دار العلوم دیوبند کی کشمیر کانفرنس

عارف بہار

دارالعلوم دیوبند برصغیر کی شہرہ آفاق دینی درسگاہ ہے جس نے برصغیر کی سیاست، صحافت، خطابت کو کئی جوہر قابل عطا کیے، لیکن یہ بات بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ برصغیر کی داخلی سیاست میں یہ دانش گاہ تعبیر کے جن سرابوں کے پیچھے بھاگتی رہی، ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ ۱۶؍ اکتوبر کو دارالعلوم دیوبند میں ہونے والی ایک روزہ کشمیر کانفرنس اس تعاقب کا ایک ثبوت ہی تھی جس میں ایک طرف تو کشمیر میں ظالمانہ قوانین کے خاتمے اور فوج کی تعداد کم کرنے کے مطالبے کی حمایت کی گئی، وہیں ایک قرارداد میں فتوے کے انداز میں کشمیر کو بھارت کا ا ٹوٹ انگ قرار دیا گیا۔ اس کانفرنس کی جو رپورٹس بھارتی اخبارات میں سامنے آئیں، ان کے مطابق جمعیت علمائے ہند کے ز یر اہتمام اس کانفرنس میں کئی علما، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی اور پورا دن مسئلہ کشمیر کی جزئیات اور اس کے بھارتی مسلمانوں پر اثرات پر بحث ہوتی رہی جس کے بعد یہ قرارداد سامنے آئی جس پر ’’جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی‘‘ کی بات صادق آتی ہے، یعنی کشمیر میں آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ کا نفاذ غلط لیکن کشمیر بھارت کا جزو لاینفک۔ 

دیوبند کی کشمیر کانفرنس پر ہر دو طرح کے تاثرات سامنے آرہے ہیں۔ایک تاثر یہ ہے کہ گزشتہ بیس برس میں پہلی بار بھارتی مسلمانوں کی قیادت کو کم از کم یہ احساس تو ہوا کہ کشمیر ایک قطعہ زمین ہے جہاں ان کے ملک کی فوج بیس برس سے بے پناہ ظلم وتشدد میں مصروف ہے۔ اگر انسان پورا سچ بولنے کی پوزیشن میں نہ ہوتو اسے آدھا سچ ہی بولنا چاہیے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بولنا بھارت کی مسلمان قیادت کا آدھا سچ ہے۔ جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ بھارت کی مسلمان قیادت نے کانفرنس کے بعد ایک واضح سیاسی لائن لی۔ بھارت کی مسلمان قیادت اس وقت کئی طرح کے دباؤ کا سامناکر رہی تھی جس کے باعث وہ پورا سچ بولنے کی پوزیشن میں نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ جب یہ قیادت جب تک پورا سچ بولنے کی پوزیشن میں نہ آئے، خاموشی کو ہی ترجیح دینی چاہیے۔ 

کانفرنس میں دو طرح کے رویے نظر آئے۔ جمعیت العلمائے ہند کے مولانا محمود احمد مدنی کا یہ کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت کی مسلمان قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا۔ معروف صحافی اور ایشین ایج کے ایڈیٹر ایم جے اکبر کا کہنا تھا کہ اگر کشمیری بھارت کے دائرے میں رہ کر بات کریں تو میں سو فیصد ان کے ساتھ ہوں، اگر وہ علیحدگی کی بات کریں گے تو میں سوفیصد ان کا مخالف ہوں۔ ایم جے اکبر جیسے روشن خیال دانشور سے یہ پوچھنے والا شاید کوئی نہیں تھا کہ علیحدگی پسندوں کے بھی کچھ انسانی حقوق ہوتے ہیں جب کہ ان کے ہاتھ میں بندوق بھی نہ ہو۔ تو کیا ان کی عورتیں اور بچے انسانوں کے زمرے میں بھی نہیں آتے؟ اس کانفرنس میں ایک اور رویہ جماعت اسلامی ہندکے نمائندے کی طرف سے سامنے آیا جس نے کشمیر کانفرنس کے انعقاد کو جرات مندانہ قراردیا، کشمیریوں کے جائز مطالبات کی ]حمایت کی[، لیکن کشمیر کے سیاسی تنازعے پر لب کشائی نہیں کی۔ شایدیہی رویہ کشمیر، بھارت کی مسلمان قیادت سے چاہتا ہے۔

بھارت کے مسلمان اس ملک کے شہری ہیں۔ ان کی وفاداری کا مرکز و محور بھارت ہی ہے اور رہنا چاہیے۔قیام پاکستان کے بعد انہیں جس نفسیاتی دباؤ کا سامنا ہے، اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ سیاسی لائن اختیار کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیں۔ بھارت کی مسلمان قیادت کا اپنا ورلڈ، پاکستان اور کشمیر ویو ہے۔خود کشمیر کے اندر عمر عبداﷲکی صورت میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو اس موقف سے قریب تر ہیں۔ بھارت کی مسلمان قیادت نے چمکتے دمکتے بھارت کی ترقی کے فوائد میں شریک ہونے کا شعوری فیصلہ کیا ہے۔ اس سے بہتر کوئی آپشن نہیں ۔مسئلہ ایک مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کا ہے۔ 

پچھلے دنوں جمعیت العلمائے ہند کے مولانا محمو د احمد مدنی نے پاکستان کے ایک پرائیویٹ چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آج کشمیر کو آزادی دی جائے تو کل کسی اور علاقے میں مسلمان اکثریت میں آکر آزادی مانگیں گے، اس طرح تو یہ سلسلہ کہیں نہیں رکے گا۔ مسئلہ اکثریت اور اقلیت کا نہیں۔ جب بھارت میں راشٹریہ سویم سنگھ سے متاثر لابی نے پٹیل کی قیادت میں پنڈت نہرو کو کشمیر پر رائے شماری کا موقف ترک کرنے پر مجبور کیا تو پنڈت جی نے بھارت کی مسلمان قیادت کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یہ تاویل گھڑ لی کہ ایک مسلم اکثریتی ریاست کا بھارت کے ساتھ رہنا نہ صرف بھارت کے سیکولر وجود بلکہ بھارتی مسلمانوں کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ عرب دنیا کو اس کا قائل کرنے کے لیے کہا جاتا رہا کہ اگر کشمیر بھارت سے الگ ہو گیا تو بھارتی مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ اس لیے مسلم دنیا کو پچاس ساٹھ لاکھ کشمیری مسلمانوں کے لیے دس بارہ کروڑ مسلمانوں کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے۔ کانگریس سے قریب تر مسلمان قیادت نے بھی اس فلاسفی کو قبول کر لیا، حالانکہ کشمیری او ر بھارتی مسلمانوں کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ تقسیم کے وقت کانگریس اور مسلم لیگ میں بھی ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہواکہ بھارتی مسلمانوں کی حفاظت کے لیے کشمیرکا بھارت کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔ اگر دو قومی نظریے پر، جو تقسیم کا بنیادی اصول تھا، من و عن عمل ہوجاتا تو کشمیر بھارت کے لیے ایک خواب ہی ہوتا۔ تب بھارت کے ان مسلمانوں کو جنہوں نے شعوری طور پر بھارت میں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھااپنے، ہی دست و بازو پر زندہ رہنا تھا۔آج بھی وہ کشمیر کی وجہ سے بھارت میں زندہ نہیں بلکہ اپنے ہی دست و بازو کی بنیاد پر زندہ ہیں۔ کشمیر تو تریسٹھ برس سے ذہنی اور عملی طور پر بھارت سے فاصلہ رکھے ہوئے ہے۔ کشمیر کے مسئلے میں بھارتی مسلمانو ں کی قیادت کا کوئی کردار بنتا ہی نہیں۔ ان سے پوچھنے، انہیں اعتماد میں لینے کاکوئی سوال ہی نہیں۔ اس مسئلے کے تین فریق ہیں: کشمیری عوام، بھارت اور پاکستان۔ چونکہ یہ تینوں ایک میز پر بیٹھتے نہیں، اس لیے مسئلہ لٹکا ہوا ہے۔ اس میز پر بھارتی مسلمانوں کی نمائندگی بھارت کی حکومت کر رہی ہوگی۔ اس سلسلے میں مولانا وحید الدین خان کے صاحبزادے اور ملی گزٹ کے ایڈیٹر ظفر خان کاموقف زیادہ قرینِ حقیقت ہے جنہوں نے حال ہی میں کہا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کے مسائل بھارت کے مسلمانوں سے قطعی مختلف ہیں، مسئلہ کشمیر کے حل سے بھارتی مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

دیوبند کانفرنس میں کشمیر کے سیاسی مسائل کو بھارتی مسلمانوں کے سماجی مسائل کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا گیا۔ بھارت کی مسلمان قیادت کو اب کشمیر کو ڈھال کے طور استعمال کرنے کی بجائے خود اپنی بنیادوں پر کھڑے ہوکر بھارت کے نقشے میں اپنا مستقبل سنوارنا اور تلاشنا چاہیے۔ کشمیر ایک تاریخی تنازعہ ہے جس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں، جس کے کئی فریق ہیں، جس پر کئی جنگیں لڑی جاچکی ہیں، جس پر بے تحاشا لٹریچر چھپ چکا ہے، جس کی قیمت لاکھوں کشمیریوں نے اپنی جانوں کی شکل میں اداکی ہے،جو تین ایٹمی طاقتوں کو براہ راست متاثر کر رہا ہے۔ یہ محض کسی قطعہ زمین میں کسی ایک مذہب کے پیروکاروں کے اکثریت میں ہونے کا سوال نہیں۔اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو کل برطانیہ کے مسلمان اپنی سیاسی قوت بڑھانے اور ڈیموگرافی کی تبدیلی کے لیے حکومت برطانیہ کو کسی مسلمان ملک پر قبضہ کرنے کی ترغیب دیں گے۔ بھارت کی مسلمان قیادت کو بھارتی ڈھانچے میں کشمیر کے ستر اسی لاکھ مسلمانوں کو ہیومن شیلڈ کے طور دیکھنے کی بجائے بھارت کے درجہ اول شہری کے طور اٹھارہ کروڑ مسلمان آبادی کی قوت پر انحصار کرنا چاہیے اور اس خود اعتمادی کی بنیاد پر اپنے لیے سپیس پیدا کرنی چاہیے۔بھارت کی مسلمان قیادت کو رائے کے اظہار کا حق ہے، لیکن آدھا اور دل آزار سچ بولنے سے خاموشی ہزار درجے اچھی ہے۔ 

(بشکریہ روزنامہ اوصاف)

اخبار و آثار

(نومبر ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter