(اسلامی علوم و افکار کی تشکیلِ جدید اور ہمہ جہت اجتہاد کی ضرورت پر علمی حلقوں میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے، اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی رحمہ اللہ تعالیٰ کا بیش قیمت علمی مقالہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)
۲۶ دسمبر ۱۹۷۸ء کو ذاکر حسین انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی کے ایک غیر معمولی اور عظیم اجلاس میں شرکت ہوئی جس کا موضوع تھا ’’فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا مسئلہ‘‘۔ اس اجلاس میں ملک کے تمام مرکزی اداروں کے نمائندوں اور تقریباً ہر مکتبِ خیال کے فضلاء اور دانشوروں نے شرکت کی۔ اجلاس کی اہمیت صدر جمہوریہ ہند عالی جناب فخر الدین علی احمد کی شرکت سے اور بھی زیادہ بڑھ گئی۔ احقر ناکارہ کو صدر اجلاس منتخب کیا گیا۔ چونکہ صدر مملکت نے صرف ایک گھنٹہ دیا تھا اس لیے اجلاس کی پہلی نشست کی ساری کاروائی ایک ہی گھنٹہ میں پوری کی جانی ضروری تھی۔ ابتداء میں شیخ الجامعہ پروفیسر مسعود حسین صاحب نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور اس کے بعد محترم ضیاء الحسن صاحب فاروقی پرنسپل جامعہ کالج و ڈائریکٹر ذاکر حسین انسٹیٹیوٹ نے اجلاس کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی۔ پندرہ پندرہ منٹ صدر جلسہ و صدر مملکت کی تقریروں کے لیے تھے۔ احقر نے اولاً اپنی تقریر سے جلسہ کا افتتاح کیا لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے چونکہ اس اہم موضوع پر کوئی تفصیلی روشنی ڈالنا ممکن نہ تھا اس لیے تقریر میں چند بنیادی اور اساسی نقاط ہی بیان کئے جا سکے۔ البتہ نشست کے اختتام پر جب اس کا ذکر آیا تو ذمہ داران جامعہ نے اسے مناسب خیال فرمایا کہ یہ تفصیلات نقاط مقالہ کے طور پر لکھ کر ارسال کر دی جائیں جس میں باقی ماندہ نقاط بحث بھی شامل ہوں۔ اس لیے یہ مقالہ پیش کیا جا رہا ہے جس میں وہ سب بنیادیں بھی ہیں جو اجلاس میں زبانی بیان کی گئی تھیں اور باقی ماندہ نقاط بھی آ گئے ہیں جو وہاں بیان میں نہ آسکتے تھے، ممکن ہے کہ ترتیب میں فرق ہو لیکن مقاصد سب آ گئے ہیں۔
فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا مسئلہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اس موضوع کے سلسلہ میں چند بنیادی نقاط پیش کر دوں جنہیں فکرِ جدید کی تعمیر اٹھانے والے حضرات کو پیشِ نظر رکھنا میرے نزدیک ازبس ضروری ہے۔
عالمِ بشریت میں فکر و تفکر کی اہمیت
پہلے بطور تمہید کے یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ عالمِ بشریت میں فکر و تفکر ایسی ایک عظیم اصولی بلکہ اصل الاصول قوت ہے کہ انسان کی ساری مصنوعی قوتیں اسی کے نیچے آئی ہوتی ہیں اور سب اسی کی دست نگر ہیں جو بلا فکر ایک قدم بھی کسی میدان میں آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ حواس خمسہ ہوں یا عقل و دانش، ذوق و وجدان ہو یا بصیرت و تفقہ، حدس و تجربہ ہو یا جوہر قیافہ، ان سب کا قائد اور محرک فکر ہی ہے۔ پھر یہ فکر نہ صرف یہ کہ انسان کی تمام معنوی قوتوں کا سرچشمہ ہی ہے بلکہ خود انسان کی ایک ایسی امتیازی خصوصیت بھی ہے جس سے اس کی انسانیت پہچانی جاتی ہے کیونکہ یہ قوت انسان کے دوسرے ابنائے جنس کو میسر نہیں، اس لیے اگر فکری قوت کو انسان کی ماہیت کا حقیقی تعرف کہہ دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ انسان کی مشہور و معروف تعریف حیوانِ ناطق یا حیوانِ عاقل سے کی جاتی ہے، لیکن غور کیا جائے تو اس سے انسان کا کوئی امتیاز بخش تعارف نہیں ہوتا کہ اسے انسان کی حد تام یا جامع و مانع تعریف سمجھ لیا جائے۔ کیونکہ عقل کا تھوڑا بہت جوہر غیر انسان حتٰی کہ حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے۔ ایک کتے کو بھی اگر ایک جگہ ٹکڑا ڈال دیا جائے تو اگلے دن وہ پھر اسی جگہ آ موجود ہو گا، گویا وہ قیاس کرتا ہے کہ جب آج اس جگہ ٹکڑا ملا ہے تو کل کو بھی مل سکتا ہے اور جب مل سکتا ہے تو پھر اسی جگہ پہنچ جانا چاہیئے۔ یہ صغرٰی کبرٰی ملانا آخر عقلی قیاس نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ خواہ وہ تعبیری اور لفظی نہ ہو مگر ایک حقیقت تو ہے، نیز عرف عام میں بعض جانوروں کو چالاک اور ہوشیار کہا جاتا ہے جیسے لومڑی۔ اور گدھے بھینس کو عام طور سے احمق اور بلید کہتے ہیں، سعدی شیرازی نے کہا تھا
مسکین خر اگرچہ بے تمیز است
چوں بار ہمے بود عزیز است
اور کسی نے بھینس کے بارے میں بھی کہا ہے کہ
جاموش بے وقوف و بے ہوش
چوں شیر دبد تو چشم ازد پوش
اگر ان حیوانات میں عقل و شعور کی جنس ہی نہ ہوتی تو یہ نوعی تفاوت کی تقسیم صحیح جو عرف عام میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اندرین صورت عاقلیت یا دریافت معقولات علی الاطلاق انسان کی خصوصیت قرار دے کر اس کی حد تام حیوان ناطق کو بتلایا جانا اور اس سے نوع انسانی کا تعارف کرایا جانا کوئی جامع مانع قسم کا تعارف نہیں ہو سکتا۔ البتہ فکر و تدبر کے راستے سے حقائق کا تجزیہ کر کے ان میں امتیاز قائم کرنا، نئے نئے اکتشافات سے جزئیات پیدا کر لینا، اور جزئیات کو جمع کر کے ان سے کلیات بنانا، کلیات سے جزئیات کا نکال لینا اور جزئیات کے عواقب و نتائج کو سمجھنا، نتائج کے معیار سے عواقب اور انجام دنیا و آخرت کو پیش نظر رکھنا، نوعی خیر سگالی اور اس کی منظم تدبیریں اور اصلاح معاشرہ کے لیے سوچ بچار وغیرہ بلاشبہ انسانی نوع ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ سب اسی فکر کے کرشمے ہیں۔ اسی لیے انسانی حقیقت کی اگر کوئی جامع مانع تعریف ہو سکتی ہے تو وہ حیوان ناطق نہیں بلکہ حیوان متفکر ہو سکتی ہے کیونکہ فکرمندی، فکر نمائی اور فکری پیمائش اور وہ بھی عمومی اور پوری نوع بشری کے لیے اور نہ صرف اس حیات کے لیے بلکہ حیات ما بعد الممات تک کے لیے صرف انسان ہی کی خصوصیت ہے، جو اس کے دوسرے ابنائے جنس کو میسر نہیں۔ اس لیے حیوان متفکر ہی کو انسان کی حد تام تک کہنا کچھ زیادہ قرین عقل نظر آتا ہے۔
پس یہ فکری قوت ہی انسان کی سب سے بڑی فعال قوت اور اس کی ساری معنوی قوتوں میں اولوالامر کی حیثیت رکھتی ہے اور یہی وہ طاقت ہے جس سے وہ کائنات میں متصرف اور ہر عنصری مخلوق سے اونچا سمجھا جاتا ہے۔ پھر یہی نہیں کہ انسان اس قوت کا ایک ظرف ہی ہے جس میں عقل و دانش، ذوق و وجدان اور حدس تجربہ جیسی قوتوں کی مانند فکر بھی ان ہی جیسی ایک قوت ہے اور دوسری قوتوں کی طرح وہ بھی کسی نہ کسی وقت اپنے محدود مخصوص دائرے میں کام دے جاتی ہے، بلکہ فکر کی طاقت اس کی تمام معنوی طاقتوں پر حکمران متصرف اور ان کی روح ہے جس کے اشاروں پر یہ ساری قوتیں آمادۂ عمل رہتی ہیں۔ اگر کہیں نمائشی کروفر کا بازار گرم ہو اور باجوں، گاجوں اور نعروں کی آوازیں فضا میں گونج رہی ہوں لیکن اگر راہ گیر کسی دوسرے خیال میں مستغرق ہو تو ان میں سے ایک چیز بھی نہ آنکھ کو نظر آئے گی نہ کان کوئی آواز سن پائے گا۔ اور لاعلمی کے اظہار پر جب لوگ حیرت کریں گے تو وہ یہ کہے گا کہ میں فلاں بات کے فکر میں ڈوبا ہوا تھا، مجھے ان مناظر اور آوازوں کی کچھ خبر نہیں۔ اس سے واضح ہے کہ آنکھ کان نہ خود دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں بلکہ قوتِ خیال و فکر ہی دیکھتی سنتی ہے، یہ آنکھ کی بینائی اور کان کی شنوائی فکر کے آلات و وسائل سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
یہی صورت عقل و دور اندیشی کا بھی ہے کہ آدمی زیرک بھی ہو اور دانائے روزگار بھی سمجھا جاتا ہو لیکن وہ کسی نظریئے کی سوچ میں محو ہو تو دوسرے کتنے ہی عقلی نظریات اس کے سامنے رکھ لیے جائیں نہ وہ انہیں سمجھ سکے گا نہ ان کا شعور ہی پا سکے گا۔ کیونکہ اس کی قوت فکر یہ کسی دوسرے میں مصروف جولانی ہے اور فکر کو فرصت نہیں ہے کہ وہ اس نظریئے پر غور کر سکے۔ اسی طرح روحانی احوال و کیفیات کا ادراک بھی قوتِ فکریہ کے بغیر وجود پذیر نہیں ہو سکتا۔ اگر غیبی میدانوں میں فکر کی قوت متوجہ ہی نہ ہو یا کسی دوسرے روحانی مقام میں محو ہو تو دوسرے غیبی اور وجدانی لطیفے قلب پر بھی منکشف نہیں ہو سکیں گے۔ آخر مراقبات میں قوتِ فکر اور دھیان ہی کا تو استعمال ہوتا ہے، احسان یا تصوف کے معنی ہی یہ ہیں کہ اللہ کو اس طرح حاضر و ناظر تصور کر کے آدمی عبادت میں مصروف ہو گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے، سو یہ قوتِ فکر کا استعمال نہیں تو اور کیا ہے؟
انسان کی فکری قوت کی کارپردازی
بہرحال یہ ایک واقعی حقیقت ہے کہ انسان کی معنویت میں حقیقی کارپرداز صرف یہ فکری قوت ہے۔ وہ نہ متوجہ ہو تو قوت باصرہ، سامعہ، شامہ، ذائقہ، لامسہ اور قوت عاملہ سب معطل رہ جاتی ہیں۔ اس لیے جب وہ محسوسات کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو حواس خمسہ ہرکاروں کی طرح اس کے حکم پر دوڑتے ہیں۔ جب عقلیات کے طرف منعطف ہوتی ہے تو عقل ایک خادم کی طرح اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہے۔ یہی قوتِ فکر جب غیبیات کی طرف چل نکلتی ہے تو وجدان و ذوق اس کے اشاروں پر کام کرتے ہیں۔ اس لیے قوتِ فکریہ نہ صرف یہ کہ انسان کی خصوصیت ہی ہے جو اس کی ماہیت کا سرنامہ ہے بلکہ اس کی ساری ہی اندرونی قوتوں کی روح اور ان کے حق میں محرک اور قائد بھی ہے۔ قرآن حکیم نے اپنے کلام معجز نظام میں اسی حقیقت کو واشگاف فرمایا ہے۔ چنانچہ جو قومیں ان حسی طاقتوں، آنکھ کی بینائی اور کان کی شنوائی وغیرہ کے ذریعہ معجزات انبیاء کو دیکھتی تھیں اور ان کے پاک کلمات سنتی تھیں مگر رضاء و تسلیم کا نام نہیں لیتی تھیں تو قرآن حکیم نے اس کی وجہ آنکھوں کی نابینائی یا کانوں کی ناشنوائی قرار نہیں دی بلکہ دل کی نابینائی بتلائی ہے جو درحقیقت اس قوتِ فکریہ کی نابینائی ہے۔ ارشاد فرمایا:
فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ۔ (الحج ۴۶)
’’بات یہ ہے کہ ان کی آنکھیں اندھی نہیں بلکہ سینوں میں دل اندھے ہیں جو فکر اور غور سے عاری ہیں۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ حواس کی روح اور مدارکار فکرِ قلب ہی ہے نہ کہ نظرِ چشم۔ فکر کی آنکھ نہ ہو تو حواس سب کے سب اندھے ہی رہ جاتے ہیں، گو وہ طبعی آمادگی سے دید و شنید کا کام بھی انجام دیئے جائیں۔ اس لیے قرآن حکیم نے منکرین کی ظاہری دیدہ شنید کو مانتے ہوئے بھی اس کی حقیقی کارکردگی کا انکار کیا ہے جبکہ اس کی غرض و غایت ہی اس پر مرتب نہیں ہوتی جو قوت فکر سے متعلق ہے کہ یہی فکری روح ان محسوسات کے پیکروں میں سے ان کی روح نکال کر لاتی ہے۔ ارشاد حق ہے:
وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْکَ اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْکَانُوْا لَا یَعْقِلُوْنَ۔ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ اِلَیْکَ اَفَاَنْتَ تَھْدِی الْعُمْیَ وَلَوْکَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَ۔ (یونس ۴۲ و ۴۳)
’’اور (آپ ان کے ایمان کی توقع چھوڑ دیجئے کیونکہ) ان میں (گو) بعض ایسے بھی ہیں جو (ظاہر میں) آپ کی طرف کان لگا لگا کر بیٹھے ہیں۔ کیا آپ بہروں کو سنا کر ان کے ماننے کا انتظار کرتے ہیں گو ان کو سمجھ بھی نہ ہو۔ اور اسی طرح ان میں بعض ایسے ہیں کہ (ظاہر آپ کو مع معجزات و کمالات) دیکھ رہے ہیں تو پھر کیا آپ اندھوں کو راستہ دکھلانا چاہتے ہیں گو ان کو بصیرت بھی نہ ہو۔‘‘
اس سے واضح ہے کہ سن کر کسی چیز کو اَن سنی کر دینا اور دیکھ کر اَن دیکھی بنا دینا قوتِ فکر ہی کے تعطل سے ہوتا ہے جس کو قرآن نے عقل و ابصار سے تعلق ہو تو وہ مبصر و مسمّع بلحاظ حقیقت غیر مسموع اور غیر مبصر کے حکم میں ہے۔ پھر اس طرح قرآن حکیم نے ایک دوسری جگہ ان منکروں کے حق میں فرمایا جو پیغمبر علیہ السلام اور ان کے پیغمبرانہ اقوال و افعال کو دیکھتے اور سنتے تھے اور طبعی انداز سے وہ بینا اور شنوا بھی تھے لیکن فکر قلبی نہ ہونے یا نہ برتنے سے ان کے یہ حواس حیوانی حواس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے اور ان میں وہ فکری شعور نہ تھا جو حقیقی معنی میں دیکھتا اور سنتا ہے جسے قرآن نے فقہ قلبی سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد حق ہے:
لَھُمْ قُلُوْبُ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُنُْ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَانُْ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا اُولٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰئِکَ ھُمُ الْغَافِلُوْنَ۔ (الاعراف ۱۷۹)
’’ان کے دل ایسے ہیں کہ جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ایسی ہیں کہ جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ایسے ہیں کہ جن سے وہ سنتے نہیں، ایسے لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ ہیں یہی لوگ غافل ہیں۔‘‘
اس سے واضح ہے کہ قلب کا محض طبعی شعور اصل نہیں جو حیوانات میں بھی موجود ہے بلکہ فقہ قلب اصل ہے جس کا دوسرا نام قوتِ فکر ہے، وہ نہ ہو تو حواس کام ہی نہ کریں گے، یا کریں گے تو وہ ناقابل اعتبار ہو گا اور غیر قابل التفات، جس سے نمایاں ہے کہ قلبی نور اصل ہے جس کا نام فکر ہے نہ کہ مطلقًا قلبی شعور جو چوپایوں میں پایا جاتا ہے۔
عقل کی کارگزاری کے قابلِ التفات ہونے کا حقیقی معیار
اسی طرح عقل کے بارے میں بھی قرآن کریم نے یہی فیصلہ دیا ہے کہ اس کی کارگزاری کے قابلِ التفات ہونے کا معیار بھی یہی قوتِ فکر ہے، عقلِ محض نہیں۔ یعنی عقلِ طبعی کے سوچ بچار کے باوجود جبکہ قلب کا فقہی سوچ بچار اس کا منشا نہ ہو جس کا نام فکر ہے تو عقلی شعور بھی بے شعور اور ناقابلِ اعتنا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے قلوب کو جو بے فکرے ہوں قرآن نے انہیں عاقل نہیں کہا غافل کہا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
وَمِنْ اٰیَاتِہٖ یُرِیْکُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مآءً فَیُحْیِیْ بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۔ (الروم ۲۴)
’’اور اسی کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ تم کو بجلی دکھاتا ہے جس سے ڈر بھی ہوتا ہے اور امید بھی ہوتی ہے اور وہی آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اسی سے زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کر دیتا ہے، ان میں سے ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ سے نمایاں ہے کہ برق و بخار اور بارش سے احیاء غبار (زمین) وغیرہ باوجودیکہ آنکھوں سے نظر آنے کی چیزیں ہیں جنہیں سب دیکھتے ہیں حتٰی کہ چرند و پرند بھی، اور ان سے اس دنیوی زندگی کے بارے میں کچھ نہ کچھ خوف و طمع کا اثر بھی لیتے ہیں، لیکن فرمایا یہ گیا ہے کہ ان حوادث میں قدرت کی نشانیاں پنہاں ہیں اور ان ہی کی پہچان کرانا مقصود بھی ہے۔ وہ صرف عقل لڑانے والوں ہی کے لیے ہیں، آنکھ لڑانے والوں کے لیے نہیں، اور عقل لڑانے کا نام ہی فکر کا استعمال ہے جو عقل کو کام پر لگاتا ہے، بے فکری اور بے توجہہی سے عقلی تگ و تاز بھی عبث اور بے نتیجہ رہ جاتی ہے۔ بہرحال حس ہو یا عقل، ذوق ہو یا وجدان، بلافکر کے نابینا اور بے نگاہ سمجھے گئے ہیں، جس سے فکر کا بلند مقام کھل کر سامنے آجاتا ہے۔
قرآنِ حکیم کی انسان کو فکر و تدبر کی دعوت اور اس کا انداز
یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم نے جگہ جگہ مختلف دائروں میں انسان کو فکر و تدبر کی دعوت دی ہے، کہیں غوروفکر کے لیے انفسی آیات، کہیں شرعی اور علمی آیات سامنے رکھی ہیں اور کہیں وجدانی اور لدنی آیات اور ان میں تدبر اور غوروفکر کا مطالبہ کیا ہے۔ انفسی آیات کی طرف رہنمائی کے لیے فرمایا:
و فی انفسکم افلا تبصرون۔ (الذاریات ۲۱)
’’تمہارے اندر (خود دلائلِ معرفت) موجود ہیں، کیا تم غور نہیں کرو گے؟‘‘
اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ۔ (الاعراف ۱۸۵)
’’کیا وہ آسمانوں اور زمین کے حقائق میں نظر (و فکر) نہیں کرتے؟‘‘
سَنُرِیْھِمْ اٰیَاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۔ (فصلت ۵۳)
’’ہم عنقریب ان کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں ان کے گرد و نواح میں بھی دکھا دیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ قرآن حق ہے۔‘‘
کہیں شرعی آیات پیش کیں اور قرآن حکیم کو غور و تدبر کے لیے پیش کیا:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۔ (النساء ۸۲)
’’کیا پھر قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے۔‘‘
کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپؐ کی حیاتِ طیبہ کی شاخوں اور پاکیزہ سیرت و کردار میں غور کرنے کی طرف توجہ دلائی، تاکہ اس سیرت پاک کو دیکھ کر آپؐ کی دعوت کی صداقت دلوں میں آجائے اور لوگ اسے ماننے کے لیے تیار ہو جائیں، فرمایا:
قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلہِ مَثْنٰی وَفُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا مَا بِصَاحِبِکُمْ مِّنْ جِنَّۃٍ اِن ھُوَ اِلَّا نَذِیْرُْ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ۔ (سبا ۴۶)
’’آپ فرما دیں اے پیغمبر کہ میں تمہیں ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم دو دو اور فرادی فرادی اٹھو اور پھر فکر کرو کہ کیا واقعی تمہارے ان ساتھی (پیغمبر) میں کوئی دیوانگی یا جنون ہے؟ وہ تو اس کے سوا کچھ اور نہیں ہیں کہ تمہیں آخرت کے شدید عذاب سے ڈرانے والے ہیں جو تمہارے سامنے آنے والا ہے۔‘‘
اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا مَا بِصَاحِبِھِمْ مِّنْ جِنَّۃٍ اِنْ ھُوَ اِلَّا نَذِیْرُْ مُّبِیْنُْ۔ (الاعراف ۱۸۴)
’’کیا یہ فکر سے کام نہیں لیتے اپنے ساتھی (پیغمبر) کے بارے میں کہ کیا ان میں جنون ہے؟ وہ نہیں ہیں مگر ایک کھلے ہوئے ڈرانے والے آخرت کے عذاب سے، کیا یہ کسی مجنوں کا کام ہے؟‘‘
یہی صورت وجدانیات کی بھی ہے کہ حقائق غیبیہ کے اکتشاف میں بھی یہی قلبی فکر کام کرتا ہے جس کو ’’لُب‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قرآن حکیم نے ارشاد فرمایا کہ:
وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّا اُولُوا الْاَلْبَابِ۔ (البقرہ ۲۶۹)
’’جسے حکمت دے دی گئی اسے خیر کثیر عطا کر دی گئی اور نصیحت وہی قبول کرتے ہیں جو گہری عقل والے ہیں۔‘‘
حاصل کلام
حاصل یہ ہے کہ مطلقًا عقل ایک طبعی عزیزہ اور طبعی مادہ ہے، جیسے بینائی اور شنوائی وغیرہ، مگر وہ صورت عقل ہے جو مادہ شعور ہے اور زیادہ سے زیادہ قیاس کے راستے سے کلیات کا ادراک کر لیتا ہے لیکن لُب اور لُباب حقیقت عقل ہے جس سے حقائق کونیہ اور حقائق شرعیہ منکشف ہوتی ہیں اسی کا نام فکر ہے۔ یہ حکمت جسے خیر کثیر کہا گیا ہے محض عقل طبعی سے برآمد نہیں ہوتی بلکہ عقل عرفانی سے منکشف ہوتی ہے جسے لُب کہا گیا ہے۔
بہرحال قرآن حکیم نے اس خاص قوتِ فکر کو جس کا تعلق قوانین الٰہی، معرفتِ خداوندی، حقائقِ نبوت اور اس کے ایوان کے انکشاف سے ہے جسے صبغۃ اللہ کہا گیا ہے، اسی کو کہیں فقہ قلبی سے، کہیں لبُب (عرفانی)، کہیں نظر (باطن) سے، کہیں بصیرت سے اور انصباغ من اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے جو انسان کی ساری قوتوں، حواس عقل، وجدان عقل اور حدس و تجربے کو کام میں لگاتا ہے اور یہ صرف انسان ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ بہرحال قرآن حکیم نے فکر کو انسان کا بنیادی جوہر قرار دے کر اس کا مصرف انفس و آفاق، تشریع و تکوین اور کمالات ذات و صفات نبوی اور معرفت الٰہی کو بتلایا ہے اور جگہ جگہ اسی کی دعوت دی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ فکر و تدبر چشم بینا اور گوش شنوا کا کام نہیں بلکہ قلب متفکر ہی کا کام ہے، اور فکر ہی جب ان اعضاء حواس وغیرہ کا امام بنتا ہے تو وہ اس کی اقتداء میں اپنا اپنا کام انجام دیتے ہیں، اور پھر فکر ان میں سے اصولی، کلی اور علمی مقاصد تک پہنچ کر معرفتِ حق کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔
خلاصہ کلام
خلاصہ یہ کہ فکر ہی انسان کی امتیازی صفت ہے۔ فکر ہی انسانی حقیقت کی فصل ممیز ہے۔ فکر ہی سے علم و معرفت کے دروازے کھلتے ہیں۔ فکر ہی انسان کی ظاہری اور باطنی قوتوں کا امام اور سربراہ ہے۔ اگر فکر اسلام میں مطلوب نہ ہوتا تو اجتہاد کا دروازہ کلیۃً مسدود ہو جاتا اور شرائع فرعیہ امت کے سامنے نہ آسکتیں۔ یہ بحث الگ ہے کہ کس درجہ کا اجتہاد باقی ہے اور کس درجہ کا ختم ہو چکا ہے مگر اجتہاد کی جنس بہرحال امت میں قائم رکھی گئی ہے جو برابر قائم رہے گی۔ اس لیے جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی نے اگر اس بنیادی اصول بلکہ اصل الاصول کی طرف ہندوستان کے علمی حلقوں کی توجہ دلائی اور دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کی دعوت دی اور اربابِ علم و فضل کو انسانی اور ربانی حقائق کے اکتشافات کی طرف متوجہ کیا تو نہ صرف یہ کہ اس نے ایک بڑا بنیادی مسئلہ اٹھایا ہے بلکہ خود جامعہ کی تاریخ کو بھی دہرایا ہے کیونکہ جامعہ کی بنیاد حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہ نے رکھی تھی جس کا نصب العین ہی قدیم و جدید تعلیم کو یکجا کر کے ملّت کی مختلف صلاحیتوں کو ایک مرکز پر جمع کر دینا تھا تاکہ فکرِ واحد کے راستے سے قوم کے ان دو گروہوں میں قدیم و جدید کی دوئی ختم کر کے انہیں افکار و خیالات اور عقائد و مقاصد کی وحدت سے قومِ واحد بنا دیا جائے۔ اس لیے بلاشبہ جامعہ ملّیہ اسلامیہ اس اقدام میں تبریک و تحسین کی مستحق ہے لیکن اس نئی نہضت اور فکرِ اسلامی کی تشکیل نو کے جذبات سامنے آنے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فکر کا علمی آغاز کس مرکزی نقطہ سے کیا جائے جس میں یہ تمام مذکورہ انواع جن کے لیے قرآن حکیم نے دعوت دی ہے سمٹ کر اسی مرکزی نقطہ کے نیچے جمع ہو جائیں اور کام بجائے پھیلنے کے سمٹ کر اس بنیادی نقطہ سے شروع ہو۔
(۱) فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا مرکزی نقطہ ۔ منہاجِ نبوّت
اس لیے فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کے سلسلے میں پہلا قدم جو ہمیں اٹھانا چاہیئے وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے فکر کے لیے سب سے پہلا فکر ایک نشانہ اور ہدف متعین کر لینا چاہیئے جس پر ہم اپنے فکر کی توانائیاں صرف کریں اور شاخ در شاخ مسائل اس نقطے سے جوڑتے چلے جائیں جس سے نہ صرف راستہ ہی سامنے آجائے گا بلکہ تشتت افزا اوہام و خیالات بھی خودبخود اس سے دفع ہوتے چلے جائیں گے اور ہمارا قدم بجائے منفی ہونے کے مثبت انداز سے آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ سو ہمارے نزدیک وہ جامع نقطہ ایک ہی ہے جس کا نام ’’منہاجِ نبوّۃ‘‘ ہے۔ جس پر فکر کو مرکز کر دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس منہاج ہی کی شمع ہاتھ میں لے کر یہ قوم آگے بڑھی ہے اور ظلمتوں میں اجالا پھیلتا چلا گیا ہے۔ پس اس منہاج سے آج بھی آگے بڑھ سکتی ہے، اس منہاج نبوۃ کو سامنے رکھ کر ہمارے سامنے وہ مزاج آجائے گا جو اس امت میں نبیٔ امت نے پیدا فرمایا ہے۔ اور یہ واضح ہو جائے گا کہ خود اسلام کی تشکیل کا آغاز کس نوعیت سے ہوا کہ ہم اس کے فکرِ جدید کا آغاز بھی اس نوعیت سے کریں، نیز یہ بھی سامنے آجائے گا کہ اس کے ابتدائی مراحل سے گزر کر اور آخر کار اپنی انتہائی منزل پر پہنچ کر بحیثیت مجموعی اس امت کا مزاج کیسا بنایا اور اسے کس ذوق پر ڈھالا؟
منہاجِِ نبوۃ کا امت کے مزاج اور ذوق کی تعمیر پر اثر
غور کیا جائے تو اس منہاجِ نبوۃ نے اصولی طور پر ہمیں دین کے بارے میں کمال اعتدال اور توسط کا راستہ دکھایا ہے۔ نہ تو اس نے ہمیں رہبانیت کے راستے پر ڈالا ہے کہ ہم عبادت اور دین داری کے نام پر دنیا کو کلیۃً ترک کر کے زاویہ نشیں ہو جائیں، شہری آبادیوں، تمدنی معاملات اور مدنیت کے سارے تقاضوں بلکہ خود اپنے سارے طبعی جذبات و میلانات کو بھی چھوڑ کر پہاڑوں اور غاروں میں جا بیٹھیں کہ نہ گھر ہو نہ در، نہ معاشرہ ہو نہ معیشت، نہ انسانی روابط ہوں نہ قومی تعلقات، نہ موانست باہمی ہو نہ اجتماعیت، کہ یہ نہ اسلام کا مزاج ہے نہ اس کا مطالبہ اور نہ ہی فطرت کا تقاضا۔ اس لیے اسلام نے اس کا نام رہبانیت رکھ کر اس کی برملا نفی کی ہے کہ:
لا رھبانیۃ فی الاسلام۔
’’اسلام میں رہبانیت کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
اور نہ ہی ہمیں بہیمیت کے راستے پر ڈالا ہے کہ ہم مدنیت کے نام پر عبادت الٰہی اور طاعت نبوی سے بیگانہ ہو کر کلیۃً نظام دنیا سنوارنے، جاہ و جلال کے خزانے بٹورنے میں لگ جائیں اور راحت طلبی اور عیش کوشی میں غرق ہو جائیں اور ہماری زندگی کا نصب العین ہی ہوس دانی، خط اندوزی اور ہوائے نفس کی غلامی کے سوا دوسرا نہ ہو، نہ عقائد رہیں نہ عبادات، نہ فرائض رہیں نہ سنن، نہ واجبات ہوں نہ ان کی لگن، نہ قومی تربیت کا داعیہ رہے نہ صلہ رحمی اور خیر خواہی، اور نہ اولاد و اقارب کا جذبہ، بلکہ دن رات ہوئے نفس کی پیروی، شبانہ روز لہو و لعب، عیش و طرب، آرائش و آسائش اور نمائش و زیبائش، مالی تکاثر اور جاہی تفاخر ہی زندگی کا مشغلہ بن کر رہ جائے۔ سو اسے بھی اسلام نے نمائشی زندگی، متاع اور غفلت یا با الفاظ مختصر بہیمیت کہہ کر اسے امت کے قومی مزاج سے خارج کر دیا ہے، فرمایا:
وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (آل عمران ۱۸۵) یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ھُمْ غَافِلُوْنَ (الروم ۷) ذَرْھُمْ یَاْکُلُوْا وَیَتَمَتَّعُوْا وَیُلْھِھِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ (الحجر ۳)
’’اور دنیاوی زندگی تو کچھ بھی نہیں صرف دھوکے کا سودا ہے۔ یہ لوگ صرف دنیاوی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں اور یہ لوگ آخرت سے بے خبر ہیں۔ اور آپ ان کو ان کے حال پر رہنے دیجئے کہ وہ کھا لیں اور چین اڑا لیں اور خیالی منصوبے ان کو غفلت میں ڈالے رکھیں، ان کو ابھی حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے۔‘‘
بلکہ اس افراط و تفریط سے الگ کر کے دنیا کو ترک کرانے کی بجائے اس کی لگن کو ترک کرایا ہے اور دین کو اصل رکھنے کے ساتھ اس میں غلو اور مبالغے سے روکا ہے۔ یعنی ایک ایسا جامع فکر دیا ہے جس میں دنیا کے شعبوں کو زیر استعمال رکھ کر ان ہی میں سے آخرت پیدا کی ہے، چنانچہ دنیا کو کھیتی بتلایا اور آخرت کو اس کا پھل ’’اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰٰخِرَۃِ‘‘۔
حاصل یہ نکلا کہ اگر پھل ضروری ہے تو کھیتی بھی اتنی ہی ضروری ہے، اس لیے اسلام کے ہر حکم میں جہاں آجر آخرت ہے وہیں حظ دنیا بھی شامل ہے۔ مثلاً اگر مسواک میں ثواب آخرت ہے تو وہیں منہ کی خوشبو بھی پیشِ نظر ہے۔ اگر طیبات رزق میں بہ نیت حسنِ عبادت کی قوت رکھی گئی ہے وہیں زبان و دہن کے ذائقے سے بھی اجتناب نہیں بتلایا گیا ہے۔ اگر لباس میں بہ نیت آخرت اور غیرت حیا اور ستر عورت کا تحفظ اصل ہے تو وہیں حسن دنیوی اور وقار بھی ملحوظ ہے۔ اگر ازار کو ٹخنوں سے نیچا اور زمین سے گھسٹتا ہوا رکھنے کی ممانعت سے کبر و نخوت اور جاہ پسندی کے تخیّل سے بچایا ہے تو وہیں لباس کو آلودگی اور گندگی سے پاک اور صاف رکھنے کی صورت اختیار کی گئی ہے جو دنیاوی مفاد ہے۔ اگر تخت شاہی کا اصل مقصد عدل کے ساتھ تحفظِ ملک، خدمتِ خلق اور قومی تربیت بجوابدہی آخرت اصل ہے تو وہیں اسے دنیوی وقار و عزت اور سیادت و قیادت کے حظوظ سے بھی بھرپور کیا گیا ہے۔ بہرحال آخرت کی سچی طلب کے ساتھ دنیا کا کسب و اکتساب بھی لازمی رکھا گیا ہے۔ صائب نے اس ذوق کو کس خوبی سے ادا کرتے ہوئے کہا ہے:
فکرِ دنیا کن اندیشۂ عقبٰی مگذار
تا بعقبٰی نہ رسی دامن دنیا مگذار
غرض منہاجِ نبوت نے رہبانیت اور بیمیت کے درمیان معتدل مزاج پر اس امت کو ڈھالا ہے جس میں طبعی جذبات بھی پامال نہ ہوں بلکہ ٹھکانے لگ جائیں اور عقلی مقاصد کی تکمیل میں بھی فرق نہ پڑے اور وہ بروئے کار آجائیں۔ اس لیے اس منہاج کے عناصر ترکیبی تہذیبِ نفس، تدبیرِ منزل، سیاستِ مدن، تسخیرِ اقالیم، تعظیمِ امر اللہ، شفقت علی خلق اللہ، نظامِ عبادت اور نظامِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اس کے ساتھ فکرِ آخرت اور محاسبہ اخروی کا استحضار قرار پائے اور پوری قوم کو اسی رنگ میں رنگا گیا ہے، تاکہ یہ قوم جامع دین و دنیا بن کر، بجائے اس کے کہ دنیا کی اقوام کی جامد، مقلد اور مقتدی بنے، اسے خوددار بنا کر امامِ اقوام اور داعی حق و صداقت کی حیثیت دی گئی۔
جس طرح احمد مختار ہیں نبیوں میں امام
ان کی امت بھی ہے دنیا میں امامِ اقوام
تشکیلِ جدید میں آج کی ضرورت
پس آج جس چیز کی ضرورت ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس منہاجِ نبوت کو سمجھ کر فکرِ اسلامی کو ایک نئی ترتیب اور نئے رنگِ استدلال سے آج کی زبان اور اسلوبِ بیان سے مرتب کیا جائے کہ حقیقی معنی میں اسلامی فکر کی یہی تشکیلِ جدید ہو گی، ورنہ اس منہاج اور اس کے متوارث ذوق سے ذرا بھی ہٹ کر تشکیل ہو گئی تو وہ تشکیل نہ ہو گی بلکہ تبدیل ہو جائے گی جو قلب موضوع ہو گا، اس لیے تشکیلِ جدید کا خلاصہ دو لفظوں میں یہ ہے کہ مسائل ہمارے جدید ہوں اور دلائل قدیم تاکہ یہ تشکیل قائم کر کے ہم خلافتِ الٰہی اور نیابتِ نبوی کا حق ادا کر سکیں۔
فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا یہ پہلا قدم ہے یا مرکزی نقطہ ہے جس سے ہمیں کام کا آغاز کرنا ہے اور اسی نقطہ پر اپنی تمام توانائیاں صرف کرنی ہیں۔
(۲) فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید میں اصول اور قواعد کلیہ اور ضوابط کی پابندی کی اہمیت
اس تشکیلِ جدید کے سلسلے میں دوسرا قدم وہ اصول اور قواعد کلیہ اور ضوابط ہیں جن کے نیچے منہاجِ نبوۃ کے تمام عقائد و احکام اور اخلاق و عبادات اور معاملات و اجتماعیات وغیرہ آئے ہیں تاکہ ہماری تشکیلِ جدید کا سرچشمہ وہی اصول ہوں جن سے مسائل کی تشکیلِ قدیم عمل میں آئی تھی اور اس طرح قدیم و جدید تشکیل میں کوئی تفاوت یا بُعد اور بیگانگی رونما نہ ہو گی۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اصول کلیہ سے ہٹ کر یا انہیں بدل کر یہ تشکیل اسلامی فکر کی تشکیل نہ بن سکے گی۔
اگر ایک شخص سائنس کے فکر کو مرتب یا حل کرنے کے لیے فنِ طب کے اصول سے کام لینے لگے جن کا سائنس کے اصول مسلّمہ اور علومِ متعارفہ سے کوئی تعلق نہ ہو، یا منطق و فلسفہ کی فکر کی تشکیل کے لیے صرف و نحو کے اصول سے کام لینے لگے تو وہ کبھی اس تشکیل میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔ اس لیے سب سے پہلے اسلامی فکر کی تدوین و ترتیب میں اسلامی فکر کے اساسی اصول ہی کو سامنے رکھنا پڑے گا تاکہ ہماری تشکیل سے وہ ذوق فوت نہ ہونے پائے جو اِن اساسی اصول میں پیوست کیا گیا ہے اور انہی سے شریعت کے قواعد و مقاصد تک پہنچا ہوا ہے۔ یہ اصول و قواعد ہی درحقیقت منہاجِ نبوۃ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں جس کا اثر پورے قانونِ شریعت میں پھیلا ہوا ہے۔ اگر تشکیلِ جدید میں یہ قواعد و ضوابط نہ رہیں تو وہ اسلامی فکر کی تشکیل نہ ہو گی صرف دماغی فکر کی تشکیل بن جائے گی۔
اصول و ضوابط کے ساتھ جزئیات کے تعیّن کا مسئلہ
البتہ ان قواعد کلیہ میں جو ضوابط عبادات اور عقائد کے بارے میں ہیں ان کی عملی جزئیات بھی شریعت نے خود متعین کر دی ہیں، اس لیے ان میں تغیر و تبدل یا کسی جدید تشکیل کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا۔ البتہ معاملاتی، معاشرتی اور سیاسی و اجتماعی امور میں چونکہ زمانے کے تغیرات سے نقشے ادلتے بدلتے رہتے ہیں، اس لیے شریعت نے ان کے بارے میں کلیات زیادہ بیان کی ہیں اور ان کی جزئیات کی تشخیص کو وقت کے تقاضوں پر چھوڑ دیا ہے جن میں اصول و قواعد کے تحت توسعات ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ البتہ ایسے تغیرات کو چونکہ قواعد کلیہ کے تحت رکھا گیا ہے اس لیے ان میں بہرحال فنی استخراج کی ضرورت پڑے گی جسے مبصر علماء کی بصیرت ہی حل کر سکے گی جیسا کہ قرونِ ماضیہ میں کرتی رہی ہے۔ بس ایک مجتہد کو اجتہاد کی تو اجازت ہے، ایجاد کی نہیں ہے کہ وہ اتباع کے دائرے سے باہر نہ نکل سکے۔ خواہ یہ اتباع جزئیات کا ہو جبکہ وہ منصوص ہوں یا قواعد کلیہ کا ہو جبکہ وہ اجتہادی ہوں۔ جزئیات میں درحقیقت اتباع ان اصولِ اجتہاد ہی کا ہوتا ہے جس کے ذریعے یہ جزئیات باہر آتی ہیں اس لیے اس تشکیلِ جدید کے موقع پر یہ کلیات و جزئیات سامنے رکھنی ناگزیر ہوں گی اور انہی کے دائرے میں رہ کر یہ جدید تشکیل و ترتیب عمل میں آ سکے گی۔ نیز اگر اس تشکیل کا مقصد قومی تربیت ہے کہ افراد اس منہاج پر ڈھالے جائیں تو یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ تربیت اصول اور کلیات سے نہیں ہو سکتی جیسے علاج اصولِ طب اور معرفتِ خواص ادویہ سے نہیں ہو سکتا جب تک کہ مزاج کے جزوی احوال کو پہچان کر جزوی طور پر نسخہ نہ تجویز کیا جائے۔ یہی صورت شرعیات کی بھی ہے کہ اگر قومی معالجہ اور قومی اصلاح پیش نظر ہو تو وہ محض اصولِ کلیہ سے نہیں ہو سکتی بلکہ جزئیاتِ عمل ہی سے ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن اصولوں کا عمل سے کوئی تعلق نہ ہو، وہ محض ذہن کی زینت ہوں، عملی زندگی سے انہیں کوئی تعلق نہ ہو، اور کوئی عملی پروگرام بھی ان کے پیچھے نہ ہو تو شریعت نے یہ پسند نہیں کیا کہ ان میں زیادہ غوروخوض کیا جائے۔ مثلاً چاند کے گھٹنے بڑھنے کے بارے میں لوگوں نے سوال کیا تو قرآن نے اسلوبِ حکیم پر جواب دیا کہ اس کے منافع سے فائدہ اٹھاؤ، ان کے حقائق کے پیچھے مت پڑو۔
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَج۔ (البقرہ ۱۸۹)
’’آپ سے چاندوں کے حالات کی تحقیقات کرتے ہیں، آپ فرما دیجیئے کہ وہ آلۂ شناختِ اوقات ہیں لوگوں کے لیے اور حج کے لیے۔‘‘
روح کے بارے میں سوال کیا تو فرما دیا کہ تمہارا علم اتنا نہیں ہے کہ ان حقائق کو پہچان سکو، تو کیوں اس ناقابلِ تحمل بات کے پیچھے پڑتے ہو۔ یہ حقائق یا خود ہی عملی ریاضت سے منکشف ہو جائیں گی یا اگر نہ ہوں تو قیامت میں تم سے ان کا کوئی سوال نہ ہو گا کہ نجات ان پر موقوف نہیں تھی۔
قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا۔ (الاسراء ۸۵)
’’آپ فرما دیجیئے کہ روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔‘‘
یا اس طرح قیامت کے وقت کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرما دیا گیا کہ تمہیں اس سے کیا تعلق؟ تمہاری ترقی اور سعادت اس کے مقررہ وقت کے علم پر موقوف نہیں، صرف اس کے آنے کے یقین اور عقیدے پر موقوف ہے اور اس میں یہ جزوی تفصیلات شامل نہیں۔
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرْسٰھَا فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِکْرٰھَا اِلٰی رَبِّکَ مُنْتَھَاھَا۔ (النازعات ۴۲۔۴۴)
’’یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہو گا، سو اس کے بیان کرنے سے آپ کا کیا تعلق؟ اس کے علمِ تعیین کا مدار صرف آپ کے رب کی طرف ہے۔‘‘
بہرحال قرآنی رہنمائی سے علم وہی مطلوب ۔۔۔ اور قابل تحصیل ہے جس سے عملی زندگی میں کوئی سدھار پیدا ہو اور سعادۃ دارین حاصل ہوتی ہو۔ حاصل یہ ہے کہ عملی زندگی محض اصول سے نہیں بنتی بلکہ جزئیاتِ عمل ہی سے بنتی ہے جس کی بروقت تمرین اور ٹریننگ دی جائے۔ اسی لیے کسی مربّی نفس ربانی کی ضرورت ہے۔ ربانی کی تفسیر ابن عباسؓ نے اَلَّذِیْ یُرَبِّی النَّاسَ لِصِغَارِ الْعِلْمِ ثُمَّ بِکِبَارِھَا سے کی ہے۔ یعنی ربانی وہ ہے جو ابتداءً چھوٹی چھوٹی جزئیات سے لوگوں کی تربیت کرے، اس لیے قرآن کریم نے تذکیر و مواعظ اور امر بالمعروف کے نظام کو اجتماعی طور پر مستحکم کیا اور اسے تمکین فی الارض (حکومت و سلطنت) کی بنیادی غرض و غایت ٹھہرایا۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس منہاج پر ہم اپنی فکر کی توانائی صرف کریں وہ جہاں اصولی ہو وہیں وہ جزئیاتِ عمل سے بھی بھرپور ہو تاکہ علم اور عمل دونوں جمع ہو سکیں کہ اس کے بغیر ہمارا فکر اور اس کی تشکیل پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔
حاصل مطلب
حاصل یہی ہوا کہ فکرِ اسلامی کی ترتیب کے وقت جیسے اسلامی بنیادوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے ایسے ہی فقہ اور فقہی جزئیات کا سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ البتہ مناسب اور آج کے دور کی نفسیات کو سامنے رکھ کر ان جزئیات میں ترجیح و انتخاب جدا بات ہے، وہ اہلِ علم کا کام ہے۔ مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ اصول کا تعارف اور ان کی جامعیت، وسعت، نیز ان کے اندرونی مضمرات کی وضاحت ان کی جزئیات کے بغیر ممکن نہیں۔ نظری اصول کتنے بھی معقول اور دلپذیر ہوں لیکن جب تک ان کی عملی مثالیں سامنے نہ ہوں ان کا حقیقی مفہوم واشگاف نہیں ہو سکتا۔ ان جزئیاتِ عمل ہی سے اسلام کی مجموعی اور صحیح صورت و شکل سامنے آ سکتی ہے اس لیے فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید میں جہاں ایک طرف مجموعہ دین کے اساسی اصول اور ان کے نیچے ہر ہر باب کے قواعد کلیہ یا ضوابط تفقہ ناگزیر ہیں وہیں دوسری طرف ان کے نیچے کی عملی جزئیات کا سامنے ہونا بھی لازمی ہے، ورنہ اصول کی وسعت و جامعیت کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہو سکتا۔
فقہاءِ متقدمین کے استخراجِ جزئیات کی افادیت
اس سے ان حوادث و واقعات پر بھی روشنی پڑ سکتی ہے جو ان جزئیات کے استخراج کا باعث بنے جبکہ فقہاءِ امت نے قواعد شرعیہ سامنے رکھ کر ان کے بعید سے بعید محتملات کے احکام بھی ان قواعد سے نکالے۔ ظاہر ہے کہ ہر دور کے حوادث میں نوعی طور پر یکسانی ہوتی ہے، گو حادثوں کی شکلیں حسبِ زبان و مکان کچھ جدا جدا بھی ہوں۔ اس لیے وہی جزئیات آج کے حوادث میں بھی بیکار ثابت نہیں ہو سکتیں، اور کچھ نہیں تو آج کی جزئیات کو کم از کم ان پر قیاس تو ضرور ہی کیا جا سکتا ہے، بلکہ بہت ممکن ہے کہ فقہیات میں ایسی جزئیات بکثرت مل جائیں جو آج کے دور میں سابق دور کی طرح کارآمد ثابت ہوں اور حالات کا پورا مقابلہ کر سکیں۔ ضرورت اگر ہو گی تو باب دار تلاش و جستجو کی ہو گی۔ بلکہ یہ جزئیات چونکہ فقیہانہ ذہنوں سے نکلی ہوئی ہیں اس لیے یہ نسبت ہماری استخراج کردہ جزئیات کے منہاجِ نبوۃ سے زیادہ قریب ہوں گی۔ اس لیے بجائے اس کے کہ ہم ازسرِنو قواعد کلیہ سے جزئیات کا استنباط کرنے کی مشقت میں پڑیں، یہ زیادہ سہل ہو گا کہ استخراج شدہ جزئیات کی تلاش اور ترتیب میں وہ محنت و مشقت استعمال کریں۔ پھر بھی اگر مفتی کو نئے استخراج ہی کی ضرورت داعی ہو تو یہ جزئیات سابقہ ہی اس کا راستہ بہتر طریق پر ہموار کر سکیں گی، بلکہ عین ممکن ہے کہ جب یہ فقہی جزئیات کا ذخیرہ اصول سے جڑا ہوا سامنے آئے تو شاید ہمیں کسی نئے جزیہ کے استخراج کی ضرورت ہی نہ پیش آئے کیونکہ معلوم ہو چکا ہے کہ فقہاء امت نے اصولِ تفقہ اور قواعدِ شرعیہ کی روشنی میں بعید سے بعید محتملات تک کے احکام مستنبط کر کے جمع کر دیے ہیں جس کے مجموعہ سے ایک مستقل فن بنام فقہ تیار ہو گیا، جس میں ہر شعبہ زندگی کی بے شمار جزئیات موجود ہیں۔
اس لیے فکرِ جدید کی تشکیل میں قواعد کلیہ کے ساتھ ان جزئیات کو سامنے رکھنا ازبس ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین نے کسی ایک چھوٹے سے چھوٹے جزئیہ کو بھی کسی مرعوبیت یا اقوام کے طعن و استہزاء کی وجہ سے کبھی ترک کرنا گوارہ نہیں کیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ ایک بار بغداد (عراق) میں کھانا تناول فرما رہے تھے، ایک فارسی غلام کھانا کھا رہا تھا کہ ان کے ہاتھ سے لقمہ چھوٹ کر زمین پر گر گیا، حضرت سلمان فارسیؓ نے اسے فورًا اٹھا کر اس کی گرد جھاڑی، صاف کیا اور تناول فرما لیا۔ غلام نے عرض کیا کہ یہ ملک متمدنوں، دولتمندوں اور سیرچشموں کا ہے، وہ اس حرکت کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھیں گے۔ فرمایا:
اَاَتْرُکُ سُنَّۃَ حَبِیْبِیْ لِھٰؤُلَاءِ الْحُمَقَاءِ؟
’’کیا میں اپنے حبیب پاک کی سنت ان احمقوں کی وجہ سے ترک کر دوں؟‘‘
غور کیا جائے کہ ایک طرف تو دین کے ایک ایک جزئیہ کی پابندی اور دوسری طرف ملکوں کی فتوحات، خلافت کی توسیع اور تسخیر اقالیم اور اس کے ساتھ متکبروں کا تمسخر و طعن، لیکن جو نشہ ان پاک ارواح میں فیضانِ نبوت سے پیوست تھا وہ اس قسم کے عوارض سے کبھی ٹس سے مس نہ ہوتا تھا۔ آخر صحابہؓ سے زیادہ کون سننِ دین کی جزوی جزوی پابندی میں پیش قدم تھا، مگر ان سے زیادہ پھر کون اسلامی فتوحات میں تیز قدم تھا جس سے ایک طرف تو یہ واضح ہے کہ وقتی احوال و حوادث کے پیش نظر توسع اور ہمہ گیری کے معنی ذہنی ڈھیلے پن کے نہیں کہ قوموں کی رضاجوئی یا مجبوری یا آج کل کی اصطلاحی رواداری کے تحت اسلامی جزئیات میں مداہنت کی جا سکے، بلکہ یہ معنی ہیں کہ اسلام نے اصول اس درجہ وسیع اور لچک دار رکھے ہیں کہ حوادث ان سے باہر نہیں جا سکتے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ دین اپنے خاص مزاج اور اساسی پالیسی کے تحت نہ حوادث میں کبھی تہی دامن ثابت ہوا اور نہ اس نے کہیں اپنے اندر خلا محسوس کر کے سپر ڈالی۔ دوسری یہ بات بھی اس واقعے سے اور اس جیسے ہزاروں واقعات سے نمایاں ہے کہ اسلام روکھی اور سطحی قسم کا کوئی رسمی قانون نہیں بلکہ دین ہے جس کی اساس کا بنیادی عنصر عشق و محبت ہے جو ذاتِ حق، ذاتِ نبویؐ اور ذاتِ صحابہؓ سے وابستہ ہے۔ اس لیے ایک سچا عاشق اپنے محبوب کی کسی ادا کو ایک آن کے لیے بھی نظرانداز نہیں کر سکتا جیسا کہ حضرت سلمان فارسیؓ نے یہاں حبیبی کا لفظ استعمال فرما کر اس محبت کی طرف اشارہ فرما دیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کسی جزئیہ کے ترک کرنے میں کوئی قانونی گنجائش بھی نکلتی ہو تو قانونِ عشق میں ایسی گنجائش کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے اسلامی مزاج میں یہ عشقی کیفیات بھی اسی طرح گھلی ہوئی ہیں جیسے پانی میں شکر گھل جاتی ہے جو ایک راسخ العقیدہ مسلم کو ہر ہر جزئیہ کا پابند کیے رہتی ہے اور اس سے ایک انچ بھی نہیں ٹل سکتا۔ اس لیے تشکیلِ نو کے وقت اسلام کی اس خصوصیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
(۳) اسلام میں آزادیٔ ضمیر اور حریتِ رائے کی حدود
لیکن اس انتہائی پابندی اور قید و بند کے ساتھ ہی آزادیٔ ضمیر اور حریتِ رائے بھی پوری فراخدلی کے ساتھ اسلام نے قوم کو بخشی ہے کہ ایک عامی سے عامی آدمی بھی اس قانونِ حق کے معیار سے مسلمانوں کے بڑے بڑے سربراہ پر روک ٹوک عائد کر سکتا ہے اور اسے عوام کی تنقید کو ماننے سے چارہ کار نہیں ہوتا۔ اس کے لیے سب سے بڑی نظیر نماز کی جماعت ہے جس کا نام امامتِ صغرٰی ہے جو کلیۃً امامت کبرٰی یعنی امامت و خلافت پر منطبق ہے۔ وہاں اگر امام اور امیر ہے تو یہاں بھی امام ہے، وہاں اگر جہاد میں ہر نقل و حرکت پر نعرۂ تکبیر ہے تو یہاں بھی ہے، وہاں اگر امام کے حق میں سمع و طاعت فرض ہے تو یہاں بھی ہے، وہاں اگر میمنہ اور میسرہ ہے تو یہاں بھی ہے، وہاں اگر صفوف میں شگاف آجانا ناکامی کی علامت ہے تو یہاں بھی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے امامتِ صغرٰی (جماعت صلوٰۃ) کے جو طور طریق رکھے گئے ہیں وہی نوعی طور پر امامتِ کبرٰی اور اسٹیٹ میں بھی ہیں۔ اس صورتحال کے تحت دیکھا جائے تو نماز کا مقتدی اس سے ذرا بھی منحرف ہو تو اس کی نماز ہی صحیح نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اس مسجد کی امارت اور اسٹیٹ میں مقتدیوں پر فرض ہے کہ جب امام نیت باندھے تو مقتدی بھی ساتھ ساتھ نیت کر کے ہاتھ باندھیں، وہ قیام میں ہو تو یہ بھی قیام کریں، وہ رکوع کرے تو یہ بھی رکوع کریں، وہ سجدہ میں جائے تو یہ بھی سربسجود ہو جائیں، وہ ولاالضالین کہے تو یہ آمین کہیں، حتٰی کہ اگر امام سے سہوًا کوئی جزوی غلطی بھی ہو جائے اور وہ سجدہ سہو کرے تو مقتدی بھی اس کی اس فکری خطا میں ساتھ دیں اور سجدۂ سہو کریں۔
لیکن حریت و آزادی یہ ہے کہ اگر امام قراءت یا افعال صلوٰۃ میں کوئی ادنٰی سی بھی غلطی کر جائے تو ہر مقتدی کو نہ صرف ٹوک دینے کا حق ہے بلکہ مقتدی اس وقت تک امام کو چلنے نہیں دے سکتے جب تک وہ اپنی غلطی کی اصلاح نہ کرے یا قراءت صحیح نہ کرے یا کسی رکن میں غلطی ہو جائے اور اسے درست نہ کرے۔ چنانچہ امام کی غلطی پر ہر ایک مقتدی پیچھے سے تکبیر و تسبیح کی آوازوں سے اس طرح متنبہ کرتا ہے اور کرنے کا حق رکھتا ہے کہ امام غلطی کی اصلاح پر مجبور ہو جائے۔ بعینہٖ یہی صورت امامِ کبرٰی یعنی اسٹیٹ اور ریاست کی بھی ہے کہ امیر المومنین کی سمع و طاعت تو ہر ہر معاملے میں واجب ہے ورنہ تعزیر و سزا کا مستحق ہو گا لیکن ساتھ ہی خود امیر کی کسی خطا و لغزش پر ایک عامی سے عامی آدمی بھی برملا روک ٹوک کرنے کا حق رکھتا ہے جب تک کہ امیر اس فعل کی اصلاح نہ کرے یا اس کا کوئی عذر سامنے نہ رکھے۔
فاروقِ اعظمؓ پر ایک اعرابی نے اس وقت اعتراض کیا جب کہ وہ بحیثیت امیر المومنین منبر پر کھڑے ہو کر خطبے میں اعلان فرما رہے تھے کہ ’’لوگو! امیر کی بات سنو اور اطاعت کرو‘‘۔ اعرابی نے کہا کہ ہم نہ بات سنیں گے نہ اطاعت کریں گے۔ فرمایا کیوں؟ کہا مالِ غنیمت میں آپ کا حصہ عام لوگوں کی طرح صرف ایک چادر تھی حالانکہ آپ کے بدن پر اس وقت دو چادریں پڑی ہوئی ہیں۔ فرمایا اس کا جواب میرا بیٹا (عبد اللہ بن عمرؓ) دے گا۔ صاحبزادہ نے فرمایا کہ امیر المومنین کا قد لانبا تھا، ایک چادر کافی نہ تھی اس لیے میں نے اپنی چادر پیش کر دی، وہی ان کے بدن پر ہے جو انہوں نے آج استعمال کی ہے۔ تب اعرابی نے کہا کہ اب ہم بات سنیں گے بھی اور اطاعت بھی کریں گے۔
بہرحال منہاجِ نبوۃ کی مزاج کی رو سے عمل میں تو یہ تقید اور پابندی ہے کہ اس کے کسی کلی جزئیہ میں ڈھیلا پن گوارا نہیں کیا گیا حتٰی کہ ایک عامی آدمی کو بھی امیر المومنین تک پر کسی محسوس قسم کی فروگزاشت کے بارے میں اعتراض کا حق دیا گیا، لیکن حریتِ رائے اور اصول کے تحت آزادی بھی انتہائی ہے جو حقیقی قسم کی جمہوریت کی پردہ دار ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اصول و قوانین کی یہ پابندی اور ان میں زندگی کو مقید کر دینا کوئی قید و بند نہیں جو ذہنوں پر شاق ہو جب کہ ان ہی اصولوں کی پابندی سے اسلام قوم عالمگیر بنی۔
اسلام اور اسلامی اصول کی عالمگیری پر واقعاتی حقیقت کے شواہد
آخر جب ہم اسلام کے حق میں ایک عالمگیر دین کے مدعی ہیں تو اس ہمہ گیر کے معنٰی ان کے انہی اصولوں کی ہمہ گیری کے تو ہیں، اگر وہ تنگ اور جامد ہوتے تو اسلام عالمگیر تو کیا عرب گیر بھی نہ ہو سکتا۔ لیکن جب انہی اصول پر صدیوں ہمہ گیر حکومتیں بھی چلیں اور انہی اصول سے تربیت پا کر قوم میں عظیم شخصیتیں بھی ابھریں جنہوں نے مشرق و مغرب کو روشنی دکھائی اور ظلمتوں کی تنگنائیوں میں پھنسی ہوئی قوموں، نسلوں اور وطنوں کو ان کی مصنوعی حد بندیوں سے نکال کر انسانیت کے وسیع میدانوں میں پہنچایا تو کیا یہ اصول کی تنگیوں سے ممکن تھا؟ اس لیے فطری اصول اور فطرت کی پابندی کو قید و بند اور تنگی سمجھنا ذہنوں کی تنگی کی علامت ہو سکتا ہے، فطرت کی تنگی نہیں کہلایا جا سکتا۔ بالخصوص جب کہ ان اصولوں کی وسعتوں میں ایسی گنجائش بھی رکھی گئی ہے کہ ان سے ہر دور کے مفکر اور اہلِ علم و فضل نے استخراجِ مسائل کی حد تک بھی کام لیا ہے اور آج بھی لے سکتے ہیں، جن میں ہر دور کے حوادث کے لیے ہدایت کا سامان موجود ہے۔
اس لیے تمدن و معاشرت کی مشخص عملی جزئیات اور سننِ زائدہ پر اس قانونِ فطرت نے زیادہ زور نہیں دیا بلکہ اس کو وقت اور زمانے کے حوالے کر دیا ہے، ہر زمانے میں جو نئی نئی صورتیں بدلتی رہتی ہیں انہیں اہلِ علم ان کے اصول سے وابستہ کر کے ان کے احکام نکال سکتے ہیں جیسا کہ مفکران اِن اباب فتوٰی کا اسوہ اس بارے میں سامنے ہے، بالخصوص مسائل کے طرزِ استدلال کے بارے میں تو خاص طور پر ہر قرن جدید کے رنگ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ ایک دور میں نظری فلسفہ نے رنگ جمایا اور دین کے بارے میں محض نقل و روایت لوگوں کے لیے تسلی بخش نہ رہی جب تک وہ عقلی چولے میں نہ آئے، تو رازیؒ و غزالیؒ جیسے حکمائے ملت نے دین کو فلسفیانہ انداز میں پیش کر کے لوگوں پر حجۃ تمام کی۔ ایک دور میں تصوف اور حقائق پسندی کا غلبہ ہوا تو ابن عربیؒ وغیرہ نے صوفیانہ اور عارفانہ انداز سے اسلام کو نمایاں کیا۔ ایک دور میں معاشی فلسفہ کا زور ہوا تو شاہ ولی اللہؒ جیسے حکیم امت نے نظری و معاشی رنگ کے فلسفیانہ دلائل سے اسلام کو سمجھایا اور وقت کے مسائل حل کیے۔ ایک دور سائنسی اور مشاہداتی فلسفے کا آیا تو بانی دارالعلوم (دیوبند) حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ جیسے محقق اور عارف باللہ نے اسلامی عقائد و اصول کو شواہداتی رنگ میں حسی شواہد و نظائر پیش کر کے اتمامِ حجت فرما دیا۔ جس سے ایک طرف اسلام کی ہمہ گیری اور جامعیت واضح ہوئی تو دوسری طرف اس کا توسع کھلا اور اس کے رنگِ استدلال کی یہ لچک بھی واضح ہوئی کہ اس کے حقائق پر ہمہ نوع دلائل کا لباس سج جاتا ہے اور حقیقت بدستور حقیقت رہتی ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ خود اس میں یہ سارے الوان اور سارے نہج موجود ہیں جس سے ہر رنگ کا لباس زیب زدہ ثابت ہو جاتا ہے جو درحقیقت خود اس کا رنگ ہوتا ہے، البتہ حالات اور وقت کے تقاضے صرف اجاگر کر دیتے ہیں۔
دورِ جدید کی عملی و نظریاتی خصوصیات اور اسلامی قوت و شوکت
آج کا دور سیاسی اور معاشی اور مختلف نظریات کی سیاستیوں اور معاشی فلسفوں کے غلبہ کا ہے۔ مذہب بن رہے ہیں تو سیاسی معاشی پارٹیاں بن رہی ہیں تو سیاسی مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو ۔۔۔۔۔ ان حالات میں جب تک کسی دینی مسئلے کو سیاسی چاشنی کے ساتھ پیش نہ کیا جائے عوام کے لیے قابلِ التفات نہیں ہوتا۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اسلام کو سیاسی اور معاشی رنگ کے دلائل سے پیش کیا جائے، یہ سیاسی رنگ اسلام کے حق میں کوئی بیرونی رنگ نہ ہو گا بلکہ اسی کے اندر کا ہو گا۔ حالات متحرک ہوں گے، اور ان کے فطری اور طبعی قسم کے معاشی اور سیاسی پیکر اس تحریک سے نمایاں ہو کر اسلام ہی کی سیاست و اجتماعیت کے اصول و قوانین نہ ہوتے تو صدیوں تک اس کی وہ مثالی حکومتیں دنیا میں نہ چل سکتیں جنہوں نے دین و دنیا کے ساتھ سیاسی حکمرانی کے فرائض بھی انجام دیئے۔ آج بھی مسلم حکمرانوں کی بود و نمود اسی دور کی مستحکم فرمانروائیوں کے ثمرات ہیں جن میں کتاب و سنت اور فقہ فی الدین کے انوار شامل تھے، البتہ آج کے غالب یا مغلوب مسلمانوں کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے موجودہ دور کے حکومتوں کے نظریات تو اختیار کر لیے لیکن ان کے عملی کارناموں سے کوئی سبق نہ لیا۔ اگر قوم اپنے نظریات قائم رکھ کر آج کے عملی میدانوں میں دوڑتی تو آج بھی وہ ایسی ہی مثالی قوت و شوکت دکھلا سکتی تھی جو اَب سے پہلے دکھلا چکی ہے اور دنیا اس کی تقلید پر مجبور ہوتی نہ کہ قصہ برعکس ہو جاتا۔
دورِ جدید میں دینی مزاج کے مطابق فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا واحد طریق عمل
بہرحال اس دور میں اس کی شدید ضرورت ہے کہ اسلامی اصول، اسلامی مزاج اور نبوت کا منہاج بجنسہ قائم رکھ کر جس میں دیانت و سیاست اور عبادت و مدنیت بیک وقت جمع ہے۔ وقت کے مسائل کو نئی تشکیل و ترتیب سے نمایاں کر کے نئے حوادث میں قوم کی مشکلات کا حل پیش کیا جائے تو یہ وقت کے تقاضوں کی تکمیل ہو گی جبکہ اس میں فقیہ المزاج شخصیات، اسلامی اصول کی روشنی اور جزئیاتِ عملیہ کی رعایت، اسلامی مزاج کی برقراری، سلف صالحین کا اسوہ، مرادات خداوندی کے ساتھ تقید، رضاء حق کی پاسداری، اجتماعی اصلاح و فلاح، اخروی نجات کا فکر وغیرہ کی حدود قائم رکھی جائیں گی تو بلاشبہ فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید دینی ہی رنگ کے ساتھ منظرِ عام پر آجائے گی۔ مگر اسی کے ساتھ ان منتخب شخصیات میں جہاں اس دینی فکر اور تفقہ مزاجی کی ضرورت ہے جس کی تفصیل عرض کی گئی، وہیں اس کی بھی شدید ضرورت ہے کہ وہ موجودہ دنیا کے مزاج اور وقت کو بھی پہچانتے ہوں، عصری حالات اور وقت کی ضرورت بھی ان کے سامنے ہوں، علومِ عصریہ میں انہیں مہارت و حذاقت میسر ہو، دنیا کی عام رفتار اور آج کے ذہن کو بھی وہ سمجھے ہوئے ہوں، اور اس میں ذی فہم اور ذی رائے بھی ہوں، کیونکہ حالات ہی اصل محرکِ فتاوٰی ہیں۔ اگر یہ منتخب شخصیات شرعیات کی خوگر ہوں لیکن عصریات سے بے خبر ہوں یا برعکس معاملہ ہو تو فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو گا۔
اس سلسلہ میں کٹھن مرحلہ ایسی جامع شخصیتوں کی فراہمی کا ہے جو شرعیات اور عصریات میں یکساں حذاقت و مہارت کی حامل ہوں، عموماً اور اکثر و بیشتر ماہرین شرعیات عصریات سے کچھ نابلد اور موجودہ دنیا کی ذہنی رفتار اور اس کے گو ناں گوں نظریات سے بے خبر ہیں اور ماہرینِ عصریات اکثر و بیشتر شرعیات سے نا آشنا ہیں۔ اس لیے فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا بار اگر تنہا ایک طبقے پر ڈال دیا جائے تو علماء کی حد تک بلاشبہ مسائل کی تشکیل قابلِ وثوق ہو گی لیکن ممکن ہے جدید طبقے کے اعتراضات کا ہدف بن جائے گی۔ اور دوسری طرف ماہرینِ عصریات جب کہ عامۃً دینی مقاصد اور اسلام کے شرعی موقفوں کا زیادہ علم نہیں رکھتے اور قوم کے دینی مزاج سے کچھ بیگانہ بھی ہیں، اگر فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا بار محض انہیں کے کندھوں پر ڈال دیا جائے تو حوادث کی حد تک وہ ماہرینِ شریعت کے اعتراضات کا ہدف بن جائے گی۔ بہر دو صورت تشکیلِ جدید کا خاکہ ناتمام بلکہ ایک حد تک نقصان دہ ثابت ہو گا۔
ان حالات میں درمیانی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ اس تشکیل کے لیے دونوں طبقوں کے مفکرین کی مشترک مگر مختصر اور جامع کمیٹی بنائی جائے جس میں یہ دونوں طبقے اسلام کے تمام تمدنی، معاشرتی اور سیاسی مسائل میں اپنے اپنے علوم کے دائرے میں غوروفکر اور باہمی بحث و تمحیص سے کسی فکر واحد پر پہنچنے کی سعی فرمائیں اور جامع فکروں کو کتاب و سنت اور فقہ کی روشنی میں مسائل کی تنقیح میں استعمال کریں تو وہ فکر یقیناً جامعیت لیے ہوئے ہو گا جس میں دینی ذوق اور شرعی دستور بھی قائم رہے گا اور عصری حالات سے باہر بھی نہ ہو گا۔ نیز ایک طبقہ کا ہدف طعن و ملامت نہ بن سکے گا اور مسائل کے بارے میں کوئی خلجان سدِّ راہ نہ ہو گا۔
تشکیلِ جدید کرنے والے مفکرین کے لیے ایک امرِ لازم
البتہ مفکرین کو یہ ضرور پیشِ نظر رکھنا ہو گا کہ اسلام کوئی رسمی اور دنیوی قانون نہیں بلکہ دین ہے جس میں دنیا کے ساتھ آخرت بھی لگی ہوئی ہے، اور ہر عمل میں خواہ وہ فکری ہو یا عملی، جہاں انسان کی دنیوی زندگی میں شائستگی کی رعایت رکھی گئی ہے اور انہیں تنگی اور ضیق و حرج سے بچا کر ہمہ گیر سہولتیں دی گئی ہیں، وہیں رضاء خداوندی اور آخرت کی جوابدہی بھی ان پر عائد کی گئی ہے۔ اس لیے اسے محض دنیوی قوانین اور صرف معاشی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر حوادث کا آلۂ کار بھی نہیں بننے دیا گیا ہے کیونکہ احوال ہمیشہ بدلتے رہے ہیں اور بدلتے رہیں گے۔ حال کے معنی ہی ’’مَا حَالَ فَقَدْ زَاَلَ‘‘ کے ہیں (یعنی جو حال آیا وہ زائل بھی ہو گا) پس حال تو بدلنے ہی کے لیے بنایا گیا ہے لیکن اصولِ فطرت بدلنے کے لیے نہیں لائے گئے ہیں وہ اپنی جگہ اٹل ہی رہیں گے، البتہ ان شرعی اصولوں میں ایسی وسعتیں ضرور رکھی گئی ہیں کہ وہ ہر بدلتی ہوئی حالت میں وقت کے مناسب رہنمائی کر سکیں۔
اس لیے مفکر کا کام صرف اتنا ہی ہو گا کہ بدلے ہوئے حالات اور نئے حوادث کو سامنے رکھ کر ان جزئیاتِ مسائل کو سامنے لے آئے جو اس حادثہ کے بارے میں منہاجِ نبوۃ نے اصولًا یا جزءًا وضع کئے ہیں اور ان پر منطبق کئے ہیں۔ پس مفکر دانشور یا مبصر مفتی کا کام حادثہ اور مسئلہ تبدیل کرنا نہیں بلکہ دونوں میں تطبیق دے دینا ہے، نہ حالات سے صرفِ نظر کرنا ہے نہ مسائل سے قطع نظر کر لینا ہے۔ اس لیے شریعت نے تمدنی اور معاشرتی احوال کی حد تک زیادہ تر قواعد کلیہ ہی سامنے رکھے ہیں، نئی جزئی صورتوں کی تشخیص نہیں کی ہے کہ وہ ہر دور میں نئے نئے رنگ میں نمایاں ہوتی رہتی ہیں۔
سیاسی ’’ملل و مخل‘‘ کی تدوین کی ضرورت و اہمیت
فی زمانہ اسلامی مسائل میں انتشار یا ان کے بارے میں شکوک و شبہات کی بوچھاڑ کا سرچشمہ سب جانتے ہیں کہ مغربی تہذیب و تمدن اور اس سے زیادہ آج کے سیاسی نظریات دماغوں پر مذہب کے رنگ سے چھائے ہوئے ہیں۔ آج مسلک اور اِزم بن رہے ہیں تو سیاسی اور معاشی، پارٹیاں بن رہی ہیں تو سیاسی اور معاشی، قوانین بن رہے ہیں تو سیاسی اور معاشی، حتٰی کہ عقائد بن رہے ہیں تو وہ بھی سیاسی اور معاشی۔ چنانچہ سیاسی نظریات کے بارے میں اصطلاح بھی ٹھہر گئی ہے جو مذہب اور دین کے بارے میں رائج تھی کہ ہم فلاں نظریے پر یقین رکھتے ہیں یا بالفاظِ دیگر ایمان لاتے ہیں، جو کسی دور میں دینی عقائد کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ اس لیے آج ایک سیاسی ’’ملل و مخل‘‘ کی تدوین کی بھی اشد ضرورت ہے جس میں سیاسی مذاہب کے عقائد و افکار کو تقابلی رنگ سے سامنے رکھ کر اسلام کے اجتماعی مسائل کو دلائل کی روشنی میں پیش کیا جائے جس کے لیے چند مفکر عالم اور چند مفکر گریجویٹوں کی خدمات حاصل کی جائیں کیونکہ قدیم زمانے کے ’’ملل و مخل‘‘ اس دور کے پیدا شدہ مذہبی عقائد اور افکار کے پیشِ نظر مرتب ہوئے تھے جبکہ دلوں پر سیاست کے ٹھپے لگے ہوئے نہیں تھے۔ اب عصرِ حاضر کے سیاسی عقائد و افکار کو سامنے رکھ کر اسلام کے سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی مسائل کو دلائل و شواہد سے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
خوشی ہے کہ جامعہ اسلامیہ نے آج جب فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو کا مسئلہ اٹھایا تو ممکن ہے سیمینار کے ثمرے کے طور پر اس سیاسی، معاشرتی اور اجتماعی رنگ کی ’’ملل وم خل‘‘ کی مضبوط بنیاد بھی پڑ جائے۔ حدیث اور فقہی کتب میں معاشرتی، تمدنی اور اجتماعی مسائل کی جو زمین ابواب و فصول کے ساتھ جن جن عنوانوں سے پائی جاتی ہیں وہ اپنی جامعیت اور اصولیت کی وجہ سے اپنے متعلقہ مسائل کی جزئیات پر کلیۃً حاوی ہیں اور ان میں فقہاء امت کے دل و دماغ کا نچوڑ سمایا ہوا ہے۔ اس لیے اگر ان عنوانات کے تحت کام کیا جائے اور آج کے معاشرتی، سیاسی اور تمدنی مسائل کو تقابلی انداز سے سامنے رکھ کر علمی اور فکری سعی کا محور بنا لیا جائے تو اس میں تمام وقتی مسائل بھی آجائیں گے اور دوسرے مہم مسائل بھی شامل ہو جانے کی وجہ سے ایک بہترین سیاسی ’’ملل و مخل‘‘ تیار ہو جائے گی جو جامعہ کا ایک یادگار کارنامہ ہو گا۔
اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی توقع رکھنی چاہیے کہ یہ سعی چند زبان زد مسائل مثلاً بینک کاری، اسٹاک ایکسچینج و سودی معاملات یا انشورنس وغیرہ وغیرہ جیسے مالی اور تجارتی مسائل تک ہی محدود نہ رکھی جائے گی کیونکہ جب فکرِ اسلامی کے بارے میں قدم اٹھایا جا رہا ہے تو وہ بھرپور اٹھنا چاہیئے جس میں اس قسم کے تمام مسائل کا ایک ہی بار فیصلہ کر دیا جائے۔
امید ہے کہ اس تشکیل کے سامنے آجانے پر یہ شبہ بھی حل ہو جائے گا کہ آیا اسلام میں جمود ہے یا ذہنوں میں جمود ہے جسے اسلام کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے، حالانکہ اسے توڑنے والا خود اسلام ہے جیسا کہ اس نے تیرہ صدیوں میں کتنے ہی جامد ذہن اقوام کا جمود توڑا ہے۔ اسلام نے اپنے اصولِ فطرت میں ماننے والوں کو محدود کر دیا ہے جس کے معنی جمود کے سمجھے جا رہے ہیں لیکن اصولِ فطرت میں محدود رہنا جمود نہیں بلکہ جمود شکنی ہے۔
اسلامی مزاج اور منہاج نبوت کے اساسی اصول
منفی پہلو:
(۱) لَا اِسْلَامَ اِلَّا بِجَمَاعَۃٍ۔
’’اسلام بغیر جماعت نہیں‘‘ یعنی اسلام کا مزاج اجتماعیت پسندانہ ہے انفرادیت پسندانہ نہیں۔
(۲) لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ
یعنی دین کے بارے میں اسلام کا مزاج اختراع پسندی اور جدت طرازی کا نہیں بلکہ اتباع پسندی ہے نیز گوشہ گیری اور انقطاعیت پسندی کا نہیں بلکہ عام مخلوق میں ملے جلے رہ کر کام انجام دینے کا ہے۔
(۳) لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔
یعنی اسلام کا مزاج دین میں جبر و اکراہ اور تشدد کا نہیں بلکہ نرمی و محبت کے ساتھ حجت و برہان سے حق واضح کر دینے کا ہے۔ ماننا نہ ماننا کلیۃً مخاطب کا اختیاری فعل ہے۔
(۴) لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ فِی الْاِسْلَامِ۔
یعنی اسلام کا مزاج تخریبی یا ضرر رسانی کا نہیں بلکہ تعمیری اور نفع رسانی کا ہے۔
(۵) لَا عَدْوی وَلَا طَیَرَۃَ فِی الْاِسْلَامِ۔
یعنی اسلام کا مزاج توہم پسندانہ نہیں کہ شگون یا ٹونے ٹوٹکے یا کسی کی بیماری کسی کو لگ جانے کا تخیل باندھ لینا اس کے یہاں معتبر ہوں، بلکہ حقیقت پسندانہ ہے کہ امور واقعیہ ہی اس کے نزدیک معتبر ہوں خواہ وہ حسی اسباب سے ظہور پذیر ہوں یا معنوی اسباب سے، تخیلاتی اور توہماتی خطرات و وساوس اس کے نزدیک اسباب نہیں ہیں کہ حوادث کا ان سے تعلق ہو۔
(۶) لَا نُوَلِّیْ اَمَرَنَا ھٰذَا مَنْ طَلَبَہٗ۔
یعنی اسلام کا مزاج طالبِ عہدے کو عہدہ نہ دینے کا ہے۔ گویا عامۃً عہدوں کی طلب خودغرضی کی دلیل ہوتی ہے اور خودغرض انسان اپنی اغراض کی تکمیل میں مشغول رہ کر فرائضِ منصبی میں عادۃً قاصر رہتا ہے۔
(۷) لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا۔
یعنی اسلام کا مزاج کسی پر اس کی طاقت کے قدر بار ڈالنے کا ہے، خواہ انسان ہو یا حیوان، زائد از طاقت بوجھ رکھنا اس کے نزدیک ظلم ہے۔
(۸) لَیْسَ مِنَّا مِنْ غَشَّنَا۔
یعنی اسلام کا مزاج گندم نما جوفروشی اور نمائشی خوبصورتیاں دکھلا کر دغل و فصل کا نہیں بلکہ حقیقت پسندی اور حقیقت نمائی کا ہے۔
(۹) وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ۔
یعنی اسلام کا مزاج تصنع، بناوٹ یا نمائش پسندی کا نہیں بلکہ سادگی، سچائی اور ظاہر و باطن کی یکسانی کا ہے۔
(۱۰) لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّن رُّسُلِہٖ۔
یعنی اسلام کا مزاج شخصیاتِ مقدسہ کے نام پر تعصب، تنگی، حد بندی اور گروہ سازی کا نہیں بلکہ ان کی ہمہ گیر توقیر و تعظیم کے ساتھ بین الاقوامی طور پر اقوام کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور عالمِ انسانیت کو متحد کرنے کا ہے۔
(۱۱) لَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ۔
یعنی اسلام کا مزاج دل چھوڑ کر بیٹھ رہنے اور بزدلی اور کم ہمتی دکھلانے کا نہیں بلکہ عزیمت اور قوتِ یقین کے ساتھ عالی حوصلگی اور ہمتِ مردانہ دکھلانے کا ہے۔
(۱۲) لَا تَیْئَسُوْا مِنْ رّوُحِ اللہِ۔
یعنی اسلام کا مزاج، کتنی بھی مشکلات کا ہجوم سر پر آجائے، مایوسی کا نہیں بلکہ امید، بھروسہ اور اللہ پر اعتماد کے ساتھ ثبات و استقلال اور آگے بڑھتے رہنے کا ہے، مایوسی اس کے نزدیک کفر کا شعبہ ہے۔
(۱۳) مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ۔
اسلام کا مزاج دین کے بارے میں ضیق اور تنگی کا نہیں بلکہ فراخی کا ہے۔ معذور کو مجبور نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے مناسب حال راہ نکال دی جاتی ہے۔
(۱۴) لَنْ یَّشَاء الدِّیْنُ اِلَّا غَلْبَہُ۔
یعنی اسلام کا مزاج دین میں غلو، مبالغہ اور تحمل بیجا کا نہیں ورنہ دین اسے ہٹا دے گا، بلکہ اعتدال کے ساتھ بقدر طاقت بوجھ اٹھانے کا ہے۔ توسط و اقتصاد ہی اس کا بنیادی اصول ہے۔
(۱۵) لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَئَانُ قَوْمٍ عَلٰی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔
یعنی اسلام کا مزاج دوست اور دشمن میں یکساں انصاف ہے۔ جانبداری یا بے جا رعایت یا خویش نوازی اس کے یہاں خلافِ عدل اور خلافِ تقوٰی ہے۔
(۱۶) لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔
یعنی اسلام کا مزاج عمل پر ابھارنا ہے کہ ہر ایک کو اسی کی سعی کام دے گی، دوسرے کی محنت کام نہ آئے گی تاکہ آدمی دوسروں پر تکیہ کر کے معطل نہ ہو بیٹھے، ہمت سے خود آگے بڑھے۔
مثبت پہلو
یہی صورت اسلام کے اساسی اصول میں مثبت ضابطوں کی بھی ہے جس سے اسلام کا مزاج کھلتا ہے، مثلاً
(۱) لِیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍ۔
یعنی اسلام کا مزاج حجت پسندی، حجۃ طلبی اور تحقیق حال کا ہے۔ جذبات پسندی یا محض شبہات یا قرائن بے تحقیق کسی کو انعام یا انتقام دینے کا نہیں۔
(۲) وَالصُّلْحُ خَیْرُْ وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ۔
یعنی اسلام کا مزاج صلح جوئی اور امن پسندی کا ہے، لڑائی جھگڑا، شر انگیزی اور فتنہ جوئی کا نہیں۔ نیز اس کا مزاج احسان اور جود و کرم کا ہے، بخل، تنگی اور جزرسی کا نہیں۔
(۳) وَاصْبِرْ عَلٰی مَا اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۔
یعنی اسلام کا مزاج انتقام پسندانہ نہیں بلکہ کریمانہ اور مصائب یا ایذا رسانیوں پر صبر و تحمل اور عفو و درگزر کا ہے۔ اس کو اس نے اولوالعزمی کہا ہے۔
(۴) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃُْ۔
یعنی اسلام کا مزاج باہمی بھائی بندی اور ملنساری کا ہے، اجنبیت پسندی اور بیگانہ روش کا نہیں۔
(۵) اِنَّ النَّاسَ کُلُّھُمْ اِخْوَۃُْ۔
یعنی اسلام کا مزاج عالمی بھائی چارے کا ہے کہ تمام انسان بھائیوں کی طرح رہیں خواہ کوئی بھی قوم ہو اور کسی بھی مذہب کی ماننے والی ہو۔ غلام سازی، استحصالِ عوام یا گروہ سازیوں کے ذریعے بھائی کو بھائی سے جدا کر دینے کا نہیں ہے۔
(۶) مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا۔
یعنی اسلام کا مزاج پورے عالمِ انسانیت کا احترام و تحفظ ہے۔ انسانیت کی تحقیر و تذلیل اور لاپرواہی سے اس کے ضائع ہو جانے پر قناعت کر لینے کا نہیں۔
(۷) وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا اُولٰئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ حَقًا۔
یعنی اسلام کا مزاج خلط و التباس، حق و باطل کو مخلوط کر دینے، یا اقوام کی رضاجوئی کی خاطر حق و باطل کو جمع کر کے بین بین راہیں نکالنے کا نہیں بلکہ حق و باطل کو نکھار کر ممیز کر دینے کا ہے۔
(۸) اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کآفۃً۔
اسلام کا مزاج دائرہ حق (اسلام) میں پورے داخل کرانے اور یک رخی کے ساتھ دلوں کو سکون و اطمینان بخشنے کا ہے۔ ناتمام اور ادھ کجرے کام سے دلوں کو ڈانواڈول کر دینے کا نہیں۔
(۹) اَنْ تَؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰی اَھْلِھَا۔
یعنی اسلام کا مزاج امانت داری اور امانت سپاری کا ہے۔ بد دیانتی، خیانت پسندی یا دغل فعل کا نہیں۔
(۱۰) وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۔
اسلام کا مزاج اجتماعی طور پر استواریٔ نظام اور قیامِ امارت پر امیر کے حق میں سمع و طاعت کا ہے، اگرچہ ایک حبشی غلام ہی امیر بنا دیا جائے۔ لامرکزیت یا فوضویت اور بے مرکز جمہوریت اسلام کا مزاج نہیں کہ یہ انتشار پسندی ہے۔
(۱۱) کُلُّ اَمْرِءٍ بِمَا کَسَبَ رَھِیْنُْ۔
اسلام کا مزاج ہر ایک کو اپنے ہی عمل پر ابھارنا ہے تاکہ دوسروں پر تکیہ کر کے نہ بیٹھ جائے۔
(۱۲) مَنْ یَّعْمَلْ سُوْءً یُجْزَ بِہٖٖ۔
اسلام کا مزاج یہ ہے کہ کوئی اپنی نسبت یا نسب یا انتساب پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائے، جس نے جو کچھ کیا ہے وہ ضرور اس کے آگے آئے گا۔
(۱۳) ثَلٰثَۃُْ لَعَنَھُمُ اللہ (۔۔۔۔۔) مُتَّبِعُْ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً جَاھِلِیَّۃً۔
یعنی اسلام کا مزاج یہ ہے کہ جاہلیت کی جن رسوم کو اس نے ہٹا دیا ہے ان کا اعادہ یا نئی نئی پگڈنڈیاں نکالنا اس کے لیے قابل برداشت نہیں کہ یہ خود اسلام کی تخریب ہے۔
(۱۴) مَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا۔
اسلام کا مزاج رسالت کی پیروی کرانا ہے، قانونِ حق میں ایجاد اختراع کرانا نہیں۔
(۱۵) اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃ اور اِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَکُمْ وَاِنَّکُمْ خُلِقْتُمْ لِلْاٰٰخِرَۃِ۔
اسلام کا مزاج ہر عمل کو، خواہ عبادت ہو خواہ عادت، اخروی بنانا ہے دنیا پر ختم کر دینا نہیں ہے، نہ دنیوی مفادات کو اصل رکھنا ہے۔ مگر دنیا ترک کرانا بھی نہیں بلکہ اسے اختیار کر کے اس میں سے آخرت نکالنا ہے۔ اس لیے دنیا کو کھیتی کہا ہے۔ پس اگر پھل ضروری ہے تو کھیتی کرنی بھی ضروری ہے ورنہ پھل نہیں مل سکتا۔ پس اسلام کے مزاج میں ترکِ دنیا نہیں بلکہ ترکِ محبتِ دنیا ہے اس لیے کہ یہ ساری دنیا انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے تو وہ معطل نہیں چھوڑی جا سکتی اور انسان آخرت کے لیے پیدا کیا گیا ہے تو اسے محض دنیا پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
خلاصۂ اصول
بہرحال کتاب و سنت کے یہ چند اساسی اصول جیسے اجتماعی، انفرادی، شخصی، جماعتی مرکزیت، امارت، سمع و طاعت، تفویض عہدہ جات کی نوعیت، عوام کا طرزِ تربیت، اخلاقی بلندی، عملی جوش، معاشرت کا ڈھنگ، دین کی وسعت، خلت و التباس سے اس کا بالاتر ہونا، بدعات و محدثات سے گریز، اتباع رسالت، اخوت، ہمدردی، بے لوث عدل و انصاف، خدمتِ خلق، دنیا کا آخرت سے ربط اور آخرت کی مقصودیت وہ امور ہیں جن سے منہاجِ نبوۃ کا ذوق اور اسلامی مزاج کھل کر سامنے آآتا ہے۔
یہ چند مثالیں ہیں جو سرسری طور پر ذہن میں آئیں ورنہ کتاب و سنت ان جیسے سینکڑوں اصول سے بھری ہوئی ہیں، ہمیں تشکیلِ نو میں ان سب کو بہرحال سامنے رکھنا ہے۔
(۴) تشکیلِ جدید میں سب سے زیادہ اہم قدم رجالِ کار کا انتخاب
لیکن ان اقدامات میں سب سے زیادہ اہم قدم ۔۔۔۔ رجال کار کا انتخاب ہے جو دین کے مبصر اور فقیہانہ شان رکھتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی دین کے اصول و فروع ان کے سامنے ہوں، اسلام کی حقیقی روح ان کی روح میں پیوست ہو۔ اور اسلام کی وہ حکمتِ عملی اگر رجال کار ناواقف یا غیر فقیہہ یا غیر مبصر اور اسلام کی حکمتِ عملی سے نابلد، روح اسلام سے بیگانہ ہوں تو فکرِ اسلامی کی تشکیل ممکن نہ ہو گی۔ اس لیے سب سے بڑا مسئلہ شخصیات کے انتخاب کا ہے۔ حق تعالیٰ نے جب اس مکمل دین کو دنیا میں بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو اولًا شخصیت ہی کا انتخاب فرمایا اور وہ ذات تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ دین محض تعلیم و تفکیر کے لیے نہیں بلکہ تربیت کے لیے آتا ہے اور تربیت محض تعلیم یا کتاب کے نوشتوں سے نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس سے ہم آہنگ شخصیتیں اسے قلوب تک پہنچانے والی اور اپنے عمل سے نمایاں کرنے والی نہ ہوں۔
اس لیے دنیا کا کوئی دور بھی ایسا نہیں گزرا کہ امتوں کی صلاح و فلاح کے لیے محض قانون اتارا گیا ہو اور پیغمبر کی شخصیت نہ بھیجی گئی ہو کیونکہ شخصیت ہی دین اور مسائلِ دین کو اس انداز اور اس حکمتِ عملی سے پیش کر سکتی ہے جو شارح حقیقی حق تعالیٰ شانہٗ نے اس کے لیے وضع کیا ہے۔ اس لیے وہی شخصیت مخاطب قوم کی نفسیات کی رعایت رکھتی ہے اور اس کے اجتماعی مزاج سے آگاہ ہوتی ہے جو ہدایت کے لیے منتخب کی جاتی ہے کیونکہ ہر دور میں اس رنگ کی شریعت آئی جو رنگ مخاطب قوم کا تھا اور اس نوع کے معجزات سے نبوت کو ثابت کیا گیا جو نوعیت اس دور کے ذہن و مزاج کی ہوئی۔
آج کل نبوت ختم ہو چکی ہے تو انبیاء کا کام اس امت کے مجددوں اور مفکر علماء عرفاء کے سپرد کیا گیا کہ وہ شریعت کو اسی رنگ سے ثابت کر کے دلوں میں جمائیں جو آج کے دور کی نفسیات کا رنگ ہو۔ اس حقیقت کو امام ابن سیرینؒ نے جو ایک جلیل القدر تابعی اور تعبیرِ خواب کے امام ہیں ان لفظوں میں ادا فرمایا ہے کہ
اِنَّ ھٰذَا الْعِلْمَ دِیْنُْ فَانْظُرُوْا عَمَّنْ تَاْخُذُوْنَ دِیْنَکُمْ (مشکوٰۃ)
’’یہ علم (اور آج کی اصطلاح میں یہ فکر) ہی تمہارا دین ہے تو دیکھ لو کہ کس (شخصیت) سے تم دین (یا فکر) اخذ کر رہے ہو۔‘‘
جس سے دین اور دین کے فکر کے بارے میں ہمیں پوری رہنمائی ملتی ہے کہ تربیت کا سب سے بڑا ماخذ شخصیت ہے، کاغذ اور نوشتے نہیں ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مربی اور معلم یا مصلحِ فکر اگر خود صحیح المنہاج ہو گا تو وہی قلوب کی صحیح رہنمائی کر سکے گا ورنہ وہ خو اگر اس منہاج کا فکر لیے ہوئے نہ ہو یا قلب میں کوئی زیغ اور کجی لیے ہوئے ہو تو کتاب و سنت سے بھی وہ اسی زیغ ہی کو سامنے لا کر دوسرے قلوب میں بھر دے گا۔
آخر مسلمانوں میں آج کتنے متضاد فرقے ہیں جو قرآن ہی کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں اور اسی کا نام لے کر اپنا اپنا فکر دنیا کے سامنے رکھتے ہیں درآنحالیکہ ان متضاد فرقوں میں کوئی ایک ہی حق و ثواب پر ہو سکتا ہے، سب کے سب اس تضاد فکری کے ساتھ محق نہیں کہلائے جا سکتے۔ ظاہر ہے کہ کتاب و سنت کے سامنے ہونے اور اسے امام کہنے کے باوجود اگر کوئی فرقہ مبطل ہو سکتا ہے تو یہ اس کی واضح دلیل ہے کہ اس راستے میں فکر صحیح اور مفکر کی ذات ہی اصل ہے۔ اور کسی فرقے کے مبطل ہونے کے یہ معنی نہ ہوں گے کہ اس کے ہاتھ میں کتاب و سنت اور دینی لٹریچر نہیں، بلکہ یہ ہوں گے کہ اس میں کوئی صحیح الفکر اور ذوقِ سلف پر تربیت یافتہ شخصیت نہیں بلکہ کوئی مبطل اور زیغ زدہ شخصیت آئی ہوئی ہے۔ پس اگر شخصیت صحیح ہو تو باطل نوشتوں سے بھی وہ حق ہی سامنے لے آئے گی، اور اگر وہی فاسد الفکر ہے تو قرآن و حدیث سے بھی وہ باطل ہی نمایاں کر کے قلوب کو فاسد کر دے گی ورنہ قرآن کو امام کہنے والا کوئی مبطل فرقہ مبطل نہیں ہوتا۔ اس لیے جب کہ ہم فکرِ اسلامی کی تشکیل کے لیے قدم اٹھا رہے ہیں تو سب سے مقدم صحیح الفکر شخصیات ہی کا انتخاب ہے جس سے منہاجِ نبوۃ کا صحیح اور متوارث ذوق ہمارے سامنے آجائے اور اس سیدھے سے منہاج پر ہمارا فکر استقامت کے ساتھ رواں دواں ہو۔
حرفِ آخر
بہرحال فکرِ اسلامی کی تشکیل تو قابلِ تبریک ہے جس کا سہرا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سر ہو گا لیکن اس میں:
- سب سے پہلا قدم نشانۂ فکر متعین کرنا ہے اور وہ منہاجِ نبوۃ ہے۔
- دوسرا قدم اس منہاج میں فکر دوڑانے کے لیے اس کے اصول و قواعد درکار ہوں گے جس میں قواعد کلیہ اور فروعات فقہیہ سب داخل ہیں۔
- تیسرا قدم اس مزاج کا پہچاننا ہے اور اسے سامنے رکھنا ہے جو ملت اسلامیہ کو بخشا گیا ہے اور اس پر اس کی صدیوں سے تربیت ہوتی آ رہی ہے۔
- چوتھا قدم رجال فکر کا انتخاب ہے کہ فکر کا ظہور صاحبِ فکر ہی سے ہو سکتا ہے نہ کہ محض کاغذ کے نوشتوں سے۔
- اور پانچواں قدم ان ظاہری اور باطنی خصوصیات کی رعایت ہے جو اس منہاج کا جوہر اور اس کی خصوصیات ہیں۔
مجھے اعتراف ہے کہ اجلاسِ جامعہ میں تو قلتِ وقت کی وجہ سے قرآنی اصول کی صرف اجمالی فہرست ہی پیش کر سکا تھا جو یقیناً تشنہ تفصیل تھی۔ اور اب مقالہ کی صورت میں اس کی کچھ توضیحات بھی اگر پیش کر رہا ہوں تو قلتِ فرصت کی وجہ سے وہ بھی کچھ تفصیلی اور مرتب شدہ نہیں ہیں بلکہ کثرتِ مشاغل کے سبب بھاگ دوڑ کے ساتھ جو بھی منتشر چیزیں سامنے آ رہی ہیں انہیں کو عجلت کے ساتھ جمع کر دیا گیا، جس میں نہ کسی خاص ترتیب ہی کی رعایت ہو سکتی ہے نہ نظامِ کلام کی۔ اس لیے اسے ’’جُھْدُ الْعَقْلِ زُمُوْعُہ‘‘ کے مصداق سمجھنا چاہیے جو ادائے فرض تو ہے مگر لوازمِ فرض سے آراستہ نہیں ہے۔ دعا ہے کہ حق تعالیٰ اس مہم کو انجامِ حسن تک پہنچائے اور ملت کے لیے ایک نافع قدم ثابت فرمائے، آمین۔
(ماخوذ: ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘ دیوبند، بھارت ۔ شمارہ جنوری فروری ۱۹۷۹ء)