عراق کی وحدت فرقہ واریت کی زد میں ہے۔شیعہ سنی تنازعہ عراق کو شاید ایک ملک نہ رہنے دے۔ عرا ق تقسیم ہواتو پھر مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بھی تبدیل ہو جا ئے گا۔تاریخ یہ ہے کہ وہاں لگنے والی آگ ہمارے دامن کو ضرور چھوتی ہے۔کیا اس باربھی یہی ہوگا؟
القاعدہ کا قصہ بحیثیت تنظیم ،تمام ہوا۔تاہم ایک نظریے کے طور پر وہ زندہ ہے اور مقامی تنظیموں کی صورت میں ظہور کر رہا ہے۔پاکستان میں تحریکِ طالبان کی شکل میں اور شام وعراق میں امارت اسلامیہ عراق و شام (ISIS) کے روپ میں۔ فرات کا کنارہ اب اس کے قبضے میں ہے۔ شام کے ایک علاقہ اور اب عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل کے ساتھ تکریت پر اب ISIS کو قوتِ نافذہ حاصل ہو چکی۔عراق کو اردن اور شام سے ملانے والی چار گزرگاہوں میں سے تین ان کے کنٹرول میں ہیں۔امارت والوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ اور فرانس نے ریت پر لکیریں کھینچتے ہوئے جو تقسیم کی تھی،اب ختم ہو نے کو ہے اور اسلامی خلافت ایک بار پھر قائم ہورہی ہے۔مو جود ہ سرحدیں اب بے معنی ہو جا ئیں گی۔عراق کی مو جودہ شیعہ حکومت ان کا ایک ہدف ہے۔وزیر اعظم مالکی شیعہ ہیں۔ اپنے طویل دورِ اقتدار میں وہ مسلکی تعصب سے بلند نہیں ہو سکے۔سنی اقلیت ان سے نا لاں رہی۔امارتِ اسلامیہ کے مو جودہ تمام تصورات، وہ القاعدہ کی صورت میں ہوں، طالبان کی شکل میں یا امارتِ اسلامیہ کے روپ میں،سب میں جوخیلات مشترک ہیں، ان میں ایک شیعہ دشمنی بھی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں شیعہ سنی اختلاف تاریخ کے مختلف ادوار سے گزر تاہوااب ایک پیچیدہ صورت اختیار کر چکا۔اس کا آ غاز خلافت راشدہ کے عہد میں ہو گیا تھا۔عرب مسلمانوں کی فتوحات کا دائرہ جب ایران تک وسیع ہوا تو اسے نظریے کے بجائے عرب ایران کشمکش کے تناظر میں دیکھا گیا۔یہ گرہ آج تک کھل نہیں سکی۔صفویوں کی آ مد سے پہلے،ایران سنی اکثریتی ملک تھا۔عراق میں بھی انیسویں صدی تک سنیوں کی اکثریت تھی۔آج عراق میں سنی اقلیت میں ہیں۔صدام حسین اقلیت کے نمائدہ تھے مگر اقتدار ان کے پاس تھا۔بحرین میں شیعہ اکثریت میں ہیں لیکن اقتدار سنیوں کا ہے۔ شیعہ سارے مشرقَ وسطیٰ میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ایران ان کی سیاسی قوت کا مرکز ہے۔۱۹۷۹ء میں جب انقلاب آیا تو ایران کا مسلکی تشخص نمایاں ہو گیا۔اس نے مشرقِ وسطیٰ کے اہلِ تشیع میں بیدداری کی ایک لہر پیدا کر دی۔ولی رضا نصر نے اپنی کتاب ’اہلِ تشیع کا احیا(Shia Revival) میں لکھا ہے کہ اس انقلاب سے پہلے مشرقِ وسطیٰ کے شیعہ مختلف قومی جماعتوں اور تحریکوں سے وابستہ تھے۔انقلاب کے بعد انہوں نے اپنے مسلکی تشخص کے ساتھ ظہور کیا۔ پھر جب انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی صاحب نے انتقالِ اقتدار کا تصور پیش کیا تو سنی بادشاہتیں بہت سے اندیشوں میں مبتلا ہو گئیں۔
یہ اندیشے آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کی بنیاد بن گئے۔اہلِ عرب نے اپنی تما م قوت صدام حسین کی پشت پر لا کھڑی کی۔ ایران کو تو شکست نہ ہو سکی لیکن صدام حسین کو سمجھنے میں عربوں سے غلطی ہو گئی۔وہ کویت پر چڑھ دوڑے اور اب عربوں کے خائف ہو نے کا وقت تھا۔امریکا اور عالمی طاقتیں ،معلوم ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے وسائل پرایک مدت سے نظریں رکھے ہوئے ہیں۔اسرائیل اسی لیے قائم ہوا۔یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس صورتِ حال سے فائدہ نہ اٹھاتیں۔ کویت کی حمایت کو عنوان بنا کر انہوں نے اپنی فوجیں اتار دیں اور یوں بالفعل مشرقِ وسطیٰ پر ان کا قتدار قائم ہو گیا۔ ایران نے اس اقتدار کو چیلنج کر نا چاہا تو وہ عالمی قوتوں کا ہدف بنا۔اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے،امریکا نے اسی شیعہ سنی اختلاف کو استعمال کیا جو پہلے سے مو جود تھا۔تاریخ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی ایک باگ اگرانسانی ہاتھ میں ہے تو دوسری قدرت کے۔اسے ہم تاریخ کا جبر کہتے ہیں۔یہ جبر اپنا کام کر تا رہا۔ امریکا نے جن مذہبی جذبات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر نا چاہا،ایک وقت آیا کہ وہ خود اس کے لیے چیلنج بن گئے۔یہی حادثہ عربوں کے ساتھ ہوا۔ وہ جس سلفی اسلام کے نمائدہ تھے، اس کا ایک فرزند اسامہ بن لادن ا ن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا۔ عراق کی صورتِ حال نے ایران کواب پھر امریکا کے قریب کر دیا۔
مفادات کے اس کھیل میں جو پیچیدہ صورتِ حال ابھری ہے، اس کا ایک نقشہ ٹائم میگزین نے اپنی حالیہ اشاعت میں کھینچا ہے۔عراق میں امارتِ اسلامیہ کی پیش رفت نے امریکا اور ایران کو اتحادی بنا دیا ہے۔ دونوں وزیر اعظم مالکی کی پشت پر کھڑے ہیں۔شیعہ اثرات کو محفوظ کرنے کی خواہش نے ایران کو شام کے بشار الاسد کی پشت پر لا کھڑا کیا ہے جو مارت اسلامیہ سمیت اپنے ان باغیوں سے چار سال سے لڑ رہے ہیں جنہیں سعودی عرب کی حمایت حا صل ہے۔ امریکا ایران کے اثرات کے محدود کرنے کے لیے عرب ریاستوں کے ساتھ کھڑا ہے لیکن اب اسے شکایت ہے کہ وہ سنی جنگوؤں کی مدد کر رہے ہیں جو امریکا کے لیے بھی خطرہ ہیں۔امریکا، ایران، عراق اور کرد، امارتِ اسلامیہ کے خلاف یک زبان ہیں لیکن کرد خوش ہیں کہ امارت کی پیش رفت سے ان کی آ زادی کا راستہ کھل رہا ہے۔وہ عراق کی ایک بڑی آئل ریفائنری پر قابض ہیں اور ان کا راہنما مسعود برزانی اب کردستان کو ایک حقیقت سمجھتا ہے۔کرد عراق کی آبادی کا بیس فی صد ہیں۔ وہ شام میں ہیں اور ترکی میں بھی۔تاریخی اعتبار سے کرد اور ترکی لڑتے رہیں لیکن اب ان کے مابین بھی بشارالاسد اور تیل کے معاملے میں ایک اتفاقِ رائے وجود میں آ چکا۔اب ترکی نے کرد ریاست کی دبے الفاظ میں حمایت کا اشارہ بھی دے دیاہے۔
امریکا، ایران،عرب مالک،جس نے جو کچھ کیا،اب اس کے نتائج بھگت رہا ہے ۔تاریخ کی جو باگ قدرت کے ہاتھ میں ہے،وہ اس کا رخ موڑ رہی ہے۔کوئی قدرت کے اشاروں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔یہ آگ اب پھیلے گی۔ سنی شیعہ تنازعہ عراق کو اپنی لپیٹ میں لے چکا۔ امارت اسلامیہ کے مقابلے میں ریاست شکست کھاچکی۔آیت اللہ سیستانی نے ریاست کی حمایت میں اپنی ملیشیا کو تیار رہنے کا حکم دے دیا ہے، اس کے ساتھ مقتدیٰ الصدرنے بھی اپنی ملیشیاکو دوبارہ منظم کر لیا ہے تاہم وہ ریاست کے ساتھ نہیں ہیں۔جب ریاست اس طرح خانہ جنگی کا شکار ہو جا ئے تو پھر اس کا منظم رہنا مشکل ہو جا تا ہے۔اگر عراق کی وحدت قائم نہیں رہتی تو یہ ممکن نہیں کہ شام، اردن، ایران اور ترکی براہ راست اس سے متاثر نہ ہوں۔ اسی طرح سعودی عرب بھی ہو گا اور پھر لازم ہے کہ پاکستان بھی ہو۔
اس ساری معرکہ آرائی میں امتِ مسلمہ کہیں نہیں ہے۔ نسلی عصبیتیں ہیں یا مسلکی۔میں اسی لیے یہ عرض کرتا رہاہوں کہ بحیثیت سیاسی تصور، امتِ مسلمہ ایک ایساا سم ہے جس کا کوئی مسمیٰ نہیں۔ایک روحانی وحدت کے طور پر وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ عراق کے مو جودہ قضیے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی ہے۔دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں نے اس تصور کو مجسم کرنی کوشش کی اور اپنی صفوں کی حد تک اس کا اہتمام بھی کیا جیسے پاکستان کی جماعت اسلامی یا مشرقِ وسطیٰ کی الاخوان المسلمون لیکن عملاًہر جگہ نسلی یا مسلکی تقسیم ہی غالب رہی۔اس میں اہلِ پاکستان کے لیے بڑا سبق ہے جہاں لوگوں کی وابستگی پاکستان کے جغرافیے سے زیادہ اپنے مسلک کے ساتھ ہے جن کی اساس مشرقِ وسطیٰ میں ہے۔ یہ وابستگی پہلے بھی یہاں ظہور کرتی رہی ہے اورایک بار پھرکرے گی۔سطحی مباحث اور تماشوں میں گھری قومی قیادت کیا اس کا ادار ک رکھتی ہے؟کیا قوم کو اس نئے چیلنج کے بارے میں خبر دار کیا جا رہا ہے؟کاش میں ان سوالات کے جواب اثبات میں دے سکتا۔
مسئلہ فلسطین
میرا مخاطب اسرائیل یاامریکانہیں،اردو پڑھنے والے وہ لوگ ہیں جو فلسطینیوں پر روارکھے گئے ظلم پر اداس ہیں۔
آج اہلِ فلسطین کے ساتھ ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ان کے قتلِ عام کو رکوایا جائے۔یہی نہیں، اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے کہ آئندہ ایسے واقعات کم سے کم ہوں۔میرے نزدیک تشدد کی مکمل نفی کے سوا اس کی کوئی صورت نہیں۔ بدقسمتی سے پہلے الفتح اور اب حماس جیسی تنظیموں نے تشدد کو بطورحکمت عملی اختیار کرکے فلسطینیوں کو زخموں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس حکمتِ عملی سے مکمل آزادی تو دور کی بات، اب ادھوری آزادی کا تصور بھی خواب وخیال ہو تا جا رہا ہے۔یاسر عرفات نے بعد از خرابی بسیارتشددکو الوداع کہا۔حماس کوابھی تک تشدد پہ اصرار ہے۔اس لائحہ عمل کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے۔ فلسطینیوں کا بہتا لہو،تنہا ایسی دلیل ہے جو اس اندازِ فکر کی غلطی پر شاہد ہے۔آج اہلِ فلسطین کو ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ایسی حکمت عملی جو ان کے جانی و مالی نقصان کو کم کر سکے اور مسئلے کے ایک منصفانہ حل کے لیے ان کی جد وجہد کو زندہ رکھ سکے۔میری اس رائے کی بنیاد چند دلائل پر ہے:
۱۔ چند دنوں کے تصادم میں۲۳۴فلسطینی مارے جا چکے اور اس کے مقابلے میں صرف ایک اسرائیلی کی جان گئی ہے۔اگر ہم ان واقعات کی ابتدا کو سامنے رکھیں تو تین اسرائیلی نوجوان اغوا کے بعد قتل ہوئے۔یوں یہ دو سو چونتیس اور چار کی نسبت ہے۔گویا ایک اسرائیلی کے بدلے میں اٹھاون فلسطینیوں کی جان گئی۔ابھی جنگ جاری ہے اور نہیں معلوم کہ یہ نسبت کہاں تک جاتی ہے۔اس سے پہلے،جب بھی تصادم ہوا، نسبت کم و بیش یہی رہی۔۹۔۲۰۰۸ء میں بھی یہی ہوا تھا۔اس وقت۱۱۶۶؍ فلسطینیوں کے مقابلے میں تیرہ اسرئیلیوں کی جان گئی۔تب یہ نسبت ایک اور نوے(۹۰)کی تھی۔مجھے اس قیادت پر حیرت ہے جو اس حکمت عملی پر اصرار کرتی ہے جس میں انسانی جان کے ضیاع کا تناسب یہ ہے۔اس قربانی کو بھی گوارا کیا جا سکتا ہے اگر یہ معلوم ہو کہ وہ مقصد پورا ہو رہا ہے جس کے لیے جانیں دی جارہی ہیں۔اس کابھی دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
۲۔ فلسطینی اس وقت کئی سیاسی وعسکری گروہوں میں منتقسم ہیں۔محمود عباس کی جماعت اور حماس کا اختلاف ظاہرو باہر ہے۔یہ اختلاف نظری ہے اور مفاداتی بھی۔برسرِ پیکار گروہ باہم قتل وغارت گری میں بہت سے لوگوں کی جان لے چکے۔اس طرح منقسم قوم کسی منظم ریاست کے خلاف کیسے لڑ سکتی ہے؟
۳۔ امتِ مسلمہ جس کو دن میں کئی بات پکارا جاتا ہے،کہیں مو جود نہیں ہے۔اس لیے اس پکار کا کوئی جواب نہیں آتا۔مجھے حیرت ہے کہ لوگ اس کے باوجودخلا میں صدا لگاتے اور یہ امید کرتے ہیں کہ جواب آئے گا۔میں بارہا عرض کر چکا کہ امت ایک روحانی وجود تو ہے کوئی سیاسی یا سماجی اکائی نہیں۔ آج مسلمانوں کی قومی ریاستیں ہیں یا مسلکی گروہ۔سب اپنے اپنے مفادات کی آ ب یاری کر رہے ہیں۔’داعش‘ نے اپنے تئیں خلافت کا اعلان کیا اور القاعدہ نے اسے مسترد کر دیا۔داعش کا اپنا خلیفہ ہے اور القاعدہ کا اپنا۔امتِ مسلمہ پاکستان جیسے ملکوں میں بعض گروہوں کا رومان ہے۔وہ فلسطینیوں کے لیے صرف احتجاج کر سکتے ہیں اور بس۔کیا اس سے ان کے دکھوں میں کوئی کمی آ سکتی ہے؟
۴۔ اسرائیل ایک منظم ریاست ہے اور اس کی پشت پر امریکا، برطانیہ اور روس جیسی کئی طاقت ور ریاستیں ہیں۔یہ طاقتیں ہر اخلاقی اور بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں۔دنیا کا اس وقت اجماع ہے کہ اسرائیل کو بطور ریاست قائم رہناہے۔فلسطینی ریاست کے بارے میں ابھی تک ابہام ہے۔فلسطینیوں کی حمایت ایران کی ریاست کرتی ہے یا شام کی۔اس حمایت کی اساس بھی نظریہ یا امت نہیں، ان ریاستوں کے علاقائی مفادات ہیں۔اس وقت حماس کے ساتھ اسلامی جہاد کی تنظیم بھی مو جود ہے جسے ایران کی حمایت حاصل ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسرائیل اور امریکا کو ایک تشویش یہ بھی ہے کہ حماس کی نسبت اسلامی جہاد سے معاملات کرنا مشکل تر ہو گا، اس لیے حماس سے معاملہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ شام کی حکومت اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے،اس لیے فلسطینیوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔یوں بھی،بشار الاسد کے خانوادے کو امت مسلمہ سے جو نسبت ہے، اس کا حال کوئی اخوان سے پوچھے جن کی پیٹھ پر اس خاندان کا تازیانہ مسلسل برستا رہا۔پھر یہ کہ ماضی میں بھی ان ریاستوں کی کوئی مدد فلسطینیوں کے کام نہ آ سکی۔مصر میں اخوان ان کا اخلاقی اور کسی حد تک مادی سہارا تھے۔ان کے بے چارگی ہمارے سامنے ہے۔
سادہ سا سوال ہے کہ ان اسباب کی روشنی میں اہلِ فلسطین کو کیا کر نا چاہیے؟میرا خیال ہے کہ قابلِ عمل حل صرف ایک ہے۔فلسطینی خود کوایک سیاسی قیادت کے تحت منظم کریں اور دوریاستی حل کو قبول کرلیں۔وہ اس بات کی پوری کوشش کریں کہ ان کی ریاست ہر طرح سے خود مختار اور آز اد ہو۔اس کے ساتھ یروشلم کو ایک آزاد شہر قرار دینے کا مطالبہ کیا جائے کیونکہ یہ تینوں ابرہیمی مذاہب کے لیے تقدس رکھتا ہے۔دو ریاستی حل پر اس وقت کم و بیش ساری دنیا متفق ہے۔جب یہ فارمولا پہلی بار سامنے آیا تو اس میں فلسطینیوں کے لیے بہت کچھ تھا۔جب انہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور یہ خیال کیا کہ وہ عسکری جدو جہد سے اسرائیل کاخاتمہ کردیں گے توان اسباب کی بنا پر ،جن کا میں نے ذکر کیا، ان کا وجود سمٹتا چلا گیا۔آج اگر اسرائیل ۱۹۶۷ء سے پہلے کی سرحد کو تسلیم کرتے ہوئے مقبوضہ علاقے خالی کرتا اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کو عملاً تسلیم کرتا ہے تو یہ فلسطینیوں کی بڑی فتح ہو گی۔
اگر تشدد کو خیر باد کہتے ہوئے، فلسطینی اس کے لیے سیاسی جدو جہد کرتے ہیں تو اس کے دو فوئد ان کو فوری طور پر مل سکتے ہیں۔ایک یہ کہ اسرائیلی تشدد میں کمی آ جائے گی۔دوسرا یہ کہ انہیں دنیا کے ایک بڑے حصے کی اخلاقی و سیاسی تائید میسرآ جائے گی۔اس وقت امریکا میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اسرائیل کے خلاف ہے۔وہ اس ظلم کی تائید پر آ مادہ نہیں۔خود اسرائیل میں بھی بہت سے یہودی ہیں جو اسرائیل کو خوف کی اس فضا سے نکالنا چاہتے ہیں۔اس کے ساتھ مسلمان قومی راستیں بھی اپنے قومی مفادات کو قربان کیے بغیر، فلسطینیوں کی حمایت کر سکیں گی۔اسرائیل آسانی کے ساتھ مقبوضہ علاقوں کو خالی نہیں کرے گا۔اس کے لیے بھی طویل جدو جہد کی ضرورت ہو گی۔ تاہم اس وقت ساری تو جہ فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے پر دی جانی چاہیے۔کاش انہیں ایسی قیادت میسر آ سکے جوان کی بچوں کو زندگی کا پیغام دے سکے۔پاکستان کی اسلامی تحریک اگر اہلِ فلسطین کو یہ مشورہ دے سکے تو ان کے ساتھ یہی حقیقی ہمدردی ہو گی۔اب اس کے سوا کچھ نہیں ہو گا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہو جائے۔کیا ۲۳۴ ؍افراد کی جان اس لیے دی گئی؟یہ سچ یہ کہ اسرائیل نے ظلم کیا لیکن سوال یہ ہے کہ فلسطینی قیادت نے اس ظلم کو روکنے کے لیے کیا کیا؟ اس وقت اہل فلسطین کو ایک نئی قیادت اور ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔یہ طے کہ موت کو گلیمرائز کرنے والے زندگی کا امید نہیں دے سکتے۔جو عمومی زندگی میں بھی جنگ کے اصول اپنا تی ہو،قومیں ایسی قیادت کے ہاتھوں برباد ہو جاتی ہیں۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)