(۱)
جناب برادرم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔
ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کا ایک شمارہ ایک ساتھی کے پاس سے لے کر دیکھا۔ اس میں ایک ساتھی کے نام مکتوب میں آپ نے اپنا نظریہ بیان کیا۔ خلاصہ یہ معلوم ہوا کہ ابھی تک اثنا عشریہ شیعہ کے کفر پر اجماع امت نہیں ہوا، اس سلسلے میں تحقیق جاری ہے۔ بندہ نے مناسب سمجھا کہ اس تحقیقی عدالت میں وہ دلائل بھی پیش کر دوں جو گزشتہ صدی میں حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحبؒ نے ایک تحقیقی دستاویز تیار کر کے حضر ت مولانا ایوب جان بنوریؒ کی خدمت میں بجھوائی تھی۔
حضرت مولانا محمد ایوب جان بنوریؒ نے حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحبؒ کی خدمت میں ستمبر ۱۹۹۴ء میں ایک مکتوب بھیجا کہ اثنا عشریہ شیعہ کے کفریہ اور گمراہ کن عقائد کی دستاویز تیار کر کے بھیجیں تاکہ بڑے پڑھے لکھے طبقہ کو ان کے عقائد سے خبردار کر کے عوام اہل سنت کو اس فتنہ کی لپیٹ میں آنے سے بچایا جا سکے۔ ممکن ہے، وہ دستاویز آپ کی نظر سے نہ گزری ہو، اس لیے اس کی ایک کاپی ارسال خدمت ہے۔ امید ہے کہ آپ بغور مطالعہ کے بعد اپنی رائے سے مطلع فرمائیں گے۔
(مولانا) عبد الوحید حنفی
مدنی جامع مسجد۔ چکوال
(۲)
مکرمی مولانا عبد الوحید حنفی صاحب زید مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آنجناب کا عنایت نامہ اورمرسلہ کتب موصول ہوئیں۔ بے حد شکریہ!
اہل تشیع کے بارے میں میرے موقف کی آپ نے جو تعبیر کی ہے، وہ درست نہیں۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ ابھی ان کے عقائد کی تحقیق ہو رہی ہے اور ابھی اجماع نہیں ہوا، اس لیے ان کی تکفیر نہیں کرنی چاہیے۔ اہل تشیع کے مخصوص عقائد ہمیشہ سے معلوم ومعروف ہیں۔ اس کے باوجود ان کی تکفیر پر نہ کبھی اجماع ہوا ہے، نہ ایسا کوئی اجماع ممکن ہے اور نہ یہ تکفیر فقہ وشریعت کے اصولوں اور امت مسلمہ کے اجتماعی مصالح کے لحاظ سے کوئی مطلوب یا مناسب رویہ ہے۔ ہاں، ان کے مخصوص نظریات کی شناعت اور قباحت کو ضرور واضح کرتے رہنا چاہیے اور صحیح العقیدہ عوام الناس کو ان کے اعتقادی شر سے محفوظ رکھنے کے لیے جن معاملات میں باہمی اختلاط سے روکنا ممکن اور قرین مصلحت ہو، وہاں اس کی تلقین بھی کرنی چاہیے۔ البتہ بحیثیت مجموعی وہ ہمیشہ امت مسلمہ کا حصہ سمجھے جاتے رہے ہیں اور سمجھے جاتے رہیں گے۔ نسبت اسلام کا احترام اور امت کے عملی مصالح، دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ اس تفریق کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو حضرات آنکھیں بند کر کے ایک مخصوص ذہنی رَو میں انھیں امت سے کاٹ دینے کا تصور رکھتے ہیں، وہ فساد اور انتشار پھیلانے اور امت کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے سوا کوئی خدمت انجام نہیں دے رہے۔
آپ نے حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب علیہ الرحمۃ کا مرتب کردہ جو رسالہ ازراہ عنایت بھیجا ، وہ میں نے دیکھ لیا ہے اور اس سے پہلے بھی اس موضوع پر ان کی بعض تحریریں نظر سے گزر چکی ہیں۔ اہل تشیع کے حوالے سے یہی موقف ہمارے بزرگ، شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا بھی تھا، تاہم میرے علم کی حد تک یہ دونوں بزرگ اہل تشیع کی تکفیر کی بات اصولی اورنظری طور پر اور عوام کو ان کے فتنے سے محفوظ رکھنے کی حد تک کرنے پر عمل پیرا تھے۔ اس کی بنیاد پر کوئی تکفیری مہم چلانے یا اہل تشیع کو قادیانیوں کی طرح ہر سطح پر امت مسلمہ سے الگ کر دینے کے موقف یا تحریک کی، میرے علم کی حد تک، انھوں نے تائید نہیں کی۔ میں ذاتی طور پر اس مسئلے میں امام ابن تیمیہؒ وغیرہ کی رائے کو درست سمجھتا ہوں جو نظری واصولی تکفیر کے بھی قائل نہیں۔ تاہم جو حضرات نظری تکفیر کے قائل ہیں، ان کے لیے متوازن اور بہتر اسوہ وہی ہے جو اس معاملے میں حضرت قاضی صاحبؒ اور حضرت شیخ الحدیثؒ نے اختیار فرمایا۔
ہذا ما عندی والعلم عند اللہ۔
محمد عمار خان ناصر
۲۴؍ جنوری ۲۰۱۲ء
(۳)
محترم ومکرم جناب مختار احمد فاروقی صاحب
السلام و علیکم و رحمۃاللہ
امید ہے خیریت سے ہوں گے۔
آپ نے اپنے خط بنام مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ میں کچھ ایسی باتیں کی ہیں جو میری اس تحریر کی محرک بنی ہیں۔ امید ہے، آپ میری معروضات پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے۔
۱۔ ہر عام و خاص کو بخوبی علم ہے کہ ’الشریعہ‘ ایک ایسا فورم ہے جہاں ہر شخص کھلے دل کے ساتھ اپنے علم و استعداد کے مطابق مہذب انداز اختیار کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کرسکتا ہے۔ جہاں تک آپ کی اس بات کا تعلق ہے کہ اس مجلہ میں خاص طور پر آپ کی جماعت یعنی سپاہ صحابہ کی ہر بات کو رد کیا جاتا ہے تو یہ بات درست نہیں۔ اس فورم پر ہر اس ایشو پر گفتگو ہوتی ہے جس کے متعلق ہمارے معاشرے میں کوئی اشکال پایا جاتا ہو۔ جہاں تک آپ کی جماعت سپاہ صحابہ کا تعلق ہے تو اس کی پالیسی ا ور طرز عمل بھی کافی نزاعی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الشریعہ کے صفحات میں آپ کی جماعت اکثر موضوع سخن رہی ہے۔
۲۔ آپ کی جماعت کی اکثریت سطحی فکر و عمل کے افرد پر مشتمل ہے۔ اس بات کا اندازہ آپ کے خط سے بھی ہوا کہ فتویٰ امام ابن تیمیہ نے دیا اور آنجناب کی گرفت میں بے چارے عمار خان ناصرآگئے۔ یہ سوال تو ابن تیمیہ سے ہونا چاہیے تھا کہ آیا رافضی صرف بدعتی ہیں یا تحریف قرآن اور صحابہ کرام و امہات المومنین کی شان میں تبرا جیسے جرم کے ارتکاب کی وجہ سے کافر بھی ہیں! امام ابن تیمیہ شیعوں کے تمام عقائد سے بخوبی آگاہ تھے اور اسی بنا پر انہوں نے مختلف مواقع پر اس قسم کے فتوے بھی دیے۔ اگر آپ احقر اور مولانا عمار خان ناصر صاحب مد ظلہ کی گفتگو جو دسمبر اور جنوری میں شائع ہوئی، منصفانہ مزاج اختیار کرتے ہوئے تسلی سے پڑھیں تو آپ کے لیے بات سمجھنا آسان ہوگا ۔
۳۔ کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ آپ حضرات کاصرف طریقہ درست نہیں اور شیعیت کے خلاف آپ کا جو موقف ہے، وہ درست ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے طرز عمل کے ساتھ ساتھ آپ کا موقف بھی درست نہیں۔ یقیناًآپ جواباً فتووں کی بات کریں گے کہ کافی مفتیان کرام کے ان کے خلاف فتوے موجود ہیں ۔یہ بات درست ہے کہ علماء نے اپنے فرض منصبی کو بجا لاتے ہوئے ہر دور میں باطل فرقوں کا مقابلہ مختلف زاویوں سے اس کے نتائج کو سامنے رکھ کر کیا۔ شیعیت پر جو کفر کے فتوے ہیں، وہ بھی شیعیت کو روکنے کا ایک زاویہ ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ وہ موثر رہا یا نہیں؟ اور ہر دور میں اختلاف بھی رہا۔ کچھ تکفیر کے قائل تھے تو کچھ عدم تکفیر کے، لیکن کسی بھی موقع پر شیعیت کو روکنے کے لیے نہ تو ان کو اجتماعی معاملات سے الگ رکھا گیا اور نہ ہی کوئی منظم صورت اختیار کر کے ایک تحریکی انداز میں ان کے خلاف صف آرائی کی گئی۔
آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ حضرت حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے بھی شیعہ اثنا عشری کے خلاف فتوے جمع کیے، لیکن انہوں نہ تو ان فتووں کی بنیاد پر کوئی تنظیم بنائی اور نہ ہی ان فتووں کو گلی بازاروں میں لہرا کر ایک عام آدمی کو فتوے کی زبان فراہم کی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عام آدمی کو فتوے کی حیثیت اور صورت کا اندازہ نہیں اور اس کو کیا خبر کہ تحدیدی فتویٰ کس کو کہتے ہیں اور قانونی اور اجتماعی اعتبار سے فتویٰ کی کیا حیثیت ہے۔ ہمارے دور میں بھی خمینی انقلاب کے بعد ایک تکفیری مہم شروع ہوئی۔ علما نے اس کا راستہ روکنے کے لیے اسی صورت کا انتخاب کیا اور ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے، لیکن آپ حضرات نے ان فتووں کو بنیاد بنا کر ایک جماعتی صورت اختیار کر لی۔ ہرذی علم جانتا ہے کہ آپ کی جماعت کی بنیاد میں کسی بھی مفتی یا اکابر کی تائید شامل نہیں جس نے فتویٰ دیاہو اور نہ بعد میں آپ کو کسی مفتی نے اس بات کی اجازت دی کہ یہ ہمارے فتوے ہیں، آپ ان کو گلی بازاروں اور چوک چوراہوں میں پیش کریں اور نہ ہی کسی مفتی نے یہ کہا کہ آپ میدان میں اتریں اور نعرہ لگائیں ’’کافر کافر‘‘، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ یہ حقائق اس بات پر دال ہیں کہ علما نے جو فتوے دیے، ان کا دائرہ اور حیثیت کچھ اور تھی۔
۴۔ جہاں تک عظمت صحابہ کے دفاع اور شان صحابہؓ بیان کرنے کا تعلق ہے، یقیناًیہ ایک مبارک عمل ہے اورفرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم: فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم کے عین مطابق ہے، لیکن جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے محبت کا درس دیا، وہیں ان کی اہانت و گستاخی کرنے والے کے لیے وعید بھی سنائی اور امت کو اس کے ساتھ برتاؤ کا طریقہ بھی سمجھایا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اذا رایتم الذین یسبون اصحابی فقولوا لعنۃ اللہ علیٰ شرکم‘‘ یعنی جب دیکھو ان لوگوں کو جو براکہتے ہوں ہمارے اصحاب کو تو کہو کہ اللہ کی لعنت ہے تمہارے شر پر۔ (ازنقل روایت مع ترجمہ فتویٰ عزیز ی کامل، ص۳۵۶)
اس فرمان سے بالکل واضح ہے کہ صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کا مرتکب لعنت کا مستحق ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے تو کیوں نہ آپ کا موقف بھی عین فرمودات حضرت محمد کا پرتو ہوتا! پر ایسا نہ ہوا، حداعتدال سے تجاوز کیا گیاجس کے یقیناًاثرات مثبت سامنے نہیں آنے تھے۔ مزید یہ کہ فقہاء کرام اور جمہورعلماء کا بھی مفتیٰ بہ قول یہی ہی کہ سبِّ صحابہ کفر نہیں، فسق ہے۔میں حضرت مفتی عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ کا صرف ایک حوالہ پیش کرنا چاہوں گا۔ وہ فرماتے ہیں کہ بعض روافض کی بعض باتیں بدعت ہیں، کفر نہیں ہیں جیسے ان کا یہ کہنا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ حضرات شیخینؓ سے افضل ہیں اور بعض حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مخالف (جیسے حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت امیر معاویہؓ )پر لعنت کو واجب لکھتے ہیں تو یہ اور ان کے مشابہ تمام امور بدعت ہیں، کفر نہیں کیونکہ یہ تاویل کے بعد کیے جاتے ہیں۔ بحرالعلوم مولانا عبدالعلی ؒ شرح مسلم الثبوت میں لکھتے ہیں:
الصحیح عند الحنفیہ ان الروافض لیسوا بکفار والوجہ فیہ ان تدینہم او دفعہم فی ما دفعوا زعما منہم انہم علی الدین المحمدی وان کا ن زعمہم ہٰذا باطلاً وما کذبوا محمدا صلی اللہ علیہ وسلم فہم غیر ملتزمین للکفر والتزام الکفر کفر دون لزومہ۔
یعنی حنفیہ ؒ کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ روافض کافر نہیں ہیں، کیونکہ وہ جو دین رکھتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں، یہ سمجھ کر کرتے ہیں کہ یہی دین محمدی ہے۔ اگر چہ ان کا یہ خیال غلط ہو، لیکن وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (اپنے نزدیک) نہیں جھٹلاتے، پس کفرکو اپنے سر نہیں لیتے اور کفر کو لازم لے لینا کفر ہے نہ کہ اس کا لازم آنا۔ ( مجموعۃ الفتاویٰ، جلددوئم ص ۲۳۵، کتاب الحظر والاباحۃ)
اس طرح کے اقوال اس موضوع پر اور بھی کافی علما کے موجود ہیں اور ایسے اقوال و آرا کی موجودگی میں آپ حضرات کو کس نے اتنی شدت پسندی اختیار کرنے پر مجبور کیا کہ معاملہ قتل و قتال پر منتج ہوا اور ابھی تک جاری ہے ۔ جب شریعت میں دونوں چیزیں یعنی حب صحابہ اور گستاخی صحابہ نتائج اور انجام کے اعتبار سے بالکل واضح ہیں تو کیوں نہ اس معاملے میں جذبات کے تقاضوں کے بجائے شریعت کے تقاضوں پر عمل کیا گیا!
آخر میں میری آپ سے درخواست ہے کہ ابھی بھی وقت ہے اور تمام دینی جماعتیں بھی آپ سے یہی تقاضا کرتی چلی آرہی ہیں کہ براہ کرم اپنے فکر و عمل کی تبدیلی پر غور کریں اور حقیقت پسندی سے ماضی کی پالیسیوں کا بھی تجزیہ کریں۔ یہ بات واضح ہے کہ اس راستے میں آپ کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک درجن سے زائد قائدین کی شہادت کے علاوہ بے شمار افراد اس کشمکش میں داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں۔ یقیناًان کے اخلاص کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے اور بغیر کسی شبہ کے وہ قابل تحسین ہیں، لیکن کیا اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی گستاخی صحابہ میں کمی آئی ہے یا اس میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے؟ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ آپ کے گڑھ جھنگ میں حضرت عثمانؓ کی شان میں بے ادبی جیسا دلخراش واقعہ بھی رونما ہوا۔
ایک طرف آپ ہیں جو حب صحابہ کا دعویٰ کیے اس راستے میں جانیں قربان کرتے چلے آرہے ہیں تو دوسری طرف شیعہ ہیں جو حب آل رسول کے دعوے میں اپنی جانیں قربان کیے چلے آرہے ہیں۔ یہ کب تک چلے گا ؟ براہ کرم آپ گستاخی صحابہ جیسی مذموم حرکت کو روکنے میں سنجیدگی کا راستہ اختیار کریں اور یہ کفریہ نعروں کو ترک کریں اور شیعوں کو قانونی اور اجتماعی معاملات میں امت کا حصہ سمجھیں۔ انفرادی معاملات میں آپ کو کلی اختیار ہے کہ آپ اس کے برعکس معاملہ رکھیں۔ یقیناًاس طرح کے اقدامات ایک دوسرے کو قریب لانے میں مدد گار ثابت ہوں گے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ شیعوں میں کچھ سنجیدہ طبقہ ہے جو سب و شتم کو صحیح نہیں سمجھتااور اس حوالے سے ماضی میں آپ کی اور ان کی باہمی کی کوششوں کی مثالیں بھی ملی یکجہتی کونسل، متحدہ علماء بورڈ وغیرہ کی صورت میں موجود ہیں۔ ایسے فورمز کو دوبارہ فعال کرنے کا مطالبہ بھی شیعوں کی طرف سے ہوتا رہتا ہے۔ ایسے ہی انداز کو اختیار کرتے ہوئے کوئی ایسی حکمت عملی ترتیب دیں جو اہانت اصحاب رسول کو مستقل طور پر روکنے میں کار گر ثابت ہو اور ہم سب من حیث القوم اصحاب رسول کی بے ادبی جیسے واقعات کو روکنے میں یک آواز ہوں۔
مجھے حیرت ہوتی ہے جب کوئی آپ سے اس طرح کا مطالبہ کرتا ہے تو آپ یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے ہمارے قائدین جنہوں نے شہادتوں کا نذرانہ اس راہ میں پیش کیا، وہ غلط قرار پائیں گے۔ یقیناًان حضرات کے اخلاص میں کسی کو شک نہیں، پر ایک تجربہ ہمارے سامنے موجود ہے کہ اس فکر و عمل سے امت کو فائدہ نہیں ہو رہا اور وہ انسان تھے، معصوم نہیں تھے جن سے غلطی کا صادر ہونا محال ہو۔ حسن ظن اختیار کرتے ہوئے ان کی اس خطا کو اجتہادی خطا بھی قرار دیا جا سکتا ہے جو یقیناًان کے شرف میں عدم خلل کا باعث ہو گا۔امید ہے، غور فرمائیں گے۔
اک طرز تغافل ہے سو وہ تم کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
حافظ محمد فرقان انصاری
ٹنڈو آدم
(۴)
بخدمت گرامی قدر مولانا زاہد الراشدی صاحب
خیریت موجود، عافیت مطلوب۔
جنوری کا شمارہ ملا اور ایک ہی نشست میں پڑھنے کی من جانب اللہ توفیق مل گئی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔
محترم مولانا زاہد حسین رشیدی کے مضمون کی توضیح آنجناب کے قلم سے پسند آئی، تاہم مزید تسلی درکار ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں رائے، اجتہاد اور فتویٰ کو خلط ملط کر دیا گیا ہے، جبکہ تینوں کے دائرۂ کار الگ الگ ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس عنوان کو ذرا وسعت دے دی جائے، کیونکہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ پوری قوم کو بغیر کسی معیار کے ’’اصحاب الرائے‘‘ کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔
جب ہر شخص مجتہد اور مفتی نہیں بن سکتا تو پھر ہر شخص صاحب الرائے کیسے بن سکتا ہے؟ راقم کا خیال ہے کہ ’’اظہار‘‘ اور ’’رائے‘‘ کے لطیف فرق کو بھی واضح کر دینا چاہیے۔ اظہار مافی الضمیر کا حق تو سب کو ہے، مگر رائے دینے کے لیے حدود وقیود ضروری نہیں۔ یہاں تو کہنے والے کو خود پتہ نہیں ہوتا کہ میں رائے دے رہا ہوں، فتویٰ دے رہا ہوں یا اپنا اجتہاد پیش کر رہا ہوں۔ قرآن وسنت کے قطعی اور اعتقادی مسائل میں کسی کی رائے کی رائی کے برابر بھی کوئی وقعت نہیں ہے، البتہ وہ فروعی مسائل اجتہادیہ جن میں کتب وسنت کی نصوص ساکت یا مبہم ہیں، ان کے متعلق رائے ضرور ہونی چاہیے، مگر رائے کا انداز ایسا نہ ہو کہ کسی فرد یا طبقے کی دل شکنی ہو۔ معذرت کے ساتھ جسارت کروں گا کہ ’’الشریعہ‘‘ میں بعض حضرات رائے کی آڑ میں نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں۔ معاشرے کی کسی بھی خامی اور کوتاہی کو وہ اہل مذہب کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور پھر ’’مولویت‘‘ کی پگڑیوں کے بل کھول کھول کر اپنا ستر ڈھانپنے کی لاحاصل مشق شروع کر دیتے ہیں۔ اس لیے ازراہ کرم بدگمانی اور بد زبانی کو بھی رائے کا نام نہ دیا جائے۔
راقم کے نزدیک عصر حاضر کا ایک بڑا المیہ ’’مفتی ازم‘‘ ہے۔ فی زمانہ ہر عنوان پر کام کرنے والے فتوے کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ تحقیقی یا دعوتی مزاج اپنا بوریا بستر گول کر گیا ہے۔ راقم نے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ بالاستیعاب اور ایک سے زائد مرتبہ پڑھی، مگر صفحہ اول سے لے کر صفحہ آخر تک کہیں فتوے کی زبان نہیں ہے۔ اردو لٹریچر میں علماء اہل سنت کی بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں۔ قائد اہل سنت مولانا قاضی مظہر حسینؒ نے ساری زندگی رد پر کام کیا ہے، مگر راقم کا دعویٰ ہے کہ کہیں بھی ان کا تقویٰ، فتوے کی زد میں نہیں آیا۔ مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے معتدل اور متوازن مزاج کو آنجناب سے بڑھ کر بھلا کون جانتا ہوگا؟ اس لیے مخدوم من! آپ ’’فتوے‘‘ کا تو ذکر ہی چھوڑ دیں، ’’اجتہاد‘‘، ’’اظہار‘‘ اور ’’رائے‘‘ کو ذرا کھول کر پیش فرما دیں کہ اظہاریہ میں اسلوب کیا ہونا چاہیے؟ رائے دینے یا کسی کی رائے سننے کے لیے ضابطہ اخلاق کیا ہے؟ اور مجتہد کے اوصاف یا اجتہاد کی شرائط کیا ہیں؟ اسی طرح رائے دے کر جو فارغ ہو جائے، وہ تو صاحب رائے ہوگا، لیکن جو رائے کو مسلط کرنے کی کوشش کرے، اسے کون سا نام دیا جائے گا؟ براہ کرم اس پر سیر حاصل بحث ہو جائے تو بھلا ہوگا۔
جامع مسجد نور کے تاریخی پس منظر پر لکھے گئے مضمون نے بہت متاثر کیا۔ حیات سدید کے ’’ناسدید‘‘ پہلو بھی قیمتی سودا ہے۔ حافظ صفوان صاحب کا مکتوب پڑھ کر بڑا متحیر ہوا کہ کیڑوں کی خوراک بننے والا انسان بھی تعلی وکبر کا اتنا مریض ہو سکتا ہے؟ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حافظ عبد الجبار سلفی
ملتان روڈ، لاہور