یہودی اور عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی نہیں مانتے اور دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے محض تعصب کی بنا پر آپؐ کی رسالت کا انکار کیا ورنہ ان کی کتابوں میں کثیر تحریف کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں واضح پیشگوئیاں موجود تھیں اور آج بھی ہیں۔
کعبہ کی تعمیر مکمل ہونے پر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے مکہ میں کھڑے ہو کر ایک رسول بھیجنے کی دعا مانگی۔ قرآن میں وہ دعا ان الفاظ میں منقول ہے:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم
’’اے خداوندا ان میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیج جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب و سنت سکھائے اور ان کو پاکیزہ کر دے، بے شک تو غالب و دانا ہے۔‘‘
انجیل میں ہے کہ حضرت مسیحﷺ نے ایک مددگار کی خوشخبری دی۔ اب تو خیر اصل انجیل موجود نہیں ہے۔ قرآن پاک نے اس اصل انجیل کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ حضرت عیسٰیؑ نے فرمایا:
اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِّرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَد
’’میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں تورات کی تصدیق کرنے والا اور آنے والے رسول کی خوشخبری دینے والا، وہ رسول جس کا نام احمد ہے۔‘‘
موجودہ انجیل میں یوں مرقوم ہے:
’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا جو ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا۔‘‘ (یوحنّا ۔ باب ۱۴ آیت ۱۶)
پھر لکھا ہے کہ
’’لیکن مددگار یعنی پاکیزگی کی راہ جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھائے گا اور سب باتیں جو میں نے تم سے کہی ہیں وہ تمہیں یاد دلائے گا۔‘‘ (یوحنّا ۔ باب ۱۵ آیت ۲۶)
ان آیات میں حضورؐ کو مددگار کہا گیا ہے۔ قدیم اردو ترجموں میں مددگار کی جگہ ’’فار قلیط‘‘ لکھا گیا ہے اور یہ یونانی کے لفظ ’’پیریکلیوطاس‘‘ کا معرب ہے اور اس کا عربی میں صحیح ترجمہ احمد ہے جو کہ قرآن پاک میں مذکور ہے۔ تو انجیل یوحنّا میں جس مددگار کی بشارت دی گئی ہے اس سے مراد حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں (یوحنّا ۱۴ : ۱۶/۱۷) میں سچائی کی روح بولا گیا ہے اور ان کے تا قیامت نبی ہونے کی پیشگوئی ہے۔ مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ مددگار ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا یعنی وہ سچائی کی روح۔ اس کے بعد حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں:
’’لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔‘‘ (یوحنا ۱۵ : ۲۶)
اس میں معیحؑ نے آنے والے رسول کے بارے میں فرمایا کہ وہ ان کے نام سے آئیں گے اور یہ بھی کہا کہ میری باتوں پر اکتفا نہیں ہو گا بلکہ سب باتیں تو آنے والا رسول کرے گا یعنی شریعت کی تکمیل کرے گا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ تم میری تعلیمات بھول جاؤ گے تو وہ تمہیں یاد کرائے گا اور اسی لیے قرآن پاک نے اپنے آپ کو یہود و نصارٰی پر نگران کہا ہے اور عیسائی حضرت مسیحؑ کی تعلیم یعنی توحید کو بھول کر تثلیث پر ایمان رکھتے تھے، تو قرآن نے کہا کہ وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰٰثَۃ ’’تین خدا مت کہو‘‘۔ اور لوگ حضرت عیسٰیؑ کی بشارت سے انکار کرتے تھے تو حضورؐ نے فرمایا کہ میں ابراہیمؑ کی دعا اور عیسٰیؑ کی بشارت ہوں۔ اس کے بعد حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور اس کا مجھ میں کچھ نہیں۔‘‘ (یوحنا ۱۵ : ۳۰)
حضرت مسیحؑ آنے والے رسول کو دنیا کا سردار کہتے ہیں اور اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں کچھ نہیں سمجھتے۔ اور انجیل متروک برناباس میں اس سے بھی زیادہ صراحت ہے، انجیل برنباس کی ۴۴ویں فصل میں مذکور ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا کہ:
’’کیسا مبارک زمانہ ہے جس میں یہ (رسولؐ) دنیا میں آئے گا۔ اے محمد! اللہ تیرے ساتھ ہو اور مجھ کو اس قابل بنائے کہ میں تیری جوتی کا تسمہ کھولوں۔‘‘
اس کے بعد پھر مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی سچائی کی روح جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔‘‘ (یوحنّا ۱۵ : ۲۶)
کیسا صریح بیان ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسٰیؑ کی گواہی دی اور انجیل کی تصدیق کی۔ عیسائیوں کی اصلاح کی اور حضرتؑ کی اصل شخصیت اور عظمت کو دنیا میں آشکارا کیا۔ حضرت مریمؑ کی پاکیزگی کو بیان کیا۔ حضرت المسیحؑ کی صداقت تسلیم کرنے کو اسلام کا ضروری رکن قرار دیا اور حضرت عیسٰیؑ کے بارے میں تمام باطل عقائد کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا۔
پھر حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں کہ:
’’میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں گا تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ وہ آ کر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصوروار ٹھہرائے گا ۔۔۔۔۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کی روح آئے گا تو تم کو سچائی کی راہ دکھائے گا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہے گا بلکہ جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔‘‘ (یوحنا ۱۶ : ۷ تا ۱۳)
حضرت مسیح علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ وہ رسول میرے بعد آئے گا اور میرے جائے بغیر وہ نہیں آئے گا اور چونکہ لوگ میری اصلی تعلیمات کو بھول کر ان کا انکار کرتے ہوں گے تو وہ مددگار ان کو سزا دے گا اور لوگ میری تعلیمات کو بھول کر گمراہ ہو چکے ہوں گے تو وہ سچائی کی راہ دکھائے گا اور اپنی طرف سے کچھ نہیں کہے گا۔
قرآن کریم نے اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیُ یُّوْحٰی
اور فرمایا کہ آئندہ کی خبریں دے گا۔ تاریخ شاہد ہے اور موجودہ سائنس گواہ ہے کہ حضورؐ کی پیش گوئیاں حرف بحرف پوری ہوئی ہیں۔
ان تمام آیات سے بالکل واضح ہو گیا ہے کہ حضرت محمدؐ کی صداقت کو عیسائی تعصب اور بغض کی وجہ سے نہیں مان رہے اور وہ دلیل یہ بناتے ہیں کہ یہ پیش گوئیاں ذاتِ الٰہی کے تیسرے اقنوم روح القدس کے بارے میں ہیں، لیکن آپ بغور ان پیشین گوئیوں کو پڑھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ کسی انسان کے بارے میں ہیں اور خدا کی ذات پر ان کے اطلاق کے لیے مسیحی قوم کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔