’’امراض وعلاج‘‘ کے عنوان سے پیچیدہ امراض کے علاج کے حوالے سے طب مشرق کے تجربات وتحقیقات پر مشتمل یہ سلسلہ کئی سال کے کے بعد دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ قارئین اسے مفید پائیں گے۔ (مدیر)
یہ واقعہ باغبان پورہ لاہور برف خانہ کا ہے۔ مریضہ کا چچا ایک نامی گرامی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے علاج کی پوری کوشش کی۔ آخری چارے کے طور پر تھائی راکسن کا ہی انتخاب ہوا۔ یاد رہے تھائی راکسن دوا پر جلی حروف میں ’’پوائزن‘‘ لکھا ہوا ہے۔ مریضہ کی ماں نے مجھے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ بچی کو جب یہ دوا دی جاتی ہے تو چار گھنٹے تک بچی دنیا ومافیہا سے بالکل بے خبر اور بے ہوش ہو جاتی ہے اور مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا۔ علاج کے باوجود بچی دن بدن ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتی جا رہی ہے۔ ایف اے کی طالبہ ہے۔ پڑھائی چھڑوا دی گئی۔ بچی کا قد بھی رک گیا ہے اور کھانا پینا بھی ختم۔ گویا مریضہ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کا مصداق بن چکی تھی۔
طبیہ کالج میں استاذ پروفیسر فتاح شاہد صاحب دامت برکاتہم آف مردان نے فرمایا تھا کہ ایک قابل لبیب اور حکیم وہ ہے کہ جس کے کوئی ایسا مریض آئے جس کی شفا یابی کی مطلب میں کوئی مستقل دوا موجود نہیں، لیکن وہ دیگر موجود ادویہ کی توڑ پھوڑ سے نسخہ تیار کر لے۔ مجھے استاذ صاحب کی یہ نصیحت بہت پسند آئی، چنانچہ مذکورہ مریضہ کے لیے میں نے دیگر ادویہ کی توڑ پھوڑ کر کے نسخہ ترتیب دیا جو تیر بہدف ثابت ہوا۔ یہ مکمل نسخہ آپ کسی درسی کتاب میں نہیں پڑھیں گے۔ مگر یاد رہے کہ ایسے مریض کے خاندانی پس منظر، ماضی اور حال سب سے آپ واقف ہوں۔ خورد ونوش، بود وباش، حرکات وسکنات، مریض کی پسند ناپسند بھی آپ کے علم میں ہونی چاہییں۔ تہذیب جدید کے تحت مریض کو پریشانی اور ٹینشن بالکل نہ ہو، ورنہ گلہڑ اپنا رنگ دکھائے گا کہ ا س مرض کا نفسیات سے گہرا تعلق ہے۔
لوہاری دروازہ لاہور میں ایک عورت بچپن میں یتیم ہو گئی تو بے چاری کو گلہڑ نے دبوچ لیا۔ بالغ ہوئی تو اس کی شادی کر دی گئی۔ چار بچوں کی ماں بن گئی۔ گلہڑ کی وجہ سے اس کی چھاتی اور گردن نظر نہیں آتی تھی۔ اس کے میاں انار کلی میں ایک ہوٹل چلا رہے تھے۔ تیس سال پہلے انھوں نے سعودی عرب اور مصر سے آٹھ آٹھ ہزار روپے کی دوائیں منگوا کر دیں، لیکن اصل بات تشخیص کی ہے۔ مجھ سے رابطہ کیا تو میں نے ایک ہفتہ تشخیص پر لگا دیا۔ پھر کہا کہ اس وقت علاج سے زیادہ ضرورت پرہیز اور طرز زندگی کے بدلنے کی ہے، اللہ کے فضل سے اس بیماری سے جان چھوٹ جائے گی۔ ایسا ہی ہوا۔ مذکورہ دونوں مریضہ اس وقت لاہور میں کامیاب زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ دونوں کا علاج بالکل یکساں تھا۔
اس مرض میں کھٹی اور بادی اشیا بالکل بند کر دی جائیں تو نصف علاج آپ سے آپ ہو جاتا ہے۔ آج سے ہی آلو، گوبھی، چاول، دال ماش، فارمی مرغی، بند پیکٹوں میں ملنے والی بازاری اشیا، برف اور قابض چیزیں بند کر دیں۔ ہمیشہ پسینے میں تر رہیں۔ اگر اس مرض کا مادہ خون سے خارج نہ ہو تو آنے والے سالوں میں لاتعدد امراض کے لیے تیار رہیں۔ میں نے اپنے استاذ محترم کے فرمان کے مطابق ادویہ کے جوڑ توڑ سے جو نسخہ ترتیب دیا ہے، وہ حاضر خدمت ہے۔
۱۔ صبح شام کھانے کے بعد ایک ایک چاول رسکپور مدبر بالائی یا مکھن میں رکھ کر دیں۔ دانتوں کو نہ لگے۔
۲۔ بڑا چمچہ لعوق خیار شنبر اور لعوق سپستان، دونوں کو یکجان کر کے دن میں تین بار جب وقت ملے، استعمال کریں۔
۳۔ اطریفل زمانی رات کو سوتے وقت چھوٹی چمچ سادہ پانی یا عرق سونف کے ساتھ مستقل جاری رکھیں۔
کچھ ادویہ ہر مریض کے حالات کے تحت بھی دینی پڑتی ہیں۔ مثلاً شربت صدر، حب کبد نوشادری (اجمل دواخانہ کی)، خمیرہ ابریشم سادہ یا حکیم ارشد والا وغیرہ ۔ اگر علاج اصول کے تحت نہ ہو تو ذہنی صلاحیت کے ساتھ قد بھی رک جاتا ہے۔ حلوائی اور بیکری کی اشیا ایسے مریض کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔