قومی ضمیر پر موت طاری
۱۹۶۷ء کے افسوس ناک المیہ سے مولانا ؒ پر جو اثر ہوا، اس نے ان کی زبان حق ترجمان سے بہت کچھ کہلوایا ،اس وقت مولا نا ؒ کی زبان سے جو جملے ادا ہوئے، آج ان کی معنویت میں مزید اضا فہ ہو گیا ہے ،اس وقت عالم عر بی ہی نہیں خود ہندوستا ن کی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے کہ گویا قو می ضمیر خواب خرگوش میں مبتلا ہے یا پھرحس نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے ،اس پر طرہ وطرفہ یہ ہے کہ اگر کسی نے حا لا ت کی سنگینی پر زبان کھول دی اور حقائق بیان کردیے تو لوگ اس کے در پہ ملامت و استہزاء ہو گئے ،قومی مسا ئل اور اہم مسا ئل کی تنقیدکو شخصی مسئلہ بنا دیا،اس طرح کا دفاعی انداز اور مصلحت پسندی یا خا موشی کس طرح زیب ہے کہ مصر میں اسلامی تحریک (خواہ کسی کا اس سے نظریاتی اختلا ف ہی کیوں نہ ہو)کو اکھاڑ پھینکا گیا ،اور سعودی عرب نے اس پرخوشی کے شادیانے بجائے ،غیرت اسلامی کو جھنجھوڑ کررکھ دیا گیا اور ہمارے قلم وزبان نے احتساب کے لئے حر کت بھی نہ کی ،احتساب تودورصحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی ہمت بھی نہ ہوئی۔ مولانا ؒ فر ماتے ہیں:
’’میں ان جیسے المیوں سے کوئی خطرہ نہیں محسوس کرتا بلکہ مجھے اصل خطرہ اس ضمیر سے ہے جس نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا ہے ،ضمیر کا کام ہے احتساب اور غلطیوں کی گرفت ،خواہ وہ اپنے باپ اور بھائی سے سرزد ہوئی ہو یا کسی ذی وقار پیشوا اوررہنما سے ،اگر یہ ضمیر مردہ ہو جائے اپنا فطری عمل چھوڑ دے،اپنی افادیت کھو بیٹھے ،اور اس میں حقائق کے اعتراف کی صلا حیت باقی نہ رہ جائے ،تو یہ سب سے بڑا خطرہ ہے،یہ انسانیت کی موت ہے ،ایک انسان مرتا ہے تو ہزاروں انسان پیدا ہو جاتے ہیں ،لیکن جب ضمیر مردہ ہو جائے ،اجتماعی اور قومی ضمیر سے زندگی کے آثا ر نا پید ہو جائیں ،جب قوم سے محا سبہ کی صلا حیت اور جرأت ختم ہو جائے ، جب تنقید و احتساب کی جگہ شابا شی ،اور دادو تحسین کے پھول برسنے لگیں تو یہ ایسا المیہ ہو گا جس کے بعد کسی المیہ کا تصور ہی ممکن نہیں ۔‘‘(عالم عربی کا المیہ ص۱۱۸۔۱۱۹)
یہی نہیں، آگے اور وضاحت سے فر ماتے ہیں:
’’سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑا خطرہ تو یہ ہے کہ یہ ضمیر اپناکا م کر نا بند کردے،اور یہ صرف عرب کے لئے یا صرف مسلمانوں کے لئے خطرہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے خطرہ ہے کیو نکہ اللہ نے اسی مسلم ضمیر ہی کو اپنے رازوں کا امین بنایا ہے اس نے ہرمسلمان کو دنیا کا متولی اور ہمیشہ کے لئے عدل و انصاف کا میزان بنا یا ہے ،جو کا مل احتیاط اور ایمانداری کے ساتھ اور پوری جرأت و بے باکی کے ساتھ فیصلہ کرے کسی فرد کی رعایت نہ کرے اور نہ کسی کو کسی پر تر جیح دے،لیکن جب یہ میزان ہی اپنا کام چھوڑدے تو پھرعدل و انصاف کی توقع کس سے کی جائے ،جب نمک اپنی نمکینی ضا ئع کر دے تو آپ ہی بتلائیں کھانا کس چیز سے نمکین کیا جائے ؟یہاں یہ مصیبت نہیں کہ کھانا نمکین نہیں ہے بلکہ مصیبت یہ ہے کہ نمک کی نمکینی جاتی رہی ،مصیبت یہ ہے کہ عدل و انصاف کی میزان سے کار کردگی کی صلاحیت ختم ہو گئی ،وہ غیر جانبدارنہیں رہی کسی کی دوست ہو گئی تو کسی کی دشمن۔‘‘ (عالم عربی کا المیہ ص۱۲۱۔۱۲۲)
قیادت کا محا سبہ کیجیے
حقیقت یہ ہے کہ جب قومی و ملی مسائل میں سیا ستدانوں اور حکمرانوں کا احتساب کرنا قوم بند کردیتی ہے تو وہ مطلق العنان ہو جاتے ہیں ،شاہی نظام تو نام ہی ہے مطلق العنانیت کا ،اگر چہ اس پر اسلامیت اور مصنوعی و برائے نام شوری کی خوبصورت چادر ڈالی جائے لیکن دوررہ کر، آزاد ملک میں رہ کر، ایک ملت کے فرد کی حیثیت سے جب کچھ لوگوں نے موجو دہ کشمکش میں بعض عرب مما لک کا احتساب کر نا چاہا تو بہت سے لوگ چیں بہ جبیں ہو گئے ، جب کہ ان کا جرم ایسا تھا کہ ان سے مجرموں کا سا معاملہ کیا جا تا ،انھوں نے اسلام کی تاریخ کو داغدار کر نے کا کام کیا تھا ،ملت اسلا میہ کا سر شرم سے جھکا دیا تھا ،لیکن اب بھی ان کی عقیدت ان کا احترام سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔
اگر قیا دتوں کا احتساب نہ کیا گیا تو حالات کا یہ رخ خراب تر ہو تا جائے گا ،حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی ہمت پیدا کر نی پڑے گی ،کیونکہ ہمارے عقیدے کے مطابق ملت کا ادنیٰ سا مسئلہ بھی کسی فرد کا نہیں ملت کا ہو تا ہے اور اہم ہوتا ہے چہ جائے کہ قائدین کو با عزت بری ان معاملا ت میں کیا جائے جو ملت کی تاریخ میں ایک اور داغ کا اضا فہ کریں اور اہل حق کے مقابلہ یہود و نصا ریٰ کے مفاد میں کا م کریں:۔
’’ہم رومیوں کی تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ وہ بہت سے دیوتاؤں پر اعتقاد رکھتے تھے،بحرو بر اور جنگ و امن ہر ایک کے لئے ان کا ایک الگ دیوتا تھا ،لیکن ان دیوتاؤں کی پرستش کے باوجودکبھی کبھی ان پر بھی جھنجھلا جاتے تھے ،اگر ان کو کسی مہم میں کامیابی نہ ہوتی یا ان کی امیدیں بر نہ آتیں تو دیوتاؤں پر بھی ان کا غصہ بھڑک اٹھتا تھا ،تاریخ کا واقعہ ہے کہ رومی شہنشاہ آگسٹس (AUGUSTUS)کا بحری بیڑہ سمندر میں غرق ہو گیا تو وہ غصہ سے اتنا مشتعل ہوا کہ سمندر کے دیوتا نیپچون(NEPTUNE)کی مورتی چور چور کر دی ،یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے،ناکامی اور جھنجھلاہٹ انسان کی فطرت ہے ،اور ہم تو مومن و مؤحد ہیں ،اور ایک اللہ کی ذات پر ایمان رکھتے ہیں ،ہمارے لئے تو یہ کسی صورت میں جائز نہیں کہ کسی قیادت پر اللہ و رسول پر ایمان کی طرح کامل ایمان لے آئیں ،ہمارا فرض ہے کہ اپنے قائدین کا محا سبہ کریں اور خود اپنے آپ کا محا سبہ کریں اور اپنے سیا سی ،اخلاقی اور معاشرتی حالات کا غائر نظر سے جائزہ لیں اور انھیں میں مصائب کے اسباب تلاش کریں ،کسی فرد یا جماعت کی اندھی اطاعت و گمراہی کے ایسے غار میں پہونچادے گی جہاں ہدایت کی روشنی نہیں پہنچ سکے گی ،اور نہ اس سے نجات آسان ہوگی اور قیادت کا محاسبہ نہ کرنا اور اس کی غلطیوں کا مؤاخذہ نہ کرنااور اس سے وضاحت نہ طلب کرنا ،یہ ایسی اطاعت ہے ،جس کے بارہ میں قرآن کا فیصلہ ہے: ’’فاتبعوا امر فرعون وما امر فرعون برشید، یقدم قومہ یوم القیامۃ فاوردھم النار وبئس الورد المورود، واتبعوا فی ھذہ لعنۃ ویوم القیا مۃ، بئس الرفد المرفود‘‘ (سورہ ہود ۹۷۔۹۹) پھروہ فرعون کے کہنے میں چلے اور فرعون کی بات درست نہیں تھی ،وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے ہوگا ،پس ان اکو آگ پر پہونچا دے گا اور یہ پہونچنے کی بری جگہ ہے ،اور پیچھے سے اس دنیا میں اس کو لعنت ملی ،اور قیامت کے دن ،یہ برا انعام ہے جو ملا۔‘‘ (عالم عربی کا المیہ ص۱۲۳۔۱۲۴)
آگے مزید صراحت کے ساتھ فر ماتے ہیں:
’’اگر ہمارے اور آپ کے درمیان اسلامی عقیدہ کااشتراک نہ ہو تا اور یہ با ت نہ ہوتی کہ ہمارا اور آپ کا انجام ایک ہے ،اور ایک وسرے کے ساتھ وابستہ ہے اور یہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا جواب ہم سے طلب کیا جاتا ہے تو شاید مجھے محاسبہ کا حق نہ ہوتا اور حقیقت تو یہ ہے کہ قومیں اسی محاسبہ ہی کے سہارے زندہ رہتی ہیں ،یوروپی اقوام میں اگر اتنی بیداری اور مخلصا نہ تنقید کا چلن نہ ہوتا تو وہ تاریخ ماضی کی کہانی بن چکی ہوتیں ،کڑی تنقید ان کی زندگی کا ایک اہم سبب ہے ،وہ اپنے کسی رہنما کو یہ موقع نہیں دیتیں کہ ہمیشہ اقتدار پر قابض رہے ،اور اس کی تعظیم وتکریم ہوتی رہے ،یہ صرف یوروپی اقوام ہی کی خصو صیت نہیں بلکہ مسلمانوں کے سربراہ اور قائدین کی بھی یہی حا لت تھی۔‘‘ (عالم عربی کا المیہ ص۱۲۶۔۱۲۷)
احتساب اور محا سبہ: ہمارا امتیاز
اس میں کیا شک کہ احتساب سے ہی قومیں زندہ رہا کر تی ہیں ،ان کا ضمیر بیدار رہتا ہے اور اپنا کام کرتا رہتا ہے ،اوراگر محاسبہ نہ ہو تو پھر من ما نیوں کا راج ہوتا ہے،اور رفتہ رفتہ بے ضمیری عام ہو تی ہے ،آج حکومتوں کے سربراہوں کو کچھ کہنے اور ان سے کچھ پوچھنے کی بات درکنار !ادنی سے اداروں اور جماعت کے سربراہان کا حا ل یہ ہے کہ ان کے محا سبہ پر یا کسی خطا کی نشاندہی پر نہ صرف وہ بلکہ بے شمار لوگ چراغ پا ہو جایا کرتے ہیں ،حتی کہ کسی معاملہ میں واضح طور پر استفسار کی گستاخی تصور کی جاتی ہے، کیا ضروری ہے کہ جو بھی صاحب منصب ہو، وہ صائب ہی ہو اور اس کا فیصلہ درست ہی ہو، ذخیرۂ احادیث و سیر صحابہؓ میں واضح اشارات وواقعات موجود ہیں کہ ایک عام صحابی خلیفۂ وقت سے استفسارکر لیا کر تے تھے، اور بر سر منبر ٹوک دیا کرتے تھے بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام کسی بھی واقعہ کے ظہور کے متصلا بعد وضاحت کی درخواست کرتے تھے، اور آپ سوال کی مناسبت سے جواب مرحمت فرمادیا کرتے تھے۔
مصر کا المیہ اوراس میں بعض عرب مما لک با لخصوص سعودی عرب کے کردار پر جب بعض حلقوں نے آواز اٹھائی تو ان آوازوں کو دیوانے کی بڑ اور شدت پسندی سے تعبیر کیا گیا،تائید حق کی جگہ حق بات کہنے والوں کو خا موش رہنے کی تلقین کی گئی اور مصلحت بے جا کو درست و صائب موقف سمجھا گیا، اس میں کیا شک کہ حرمین پر اہل تشیع کے غلبہ کا خطرہ ہے لیکن کیا اس خطرہ کا حل بھی امریکہ پیش کرے گا؟ اور کیا اس خطرہ کو آڑ بنا کر بڑے سے بڑے جرم کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ اسی مصلحت کے سبب موقع پرستوں نے مجرمین کی مداحی کی اور وقتی ورکیک فائدے اٹھا کر جرم و ظلم کو مدح و توصیف کا رنگ دے دیا ،حضرت مولانا ؒ نے کیسا زبردست استشہاد کیا ہے اور کیسی طاقتور بات کہی ہے:۔
’’جب ایک بڑھیا خلیفۂ ثانی کو ٹوک سکتی ہے تو ایک مسلمان یا مؤرخ کو یہ حق کیوں حا صل نہ ہو کہ وہ اپنے قائدین کا محاسبہ کرے ......عمرابن الخطابؓکے زمانہ میں ہر مسلمان کو یہ حق حا صل تھا کہ ان سے جواب طلب کرے ،ایک دفعہ وہ مسجد نبویؐ میں خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور کہا کہ سنو لوگو!اور اطاعت کرو ،ایک صحا بیؓ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم نہیں سنتے ،خلیفہ نے کہا کیوں؟لوگوں نے کہا آپ کے جسم پر مال غنیمت کی دو چادریں نظر آرہی ہیں ،جبکہ ہم لوگوں کے حصہ میں ایک ہی ایک آئی ہے ،حضرت عمرؓ نے کہا کیا یہاں عبد اللہ بن عمر موجود ہیں ؟وہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ایک چادر میرے حصہ کی ہے ،جو میں نے انھیں دے دی ہے ،صحا بی نے کہا ٹھیک ہے ،اب ہم ہر حکم کی اطاعت کے لئے تیا ر ہیں۔
اسی ضمیر اور اسی جرأت و ہمت کے ساتھ یہ امت زندہ رہی اور حا دثات و مصائب کا سامنا کرتی رہی اور اپنی طویل تاریخ میں ترقی یافتہ اور بیدار شعور کا ثبوت دیتی رہی ہے اس نے ہمیشہ حق و انصاف کا ساتھ دیا ہے ،اور غلطیوں اور کو تاہیوں کے ارتکاب پر گرفت کی ہے ،اور انہی اوصاف کے ساتھ مستقبل میں بھی زندہ رہ سکتی ہے‘‘۔ (عالم عربی کا المیہ ص۱۲۸)
کمزوریوں پر آزادانہ تنقید
حضرت مولاناؒ نے ہمیشہ کمزوریوں پر بھر پوراور آزادانہ تنقید کی ،اس سلسہ میں وہ کبھی لومۃ ولائم کی پرواہ نہیں کرتے تھے ،ہندوستان میں جب فکرو مطالعہ سے عاری بعض حضرات نے جمال عبدالنا صر کی مخالفت پر مولانا پر تنقید یں کیں تو با وجود اس کے کہ مولانا اپنی ذات پر کی گئی کسی تنقید کا جواب دینے کا مزاج نہیں رکھتے تھے ،لیکن اس پر مولانا سے رہا نہ گیا ،پھر انھوں نے ایک بھر پور مضمون لکھ کر ’’ندائے ملت‘‘ میں شائع کیا ،اس کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے:۔
’’۲۳ جو لائی ۱۹۵۱ ء کو میں نے دمشق یونیورسٹی کے ہال میں ممبران پارلیمنٹ،اساتذۂ جامعہ ،علماء اور عمائدین شہر کے جلسہ میں جس کی صدارت یونیورسٹی کے عیسائی وائس چانسلر مشہور عرب فاضل قسطنطین زریق کر رہے تھے ،فلسطین کے مسئلہ اور اس کے حل پر اپنا مقالہ پڑھا جو ’’فلسطین کے المیے کے بنیادی اسباب ‘‘ کے نام سے دمشق،بیروت سے اور بغداد میں باربار چھپا ہے ،میں نے اس مقا لہ میں موجو دہ عربوں کی بنیادی کمزوریوں ،ان کے رہنماؤں کی خا میوں ،اور کوتاہیوں پر آزادانہ تنقید کرتے ہوئے مسئلۂ فلسطین کا حل پیش کیا تھا ،عربوں نے اس مشورے کو جو ایک مسافر اور غیر ملکی کی زبان سے پیش ہوا تھا،اور جس میں تاریخ کی تلخی بھی تھی ،نہ یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ’’یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے،،باہر کے کسی آدمی کے مشورہ دینے کا کیا حق ہے؟‘‘اور نہ وہ اس صاف گوئی اور احتساب پر چیں بہ جبیں ہوئے ،اسی طرح ۵۶ء میں مؤتمر اسلامی دمشق کے جلسہ میں ’’مسئلہ فلسطین کا تعلق عالم اسلام کے دینی شعور کی بیداری سے‘‘کے عنوان سے میں نے پھر ایک مقالہ پڑھا اور اس کی اسی طرح پذیرائی ہوئی ،اسی طرح دمشق ،بیروت،عمان،بغداد اور مکہ معظمہ میں عرب دوستوں کے سامنے اپنے ناقدانہ خیالات ،اپنے مخلصانہ مشورے اور اپنے تأ ثرات و جذبات پیش کر نے کا بار بار اتفاق ہوا،اور انھوں نے ہمیشہ فراخ دلی اور عالی ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کا پر جوش خیر مقدم کیا‘‘۔ (عالم عربی کا المیہ ص۱۵۸)
سیاسی ہلچل پر مومنانہ اور مفکرانہ تبصرہ
۱۹۸۶ء میں مولانا کراچی پہنچے تو وہاں موجودہ حکومت کے خلاف عوام موشگافیاں کر رہے تھے اور بے نظیر کے پاکستان آنے پر اس کا ایسا استقبال ہو رہا تھا مولانا کے الفاظ میں ’’جیسے آسمان سے کوئی نجات دہندہ فرشتہ نازل ہوا ہے‘‘ اس صورت حال سے مولانا کی طبیعت پر اثر پڑا، لیکن پھر مولانا خاموش نہ رہ سکے اور ذاتی ملاقاتوں نہیں بلکہ مجمع میں احقاق حق کیا اور فرمایا:
’’جس معاشرہ کا حال یہ ہو کہ کوئی سریلی صدا لگا دے، کوئی بازیگر آکر سبز باغ دکھائے ، کوئی شخص بھی قیادت کا جھنڈا بلند کردے تو اس کا ایسا استقبال کیا جائے کہ جیسے دیر سے اس کا انتظار تھا، اور یہی ایک خلا تھا، جو پر نہیں ہوا تھا، وہ آواز لگائے تو یہ معلوم ہو کہ جیسے دل سینوں سے نکل پڑیں گے اور سارے حدود و قیود پیچھے رہ جائیں گے، سیدنا علی مرتضیؓ نے اہلِ کو فہ کو مخاطب کر کے کہا تھا، انتم اتباع کل ناعق تم ہر آواز لگانے والے اور زور سے بولنے والے کے پیچھے لگ جاتے ہو‘‘ پھر میں نے بتایا کہ قرآن شریف میں عہد موسوی کا ایک بڑا عبرت انگیز قصہ آتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وجاوزنا ببنی اسرائیل البحر فاتوا علی قوم یعکفون علی اصنام لھم قالوا یٰموسیٰ اجعل لنا الھا کما لھم اٰلھۃ قال انکم قوم تجھلون۔ ان ھؤلاء متبر ما ھم فیہ وبٰطل ما کانوا یعملون
ترجمہ: ’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پارا تار دیا پھر وہ ایسے لوگوں پر گذرے جو اپنے بتوں کو لئے بیٹھے تھے (اس پر بنی اسرائیل) کہنے لگے! اے موسیٰ ہمارے لئے بھی ایک دیوتا ایساہی بنا دیجئے جیسے ان کے (یہ ) دیوتا ہیں (موسیٰ) نے کہا واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے، یہ لوگ جس کام میں لگے ہیں یہ تباہ ہوکر رہے گا اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں ہے بھی (بالکل ) باطل۔‘‘ (کاروان زندگی ج۳ ص ۱۷۳)
۱۹۸۶ء میں پاکستان کے حالات بے نظیر کی آمد، سیاسی گلیاروں میں ہلچل بیرونی دنیا کی سازش اور پاکستان میں اس کے والہانہ استقبال کو ذہن میں رکھتے ہوئے مولانا کی گفتگو کا یہ انداز اور یہ رخ بھی دیکھیے اور مومنانہ فراست وجرأت کو محسوس کیجئے:
’’یہاں آپ کتنی دشواریوں، نگرانیوں، بدگمانیوں، خوردہ گیریوں اور کسی دوسرے فرقہ یااکثریت کے منافرت و مخالفت سے محفوظ ہیں، حدیث میں نسوانی فطرت کی یہ کمزوری بیان کی گئی ہے، اس سے آپ کو دور رہنا چاہیے، حدیث میں کہا گیا ہے کہ عورت کی فطری کمزوری یہ ہے کہ عمر بھر شوہر اس پر احسان کرے پھر کسی وقت اس کی کسی خواہش یا فرمائش کی تعمیل میں تھوڑی سی کمی رہ جائے تو کہے کہ ہم نے تو اس گھر میں آکر کبھی آرام کا منہ نہیں دیکھا، ہم نے اس گھر میں کبھی سکھ نہیں پایا، ھل من مزید کا نعرہ تو خیر ایک معنویت رکھتا ہے لیکن ھل من جدید کا نعرہ خطرناک ہے، جو بہت سے مسلم معاشروں اور آزاد مسلم حکومتوں کا شعار بن گیا ہے، پھر میں نے بتایا کہ کتنے مسلم و عرب ممالک میں اسلام اور دیندار، اسلامی قوانین کے نفاذ کے مطالبہ اور اسلامی تحریکوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جا رہا ہے، آپ کا طریقۂ فکر اور طرز عمل حقیقت پسندانہ، ایجابی و تعمیری ہونا چاہیے، اپنے ملک کے حالات کا دوسرے ملکوں کے حالات سے تقابل کرنا چاہیے، پھر جو کچھ حاصل ہو، اس پر ثبات و دوام اور اس کی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ مزید توفیق عطا فرمائے، جلد ہر چیز کا جواب مایوسی اور محاذ آرائی سے نہیں دینا چاہیے، ذمہ دارانِ حکومت کے خلاف پہلے ہی لمحہ پر صف آرائی کے بجائے افہام و تفہیم سے کام لینا اور ان کو اس مسئلہ میں مطمئن کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘ (کاروان زندگی ج۳ ص ۱۷۶)
احقاق حق اور ابطال باطل
ایران میں خمینی انقلاب کے بعد مولانا نے جہاں نقد کیا اور ’’دو متضاد تصویریں‘‘تصنیف کی اور ہندوستان جیسے ملک میں ملت کی متنوع ذمہ داریوں کا بوجھ کا ند ھو ں پر ہونے کے بادجود جس طرح احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دیا وہ چشم کشا اور رہنما ہے، اسی سلسلہ کا ایک اقتباس پیش ہے:
’’................... لیکن یہ دیکھ کر صدمہ بھی ہوا اور حیرت بھی کہ مسلمانوں کے ایک حلقہ میں ان سے ایسی عقیدت و محبت کا اظہا ر کیا جا رہا ہے، جو اس عصبیت کی حد تک پہنچ گئی ہے، جو تنقید کا ایک لفظ سننے کی روادار نہیں ہوتی، مدح و ذم ارو تاریخ و تنقید کا معیار کتاب وسنت، اسوۂ سلف اور عقائد و مسلک کی صحت نہیں، بلکہ اسلام کے نام مطلق حکومت کے قیام کا نعرہ، طاقت کا حصول، کسی مغربی طاقت کو للکار دینا، اور اس کے لئے (خواہ عارضی و ظاہری طور پر) مشکلات پیدا کرنا، اس کو محبوب اور مثالی قائد بنا لینے کے لئے کافی ہے، آیت اللہ خمینی صاحب کی اس کامیابی سے ( جس کی مدت عمر معلوم نہیں) اور اس انقلاب سے جو ایک مخصوص شکل میں ایران کے معاشرے میں رونما ہوا، ایرانی نوجوانوں کے جذبۂ قربانی اور اس کے ساتھ متعدد مسلم و عرب ممالک کی دینی و اخلاقی کمزوریوں و خامیوں اور وہاں کی ناپسندیدہ صورت حال سے بر صغیر کے مسلمان نوجوانوں کے اس حلقہ میں جو موجودہ حالات سے بے زار تھا، اور جو ہر اس حوصلہ مندی اور مہم جوئی سے مسحور ہوتا ہے جس میں اسلامی حکومت کا نام شامل ہو جائے، خمینی صاحب اس طرح بلکہ اس سے زیادہ مقبول ہورہے ہیں، جیسے کسی زمانے میں کمال اتاترک اور عرب قوم پرستوں کے حلقہ میں جمال عبد الناصر تھے،..................
تاریخ کی شہادت اور انسانی نفسیات کا بار بار کا تجربہ ہے کہ جب بھی بڑے سے بڑے فسادِ عقیدہ ، ضلالت اور کج روی کے ساتھ حوصلہ مندی، مہم جوئی اور تقشف وجفاکشی کے مظاہر جمع ہوجاتے ہیں تو اس تحریک و دعوت میں ایسی دل کشی اور ساحری پیدا ہوجاتی ہے کہ اچھے اچھے عاقل و ذکی، دین پسند اور صاحبِ مطالعہ و نظر اشخاص کو اس کے اثر سے محفوظ رکھنا ارو اس کی ثنا خوانی اور مداحی سے روکنا مشکل ہوجاتا ہے، قرنِ اول کے خوارج کی تحریک، چھٹی ساتویں صدی میں باطنیوں کی تحریک ، اور حسن بن صباح اور قلعۃ الموت کے فدائیوں کے کارنامے اور خود ہندوستان کی بعض نیم عسکری تحریکوں اور تنظیموں کے بارہ میں حوصلہ مند نوجوانوں اور اقتدار وسیاسی طاقت کی شمع کے پروانوں کی والہانہ و خود فراموشانہ کیفیات (جن کو زیادہ زمانہ نہیں گذرا) اس کی گواہ ہیں ، اور یہی مرحلہ حق و ہدایت کو معیار سمجھنے والوں اور عقیدۂ صحیحہ اور منصوصاتِ قرآنی کے بارہ میں حمیت و غیرت رکھنے والوں کے لئے امتحان کا موقعہ ہوتا ہے، اور ان کو اس اعلانِ حق کی دعوت دیتا ہے جو سحر انگریزی کی اس فضا میں ’’کلمۃ حق عند سلطان جائر‘‘ کا ثواب و مقام دلانے کا ضامن ہوتی ہے‘‘ (کاروان زندگی ج۳ ص۲۵۵۔ ۲۵۶)
تفاخر بالاسلاف میں غلو درست نہیں
یہ گفتگو تو پاکستا ن میں ہوئی لیکن جو ذمہ داری علماء پر عا ئد ہوتی ہے وہ بہر حال صفا ئی کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور پوری جرأت و صراحت کے ساتھ ان نقائص کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو آج کل تقریبا ہر ملک کے علماء کی اکثریت میں عام ہوگئے ہیں، جس کے سبب حالات کی تبدیلی ایک خواب معلوم ہوتی ہے، جہاں اور نقائص نہیں وہاں اسلاف کے نام پر بہر حال روایت پرستی اس حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ سیرت کی روشنی میں کوئی مکمل اسلامی نظام نظر نہیں آتا، جو کچھ اسلامیت نظر آتی ہے، اس کو سیرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے بس پیوند کاری ہی کہا جا سکتا ہے:
’’ان میں سے ایک اعتقادی اور سیاسی انتشار ہے، دوسرا علماء کے عوام کے ساتھ رابطہ کی کمی، تیسرا علماء میں عام طور پر ہمارے اسلاف کی طرح زہد کا رجحان، اس توکل اور استغناء اور زندگی کی سادگی اور ایثار کی کمی ہے جس میں اسی ملک کی تخصیص نہیں، دوسرے اسلامی ممالک بھی شامل ہیں، اس سلسلہ میں قریبی اسلافِ کرام کی کچھ مثالیں بھی دی گئیں۔
چوتھا تہذیبی و لسانی تعصب اس ملک کے لئے سخت خطرناک ہے، اور ہمارے علماء کو اس کو ختم کرنے کے لئے پوری جدو جہد کرنی چاہیے، پھر میں نے تفاخر بالانساب کی طرح تفاخر بالاسلاف میں غلوومبالغہ پر تنقید کی، اور کہا کہ ہر وقت اسی کی رٹ لگائے جانا، اور ہر وقت اسی کا وظیفہ پڑھنا کچھ مفید نہیں کہ ہمارے اکابر ایسے تھے، ہمارے اسلاف ایسے تھے، کوئی ملت اور کوئی دعوت تاریخ سے نہیں چلتی، تحریک سے چلتی ہے۔‘‘ (کاروان زندگی ج۳ ص ۷۳)
مدارس اسلامیہ کا نصب العین
مدارس کا نصب العین تحریک ہونا چاہیے نہ کہ تاریخ کا بیان اور اس پر فخر اور آج کے دور میں جمود بلکہ تعطل پر بھی صبر ورضا بتانے والے بتاتے ہیں کہ اب تو بعض ارباب مدارس اس پر بھی راضی ہیں کہ اگر ایک آدھ افراد بھی پیدا ہو جائیں تو کافی ہے کہ اسی سے مدرسے کے وجود کو کارآمد سمجھنا چاہیے، مولانا اس روش کے خلاف تھے مدرسی نظام کی مروجہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے مولانا کے یہ الفاظ پڑھیے:
’’میں نے صفائی سے کہا کہ مدرسے اور دینی دعوتیں تاریخ سے نہیں چلتیں، تحریک سے چلتی ہیں۔ ہر وقت اسلاف و اکابر کا نام لینا اور ان پر فخر کرنا اور ’’پدرم سلطان بود‘‘ کا نعرہ لگانا، سننے والوں کو بھی ملول و متوحش کر دیتا ہے‘‘ (کاروان زندگی ج ۳ ص ۱۷۷)
صرف نصابی کتابیں سمجھنا کافی نہیں
مدارس کی موجو دہ صورت حال یہ ہے کہ ایک آدھ طلبہ کے بامقصد ہونے پر قناعت کر لی گئی ہے،تبلیغی و دعوتی اور تصنیفی وتحقیقی میدان میں پستی کے ساتھ تحریکی اور قائدانہ کردار میں جو کمی واقع ہوئی ہے وہ مخفی نہیں ،ضرورت ہے کہ کام اورپیغام کو یاد رکھا جائے اور تجزیہ کر تے ہوئے آگے کا لائحہ عمل تیار کیا جائے :
’’مدارس دینیہ کا کام صرف اتناہی نہیں کہ نصابی کتابیں سمجھ لی جائیں اورمسئلے مسائل بتاد ئے جائیں ،ہم ان کی ناقدری نہیں کرتے ،اس نظام تعلیم کا ہم احترام کرتے ہیں ،اور اس کے داعی اور ذمہ دار ہیں ،لیکن صرف اتنا کافی نہیں،موجودہ فتنوں کو سمجھنا ان سے اچھی طرح باخبر ہونا اور ان کا مؤثر و طاقت ور زبان اور دلکش اسلوب میں مقابلہ کرنا وقت کا بنیادی تقاضہ ہے ،ہمارے طلبہ و اسا تذہ انگریزی اور کسی غیر ملکی زبان سے بھی واقف ہوں اور ان کے مآخذ سے فائدہ اٹھا سکیں اور ایسا لٹریچر تیار کریں جو جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو متأثر کر سکے،ہمارے اساتذہ و طلباء کا مطالعہ وسیع ،متنوع اور اپٹوڈیٹ ہو، ندوۃ العلماء نے عرب قوم پرستی اور علمانیت (سیکولرازم )کے خلاف جو زبر دست محا ذ قائم کیا تھا اور اس کے فرزندوں نے جس طرح پوری تیاری اور قوت کے ساتھ طاقتور اور مؤثر اسلوب میں اس فتنہ پر ضرب کاری لگائی تھی ،اس کا عام طور پر عالم عربی میں اعتراف کیا گیا‘‘۔ (کاروان زندگی ج۶ص۲۶۵)
معیار مدح و ذم
جس وقت حضرت مولانا ؒ کو معیار مدح وذم نے چونکایا تب تک حا لت یہاں تک نہ پہونچی تھی جو آج کی منظر نامہ پر ظاہر ہے،اب تو مذہبی حلقوں میں بھی وہی معیار تعریف و تنقید ہے جو کبھی مادی وسیا سی حلقہ میں ہوا کرتا تھا ،محض شخصیت پر ستی ،خا ندان پرستی ،اقربا پروری اور مادی معیاری مدح وذم کا معیار بن چکا ہے، اسلام کی منفعت اور اسلام کا نقصان ملی نقصان اور ملی مفادکس کے پیش نظر؟بس ہم اور ہماری بات اور ہمارے فائدہ کا زمانہ ہے ،جس کو ایک ادنی حس رکھنے والا بھی محسوس کر رہاہے ،جس کے باعث نقصانات میں دن بدن اضا فہ ہوتا جارہا ہے اور لوگ اب تو صحیح وغلط کی تمیز بھی اس معیار کے سبب نہیں کر پا رہے ہیں ،مولانا نے یہ اہم سطریں ا یک انتہائی حسا س مسئلہ میں ملت کے قائدین کے کردارکو پیش نظر رکھ کر لکھیں:۔
’’مصنف کے درد منددل کو دیکھ کر اور بھی زیادہ صدمہ ہوا کہ بہت سے خا لص دینی حلقوں میں بھی مدح و ذم اورتعریف و تنقید کا معیار کسی شخص کی اسلامیت اور غیراسلامیت اور اسلام و مسلمانوں کا سود وزیاں نہیں رہا، بلکہ خا لص دنیا وی کارنامے ،مادی فتوحات (اورافسوس و حیر ت ہے کہ یہاں اس کا بھی وجود نہیں )سیا سی پرو پیگنڈہ ،اخبار نویسیوں اور اہل سیا ست کا خراج تحسین ،ماتمی جلوس اور جنازہ کی دھوم دھام اوراس طرح کی سطحی اورظاہری شکلیں رہ گئی ہیں ،اس سے مصنف کو یہ انکشاف آمیز احساس ہوا کہ دینی حمیت اور اسلامی غیرت میں جو اس طبقہ کا سب سے بڑا سر مایۂ افتخار تھا تیزی کے ساتھ انحطاط آرہا ہے ،اور یہ وہ نقصان ہے، جس کی تلافی کسی طرح ممکن نہیں ،یہی احساسات ومشاہدات ہیں جنھوں نے ان مضا مین و تقاریر کو ایک مجموعے میں شائع کر نے کی تحریک کی جن کے متعلق خود مصنف کو احساس ہے کہ اس کا اس وقت شائع ہونا بہت سی طبیعتوں پر گراں گذرے گا ،لیکن مصنف اس کی ضرورت سمجھتا ہے ،اور اس کو دین کی ایک اہم خدمت اور اپنی سعادت یقین کرتا ہے ۔
نوارا تلخ تر می زن چوں ذوق نغمہ کم یابی
حدی را تیز تر می خواں چوں محمل را گراں بینی ‘‘
(عالم عربی کا المیہ ص۲۳۔۲۴)
مدارس اور احساس کمتری
مولانا ؒ نے ۱۹۵۴ ء میں تقریر کرتے ہوئے مدارس کی افسردہ فضا کا شکوہ کیا ہے،اور پوری جرأت کے ساتھ انحطاط کا شکوہ کیا ہے،ان سے بھی پہلے اقبال یہ شکوہ کر چکے ہیں،مولاناؒ نے بھی اس پر حقیقت پسندانہ تبصرہ کیا ہے ،لیکن افسوس اس پر ہے کہ آج صورت حا ل اور زیا ہ خطرناک ہو چکی ہے ،شاید ہم ان نقا ئص کا پتہ لگانے کے لئے تیار نہیں جو اس احساس کہتری کا باعث ہیں جس کا تذکرہ قدرے تفصیل سے مولاناؒ نے کیا ہے،یا اگر نقائص معلوم ہیں تو ان کی پرواہ نہیں یا پھر ان کو دور کر نے کی جرأت نہیں ،بہر حال اس پر غور کر نے اور اس کے ازالہ کی از حد ضرورت ہے تا کہ کسی حد تک صحیح لیکن کچھ تو اس افسردہ فضا میں زندگی کی رمق پیدا ہو اور یہ اپنی افادیت ثا بت کر سکیں اور پھر سے دنیا کی امامت کا فریضہ انجام دے سکیں ،زندگی کے ہر شعبہ میں زمانہ کی پیروی کے بجائے زمانہ ان کا غلام ہو :
’’مدارس جو کبھی طاقت اور زندگی کا مر کز تھے ،اور جہاں انقلاب آفریں شخصیتیں پیدا ہوتی تھیں ،وہ مایوسی،افسردگی،اوراحساس کہتری کا شکار ہیں ،آج مدارس کی تعداد میں، درس کی کتابوں کی تعداد میں، کتب خا نے کے مندرجات کی تعداد میں ،وظا ئف کی تعداد میں، بہت بڑا اضا فہ ہے،مگر زندگی کی نبض سست اور قلب کی دھڑکن کمزور ہے،کوئی حساس درد مند کبھی کبھی اس طرف نکل جا تا ہے تو اس کا دم گھٹنے لگتا ہے ،اور وہ اس بحر کاہل کو دیکھ کر کہنے لگتا ہے خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردےلیکن اب تو مدارس کے حق میں کسی طوفان سے آشنا ہو نے کی دعاکرتے ہو ئے بھی دل ڈرتاہے ،آج مدارس میں طوفان کے آثار نظر آتے ہیں ،لیکن یہ باہر کے طوفان کے تھپیڑے اور موجیں ہیں ،جو مدارس کے درو دیوارسے ٹکرا رہی ہیں، یہ باہر کے ہنگا موں اور سطحی اور عوامی تحریکات کی صدائے باز گشت ہے،جس میں ہمارے مدارس کے طلبہ کا مقام محض نقال یا آلۂ صوت کا ہے‘‘۔ (پاجا سراغ زندگی ص۔۹۶،۹۷)
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ،کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
ایک تاریخی حقیقت
آج اکثر تحریکوں اور اداروں میں جمود پایا جاتا ہے ،بے شمار ٹھوس بنیا دوں پر اٹھنے والی تحریکیں اور قائم ہو نے والے ادارے ایسا لگتا ہے کہ کا م کرتے کرتے تھک چکے ہیں ،اور اب صرف عظمت رفتہ اورایام گزشتہ کی تا ریخ کے سنہرے ابواب پر فخر کر ناہی ان کا مقدر بن گیا ہے ،لیکن ظا ہر ہے کہ اس رویہ سے تحریک و ادارں کا باقی رہنا مشکل ہے ،حضرت مولاناؒ نے اس رویہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے صریح الفاظ میں قرآن کی روشنی میں فر ما یا تھا:
’’دنیا میں کوئی ادارہ محض اس وجہ سے نہیں چل سکتا کہ یہ ادارہ آج سے سو برس دو سوبرس پہلے قائم ہوا ،اور اس نے کچھ مفید خد مت انجام د ی تھی ،محض تاریخ کے بل پر ،محض تا ریخ کے سہارے کو ئی ادارہ ،کوئی تحریک ،کوئی فلسفہ ،کوئی نظام نہ چلا ہے نہ چلے گا ،اگر آپ کسی ادارے کو قا ئم رکھنے کے لئے اور اس کے لئے کچھ مراعات حا صل کر نے کے لئے اس کی تاریخ پیش کرتے ہیں کہ اس نے دور ماضی میںیہ خدمات انجام دیں ،تو لوگ اس کو با لکل نہیں سنیں گے ،اور اگر کو ئی آج خا موش ہو جائے گا ،تو کل اس کے اندر سے نہایت پر زور اور پر جوش تقاضا پیدا ہو گا کہ اس کو ختم کر دینا چاہئے‘‘۔ (پا جا سراغ زندگی۔ص،۱۵۹)
بقاء کے لیے افادیت کا ثبوت لازمی ہے
آج بر صغیر میں دن بدن مدارس کی تعداد میں اضا فہ ہو رہا ہے ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غیر ہی نہیں اپنے بھی اور مخلصین بھی مدارس کے قیام اور ان کے کام پر سوال کھڑے کر رہے ہیں، کہیں نہ کہیں نقص ضرور ہے ،اور سچ یہ ہے کہ مدارس کی جو نا فعیت و افادیت نظر آنی چاہئے وہ نہیں نظر آتی ،جس کے سبب لو گوں کو اس کا موقع مل رہا ہے کہ وہ مدارس کے قیام و کام پر سوالیہ نشان لگائیں ۔
وہ مقتضیات زمانہ سے نا واقف ،ضروریات زمانہ کو پو را کر نے سے قاصر اور اپنے مقا صد سے دور ہوتے جا رہے ہیں ،قا نون قدرت میں بھی زندگی کا استحقاق صرف نفع پہونچانے والوں کو ہی ہے،مولانا ؒ نے بڑی جرأت و صراحت کے ساتھ فر مایا:
’’اگر ہمارے مدارس یہ چاہتے ہیں کہ وہ باقی رہیں ،اور وہ اس زندگی میں اپنی جگہ بنانا چاہتے ہیں ،زندگی کا استحقاق ثا بت کر نا چاہتے ہیں تو ان کو اپنے اندر نافعیت پیدا کر نی چاہئے ،یعنی ان کو اپنے جوہر کا ثبوت دینا چا ہئے ،ان کو یہ ثابت کرنا چاہئے کہ زندگی کی کوئی ضرورت ہے جو ان کے بغیر پوری نہیں ہوتی‘‘۔ (پاجا سراغ زندگی ۔ص،۱۶۱)