(۱)
آپ کی جوابی تحریر موصول ہوئی۔ راقم آپ کی پہلی تحریر میں اپنے نکات سے متعلق جوابی سیکشن نہ دیکھ سکا تھا جس کی وجہ سے جواب نہ ملنے کی شکایت کی۔ اس کے لیے معذرت قبول کیجیے۔ قلت وقت کے سبب انتہائی اختصار کے ساتھ چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں:
۱) آپ کی آخری تحریر سے یہ واضح ہوجا تا ہے کہ کم از کم آپ مجاہدین کے اس مقدمے سے متفق ہیں کہ (شرعی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے ) امریکہ پر اقدامی حملہ کرنا شرعاً و اصولاً جائز ہے ۔
۲) آپ کا فرمانا ہے کہ کسی جنگی اقدام کے جہاد کہلانے کی لئے ضروری ہے کہ اس میں ’کسی بھی ‘ شرعی اصول و تعلیم کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو۔ آپ کے نزدیک کیا یہ اصول صرف جہاد کے لیے خاص ہے یا دین کی دیگر تمام اجتماعی صف بندیوں کو پرکھ کر انہیں ’دینی‘ قرار دینے کے لیے اپنانا بھی ضروری ہے؟ اگر ضروری ہے (جیسا کہ منطقی طور پر ہونا چاہیے) تو کیا ہماری ہم عصر بہت سے ایسی صف بندیاں جنہیں ہم ’دین‘ کا کام قرار دیتے ہیں، کیا وہ بھی ’غیر دینی‘ نہ ہوجائیں گی؟ پھرکیا اس اصول پر عمل پیرا ہوکر ہم کسی معاشرے کو کبھی ’اسلامی‘ کہنے کی پوزیشن میں ہوں گے؟
۳) اگر آپ کا بیان کردہ اصول ایک شرعی ضابطہ ہے تو اسے لازماً زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہونا چاہیے۔ اس طور پر غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس اصول کو صرف معاصر مجاہدین ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری اسلامی تاریخ میں جہاں اور جب بھی کوئی جہادی کاروائی کی گئی، اس پر لاگو کرکے اس پر حکم لگانے کی سخت ضرورت ہے، علی الرغم اس سے کہ اس کی زد میں ٹیپو سلطانؒ آئیں یا پھر سید احمد بریلویؒ و شاہ اسماعیل شہیدؒ ۔ (ظاہر ہے سید احمد و شاہ اسماعیل کسی بھی اسلامی سلطنت کے امیر نہ تھے اور آپ کے اصول کے مطابق انہیں علم جہاد بلند کرنے کی ہرگز اجازت نہ تھی)۔ کیا واقعی آپ زمان و مکان سے ماورا ہوکر اس اصول کے مطابق حکم لگانے کے لیے تیار ہیں؟
۴) آپ کے دلائل سے اندازہ ہوتا ہے کہ دراصل آپ کو Twin Towers پر حملہ کرکے غیر حربی امریکیوں کو مارنے پر اعتراض نہیں، بلکہ حملہ کرنے والوں کے وجہ جواز پر اعتراض ہے، یعنی آپ کے نزدیک مسئلہ یہ نہیں کہ مجاہدین کی کارروائی میں چند غیر حربی امریکیوں کا قتل کیوں ہوا، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ مجاہدین ایسا کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ گویا اگر صرف حملے کا وجہ جواز تبدیل کردیا جائے تو آپ کے نزدیک بھی معاملہ درست ہوجائے گا۔ یعنی اگر Twin Towers پر حملے کا جواز یہ قرار دیا جائے کہ ’یہ امریکہ کی شان و شوکت کی علامت تھا، لہٰذا اس پر حملہ کرنا امریکہ کی عظمت پر حملہ کرنا تھا، البتہ موجودہ ہتھیاروں کے ساتھ غیر حربی کی رعایت کرنا ناممکن ہے‘ تو یہ کاروائی جائز قرار پائے گی۔
۵) جہاں تک غیر حربی امریکیوں کے قتل کی بات ہے تو اس میں دو امور قابل غور ہیں:
(الف) موجودہ ہتھیاروں کے ساتھ حربی و غیر حربی کی رعایت قریب قریب ناممکن ہے۔ شرع میں بھی اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ اگر مخالفین مسلمانوں کو اپنی ڈھال بنالیں تو ایسی صورت میں ان مسلمانوں کو قتل کرکے کفار سے لڑنا جائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا گویا کسی غیر حربی کا قتل ہر صورت میں ناجائز نہیں بلکہ اس طور پر ناجائز لگتا ہے کہ اس کے علاوہ دیگر آپشنز با سہولت موجودہ ہوں لیکن پھر بھی انہیں قتل کردیا جائے۔
(ب) اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی عوام ایسے حکمرانوں کو باخوشی ووٹ دیتی ہے جو مسلمانوں کا قتل عام کرتی ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ افغانستان پر چلائے جانے والے کئی میزائلوں پر امریکی عوام کے دستخط اور یہ جملے پائے گئے ’a gift from US to Afghanistan‘۔ کتب کی عدم دستیابی کی بنا پر راقم کو حوالہ یاد نہیں مگر اسلامی غزوات میں ایسے لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جنہیں اس بنا پر قتل کیا گیا کہ وہ اپنی شاعری وغیرہ کے ذریعے کفار کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دلاتے۔ کیا امریکی عوام کو اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا؟
ان تمام گزارشات کو راقم کی پوزیشن مت سمجھئے گا، یہ محض مجاہدین کا مقدمہ ہے۔
محمد زاہد صدیق مغل
(۲)
آپ کے ذکر کردہ نکات کے حوالے سے میری گزارشات، بالترتیب، حسب ذیل ہیں:
۱) درست فرمایا۔ اصولاً امریکہ پر یا کسی بھی دوسرے ملک پر حملہ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ شرعی شرائط اور حدود کا لحاظ رکھا جائے، مثلاً جنگ کا شرعی جواز موجود ہو، حملے کا فیصلہ ایسی اتھارٹی نے کیا ہو جو شرعاً اس کی مجاز ہو، حملے میں کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو اور آداب القتال یعنی دوران جنگ کے شرعی واخلاقی ضوابط کی پاس داری کی جائے۔ مزید برآں حملے کے نتیجے میں مسلمانوں کے جانی ومالی نقصان کا پہلو ملحوظ رکھنا اگر قانونی وفقہی طور پر نہیں تو حکمت وسیاست شرعیہ کی رو سے بہرحال ضروری ہے۔ اگر تو کوئی مخصوص گروہ اپنی حد تک نتائج وعواقب سے بے پروا ہو کر کوئی ایسا اقدام کرنا چاہتا ہے جس کے اثرات اسی تک محدود رہیں گے تو یہ اس کا اجتہادی اختیار ہے، لیکن اگر اس کے اقدام کے نتائج ان لوگوں پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں جو اقدام کے فیصلے میں شریک نہیں اور اس کے نتائج کی ذمہ داری بھی انھوں نے قبول نہیں کی تو یہ بات شرعاً واخلاقاً درست نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی باقاعدہ ریاست جنگ کا فیصلہ کر رہی ہے تو بھی وہ اپنی رعایا کی جان ومال کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اور حکومتی سطح پر کوئی بھی اقدام کرتے ہوئے قوم پر مرتب ہونے والے نتائج کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
۲) اس کا تعلق شرعی اصول کی خلاف ورزی کی نوعیت سے ہے۔ اگر خلاف ورزی شخصی اور انفرادی سطح کی ہے تو اس کے مطابق حکم لگے اور اگر پوری جدوجہد کی اساس کسی خلاف شرع امر پر استوار ہے تو حکم اس کے مطابق لگے گا۔ یہ نہ تو کوئی معیار ہے اور نہ دین کا تقاضا کہ دین کے نام پر کی جانے والی کوئی ایسی جدوجہد بالفعل پائی جاتی ہو جسے ضرور ’دینی‘ یا ’اسلامی‘ کہا جائے۔ اصل چیز دینی واخلاقی معیار ہے۔ اگر اس پر کوئی عملی جدوجہد پورا نہیں اترتی تو یہ کوئی اصول نہیں کہ اس معیار کو اس لیے نظر انداز کر دیا جائے کہ پھر ہم ’دینی‘ یا ’اسلامی‘ جدوجہد کس کو کہیں گے؟ بحیثیت مجموعی معاشرے کو بھی اسی اصول پر دیکھنا چاہیے۔ وہ جن پہلووں سے ’اسلامی‘ اصولوں پر استوار ہو، اس حد تک اسے ’اسلامی‘ کہا جائے، جبکہ باقی پہلووں میں بہتری کی کوشش جاری رکھی جائے۔
۳) نکتہ نمبر ۲ کے تحت کسی معاملے پر شرعی یا غیر شرعی کا حکم لگانے کا جو اصول بیان کیا گیا ہے، یقیناًاس کا اطلاق زمان ومکان کی قید کے بغیر ہر معاملے پر ہوگا، خواہ اس کی زد میں کوئی بھی آئے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے اپنے عہد میں رونما ہونے والے ایسے واقعات پر جو صحابہ کے ہاتھوں سرزد ہوئے، یہ حکم لگانے میں کوئی رعایت نہیں تو بعد کی کسی شخصیت یا کارروائی کو بھی کوئی استثنا نہیں دی جا سکتی۔ البتہ کسی مخصوص معاملے میں شرعی اصول کی خلاف ورزی فی الواقع ہوئی ہے یا نہیں، یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے۔ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی جس سے یہ اخذ کیا جا سکے کہ چونکہ ’’سید احمد و شاہ اسماعیل کسی بھی اسلامی سلطنت کے امیر نہ تھے‘‘ اس لیے ’’انہیں علم جہاد بلند کرنے کی ہرگز اجازت نہ تھی۔‘‘ میرے نزدیک جہاد کا اقدام کرنے کے لیے کسی باقاعدہ سلطنت یا ریاست کا وجود ضروری نہیں۔ کوئی منظم گروہ بھی، مطلوبہ شرائط کے ساتھ، ایسا اقدام کر سکتا ہے۔ البتہ اس امر کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ وہ گروہ یا تو کسی آزاد خطے کو اپنا مرکز بنائے یا کسی ایسے علاقے کو جہاں پہلے سے قائم نظم اجتماعی، چاہے وہ قبائلی طرز کا ہو یا ریاست اور حکومت کی صورت میں، اس کے اقدامات کی علانیہ تائید اور پشت پناہی کرتا ہو اور ان کے نتائج کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کے لیے تیار ہو۔ سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید کی جدوجہد کی تفصیلات باریکی کے ساتھ اس وقت پیش نظر نہیں ہیں کہ متعین طور پر کوئی رائے دی جا سکے، البتہ اصولی طور پر یہ بات واضح ہے کہ اگر ان کی جدوجہد میں کسی بھی شرعی اصول کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو اس کے مطابق حکم یقیناًلگے گا۔
نکتہ نمبر ۴ اور ۵ کے جواب میں گزارش ہے کہ اگر دشمن نے شہری آبادی کو یا کسی غیر حربی مقام یا عمارت کو اپنے لیے ڈھال بنا رکھا ہو اور ان کے، حملے کی زد میں آئے بغیر جنگی ہدف کا حصول ممکن نہ ہو تو ’ضمنی نقصان‘ کے طو رپر ایسی ہلاکتوں کا شریعت اور موجودہ بین الاقوامی قانون میں جواز موجود ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسا کرنا ناگزیر ہو، بے گناہوں کو حتی الامکان حملے سے بچانے کی کوشش کی جائے اور جنگی ضرورت کے حد تک ہی نقصان گوارا کیا جائے۔
جہاں تک حربی ہدف کے علاوہ شان وشوکت رکھنے والے کسی مقام کو نشانہ بنانے کا تعلق ہے تو اس کے جواز کے لیے دو شرطوں کا پورا کیا جانا ضروری معلوم ہوتا ہے:
ایک یہ کہ اس مقام پر جو غیر مقاتلین مصروف عمل ہوں، انھیں پیشگی متنبہ کر دیا جائے کہ یہ جگہ حملے کا ہدف ہے، اس لیے وہ یہاں موجود رہنے سے گریز کریں۔ حربی ہدف پر حملے کے لیے ایسی کسی پیشگی تنبیہ کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ ایسے مقام پر موجود لوگ اصلاً مقاتلین ہوتے ہیں جن پر حملہ کرنا جائز ہے، لیکن غیر حربی ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے اس کا اہتمام اس لیے ضروری ہے کہ وہاں اصلاً غیر مقاتلین مصروف عمل ہوتے ہیں جنھیں حملے سے محفوظ رکھنا حتی الامکان ضروری ہے۔ اگر ایسے کسی مقام کو جو اصلاً غیر مقاتلین کی غیر حربی سرگرمیوں کا مرکز ہو، کسی پیشگی تنبیہ اور وہاں سے بحفاظت نکل جانے کا موقع دیے بغیر حملے کا نشانہ بنایا جائے تو یہ ’دہشت گردی‘ ہوگی۔
دوسری شرط یہ ہے کہ اگر کسی فریق نے حالت جنگ میں کچھ مخصوص قوانین اور ضوابط کی پابندی کسی معاہدے کے تحت قبول کر رکھی ہے جن کی رو سے حربی اہداف کے علاوہ دوسرے مقامات اور عمارتوں پر حملے کی اجازت نہیں تو ان کی پاس داری بھی ایفاے عہد کے اصول کی رو سے ضروری ہے۔
براہ راست جنگ میں حصہ نہ لینے والے لوگ اگر عام شہری ہیں تو ان کی ’خاموش تائید‘ کو ان پر حملے کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ میں اپنی سابقہ تحریر میں واضح کر چکا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جنگ میں دشمن کے لشکر کے ساتھ آنے والی خواتین ، غلاموں اور مزدوروں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے، حالانکہ وہ ایک مفہوم میں اپنے لشکر کی مدد ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ ہاں، دشمن کے ایسے اہل الرائے اور اثر ورسوخ رکھنے والے لوگ جو اپنی رائے، مشورے یا خطیبانہ صلاحیتوں سے جنگ کو بھڑکانے یا اپنی فوج کا مورال بلند کرنے یا جنگ میں کامیابی حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے رہوں، انھیں قتل کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ عہد نبوی کے محولہ بالا واقعات میں کیا گیا۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ معین طو رپر انھی مخصوص افراد کو، نہ کہ بلا تمیز سب عوام کو، نشانہ بنایا جائے جو یہ کردار ادا کر رہے ہوں۔ مذکورہ واقعات میں یہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ مزید برآں یہاں بھی یہ شرط لاگو ہوگی کہ اگر کسی فریق نے حالت جنگ میں کچھ مخصوص قوانین اور ضوابط کی پابندی کسی معاہدے کے تحت قبول کر رکھی ہے جو اسے جنگ میں بالفعل حصہ لینے والوں کے علاوہ دوسرے افراد کو نشانہ بنانے سے روکتے ہیں تو ان کی پاس داری بھی ایفاے عہد کے اصول کی رو سے ضروری ہوگی۔
امریکی عوام کو ایسے افراد پر قیاس کر کے ان پر براہ راست حملے کا جواز تسلیم کرنے میں مانع یہ ہے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ ’خاموش تائید‘ کا ذمہ دار کہا جا سکتا ہے۔ پھر حتمی طور پر یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ ’a gift from US to Afghanistan‘ کا پیغام امریکی عوام ہی کی طرف سے دیا گیا نہ کہ ان کی افواج کی طرف سے۔ اور اگر بعض عوام نے ہی دیا ہو تو وہ متعین طو رپر معلوم نہیں ہیں، جبکہ امریکی عوام ہی کی ایک بڑی تعداد اپنی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اپنی ناراضی اور احتجاج باقاعدہ ریکارڈ کرا چکی ہے۔ ایسی صورت میں کچھ عوام کے پیغام کو بنیاد بنا کر بلا تمیز تمام امریکی عوام پر حملے کا جواز ثابت کرنا شرعاً وعقلاً قابل فہم نہیں ہے۔
محمد عمار خان ناصر
(۳)
جناب عمار ناصر صاحب
السلام علیکم۔ لنک ارسال کرنے کا شکریہ۔
ہمارے مذہبی حلقے بدقسمتی سے تاریخ کا مطالعہ بھی غالباَ وقت کا ضیاع گردانتے ہیں۔کیا انہوں نے کبھی غور کیا ہے کہ طالبان کم وبیش صرف ایک ہی لسانی گروہ پر کیوں مشتمل ہیں؟
میرا ایک مضمون جو نوائے وقت میں شائع ہوا ہے، اس پر کچھ روشنی ڈالتا ہے۔ اس کا لنک یہ ہے:
http://columns-izharulhaq.blogspot.com/2010/09/blog-post.html
اس موضوع پر میرا ایک مضمون آسٹریلیا کے وقیع انگریزی روزنامے ’’دی ایج‘‘ میں بھی شائع ہونے والا ہے۔
محمد اظہار الحق
izhar@izharulhaq.net
(۴)
محترم جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ! امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
الشریعہ کا تازہ شمارہ پڑھنے کو ملا اور جہاد افغانستان کے حوالہ سے علمی مباحثہ کا مطالعہ کیا۔ خود کش حملوں کے جواز اور اس کے فوراً بعد افغانستان جہاد میں حکمت عملی کے بارے جو گفتگو آپ نے فرمائی ہے، وہ ایسے ہی محسوس ہوتا ہے جیسے راقم کے دل کی آواز تھی جسے آپ نے الفاظ کا جامہ پہنا دیا۔ آپ کی نکتہ رسی اور فقہی بصیرت واقعتا قابل ستائش ہے۔ اللہ آپ کے علم وفضل میں برکت عطا فرمائے۔
جہاں تک طالبان کے جہاد کو جہاد کہنے یا نہ کہنے کے بارے اختلاف کا مسئلہ ہے تو کم ازکم افغانستان میں امریکہ کے محاربین، نہ کہ طالبان مخالف مسلمان جہادی گروپس، کے خلاف جنگ میرے خیال میں جہاد کہلائی جانے کی مستحق ہے اور اسے جہاد کہنا چاہیے، قطع نظر اس سے کہ طالبان نے اسامہ کو امریکہ کے حوالے نہ کر کے کوئی اجتہادی غلطی کی ہے یا نہیں کی۔ اجتہادی غلطی کو بھی اجتہاد ہی کہتے ہیں، یعنی بعض اوقات کسی فعل میں غلطی سے اس فعل پر اس کی متعلقہ اصطلاح کے اطلاق میں کوئی شرعی مانع موجود نہیں ہوتا، جیسا کہ اجتہاد میں غلطی بھی اجتہاد ہی کہلاتا ہے، لہٰذا جہاد میں اجتہادی، سیاسی، حکمت عملی کی خطا کم ازکم اس کو جہاد کہنے میں مانع نہیں ہونی چاہیے جبکہ اس کے بقیہ اصولوں کی پاسداری کی جا رہی ہو۔
بحث بہر حال دلچسپ تھی۔ موقع ملا تو تفصیلی طور پر کچھ گزرشات پیش کروں گا۔ و اللہ اعلم بالصواب
حافظ محمد زبیر
قرآن اکیڈمی، لاہور
(۵)
محترم ومکرم حضرت مولانا عمار خان ناصر صاحب حفظہ اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
’’الشریعہ‘‘ کی موجودہ پالیسی سے اختلاف واتفاق سے قطع نظر، بقول مولانا مفتی محمد زاہد ’’اسلامی حمیت‘‘ کے اس دور میں نہایت حساس مسائل کو ایسے انداز میں زیر بحث لانا جس سے ’’اسلامی حمیت کے فقدان‘‘، ’’اغیار کے فکری ایجنٹ‘‘ اور ’’اکابر کے جادۂ مستقیم سے برگشتہ‘‘ ہونے کا تاثر ملتا ہے، اگرچہ عند البعض اسلامی طریقہ نہ ہو مگر ہے بہت بڑی علمی جرات۔ خصوصاً ’’اسلامی عسکریت‘‘ کے موضوع پر روایتی رجحانات سے ہٹ کر کوئی اور موقف اختیار کرنا اس جذباتی دور میں انے پروانہ موت پر خود دستخط کرنے کے مترادف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس تحریری صلاحیت اور قوت بیان کی نعمت سے نوازا ہے، ہم جیسے طالب علم ہر شمارے میں آپ کی تحریر کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ۲۰۰۴ء سے اب تک آپ کی جو نگارشات نظر نواز ہوئی ہیں، ان کی روشنی میں بندہ کے دو تاثرات ہیں:
(۱) اپنے ’’جمہور مخالف موقف‘‘ کے رد عمل میں تمام تند وتیز تبصروں، خطوط اور ناقدانہ تجزیوں کو آپ کمال حوصلہ کے ساتھ پڑھتے اور شائع کرتے رہتے ہیں۔ یہ آپ کی وسعت ظرفی کی بین دلیل ہے۔
(۲) مگر یاد نہیں پڑتا کہ فریق مخالف کے دلائل وبراہین کے پیش نظر آپ نے اپنے موقف سے رجوع فرما لیا ہو۔ (یقیناًاس کی کوئی معقول وجہ آپ کے پاس ہوگی۔) خداداد ذہنی وعلمی صلاحیت اور جولانی تحریر کو بروے کار لا کر ہر حال میں آپ ثابت قدم رہنا چاہتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ہی مواقع پر آپ کا تحریری بانکپن اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ ہاں اگر بہت مجبوری کے عالم میں ماننا پڑے تو نہایت نپے تلے انداز میں صرف کچھ قریب آنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ مثلاً حالیہ افغان جنگ کی شرعی حیثیت کے تعین میں آپ اسے جہاد قرار دینے سے گریز فرما رہے ہیں، مگر دوسرے قرائن ودلائل جب سامنے آئے تو آنجناب نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا فرما لیا کہ:
’’مذکورہ پہلو سامنے آنے کے بعد طالبان کی حکمت عملی پر سخت تحفظات کے باوجود میرے خیال میں ان کی موجودہ مزاحمت کی شرعی حیثیت کے بارے میں اشکال کی شدت نمایاں طور پر بہت کم ہو جاتی ہے۔‘‘ (الشریعہ، اکتوبر ۲۰۱۰ء، ص ۵۵)
بہرحال اپنے لیے اور تمام اہل علم ودانش کے لیے یہی دعا ہے کہ اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔
حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ اہل علم ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے ہیں، مگر عصر حاضر میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کی عصری تقاضوں کے مطابق تنقیح وتطبیق اور واضح ہونے کی ضرورت ہے۔ اپنے محدود مطالعہ اور ناقص فہم کی بنیاد پر چند مسائل ومباحث کی نشان دہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ اہل علم ان پر خامہ فرسائی فرما کر علمی ذمہ داری کا ثبوت دیں:
(۱) ملک کے مختلف حصوں کی شورشوں (مثلاً قبائلی علاقوں میں پاک فوج اور پاکستانی طالبان کے مابین محاذ آرائی اور بلوچستان میں بلوچ سرفروشوں کی کارروائیاں وغیرہ) کی شرعی حیثیت اور قضیہ لال مسجد کی کربلا سے مماثلت کی بحث۔
(۲) عسکریت کی تمام مروجہ صورتوں کے تفصیلی جائزہ کے ساتھ اسلام کے تصور جہاد کی وضاحت۔
(۳) خود کش حملوں کا حقیقت پسندانہ جز رسی کے ساتھ شرعی جائزہ۔
(۴) اسلام کے نام پر موجودہ سیاست کی خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی اور ان کا حل۔
(۵) امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا اسلامی طریقہ، خصوصاً دور حاضر میں حکمرانوں کے اسلام مخالف طرز عمل اور پالیسیوں کے تناظر میں۔
(۶) تکفیر شیعہ کا مسئلہ (اس کے عملی نتائج میں سنی اور شیعہ کے مابین نکاح وغیرہ شامل ہیں۔)
(۷) اجتہاد کی حقیقت وضرورت اور معیارات۔
(۸) اکابر واسلاف سے وابستگی کے حدود ، دائرے اور معیارات۔
(۹) دینی مدارس کا نصاب ونظام حالیہ زمینی حقیقتوں کی روشنی میں۔
(۱۰) اسلام مخالف تحریکات ونظریات سے واقفیت اور ان سے نمٹنے کا لائحہ عمل۔
امید ہے کہ اہل علم اور سنجیدہ ومتحمل دانش وران ملت ان جیسے مسائل پر اپنی علمی توانائیاں صرف کر کے امت مسلمہ کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں گے۔ واضح رہے کہ ان مسائل ومباحث میں ان اہل علم ودانش کی نگارشات کو پذیرائی ملنے کا امکان ہے جن پر پہلے سے ’’متجددین میں شمار ہونے‘‘ اور ’’اکابر سے بغاوت‘‘ جیسا ٹھپہ نہ لگا ہوا ہو۔
اللہ تعالیٰ ’’الشریعہ‘‘ کو امت مسلمہ کی بہتری کے لیے ایک بہترین علمی فورم کے طور پر ہمیشہ قائم ودائم رکھے۔ آمین
محمود خارانی
مدرسہ دار العلوم، خاران، بلوچستان
(۶)
مکرمی ومحترمی جناب عمار خاں راشدی صاحب زید فضلکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے بعافیت ہوں گے۔ اس خادم کو آپ سے اور آپ کے خانوادے سے جو نیازمندانہ محبت ہے، اس پر اللہ تعالی سے اجر کی امید ہے اور اسی محبت کی بنا پر آپ کے لیے دعا کا اہتمام الحمد للہ اپنی سعادت سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شرافت نسبی اور مقام سے نوازنے کے بعد جو اعلیٰ علمی وفکری صلاحیت عطا فرمائی، وہ ہم سب کے لیے بڑی توقع کا باعث ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنے مقبول بندوں میں شامل فرمائے، اور شرور وفتن سے محفوظ رکھے۔
۱) افغان جہاد سے متعلق آپ کی رائے ایک عرصہ قبل موصول ہوئی تھی۔ محبت کا شکریہ۔ برادر عزیزمولوی الیاس نعمانی نے اس پر کچھ استدراک بھی لکھا تھا۔ میرا نقطۂ نظر بھی قریبا وہی تھا، اس لیے اعادہ کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ لیکن آپ کے نام ایک مراسلے سے ایسا محسوس ہوا کہ کسی صاحب کو آپ کے مضمون سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی بھی افغان جنگ کے جہاد ہو نے کے بارے میں کچھ تحفظ رکھتے ہیں۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ مولانا سے میری مستقل گفتگوئیں رہی ہیں، ان کا موقف یہ نہیں تھا۔ ان کے جس مضمون کا آپ نے حوالہ دیا ہے، اس میں انہوں نے طالبان کے بعض فیصلوں سے اختلاف کیا اور اِن فیصلوں کو شرعی حکمت کے خلاف بتایا تھا۔ ان کو اس باب میں اصل حیرت بلکہ شکوہ پاکستانی علما سے تھا جنہوں نے طالبان کی یقیناًبجا طور پر حمایت تو کی مگر ان کو حکمت کا سبق پڑھانے کی طرف توجہ نہیں فرمائی۔
۲) جہاں تک زیر بحث مسئلے کا تعلق ہے، مجھے اس مفروضے کے بارے میں شک ہے کہ امریکہ کے ٹریڈ ٹاور پر حملے میں القاعدہ نام کی کوئی تنظیم شریک ہے، بلکہ القاعدہ نام کی تنظیم کی اصلیت کیا ہے، یہ شاید ہم میں سے کسی کہ نہیں معلوم۔ القاعدہ کیا ہے؟ اس کی طرف سے جاری میڈیا بیانات یا تحریروں کی حقیقت کیا ہے؟ یہ وحی کہاں سے کس پر کب نازل ہوتی ہے، اور اس کا روح القدس کون ہے؟ یہ سب کسی کو نہیں معلوم۔ بلکہ اگر آپ نے اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ پر آنے والے فوٹو دیکھے ہوں گے تو ان میں واضح ان فرقوں پر آپ کی بھی نظر گئی ہو گی جن کو بہت سے میڈیا کے حضرات نے بھی شک شبہے کا سبب قرار دیا ہے۔ ۱۱/۹ کے فورا بعد القاعدہ کی جانب سے ایک خط جاری ہوا تھا اور اخبارات میں لیٹر ہیڈ کی امیج کے ساتھ چھپا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے لیٹر ہیڈ میں عربی میں القاعدہ کا املا ’’القائدہ‘‘ چھپا تھا۔ مجھے اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ سب کس درجہ حماقت کے ساتھ کیا جانے والا فراڈ ہے۔ ایسی صورت حال میں آپ کی بات سے متفق ہونا مشکل ہے۔
۳) بلکہ اگر ایسا ہے بھی یعنی یہ حملے اسامہ اور القاعدہ کے لوگوں نے کیے تھے تو بھی امارت اسلامیہ افغانستان (طالبان) کی طرف سے جنگ کے ’’بظاہر‘‘ جہاد قرار پانے میں کوئی فرق اس لیے نہیں پڑتا کہ ان کے ہی نہیں دنیا کے سامنے کوئی ثبوت امریکہ آج تک، سوائے دھاندلی کے، نہیں پیش کر سکا۔ ایسی صورتحال میں محض اس مفروضے کی بنیاد پر کہ ’’ان کو پتہ ضرور ہوگا‘‘ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ان کا عمل جہاد نہیں۔ایسے مفروضوں پر نتائج نہیں قائم کیے جاسکتے۔
۴) محترما! ایک سوال اور ہے۔ رسول اللہؐ کے عہد میں سریہ نخلہ والوں سے اشہر حرم میں ایک قتل ہو گیا تھا۔ یقیناًیہ عمل غلط تھا، اسی لیے رسول اللہ ؐ نے مقتول کی دیت دلوائی تھی۔ فرض کیجیے اگر مکہ والے کہتے کہ نہیں اس کے بدلے میں ہم کو تو مدینہ پر حملہ ہی کرنا ہے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دینی ہے، اور رسول اللہؐ مدینے کا اور اپنا دفاع کرتے تو آپ کے اختیار کردہ استدلال کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بھی بس ایک جائز جنگ ہوتی، جہاد نہیں!!!
۵) یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر مسلم ریاست کے کسی شہری نے کسی دوسری ریاست کے دائرے میں کوئی جرم کیا تو اس کو جرم ثابت ہونے پر سزا ملنی چاہیے، یعنی اگر القاعدہ کے حق میں جرم ثابت بھی ہوتا تو بھی اسلامی ریاست پر جو چیز واجب ہوگی، وہ مجرم کو سزا اور مقتولین کا عرف کے مطابق جان بہا ہے، مگر اس کے بہانے اگر دشمن ریاست حملہ کر دے تو اسلامی ریاست کا دفاع یقیناًجہاد ہوگا۔ آپ کے موقف کے مطابق اگر کسی مسلم ریاست کے شہری نے کوئی جرم کیا اور متأثرہ غیر مسلم ریاست مجرم کو سزا دلوانے کے قانونی طریق کار کو عمل میں لانے کے بجائے اس کو حملے اور جارحیت کے لیے بہانہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مسلم ریاست پر حملہ کردے تو مسلم ریاست کا دفاع جہاد نہیں ہو گا۔
میرے محترم عزیز! غور فرمائیے، یہ بات کس قدر مجاہدین کی ہمت کم کرنے والی ہے۔
مخلص، یحییٰ نعمانی
(مدیر ماہنامہ الفرقان، لکھنؤ)
(۷)
مکرم ومحترم مولانا یحییٰ نعمانی صاحب زید مجدکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے تبصرے کا بے حد شکریہ! القاعدہ کے وجود یا سرگرمیوں کے بارے میں آپ کے ارشادت کے بارے میں میرا تبصرہ وہی ہے جو ’الشریعہ‘ میں چھپ چکا ہے۔
افغانستان کے طالبان کے بارے میں اس نکتے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بن لادن کے فتووں اور عزائم سے بہرحال واقف تھے اور اسی وجہ سے اس کے خلاف قانونی ثبوت نہ ہونے کے باوجود انھوں نے اس پر بعض قدغنیں لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس ضمن میں سریہ نخلہ کے واقعے سے استدلال شاید زیادہ درست نہیں۔ وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب سریہ کا طرز عمل سامنے آنے پر نہ تو اہل مکہ سے ’’قانونی ثبوت‘‘ مانگا اور نہ ان کے ارتکاب جرم کا انکار کر کے پردہ پوشی کی کوشش کی۔ آپ نے معاملے کے لحاظ سے جو اخلاقی وقانونی اقدام مناسب تھا، فرمایا اور مقتول کی دیت ادا کی۔ اس کے بعد اگر قریش قتل کا بدلہ لینے کے لیے حملہ کرتے تو یقیناًاس کا مقابلہ جہاد ہی ہوتا۔ طالبان کا طرز عمل اس سے بالکل مختلف تھا۔
بہرحال میں پچھلی بحث کے آخر میں، سامنے آنے والے بعض شواہد کی روشنی میں عرض کر چکا ہوں کہ ’’طالبان کو بعض وقتی اور محدود سیاسی مصالح کی قربانی دیتے ہوئے بن لادن کے معاملے میں زیادہ مضبوط، دو ٹوک اور ذمہ دارانہ موقف اختیار کرنا چاہیے تھا، لیکن انھیں القاعدہ کے پروگرام کے ساتھ ہمدردی یا اس کی خفیہ تائید کا مجرم بہرحال نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ مذکورہ پہلو سامنے آنے کے بعد طالبان کی حکمت عملی پر سخت تحفظات کے باوجود، میرے خیال میں ان کی موجودہ مزاحمت کی شرعی حیثیت کے بارے میں اشکال کی شدت نمایاں طور پر بہت کم ہو جاتی ہے، خاص طور پر جب یہ بات بھی سامنے رکھی جائے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کی طرف سے عالمی برادری اور مسلم دنیا کو کوئی متبادل حل تلاش کرنے کی مہلت اور موقع بالکل نہیں دیا گیا اور انتقام کے جوش میں طاقت کے اندھا دھند استعمال کو ہی واحد حل قرار دے دیا گیا۔‘‘
میرے خیال میں طالبان کو بن لادن کے معاملے کا فیصلہ نائن الیون سے بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا اور اگر وہ مستقبل میں بھی، تمام حقائق سامنے آجانے کے باوجود القاعدہ کو پناہ فراہم کرتے ہیں تو عدم علم کا عذر دوبارہ پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔
آپ کے جذبات محبت پر بے حد شکر گزار اور آپ اور آپ کے خانوادے کے لیے دعاگو ہوں۔ واجرکم علی اللہ
محمد عمار خان ناصر
(۸)
محترم جناب محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
’’القاعدہ ،طالبان اور موجودہ افغان جنگ ۔ایک علمی و تجزیاتی مباحثہ‘‘ میں اپنی رائے کے ساتھ شرکت سے بوجوہ قاصر رہا۔ الشریعہ اکتوبر ۲۰۱۰ء میں مذکورہ مباحثہ دیکھا تو کچھ کہنے کو جی چاہا۔ کسی خاص رائے پر کوئی باقاعدہ تبصرہ مقصود نہیں، مباحثے میں سامنے والے مختلف خیالات پر اپنے چند احساسات پیش کر رہا ہوں۔
القاعدہ کو مفروضہ سمجھنا ایک خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ القاعدہ کی کاروائیاں اور اس کا جہادی زاوےۂ نظر ایک زمینی حقیقت ہے۔ اسے اس کے محسوس ومشاہد تناظر میں دیکھنے والے اسلام کے کسی طالب علم کو اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی کارروائیوں اور جہادی تصور سے اسلام کے اصول مطلقاً ابا کرتے ہیں۔ پاکستان کے وہ عسکری عناصر جو اندرون ملک پر تشدد کارروائیوں کو جائز سمجھتے ہیں، سخت تر مجرم ہیں۔ ان دونوں قسم کے گروہوں سے مطلقاً برأت کا اظہاراسلام، اسلامی اخلاقیات اور عالم اسلام، سب کے مفادات کا تقاضا ہے۔ مذکورہ حوالے سے آپ کے درد دل کی عکاس یہ دعا کہ: اللھم اجعلنا ممن یجاھرون بالحق ولا یخافون لومۃ لائم بڑے وسیع مضمرات کی حامل ہے، لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ہماری مذہبی قیادتیں خوف لومۃ لائم کا بری طرح شکار ہیں۔ یہ بدیہی طور پر لا الیٰ ھولاء ولا الیٰ ھولاء کا مصداق ہیں۔ یہ بات کس قدر افسوس ناک ہے کہ اپنے ہاں کی دہشت گردی کو ہم دہشت گردی کہتے بھی ہیں اور اس کے خلاف زبان بھی نہیں کھولتے۔ کیا ’’حق گوئی و بے باکی‘‘ کا واحد معیار امریکی دہشت گردی کے خلاف لب کشائی ہی ہے؟ سچ یہ ہے کہ ہمارے یہاں امریکہ پر لعن طعن ایک آسان اور محفوظ راستہ ہے اور خود احتسابی اور اپنے گمرہوں کوان کی گمرہی پر متنبہ کرنے کی راہ نہایت مشکل اور پر خطر۔ اگر ہمارے اہل مذہب واقعتا’’ اللہ کے شیر‘‘ ہیں تو انہیں داخلی سطح پر ’’روباہی‘‘ ترک کرنے میں کون سا امر مانع ہے؟ محترم عمار صاحب! آپ پرخطر راستے پر نکل کھڑے ہوئے ہیں، لیکن حق یہ ہے کہ آپ نے’’آئین جوانمرداں‘‘ اختیار کیا ہے۔
نائن الیون کے بعد طالبان کی حکمت عملی کا بے بصیرتی پر مبنی ہونابعد میں تو نہایت کھل کر سامنے آگیا، لیکن اس زمانے میں بھی کئی صاحبان فکر نے اس طرف توجہ دلائی تھی۔ آپ نے بھی بعض حوالہ جات دیے ہیں۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ ارشاد احمد حقانی مرحوم نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ اگر طالبان اسامہ کو امریکہ کے حوالے کر دیتے تو امریکہ کے پاس افغانستان پر حملے کا کوئی اخلاقی جواز نہ ہوتا۔ حقانی صاحب کے اس خیال کے حوالے یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کا اسامہ کی حوالگی کے باوصف افغانستان پر جنگ مسلط کرنے باز آجانا ضروری نہ تھا، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس صورت میں امریکہ کو عالمی برادری کی وہ اخلاقی حمایت حاصل نہ ہوتی جو بصورت دیگر حاصل ہوئی۔اور اس صورت میں جنگ ہوتی بھی تو اس کے نتائج موجودہ نتائج سے بہت مختلف ہوتے اور اہل اسلام کو اتنا نقصان نہ پہنچتا۔
طاقت کے توازن کے تناظر میں بہتر حکمت عملی کی ضرورت کے حوالے سے بعض جذباتی عناصر غزوۂ بدر میں طاقت کے توازن کا حوالہ دینے لگتے ہیں، لیکن یہ لوگ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ اس وقت اسلام کی بقا کا مسئلہ درپیش تھااور وہاں پسپائی کی حکمت عملی اسلام کے وجود کو مٹانے پر منتج ہوتی۔ اس کے برعکس جب اسلام کے وجود کو خطرہ نہیں تھاتو صلح حدیبیہ میں واضح طور پر پسپائی کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ نائن الیون کے بعد اسلام کے وجود کو خطرہ لاحق نہیں تھا۔ بنابریں طالبا ن کو صلح حدیبیہ کو مشعل راہ بنانا چاہیے تھا۔
میرے نزدیک طالبان کے پوسٹ نائن الیون طرز عمل کو محض اجتہادی خطا سے تعبیر کرنا معاملے کی نوعیت کی سنگینی کے صحیح ادراک کا مظہر نہیں ہے۔ یہ خطا کسی فرد یا اجتہادی ادارے کی محدود اثرات کی حامل خطا نہیں ہے، یہ ’’لمحوں کی خطا اور صدیوں کی سزا‘‘ والا وہ بلنڈر تھا جو عالم اسلام کو بہت بڑی تباہی سے دوچار کرنے والا اور نہایت دور رس اثرات کا حامل تھا۔ لہٰذا معاملہ صرف اجتہادی خطا کا نہیں، ان لوگوں کی سخت ناپختہ دینی واسلامی تربیت کاہے۔ نائن الیون سے پہلے،طالبان کے دور اقتدار میں، ایک موقع پرمحترم قاضی حسین احمد صاحب نے ان کی اس ناپختگی کو واضح کرتے ہوئے ایک نہایت خوبصورت جملہ کہا تھا جو اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوا اور بہت مشہور ہوا تھاکہ: ’’طالبان کو عالمان کی ضرورت ہے۔‘‘ لہٰذا طالبان کو طالبان ہی سمجھنا چاہیے، عالمان اور مجتہدین نہیں۔
عہد نبوی کی چھاپہ مار کارروائیوں سے القاعدہ اور دیگر جہادی عناصر کی چھاپہ مار کارروائیوں پر دلیل لاناایک بہت ہی خطرناک غلطی ہے۔ یہ جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام ہے۔ آنحضورؐ نے کبھی بھی کسی معاہد کے خلاف چھاپہ مار کارروائی کا حکم دیا نہ اجازت۔ آپ کی خفیہ کارروائیاں بالکلیہ حربی اور نقض عہد کے مرتکب افراداور گروہوں کے خلاف تھیں۔ ایک ریاست میں بیٹھ کر کسی دوسر ی ایسی ریاست کے خلاف، جس سے اول الذکر علانیہ بر سر جنگ نہ ہو، چھاپہ مار کارروائی اور وہ بھی مقاتلین اور غیر مقاتلین کا لحاظ رکھے بغیر بلکہ دونوں کو علی اعلان ایک ہی صف میں شامل کرتے ہوئے، کسی طرح شرعاً جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔
ابو جندلؓ اور ابوبصیرؓ والے معاملے سے طالبان کے لیے رہنمائی کا پہلو نکلتا تھا تو وہ یہ نہیں تھا کہ وہ ایک ایسے ملک کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں کرنے والوں کو جو ان کے خلاف بر سر جنگ نہیں تھا، اپنے ہاں پناہ اور تحفظ دیتے اور ان کے لیے اپنی اسلامی ریاست (جس حدتک بھی اسے اسلامی کہا جاسکے) کی بھی قربانی دیتے اور اپنے برادر ہمسایوں پر بالخصوص اور عالم اسلام پر بالعموم تباہی مسلط کروانے کا موجب بنتے، بلکہ یہ تھا کہ وہ ریاست مدینہ کے سربراہ کی پیروی کرتے ہوئے انہیں اپنے پاس رکھنے سے انکار کر دیتے۔ وہ کہیں اور بیٹھ کر اپنا کام کر تے۔ تاہم بلا تشبیہ و مثال ان کی ’’کامیابیوں‘‘ کا پھل کھانا ہی ضروری تھا تو مشرکین مکہ کی مانند جب امریکہ ان سے تنگ آ جاتااور طالبان سے انہیں اپنے ہاں بلانے کی درخواست کرتااور طالبان بھی اس پوزیشن میں آگئے ہوتے کہ امریکہ کے خلاف ’’فتح مکہ‘‘ کی تاریخ دہرا سکیں تو ان کو اپنے اندر جذب کر کے کفار کے خلاف طبل جنگ بجا دیتے۔
مستقبل میں اگر طالبان کو دوبارہ برسر اقتدار آنے کا موقع ملتا ہے تو ان کے لیے بہترین صورت راقم کے نزدیک یہ ہے کہ وہ ’’طالبانہ‘‘ کے بجائے عالمانہ انداز فکرو عمل اپنائیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے پاکستانی فکری رہنماان کی مخلصانہ مدد کریں اورانہیں ان کی کوتاہیوں کا احساس دلائیں اور ان کی اصلاح پر آمادہ کریں نہ کہ خود عالمان سے طالبان ہو جائیں کہ: اذا زلّ العالِم زلّ بزلّیہ عالَم۔
ڈاکٹر محمد شہباز منج
شعبہ اسلامیات، یونیورسٹی آف سرگودھا
drshahbazuos@hotmail.com
(۹)
’’القاعدہ ، طالبان اور موجودہ افغان جنگ ‘‘کے موضوع پر آپ نے الشریعہ کے صفحات میں جس دلچسپ ، فکر انگیز اور مفید مباحثے کا اہتمام کیا ہے، اس میں اخلاص، سنجیدگی اور شائستگی نمایاں نظر آرہی ہے۔ میرے خیال میں القاعدہ اور طالبان کو پڑھنا، سمجھنا اور ان سے سبق حاصل کرنا مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کے عزائم رکھنے والوں کے لیے نا گزیر ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں اور اسلامی حلقوں میں آزادانہ بحث و مباحثے، علمی تجزیات اور تنقید کا کلچر بالکل اجنبی بن چکا ہے جبکہ اﷲ کی بنائی ہوئی اس دنیا میں ملتوں کے داخلی استحکام، ترقی و عروج اور سر بلندی کا راستہ ان ہی کٹھنائیوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ فکری جمود فکری تعفن پیدا کر تا ہے اور آج ہمارے ہاں اس تعفن سے فضا اتنی معمور ہے کہ سانس لینا دو بھر ہو رہا ہے۔ آزادانہ ماحول نہ ہونے کی وجہ سے امت کی ترقی کے لیے فکر مند رہنے والے بہت سے قیمتی زہن اپنے ضمیر کے بوجھ میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں، کیونکہ وہ حالات حاضرہ اپنے ضمیر کے مطابق بول اور لکھ نہیں پا رہے۔ جان کا خطرہ تو اتنی بڑی بات نہیں تھی، لیکن عدم بر داشت کے اس ماحول میں ایمان اور عزت پر بھی حملے کیے جا تے ہیں۔ اسلام دشمن ، ملک دشمن ، دین کا باغی، پاکستان کا غدار، یہود و نصاریٰ کا آلۂ کار اور را کا ایجنٹ، اس طرز کی غیر ذمہ دارانہ الزام تراشیاں زبان کی نوک پر رکھی ہوئی ہیں۔ ایسا معاشرہ اور ماحول جہاں دلیل کے جواب میں الزام تراشی ہو اور دلیل کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے ہونے کی ہمت کرنے والے چند ایک ہوں اور الزام تراشی کو پذیرائی دینے والا سارا زمانہ ہو تو پھر وہاں جھوٹ کا کاروبار چمک اٹھتا ہے۔ ایسا معاشرہ حقیقی لیڈروں سے آزاد ہو کر مداریوں کے ہاتھوں یرغمال ہوجا تا ہے ۔ راہزن ہی رہنما قرار پاتے ہیں۔ خواہشات اور افواہیں معتبر خبریں بن جاتی ہیں۔ سچائی اور حقیقتیں پروپیگنڈے کے دبیز پردوں میں چھپ جاتی ہیں۔ خبر کے اعتبار کو جاننے کا پیمانہ اپنی خواہشات اپنی پسند نا پسند اور اپنے سیاسی و مذہبی تعصبات بن جاتے ہیں۔ اگر خبر اس پیمانے پر پوری اتر رہی ہو تو امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹیں مغربی میڈیا کے تجزیات اور خبریں بھی قبول ہیں اور اگر اس معیار پر نہ ہوں تو امام کعبہ کے فتوے اور طالبان اور القاعدہ کے ترجمانوں کے بیانات کو بھی قابل اعتبار نہیں سمجھا جا تا۔
آپ کے زیر بحث موضوع پر کچھ نکات پیش خدمت ہیں۔ میرے خیال میں موجودہ افغان جہاد کی شرعی حیثیت اور القاعدہ اور طالبان کے کر دار کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے انھیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
(۱) القاعدہ اور طالبان رد عمل کی تحریکیں ہیں اور رد عمل میں اٹھنے والی تحریکیں ان مخصوص حالات سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچ پاتیں جن حالات میں انھوں نے جنم لیا ہو تا ہے۔ ایسی تحریکوں کے نظریات اور پالیسیاں حالات کے جبر کے تحت پہلے بنتی ہیں اور انکی تائید میں آیتیں اور حد یثیں بعد میں جمع کی جاتی ہیں۔ ایسی تحریکیں امت مسلمہ کے تمام مسائل اور حقائق کو نہ تو کما حقہ ‘ سمجھتی ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کر تی ہیں۔ کیونکہ اس طرح انکے نظریات اور پالیسیوں پر حرف آتا ہے۔ جنگ کی کوکھ سے جنم لینے والی تحریکوں کے پاس امت کے مسائل کا حل اسکے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ مار دو یا مر جاؤ۔ یہ بھی ایک بحث کا موضوع ہے کہ القاعدہ اور طالبان کے نظریات ، پالیسیوں اور اقدامات نے اسلام اور مسلمانوں کو کتنا فائدہ یا نقصان پہنچایا؟ اور اس پر بھی بات ہونا چاہیے کہ جدید دنیا میں مسلمانوں کے داخلی استحکام اور ترقی اور اسلام کی سر بلندی کے لیے کس قسم کی تحریک کی ضرورت ہے؟
(۲) اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ المعروف افغان جہاد کو بطور جہاد امریکہ نے متعارف کرایا نہ کہ علما نے۔ امریکہ نے ہی جہاد کی اہمیت اور فیوض و برکات کی طرف عالم اسلام کے مذہبی عناصر کو متوجہ کیا۔ امریکہ نے ہی اپنے تمام ذرائع و وسائل کو عالم اسلام میں جہادی روح پھونکنے پر لگایا اور کائنات کے سب سے بڑے طاغوت روس کو شکست دینے کے لیے مسلمان حکومتوں اور سرمایہ دارانہ بلاک کے تعاون سے وہ حالات پیدا کیے کہ دنیا بھر کے اسلام پسندوں کا افغان جنگ میں شریک ہونا آسان اور قابل فخر بن گیا۔ بالخصوص عرب دنیا سے لا تعداد افراد اپنے جان و مال کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہونے کے لیے افغانستان میں جمع ہوئے انھیں عسکری تربیت اور اسلحہ بلوا سطہ یا بلاواسطہ امریکہ نے فراہم کیا۔ پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے اس جنگ میں خصوصی اہمیت حاصل کر گیا۔ حکمرانوں، سیاستدانوں ، ریاستی اداروں اور مذہبی قوتوں نے عرب دنیا اور امریکہ سے اپنے اپنے کر داروں کو کیش کرایا۔ یہ موضوع بھی قابل بحث ہے کہ انفرادی مفادات تو بہت حاصل کیے گئے، لیکن ملک و قوم کو اس دولت سے کتنا فائدہ پہنچایا گیا جو پانی کی طرح پاکستان کی طرف بہہ رہی تھی؟
(۳) امریکہ کے زیر اثر عالمی میڈیا نے اور عالمی میڈیا کے زیر اثر اسلامی میڈیا نے افغان جنگ کے عسکری رہنماؤں کو اسلام کا ہیرو بنا کر پیش کیا۔ یوں مسلمان معاشروں میں ان ہیروز کو تقدس اور ان کے فرمودات اور خیالات کو پذیرائی ملی۔ عارضی مقاصد کے لیے ان نظریات کی تشکیل میں اس قدر مبالغے سے کام لیا گیا جو جھوٹ کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ ہر جہادی گروپ نے جو مختلف ایجنسیوں کی سر پرستی میں کام کر رہے تھے، اﷲ کی تائید و نصرت کی ایسی ایسی کہانیاں وضع کیں کہ ایک موقع پر میں نے بے ساختہ کہا تھا کہ اﷲ کی اتنی مدد تو اسلام کی اولین تحریک میں بھی نازل نہیں ہوئی جتنی کہ ہمارے ان ’’مجاہدین‘‘ کو میسر آرہی ہے۔ یہ صورتحال فطری نتیجہ اس بات کا تھا کہ اس جہاد کا آغاز علما کی رہنمائی میں نہیں غیر مسلم قوتوں کے مفادات کے لیے اور ان کی مدد اور رہنمائی میں ہوا تھا۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ کتنے لوگ جو میدان جہاد میں گئے اور ’’عالم دین ‘‘ اور ’’مفتی‘‘ بن کر نکلے اور ان علما اور مفتیان کرام کو روایتی علما سے کہیں زیادہ تقدس ، اعتبار اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ یہ بھی ایک توجہ طلب اور طویل بحث ہو سکتی ہے کہ حقیقی علما کو غیر مؤثر کر کے مصنوعی مذہبی قیادت تیار ہوئی جو مسلمان معاشروں پر مسلط ہو گئی ۔ حقیقی علما کی رہنمائی کو مذاق بنانے اور ریڈی میڈ علما کی رہنمائی اور پر وپیگنڈے کی وجہ سے معاشرے کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔ اخلاقی اقدار کمزور ہوئیں، جذباتیت اور سطحیت معاشرے کے ساتھ ایسی چمٹیں کہ زندگی کا ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہونے لگا۔
(۴) طالبان روسی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں ہونے والی بد ترین خانہ جنگی میں پاکستانی ایجنسیوں کے تعاون سے ابھرنے والی ایک تحریک ہے۔ خطے کے معروضی حالات اور پاکستان کے ریاستی مفادات اور ضرورتیں طالبان کے وجود کا سبب بنیں، گویا کہ ’’ میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں‘‘۔ سیکولر عناصر کی پروڈکٹ پر اگر کوئی اسلامی ذہن رکھنے والا تحفظات کا اظہار کرے تو اکثر وہ بیجا نہیں ہوتے۔ بلاشبہ پاکستان کی دیو بند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی مذہبی قیادت طالبان کی حمایت میں نظر آئی، لیکن ان حمایتوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں ایک گروہ ان علما کا تھا جو اپنے تحفظات کے باوجود طالبان کی حمایت کر رہے تھے کیونکہ ان کے نزدیک وہ اسلام سے قریب تر اور افغانستان میں قیام امن کے لیے مفید تر تھے۔ ایک دوسرا گروہ پے رول پر تھا اور تیسرا گروہ ان سادہ لوح اور مخلص لوگوں کا تھا جو پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر یہ سمجھتے تھے کہ افغانستان میں اسلامی انقلاب آگیا ہے۔ وہ ملا عمر کو عمر فاروق ؓ اور عمر بن عبد العزیزؓ کے ہم پلہ تو نہیں لیکن ان کے قریب قریب ضرورسمجھ رہے تھے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا کہ طالبان کا تمام کروفراور اقتدار بیرونی قوتوں کا مرہون منت تھا۔ یہ کوئی طویل المیعاد تعلیم و تربیت اور تزکیے کی مضبوط بنیادوں پرا بھرا ہو انقلاب نہیں تھا بلکہ عالمی اور علاقائی قوتوں کی مجبوریوں کی وجہ سے حادثاتی طور پر رونما ہوا تھا۔ طالبان اور ان کے حمایتی خوش فہمیوں میں مبتلا ہوئے، اپنی محدودیت اور اپنی کمزوریوں کا ادراک نہ کر سکے اور اپنی قوت کا غلط اندازہ لگایا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ حملوں کی ڈیڈ لائن دے رہا تھا اور پاکستان میں طالبان حکومت کے سفیر ملا ضعیف عالمی میڈیا کے سامنے انتہائی غیر سنجیدگی کے ساتھ سپر طاقت کے خلاف طنز کے تیر بر سا رہے تھے۔ طالبان قیادت اس نازک موقع پر سعودی عرب اور پاکستان جیسے محسنوں کے مشوروں کو بھی خاطر میں نہ لا سکی۔ یوں نہ صرف اپنے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ معصوم افغان عوام کو بدامنی کے ایک نئے دور میں داخل کرنے کا سبب بنے۔
’’مجھے رہزنوں سے غرض نہیں تیری راہبری کا سوال ہے‘‘
(۵) یہ سوال بھی اہم ہے کہ طالبان قیادت نے دوست ممالک اور اپنے دیگر خیر خواہوں پر القاعدہ اور اسکی قیادت کو کیوں ترجیح دی؟ کیا طالبان قیادت القاعدہ کے نظریات و افکار سے متاثر ہوچکی تھی۔ جو یقیناًفقہ حنفی سے مطابقت نہیں رکھتے تھے یا طالبان قیادت القاعدہ سے بلیک میل ہو رہی تھی کسی کمزوری کی وجہ سے اور کیا القاعدہ نے طالبان قیادت کو بزور قوت یر غمال بنا لیا تھا؟
(۶) طالبان کی اخلاقی پوزیشن کے بارے میں رائے قائم کر تے ہوئے بھی چند چیزوں کو پیش نظر رکھنا ہو گا مثلاً دوران خانہ جنگی بے دریغ قتل جبکہ مد مقابل نہ صرف مسلمان تھے بلکہ جہاد افغانستان کے ہیروز تھے۔ اسی طرح طالبان کا ٹھیٹ حنفی دیو بندی ہونا بھی واضح ہے وہ کسی دوسرے مکتبۂ فکر کو بشمول اہلحدیث بر داشت کرنے پر آمادہ نہیں تھے اس بات سے بھی طالبان کی اخلاقی حیثیت پر حرف آتا ہے کہ طالبان کے جھنڈے تلے افغانستان کے پختون جمع ہوئے تھے۔ پاکستان میں بھی جو لوگ طالبان کے ساتھ والہانہ اور جذبات وابستگی اور سیاسی حمایت کر رہے تھے ان میں سے بھی زیادہ تر کا تعلق پختونخواہ سے تھا جبکہ افغانستان کے فارسی بولنے والے طالبان کے حق میں اکثر منفی رائے دیتے پائے جاتے ہیں۔
(۷) بیسا کھیوں کے سہارے اٹھنے والی قوتیں اگر طاقت نہ پکڑیں تو مختلف قوتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ جاتی ہیں۔ افغانستان میں اس وقت بیک وقت کئی قوتیں اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ بھارت نے افغانستان کے راستے بلوچستان میں آزادی کی تحریک برپا کر رکھی ہے۔ پاکستان کو سیاسی و معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار کرنے والے انتہا پسند عناصر بھی کسی نہ کسی طرح پاکستان کی دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ خطے میں موجود انتہا پسندوں کا خاص ٹارگٹ پاکستانی ریاست ہے۔ ایمن الظواہری نے پاکستانی ریاست کو عملی اور آئینی دونوں اعتبار سے غیر اسلامی ریاست ثابت کرنے کے لیے پوری کتاب لکھ ڈالی ہے۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں پر حملے بھی اب معمول کی بات ہیں۔ ایسی صورتحال میں جبکہ غیر واضح ہے کہ افغانستان میں کون سا گروہ دانستہ یا نا دانستہ کسی کے مفادات کے لیے استعمال ہو رہا ہے، موجودہ جنگ کی شرعی حیثیت کے بارے میں مثبت فتویٰ دینا بہرحال محل نظر ہے۔
(۸) سیرت نبویؐ کا درس یہ ہے کہ کسی معاملے کا اصولی طور پر درست ہونا ہی کافی نہیں بلکہ نتائج کو پیش نظر رکھ کر اقدام کیا جائے گا۔ مکی دور میں اگر مسلمان مشرکین کے ظلم اور تشدد کے جواب میں تلوار اٹھا لیتے تو اصولی طور پر تو غلط نہ ہوتا، لیکن اسلامی تحریک کے لیے ایسا اقدام نتائج کے اعتبار سے تباہ کن ہو تا، اسی لیے رسول اﷲ ؐ نے مسلح اقدام کی حکمت عملی اختیار نہیں کی۔
(۹) طالبان قیادت کے اقدامات اور فیصلوں کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ صرف طالبان تحریک ہی اقتدار سے محروم نہیں ہو ئی بلکہ افغان عوام جو پہلے ہی تباہ حال تھے، مزید تباہ حال ہو رہے ہیں۔ امن و امان کی غیر یقینی صورتحال نے انفراسٹرکچر کی تعمیر، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی اور معاشی و سیاسی استحکام سے افغان عوام کو محروم کر دیا ہے۔ پچھلی نسل کے بعد اب نئی نسل بھی جہالت کی تاریکیوں میں گم ہونے کو ہے۔ پاکستان کے افغان بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور اکثر قابل ترس زندگی بسر کر رہے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ساتھ اب پاکستان بھی امن و امان کی بدترین صورتحال اور معاشی بد حالی کا شکار ہے۔ ایسے میں طالبان قیادت کی بصیرت اور دعوؤں پر کیونکر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟
(۱۰) پاکستان میں القاعدہ اور طالبان کے زیر اثر اہل توحید کی قیادتیں اور عوام بین الا قوامی ایشوز کی طرف متوجہ ہیں، صرف زبانی احتجاج اور بلند بانگ دعوؤں کا کلچر فروغ پا چکا ہے۔ محراب و منبر جنکی بنیادی ذمہ داری و عظ و نصیحت تذکیہ و تذکیر تھی، وہ اپنے ہدف کی طرف متوجہ نہیں رہے۔ معاشرے میں اسلامی اقدار کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ شرک کی قوتیں طاقتور ہو تی جا رہی ہیں۔ میڈیا آزادی کے ساتھ مغربی اور ہندو کلچر کا مبلغ بنا ہوا ہے۔ شرک و بدعات اور گمراہ کن عقائد و نظریات کو آزادی سے فروغ دے رہا ہے۔ ظلم و زیادتیاں عام ہیں۔ مہنگائی ، بیروزگاری قوم پر مسلط ہیں۔ گویا پاکستان اسلام سے ماضی کے مقابلے میں مزید دور ہو چکا ہے۔
القاعدہ، طالبان اور موجود افغان جنگ کے موضوع پر ’الشریعہ‘ کے صفحات میں ہونے والی بحث کے مندرجات کو براہ راست ٹچ کیے بغیر کچھ نکات سامنے رکھے ہیں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ تسلیم شدہ حقائق کی بنیاد پر اپنے تجزیے کی عمارت کھڑی کروں تاکہ حوالے پیش کر کے گزارشات کو طویل نہ کرنا پڑے۔
سید عامر نجیب
مدیر ہفت روزہ ’حدیبیہ‘ کراچی
(۱۰)
(گزشتہ شمارے میں جناب مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے مکتوب میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ کی طرف سے تین طلاق کے مسئلے میں اہل حدیث کے مسلک پر فتویٰ دیے جانے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار فرمایا تھا جس پر ماہنامہ ’الفرقان‘ لکھنو کے مدیر مولانا محمد یحییٰ نعمانی کے توسط سے حکیم ظل الرحمن صاحب سے وضاحت کی درخواست کی گئی۔ اس ضمن میں مولانا نعمانی کی مختصر ای میل یہاں درج کی جا رہی ہے۔ مدیر)
مکرمی! السلام علیکم
حکیم ظل الرحمن صاحب سے فون پر کل بات ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ بات مولانا رضوان صاحب بانی دارالعلوم سبیل السلام کی کتاب ’’شعور حیات‘‘ سے نقل کی ہے۔ وہ ای میل استعمال نہیں کرتے، فون نمبر یہ ہے:
00919540890067
والسلام
مخلص یحییٰ