البانیہ کا کل رقبہ ۲۹ ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی ۲۵ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ مسلمانوں کی تعداد تقریباً ۱۷ لاکھ ہے جو آبادی کا ۷۰ فیصد ہے۔ جبکہ یونانی آرتھوڈکس ۲۰ فیصد اور کیتھولک عیسائی ۱۰ فیصد ہیں۔ البانوی مسلمانوں کی اکثریت سنی ہے۔ مسلمانوں میں باہمی اتحاد و اتفاق کا زبردست فقدان ہے جس کے نتیجے میں البانیہ کی آزادی سے لے کر آج تک البانیہ پر زبردست آمریت مسلّط رہی ہے اور حکمرانوں نے مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھائے ہیں۔
البانیہ قدیم زمانے میں الیریا سلطنت کا حصہ تھا، بعد میں رومی اور بازنطینی حکومتوں نے اس پر اقتدار جمایا، آٹھویں صدی میں بلغاریہ نے اسے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا، جب ترکوں کی عثمانی سلطنت کے زیرنگیں آگیا۔ ترکوں نے اس علاقے میں ۴۳۴ سال حکومت کی، اس علاقے میں اسلام بکتاشی درویشوں کے ذریعے پھیلا۔ ۱۷۹۹ء کے معاہدہ کارلووٹز کے بعد سے ترکوں کا زوال شروع ہو گیا اور ان کی وسیع سلطنت میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی۔ ترکوں کا اقتدار ختم ہوا تو یہ ریاستیں مستحکم سیاسی ادارے قائم نہ کر سکیں۔ نتیجے کے طور پر پورے علاقے میں آمریت چھا گئی اور پورا مشرقی یورپ کمیونزم کے نرغے میں آ گیا۔
۲۸ نومبر ۱۹۱۲ء کو البانیہ کو آزادی ملی اور پہلے حکمران کے طور پر آسٹریا کے ایک شہزادے ولیم آف ویڈ کا تقرر عمل میں آیا مگر شہزادے کو جلد ہی اس ذمہ داری سے دستبردار ہونا پڑا کیونکہ اس کے خلاف بغاوت شروع ہو گئی۔ ۱۹۱۵ء میں البانیہ کی تقسیم کا ایک معاہدہ ہوا، اس معاہدے پر اٹلی اور یوگوسلاویہ میں اختلافات اس قدر بڑھ گئے کہ بات جنگ تک جا پہنچی مگر بڑی طاقتوں کی ثالثی کے نتیجے میں بیرونی فوجیں سے لوٹ گئیں۔
۱۹۲۰ء میں احمد بے زوغو وزیراعظم بنا مگر ۱۹۲۳ء کے انتخابات میں اس نے شکست کھائی اور اپنے خاندان کے ایک فرد شوکت بے کو حکومت سپرد کر دی مگر شوکت بے کے خلاف بھی بغاوت ہو گئی اور اسے بھی اقتدار چھوڑنا پڑا۔ زوغو فرار ہو کر یوگوسلاویہ چلا گیا اور ایک بشپ خان نولی وزیراعظم بنا۔ ادھر یوگوسلاویہ میں پناہ کے دوران زوغو اپنی حاجی فوج تیار کرتا رہا اور ۱۹۲۴ء میں اس نے البانیہ میں داخل ہو کر دارالحکومت تیرانہ پر قبضہ کر لیا، عام انتخابات کرانے اور البانیہ کو جمہوریہ قرار دے دیا۔ زوغو پہلا صدر بنا۔ اس نے کئی معاشی اصلاحات کیں اور اٹلی کے اشتراک سے قومی بینک کا قیام عمل میں آیا لیکن یکایک یکم ستمبر ۱۹۲۸ء کو اس نے آئین میں تبدیلیاں کر کے لامحدود اختیارات حاصل کر لیے اور اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ احمد زوغو نے لادینی خیالات کا پرچار شروع کر دیا اور مسلمان علماء پر ظلم کیے گئے جس کے نتیجے میں مشہور محدث علامہ ناصر الدین البانی سمیت کئی علماء البانیہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔
۱۹۳۹ء میں مسولینی نے البانیہ پر حملہ کر دیا۔ شاہ زوغو ملک سے فرار ہو گیا۔ ۱۹۴۲ء میں جرمنوں نے البانیہ کا انتظام سنبھال لیا۔ دو سال بعد جرمن فوجیں البانیہ سے واپس چلی گئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بادل چھٹے تو سرونسٹن چرچل کی ہدایت پر اقتدار کمیونسٹ ڈیموکریٹک فرنٹ کے حوالے کر دیا گیا جس کا سربراہ انور خوجہ تھا۔ یہ انور خوجہ البانیہ پر ۴۰ سال حکومت کرتا رہا، اس کے طویل دورِ حکومت میں اسلام کے نام لیواؤں پر جو ظلم و ستم توڑے گئے انہیں دیکھ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ اس آمرِ وقت کو اگر البانیہ کا ہٹلر قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
۱۹۴۵ء میں انور خوجہ نے یک جماعتی انتخابات کا ڈھونگ رچایا اور ۹۳ فیصد اکثریت سے کامیابی کا دعوٰی کر کے البانہ کو سوشلسٹ ری پبلک بنا دیا۔ خفیہ عدالتوں کے ذریعے سرسری سماعت کے بعد ہزاروں مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ سینکڑوں افراد گرفتار کر لیے گئے۔ اسمبلی میں اپنے ہی کئی ہم جماعتوں پر غداری کے الزامات لگائے گئے اور انہیں اذیت کیمپوں میں ڈال دیا گیا۔ روس کے ایما پر کمیونسٹ پارٹی کے بانی کوچی جوج پر غداری کے الزام میں مقدمہ چلا کر فائرنگ اسکواڈ نے گولی سے اڑا دیا۔ جیسے ہی انور خوجہ نے محسوس کیا کہ اشتراکیت کے قدم مضبوط ہو چکے ہیں، تمام مساجد اور دینی تعلیم کے اداروں کو بند کر دیا گیا، ائمہ مساجد اور اساتذہ کی تنخواہیں روک دی گئیں، مذہبی رہنماؤں کی کردار کشی کی گئی۔ ۱۹۶۷ء میں یہ سرگرمیاں زور پکڑ گئیں۔ مساجد اور مدرسے ڈھا دیے گئے یا انہیں لائبریریوں اور عجائب گھروں میں تبدیل کر دیا گیا۔ حکومت نے گھروں میں بھی مذہبی شعائر کی ادائیگی گوارا نہ کی اور ایسے خفیہ اسکواڈ بنائے جو مذہبی شعائر ادا کرنے والوں پر نظر رکھیں اور انہیں گرفتار کر لیں۔ ڈاڑھی رکھنا جرم قرار دیا گیا۔ ایئرپورٹ پر جو غیر ملکی سیاح ڈاڑھی میں نظر آتا وہیں پر موجود حجام اس کی ڈاڑھی مونڈ دیتے۔ سارے ملک میں مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر ان کی ڈاڑھیاں مونڈی جانے لگیں۔ قرآن اور دوسری اسلامی کتب کا پڑھنا جرم قرار دے دیا گیا۔ خواتین کو پردہ کرنے کی اجازت نہ تھی بلکہ بالجبر ان کے برقعے چھین کر انہیں مردوں کے روبرو رقص کرنے پر مجبور کیا گیا۔ مسلمانوں کو زبردستی سور کا گوشت کھلایا گیا۔ ان احکامات کی پابندی نہ کرنے والوں کو گولی سے اڑایا جانے لگا۔ مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ غیر مسلموں سے شادی کریں، جس کسی نے چوری چھپے مسنون طریقے سے مسلمان عورتوں سے شادی کی ان سے جبری طلاقیں دلوائی گئیں اور پھر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اسپتال میں پیدا ہونے والے بچوں کا نام حکومت خود تجویز کرتی تھی، اسلامی نام رکھنا ممنوع تھا، بچوں کو ختنہ کرانے کی سزا تین سال قید با مشقت تھی۔
۱۹۷۲ء کے نئے دستور میں دین کے ساتھ کسی بھی تعلق کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ مذہبی فرائض کی انجام دہی پر دس برس قید سے سزائے موت تک مقرر کی گئی۔ نمازوں کی امامت کرنے اور خطبہ دینے پر پابندی لگا دی گئی۔ رمضان کے روزے رکھنے اور عید منانے کی اجازت نہیں تھی۔ افراد کی نجی زندگی میں بھی مداخلت کی جاتی اور جاسوسی کا کام معصوم بچوں سے لیا جاتا۔ گھر میں آنے والے مہمانوں پر نگاہ رکھی جاتی۔ غیر ممالک سے آنے والوں کے لیے الگ ہوٹل قائم کیے گئے اور انہیں مقامی لوگوں سے ملنے جلنے کی اجازت نہیں۔ ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۱ء کو گارڈین میں ایک مغربی سیاسی مبصر گل براؤن نے اپنے مضمون میں انکشاف کیا کہ البانیہ کے لیبر کیمپوں میں کوئی چالیس ہزار شہری جبری محنت پر مامور ہیں، زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جنہیں مذہبی عقائد کی بنا پر پکڑا گیا ہے۔
البانیہ کے حکمران اسلام کو ریاست کے لیے بدترین خطرہ خیال کرتے ہیں۔ انور خوجہ کے حکم پر کمیونسٹ پارٹی کے چالیس مسلمان اراکین کا خاتمہ کر دیا گیا۔ حاملہ عورتیں اور بچوں تک کو نہ بخشا گیا۔ انور خوجہ نے اپنے پرانے ساتھی اور وزیراعظم محمد شیخو کو ۱۹۸۱ء میں اس کی بیوی اور دو بچوں سمیت قصرِ صدارت میں ہی گولیوں سے اڑا دیا اور ان کی لاشیں مذہبی رسوم ادا کیے بغیر دفنا دی گئیں۔ اس کے حکم پر ۲۱۶۹ مساجد منہدم کی گئیں اور زنا و شراب وغیرہ کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ۱۹۴۱ء سے پارٹی میں پانچ بار تطہیر کی گئی۔ البانیہ اندرونی طور پر افراتفری کا شکار رہا۔ ۱۹۶۶ء میں مسلح افواج کے تمام رینک ختم کر دیے گئے۔ کمیونسٹ پارٹی پر کسی قسم کی تنقید کی اجازت نہیں۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کی رو سے ورکرز پارٹی کا اول سیکرٹری مسلح افواج کا کمانڈر انچیف ہوتا ہے۔
البانیہ کی خارجہ پالیسی مستقل نہیں رہی بلکہ اس میں بے ربط تبدیلیاں آتی رہیں۔ انور خوجہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جب ملک میں ظلم و ستم کا بازار گرم ہوا اور عوام کے بنیادی حقوق چھینے جانے لگے تو مغربی اتحادیوں سے البانیہ کے تعلقات بری طرح متاثر ہوئے۔ پہلے البانیہ کے یوگوسلاویہ سے تعلقات بہت مضبوط قائم ہوئے مگر صدر ٹیٹو کی پالیسیوں پر اختلافات کے باعث ٹوٹ گئے۔ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۶۱ء تک روس کے ساتھ تعلقات رکھے مگر جب روس میں ترمیم پسندی کا رجحان پروان چڑھا تو البانیہ روس سے بھی لاتعلق ہو گیا۔ ۱۹۶۱ء سے ۱۹۸۷ء تک البانیہ چین کا اتحادی رہا مگر جب چین نے امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تو البانیہ کے انتہاپسند کمیونسٹوں نے اس کی دوستی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ البانیہ کی کمیونسٹ حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد کئی اسلامی ملکوں سے اپنے سفارتی تعلقات توڑ لیے۔ البانوی حکومت کے خیال میں روس اور چین میں سے کوئی صحیح مارکسی نہیں بلکہ وہ خود مارکسی نظریات کا صحیح علمبردار ہے۔ ۱۹۶۰ء میں روس نے بغاوت کے ذریعے انورخوجہ کو ہٹانے کی کوشش کی۔ البانیہ بین الاقوامی دہشت گردی کی اعانت میں بھی پیش پیش رہا۔ اس وقت وہ خود کو غیرجانبدار ملک قرار دیتا ہے۔ اپریل ۱۹۸۵ء میں انور خوجہ چالیس سال حکومت کرنے کے بعد انتقال کر گیا۔ اس کے انتقال کے وقت بھی البانیہ میں گیارہ اذیتی کیمپ قائم تھے۔
انورخوجہ کے بعد ایک تحقیقاتی ایجنسی کا سربراہ رمیض عالیہ صدر بنا۔ وہ بھی سابق صدر کی پالیسیوں پر گامزن ہے لیکن اس نے اتنی رعایت کی ہے کہ گھروں میں بیٹھ کر عبادت کرنے والوں کو ریاستی مداخلت سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے، مگر ریاستی معاملات میں مذہب کے لیے اب بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ حکمران جماعت کے دو نظریاتی بازوں ’’روج‘‘ اور ’’پارٹی‘‘ کے نظریات میں اس مسئلے پر اختلاف پیدا ہوا ہے۔ ’’پارٹی‘‘ نے سفارش کی ہے کہ اشتراکی نظریات میں لچک پیدا کی جانی چاہیے، اس کے بر خلاف ’’روج‘‘ کا خیال ہے کہ سخت اقدامات جاری رکھنے چاہئیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ رمیض عالیہ اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں نرمی کی پالیسی اختیار کریں گے۔
البانیہ میں اس تمام تر جبر کے باوجود مسلمانوں کا اسلام سے لگاؤ ختم نہیں کیا جا سکا ہے اور اس پر ترک ثقافت کے گہرے اثرات اب بھی باقی ہیں۔ لوگ کھلے پاجامے پہنتے ہیں، سفید ترکی ٹوپی استعمال کرتے ہیں، کچھ عورتیں ابھی تک ترکی لباس پہنتی ہیں۔ اپریل ۱۹۸۴ء میں سرکاری اخبار نے انکشاف کیا کہ مسلمان اپنے لڑکوں کے ختنے کراتے ہیں، مزاروں پر جاتے ہیں، وہ مذہبی پس منظر میں شادی کرتے ہیں۔ دوسرا اخبار لکھتا ہے کہ لوگ اب بھی مذہب پر قائم ہیں، حکومت اس کا قلع قمع کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی کانفرنس، مؤتمر عالم اسلامی اور دوسرے پلیٹ فارموں سے جب بھی مسلمان اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے اس میں البانیہ کے مسلمانوں کے حقوق کا مطالبہ بھی شامل ہو۔