جاوید احمد غامدی کا نقطۂ نظر
شاہ ولی اللہ پر قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے اصول فقہ کی کلاسیکی بحث ایک طرح سے اپنے منتہا کو پہنچ جاتی ہے اور ان کے بعد کلاسیکی تناظر میں اس بحث میں کوئی خاص اضافہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ تیرھویں اور چودھویں صدی ہجری میں سنت کی تشریعی حیثیت اور قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث ایک نئے فکری تناظر میں ازسرنو اہل علم کے غور وخوض اور مباحثہ ومناقشہ کا موضوع بنی ہے۔ اس نئے فکری تناظر کی تشکیل میں جدید سائنس اور جدید تاریخی وسماجی علوم کے پیدا کردہ سوالات نیز ذخیرۂ حدیث کے تاریخی استناد کے حوالے سے مستشرقین کے اٹھائے ہوئے اعتراضات کا کردار بنیادی ہے۔ جیسا کہ ہم نے تفصیلاً دیکھا، کلاسیکی تناظر میں بنیادی نکتۂ نزاع سنت کی تشریعی حیثیت کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا نہیں تھا، بلکہ احادیث کے ثبوت کے، قرآن کے مقابلے میں، ظنی ہونے کے پہلو سے بعض ایسی احادیث زیر بحث تھیں جو قرآن کے ظاہری عموم سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اس کے برخلاف، دور جدید میں بعض فکری حلقوں کی طرف سے جو بنیادی سوال اٹھایا گیا، وہ فی نفسہٖ سنت کی تشریعی حیثیت سے متعلق ہے، جب کہ احادیث کے ظنی الثبوت ہونے اور ذخیرۂ حدیث کے تاریخی استناد کے علاوہ احادیث میں، ظاہر قرآن میں تخصیص وزیادت کی مثالوں کو سنت کی تشریعی حیثیت کی نفی کے معاون اور موید دلائل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران میں عالم اسلام کے طول وعرض میں یہ بحث اہم ترین اعتقادی واصولی سوال کے طور پر اہل علم کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہے اور بلا مبالغہ سیکڑوں اہل علم نے ان سوالات کو اپنے اپنے انداز میں موضوع بحث بنایا ہے۔ تاہم اس بحث میں ہمارے پیش نظر اس خاص علمی رجحان کا ایک جائزہ پیش کرنا ہے جس کی اصولی ابتدا برصغیر کے جلیل القدر عالم اور مفسر مولانا حمید الدین فراہی کے ہاں ہوئی اور جو کئی اہم اضافوں کے ساتھ اپنی تفصیلی شکل میں جاوید احمد غامدی صاحب کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے۔
مولانا حمید الدین فراہی کے ہاں ان مباحث پر غور وفکر کا آغاز قرآن مجید کی تفسیر کے اصول وقواعد کی تعیین کے حوالے سے ہوا تھا جس نے جدید سائنس کے پیدا کردہ سوالات کے تناظر میں ایک خاص اہمیت اختیار کر لی تھی۔ سرسید احمد خان نے قرآن مجید کی ان آیات کی تفسیر کے ضمن میں جن میں مختلف انبیا کے معجزات کا ذکر ہوا ہے، یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ جدید سائنس نے قوانین فطرت کے مطالعے کی روشنی میں قطعی طور پر یہ دریافت کر لیا ہے کہ ان قوانین میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اور خود قرآن مجید بھی ’سنت اللہ‘ کے تبدیل نہ ہونے کی بات بیان کرتا ہے، اس لیے خرق عادت کا رونما ہونا ناممکن ہے۔ اس بحث میں سرسید نے ایک مستقل تفسیری اصول کے طور پر یہ نکتہ پیش کیا کہ چونکہ اللہ کا کلام، (یعنی قرآن) اور اللہ کا فعل، (یعنی قوانین فطرت) باہم متعارض نہیں ہو سکتے، اس لیے معجزات سے متعلق آیات کی جو تفسیرعلماے سلف نے عموماً کی ہے، وہ درست نہیں ہو سکتی اور ان کا ایسا مفہوم مراد لینا ضروری ہے جو سائنس کی فراہم کردہ نئی معلومات اور قوانین فطرت کے مشاہدے سے ہم آہنگ ہو۔
آیات کے ظاہری مفہوم میں تاویل کی بحث کلاسیکی اسلامی روایت میں بھی مختلف حوالوں سے موجود تھی اور خاص طور پر معتزلی واشعری متکلمین یہ اصولی موقف رکھتے تھے کہ آیت کا ظاہری مفہوم یقینی عقلی دلائل کے معارض ہو تو آیت کی تاویل ضروری ہے۔ فقہی مضمون رکھنے والی آیات کے حوالے سے اسی نوعیت کا موقف، نسبتاً مختلف تناظر میں، امام شافعی نے پیش کیا اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اگر حدیث میں کسی حکم کی تشریح اس طرح کی گئی ہو جو آیت کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہو تو آیت کو اسی مفہوم پر محمول کرنا ضروری ہے جو حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ قرآنی آیات کی ظاہری دلالت کے حوالے سے مفسرین کا عمومی رجحان بھی یہی ہے کہ ان میں ایسی قطعیت نہیں پائی جاتی جس سے کسی ایک ہی مفہوم کا حتمی طور پر مراد ہونا طے کیا جا سکے، چنانچہ تفسیری ذخیرے میں بیش تر آیات کی ایک سے زیادہ قریب یا بعید تاویلیں ذکر کرنے کا اسلوب عام ہے اور اس کے لیے الفاظ کے مختلف ممکنہ مفاہیم کے علاوہ تفسیری روایات وآثار سے بھی استشہاد کیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں مولانا فراہی نے قرآن مجید کے الفاظ واسالیب کی دلالت اور مختلف احتمالات میں سے کسی احتمال کی تعیین کے سوال سے بطور خاص اعتنا کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ قرآن کے الفاظ اور تعبیرات قطعی الدلالۃ ہیں جو ایک ہی متعین مراد کی نشان دہی کرتے ہیں اور یہ کہ فہم مدعا کے اس عمل میں قرآن کے اپنے الفاظ، اسالیب، سیاق وسباق، عرف اور نظم کلام فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ اس بنیادی موقف کی روشنی میں مولانا فراہی نے تاویل وتفسیر کے تمام معاون ذرائع، مثلاً احادیث وآثار اور تاریخی روایات پر قرآن کے اپنے الفاظ کی حاکمیت کو ہر حال میں قائم رکھنے کے اصول پر اصرار کیا اور یہ قرار دیا کہ تفسیر وحدیث کے ذخیرے میں موجود ایسی روایات جو قرآن مجید کی آیات کے مطالب یا ان کے پس منظر پر مختلف حوالوں سے روشنی ڈالتی ہیں، وہ تفسیر کے ماخذ کے طور پر بنیادی نہیں، بلکہ ثانوی درجہ رکھتی ہیں اور انھیں قبول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خود قرآن کے داخلی نظام اور متن کی اندرونی دلالتوں کی حاکمیت ان پر قائم رکھی جائے۔ مولانا نے اپنے فہم کے مطابق اس معیار پر پورا نہ اترنے والی متعدد تفسیری روایات کو جو اس سے پہلے عام طور پر مستند سمجھی جاتی تھیں، قبول کرنے سے انکار کیا اور ان پر تنقید کی۔
مولانا فراہی کے غور وفکر اور تحقیقات کا موضوع زیادہ تر تفسیر کے عمومی مباحث رہے اور اپنے نتائج فکر کو اصول فقہ کے مباحث سے مربوط کرنے کا انھیں زیادہ موقع میسر نہیں آیا، تاہم اپنی ناتمام تصنیف ’’احکام الاصول باحکام الرسول‘‘ میں انھوں نے حدیث اور قرآن کے باہمی تعلق کے مختلف پہلوؤں پر اپنے اصولی نقطۂ نظر کی وضاحت کی ہے اور احادیث کے ذریعے سے قرآن میں نسخ یا تخصیص کے نظریے کی تردید کرتے ہوئے ایسے تمام احکام کو قرآن مجید پر مبنی اور ان سے ماخوذ قرار دیا ہے جو بظاہر قرآن کے حکم میں تبدیلی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی ضمن میں مولانا نے ان احادیث کی بھی توجیہ کی ہے جن میں شادی شدہ زانی کو سنگ سار کرنے کی بات بیان کی گئی ہے۔ مولانا اس سزا کا ماخذ قرآن مجید میں سورۂ مائدہ کی آیت محاربہ کو قرار دیتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی چڑھانے، ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔ مولانا کی راے میں’رجم‘ بھی تقتیل، یعنی عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے ہی کی ایک صورت ہے۔ مولانا فراہی کی مذکورہ راے کو ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی نے ’’ تدبر قرآن‘‘ میں زیا دہ وضاحت کے ساتھ موضوع بحث بنایا اور یہ موقف پیش کیا کہ زانی کو سنگ سار کرنے کی بنیاد اس کا شادی شدہ ہونا نہیں، بلکہ ’مفسد فی الارض‘ ہونا ہے اور کسی بھی مجرم کو، چاہے وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ، اس کی آوارہ منشی اور اوباشی یا جرم میں کسی بھی نوعیت کی سنگینی شامل ہونے کی وجہ سے سنگ سار کیا جا سکتا ہے اور احادیث میں رجم کے جن واقعات کا ذکر ہوا ہے، ان کی نوعیت یہی تھی۔
مولانا کے اس موقف پرفطری طور پر علمی حلقوں میں ایک بحث پیدا ہو گئی اور طرفین سے مباحثہ واستدلال کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں درجنوں کتابوں اور علمی مقالات میں فریقین کی طرف سے اپنے اپنے موقف اور استدلال کی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ یہ وہ پس منظر تھا جس میں جناب جاوید احمد غامدی نے، رجم کی سزا کے تناظر میں، مکتب فراہی کے اہل علم کے موقف کی توضیح کرتے ہوئے قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث کو ایک بنیادی اور اصولی سوال کے طور پر موضوع بنایا اور تبیین، تخصیص اور نسخ کے باہمی فرق کی وضاحت کے علاوہ سنت کے ذریعے سے قرآن کے حکم میں نسخ یا تغییر کے موقف پر اپنی تفصیلی تنقید پیش کی۔ ’’رجم کی سزا‘‘ کے زیر عنوان ان کا یہ مقالہ جو ۱۹۹۳ء میں لکھا گیا، اب ان کی کتاب ’’برہان‘‘ میں شامل ہے۔ اس میں غامدی صاحب نے قرآن و سنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے جو موقف پیش کیا ہے، اس کے بنیادی نکات دو ہیں:
پہلا یہ کہ جن معاملات میں قرآن خاموش ہو، ان میں تو سنت شریعت کے ایک مستقل بالذات ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن کوئی مسئلہ قرآن میں زیر بحث آنے کی صورت میں سنت کا دائرہ صرف اس کی تبیین تک محدود ہے۔ وہ قرآن کے کسی حکم کو نہ منسوخ کر سکتی ہے اور نہ اس میں کسی نوعیت کا کوئی تغیر وتبدل کر سکتی ہے (برہان ۳۹)۔
دوسرا یہ کہ تبیین سے مراد متکلم کے اس فحویٰ کو واضح کرنا ہے جو ابتدا ہی سے اس کے کلام میں موجود ہو۔ کلام کے وجود میں آنے کے بعد اس میں کسی بھی قسم کا تغیر پیدا کیا جائے تو اسے تبیین نہیں کہا جا سکتا (برہان ۴۶)۔
ان دو نکتوں کی روشنی میں غامدی صاحب یہ استدلال کرتے ہیں کہ چونکہ زنا کی سزا کو خود قرآن مجید نے موضوع بنایا ہے اور زانی مرد وعورت کو سو سو کوڑوں کا مستوجب قرار دیا ہے، جب کہ جمہور فقہا کی تعبیر کے مطابق رجم کی سزا کو اس حکم کے ساتھ تبیین کے طریقے پر متعلق نہیں کیا جا سکتا، اس لیے یہ لازماً نسخ ہے جو سنت کے دائرۂ اختیار میں شامل نہیں (برہان ۵۴- ۵۵)۔ اس بنیادی موقف کی وضاحت کے علاوہ غامدی صاحب نے رجم سے متعلق روایات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’...اِس سے زیادہ سے زیادہ کوئی بات اگر معلوم ہوتی ہے تو بس یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین نے زنا کے بعض مجرموں کو رجم اور جلاوطنی کی سزا بھی دی ہے۔ لیکن کس قسم کے مجرموں کے لیے یہ سزا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفا نے کس طرح کے زانیوں کو یہ سزا دی؟ اِس سوال کے جواب میں کوئی حتمی بات اِن مقدمات کی رودادوں اور اِن روایات کی بنیاد پر نہیں کہی جا سکتی‘‘ (برہان ۸۸) ۔
رجم کی سزا کے تناظر میں قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے سوال سے تعرض غامدی صاحب کے ہاں اس بحث سے اعتنا کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کی تصنیف کے مرحلے میں انھوں نے ازسرنو اس بحث کا تفصیلی اور تنقیدی مطالعہ کیا اور گفتگو کا دائرہ اصول فقہ میں زیربحث تمام اہم سوالات تک وسیع کرتے ہوئے قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی تفہیم کا ایک ایسا فریم ورک پیش کیا ہے جو کئی حوالوں سے بڑی اہمیت کا حامل اور مستقل تجزیے کا متقاضی ہے۔
غامدی صاحب کی کتاب ’’میزان‘‘ میں اس حوالے سے جو اصولی نقطۂ نظر پیش کیا گیا اور کتاب کے جملہ مباحث میں اس کے تحت کتاب وسنت کے باہمی تعلق کو تفصیلاً واضح کیا گیا ہے، اس کے بنیادی اور اصولی نکات حسب ذیل ہیں:
۱۔ دین کا تاریخی ثبوت کے لحاظ سے قطعیت سے متصف ہونا ضروری ہے، اس لیے دین وہی ہے جو مسلمانوں کے اجماع وتواتر سے ثابت ہو۔ اس کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر دین کے مآخذ کو بھی قطعی ہونا چاہیے۔ چنانچہ ماخذدین کی حیثیت صرف قرآن اور متواتر سنت کو حاصل ہے، جب کہ اخبار آحاد کا کردار قرآن وسنت میں محصور دین کی تفہیم وتبیین تک محدود ہے۔
۲۔ سنت اپنے تاریخی وزمانی تحقق کے لحاظ سے قرآن پر متفرع نہیں ہے، بلکہ اس سے مقدم ہے۔
۳۔ سنت اپنے تشریعی کردار کے لحاظ سے قرآن کی فرع نہیں ہے، بلکہ قرآن کے متوازی ایک مستقل بالذات ماخذ ہے۔
۴۔ اخبار آحاد دین کے کسی مستقل بالذات حکم کو بیان نہیں کرتے، اس لیے انھیں قرآن، سنت یا عقل عام میں ان کی اصل اور اساس سے متعلق کرنا اور اسی کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔ اس سے مختلف نوعیت رکھنے والا کوئی حکم اخبار آحاد میں نہ اصولاً پایا جا سکتا ہے اور نہ واقعتاً موجود ہے۔
۵۔ اخبار آحاد میں قرآن کے بظاہر محتمل احکام کی توضیح یا ان پر زیادت یا ان کی تخصیص کی جتنی بھی مثالیں ملتی ہیں، ان سب کی بنیاد لفظی یا عقلی قرائن کی صورت میں خود قرآن مجید میں موجود ہے اور پوری طرح واضح کی جا سکتی ہے۔
۶۔ جو اخبار آحاد قرآن مجید یا سنت ثابتہ یا عقل عام کے ساتھ متصادم ہوں ، وہ قابل قبول نہیں ہو سکتیں۔
زیر نظر سطور میں ہم مذکورہ نکات کی تفصیل متعلقہ مثالوں کی روشنی میں پیش کریں گے۔
مآخذ دین کی قطعیت
شاطبی کی طرح غامدی صاحب کے زاویۂ نظر میں بھی دین کی قطعیت کا سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ شاطبی نے اس سوال کو یوں حل کیا ہے کہ شریعت، کلیات واصول اور جزئیات وفروع پر مشتمل ہے اور ان میں سے کلیات، جو اصل اور اساس کی حیثیت رکھتے ہیں، قطعی، جب کہ جزئیات وفروع ظنی ہیں۔ شاطبی کے نزدیک ظن، شریعت کی جزئیات کو تو لاحق ہو سکتا ہے، لیکن اگر کلیات کا بھی ظن کے دائرے میں آنا ممکن مانا جائے تو اس سے خود شریعت معرض شک میں آ جاتی ہے جو اس کے محفوظ ہونے کے منافی ہے۔ کلیات کی قطعیت کے اثبات کا طریقہ شاطبی کے نزدیک شرعی دلائل کا استقرا ہے اور شریعت میں جتنے بھی احکام قطعی اور یقینی مانے جاتے ہیں، ان کا مدار کسی جزوی نص کی قطعی دلالت پر نہیں، بلکہ ان کی قطعیت شریعت میں وارد متعدد نصوص کی مجموعی دلالت سے ثابت ہوئی ہے۔ شاطبی کسی بھی انفرادی دلیل شرعی سے قطعیت کے مستفاد ہونے کو ناممکن تصور کرتے ہیں، کیونکہ انفرادی دلیل یا تو اخبار آحاد کی طرح ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہوتی ہے اور یا باعتبار ثبوت قطعی ہونے کے باوجود متعدد اسباب سے اس کی دلالت کبھی قطعیت کے درجے کو نہیں پہنچ سکتی۔
غامدی صاحب شاطبی کے اس اصولی موقف سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ دین کا قطعی ہونا ضروری ہے، تاہم قطعیت کے اثبات میں ان کا منہج شاطبی سے مختلف ہے اور وہ اس ضمن میں تاریخی ثبوت کے لحاظ سے تواتر یا عدم تواتر کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک قرآن مجید کا نزول ’فرقان‘ اور ’میزان‘ کی حیثیت سے حق وباطل کے امتیاز کو قطعی طور پر واضح کر دینے اور اللہ کی ہدایت کو، جو پچھلی قوموں کے انحرافات وضلالا ت کے نتیجے میں مشتبہ ہو چکی تھی، قیامت تک کے لیے تاریخ کی سطح پر محکم اور محفوظ بنا دینے کے لیے ہوا تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے موقوف کر دیے جانے کے نتیجے میں اس بات کا اہتمام ناگزیر تھا کہ دین کے تاریخی ثبوت کی قطعیت کو یقینی بنایا جائے۔ غامدی صاحب کے نزدیک اس مقصد کے لیے قرآن مجید کے متن اور دین کے مستقل بالذات اور اساسی احکام کے حفظ وضبط، عمومی تعلیم اور تبلیغ واشاعت کا اس طرح اہتمام کیا گیا کہ آیندہ نسلوں تک ان کے انتقال کا بنیادی ذریعہ مسلمانوں کا اجماع اور تواتر قرار پایا، جب کہ ضمنی اور فروعی نوعیت کے امور میں ان کی تفہیم وتبیین کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا، اس کی نقل وروایت کو اخبار آحاد پر منحصر چھوڑ دیا گیا۔ یوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ہدایت جن صورتوں میں امت کو منتقل ہوئی ہے، غامدی صاحب اسے تاریخی ثبوت کے لحاظ سے تین صورتوں میں تقسیم کرتے ہیں، یعنی قرآن، سنت اور اخبار آحاد۔ ان میں سے قرآن اور سنت امت کے اجماع اور تواتر سے ثابت ہیں، جب کہ اخبار آحاد ظنی طریقے سے نقل ہوئی ہیں۔ غامدی صاحب کے نزدیک دینی احکام وہدایات کا اس طرح متواتر اور آحاد میں تقسیم ہونا اتفاقی امر نہیں، بلکہ شارع کا ایک ارادی اور مقصود طریقہ ہے جس کا تعلق دین کے مجموعی نظام میں متواتر احکام و شرائع اور ظنی الثبوت اخبار آحاد کے درجہ واہمیت اور ان کے کردار کی نوعیت سے ہے۔
غامدی صاحب کے نقطۂ نظر میں ’’دین‘‘ دراصل شارع کی طرف سے مقرر کیے گئے ان مستقل بالذات احکام سے عبارت ہے جو کسی دوسرے حکم کی فرع یا تفصیل پر مبنی نہیں ہیں۔ ایسے تمام احکام ان کے نزدیک تاریخی طور پر تواتر سے ثابت اور قرآن اور سنت جیسے قطعی الثبوت مآخذ میں موجود ہیں۔ اس تناظر میں غامدی صاحب ’’دین کے ماخذ‘‘ ہونے کی تعبیر کو قرآن اور سنت کے لیے خاص قرار دیتے ہیں، جس سے ان کی مراد یہ ہے کہ دین کی بنیادی، اصولی اور مستقل بالذات تعلیمات قرآن اور سنت میں محصور ہیں اور ان کا کوئی بھی جزو قرآن اور سنت سے باہر نہیں پایا جاتا۔ جہاں تک اخبار آحاد کا تعلق ہے تو وہ صرف قرآن اور سنت میں بیان کیے گئے دین کی تفہیم وتبیین کرتی یا عقل عام کے کسی تقاضے کی وضاحت کرتی ہیں اور دین کے کسی مستقل بالذات حکم کا ثبوت ان پر منحصر نہیں۔ یوں سنت اور حدیث میں فرق اور احکام شریعت کی تاصیل وتبیین میں ان دونوں کے دائرۂ کار اور کردار کی مختلف نوعیت غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کا بنیادی نکتہ قرار پاتا ہے۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’...رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی وعملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے:
۱۔ قرآن مجید
۲۔ سنت …
دین لاریب، اِنھی دو صورتوں میں ہے۔ اِن کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اُسے دین قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘ (میزان ۱۳، ۱۵)
’’...سنت کی حیثیت دین میں مستقل بالذات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِسے پورے اہتمام، پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ انسانوں تک پہنچانے کے مکلف تھے۔ اخبار آحاد کی طرح اِسے لوگوں کے فیصلے پر نہیں چھوڑا جا سکتا تھا کہ وہ چاہیں تو اِسے آگے منتقل کریں اور چاہیں تو نہ کریں۔‘‘ (میزان ۶۲)
سنت کے مقابلے میں اخبار آحاد کی نوعیت یہ ہے کہ :
’’...رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبار آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے، اِن کے بارے میں یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ اِن کی تبلیغ وحفاظت کے لیے آپ نے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا، بلکہ سننے اور دیکھنے والوں کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ چاہیں تو اِنھیں آگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں، اِس لیے دین میں اِن سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ دین سے متعلق جو چیزیں اِن میں آتی ہیں، وہ درحقیقت قرآن وسنت میں محصور اِسی دین کی تفہیم وتبیین اور اِس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ اِس معاملے میں یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اِس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اُسے قبول کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (میزان ۱۵)
جہاں تک سنت اور حدیث میں امتیاز کا تعلق ہے تو اس نکتے کی حد تک یہ کہنا درست ہوگا کہ غامدی صاحب اس امتیاز سے قطعی الثبوت اور ظنی الثبوت یا سنت متواترہ اور اخبار آحاد کی جس تقسیم کو واضح کرنا چاہتے ہیں، وہ فی نفسہٖ کوئی نئی تقسیم نہیں، بلکہ اصولی طور پر جمہور فقہا واصولیین کے ہاں مسلم ہے۔ جمہور محدثین اور فقہا کی اصطلاح کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تمام اقوال وافعال اور تقریرات کے لیے ’سنت‘ کی تعبیر اختیار کی جاتی ہے۔ اس پورے مجموعے کا ثبوت کے اعتبار سے قطعی اور ظنی میں تقسیم ہونا مسلم ہے جس کے لیے ’متواتر‘ اور ’خبر واحد‘ کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ جمہور اصولیین کے ہاں اس فرق کا عملی اثر عموماً دو پہلوؤں سے مانا جاتا ہے: پہلا یہ کہ اخبار آحاد کے انکار پر کسی کی تکفیر نہیں کی جا سکتی، اور دوسرا یہ کہ خبر واحد اگر متواتر روایت کے معارض ہو تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اصولیین کی ایک جماعت اور خاص طور پر احناف ایک تیسرا فرق بھی بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ عموم بلویٰ کی نوعیت رکھنے والے امور میں خبر واحد سے شریعت کا کوئی واجب اور لازم حکم اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ گویا احناف کے نزدیک اخبار آحاد کی قبولیت اور حجیت احکام دین کے ایک خاص دائرہ میں محصور ہے اور ان سے وہی احکام اخذ کیے جا سکتے ہیں جن کا تعلق دین کے فروع اور جزئیات سے ہو اور جن کا جاننا یا ان پر عمل کرنا ساری امت پر لازم نہ ہو۔ احناف کا استدلال یہ ہے کہ اگر دین کا کوئی حکم ایسا ہو جس کا جاننا اور جس کی پابندی کرنا لوگوں پر عمومی طور پر واجب ہو تو پھر یہ ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کا ابلاغ بھی اسی درجے میں، پورے اہتمام کے ساتھ کیا اور آپ کے بعد آپ کی امت اسے اسی طرح شہرت واستفاضہ کے ساتھ نسلاً بعد نسلٍ نقل کرتی رہے۔
ان تینوں فروق سے ایک بدیہی نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی احکام و ہدایات کی اشاعت اور ان کی تبلیغ وتعلیم کا اہتمام کرتے ہوئے دین میں ان کی اہمیت اور حیثیت کو ملحوظ رکھا ہے اور کسی ایسے بنیادی اور اصولی حکم کے ابلاغ کو اخبار آحاد پر منحصر نہیں چھوڑا جس کا جاننا یا اس پر عمل کرنا عمومی طور پر امت پر لازم ہو۔ غامدی صاحب کی تقسیم میں اس نکتے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دینی احکام وہدایات کی زمرہ بندی میں بنیادی اہمیت اس سوال کو دیتے ہیں کہ آیا کسی حکم کو امت کے عمومی تعامل کا حصہ بنایا جانا شارع کا مقصود تھا یا نہیں۔ پہلی صورت کو وہ کسی عمل کے ’’بطور سنت جاری کرنے‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں جس کے لیے لازم تھا کہ آپ اس حکم کا ابلاغ پوری قطعیت کے ساتھ کریں اور وہ تواتر کے ساتھ امت میں نسل در نسل منتقل ہو، جب کہ دوسری صورت میں ابلاغ میں اس نوعیت کا اہتمام مطلوب نہیں تھا۔ پہلی قسم کے احکام کے لیے غامدی صاحب ’سنت‘ کی تعبیر اختیار کرتے ہیں جو امت کے اجماع وتواتر سے ثابت ہے، اور دوسری قسم کے اعمال کو ’اسوۂ حسنہ‘ سے تعبیر کرتے ہیں جن کا تاریخی ماخذ احادیث وآثار ہیں۔ یوں سنت اور حدیث کی الگ الگ اصطلاحات جس تقسیم کی وضاحت کے لیے اختیار کی گئی ہیں، وہ فی نفسہٖ فقہا ومحدثین کے ہاں تسلیم شدہ ہے، البتہ اس بنیادی نکتے میں اشتراک کے بعد ’سنت‘ اور ’حدیث‘ کے دائرۂ کار اور ان کے باہمی تعلق کی تحدید و تعیین میں غامدی صاحب کا نقطۂ نظر جمہور سے مختلف ہے اور اپنے متعین کردہ حدود وقیود کے لحاظ سے وہ ’سنت‘ اور ’حدیث‘ کو ایک نئے اصطلاحی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں جس کی وضاحت ’’میزان‘‘ میں ’’مبادی تدبر سنت‘‘ اور ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ کے عنوانات کے تحت ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
’سنت‘ بطور مستقل بالذات ماخذ
غامدی صاحب کی تقسیم میں دوسرا اہم امتیازی نکتہ، سنت کی تعریف اور تعیین سے متعلق ہے۔ جمہور اصولیین اور خاص طور پر شاطبی کے نزدیک احکام شریعت کے بیان اور تشریعی نظام کی تاصیل میں بنیادی ماخذ قرآن مجید ہے، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرآن کے ایک ذیلی اور توضیحی ماخذ کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق دین اصلاً قرآن میں بیان ہوا ہے اور وہی اس کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل کرتا ہے، جب کہ سنت کا کام یا تو ان امور کی تشریح وتفصیل کرنا ہے جو قرآن نے بیان کیے ہیں اور یا ان ذیلی وضمنی امور سے متعلق شارع کی مراد کو واضح کرنا جنھیں قرآن نے تصریحاً بیان نہیں کیا۔ گویا جمہور اصولیین کے مطابق سنت واجب الاتباع ہونے کے اعتبار سے تو قرآن کے مساوی ہے، لیکن نظام تشریع کی توضیح وتکمیل میں اس کا کردار مستقل اور متوازی نہیں، بلکہ قرآن کریم کے تابع ہے اور اس کی فرع کی حیثیت رکھتا ہے۔
غامدی صاحب کا نقطۂ نظر اس دوسرے پہلو سے جمہور اصولیین سے مختلف ہے۔ ان کی راے میں سنت، زمانی لحاظ سے قرآن سے موخر اور قرآن کے احکام پر متفرع نہیں، بلکہ قرآن سے مقدم ہے۔ اس کی تفصیل وہ یوں کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلاً ملت ابراہیمی کی اتباع پر مامور کیا گیا تھا جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے ذریعے سے اہل عرب کے لیے مقرر کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت ان کے ہاں بحیثیت مجموعی ایک معروف ومسلم دینی روایت کے طور پر موجود تھی۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بالکل نیا دین لے کر نہیں آئے تھے اور نہ اس کے جملہ اصول ومبادی اور جزئیات وتفصیلات آپ نے پہلی مرتبہ دنیا کے سامنے پیش کیے تھے۔ آپ درحقیقت دین ابراہیمی کے مجدد تھے اور دین کے تمام بنیادی عقائد اور اس کے عملی ڈھانچے میں آپ کو ملت ابراہیمی ہی کی پیروی اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ یہ روایت عبادات، دینی شعائر اور معاشرتی زندگی کے معاملات کو محیط تھی، البتہ ان تمام دائروں میں اس میں کچھ بدعات اورانحرافات شامل ہو گئے تھے جن کی اصلاح کو اللہ اور اس کے رسول نے موضوع بنایا اور قرآن اور سنت، دونوں نے اس دینی روایت کو تجدید وتصویب، اصلاح وترمیم اور اضافہ وتکمیل کے ذریعے سے ایک نئی اور مستقل شریعت کے قالب میں ڈھالنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ غامدی صاحب دین ابراہیمی کی اسی روایت کو اپنی اصطلاح میں ’’سنت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ چنانچہ سنت کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ قرآن میں آپ کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ روایت بھی اُسی کا حصہ ہے۔‘‘ (میزان ۱۴)
سنت کی نسبت تاریخی اعتبار سے ملت ابراہیمی کی طرف کرنے سے ایک عمومی اشکال جس کا غامدی صاحب کو سامنا کرنا پڑا ہے، یہ ہے کہ شاید وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل تشریعی حیثیت کو نہیں مانتے اور آپ کے کردار کو صرف ملت ابراہیمی کی اتباع تک محدود تصور کرتے ہیں۔ اس اشکال کے جواب میں غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’...سنت کے ذریعے سے جو دین ملا ہے، اُس کا ایک بڑا حصہ دین ابراہیمی کی تجدید واصلاح پر مشتمل ہے۔ تمام محققین یہی مانتے ہیں۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس میں محض جزوی اضافے کیے ہیں۔ ہرگز نہیں، آپ نے اِس میں مستقل بالذات احکام کا اضافہ بھی کیا ہے۔ ... اِس لیے یہ الزام بالکل لغو ہے کہ پہلے سے موجود اور متعارف چیزوں سے ہٹ کر کوئی نیا حکم دینا یا دین میں کسی نئی بات کا اضافہ کرنا میرے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن مجید کے دائرۂ کار میں شامل ہی نہیں ہے۔‘‘ (مقامات ۱۶۲، ۱۶۳)
سنت کے زمانی تقدم کے اصولی مضمرات
یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنیادی طورپر ملت ابراہیمی کی پیروی پر مامور تھے، جمہور علماے اصول کے ہاں بھی مسلم ہے، تاہم وہ عموماً اس کا ذکر تاریخی پس منظر کے طور پر کرتے ہیں اور اصول فقہ کے اہم مباحث پر اس کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان سے زیادہ تعرض نہیں کرتے۔ غامدی صاحب اس نکتے کو اصول فقہ کے متعدد بنیادی سوالات کے ساتھ مربوط کرتے ہوئے اس سے بعض اہم نتائج اخذ کرتے ہیں ۔ ان میں سے دو نتائج یہاں بطور خاص قابل ذکر ہیں:
پہلا اہم اور بنیادی نتیجہ یہ ہے کہ سنت کو قرآن سے الگ ایک مستقل ماخذ تصور کرتے ہوئے امور دین کی تشریح میں اس بات کو ملحوظ رکھا جائے کہ کون سی بات کا ماخذ اصلاً قرآن ہے اور کون سی بات ابتداء ً سنت سے ثابت ہوئی ہے۔ چنانچہ کسی بات کے محض قرآن مجید میں مذکور ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآن اسے ابتداء ً بیان کررہا ہے اور سنت میں اس سے متعلق جو بھی تفصیلات وارد ہوئی ہیں، وہ قرآن پر متفرع ہیں۔ مستقل بالذات احکام کو ابتداء ً بیان کرنا قرآن کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ اس میں قرآن کے ساتھ سنت بھی شریک ہے۔ جس طرح قرآن دین کے بہت سے مستقل بالذات احکام بیان کرتا اور سنت، قرآن سے ثابت احکام کے طور پر ان کا ذکر کرتی ہے، اسی طرح سنت بھی ایسے مستقل بالذات احکام بیان کرتی ہے جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی، اور پھر قرآن ان کا ذکر ایک ثابت شدہ حکم کے طور پر کرتے ہوئے ان کے بعض مزید پہلوؤں سے تعرض کرتا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں مذکور احکام میں اس نکتے کی تنقیح قرآن کے صحیح فہم کے لیے بھی ضروری ہے اور سنت کے دائرے میں آنے والے امور کی تعیین میں بھی اس کی اہمیت بنیادی ہے۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’تیسرا اصول یہ ہے کہ عملی نوعیت کی وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہو سکتیں جن کی ابتدا پیغمبر کے بجاے قرآن سے ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلوم ہے کہ آپ نے چوروں کے ہاتھ کاٹے ہیں، زانیوں کو کوڑے مارے ہیں، اوباشوں کو سنگ سار کیا ہے، منکرین حق کے خلاف تلوار اٹھائی ہے، لیکن اِن میں سے کسی چیز کو بھی سنت نہیں کہا جاتا۔ یہ قرآن کے احکام ہیں جو ابتداء ً اُسی میں وارد ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی تعمیل کی ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور قربانی کا حکم بھی اگرچہ جگہ جگہ قرآن میں آیا ہے اور اُس نے اِن میں بعض اصلاحات بھی کی ہیں، لیکن یہ بات خود قرآن ہی سے واضح ہو جاتی ہے کہ اِن کی ابتدا پیغمبر کی طرف سے دین ابراہیمی کی تجدید کے بعد اُس کی تصویب سے ہوئی ہے۔ اِس لیے یہ لازماً سنن ہیں جنھیں قرآن نے موکد کردیا ہے۔ کسی چیز کا حکم اگر اصلاً قرآن پر مبنی ہے اور پیغمبر نے اُس کی وضاحت فرمائی ہے یا اُس پر طابق النعل بالنعل عمل کیا ہے تو پیغمبر کے اِس قول وفعل کو ہم سنت نہیں، بلکہ قرآن کی تفہیم وتبیین اور اسوۂ حسنہ سے تعبیر کریں گے۔ سنت صرف اُنھی چیزوں کو کہا جائے گا جو اصلاً پیغمبر کے قول وفعل اور تقریر وتصویب پر مبنی ہیں اور اُنھیں قرآن کے کسی حکم پر عمل یا اُس کی تفہیم وتبیین قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ (میزان ۶۰)
اس نکتے کا حاصل یہ ہے کہ بیان احکام میں اصل اور فرع کا رشتہ صرف یک طرفہ نہیں ہے، یعنی ایسا نہیں کہ قرآن مجید ہی مطلقاً اصل ہے اور سنت ہمیشہ اس کی فرع ہوتی ہے، بلکہ یہ تعلق دو طرفہ ہے، اس لیے ایک ہی حکم سے متعلق قرآن اور سنت، دونوں میں احکام وارد ہوں تو یہ تحقیق ضروری ہے کہ کسی مسئلے کو ابتداء ً قرآن یا سنت میں سے کس نے بیان کیا ہے۔ چنانچہ جیسے یہ امکان ہے کہ کسی حکم کو اصلاً وابتداء ً قرآن نے بیان کیا ہو اور سنت نے اس کی مختلف فروع کی وضاحت کی ہو، اسی طرح یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس مسئلے میں تشریع کی ابتدا سنت سے ہوئی ہو اور اسی نے اس باب میں بنیادی و تاصیلی ماخذ کا کردار اد اکیا ہو، جب کہ قرآن نے اس کو ایک ثابت شدہ حکم مان کر اس پر بعض مزید احکام کا اضافہ کیا ہو۔ یوں تشریع کی ابتدا کرنے میں قرآن اور سنت، دونوں مساوی درجے کے ماخذ ہیں اور دونوں اپنی مستقل حیثیت میں دین کے تاصیلی احکام بھی بیان کر سکتے ہیں اور پہلے سے ثابت شدہ احکام میں اضافات بھی شامل کر سکتے ہیں۔
غامدی صاحب نے اس نکتے سے ایک اور بہت بنیادی اور اہم نتیجہ اخذ کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’...سنت قرآن کے بعد نہیں، بلکہ قرآن سے مقدم ہے، اِس لیے وہ لازماً ا ُس کے حاملین کے اجماع وتواتر ہی سے اخذ کی جائے گی۔ قرآن میں اُس کے جن احکام کا ذکر ہوا ہے، اُن کی تفصیلات بھی اِسی اجماع وتواتر پر مبنی روایت سے متعین ہوں گی۔ اُنھیں قرآن سے براہ راست اخذ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی، جس طرح کہ قرآن کے بزعم خود بعض مفکرین نے اِس زمانے میں کی ہے اور اِس طرح قرآن کا مدعا بالکل الٹ کر رکھ دیا ہے۔‘‘ (میزان ۴۸)
سنت کے زمانی تقدم کے نکتے سے غامدی صاحب نے دوسرا اہم نتیجہ قرآن مجید کے ان بیانات کے حوالے سے اخذ کیا ہے جنھیں علماے اصول ’’مجمل مفتقر الی البیان‘‘ کی اصطلاح سے بیان کرتے ہیں۔ اصولیین ذکر کرتے ہیں کہ قرآن مجید نے بہت سے الفاظ کو ان کے عام لغوی مفہوم سے بالکل مختلف معنوں میں ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس اصطلاحی مفہوم کی خود وضاحت نہیں کی۔ مثلاً ’صلاۃ‘ کا لفظ عربی زبان میں ’دعا‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، لیکن قرآن مجید میں ’اقيموا الصلوٰۃ‘ کے حکم میں اس کا معروف لغوی معنی مراد نہیں۔ اسی طرح ’زكاۃ‘ کا لفظ عربی میں بڑھوتری کے لیے، ’صوم‘ کا لفظ کسی چیز سے رکنے کے لیے اور ’حج ‘ کا لفظ لغت میں کسی جگہ کا قصد کرنے کے لیے بولا جاتا ہے، لیکن قرآن میں زکوٰۃ کی ادائیگی، صوم کے اہتمام اور حج کے اتمام سے مراد یہ لغوی معانی نہیں ہیں۔ ان تمام الفاظ کو شرعی اصطلاح میں نئے مفاہیم کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے جو ان کے عام لغوی مفہوم سے مختلف ہیں۔ یوں یہ تمام الفاظ مجمل ہیں جو متکلم کی طرف سے اپنی مراد کی وضاحت کا تقاضا کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جو مفہوم واضح کیا، وہ ان کے بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔
سنت سے متعلق غامدی صاحب کے زیر بحث نقطۂ نظر کی روشنی میں الفاظ کی ایسی کوئی قسم قرآن میں موجود نہیں۔غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کے مطابق مذکورہ تمام امور دین ابراہیمی کے معروف مسلمات تھے جن میں اگرچہ بہت سی بدعات در آئی تھیں، لیکن اپنے بنیادی مفہوم اور شکل وصورت کے لحاظ سے یہ عبادات قرآن کے مخاطبین کے لیے ہرگز اجنبی نہیں تھیں، چنانچہ نہ تو قرآن کو ان عبادات کی کوئی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت تھی اور نہ مخاطبین ان کے مفہوم کو جاننے کے لیے کسی خارجی توضیح کے محتاج تھے۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’...نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، یہ سب اِسی ملت کے احکام ہیں جن سے قرآن کے مخاطب پوری طرح واقف، بلکہ بڑی حد تک اُن پر عامل تھے۔ سیدنا ابوذر کے ایمان لانے کی جو روایت مسلم میں بیان ہوئی ہے، اُس میں وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی وہ نماز کے پابند ہو چکے تھے۔ جمعہ کی اقامت کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ قرآن کے مخاطبین کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ نماز جنازہ وہ پڑھتے تھے۔ روزہ اُسی طرح رکھتے تھے، جس طرح اب ہم رکھتے ہیں۔ زکوٰۃ اُن کے ہاں بالکل اُسی طرح ایک متعین حق تھی، جس طرح اب متعین ہے۔ حج وعمرہ سے متعلق ہر صاحب علم اِس حقیقت کو جانتا ہے کہ قریش نے چند بدعتیں اُس میں بے شک، داخل کر دی تھیں، لیکن اُن کے مناسک فی الجملہ وہی تھے جن کے مطابق یہ عبادات اِس وقت ادا کی جاتی ہیں، بلکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اِن بدعتوں پر متنبہ بھی تھے۔ چنانچہ بخاری و مسلم، دونوں میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے جو حج کیا، وہ قریش کی اِن بدعتوں سے الگ رہ کر بالکل اُسی طریقے پر کیا، جس طریقے پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج ہمیشہ جاری رہا ہے۔
یہی معاملہ قربانی، اعتکاف، ختنہ اور بعض دوسرے رسوم وآداب کا ہے۔ یہ سب چیزیں پہلے سے رائج، معلوم و متعین اور نسلاً بعد نسلٍ جاری ایک روایت کی حیثیت سے پوری طرح متعارف تھیں۔ چنانچہ اِس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآن اِن کی تفصیل کرتا۔ لغت عرب میں جو الفاظ اِن کے لیے مستعمل تھے، اُن کا مصداق لوگوں کے سامنے موجود تھا۔ قرآن نے اُنھیں نماز قائم کرنے یا زکوٰۃ ادا کرنے یا روزہ رکھنے یا حج وعمرہ کے لیے آنے کا حکم دیا تو وہ جانتے تھے کہ نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور حج وعمرہ کن چیزوں کے نام ہیں۔ قرآن نے اِن میں سے کسی چیز کی ابتدا نہیں کی، اِن کی تجدید واصلاح کی ہے اور وہ اِن سے متعلق کسی بات کی وضاحت بھی اُسی حد تک کرتا ہے، جس حد تک تجدید واصلاح کی اِس ضرورت کے پیش نظر اُس کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔‘‘ (میزان ۴۶- ۴۷)
یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ جمہور اصولیین بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ملت ابراہیمی کی اتباع پر مامور ہونے اور صلوٰۃ اور حج جیسی اصطلاحات کے، اہل عرب کے ہاں معلوم ومعروف ہونے کے ان دونوں نکتوں کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان اصطلاحات کے مفہوم کی تعیین اہل عرب کے مذہبی عرف کے بجاے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کے حوالے سے کرتے ہیں۔ یعنی وہ نماز اور حج وغیرہ کے، جاہلی معاشرے میں ملت ابراہیمی کی روایت کا حصہ ہونے کا ذکر تو کرتے ہیں، جس سے اہل عرب واقف تھے، لیکن اس کے باوجود وہ انھیں ایسی اصطلاحات قرار دیتے ہیں جن کا شریعت نے اپنا ایک خاص مفہوم وضع کیا ہے جس کی وضاحت ہمیں سنت سے ہی ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ’الصلوٰۃ‘ کا ایک اصطلاحی معنی اگرچہ اہل عرب کے ہاں معروف تھا اور قرآن مجید میں ابتداء ً جب ’اقامت صلوٰۃ‘ کا حکم نازل ہوا تو وہ عبادت کے اسی معروف طریقے کی طرف اشارہ تھا، لیکن ظاہر ہے کہ شریعت میں نماز کے طریقے کو بعینہ اسی طرح قائم نہیں رکھا گیا، بلکہ اس میں تدریجاً بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور ان تبدیلیوں کے نتیجے میں نماز کی جو آخری اور حتمی شکل مقرر ہوئی، وہ بدیہی طور پر وہ نہیں تھی جس سے زمانۂ جاہلیت میں اہل عرب واقف تھے۔ یوں ابتداء ً نہ سہی، لیکن مآل کے لحاظ سے یہ کہنا بجا ہے کہ شریعت نے ’الصلوٰۃ‘ کے معروف مفہوم کو برقرار نہیں رکھا، بلکہ اسے ایک نئے مفہوم کی طر ف منتقل کر دیا ہے جس کو جاننے کے لیے بہرحال سنت ہی کی طرف رجوع ناگزیر ہے۔
جس نقطۂ نظر کی ترجمانی مذکورہ اقتباس میں غامدی صاحب نے کی ہے، اس کا ذکر ایک امکانی راے کے طور پر علماے اصول کے ہاں بھی ملتا ہے۔ مثلاً ابوبکر الجصاص اور الکیا الہراسی لکھتے ہیں کہ ’الصلوٰۃ‘ کو مجمل اور محتاج بیان بھی کہا جا سکتا ہے اور یہ بھی تصور کیا جا سکتا ہے کہ ان الفاظ سے ایک ایسی معہود حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس سے قرآن کے مخاطبین پہلے سے واقف تھے (جصاص، احکام القرآن ۱/۳۲۔ الکیا الہراسی، احکام القرآن ۱/۹)۔ امام ابن تیمیہ کا موقف یہ ہے کہ ’الصلوٰۃ‘ کے لغوی مفہوم میں شریعت نے کوئی تبدیلی نہیں کی، بلکہ ایک خاص طریقے سے عبادت کرنے کے معنی میں یہ لفظ پہلے سے اہل عرب کے عرف میں رائج اور مستعمل تھا، البتہ شارع نے اس عرفی مفہوم میں جزوی تخصیص کرتے ہوئے اسے اس مخصوص طریقے کے لیے استعمال کیا ہے جو شریعت میں اس کے لیے مقررکیا گیا ہے اور جو اہل جاہلیت کے طریقۂ نماز سے بہت سی تفصیلات میں مختلف ہے (الفتاویٰ الکبریٰ ۵/۳۱۷)۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے اس ضمن میں اس سوال سے بھی تعرض کیا ہے کہ شریعت نے نماز کی ہیئت میں جو مختلف تبدیلیاں کی ہیں، کیا ان کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شریعت میں لفظ ’الصلوٰۃ‘ کو اس کے حقیقی معنی، (یعنی اہل عرب کے عرفی مفہوم) کے بجاے مجازی معنی میں استعمال کیا گیا ہے؟ شاہ صاحب کا جواب یہ ہے کہ ظاہری ہیئت میں تبدیلیوں کی وجہ سے ان الفاظ کو مجازی نہیں کہا جا سکتا، بلکہ یہ حقیقی استعمال ہی ہے، کیونکہ اگر ہیئت کے ظاہری اختلاف کی وجہ سے یہ کہا جائے کہ لفظ اپنی حقیقت پر برقرار نہیں رہا تو پھر یہ کہنا بھی ممکن ہوگا کہ احناف کے طریقۂ نماز پر ’الصلوٰۃ‘ کا اطلاق شوافع کے نزدیک، اور شوافع کے طریقۂ نماز پر اس کا اطلاق احناف کے نزدیک مجازی ہے (فیض الباری ۱/۱۱۵)۔
یوں غامدی صاحب کا نقطۂ نظر اس بحث میں بالکل طبع زاد نہیں ہے، البتہ انھوں نے اصولیین کے ہاں پائے جانے والے ایک نسبتاً غیر معروف رجحان کو اپنے نظام فکر میں اس طرح ایک بنیادی او رمحوری نکتے کی حیثیت دے دی ہے جس سے اصولیین کی ذکر کردہ ایک خاص نوع، یعنی ’مجمل مفتقر الی البیان‘ کی ضرورت عملاً باقی نہیں رہتی۔
اخبار آحاد کی حیثیت
قرآن اور سنت کے ساتھ اخبار آحاد کے تعلق کے ضمن میں غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کی تفہیم کے لیے مناسب ہوگا کہ اصول فقہ کی روایت میں اس نوعیت کی دو سابقہ بحثوں کو پیش نظر رکھ لیا جائے۔
ایک بحث امام شافعی نے اٹھائی تھی کہ کیا اخبار آحاد کی اسنادی صحت کا اطمینان حاصل ہونے کے بعد انھیں کتاب اللہ پر پیش کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ امام شافعی کی بحث کا تناظر، حنفی فقہا کا یہ موقف تھا کہ اخبار آحاد کو کتاب اللہ کے معارض ہونے کی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ امام شافعی نے اس کے جواب میں، جیسا کہ وضاحت کی جاچکی ہے، یہ موقف اختیار کیا کہ اخبار آحاد کے، کتاب اللہ کے معارض ہونے کا مفروضہ ہی درست نہیں اور یہ کہ صحت سند کے ساتھ کوئی خبر واحد مروی ہو تو اسے نظر انداز کر کے کتاب اللہ کی مراد متعین کرنا ہی اصولی طور پر غلط ہے۔ تاہم اس ساری بحث میں خبر واحد کو کتاب اللہ پر پیش کرنے کا مطلب صرف عدم تعارض کا اطمینان حاصل کرنا تھا۔ امام شاطبی نے، شریعت کے مقاصد اور کلیات کے حوالے سے اپنے مخصوص نقطۂ نظر کے سیاق میں، اس بحث میں ایک اور اہم نکتہ بھی شامل کیا، اور وہ یہ تھا کہ کیا خبر واحد کی قبولیت کے لیے، کسی قطعی دلیل کے معارض نہ ہونے سے آگے بڑھ کر، کیا یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی کلی قاعدے اور اصول کے تحت آتی ہو، یعنی کسی کلی کی جزئی اور کسی اصول شرعی کے اطلاق کی نظیر بن سکتی ہو؟ دوسرے لفظوں میں، خبر واحد میں جو حکم بیان کیا گیا ہے، شریعت کے اصولوں اور قواعد میں سے کوئی قاعدہ اس کی بنیاد بن سکتا ہو؟ اس ضمن میں ان کے نقطۂ نظر کی تفصیل متعلقہ فصل میں بیان کی جا چکی ہے۔
غامدی صاحب کے نزدیک اخبار آحاد میں بیان کی جانے والی ہدایات کا قرآن، سنت یا عقل وفطرت میں سے کسی ایک پر مبنی ہونا اور اپنی اصل کے ساتھ اس کے تعلق کا واضح ہونا ضروری ہے۔ اس لحاظ سے ان کا نقطۂ نظر جمہور اصولیین کے مقابلے میں امام شاطبی کے موقف کے قریب تر ہے جو دلیل ظنی کے کسی اصل قطعی کی طرف راجع ہونے کو ضروری قرار دیتے ہیں اوراصل قطعی کے ساتھ دلیل ظنی کا تعلق واضح ہوئے بغیر علی الاطلاق اخبار آحاد کو واجب الاتباع نہیں سمجھتے۔ اس نکتے کو غامدی صاحب یوں تعبیر کرتے ہیں کہ احادیث سے ’’...دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا‘‘ (میزان ۶۲) اور ’’...یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے‘‘ (ایضاً ۶۲)۔ ان کے نزدیک حدیث دراصل ’’...نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح، آپ کے اسوۂ حسنہ اور دین سے متعلق آپ کی تفہیم وتبیین کے جاننے کا سب سے بڑا اور اہم ترین ذریعہ‘‘ (ایضاً ۶۲) ہے۔ مذکورہ قیود کے ساتھ، غامدی صاحب جمہور اصولیین کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ اخبار آحاد کو باعتبار ثبوت ظنی ہونے کی بنیاد پر رد کر دینا درست نہیں، بلکہ انھیں قبول کرنا واجب ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’اِس دائرے کے اندر، البتہ اِس کی حجت ہر اُس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اِس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل یا تقریر وتصویب کی حیثیت سے اِسے قبول کر لیتا ہے۔ اِس سے انحراف پھر اُس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اِس میں بیان کیا گیا ہے تو اُس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔‘‘ (میزان ۱۵)
بعض معترضین نے اخبار آحاد سے دین کا کوئی نیا حکم ثابت نہ ہونے کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ خبر واحد، قرآن سے ’’زائد‘‘ کسی حکم کا ماخذ نہیں بن سکتی، تاہم غامدی صاحب کا مدعا ہرگز یہ نہیں ہے۔ ’’دین کے نئے حکم‘‘ سے غامدی صاحب کی مراد ’’قر آن سے زائد حکم‘‘ نہیں، بلکہ دین کا ایسا مستقل بالذات حکم ہے جو کسی بھی اعتبار سے قرآن کے حکم پر مبنی اور اس سے متعلق نہ ہو سکتا ہو۔ اس ضمن میں بعض اعتراضات واشکالات کے جواب میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو قرآن دیا ہے۔ اِس کے علاوہ جو چیزیں آپ نے دین کی حیثیت سے دنیا کو دی ہیں، وہ بنیادی طور پر تین ہی ہیں:
۱۔ مستقل بالذات احکام وہدایات جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی۔
۲۔ مستقل بالذات احکام وہدایات کی شرح ووضاحت، خواہ وہ قرآن میں ہوں یا قرآن سے باہر۔
۳۔ اِن احکام وہدایات پر عمل کا نمونہ۔
یہ تینوں چیزیں دین ہیں۔ دین کی حیثیت سے ہر مسلمان اِنھیں ماننے اور اِن پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِن کی نسبت کے بارے میں مطمئن ہو جانے کے بعد کوئی صاحب ایمان اِن سے انحراف کی جسارت نہیں کر سکتا۔‘‘ (مقامات ۱۶۱ - ۱۶۲)
غامدی صاحب کے نزدیک اخبار آحاد میں بیان ہونے والے تمام احکام قرآن مجید یا سنت متواترہ کے احکام کی تفصیل وتفریع سے عبارت ہیں اور قرآن سے بظاہر زائد دکھائی دینے والے احکام بھی اپنی لِم کے اعتبار سے قرآن ہی کے حکم کی توسیع ہیں۔ اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں ہر جگہ انھوں نے شریعت کی تفصیل وتشریح کرتے ہوئے قرآن اور سنت متواترہ سے ثابت احکام کے ساتھ ساتھ ان کے تحت اخبار آحاد سے ثابت شدہ احکام کا بھی اہتمام اور التزام کے ساتھ ذکر کیا ہے اور اصل اور فرع کے باہمی تعلق کو بھی واضح کیا ہے جس کی کچھ مثالیں آیندہ مباحث میں پیش کی جائیں گی۔
نسخ، تخصیص اور تبیین
حدیث سے قرآن کے نسخ یا تخصیص کی بحث میں فراہی مکتب فکر نے علی العموم اور غامدی صاحب نے بالخصوص جمہور فقہا واصولیین سے مختلف موقف اختیار کیا ہے۔ جیسا کہ سابقہ مباحث میں تفصیلاً واضح کیا جا چکا ہے، امام شافعی اصولی طور پر حدیث کے ذریعے سے قرآن کے حکم کے نسخ، یعنی جزوی یا کلی تبدیلی کے جواز کے قائل نہیں، تاہم اس موقف کا احادیث کے رد وقبول کے حوالے سے کوئی خاص عملی اثر اس لیے مرتب نہیں ہوتا کہ امام شافعی قرآن کی ظاہری دلالت اور احادیث کے مابین کسی تعارض کی صورت میں قرآن کی مراد کی تعیین میں حدیث کو فیصلہ کن قرار دیتے ہیں۔ چونکہ قرآن کی اصل مراد وہ نہیں جس پر اس کے الفاظ ظاہراً دلالت کرتے ہیں، اس لیے ان کے نقطۂ نظر سے کسی حدیث کو اس لیے ترک کرنے کی کوئی گنجایش یا ضرورت بھی نہیں پڑتی کہ وہ قرآن کے معارض ہے۔ یوں حدیث، قرآن کے حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی، لیکن حدیث میں جو کچھ وارد ہو، وہ قرآن ہی کی تبیین ہے، کیونکہ قرآن کی مراد کو حدیث سے الگ مستقلاً طے کرنا درست نہیں۔ اس کے برخلاف اصولیین کا ایک دوسرا گروہ اور خاص طور پر حنفی فقہا قرآن کی اپنی مستقل دلالت کو اہمیت دیتے ہیں اور قرآن میں زیربحث احکام کے دائرے میں وارد احادیث کا ان سے تعلق واضح کرنے کے لیے تبیین کے ساتھ ساتھ نسخ کے اصول کو بھی استعمال کرتے ہیں، البتہ حنفی فقہا چونکہ نسخ کی صورت میں احادیث کی قبولیت کے لیے شہرت واستفاضہ اور تلقی بالقبول کی شرائط بھی عائد کرتے ہیں، اس لیے ان کے اصول کے مطابق نسخ کے شرائط پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے بعض احادیث کو رد کرنے کی گنجایش بھی پیدا ہو جاتی ہے۔
غامدی صاحب کا نقطۂ نظر ان دونوں اصولی مواقف سے مختلف ہے۔ وہ حدیث کے ذریعے سے قرآن کے نسخ کے مطلقاً عدم جواز سے متعلق تو امام شافعی کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں، لیکن قرآن کی ظاہری دلالت کو ہر حال میں احادیث کے تابع کرنے کے سوال پر امام شافعی کے بجاے حنفی اصولیین کی راے کو درست سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک حدیث، چاہے وہ خبر مشہور ہو یا خبر واحد، نہ تو کسی حال میں قرآن کے حکم میں کوئی تبدیلی کر سکتی ہے اور نہ حدیث کی بنیاد پر قرآن کے الفاظ کی ظاہری دلالت کو ظنی قرار دے کر ترک کیا جا سکتا ہے۔ نتیجتاً، حدیث کے قرآن کے ساتھ متعلق ہونے کی ایک ہی صورت ممکن ہے اور وہ تبیین ہے جس کی نوعیت کلام کے اندر ابتدا سے موجود مضمرات کو واضح کرنے یا کلام کے اشارات اور مخفی دلالتوں کو منصۂشہود پر لانے کی ہوتی ہے، جب کہ کلام کے واضح اور طے شدہ مفہوم میں کسی قسم کی جزوی یا کلی تغییر ’تبیین‘ کے دائرے میں نہیں آتی۔
جہاں تک سنت سے قرآن کے نسخ کے عدم جواز کا تعلق ہے تو اس حوالے سے غامدی صاحب نے امام شافعی کے استدلال کا اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں ایک اہم اضافہ بھی کیا ہے۔ ’’برہان‘‘ میں رجم کی سزا پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے یہ استدلال پیش کیا ہے کہ سنت کے لیے یہ اختیار کسی قیاس یا عقلی استدلال سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے خود قرآن کی تصریح درکار ہے جو موجود نہیں، بلکہ اس کے برعکس قرآن نے پیغمبر کے لیے اس اختیار کی نفی کی ہے۔ یہاں غامدی صاحب نے سورۂ یونس کی آیت ’مَا يَكُوْنُ لِيْ٘ اَنْ اُبَدِّلَہ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِيْ‘ (۱۰: ۱۵) سے استدلال کیا اور اس پر اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ جواز نسخ کے قائلین اس آیت سے استدلال کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہاں جس چیز کی نفی کی گئی ہے، وہ پیغمبر کا خود اپنی طرف سے کلام الہٰی میں تبدیلی کرنا ہے، جب کہ سنت کے ذریعے سے قرآن میں نسخ پیغمبر کی اپنی راے پر نہیں، بلکہ وحی الہٰی پر مبنی ہوتا ہے اور چونکہ قرآن اور سنت، دونوں وحی ہی کی دو صورتیں ہیں، اس لیے وحی خفی کے ذریعے سے وحی جلی کے نسخ پریہ اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اس معارضے کے جواب میں غامدی صاحب کے استدلال کا حاصل یہ ہے کہ وحی متلو اور وحی غیر متلو اگرچہ وحی ہونے میں مشترک ہیں، لیکن ان دونوں کے ابلاغ وانتقال اور حفاظت میں جو بنیادی فرق ملحوظ رکھے گئے ہیں، انھیں اس بحث میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے ایک متعین الفاظ میں نازل کی گئی، خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے مربوط کلام کی صورت میں مرتب کی گئی اور روایت باللفظ کے ذریعے سے تواتر کے ساتھ امت کو منتقل کی گئی ہے، جب کہ دوسری کا مفہوم پیغمبر کو القا کیا گیا، اس کی بالمعنیٰ روایت کی گئی اور وہ منتشر اقوال کی صورت میں امت کو منتقل ہوئی ہے۔ ان سب بنیادی امتیازات کے ہوتے ہوئے دونوں کو یکساں درجے میں نہیں رکھا جا سکتا(برہان ۴۹- ۵۱)۔
اس موقف کی تائید میں ایک اہم استدلال کا اضافہ غامدی صاحب نے قرآن کے میزان، فرقان اور مہیمن ہونے کے نکتے کی روشنی میں کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’...اس کی حقیقت محض یہی نہیں کہ وہ وحی متلو ہے۔ وہ تو سلسلۂوحی کا مہیمن، دین کی برہان قاطع، حق وباطل کا معیار، خدا اور خدا کے رسولوں کی طرف منسوب ہر چیز کے لیے فرقان اور زمین پر خدا کی میزان ہے۔ ’اَللّٰہ الَّذِيْ٘ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِيْزَانَ‘ (اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری، یعنی میزان نازل کی)۔ ہر چیز اب اِسی میزان پر تولی جائے گی۔ اُس کے لیے کوئی چیز میزان نہیں ہے۔ ہر وہ شخص جو قرآن کے اِس مقام سے واقف ہے، بغیر کسی تردد کے مانے گا کہ وحی خفی تو ایک طرف، اگر کوئی وحی جلی بھی ہوتی تو وہ خدا کی اِس میزان میں کوئی کمی بیشی کرنے کی مجاز نہ تھی۔ وہ بہرحال تسلیم کرے گا کہ قرآن کو صرف قرآن منسوخ کر سکتا ہے۔ قرآن پر قرآن سے باہر کی کوئی چیز، جب تک وہ خود اِس کی اجازت نہ دے، کسی طرح اثرانداز نہیں ہو سکتی۔‘‘ (برہان ۵۱- ۵۲)
’’میزان‘‘ میں غامدی صاحب نے استدلال کو اس دوسرے نکتے تک محدود رکھا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:
’’...قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے، اِس کے کسی حکم کی تحدید وتخصیص یا اِس میں کوئی ترمیم وتغیر نہیں کر سکتا۔ دین میں ہر چیز کے رد وقبول کا فیصلہ اِس کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہوگا۔ ایمان وعقیدہ کی ہر بحث اِس سے شروع ہوگی اور اِسی پر ختم کر دی جائے گی۔ ہر وحی، ہر الہام، ہر القا، ہر تحقیق اور ہر راے کو اِس کے تابع قرار دیا جائے گا۔‘‘ (میزان ۲۵)
(جاری)