محمد طارق ایوبی

کل مضامین: 2

مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کے ملی افکار

قومی ضمیر پر موت طاری۔ ۱۹۶۷ء کے افسوس ناک المیہ سے مولاناؒ پر جو اثر ہوا، اس نے ان کی زبان حق ترجمان سے بہت کچھ کہلوایا ،اس وقت مولا نا ؒ کی زبان سے جو جملے ادا ہوئے، آج ان کی معنویت میں مزید اضا فہ ہو گیا ہے ،اس وقت عالم عر بی ہی نہیں خود ہندوستا ن کی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے کہ گویا قو می ضمیر خواب خرگوش میں مبتلا ہے یا پھرحس نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے ،اس پر طرہ وطرفہ یہ ہے کہ اگر کسی نے حا لا ت کی سنگینی پر زبان کھول دی اور حقائق بیان کردیے تو لوگ اس کے در پہ ملامت و استہزاء ہو گئے ،قومی مسا ئل اور اہم مسا ئل کی تنقیدکو شخصی مسئلہ بنا دیا،اس...

مولانا ابو الحسن علی ندویؒ : ایک ملی مفکر (۱)

’’مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے، کہ زندگی ہی عبارت ہے تیرے جینے سے‘‘۔ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی جس وقت اس دار فانی سے رحلت ہوئی تو یہ ایک عام تأثر پایا گیا کہ ملت اسلامیہ ایک عظیم، جرأت مند وبے باک اور دینی غیرت و ایمانی حمیت سے سرشار و مخلص اورحق گو داعی سے محروم ہوگئی ہے اور بالخصوص ہندوستان کی ملت اسلامیہ یتیم ہو کر رہ گئی ہے۔ میری ناقص نظر میں مولانا اس سلسلہ میں یکتا تھے کہ ایک طرف اخلاص کی دولت سے مالا مال، ملی تڑپ ان کے سینہ میں موجزن، علم و مطالعہ سے ان کی زندگی عبارت، سلوک و تزکیہ میں کندن...
1-2 (2)