایسی صلاحیت بخشی تھی کہ دوسرے عالی مرتبت علما چھ ماہ میں بھی اتنا قرآن کریم سے روشناس نہیں کرا سکتے تھے جتنا مولانا ایک ماہ میں کر دیتے تھے۔

مولانا سندھی سے پڑھنے والے اور استفادہ کرنے والے حضرات کی فہرست بہت طویل ہے۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے مولانا سندھیؒ سے حدیث بھی پڑھی اور قرآن کریم بھی۔ اور پھر مولانا نے ان سے وعدہ لیا کہ ساری عمر قرآن کریم ہی پڑھاتے رہنا۔ مولانا لاہوریؒ نے آخر دم تک اس وعدہ کو کماحقہ پورا کیا۔ کم و بیش پانچ ہزار علما کو قرآن کی تفسیر پڑھائی اور عوام کو درسِ قرآن کے ذریعہ مستفید کیا جن کی تعداد بہت زیادہ ہے، اور خاص جماعتوں کو مشکوٰۃ شریف اور حجۃ اللہ البالغہ بھی پڑھاتے تھے، اور عوامی حلقوں کی اصلاح تو لاکھوں تک پہنچتی تھی۔

اسی طرح حضرت مولانا حکیم فضل الرحمٰن صاحبؒ نے بھی مولانا لاہوریؒ کے ساتھ ہی قرآن کی تفسیر مولانا سندھیؒ سے پڑھی تھی اور اس کے علاوہ مشکوٰۃ شریف بھی پڑھی تھی۔ تقریباً پچاس سال کے بعد بھی مولانا سندھیؒ کی تقریریں ان کو یاد تھیں۔ حکیم صاحب ایم بی بی ایس بھی تھے اور حکیم اجمل خان کے مایہ ناز تلامذہ میں سے تھے۔ طبیہ کالج دہلی میں پروفیسر تھے اور متعدد طبی کتب کے مصنف تھے۔ پھر حیدر آباد دکن میں نظامیہ طبی کالج کے وائس پرنسپل ہو گئے تھے۔ احقر نے اسی دور میں حکیم صاحب سے پڑھا تھا۔ حکیم صاحب مولانا سیف الرحمٰن ٹونکی کے بھانجے تھے۔ مولانا سیف الرحمٰن حضرت گنگوہیؒ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے اور جنگِ آزادی میں انہوں نے بہت کام کیے، وہ بھی افغانستان میں مولانا سندھیؒ کے ساتھ تھے۔

مولانا سلطان محمود صاحبؒ سابق صدر مدرس فتح پوری دہلی بھی مولانا سندھیؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔ انہوں نے بھی چند رسالے لکھے ہیں جن میں مولانا سندھیؒ کے افکار کو سمویا ہے اور اسی طرز پر قرآن کریم کی تعلیم بھی آخر تک دیتے رہے۔

مولانا عزیز احمد صاحبؒ برادر خورد مولانا احمد علی لاہوریؒ جو سفر کابل میں آپ کے ساتھ رہے، پھر مکہ مکرمہ میں بھی آپ کے ساتھ رہے، آپ کے خدمت گزار کے طور پر ہر وقت ساتھ رہتے تھے، انہوں نے خود بیان کیا تھا کہ قرآن کریم کے علاوہ شرح ملا جامی اور قطبی میں نے مولانا سے پڑھی تھی، حجۃ اللہ البالغہ بھی پڑھی تھی، اور کہتے تھے جب میں نے الخیر الکثیر مولانا سے پڑھنے کی کوشش کی تو اس میں کامیابی نہ ہو سکی، یہ بہت زیادہ مشکل تھی اور میں چونکہ قطبی سے آگے تعلیم مختلف وجوہات کی بنا پر جاری نہ رکھ سکا، اس الخیر الکثیر پڑھنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ مولانا عزیز صاحبؒ آخر تک مولانا سندھیؒ کے افکار و طریق کے حامل اور عامل رہے۔

مولانا خواجہ عبد الحئی فاروقی صاحبؒ بھی مولانا سندھیؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔ انہوں نے بھی قرآنی افکار کے سلسلہ میں سورۃ بقرہ کی تفسیر الخلافۃ الکبرٰی اور آخری پارہ کی تفسیر رقم فرمائی ہے اور ان میں مولانا سندھیؒ کے افکارِ عالیہ سے مکمل استفادہ کیا گیا ہے۔ مولانا صبغت اللہ بختیاری مدراسیؒ نے بھی مولانا سندھیؒ سے استفادہ کیا تھا۔ مولانا قاری عبد الکریم ترکستانیؒ اور مولانا محمد طاہر آف پنج پیرؒ بھی مولانا سندھیؒ سے مکہ مکرمہ میں پڑھتے رہے ہیں۔ مولانا محمد طاہر نے مولانا سندھیؒ سے حجۃ اللہ البالغہ بھی پڑھی تھی اور اس کی تقریر بھی ضبط کی تھی۔ اسی طرح مولانا محمد عبد اللہ عمر پوریؒ بہاولپور والے فاضل دیوبند نے بھی مکہ مکرمہ میں مولانا سندھیؒ سے پڑھا تھا۔ علامہ محمد صدیق صاحب آف یزمان نے اور مولانا عبید اللہ انورؒ اور مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ نے بھی مولانا سندھیؒ سے استفادہ کیا تھا۔

آخری دور میں سب سے زیادہ مولانا غلام مصطفٰی قاسمیؒ نے مولانا سندھیؒ سے پڑھا اور فائدہ اٹھایا۔ مولانا قاسمی فاضل دیوبند اور جامع المعقول والمنقول مدرس عالم ہیں۔ آپ نے کئی کتابوں پر حاشیے بھی لکھے ہیں۔ قدوری کا حاشیہ اور اس کا عالمانہ مقدمہ تو بہت متداول ہے۔ آپ نے مولانا سندھیؒ کی مشہور کتاب التمہید بھی اپنے حاشیہ کے ساتھ شائع کروائی جو کہ بہت بڑا کام ہے۔ اور الخیر الکثیر کا اردو ترجمہ جو آپ نے مولانا سندھیؒ سے پڑھ کر ضبط کیا تھا وہ بھی شائع کرایا  ہے۔ اور امام ولی اللہؒ کی متعدد کتابیں بمع مقدمات و ضروری تشریحات کے شائع کرائی ہیں۔ پہلے الرحیم میں اور آج کل الولی میں آپ کے مضامین اور ادارتی نوٹ شائع ہوتے ہیں جو بہت قیمتی علمی و ضروری مواد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مولانا کچھ عرصہ رؤیتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں، بارک اللہ فی علمہ و مساعیہ و عمرہ۔

مولانا مقبول عالم لاہوری مرحوم اور غازی خدا بخش صاحبؒ بھی حضرت سندھیؒ سے استفادہ کرنے والے لوگوں میں شامل تھے۔

مولوی بشیر احمد بی اے لدھیانوی مرحوم بھی مولانا کے معتمد تھے اور انہوں نے مولانا کی متعدد تحریرات، جو قرآنی سورتوں پر مشتمل ہیں، شائع کرائی ہیں۔ تفسیر سورۃ فاتحہ، تفسیر سورۃ قتال، تفسیر سورۃ فتح، تفسیر سورۃ مزمل و مدثر، تفسیر سورۃ العصر، تفسیر سورۃ اخلاص اور تفسیر معوذتین۔ حجۃ اللہ البالغہ کا ترجمہ و تشریح ابتدائی سترہ ابواب تک، جو مولانا عبد اللہ لغاری صاحبؒ نے مولانا سندھیؒ سے مکہ مکرمہ میں ضبط کیا تھا، اس کو بھی مولانا بشیر احمد صاحب نے مرتب کر کے لاہور میں بیت الحکمت کی طرف سے شائع کیا تھا۔ اس کے علاوہ مولانا بشیر احمد صاحب کے پاس قطعات کا ترجمہ و تشریح جو مولانا سندھیؒ سے انہیں حاصل ہوئی وہ انہوں نے خود تو شائع نہیں کرائی بلکہ وہ مولانا سید محمد متین ہاشمی کو انہوں نے دی تھی، وہ انہوں نے شائع کرائی ہے۔ رسالہ محمودیہ جو مولانا سندھیؒ نے عربی اور فارسی میں ترتیب دیا تھا، اس کا ترجمہ بمع متن شیخ بشیر احمد صاحب لدھیانوی نے بیت الحکمت کی طرف سے شائع کیا۔ مولانا بشیر احمد صاحب مرحوم نے اور بھی بعض مضامین اس سلسلے میں لکھے تھے۔ مولانا بشیر احمد صاحب زندگی کا اکثر حصہ اسکول میں پڑھاتے رہے، علومِ دینیہ کی تحصیل باقاعدہ نہیں تھی، عربیت سے کچھ مناسبت تھی، مولانا سندھیؒ سے کافی استفادہ کیا تھا لیکن فلسفہ ولی اللّٰہی کی غامض باتوں کے سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ احقر کے ساتھ مولانا بشیر احمد مرحوم کی متعدد بار ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے اس کا اقرار کیا تھا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں درسِ نظامیہ کی تعلم حاصل نہ کر سکا، لیکن مولانا بشیر احمد مرحوم کی طبیعت میں استقامت تھی اور املائی تحریریں بھی ان کی اکثر محتاط ہیں۔

خلاصۃ القرآن کے نام سے جو ایک مختصر سا کتابچہ ہے، وہ بھی ایسا ہے کہ مولانا سندھیؒ جس قرآن کریم پر تلاوت کرتے تھے، تو مختلف سورتوں پر وہ کچھ اشارات نوٹ کر دیتے تھے، چنانچہ ان کو جمع کر کے اور ترتیب دے کر مولانا عزیز اللہ صاحب آف پنوں عاقل نے اسے شائع کرایا ہے۔ یہ کوئی مکمل نوٹس نہیں بلکہ اشاراتی زبان میں بعض باتیں بہت مغلق سی ہیں اور بعض مشتبہ بھی ہیں۔

المقام المحمود تفسیر پارہ عم مولانا عبد اللہ لغاری مرحوم نے مکہ مکرمہ میں مولانا سندھیؒ سے سن کر اردو زبان میں قلم بند کی تھی، وہ بھی ڈاکٹر عبد الواحد ہالی پوتا صاحب کے تقدیم و تصحیح کے ساتھ شائع کرائی گئی ہے۔ اس میں بھی بعض باتیں قابل گرفت ہیں جن کی ذمہ داری مولانا سندھیؒ پر نہیں بلکہ مولانا لغاریؒ اور مذکورین پر ہو گی۔

’’شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک‘‘ یہ ایک مختصر سا مقالہ ہے جس کو مولانا سندھیؒ نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا اور پھر اس کو مولانا نور الحق علویؒ سابق پروفیسر اوریئنٹل کالج لاہور نے مولانا سے سبقاً سبقاً پڑھ کر اس کے تشریحی حواشی بھی لگائے۔ مولانا نور الحق علویؒ مولانا شیخ الہندؒ کے تلامذہ میں سے تھے اور نہایت ذہین، کثیر المطالعہ اور ثقہ بزرگ تھے۔ امام ولی اللہؒ کی تحریک کو سمجھنے کے لیے یہ کتابچہ بہت قیمتی معلومات فراہم کرتا ہے۔ تحریک کے تمام ادوار اور اشخاص اور اصول اس میں واضح کیے گئے ہیں۔ امام ولی اللہؒ اور ان کے خاندان کے وہ تمام حضرات جو ان کے افکار و نظریات کے حامل تھے اور اس تحریک کو آگے بڑھانے والے اور اس کی تشریح و توضیح کرنے والے امام ولی اللہ کے بیٹے پوتے اور ان کے تلامذہ اور پھر ان کے اتباع اکابر علمائے دیوبند اور ان کی مساعی و جہود کے بارہ میں اس قسم کے معلومات کسی دوسری کتاب سے  ملنے مشکل ہوں گے۔ بعض حضرات کو اس کی بعض باتوں سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ یہ بات ہر جماعت اور ہر فرد کے بارے میں ہو سکتی ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ مقالہ بہت گراں قدر اور وقیع معلومات پر مشتمل ہے۔

مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ (حکیم الاسلام) بھی مولانا سندھیؒ سے مستفید ہونے والوں میں سے تھے۔ آخری دور میں مولانا سندھیؒ نے قاری صاحب کو اپنے سامنے بٹھا کر حجۃ اللہ البالغہ کے چند خاص مقامات خود پڑھائے اور پھر ان کو مامور کیا کہ اس طرح حجۃ اللہ البالغہ کو پڑھاؤ۔ چنانچہ قاری صاحب آخری دور میں حجۃ اللہ البالغہ اسی طریقے پر پڑھاتے تھے۔ قاری صاحب کو جب پتہ چلا کہ مولانا سندھیؒ کی کتاب ’’التمہید‘‘ کسی بزرگ کے پاس موجود ہے تو انہوں نے اس کی نقل حاصل کی، چنانچہ قاری صاحب نے اس کتاب کے بارے میں اس طرح لکھا ہے:

’’التمہید لتعریف ائمۃ التجدید

یہ کتاب ایک تاریخی اور علمی و سیاسی مرقع ہے جو حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے افکارِ صالحہ کا ثمرہ ہے۔ اس کی جلد سے جلد طبع اور شائع ہونے کی ضرورت ہے۔ احقر نے بھی اس کی ایک نقل کتب خانہ دارالعلوم دیوبند کے لیے کرائی ہے۔

محمد طیب، مہتمم دارالعلوم دیوبند، حال وارد کراچی

۵ نومبر ۱۹۵۵ء‘‘

المقام المحمود، جو مولانا عبد اللہ لغاریؒ نے ضبط کی تھی، کچھ تو براہ راست مولانا سندھیؒ سے انہوں نے سن کر لکھی تھی اور کچھ بالواسطہ۔ اس کا ابتدائی حصہ ڈاکٹر منیر احمد مغل صاحب نے مرتب کیا ہے۔ مغل صاحب نے بڑی محنت اور تحقیق سے اس کو مرتب کیا ہے اور ڈاکٹر ہالی پوتہ سے بھی اس سلسلہ میں تعاون حاصل کیا ہے۔ ابتدا میں مقدمہ مضامین، مکمل فہرست اور مولانا سندھیؒ کے افکار و خیالات کا اجمالی تذکرہ، ان کی سوانح حیات اور تعلیمی سلسلہ اور دیگر اشغال اور کچھ سیاسیات پر بھی کلام کیا ہے۔ مولانا سندھیؒ کی عربی تصانیف کا ذکر بھی ہے اور پھر اس امالی کے مضامین کی سرخیاں بہت اچھے طریقے پر لگائی ہیں، لیکن تفسیری نکات میں بعض باتیں، جن کا ذکر مغل صاحب نے مولانا سندھیؒ کی نسبت سے کیا ہے، جیسے اذن اللہ کا مفہوم، گائے کو ذبح کرنے کا مفہوم، تلاوت کا مفہوم، بدی کا مفہوم، اور یوم الحساب سے مراد وغیرہ باتیں ایسی ہیں جو امام ولی اللہؒ کی حکمت اور ان کے طریق سے مناسبت نہیں رکھتیں اور نہ مولانا سندھیؒ کا منشا ہو سکتا ہے۔ مولانا سندھیؒ شاہ ولی اللہ اور مولانا شیخ الہندؒ کے طریق سے باہر نہیں نکلتے۔ یہ باتیں ایسی ہیں کہ املا کرنے والوں نے مولانا سندھیؒ کی تقریر کو یا تو سمجھا نہیں، یا اپنے ذہن کے مطابق کشید کیا ہے۔ یہ قابل اعتبار نہیں اور نہ لائق اعتنا ہیں۔ ڈاکٹر منیر صاحب مغل نے بہت سی جگہوں میں غلط سلط تفسیر بیان کی ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ گویا مولانا سندھیؒ کی بیان کردہ تفسیر ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ’’فانظر الٰی حمارک‘‘ عزیر علیہ السلام کے واقعہ میں لکھتے ہیں: ’’اپنی سواری تلاش کر کے اس پر سوار ہو جاؤ‘‘۔ اور موت و حیات کا معنی مردہ قوموں کا زندہ ہونا کس قدر غلط تفسیر ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں پرندوں کے بارہ میں ’’فصرہن‘‘ کو صرف سدھارنے اور مانوس کرنے کے معنی پر محمول کیا ہے۔ امام رازیؒ نے تو صرف اصفہانی کا ایک مرجوح سا قول نقل کر دیا ہے اور ادھر جمہور مفسرین جو معنی بیان کرتے ہیں اس کو چھوڑ کر صرف مجازی معنی مراد لینے کی کیا ضرورت ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس مقام پر مولانا سندھیؒ کی جو تقریر الہام الرحمٰن میں موسٰی جار اللہ صاحب نے نقل کی ہے وہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ اس میں مولانا سندھیؒ فرماتے ہیں کہ جس نے ان آیات کی تاویل کی ہے اور ان کو معنی مجازی پر محمول کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ یہ احیا حقیقی نہیں تھا بلکہ یہ تشبہ بالحیوٰۃ تھا، مولانا سندھیؒ فرماتے ہیں کہ اس کو ہم انبیاءؑ کے طریق سے بعید خیال کرتے ہیں، اگرچہ معنی مجازی مراد لینے والا اس تاویل سے کوئی فساد والا مطلب نہ لیتا ہو۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اعادہ حیات ہم جب نباتات میں مشاہدہ کرتے ہیں تو اللہ تعالٰی کے حکم سے انسان کیوں زندہ نہیں ہو سکتے۔ (الہام الرحمٰن صفحہ ۳۱۲ ج ۱)

مولانا سندھیؒ کی تصنیفات

(۱) ’’رسالہ محمودیہ‘‘ جس کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے۔

(۲) ’’امام ولی اللہ دہلویؒ کی حکمت کا اجمالی تعارف‘‘۔ یہ نہایت مفید کتاب ہے جس میں مولانا سندھیؒ نے پہلے تمہیدی امور ذکر کیے ہیں جن میں علوم و فنون حاصل کرنے کے اصول و استعداد کے بارہ میں امام ولی اللہؒ اور ان کے اکابر و اسلاف اور اخلاف سب کے طرزِتکمیل کا ذکر کیا ہے۔ پھر قرآن کریم اور تفسیر کے متعلق قواعد و ضوابط اور ضروری باتیں اور مشکلاتِ قرآن کو حل کرنے کے طریقے اور تفسیر کے اہم ترین مباحث کا ذکر ہے۔ پھر تیسرے باب میں علمِ حدیث، اور حدیث بطور شرح قرآن، اور طبقات حدیث، اور حجیتِ حدیث کے دقیق علمی مباحث، اور کتبِ حدیث، اور محدثین کے اذہان و مراتب، اور امہات کتبِ حدیث کے اصولی مباحث ذکر کیے گئے ہیں۔ باب چہارم میں علمِ فقہ کا مفید ہونا اور بطور قانون نفاذ، عرب و عجم کے اذہان کا تفاوت، اور سلاطین کا رجحان، اور فقہ و حدیث میں تطبیق، اور امام ولی اللہؒ کا فقہ میں مقام، اور حنفی فقہ کی ترجیح کی دقیق وجوہات وغیرہ کا ذکر ہے۔ باب پنجم میں تصوف اور فلسفہ کا بیان ہے۔ اس کتاب میں جابجا مولانا نور الحق علویؒ کے نہایت مفید حواشی بھی ہیں۔

(۳) ۱۳۰۷ھ میں طالب علمی کے دور میں مولانا نے کتاب ’’مراصد الوصول الٰی مقاصد الاصول‘‘ تصنیف کی تھی جس کو مولانا شیخ الہندؒ نے پسند فرمایا تھا۔ (التمہید ۔ صفحہ ۱۰)۔

مولانا سندھیؒ کی مفید تصانیف، جن کا ذکر خود انہوں نے اپنی کتاب ’’التمہید‘‘ میں کیا ہے، یہ ہیں:

(۴) ’’تعلیق علٰی شرح معانی الآثار للطحاویؒ‘‘

(۵) ’’تعلیق علٰی فتح القدیر لابن الہمامؒ‘‘

(۶) ’’بلوغ المرام‘‘ کی شرح ’’فتح الاسلام لابواب بلوغ المرام‘‘ (چند ابواب کی شرح ہے)

(۷) ’’سفر السعادۃ لفیروز آبادی‘‘ کے کچھ حصہ کی شرح

(۸) ’’تخریج ما فی الباب للامام الترمذیؒ‘‘ کا کچھ حصہ

(۹) ’’غنیۃ الطالبین‘‘ کی احادیث کی تخریج

(۱۰) ’’تہذیب رفع الیدین للامام البخاریؒ‘‘

(۱۱) ’’تنسیق احادیث بدء الوحی من الجامع الصحیح للامام البخاریؒ‘‘

(التمہید ۔ صفحہ ۱۵)

(۱۲) مولانا کی کتاب ’’التمہید‘‘ عربی زبان میں تقریباً پانچ صد صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب ہے، جس میں اسانید علمِ حدیث اور فقہ اور رجال کا ایسا مفید اور جامع تذکرہ ہے جو کسی اور کتاب میں شاید نہ مل سکے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ’’التمہید‘‘ کا مطالعہ بھی احقر نے کچھ تھوڑا بہت کیا ہے۔ ’’رسالت محمودیہ‘‘، ’’حکمت کا اجمالی تعارف‘‘ سے بھی بہت استفادہ کیا ہے، لیکن مولانا کی نمبر چار سے گیارہ تک کتب و رسائل احقر کو دستیاب نہیں ہو سکے۔ باقی مولانا کی املائی کتب و رسائل کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔

(۱۳) مولانا کا ایک خطبہ جو آپ نے ۱۹۱۴ء میں کابل جانے سے پہلے دیا تھا ’’قرآن پاک کا مطالعہ کیسے کیا جائے‘‘ کے نام سے طبع ہوا ہے۔ ایک سو دس صفحات کا یہ رسالہ بہت مفید ہے اور قیمتی معلومات پر مشتمل ہے۔ قرآن کریم کے بعض حقائق کو سمجھنے کے لیے کلید کا درجہ رکھتا ہے۔ بالخصوص واقعات و قصص کی تشریح اور ان کا احکام و قوانین کے ساتھ انطباق بہت عمدہ طریق پر کیا گیا ہے۔

(۱۴) اس کے علاوہ مولانا کے چند خطبات بھی ہیں جو انہوں نے جلاوطنی سے واپسی کے بعد مختلف کانفرنسوں اور اجتماعات میں پڑھے تھے۔ ان میں چونکہ بعض خطبات بحالتِ بیماری اور سفر اور بعض دیگر ذہنی کوائف کی ناہمواری کی حالت میں لکھے گئے تھے، اس لیے ان میں بعض جگہ اضطراب سا معلوم ہوتا ہے، لیکن اکثر خطبات بہت عمدہ ہیں اور اجتماعیات سیاسیات کے سلسلے میں گراں قدر معلومات فراہم کرتے ہیں۔ مولانا کی بعض تحریریں مثلاً جمعات کا دو صفحہ کا مقدمہ اتنا عمدہ ہے کہ امام شاہ ولی اللہؒ کے اکثر حکیمانہ رسائل و کتب کو سمجھنے میں بہت ممد ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مولانا کا ذہنی تفوق اور علمی وسعت کس قدر زیادہ ہے۔

شخصیات

(ستمبر ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter