امت مسلمہ کی کامیابی کا راز

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہم تعداد میں گو کثیر ہیں مگر افسوس کہ ستاروں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں اور من مانی اور انفرادی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم بظاہر اگرچہ ایک دوسرے سے واقف اور قریب تر ہیں لیکن درحقیقت ایک دوسرے سے بے گانہ اور دور ہیں۔ ہر شخص اپنی اپنی مفاد پرستیوں کے محور کے گرد گھومتا ہے اور حیاتِ ملّی کا نصب العین نگاہوں سے اوجھل ہے، اور یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ قوموں کی ہستی اور بقا کا مدار ان کی مرکزیت اور اجتماع پر ہوتا ہے، ان کی انفرادی اور جداگانہ حیثیت اور امتیازی خصوصیت اسی نقطۂ ماسکہ سے وابستہ ہوتی ہے۔ اگر ان کی جماعتی اور تنظیمی زندگی اور مرکزیت میں خلل اور انتشار و تشتت و خلفشار واقع ہو جائے تو ان کی قومی اور ملّی حیثیت کا شیرازہ بالکل بکھر جاتا ہے اور اندوہناک حوادث و نوازل کی باد صر صر اور دہریت و الحاد کا ہر جھونکا انہیں جدھر چاہے بے وزن پَر اور خفیف تنکے کی طرح اڑائے اڑائے پھرے گا اور ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ان کو کہیں قرار و چین کا موقع میسر نہ آئے گا، اور صحیح اسلامی نظام کے بغیر جس کی بنیاد کتاب و سنت پر قائم ہو ایسا عالمگیر اتفاق و اتحاد کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اہلِ مغرب اور مغرب زدہ طاقتوں کے اتفاق کا مرکزی نقطہ مفاد پرستی، مکر و خداع، حیلہ سازی و تصنّع اور خود غرضی کے سوا اور کچھ نہیں جس سے ہر دردِ دل رکھنے والے غیّور اور خوفِ خدا مسلمان کو ہمیشہ پرہیز کرنا لازم ہے۔

بھلا غور تو فرمائیے کہ جو مغربی طاقتیں اور غیر اسلامی حکومتیں درونِ خانہ خود اپنے لیے مطلب پرستی کے نامبارک اور منحوس بت سے فارغ نہیں وہ ہمارے ساتھ کیا بھلائی کریں گی؟ اور جن کی سیاست اور سفارت ہی دھوکہ بازی اور حیلہ جوئی پر مبنی ہو اور جن کے وعدے اور قول و قرار اور دستی و محبت ہرجائی کے عشق کا نمونہ ہو اور جن کی اخلاقی اور روحانی طاقت الفاظ کی ہیرا پھیری میں مضمر ہو اور جو منہ سے نکلی ہوئی سیدھی سادی بات کی بے جا تاویلات کے دبیز پردوں میں حق کو مستور رکھنا چاہتے ہوں وہ بھلا ہمارے ساتھ الفت و محبت اور ہمدردی و دلسوزی کیا کر سکتے ہیں؟ ان کو تو بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ

تو بخو یشتن چہ کر دی کہ بما کنی نظیری

بخدا کہ لازم آید زتو احتراز کر دن

اس لیے مسلمانوں پر ازبس لازم ہے کہ وہ کتاب و سنت کی روشن اور غیر مبدّل ہدایات پر عمل پیرا ہوں اور درحقیقت مسلمانوں کی فلاح و کامرانی اور ان کے بقا اور عزت کا اصلی سبب ہی یہ ہے کہ وہ خالص اسلامی زندگی میں منظم ہو کر رہیں ورنہ انتشار و تشتت اور پراگندگی و تفریق سے اسلامی اور قومی زندگی بالکل پامال ہو جائے گی اور مسلمانوں کی عالمگیر اور جہانگیر جاندار اور شاندار قوم بے وزن اور بے وقعت ہو کر رہ جائے گی جیسا کہ اس دورِ فتن و شرور میں اس کا بآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ بالکل ایک قطعی حقیقت ہے کہ

فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

پس اگر آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے مسلمانوں کے لیے جماعتی اور منظم زندگی شریعتِ مطہرہ کی نگاہ میں ایک ضروری اور لازمی چیز تھی تو یقین کیجئے کہ وہ آج بھی مسلمانوں کے لیے اسی طرح لازمی اور ضروری ہے اور تا قیامت لازم ہی رہے گی چاہے مسلمان عرب میں سکونت پذیر ہوں یا عجم میں، امریکہ میں فروکش ہوں یا افریقہ میں، یورپ میں رہتے ہوں یا ایشیا میں، چین میں بستے ہوں یا جاپان میں، مصر میں آباد ہوں یا ایران میں، پاکستان کے باشندے ہوں یا ہندوستان کے، غرضیکہ وہ  جہاں بھی رہتے ہوں، اسلامی زندگی اور روحانی اقدار اور کامل اتحاد و اتفاق کے بغیر ان کی کامیابی امرِ محال ہے۔ اگر مسلمانوں نے اس نازک دور میں اس صحیح منزل اور نصب العین کو پیشِ نظر نہ رکھا تو اقوامِ عالم سے متاثر ہو کر ان کے مادی اور انفرادی جذبات ان کی ناک میں نکیل ڈالے انہیں زندگی کی مختلف مگر غلط اور غیر اسلامی شاہراہوں پر اِدھر اُدھر لیے لیے پھریں گی۔ کبھی تو مادی تصورات کی ان حسین مگر مہلک وادیوں میں اور کبھی دنیائے دنی کے ناپائیدار تخیلات کی ان نگاہ فریب اور ہلاکت آفریں مناظر میں وہ مادیت اور مغربیت کے جذبات میں بہہ کر آج کچھ کر دیں گے اور کل کچھ۔ اور جس قسم کا نظریہ اور جذبہ ان کے دل میں موجزن ہو گا اسی قسم کی آواز زبان پر آئے گی۔ نہ تو وہ رہبر کو پہچانیں گے اور نہ راہزن کو اور مطلب پرستی کے غیر سعید بت ان کو خیر خواہ اور بدخواہ میں کوئی فرق نہ بتائیں گے۔

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

کیا امت مسلمہ کی یہ انتہائی نازک اور ناگفتہ بہ حالت علماء کرام، اربابِ اقتدار اور دردِ دل رکھنے والے مسلمانوں کی توجہ کے لائق نہیں؟ کیا مساجد کی کس مپرسی، نماز روزہ سے لاپروائی اور بہت سے شعائرِ دین سے غفلت حتٰی کہ بعض اصولِ دین اور ضروری عقائد سے عوام کی جہالت اصلاح کی محتاج نہیں؟ کیا خالص توحید اور صحیح سنت سے اکثر مسلمانوں کی بے نیازی اور تعلیم دین سے بے اعتنائی و اعراض مستحق تغیر و تبدّل نہیں؟ کیا اب وہ وقت نہیں کہ مسلمان اپنے تمام اندرونی اور بیرونی، مادی اور فروعی اثرات سے دلوں کو آزاد کر کے اعلائے کلمۃ الحق کے لیے اٹھیں۔ غیروں کے آسرے اور سہارے پر اعتماد کرتے ہوئے نہیں بلکہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اٹھیں اور اپنی قوت و طاقت کے بل بوتے پر بھی نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے اٹھیں۔ صرف قومیت اور وطنیت کا جذبہ لے کر نہیں بلکہ حزب اللہ اور جند اللہ بن کر اٹھیں اور اپنی جاہ و شوکت اور سلطنت و حکومت کے لیے نہیں بلکہ اعلائے حق اور خالص اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے اٹھیں۔ ملک گیری اور ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی کے لیے نہیں بلکہ رضائے حق اور شوکتِ اسلام کو اپنی آخری منزل سمجھ کر اٹھیں اور قرآن و سنت کی شمع فروزاں، حق گوئی اور اخلاق فاضلہ کی شمشیر ہاتھ میں لے کر ہر قسم کے فتنہ و فساد اور شر کا قلع قمع کر کے اسلام کو روشن کریں اور اللہ تعالیٰ ہی کے دینِ حق کو نافذ کر کے دم لیں۔

حتٰی لا تکون فتنۃ و یکون الدین کلہ للہ (الانفال ۵)

’’یہاں تک کہ فتنہ یکسر ختم ہو جائے اور دین خالص اللہ تعالیٰ ہی کا (نافذ ہو کر) رہ جائے۔‘‘

جملہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی کوشش اور سعی تبلیغِ دین اور اشاعتِ اسلام پر مرتکز کر دیں حتٰی کہ سب گمراہ اور بہکی ہوئی دنیا کا نقشہ ہی بدل جائے اور اس مادی دور کے پیدا کردہ وہ تمام مصائب و تکالیف وہ سب الجھنیں اور غلط طریقے جن کے ناپیدا کنار بھنور میں سب دنیا الجھ کر رہ گئی ہے یکسر ختم ہو جائیں اور خدا تعالیٰ کی بھٹکی ہوئی مخلوق روشنی کے اس عظیم الشان اور بلند مینار سے فائدہ اٹھائے جس کو حبل اللہ کے پیارے الفاظ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ تمام مسلمانوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ صحیح اسلامی طریقہ اور اسلامی اندازِ فکر کو بروئے کار لا کر اپنے لیے بہتر دینی اور روحانی ماحول اور سازگار فضا پیدا کریں۔ یہ آرزو ہر دردِ دل رکھنے والے مسلمان کے قلبِ مضطر میں موجود ہے کہ دینی اور روحانی، اصلاحی اور تعمیری کاموں میں کوئی ایسا منظم اور ٹھوس مگر زود اثر اور بے لوث لائحہ عمل جلد از جلد مرتب کیا جائے جو خلوص و سچائی، نیکی و استقامت سے مذہب و ملت اور قوم و وطن کی اسلامی اور روحانی بہتری کے لیے تمام نیک عزائم کی کامیابی اور شادمانی کا ضامن ہو سکے اور زندگی کے ہر شعبہ اور پہلو میں دینی اور مذہبی، روحانی اور اخلاقی بیداری کے عام نیک آثار نظر آنے لگیں، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ اسلام کی سربلندی کے لیے وہ بہتر سے بہتر اسباب پیدا کر دے۔ و ما ذَالک علی اللہ بعزیز۔

درگاہِ بے نیاز میں اے درد کیا نہیں

دستِ سوال جانبِ خالق اُٹھا کے دیکھ


اسلامی تحریکات اور حکمت عملی

(اکتوبر ۱۹۸۹ء)

اکتوبر ۱۹۸۹ء

جلد ۱ ۔ شمارہ ۱

’’الشریعہ‘‘ کا آغاز
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امت مسلمہ کی کامیابی کا راز
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ڈاکٹر اقبالؒ کے نام سے ایک مکتبِ فکر کی نئی دریافت
علامہ ڈاکٹر خالد محمود

شریعت بل کا نیا مسودہ
ادارہ

نویدِ مسیحاؐ
محمد عمار خان ناصر

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ
پروفیسر غلام رسول عدیم

قرآن و سنت کی تشریح اور اجتہاد علماء کا کام ہے یا پارلیمنٹ کا؟
الشیخ جاد الحق علی جاد الحق

تلاش

Flag Counter