اسلام ایک عالم گیر دین ہے اور اس کی تعلیمات کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچنا چاہیے۔ امتِ مسلمہ کا فرض ہے کہ حکمت، دل سوزی اور ہم دردی سے لوگوں کو دعوتِ دین دے۔ جب تک مسلمان دعوت کا کام کرتے رہے، دین کو فروغ حاصل ہوتا رہا اور مسلمانوں کا وقار بڑھتا رہا۔ مگر یہ اسلام کے صدرِ اول کی بات ہے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ دعوتی کام میں کمی آئی اور لوگ دین سے زیادہ دنیا کے کاموں میں لگ گئے۔ انہوں نے دین کو مدرسے والوں کے لیے چھوڑ دیا اور مدرسے والوں کی مالی سرپرستی کو خدمتِ دین کے طور پر کافی سمجھ لیا۔ نتیجتاً دین کی حیثیت ثانوی ہوتی گئی۔ آسودہ حال خاندانوں کے طلباء میڈیکل، انجینئرنگ اور سائنس میں آگے بڑھتے گئے۔ ان حالات نے دین کو بقولِ حالی غریب الغرباء بنا دیا۔
حالات یہاں تک پہنچے کہ موجودہ دور کے مسلمان ایک طرح کے فکری فاقے کا شکار ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ وہ حالات کا واقعاتی تجزیہ تک نہیں کر پاتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج کل مسلمان جو کچھ کر رہے ہیں وہ صرف احتجاج کی قسم کی ایک چیز ہے، یا فریاد ہے۔ ہم حالات کا صحیح تجزیہ کر کے کوئی قابلِ عمل اور مفید فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ اپنے لیڈروں کے بیانات سنیے، سربراہ کانفرنس کا حال پڑھیے، ان کی سیاسی کوششوں کا تجزیہ کیجیے، تو ایک بات مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری ساری پریشانیوں کا سبب دوسرے ہیں، ہم نہیں۔ استعماری قوتوں کی سازشیں، غیر قوموں کے مظالم، سرحدوں کے پار والوں کا طرزعمل، بس یہی سب کچھ ہے جو آج ہم جانتے ہیں۔ ہم کبھی خود اپنا احتساب نہیں کرتے۔ میری حقیر رائے میں یہی ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے۔ ہم خود اپنے دشمن بن گئے ہیں۔ حالات سے معقولیت کے ساتھ، مومنانہ فراست کی روشنی میں نمٹنے کی صلاحیت ہم میں باقی نہیں رہی، اور یہی ہمارا المیہ ہے۔
آدھی صدی پہلے کی بات ہے، امیر شکیب ارسلان مسلمانوں کے ایک رہنما تھے۔ انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے ’’لماذا تاخر المسلمون و تقدم غیرھم‘‘ یعنی مسلمانوں کو کس چیز نے پس ماندہ کر دیا اور دوسرے کیسے آگے بڑھ گئے۔ اس میں صرف باہری ہاتھوں سے شکوہ تھا، یہ کہیں نہیں تھا کہ اب کرنا کیا چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ ہمارا اندازِ فکر ہی یہ بن گیا ہے کہ ہم حالات سے پریشان تو ہیں مگر ان سے نمٹنے کے امکانات پر غور نہیں کرتے۔ ہم میں مومنانہ فراست کی کمی ہے، ہمارے پاس اللہ کا وہ نور نہیں ہے جس سے ہم حالات سے نمٹنے کی ترکیب دیکھتے۔ ہم معاملے میں عسر اور مشکل کا ادراک تو رکھتے ہیں مگر یسر اور آسانی کو نہیں سمجھ پاتے۔ حالانکہ اللہ تعالٰی کی سنت یہ ہے کہ ہر مشکل کے ساتھ ساتھ اس کا حل بھی پیدا فرماتے ہیں۔ ضرورت مومنانہ فراست اور مسلمانانہ نظر کی ہوتی ہے۔
اس بات کو ایک مثال سے سمجھیے۔ حضرت موسٰی اور حضرت ہارون علیہما السلام فرعون کو دعوتِ دین دیتے ہیں، وہ معجزہ طلب کرتا ہے، حضرت موسٰی علیہ السلام اپنا عصا پھینکتے ہیں اور اژدھا بن کر وہ دوڑنے لگتا ہے، فرعون اور اس کے مشیر اسے جادو کا کارنامہ سمجھتے ہیں، حضرت موسٰی علیہ السلام کو چیلنج کرتے ہیں، حضرت موسٰی علیہ السلام چیلنج قبول کرتے ہیں اور ایک یوم الزینہ (Public holiday) مقابلے کے لیے مقرر ہو جاتا ہے۔ فرعون مصر کے سارے جادوگر جمع کر لیتا ہے، یہ لوگ ڈنڈے اور رسیاں ڈال کر انہیں نظربندی کے ذریعے سے سانپ بنا دیتے ہیں، یہ دیکھ کر حضرت موسٰی علیہ السلام کے دل میں خوف پیدا ہوا۔ ارشاد ربانی ہوا کہ ڈرو نہیں، غالب تم ہی رہو گے، اپنے ہاتھ کا عصا تو میدان میں ڈالو، یہ عصا ان کے سارے کھیل کو ختم کر دے گا۔ اور یہی ہوا، حضرت موسٰی علیہ السلام کا عصا کو زمین پر ڈالنا تھا کہ وہ اژدھا بن کر سارے سانپوں کو کھا گیا۔ (سورہ طہ ۶۶۔۶۹)
آج مسلمان بھی اسی طرح ڈر رہے ہیں۔ سازشوں کے سنپو لیے، غیر ملکی ہاتھوں کے بچھو اور استعماری حکمتِ عملی کے اژدھے انہیں مبہوت کیے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے بغل کے عصائے کلیمی کو بھول گئے ہیں اور ڈر کے مارے کانپ رہے ہیں۔ آج اسلام کی تعلیمات علم و سائنس کی روشنی میں اپنی صداقت کا لوہا منوا رہی ہیں، غیر مسلم بھی اب اسلام کے بارے میں حقیقت پسند ہوتے جا رہے ہیں۔ نئے مؤرخ اسلام کی صحیح تاریخ لکھ رہے ہیں۔ اہلِ کتاب اسلام کو سمجھ کر اسلام کے قریب آنے کی کوشش میں بین المذاہب مکالمات کی ہمت افزائی کر رہے ہیں۔ پوپ نے نئے منشور میں مسلمان کو نجات کا مستحق مان لیا ہے، وہ اب مسلمانوں کو خارج از دین نہیں سمجھتے۔ کمیونزم اپنی موت مر گیا، روس میں مسلمانوں کو تحفظ ملا ہے۔ دنیا کی ساری مشہور تعلیم گاہوں نے اسلامیات کے شعبے کھولے ہیں جہاں تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ قدیم عربی و اسلامی لٹریچر شائع ہو رہا ہے۔
غرض الحمد للہ مختلف عالمی دباؤ کے تحت اسلام کے حق میں ایک اعتدال کی فضا قائم ہو رہی ہے۔ مناظرہ بازی کا دور ختم ہوا، اب ڈائیلاگ کا دور آ گیا ہے جہاں ہر مذہب کے لوگ اپنی تعلیمات پیش کرتے ہیں اور دوسرے کی بات غور سے سن کر تعاون کے امکانات پر غور کرتے ہیں۔ خود یہ فقیر ایسے بہت سے ڈائیلاگز میں شریک رہا ہے۔ ’’نیشنل کانفرنس آف جیوز اینڈ کرسچینز‘‘ پہلے یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے خاص تھی، اب حالات کے اثر اور ہم فقیروں کی کوششوں سے صرف ’’نیشنل کانفرنس‘‘ بن گئی ہے، اب اس میں ہر مذہب کے لوگ حصہ لے سکتے ہیں۔ یہ ساری باتیں اسلام کے حق میں ہیں۔
اب ہم کلیساؤں (Churches)، صومعوں (Synagogues) تک میں جا کر اسلام کا عالمی پیغامِ امن دے سکتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پھیلائی ہوئی افواہوں اور الزامات کا معقول علمی جواب دے سکتے ہیں۔ پہلے جو کام دشمنی کے ماحول میں مناظرانہ انداز میں ہوتا تھا، اب دوستی کے ماحول میں افہام و تفہیم کے انداز میں ہو رہا ہے۔ اب یہ خیال نہیں ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں اسلامی دعوت کے زبردست امکانات کھل گئے ہیں۔ یہ اللہ تعالٰی کے منصوبہ کمال کا فضل ہے کہ اب مخالفت، دشمنی اور اذیت رسانی کے خوف کے بغیر ہم تبلیغِ دین کا کام کر سکتے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالٰی کا مخصوص انعام ہے کہ آج بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ مختلف ممالک میں اسلام قبول کر رہے ہیں۔ خود ہمارے ہندوستان میں تامل ناڈو اور دوسری ریاستوں میں لوگ کثرت سے مسلمان ہو رہے ہیں اور بی جے پی کی سازشیں انہیں روک نہیں پا رہی ہیں۔ افریقی ممالک میں دین تیزی سے پھیل رہا ہے۔ فرانس میں دین تیزی سے پھیل رہا ہے، فرانس میں کیتھولک عیسائیوں کے بعد مسلمان سب سے بڑی تعداد میں ہیں۔ یورپ کے اندر ایک مسلمان ریاست بوسنیا وجود میں آ گئی ہے۔ جرمنی میں لاکھوں افراد مسلمان ہو گئے ہیں۔ برطانیہ، جاپان اور امریکہ میں ہر جگہ سے لوگوں کے قبولِ اسلام کی خبریں آ رہی ہیں۔ روم میں، جو اسلام دشمنی کا مرکز تھا، ایک عظیم الشان مسجد اور سنٹر کھل گیا ہے۔ اسپین میں مسلمان بڑھ رہے ہیں، غرناطہ میں بہت بڑا اسلامی مرکز بن گیا ہے، اب اسپین کے ہر شہر میں مسلمان نظر آتے ہیں۔
غرض آج اسلام ہر جگہ پھیل رہا ہے۔ ہم ایک داعی امت ہیں، ہمیں اپنا منصب پہچاننا چاہیے اور اندرونی اختلافات کو بھلا کر دعوتِ دین کے کام میں لگ جانا چاہیے۔
(بشکریہ: ماہنامہ بزمِ قاسمی، کراچی)